اردو ویکیپیڈیا کے سب سے زیادہ ملاحظہ کردہ مضامین کی فہرست۔ مزید معلومات کے لیے ۔ ۔ ۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان جنوبی ايشياء کے شمال مغرب وسطی ایشیا اور مغربی ایشیا کے لیے دفاعی طور پر اہم حصے میں واقع ایک خود مختار اسلامی ملک ہے۔ 20 کروڑ کی آبادی کے ساتھ یہ دنیا کا پانچواں بڑی آبادی والا ملک ہے۔ 796095 مربع کلومیٹر (307,374 مربع میل) کے ساتھ یہ دنیا کا چھتیسواں بڑے رقبے والا ملک ہے۔ اس کے جنوب میں 1046 کلومیٹر (650 میل) کی ساحلی پٹی ہے جو بحیرہ عرب سے ملتی ہے۔پاکستان کے مشرق ميں بھارت، شمال مشرق ميں چین اور مغرب ميں افغانستان اور ايران واقع ہيں۔ پاکستان کو شمال میں ایک تنگ واخان راہداری تاجکستان سے جدا کرتی ہے جبکہ اس ملک کی سمندری سرحدی حدود عمان کے سمندری حدود سے بھی ملتی ہیں۔
وزیر اعظم پاکستان ایک سیاسی رہنما اورحکومت کا سربراہ ہوتا ہے،اور وہ کابینہ ،اور دیگر اہم حکومتی عہدیداروں کو منتخب کرنے کا پابند اورقومی اسمبلی کے عام انتخابات منعقد کرنے کے سلسلے کا فیصلہ کرتا ہے۔ 1947ء میں آزادی کے بعد ہندوستانی آزادی ایکٹ 1947ء کے تحت اس عہدے کو قیام پاکستان کے فوراً بعد تخلیق کیا گیا۔گورنر جنرل آف پاکستان نے 1947ء میں لیاقت علی خان کو پاکستان کا پہلا وزیر اعظم منتخب کیا جنہیں 1951ء میں قتل کر دیا گیا۔ چھ شخصیات 1951ء سے 1958ء تک وزیر اعظم کے عہدے پر فائز رہیں اور ان کے بعد صدر پاکستان اسکندر مرزا نے 1958ء میں اس عہدے کو ختم کر دیا۔ پھر یحییٰ خان نے 1971ء میں نور الامین کو اس عہدے پر نامزد کیا لیکن وہ صرف 13 دن ہی اس کرسی پر رہ پائے۔ 1973 کے نئے قانون کے مطابق اسے دوبارہ تخلیق کیا گیا اور ذوالفقار علی بھٹو اس مسند پر فائز ہوئے۔ انھیں ضیاء الحق نے اس حکومت سے باہر کیا اور 1977ء میں انہوں نے اسے عہدے کو ختم کرتے ہوئے خود چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے عہدے پر بیٹھے۔ پھر 1985ء میں انھوں نے محمد خان جونیجو کو وزیر اعظم منتخب کیا لیکن انہیں بھی انہوں نے آئین کی آٹھویں ترمیم کے تحت 1988ء میں ہٹا دیا۔نواز شریف(1990 تا 93 اور 1997 تا 99) اور بینظیر( 1988 تا 90 اور1993تا 96) دونوں 1988 سے 1999 کے درمیان میں غیر مسلسل طور پر دو دو دفعہ اس عہدے پر رہے۔ آئین پاکستان میں کی گئی 13 ویں اور14 ویں ترمیم کے باعث نواز شریف تاریخ میں پہلی دفعہ سب سے طاقتور پاکستانی وزیر اعظم بنے۔ پانچ سال اور چار ماہ اس عہدے پر رہ کر نواز شریف سب سے زیادہ عرصہ اس عہدے پر رہنے والے شخصیت ہیں۔ انہیں 1998ء میں پرویز مشرف کے فوجی بغاوت میں حکومت سے نکال دیا گیا۔نواز شریف کو 5 جون 2013ء کو تیسری دفعہ غیر مسلسل طور پر اس عہدے کے لیے چنا گیا اور پاکستانی تاریخ ایسا پہلی دفعہ ہی ہوا ہے۔مشرف کی بغاوت کی وجہ سے 2002 کے انتخابات کے بعد میر ظفر اللہ خان جمالی کے اس عہدے پر آنے تک یہ عہدہ خالی رہا۔پاکستان پیپلز پارٹی کے راجہ پرویز اشرف 25 جون 2012ء کو اس وقت وزیر اعظم بنے جب پاکستانی سپریم کورٹ نے جون 2012ء کو یوسف رضا گیلانی کو توہین عالت کے جرم میں عہدے سے نا اہل قرار دیا۔ پرویز اشرف کے بعد میر ہزار خان کھوسو نگران وزیر اعطم رہے۔
ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال (9 نومبر 1877ء تا 21 اپریل 1938ء) بیسویں صدی کے ایک معروف شاعر، مصنف، قانون دان، سیاستدان، مسلم صوفی اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھے۔ اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے اور یہی ان کی بنیادی وجہ شہرت ہے۔ شاعری میں بنیادی رجحان تصوف اور احیائے امت اسلام کی طرف تھا۔ "دا ریکنسٹرکشن آف ریلیجس تھاٹ ان اسلام" کے نام سے انگریزی میں ایک نثری کتاب بھی تحریر کی۔ علامہ اقبال کو دور جدید کا صوفی سمجھا جاتا ہے۔ بحیثیت سیاست دان ان کا سب سے نمایاں کارنامہ نظریۂ پاکستان کی تشکیل ہے، جو انہوں نے 1930ء میں الہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پیش کیا تھا۔ یہی نظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا۔ اسی وجہ سے علامہ اقبال کو پاکستان کا نظریاتی باپ سمجھا جاتا ہے۔ گو کہ انہوں نے اس نئے ملک کے قیام کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن انہیں پاکستان کے قومی شاعر کی حیثیت حاصل ہے۔
پاکستان کے عام انتخابات، 2018ء
پندرہویں قومی اسمبلی اور چار صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کا انتخاب کرنے کے لیے پاکستان کے عام انتخابات 25 جولائی، 2018ء کو منعقد ہوئے۔ زیادہ تر کا خیال تھا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) واضح برتری حاصل کرے گی جبکہ پاکستان تحریک انصاف دوسرے نمبر پر ہو گی۔ عدلیہ، فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی نگرانی میں ہونے والے انتخابات ہو جانے کے بعد انہیں مشکوک سمجھا جا رہا ہے اور الزام ہے کہ قبل از انتخابات دھاندلی کی گئی تاکہ انتخابات کے نتائج پاکستان تحریک انصاف کے حق میں اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی مخالفت میں آئیں۔غیر سرکاری و غیر حتمی نتائج کے مطابق عمران خان کی جماعت پی ٹی آئی کی واضح برتری دکھائی دی، جبکہ مخالف جماعتوں کا خیال ہے کہ بڑی سطح پر دھاندلی ہوئی۔ تاہم، الیکشن کمیشن پاکستان نے تمام سیاسی جماعتوں کے الزامات مسترد کر دیے۔
یوم آزادی پاکستان یا یوم استقلال ہر سال 14 اگست کو پاکستان میں آزادی کے دن کی نسبت سے منایا جاتا ہے۔ یہ وہ دن ہے جب پاکستان 1947ء میں انگلستان سے آزاد ہو کر معرض وجود میں آیا۔ 14 اگست کا دن پاکستان میں سرکاری سطح پر قومی تہوار کے طور پر بڑے دھوم دھام سے منایا جاتا ہے پاکستانی عوام اس روز اپنا قومی پرچم فضاء میں بلند کرتے ہوئے اپنے قومی محسنوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ ملک بھر کی اہم سرکاری عمارات پر چراغاں کیا جاتا ہے۔اسلام آباد جو پاکستان کا دارالحکومت ہے، اس کو خاص طور پر سجایا جاتا ہے، اس کے مناظر کسی جشن کا سماں پیدا کر رہے ہوتے ہیں۔ اور یہیں ایک قومی حیثیت کی حامل تقریب میں صدر پاکستان اور وزیرآعظم قومی پرچم بلند کرتے ہوئے اس بات کا عہد کرتے ہیں کہ ہم اس پرچم کی طرح اس وطن عزیز کو بھی عروج و ترقی کی بلندیوں تک پہنچائیں گے۔ ان تقاریب کے علاوہ نہ صرف صدارتی اور پارلیمانی عمارات پر قومی پرچم لہرایا جاتا ہے بلکہ پورے ملک میں سرکاری اور نیم سرکاری عمارات پر بھی سبز ہلالی پرچم پوری آب و تا ب سے بلندی کا نظارہ پیش کر رہا ہوتا ہے۔ یوم اسقلال کے روز ریڈیو، بعید نُما اور جالبین پہ براہ راست صدر اور وزیراعظم پاکستان کی تقاریر کو نشر کیا جاتا ہے اور اس عہد کی تجدید کی جاتی ہے کہ ہم سب نے مل کراس وطن عزیز کو ترقی، خوشحالی اور کامیابیوں کی بلند سطح پہ لیجانا ہے۔
ذیل میں اردو کے ان محاوروں کی فہرست بلحاظ حروف تہجی درج ہے جو کثیر الاستعمال ہیں۔ محاورے دوسرے الفاظ میں کسی بھی زبان میں سینہ بسینہ منتقل ہونے والے وہ جملے یا کہاوتیں ہوتی ہیں جو ضرب المثل بن جاتی ہیں اور انھیں گفتگو کے دوران خصوصی موقع پر استعمال کیا جاتا ہے۔ محاوروں کا برمحل استعمال گفتگو میں دلچسپی اور روح پیدا کر دیتا ہے، چونکہ محاورے کسی بھی صورت حال کو چند الفاظ میں بیان کر دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں اس لیے بسا اوقات طویل جملوں اور نصائح سے زیادہ موثر ثابت ہوتے ہیں۔ اردو زبان کے محاورے اس کا سب سے دلچسپ حصہ سمجھے جاتے ہیں۔
محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت مشہور عام تاریخ کے مطابق 12 ربیع الاول عام الفیل بمطابق 570ء یا 571ء کو ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تمام مذاہب کے پیشواؤں سے کامیاب ترین پیشوا تھے۔ آپ کی کنیت ابوالقاسم تھی۔ مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ کی طرف سے انسانیت کی جانب بھیجے جانے والے انبیا اکرام کے سلسلے کے آخری نبی ہیں جن کو اللہ نے اپنے دین کی درست شکل انسانوں کی جانب آخری بار پہنچانے کیلئے دنیا میں بھیجا۔ انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دنیا کی تمام مذہبی شخصیات میں سب سے کامیاب شخصیت تھے۔
قومی اسمبلی پاکستان کی پارلیمان کا ایوان زیریں ہے۔ جس کی صدارت اسپیکر کرتا ہے جو صدر اور ایوان بالا سینیٹ کے چیئرمین کی عدم موجودگی میں ملک کے صدر کی حیثیت سے ذمہ داریاں انجام دیتا ہے۔ عام انتخابات میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی جماعت کا سربراہ عموماً وزیر اعظم منتخب ہوتا ہے جو قائد ایوان بھی ہوتا ہے۔
سید احمد بن متقی خان (17 اکتوبر 1817ء – 27 مارچ 1898ء) المعروف سر سید انیسویں صدی کا ایک ہندوستانی مسلم نظریۂ عملیت کا حامل ، مصلح اور فلسفی تھا۔ سر سید احمد خان ایک نبیل گھرانے میں پیدا ہوا جس کے مغل دربار کے ساتھ مضبوط تعلقات تھے (اس کے باوجود انگریزوں کیطرف جھکاؤ سمجھ سے بالا ہے)۔ سر سید نے قرآن اور سائنس کی تعلیم دربار میں ہی حاصل کی، جس کے بعد یونیورسٹی آف ایڈنبرا نے انہیں قانون میں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری عطا کی۔1838ء میں اس نے ایسٹ انڈیا کمپنی میں ملازمت اختیار کی اور 1867ء وہ چھوٹے مقدمات کے لیے جج مقرر کیا گیا۔ 1876ء میں وہ ملازمت سے ریٹائر ہوا۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے دوران میں وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا وفادار رہا اور یورپیوں کی جانیں بچانے میں اس کے کردار کی سلطنت برطانیہ کیطرف سے ستائش کی گئی۔بغاوت ختم ہونے کے بعد اس نے اسباب بغاوت ہند پر ایک رسالہ لکھا جس میں رعایائے ہندوستان کو اور خاص کر مسلمانوں کو بغاوت کے الزام سے بری کیا۔ اس رسالہ کا فائدہ سلطنت برطانیہ کو ہوا جس نے اس کی بنیاد پر ایسٹ انڈیا کمپنی سے برصغیر کا تمام قبضہ لے لیا اور ہندوستان کے تمام معاملات براہ راست اپنے قبضہ میں لے لیے۔ مسلمانوں کے راسخ الاعتقاد طرز کو ان کے مستقبل کے لیے خطرہ سمجھتے ہوئے سرسید نے مغربی طرز کی سائنسی تعلیم کو فروغ دینے کے لیے جدید اسکولوں اور جرائد کا اجرا کیا اپنے کلامی مکتبِ فکر کی بنیاد ڈالی جو معتزلہ کے افکار کا چربہ تھا مگر اس کے کلامی نظریات مقبول نہ ہو سکے اس لیے صرف سائنسی علوم کی اشاعت تک محدود رہا۔
محمد علی جناح پیدائشی نام، محمد علی جناح بھائی، 25 دسمبر 1876ء – 11 ستمبر 1948ء) کے نامور وکیل، سیاست دان اور بانی پاکستان تھے۔ محمد علی جناح 1913ء سے لے کر پاکستان کی آزادی 14 اگست 1947ء تک آل انڈیا مسلم لیگ کے سربراہ رہے، پھر قیام پاکستان کے بعد اپنی وفات تک، وہ ملک کے پہلے گورنر جنرل رہے۔ سرکاری طور پر پاکستان میں آپ کو قائدِ اعظم یعنی سب سے عظیم رہبر اور بابائے قوم یعنی قوم کا باپ بھی کہا جاتا ہے۔ جناح کا یومِ پیدائش پاکستان میں قومی تعطیل کے طور پر منایا جاتا ہے۔کراچی کے پیدائشی اور لنکن ان سے بیرسٹری کی تربیت حاصل کرنے والے جناح، بیسویں صدی کے ابتدائی دو عشروں میں آل انڈیا کانگریس کے اہم رہنما کے طور پر ابھرے۔ اپنی سیاست کے ابتدائی ادوار میں انہوں نے ہندو مسلم اتحاد کے لیے کام کیا۔ 1916ء میں آل انڈیا مسلم لیگ اور آل انڈیا کانگریس کے مابین ہونے والے میثاق لکھنؤ کو مرتب کرنے میں بھی انہوں نے اہم کردار ادا کیا۔ جناح آل انڈیا ہوم رول لیگ کے اہم رہنماوں میں سے تھے، انہوں نے چودہ نکات بھی پیش کیے، جن کا مقصد ہندوستان کے مسلمانوں کے سیاسی حقوق کا تحفظ کرنا تھا۔ بہر کیف جناح 1920ء میں آل انڈیا کانگریس سے مستعفی ہو گئے، جس کی وجہ آل انڈیا کانگریس کے موہن داس گاندھی کی قیادت میں ستیاگرا کی مہم چلانے کا فیصلہ تھا۔1940ء تک جناح کو یہ یقین ہو چلا تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک علاحدہ وطن کی جدوجہد کرنی چاہیے۔ اسی سال، مسلم لیگ نے جناح کی قیادت میں قرارداد پاکستان منظور کی جس کا مقصد نئی مملکت کی قیام کا مطالبہ تھا۔دوسری جنگ عظیم کے دوران، آل انڈیا مسلم لیگ نے مضبوطی پکڑلی جبکہ ان ادوار میں کانگریس کے کئی رہنما قید کاٹ رہے تھے اور جنگ کے ختم ہونے کے مختصر عرصے میں ہی انتخابات کا انعقاد ہوا، جس میں جناح کی جماعت نے مسلمانوں کے لیے مختص نشستوں میں سے بڑی تعداد جیت لی۔ اس کے بعد آل انڈیا کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ متحدہ ہندوستان میں اختیارات کے توازن کے لیے کسی صیغے پر متفق نا ہو سکے نتیجتاً تمام جماعتیں اس امر پر متفق ہوگئیں کہ ہندوستان کے دو حصے کیے جائیں جن میں ایک مسلم اکثریتی علاقوں میں پاکستان جبکہ باقی ماندہ علاقوں میں بھارت کا قیام ہو۔پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کے طور پر جناح نے اپنی حکومتی پالیسیوں کے قیام کے لیے کام کیا نیز انہوں نے ان لاکھوں لوگوں کے بہبود اور آباد کاری کے لیے بھی کام کیا جو تقسیم ہند کے بعد پاکستان کی جانب ہجرت کر چلے تھے، انہوں نے ان مہاجر کیمپوں کی ذاتی طور پر دیکھ بھال کی۔ جناح 71 سال کے عمر میں انتقال کر گئے جبکہ ان کے نوزائیدہ ملک کو سلطنت برطانیہ سے آزاد ہوئے محض ایک سال کا عرصہ ہوا تھا۔ ان کی سوانح عمری لکھنے والے لکھاری،اسٹینلی وولپرٹ لکھتے ہیں کہ، وہ (یعنی جناح) پاکستان کے عظیم ترین رہنما رہیں گے۔
پاکستان کا وزیر اعظم حکومت پاکستان کا سربراہ ہوتا ہے۔ پاکستان کی قومی اسمبلی کے ارکان وزیر اعظم کو منتخب کرتے ہیں۔ وزیر اعظم کا یہ عہدہ پانچ سال کے لیے ہوتا ہے۔ وزیر اعظم اپنی معاونت کے لیے وزیروں کا انتخاب کرتا ہے۔ صدر پاکستان کے پاس وزیر اعظم اور اسمبلی کو برخاست کرنے کا قانونی حق حاصل ہے۔ ریاست کا سربراہ تو صدر ہوتا ہے مگر وزیر اعظم تمام انتظامی اور حکومتی امور کا سربراہ ہوتا ہے۔
میاں محمد نواز شریف (ولادت: 25 دسمبر، 1949ء، لاہور) پاکستان کے سابقہ وزیر اعظم اور پاکستان کی دوسری بڑی سیاسی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سابق سربراہ۔ نواز شریف تین بار 1990ء تا 1993ء، 1997ء تا 1999ء اور آخری بار ء2013 تا 2017ء وزیر اعظم پاکستان پر رہے۔ اس سے پہلے 1985 تا 1990 وزیر اعلیٰ پنجاب رہے۔
واحد کا مفہوم (انگریزی: Meaning of Singular) ایک شخص یا ایک چیز کو واحد کہا جاتا ہے۔ یا واحد وہ اسم ہوتا ہے جو ایک شخص یا چیز کو ظاہر کرے۔ مثلاﹰ کتاب، لڑکا، مسجد، استاد، فوج، بلی، شجر، میز، کرسی، وغیرہ۔ جبکہ جمع ایک سے زیادہ شخصوں یا چیزوں کو جمع کہتے ہیں۔ یا جمع وہ اسم ہوتا ہے جو ایک سے زیادہ اشخاص یا اسماء کو ظاہر کرے۔ مثلاً کُتب، لڑکے، مساجد، اساتذہ، افواج، بلیاں، اشجار، میزیں، کرسیاں وغیرہ
شاعری (Poetry) کا مادہ "شعر" ہے اس کے معانی کسی چیز کے جاننے پہچاننے اور واقفیت کے ہیں۔ لیکن اصطلاحاً شعر اس کلامِ موزوں کو کہتے ہیں جو قصداً کہا جائے۔ یہ کلام موزوں جذبات اور احساسات کے تابع ہوتا ہے۔ اور کسی واقعہ کی طرف جاننے کا اشارہ کرتا ہے۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ آپ نے کوئی حادثہ دیکھا ہو اور وہ آپ کے دل پر اثر کر گیا ہو اور آپ کے اندر سے خود بخود الفاظ کی صورت میں ادا ہو جائے اس اثر کے بیان کو شعر کہتے ہیں اور انہی شعروں کو شاعری کے نام سے جانا جاتا ہے۔
عبرانی قوم (عبرانی: עברים یا עבריים، تلفظ: عبریم یا عبرییم، جدید عبرانی: عوریم) ایک اصطلاح ہے جو تنک میں 32 آیات میں 34 بار آئی ہے۔ حالانکہ یہ اصطلاح کسی کے ساتھ مخصوص نہیں ہے، مگر اکثر اس اصطلاح سےسامی بولنے والے قوم بنی اسرائیل مراد لی گئی ہے۔ خاص طور ما قبل مملکت اسرائیل (متحدہ بادشاہت) میں جب وہ خانہ بدوش تھے۔ البتہ کچھ مقامات پر اس کے وسیع معنی بھی مراد لیے گیے ہیں جیسے فوقینی کوئی دوسرا قدیم گروہ جیسے کانسی دور کے زوال کے وقت کے شاشو۔ رومی سلطنت کے دور میں یونانی عبرانیوں کو عموما یہود کہا جاتا تھا۔ جیسا کہ سٹرونگ کا عبرانی لغت مراد لیتا ہے‘‘ یہود قوموں میں سے کوئی‘‘ اور اور بعض دفعہ وہ یہود مراد لیے جاتے ہیں جو یہودا میں رہتے تھے۔ مسیحیت کے اوائل میں یونانی اصطلاح Ἑβραῖος سے یہودی مسیحی مراد لیے جاتے تھے۔ اس کا مخالف لفظ غیر یہودی ہوتا تھا اور لفظ Ἰουδαία اس صوبہ کے لیے مستعمل تھا جہاں بیت المقدس آباد ہے۔
قادش (عبرانی: קָדֵשׁ معنی مقدس) یا قادش برنیع (عبرانی ؛קָדֵשׁ בַּרְנֵעַ معنی سرگردانی کا بیابان مقدس) عبرانی بائبل میں بارہا مذکور ایک بیابان جو جزیرہ نما سینا کے شمال مشرق اور بیر سبع کے جنوب میں قدیم سرزمین اسرائیل کے جنوبی کنارے پر واقع ہے۔ قادش برنیع شمال میں صحرائے سین میں واقع نیجب اور جنوب میں صحرائے فاران سینا کے مابین ایک خطہ ہے۔ یہ وہی بیابان ہے جہاں بنی اسرائیل چالیس سال تک مارے مارے پھرتے رہے۔ وہ قادش سے فاران کی طرف جاتے تھے اور پھر وہاں سے دریائے سرخ کی طرف پلٹ آتے تھے۔ مریم (کلثوم) موسی کہ ہمشیرہ کا انتقال اسی بیابان میں ہوا تھا اور ان کو اسی میں دفن کیا گیا تھا۔ اور یہی وہ مقام ہے جہاں موسی نے اپنا عصا مار کر بنی اسرائیل کے لئے چٹان سے پانی کے چشمے جاری کئے تھے۔ اور یہ وہی علاقہ ہے جہاں سے موسی نے ادوم کے بادشاہ کے پاس اپنے نمائندے بھیجے کہ وہ انہیں اپنی سلطنت کے علاقے کو پار کرنے کی اجازت دے لیکن اس نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔
علی بن ابی طالب (599ء –661ء) رجب کی تیرہ تاریخ کو شہر مکہ میں خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام ابوطالب اور والدہ کا نام فاطمہ بنت اسد ہے۔ آپ کی پیدائش خانہ کعبہ کے اندر 13 رجب بروز جمعہ 30 عام الفیل کو ہوئی۔ علی، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا زاد بھائی ہیں بچپن میں پیغمبر کے گھر آئے اور وہیں پرورش پائی۔ پیغمبر کی زیر نگرانی آپ کی تربیت ہوئی۔ حضرت علی پہلے بچے تھے جنہوں نے اسلام قبول کیا۔ آپ کی عمر اس وقت تقریباً دس یا گیارہ سال تھی۔
مولانا فضل الرحمٰن پاکستان کے مذہبی سیاسی جماعت جمعیت علماء اسلام (ف) گروپ کے مرکزی امیر اور اسی جماعت کے سابق سربراہ اور صوبہ خیبر پختونخوا کے سابق وزیر اعلیٰ مولانا مفتی محمود کے صاحبزادے ہیں۔ آج کل پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے اتحادی ہیں جبکہ اسی حکومت میں بطور رکن قومی اسمبلی کشمیر کمیٹی کے چیئرمین بھی ہیں۔ اہل سنت کے مدرسہ دیوبند کے پیروکار ہونے کے باعث وہ دیوبندی حنفی کہلاتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان کے پاکستان میں لاکھوں عقیدت مند ہیں جو انکو دیوانہ وار چاہتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان کی جما عت جمعیت علما اسلام (ف) پاکستان کے صوبوں خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بہت اثر ورسوخ رکھتی ہے۔ بلوچستان میں ہمیشہ انکی جماعت کے بغیر کوئی پارٹی حکومت نہیں بنا سکی ہے۔ اور خیبر پختونخوامیں بھی اس وقت اپوزیشن لیڈر جمعیت علما اسلام (ف) کے جناب مولانا لطف الرحمن ہیں جو مولانا فضل الرحمن کے چھوٹے بھائی ہیں جبکہ سینٹ میں ڈپٹی چیئرمین مولانا عبد الغفور حیدری بھی جمعیت علمائے اسلام ہی کے ہیں جو جماعت کے مرکزی جنرل سیکرٹری بھی ہیں مولانا فضل الرحمٰن اسلام کے سخت پابند اور حمایتی ہیں۔ انہوں نے مشہور تحریک ایم آر ڈی میں قائدانہ کردار ادا کیا جو جنرل ضیاءالحق کے خلاف تھی جن میں ان کے ساتھ پیپلزپارٹی شریک تھی جس کی پاداش وہ 2 سال تک جیل میں بھی رہے ان کا کردار حکومت کی بائیں بازو کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی میں 1992ء میں بڑھ گیا اور جموں و کشمیر اور افغانستان کے متعلق علاقائی پالیسی میں اپنا کردار موؑثر طور پر ادا کیا۔ وہ 1988ء میں قومی سطح کی سیاست میں آئے اور پہلی بار قومی اسمبلی کے ارکان بنے۔ مولانا فضل الرحمٰن 19 جون، 1953ء کو ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے عبد الخیل میں پیدا ہوئے۔ مولانا صاحب نے اپنی ابتدائی تعلیم ایک مقامی دینی مدرسے میں حاصل کی۔ اس کے بعد انہوں نے جامعہ پشاور سے 1983ء میں اسلامک اسٹڈیز میں بی۔ اے کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔ اس کے بعد وہ مصر کے جامعہ الاظہرمیں تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے گئے اور وہاں سے ایم۔ اے کا امتحان پاس کیا۔ وہاں انہوں نے مذہبی علم ذات میں تعلیم حاصل کی اور اسی صنف میں تحقیق کی۔ 1987ء میں انہوں نے اسلام کے سیاسی منظر کے موضوع پر اپنا تحقیقی مقالہ شائع کیا اور مطالعہ مذاہب میں الاظہر یونیورسٹی سی ایم۔ اے کی سند حاصل کی۔ پاکستان واپسی پر انہوں نے 1988ء کے عام انتخابات میں حصہ لیا۔ انہوں نے 1988ء کے انتخابات جمعیت علما اسلام (ف) کے پلیٹ فارم سے لڑے تھے جو ایک اسلامی بنیاد رکھنے والی پارٹی ہے۔ بےنظیر بھٹو کے دور میں مولانا فضل الرحمن خارجہ کمیٹی کی سربراہ رہے۔ 2013ء کے انتخابات میں بھی اپنے حلقہ سے کامیابی ہوئ نواز شریف کے درخواست پر وفاقی حکومت میں شریک جبکہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں حزب اختلاف میں ہیں۔ مولانا فضل الرحمان کے سعودی عرب کے ساتھ بھتر تعلقات ہیں یھی وجہ ہے کہ امام الحرمین جب بھی پاکستان تشریف لاتے ہیں تو ان کی مھمان نوازی ضرور قبول کرتے ہیں بین الاقوامی سطح پر مولانا فضل الرحمان کی رائے کو ایک مقام حاصل ہے اس کا اندازہ آپ اس سے لگاسکتے ہیں کہ اقوام متحدہ میں ان کی رائے کو رجسٹرڈ کیا جاتا ہے . بیرون ممالک میں مولانا فضل الرحمان کے چاہنے والے کثیر تعداد میں ہیں.
پاکستان تحریک انصاف پاکستان کی ایک سیاسی جماعت ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ مشہور سابق کرکٹ کھلاڑی عمران خان ہیں۔ "انصاف، انسانیت اور خود داری"جماعت کا نعرہ ہے۔ عمران خان اس سیاسی جماعت کے چئیرمین ہیں اور اس کے علاوہ وہ براڈفورڈ یونیورسٹی کے چانسلر بھی ہیں۔ عمران خان نے پولیٹیکل سائنس، اکنامکس اور فلسفہ میں ماسٹرز کی ڈگریاں حاصل کی ہوئی ہیں۔ حال ہی میں عمران خان کی طرف پاکستان کے موجودہ نظام کی خرابیوں کو دور کرنے کے لیے ایک حل پیش کیا گیا ہے۔ اس کے مندرجہ ذیل تین نکات ہیں:
یہودیت میں شادی کو مرد و عورت کے درمیان کا ایک ایسا بندھن تصور کیا جاتا ہے جس میں خدا بذات خود شامل ہے۔ گوکہ ان کے یہاں شادی کا واحد مقصد افزائش نسل نہیں ہے لیکن اس عمل کو افزائش نسل کے ربانی حکم کے پورا کرنے کا ذریعہ بتایا گیا ہے۔ اسی مقصد کے پیش نظر جب مرد و عورت شادی کے رشتے میں منسلک ہوتے ہیں تو انہیں یک جان دو قالب سمجھا جاتا ہے۔ اگر کوئی یہودی مرد شادی نہ کرے تو تلمود کی نگاہ میں وہ ایک ”نامکمل“ مرد ہے۔ عصر حاضر میں بعض یہودی فرقے ہم جنسی کی شادی کو درست سمجھتے اور افزائش نسل کے مقصد کو کمتر خیال کرتے ہیں۔یہودیت کے ازدواجی نظام پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے یہاں عورت کا مقام نہایت پست ہے اور اس کی وجہ یہ نظریہ ہے کہ حوا نے آدم کو ممنوعہ پھل کھانے پر اکسایا اور اسی وجہ سے وہ جنت سے نکالے گئے۔ اور اسی بنا پر عورت کو مرد کی غلامی، حیض جیسی ناپاکی اور حمل کے درد کی سزا ملی۔ بائبل میں ہے:
قرآن یا قرآن مجید (عربی میں القرآن الكريم) اسلام کی بنیادی کتاب ہے۔ اسلامی عقیدے کے مطابق قرآن عربی زبان میں تقریباً 23 برس کے عرصے میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر نازل ہوا۔ قرآن کے نازل ہونے کے عمل کو وحی کہا جاتا ہے۔ اور یہ کتاب مشہور فرشتے حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذریعے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر نازل ہوئی۔ مسلمانوں کا بنیادی عقیدہ ہے کہ قرآن میں آج تک کوئی کمی بیشی نہیں ہو سکی اور اسے دنیا کی واحد محفوظ کتاب ہونے کی حیثیت حاصل ہے، جس کا حقیقی مفہوم تبدیل نہیں ہو سکا اور تمام دنیا میں کروڑوں کی تعداد میں چھپنے کے باوجود اس کا متن ایک جیسا ہے۔ اس کی ترتیب نزولی نہیں بلکہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بتائی ہوئی ترتیب کے مطابق پہلے خلیفہ اسلام ابوبکر صدیق کے دورِ خلافت میں اسے یکجا کیا گیا۔ اس کام کی قیادت زید بن ثابت انصاری نے کی۔ قرآن کا سب سے پہلا ترجمہ سلمان فارسی نے کیا۔ یہ سورۃ الفاتحہ کا فارسی میں ترجمہ تھا۔ قرآن کو دنیا کی ایسی واحد کتاب کی بھی حیثیت حاصل ہے جو لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کو زبانی یاد ہے۔ اور یہ دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے، جسے مسلمان روز ہر نماز میں بھی پڑھتے ہیں۔ اور انفرادی طور پر تلاوت کرتے ہیں۔ قرآن کی تشریحات کو اسلامی اصطلاح میں تفسیر کہا جاتا ہے، جو مختلف زبانوں میں کی جاتی رہی ہیں۔ قرآنی تراجم دنیا بھر کی اہم زبانوں میں ہو چکے ہیں۔ جبکہ صرف اردو زبان میں تراجم قرآن کی تعداد تین سو سے زائد ہے۔ مسلمان ہر سال رمضان میں تراویح کے دوران کم از کم ایک بار پورا قرآن با جماعت سنتے ہیں۔ قرآن نے اسلامی دنیا میں مسلمانوں کی عام زندگی، عقائد و نظریات، فلسفہ اسلامی، اسلامی - سیاسیات، معاشیات، اخلافیات، علوم و فنون کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔
مذکر: نر اسم ہوتا ہے جیسےمرد، باپ، بیل، بیٹا جبکہ مونث: مادہ اسم ہوتا ہے جیسے عورت، ماں، گائے، بیٹی بے جان اسماء میں نر اور مادہ کا کوئی فرق نہیں ہوتا اس لیے ان کی تذکیر و تانیث کا تمام تر درارومدار اہل زبان پر ہوتا ہے جیسے قلم کو اہل زبان مذکر بولتے ہیں اور گیند کو مونث اسی لیے ایسے اسماء کی تذکیر و تانیث کو غیر حقیقی تذکیر و تانیث کہا جاتا ہے۔ جبکہ حقیقی تذکیر و تانیث وہ ہوتی ہے جس میں نر کے مقابلے میں مادہ اور مادہ کے مقابلے میں نر ہو جانداروں میں کیونکہ قدرتی طور پر نر اور مادہ کا فرق موجود ہوتا ہے اس لیے اس لیے ان کی تذکیرو تانیث حقیقی ہوتی ہے جیسے مرد، عورت۔ بیل، گائے وغیرہ
نعمان ابن ثابت بن زوطا بن مرزبان (پیدائش: 5 ستمبر 699ء– وفات: 14 جون 767ء) (فارسی: ابوحنیفه،عربی: نعمان بن ثابت بن زوطا بن مرزبان)، عام طور پر آپکو امام ابو حنیفہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ آپ سنی حنفی فقہ (اسلامی فقہ) کے بانی تھے۔ آپ ایک تابعی، مسلمان عالم دین، مجتہد، فقیہ اور اسلامی قانون کے اولین تدوین کرنے والوں میں شامل تھے۔ آپ کے ماننے والوں کو حنفی کہا جاتا ہے۔ زیدی شیعہ مسلمانوں کی طرف سے بھی آ پ کو ایک معروف اسلامی عالم دین اور شخصیت تصور کیا جا تا ہے۔ انہیں عام طور پر "امام اعظم" کہا جاتا ہے۔
عمر بن خطاب (عربی: ابو حفص عمر بن الخطاب العدوي القریشي) ملقب بہ فاروق (پیدائش: 586ء تا 590ء کے درمیان مکہ میں- وفات: 7 نومبر، 644ء مدینہ میں) ابو بکر صدیق کے بعد مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ راشد، محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خسر اور تاریخ اسلام کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک ہیں۔ عمر بن خطاب عشرہ مبشرہ میں سے ہیں، ان کا شمار علما و زاہدین صحابہ میں ہوتا تھا۔ ابو بکر صدیق کی وفات کے بعد 23 اگست سنہ 634ء مطابق 22 جمادی الثانی سنہ 13ھ کو مسند خلافت سنبھالی۔ عمر بن خطاب ایک باعظمت، انصاف پسند اور عادل حکمران مشہور ہیں، ان کی عدالت میں مسلم و غیر مسلم دونوں کو یکساں انصاف ملا کرتا تھا، عمر بن خطاب کا یہ عدل و انصاف انتہائی مشہور ہوا اور ان کے لقب فاروق کی دیگر وجوہ تسمیہ میں ایک وجہ یہ بھی بنی۔
جنرل (ر) پرویز مشرف (پیدائش: 11 اگست 1943ء، دہلی) پاکستان کے دسویں صدر تھے۔ مشرف نے 12 اکتوبر 1999ء کو بطور رئیس عسکریہ ملک میں فوجی قانون نافذ کرنے کے بعد وزیر اعظم نواز شریف کو جبراً معزول کر دیا اور پھر 20 جون 2001ء کو ایک صدارتی استصوابِ رائے کے ذریعے صدر کا عہدہ اختیار کیا۔ جس سے قبل آپ ملک کے چیف ایگزیکٹو (chief executive) کہلاتے تھے۔ مشرف نے 18 اگست 2008ء کو قوم سے اپنے خطاب کے دوران میں اپنے استعفا کا اعلان کیا۔ انہوں نے متواتر آئین کی کئی خلاف ورزیاں کیں اور علی الاعلان اس کو مانا۔
مولانا احمد رضا خان، جو اعلیٰ حضرت، امام اہلسنت، حسان الہند جیسے القابات سے بھی جانے جاتے ہیں۔ احمد رضا خان 1272ھ -1856ء میں پیدا ہوئے۔ امام احمد رضا خان شمالی بھارت کے شہر بریلی کے ایک مشہور عالمِ دین تھے جن کا تعلق فقہ حنفی سے تھا۔ امام احمد رضا خان کی وجہ شہرت میں اہم آپ کی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے محبت، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں لکھے نعتیہ مجموعے اور آپ کے ہزا رہا فتاوی کا ضخیم علمی مجموعہ جو 30 جلدوں پر مشتمل فتاوی رضویہ کے نام سے موسوم ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں اہلسنت کی ایک بڑی تعداد آپ ہی کی نسبت سے بریلوی کہلاتے ہیں۔دینی علوم کی تکمیل گھر پر اپنے والد مولوی نقی علی خان سے کی۔ دو مرتبہ حج بیت اللہ سے مشرف ہوئے۔ درس و تدریس کے علاوہ مختلف علوم و فنون پر کئی کتابیں اور رسائل تصنیف و تالیف کیے۔ قرآن کا اردو ترجمہ بھی کیا جو کنز الایمان کے نام سے مشہور ہے۔ علوم ریاضی و جفر میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ شعر و شاعری سے بھی لگاؤ تھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں بہت سی نعتیں اور سلام لکھے ہیں۔ انہوں نے عربی، فارسی اور اردو میں ایک ہزار کے قریب کتابیں تصنیف کیں۔ بعض جگہ ان کتابوں کی تعداد چودہ سو ہے۔ ۔
نجم الدولہ، دبیر الملک، مرزا نوشہ اسد اللہ خان غالب بہادر نظام جنگ (1797ء- 1869ء) اردو زبان کے سب سے بڑے شاعروں میں ایک سمجھے جاتے ہیں۔ یہ تسلیم شدہ بات ہے کہ 19 ویں صدی غالب کی صدی ہے۔ جبکہ 18 ویں میر تقی میر کی تھی اور 20 ویں علامہ اقبال کی۔ غالب کی عظمت کا راز صرف ان کی شاعری کے حسن اور بیان کی خوبی ہی میں نہیں ہے۔ ان کاا صل کمال یہ ہے کہ وہ ز ندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کو گہرائی میں جاکر سمجھتے تھے اور بڑی سادگی سے عام لوگوں کے لیے بیان کردیتے تھے۔ غالب جس پر آشوب دور میں پیدا ہوئے اس میں انہوں نے مسلمانوں کی ایک عظیم سلطنت کو برباد ہوتے ہوئے اور باہر سے آئی ہوئی انگریز قوم کو ملک کے اقتدار پر چھاتے ہوئے دیکھا۔ غالباً یہی وہ پس منظر ہے جس نے ان کی نظر میں گہرائی اور فکر میں وسعت پیدا کی۔مرزا غالب کا نام اسد اللہ بیگ خاں تھا۔ باپ کا نام عبد اللہ بیگ تھا۔ آپ دسمبر 1797ء میں آگرہ میں پیدا ہوئے۔ غالب بچپن ہی میں یتیم ہو گئے تھے ان کی پرورش ان کے چچا مرزا نصر اللہ بیگ نے کی لیکن آٹھ سال کی عمر میں ان کے چچا بھی فوت ہو گئے۔ نواب احمد بخش خاں نے مرزا کے خاندان کا انگریزوں سے وظیفہ مقرر کرا دیا۔ 1810ء میں تیرہ سال کی عمر میں ان کی شادی نواب احمد بخش کے چھوٹے بھائی مرزا الہی بخش خاں معروف کی بیٹی امراءبیگم سے ہو گئی شادی کے بعد انہوں نے اپنے آبائی وطن کو خیر باد کہہ کر دہلی میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔
اردو زبان میں چھتیس حروفِ تہجی اور سینتالیس آوازیں ہیں جن میں سے بیشتر عربی سے لیے گئے ہیں اور دیگر انہی کی مختلف شکلیں ہیں۔ کچھ حروف کئی طریقوں سے استعمال ہوتے ہیں اور کچھ مخلوط حروف بھی استعمال ہوتے ہیں جو دو حروف سے مل کر بنتے ہیں۔ بعض لوگ 'ء' کو الگ حرف نہیں مانتے مگر پرانی اردو کتب اور لغات میں اسے الگ حرف کے طور پر لکھا جاتا ہے۔ مختلف الفاظ میں یہ الگ حرف کے طور پر ہی استعمال ہوتا ہے مثلاً 'دائرہ'۔ یہ بات مدِنظر رکھنا ضروری ہے کہ اردو تختی اور اردو حروف دو مختلف چیزیں ہیں کیونکہ اردو تختی میں اردو حروفِ تہجی کی کئی اشکال ہو سکتی ہیں جن کو الگ حرف کا درجہ نہیں دیا جا سکتا بلکہ وہ ایک ہی حرف کی مختلف شکلیں ہیں۔ مثلاً نون غنہ نون کی شکل ہے اور 'ھ' اور 'ہ' ایک ہی حرف کی مختلف اشکال ہیں۔ ایک اور مثال الف ممدودہ (آ) اور الف مقصورہ (ا) کی ہے جو اردو تختی میں الگ ہیں مگر اردو کا ایک ہی حرف شمار ہوتے ہیں۔
پریم چند اردو کا مشہور ناول نگار اور افسانہ نگار ہیں۔ ان کا اصلی نام دھنپت رائے ہے، لیکن ادبی دنیا میں پریم چند کے نام سے مشہور ہیں۔ وہ 1885ء میں منشی عجائب لال کے ہاں موضع پانڈے پور ضلع بنارس میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ایک ڈاک خانے میں کلرک تھے۔ پریم چند ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ نے تقریباً سات آٹھ برس فارسی پڑھنے کے بعد انگریزی تعلیم شروع کی۔ پندرہ سال کی عمر میں شادی ہو گئی۔ ایک سال بعد والد کا انتقال ہو گیا۔ اس وقت آٹھویں جماعت میں پڑھتے تھے۔ پورے گھر بار کا بوجھ آپ پ رہی پڑ گیا۔ فکر معاش نے زیادہ پریشان کیا تو لڑکوں کو بطور ٹیوٹر پڑھانے لگے اور میٹرک پاس کرنے کے بعد محکمہ تعلیم میں ملازم ہو گئے۔ اسی دوران میں بی۔ اے کی ڈگری حاصل کی۔
میرسل (برق رفتار) ایک 2017ء کی بھارتی تمل زبان فلم ہے۔ جسکے ہدایت کار اور مصنف اٹلی ہیں۔ اس فلم کے ستارے وجے، سامنتھا اکنینی، کاجل اگروال، نتیا مینن اور ایس جے سوریا ہیں۔ اس فلم کی موسیقی اے آر رحمان نے سنبھالی۔ یہ فلم دانندال سٹوڈیو لیمیٹڈ کی پروڈیوس کی گئی 100ویں فلم ہے، جو 8 اکتوبر 2017ء کو جاری کی گئی۔ اس فلم کے تیلگو ورژن کا نام ادی رندی ہے، جو 9 نومبر 2017ء کو جاری کیا گیا۔ اس فلم میں وجے پہلی بار تین کرداروں میں نظر آئے۔ یہ فلم 251₹ کروڑ کماتے ہوئے وجے کے کیریئر کی سب سے زیادہ کمائی کرنے والی فلم بنی جبکہ یہ پانچویں سب سے زیادہ پیسے کمانے والی تمل فلم ہے۔
اسرائیل (عبرانی: יִשְׂרָאֵל) مغربی ایشیا کا ایک ملک ہے جو بحیرہ روم کے جنوب مشرقی ساحل پر واقع ہے۔ اس کے شمال میں لبنان، شمال مشرق میں شام، مشرق میں اردن، مشرق اور جنوب مشرق میں فلسطین اور جنوب میں مصر، خلیج عقبہ اور بحیرہ احمر واقع ہیں۔ اسرائیل خود کو یہودی جمہوریہ کہلاتا ہے اور دنیا میں واحد یہود اکثریتی ملک ہے۔
اسلام ایک توحیدی مذہب ہے جو اللہ کی طرف سے آخری رسول و نبی، محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ذریعے انسانوں تک پہنچائی گئی آخری الہامی کتاب (قرآن مجيد) کی تعلیمات پر قائم ہے۔ یعنی دنیاوی اعتبار سے بھی اور دینی اعتبار سے بھی اسلام (اور مسلم نظریے کے مطابق گذشتہ ادیان کی اصلاح) کا آغاز، 610ء تا 632ء تک 23 سال پر محیط عرصے میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اللہ کی طرف سے اترنے والے الہام (قرآن) سے ہوتا ہے۔ قرآن عربی زبان میں نازل ہوا (برائے وجہ : اللسان القرآن) اور اسی زبان میں دنیا کی کل آبادی کا کوئی 24% حصہ یعنی لگ بھگ 1.6 تا 1.8 ارب افراد اس کو پڑھتے ہیں ؛ ان میں (مختلف ذرائع کے مطابق) قریباً 20 تا 30 کروڑ ہی وہ ہیں جن کی مادری زبان عربی ہے جبکہ 70 تا 80 کروڑ، غیر عرب یا عجمی ہیں جن کی مادری زبان عربی کے سوا کوئی اور ہوتی ہے۔ متعدد شخصی ماخذ سے اپنی موجودہ شکل میں آنے والی دیگر الہامی کتابوں کے برعکس، بوسیلۂ وحی، فردِ واحد (محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے منہ سے ادا ہوکر لکھی جانے والی کتاب اور اس کتاب پر عمل پیرا ہونے کی راہنمائی فراہم کرنے والی شریعت ہی دو ایسے وسائل ہیں جن کو اسلام کی معلومات کا منبع قرار دیا جاتا ہے۔
لیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیر اعظم تھے۔ آپ ہندوستان کے علاقے کرنال میں پیدا ہوئے اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری لی اور 1922ء میں انگلینڈ بار میں شمولیت اختیار کی۔ 1923ء میں ہندوستان واپس آئے اور مسلم لیگ میں شامل ہوئے۔ 1936ء میں آپ مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل بنے۔ آپ قائد اعظم محمد علی جناح کے دست راست تھے۔
اللہ کے ذاتی نام 'اللہ' کے علاوہ اللہ کے ننانوے صفاتی نام مشہور ہیں۔ انہیں کہا جاتا ہے۔ ان میں سے بیشتر قرآن میں موجود ہیں اگرچہ قرآن میں ننانوے کی تعداد مذکور نہیں مگر یہ ارشاد ہے کہ اللہ کو اچھے اچھے ناموں سے پکارا جائے۔ روایات میں بکثرت نیچے دیے گئے ننانوے صفاتی نام ملتے ہیں جن کے ساتھ ان کا اردو ترجمہ بھی درج کیا جا رہا ہے۔
مغلیہ سلطنت 1526ء سے 1857ء تک برصغیر پر حکومت کرنے والی ایک مسلم سلطنت تھی جس کی بنیاد ظہیر الدین بابر نے 1526ء میں پہلی جنگ پانی پت میں دہلی سلطنت کے آخری سلطان ابراہیم لودھی کو شکست دے کر رکھی تھی۔ مغلیہ سلطنت اپنے عروج میں تقریباً پورے برصغیر پر حکومت کرتی تھی، یعنی موجودہ دور کے افغانستان، پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے ممالک پر مشتمل خطے پر انکا دور دورہ تھا۔-
ابو بکر صدیق عبد اللہ بن ابو قحافہ تیمی قریشی (50 ق ھ – 13 ھ / 573ء – 634ء) پہلے خلیفہ راشد، عشرہ مبشرہ میں شامل، پیغمبر اسلام کے وزیر، صحابی و خسر اور ہجرت مدینہ کے وقت رفیق سفر تھے۔ اہل سنت و الجماعت کے یہاں ابو بکر صدیق انبیا اور رسولوں کے بعد انسانوں میں سب سے بہتر، صحابہ میں ایمان و زہد کے لحاظ سے سب سے برتر اور ام المومنین عائشہ بنت ابی بکر کے بعد پیغمبر اسلام کے محبوب تر تھے۔ عموماً ان کی کنیت "ابو بکر" کے ساتھ صدیق کا لقب لگایا جاتا جسے ابو بکر صدیق کی تصدیق و تائید کی بنا پر پیغمبر اسلام نے دیا تھا۔
پنجاب پاکستان کا ایک صوبہ ہے جو آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ پنجاب میں رہنے والے لوگ پنجابی کہلاتے ہیں۔ پنجاب جنوب کی طرف سندھ، مغرب کی طرف سرحد اور بلوچستان،شمال کی طرف کشمیر اور اسلام آباد اور مشرق کی طرف ہندوستانی پنجاب اور راجستھان سے ملتا ہے۔ پنجاب میں بولی جانے والی زبان بھی پنجابی کہلاتی ہے۔ پنجابی کے علاوہ وہاں اردو، سرائیکی اور رانگڑی بھی بولی جاتی ہے۔ پنجاب کا دار الحکومت لاہور ہے۔
خیبر پختونخوا یا مختصر طور پر پختونخوا، پاکستان کا ایک صوبہ ہے جو پاکستان کے شمالی مغربی حصّے میں واقع ہے۔ رقبے کے لحاظ پاکستان کے چار صوبوں میں سب سے چھوٹا جبکہ آبادی کے لحاظ سے تیسرا بڑا صوبہ ہے۔ اس کا شمالی حصّہ سرسبز و شاداب علاقوں پہ مشتمل ہے جہاں لوگ مختلف علاقوں سے سیر و تفریح کے لیے آتے ہیں۔ اور جنوبی حصّہ شہروں پر مشتمل ہے جہاں پاکستان کے بہت سے اہم ادارے اور صنعتیں موجود ہیں۔ صوبائی زبان پشتو اور صوبائی دار الحکومت پشاور ہے۔
مسلمان ہر سال اسلامی مہینے ذوالحجہ کی 8 سے 12 تاریخ کو سعودی عرب کے شہر مکہ مکرمہ کی زیارت کے لیے حاضر ہو کر وہاں جو مخصوص عبادت انجام دیتے ہیں، اس مجموعہ عبادات کو اسلامی اصطلاح میں حج اور ان انجام دی جانے والی عبادات کو مناسک حج کہتے ہیں۔ دین اسلام میں حج ہر صاحب استطاعت بالغ مسلمان پر زندگی بھر میں ایک مرتبہ فرض ہے، جیسا کہ قرآن مقدس میں ہے: وَأَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَى كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ ۔ حج اسلام کے 5 ارکان میں سب سے آخری رکن ہے، جیسا کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حدیث ہے: «اسلام کی بنیاد پانچ ستونوں پر ہے، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی گواہی دینا، نماز قائم کرنا، زكوة دينا، رمضان کے روزے رکھنا اور حج کرنا۔» مناسک حج کی ابتدا ہر سال 8 ذوالحجہ سے ہوتی ہے، حاجی متعین میقات حج سے احرام باندھ کر کعبہ کی زیارت کے لیے روانہ ہوتے ہیں، وہاں پہونچ کر طواف قدوم کرتے ہیں، پھر منی روانہ ہوتے ہیں اور وہاں یوم الترویہ گزار کر عرفات آتے ہیں اور یہاں ایک دن کا وقوف ہوتا ہے، اسی دن کو یوم عرفہ، یوم سعی، عید قربانی، یوم حلق و قصر وغیرہ کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد حجاج رمی جمار (کنکریاں پھینکنے) کے لیے جمرہ عقبہ جاتے ہیں، بعد ازاں مکہ واپس آکر طواف افاضہ کرتے ہیں اور پھر واپس منی جاکر ایام تشریق گذارتے ہیں۔ اس کے بعد حجاج دوبارہ مکہ واپس آکر طواف وداع کرتے ہیں اور یوں حج کے جملہ مناسک مکمل ہوتے ہیں۔ حج کی عبادت اسلام سے قبل بھی موجود تھی، مسلمانوں کا اعتقاد ہے کہ حج گذشتہ امتوں پر بھی فرض تھا، جیسے ملت حنیفیہ (حضرت ابراہیم علیہ اسلام کے پیروکاروں) کے متعلق قرآن میں ذکر ہے: وَإِذْ بَوَّأْنَا لِإِبْرَاهِيمَ مَكَانَ الْبَيْتِ أَنْ لَا تُشْرِكْ بِي شَيْئًا وَطَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْقَائِمِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ ،۔ حضرت ابراہیم اور ان کے بعد بھی لوگ حج کیا کرتے تھے، البتہ جب جزیرہ نما عرب میں عمرو بن لحی کے ذریعہ بت پرستی کا آغاز ہوا تو لوگوں نے مناسک حج میں حذف و اضافہ کر لیا تھا۔ ہجرت کے نویں سال حج فرض ہوا،محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سنہ 10ھ میں واحد حج کیا جسے حجۃ الوداع کہا جاتا ہے۔ اس حج میں حج کے تمام مناسک کو درست طور پر کر کے دکھایا اور اعلان کیا کہ: « خذوا عني مناسككم» ترجمہ: اپنے مناسک حج مجھ سے لے لو۔ نیز اسی حج کے دوران اپنا مشہور خطبہ حجۃ الوداع بھی دیا اور اس میں دین اسلام کی جملہ اساسیات و قواعد اور اس کی تکمیل کا اعلان کیا۔ زندگی میں ایک بار صاحب استطاعت پر حج فرض ہے اور اس کے بعد جتنے بھی حج کیے جائیں گے ان کا شمار نفل حج میں ہوگا؛ ابو ہریرہ نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل کیا ہے: « لوگو! تم پر حج فرض کیا گیا ہے، چناں چہ حج ادا کرو»، صحابہ نے سوال کیا: "یا رسول اللہ!
ابراہیم علیہ السلام وہ پہلے پیغمبر تھے جن کو اللہ نے مُسلمان کہہ کر پُکارا۔ مُسلمان اُن کو خلیل اللہ (اللہ کا دوست) کہتے ہیں۔ ابراہیم کی نسل سے کئی پیغمبر پیدا ہوئے، جن کا تذکرہ عہدنامہ قدیم میں ہے۔ اسلام کی کتاب قرآن مجید میں بھی بہت سارے ایسے انبیا کا ذکر ہے جو ابراہیم کی نسل میں سے تھے۔ اسلام کے آخری نبی مُحمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی ابراہیم کی نسل میں سے ہیں۔
"حرہ" پتھریلی زمین کو کہتے ہیں؛ چونکہ مدینہ کا ایک حصہ پتھریلا اور آتش فشانی پتھروں سے ڈھکا ہوا ہے، اسی لیے "حرہ" کہلاتا ہے "حرہ واقم" کے راستے افواج ایزید کی آمد یہ واقعہ "واقعۂ حرہ" کہلایا۔یزید بن معاویہ کے دور میں سانحۂ کربلا کے بعد دوسرا بڑا سانحہ مدینہ پر شامی افواج کی چڑھائی تھی جس میں انہیں کامیابی حاصل ہوئی اور مدینہ میں قتل عام کیا گیا۔ یہ افسوسناک واقعہ 63ھ میں پیش آیا اور واقعۂ حرہ کہلاتا ہے۔ یزید کی بھیجی ہوئی افواج نے دس ہزار سے زائد افراد کو شہید کیا۔ خواتین کی بے حرمتی کی گئی اور تین دن تک مسجد نبوی میں نماز نہ ہو سکی۔
بنو ہاشم کی طرح بنو امیہ بھی قریش کا ایک ممتاز اور دولت مند قبیلہ تھا، اسی خاندان نے خلافت راشدہ کے بعد تقریباًً ایک صدی تک خلافت سنبھالی اور اسلامی فتوحات کو بام عروج پر پہنچایا۔ جس کی سرحدیں ایک طرف چین اور دوسری طرف اسپین تک پھیلی ہوئی تھیں۔ البتہ مرکزی خلافت کے خاتمے کے باوجود اس خاندان کا ایک شہزادہ عبدالرحمن الداخل اسپین میں حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوا۔ جہاں 1492ء تک اموی سلطنت قائم رہی۔
'فاطمہ جناح مادرملت یعنی قوم کی ماں۔ ہمارے ماہرین تاریخ وسیاست نے مادر ملت کو قائد اعظم کے گھر کی دیکھ بھال کرنے والی بہن کے حوالے سے بہت بلند مقام دیا ہے لیکن انہوں نے قیام پاکستان اور خصوصاً 1965ء کے بعد کے سیاسی نقشے پر جو حیرت انگیز اثرات چھوڑے ہیں ان کی طرف زیادہ توجہ نہیں دی۔ یہ ایک معنی خیز امر ہے کہ قائد اعظم کی زندگی میں مادر ملت ان کے ہمر اہ موثر طور پر 19سال رہیں یعنی 1929ء سے 1948ء تک اور وفات قائد کے بعد بھی وہ اتنا ہی عرصہ بقید حیات رہیں یعنی 1946ء سے 1967ء تک لیکن اس دوسرے دور میں ان کی اپنی شخصیت کچھ اس طرح ابھری اور ان کے افکارو کردار کچھ اس طرح نکھر کر سامنے آئے کہ انہیں بجا طور پر قائد اعظم کی جمہوری' بے باک اور شفاف سیاسی اقدار کو ازسر نو زندہ کرنے کا کریڈیٹ دیا جا سکتا ہے جنہیں حکمران بھول چکے تھے۔
جنرل آغا محمد یحٰیی خان (4 فروری، 1917ء - 10 اگست، 1980ء) پاکستان کی بری فوج کے پانچویں سربراہ اور تیسرے صدر مملکت تھے۔ صدر ایوب خان نے اپنے دور صدارت میں انھیں 1966ء میں بری فوج کا سربراہ نامزد کیا۔ 1969ء میں ایوب خان کے استعفا کے بعد عہدۂ صدارت بھی سنبھال لیا۔ یحیی خان کے یہ دونوں عہدے سقوط ڈھاکہ کے بعد 20 دسمبر، 1971ء میں ختم ہوئے جس کے بعد انھیں طویل عرصے تک نظر بند بھی کیا گیا۔
فعل (انگریزی: Verb) وہ کلمہ جس کے معانی میں کسی کام کا کرنا یا ہونا پایا جائے اور جس میں تینوں زمانوں ماضی، حال، مستقبل میں سے کوئی ایک زمانہ موجود ہو۔ فعل کی زمانے کے لحاظ سے تین اقسام ہیں۔ فعل ماضی وہ فعل جس میں کسی کام کا کرنا، ہونا یا سہنا گزرے ہوئے زمانے میں پایا جائے۔ فعل ماضی وہ فعل جس میں کسی کام کا کرنا، ہونا یا سہنا موجودہ زمانے میں پایا جائے۔ فعل مستقبل ایسا فعل جس میں کسی کام کا کرنا، ہونا یا سہنا آنے والے زمانے میں پایا جائے۔
نظام شمسی سورج اور ان تمام اجرام فلکی کے مجموعے کو کہتے ہیں جو براہ راست یا بالواسطہ طور پر سورج کی ثقلی گرفت میں ہیں۔ اس میں 8 سیارے، ان کے 162 معلوم چاند، 3 شناخت شدہ بونے سیارے(بشمول پلوٹو)، ان کے 4 معلوم چاند اور کروڑوں دوسرے چھوٹے اجرام فلکی شامل ہیں۔ اس آخری زمرے میں سیارچے، کوئپر پٹی کے اجسام، دم دار سیارے، شہاب ثاقب اور بین السیاروی گرد شامل ہیں۔
جماع کا لفظ عربی اساس جمع سے اخذ کیا جاتا ہے اور اس کے معنی جمع ہو جانا یا باہم ملنا کے ہوتے ہیں جبکہ اس باھم ملنے سے عمومی طور پر مراد جنسی طور پر ملنے کی ہوتی ہے۔، اسی مفہوم کو عام طور پر جنسی روابط، مباشرت، ہم بستری وغیرہ کے ناموں سے بھی اختیار کیا جاتا ہے لیکن چونکہ یہ الفاظ نسبتاً سخت و معیوب ہیں لہذا طبی و دیگر ویکیپیڈیا کے مضامین میں جماع کی اصطلاح کو منتخب کیا گیا ہے جس کو انگریزی میں sexual intercourse اور طب میں coitus یا پھر copulation بھی کہا جاتا ہے۔ اور طبی تعریف کی رو سے مؤنث و مذکر کے مابین ایسا رابطہ کے جس میں مذکر کے جسم سے منی (sperm) کا انتقال، مؤنث کے جسم کی جانب واقع ہو جماع کہلایا جاتا ہے۔ جماع کے برعکس، جنس (sex) ایک ایسا لفظ ہے جو متعدد استعمالات رکھتا ہے؛ طب میں عام طور پر جنس سے مراد مؤنث یا مذکر صنف کی لی جاتی ہے۔ جبکہ جنس کا لفظ، بلا تفریقِ جنسِ مؤنث و مذکر، دو (یا دو سے زائد) افراد کے درمیان اس قسم کے کسی بھی رابطے یا تعلق ظاہر کرتا ہے کہ جسمیں دونوں یا کسی ایک کے تولیدی اعضاء کو تحریک ملے
رجب طیب ایردوان (ترکی: Recep Tayyip Erdoğan) (ترکی: [ɾeˈdʒep tɑjˈjip ˈæɾdo(ɰ)ɑn] ( سنیے)؛ پیدائش: 26 فروری 1954ء ) ایک ترک سیاست دان، استنبول کے سابق ناظم، جمہوریہ ترکی کے سابق وزیر اعظم اور بارہویں منتخب صدر ہیں۔ رجب28 اگست2014ء سے صدارت کے منصب پر فائز اور جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (ترکی) (AKP) کے سربراہ ہیں جو ترک پارلیمان میں اکثریت رکھتی ہے۔
عید الفطر ایک اہم مذہبی تہوار ہے جسے پوری دنیا میں بسنے والے مسلمان رمضان المبارک کا مہینہ ختم ہونے پر مناتے ہیں۔ عید کے دن مسلمانوں کو روزہ رکھنے سے منع کیا گیا ہے۔ مسلمان رمضان کے 29 یا 30 روزے رکھنے کے بعد یکم شوال کو عید مناتے ہیں۔ کسی بھی قمری ہجری مہینے کا آغاز مقامی مذہبی رہنماؤں کے چاند نظر آجانے کے فیصلے سے ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک میں عید مختلف دنوں میں منائی جاتی ہے۔ اس کے برعکس کچھ ممالک ایسے ہیں جو سعودی عرب کی پیروی کرتے ہیں۔ عید الفطر کے دن نماز عید (دو رکعت چھ تکبیروں) کے ساتھ پڑھی جاتی ہے، جسے جامع مسجد یا کسی کھلے میدان یعنی عیدگاہ میں ادا کیا جاتا ہے۔ اس میں چھ زائد تکبیریں ہوتی ہیں (جن میں سے تین پہلی رکعت کے شروع میں ہوتے ہی اور بقیہ تین دوسری رکعت کے رکوع میں جانے سے پہلے ادا کی جاتی ہیں)۔ مسلمان کا عقیدہ ہے کہ اسلام میں انھیں حکم دیا گیا ہے کہ "رمضان کے آخری دن تک روزے رکھو۔ اور عید کی نماز سے پہلے صدقہ فطر ادا کرو"۔
سلطنت عثمانیہ یا خلافت عثمانیہ (عثمانی ترک زبان: "دولت علیہ عثمانیہ"، ترک زبان:Osmanlı Devleti) سنہ 1299ء سے 1922ء تک قائم رہنے والی ایک مسلم سلطنت تھی جس کے حکمران ترک تھے۔ اپنے عروج کے زمانے میں (16 ویں – 17 ویں صدی) یہ سلطنت تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی اور جنوب مشرقی یورپ، مشرق وسطٰی اور شمالی افریقہ کا بیشتر حصہ اس کے زیر نگیں تھا۔ اس عظیم سلطنت کی سرحدیں مغرب میں آبنائے جبرالٹر، مشرق میں بحیرۂ قزوین اور خلیج فارس اور شمال میں آسٹریا کی سرحدوں، سلوواکیہ اور کریمیا (موجودہ یوکرین) سے جنوب میں سوڈان، صومالیہ اور یمن تک پھیلی ہوئی تھی۔ مالدووا، ٹرانسلوانیا اور ولاچیا کے باجگذار علاقوں کے علاوہ اس کے 29 صوبے تھے۔
خلافت راشدہ کے خاتمے کے بعد عربوں کی قائم کردہ دو عظیم ترین سلطنتوں میں سے دوسری سلطنت خلافت عباسیہ کہلاتی ہے۔ جس کا قیام 750ء (132ھ) میں عمل میں آیا اور 1258ء (656ھ) میں اس کا خاتمہ ہو گیا۔ یہ خلافت ایک تحریک کے ذریعے قائم ہوئی جو بنو امیہ کے خلاف تھی۔ تحریک نے ایک عرصے تک اپنے مقاصد کے حصول کے لیے جدوجہد کی اور بالآخر بنو امیہ کو شکست دینے کے بعد بر سر اقتدار آگئی۔
ریاستہائے متحدہ امریکا (انگریزی: United States of America؛ یونائیٹڈ سٹیٹس آف امیریکہ) شمالی امریکا میں واقع ایک ملک ہے۔ اسے عرف عام میں صرف یونائیٹڈ سٹیٹس (انگریزی: United States؛ ریاستہائے متحدہ) بھی کہتے ہیں جبکہ امریکا (انگریزی: America؛ امیریکہ) کا لفظ بھی زیادہ تر اسی ملک سے موسوم کیا جاتا ہے جو بعض ماہرین کے مطابق تکنیکی لحاظ سے غلط ہے۔
اردو زبان کی ابتدا کے متعلق نظریات
اردو کی ابتدا و آغاز کے بارے میں کئی مختلف و متضاد نظریات ملتے ہیں یہ آپس میں اس حد تک متضاد ہیں کہ ایک انسان چکرا کر رہ جاتا ہے۔ ان مشہور نظریات میں ایک بات مشترک ہے کہ ان میں اردو کی ابتدا کی بنیاد برصغیر پاک و ہند میں مسلمان فاتحین کی آمد پر رکھی گئی ہے۔ اور بنیادی استدلال یہ ہے کہ اردو زبان کا آغاز مسلمان فاتحین کی ہند میں آمد اور مقامی لوگوں سے میل جول اور مقامی زبان پر اثرات و تاثر سے ہوا۔ اور ایک نئی زبان معرض وجود میں آئی جو بعد میں اردو کہلائی۔ کچھ ماہرین لسانیات نے اردو کی ابتدا کا سراغ قدیم آریائوں کے زمانے میں لگانے کی کوشش کی ہے۔ بہر طور اردو زبان کی ابتدا کے بارے میں کوئی حتمی بات کہنا ذرا مشکل ہے۔ اردو زبان کے محققین اگرچہ اس بات پر متفق ہیں کہ اردو کی ابتدا مسلمانوں کی آمد کے بعد ہوئی لیکن مقام اور نوعیت کے تعین اور نتائج کے استخراج میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس انداز سے اگر اردو کے متعلق نظریات کو دیکھا جائے تو وہ نمایاں طور پر چار مختلف نظریات کی شکل میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔
محمد ایوب خان (ولادت: 14 مئی 1907ء بمقام ریحانہ نزد ہری پور ہزارہ، وفات: 19 اپریل، 1974ء) پاکستان کے سابق صدر، فیلڈ مارشل اور سیاسی راہ نما تھے۔ وہ پاکستانی فوج کے سب سے کم عمر سب سے زیادہ رینکس حاصل کرنے والے فوجی ہیں۔ وہ تاریخ میں پاکستان کے پہلے فوجی آمر کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں جنہوں نے 1958ء میں پاکستان میں فوجی حکومت قائم کر کے مارشل لا لگایا۔
4 جولائی 1947ء کو ایک مسودہ قانون برطانوی پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا۔ 15جولائی کو دارالعوام نے اس کی منظوری دے دی، 16 جولائی 1947ء کو دار الامرا نے بھی اس کو منظور کیا۔ 18 جولائی 1947ء کو شاہ برطانیہ نے اس کی منظوری دے دی، پھر اس قانون کے تحت تقسیم ہند عمل میں لائی گئی اور دو نئی عملداریاں مملکت پاکستان اور مملکت بھارت وجود میں آئیں۔ قانون کو شاہی اجازت 18 جولائی 1947ء کو حاصل ہوئی۔ اور دو نئے ممالک پاکستان اور بھارت 15 اگست کو وجود میں آئے۔
ہر زبان کے لیے کچھ اصول اور قوانین ہوتے ہیں، جن سے اس زبان کو صحیح طور سے سیکھا اور استعمال کیا جا سکتا ہے۔ زبان کی درستی اور اس کی خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لیے ان قوانین پر عمل درآمد کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اردو زبان کے بھی کچھ اصول ہیں، جنہیں قواعد یا گرامر کہا جاتا ہے۔ ان کے جاننے سے اردو زبان کو ٹھیک طریقے سے بولا اور سمجھا جا سکتا ہے۔ انگریزی میں قواعد کو grammar کہتے ہیں۔ قواعد یا گرامر، لسانیات کی ایک اہم شاخ ہے اور اس کا مطالعہ زبان پہ دسترس حاصل کرنے کے لیے نہایت ضروری ہے۔ یہ مضمون اردو زبان کے قواعد کے متعلق ہے۔
محمد بن قاسم (عربی: محمد بن القاسم الثقفي) کا پورا نام عماد الدین محمد بن قاسم تھا جو بنو امیہ کے ایک مشہور سپہ سالار حجاج بن یوسف کے بھتیجا تھے۔ محمد بن قاسم نے 17 سال کی عمر میں سندھ فتح کرکے ہندوستان میں اسلام کو متعارف کرایا۔ ان کو اس عظیم فتح کے باعث ہندوستان و پاکستان کے مسلمانوں میں ایک ہیرو کا اعزاز حاصل ہے اور اسی لیے سندھ کو "باب الاسلام" کہا جاتا ہے کیونکہ ہندوستان پر اسلام کا دروازہ یہیں سے کھلا۔
فحش فلم، بالغ فلم، جنسی فلم، ننگی فلم، گندی فلم، عریاں فلم، ٹرپل یا ٹرپل ایکس فلم ایک ایسی فلم کو کہتے ہیں جس ميں جنسی تصورات کو ناظرین کی جنسی تحریک اور شہوانی لطف کے لیے دکھایا جاتا ہے۔ ایسی فلموں میں شہوانی ترغیب والا مواد دکھایا جاتا ہے جیسا کہ عریانی اور کھلے عام جنسی اعمال وغیرہ۔ فحش فلموں کی صنعت کے کارکن اسے بالغ فلمیں یا بالغ صنعت کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ برصغیر میں بالغ فلم کو بلیو فلم بھی کہا جاتا ہے۔ فحش فلموں کو بلیو پرنٹ یا بلیو پرنٹ فلمیں کہنا ایک غلط العام ہے۔ بلیو پرنٹ کا اصل مطلب ہے تکنیکی نقشہ۔
تحریک آزادی میں علماء کا کردار (کتاب)
تحریک آزادی میں علما کا کردار جناب مولانا فیصل احمد ندوی بھٹکلی کی شاہ کار تصنیف ہے۔ جس میں مصنف نے ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد میں شامل علماء کرام، ان کے فتاوی، ان کے حلقۂ اثر اور متوسلین سے عام مسلمانوں تک اس تحریک اور جدوجہد کے تمام پہلوؤ٘ں کو نمایاں کیا ہے اور بہت سی تاریخی اغلاط کی نشان دہی اور ناواقفیت کے انبار تلے تاریخی حقائق کو علم و استدلال کی روشنی میں واضح کیا ہے۔ دراصل یہ جدوجہد آزادی کی مکمل داستان کو پیش کرنے کا سلسلہ ہے، جس کا مرکزی عنوان ہے: مصنف کے منصوبہ کے مطابق اس مرکزی عنوان کے تحت چار جلدیں یا مستقل چار کتابیں ہوں گی: جنگ آزادی 1857 سے پہلے علما نے حصول آزادی کے لیے جو کا رہائے نمایاں انجام دیے ہیں ان کی تفصیلات پر مشتمل ہوگی۔ 1857 کی جنگ میں علما کے کردار کے ساتھ مخصوص ہوگی۔ 1857 کے بعد سے لے کر تحریک شیخ الہند تک محیط ہوگی۔ اسمیں تحریک مجاہدین کے بقیہ حالات، مجاہدین حر کے کارناموں اور اس دوران ہونے والی تمام سرگرمیوں کا جائزہ لینے کے ساتھ حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی اور ان کی تحریک کا تحریک آزادی میں جو زبردست کردار ہے اس کا تذکرہ ہوگا۔ بیسویں صدی عیسوی میں جب تحریک آزادی نے نئے دور کا آغاز کیا اور ہر طرف سے جو علما اس میدان میں کود پڑے اسمیں ان کا مفصل تذکرہ ہوگا۔ مکانی وسعت کے پیش نظر شاید یہ جلد پھر دو حصوں پر مشتمل ہوگی اور اس طرح یہ کام کل پانچ جلدوں میں ان شاء اللہ مکمل ہوگا۔تاہم فی الحال مصنف کے جانب سے پہلی جلد بنام تحریک آزادی میں علما کردار (1857ء سے پہلے) منظر عام پر آئی ہے۔ مصنف نے اس کتاب کی تصنیف میں تحقیق کے تمام اصول کو مد نظر رکھا ہے۔ اور موضوع سے متعلق اردو، فارسی، عربی اور انگریزی میں خواہ وہ مطبوعہ یا مخطوطہ، کتب خانوں میں محفوظ ہو یا مخصوص افراد کے پاس وہاں تک رسائی کی مکمل کوشش کی۔ اس طرح یہ کتاب اپنے موضوع پر ایک تاریخی دستاویز کا درجہ بھی رکھتی ہے۔ ماہنامہ دار العلوم ، شمارہ 4، جلد: 95 ، جمادی الاولی 1432 ہجری مطابق اپریل 2011ء جنگ آزادی میں مسلمانوں کا کردار از: محمد احمد ابن مولانا محمد شفیع قاسمی رضیة الابرار، سلمان آباد، بھٹکل ہندوستان کوطویل جدوجہدکے بعدآزادی کی نعمت حاصل ہوئی، جس کے لیے ہمارے اسلاف نے زبردست قربانیوں کانذرانہ پیش کیا،جان و مال کی قربانیاں دیں، تحریکیں چلائیں تختہٴ دار پرچڑھے، پھانسی کے پھندے کو جرات وحوصلہ اورکمال بہادری کے ساتھ بخوشی گلے لگایا، قیدو بندکی صعوبتیں جھلیں اور حصولِ آزادی کی خاطرمیدا ن جنگ میں نکل پڑے، آخر غیر ملکی (انگریز) ملک سے نکل جانے پرمجبورہوئے۔ غیر ملکی حکمرانوں نے اپنے اقتدار کوقائم رکھنے کے لیے طرح طرح کی چالیں چلیں، تدبیریں کیں، رشوتیں دیں، لالچ دیے، پھوٹ ڈالوں اورحکومت کروکااصول بڑے پیمانے پر اختیار کیا،فرقہ وارانہ اختلافات پیداکیے، حقائق کوتوڑمروڑکرپیش کیا، آپس میں غلط فہمیاں پھیلائیں، تاریخ کومسخ کیا،انگریزوں نے ہندوستان کے معصوم باشندوں پرظلم وستم کے پہاڑ توڑے اورناحق لوگوں کوتختہٴ دارپرلٹکایا، ہندوستانیوں پرناحق گولیاں چلائیں، چلتی ریلوں پر سے اٹھاکرباہر پھینکا؛ مگر ان کے ظلم وستم کوروکنے اورطوقِ غلامی کوگردن سے نکالنے کے لیے بہادر مجاہدین آزادی نے ان کا مقابلہ کیااورملک کوآزادکرکے ہی اطمینان کاسانس لیا۔ ہندوستان کی تحریک آزادی میں مسلمانوں کاحصہ قدرتی طورپربہت ممتازونمایاں رہا ہے،انھوں نے جنگ آزادی میں قائداوررہنماکاپارٹ اداکیا،اس کی وجہ یہ تھی کہ انگریزوں نے اقتدارمسلم حکمرانوں سے چھیناتھا،اقتدارسے محرومی کادکھ اوردردمسلمانوں کوہوا،انھیں حاکم سے محکوم بنناپڑا، اس کی تکلیف اوردکھ انھیں جھیلناپڑا، اسی لیے محکومیت وغلامی سے آزادی کی اصل لڑائی بھی انھیں کولڑنی پڑی۔ انگریزوں سے باقاعدہ منظم جنگ نواب سراج الدولہ کے ناناعلی وردی خان نے 1754ء میں کی اوران کوشکست دی،کلکتہ کاڈائمنڈہاربر Diamond Harbourاور فورٹ ولیم Fort Williamانگریزوں کامرکزتھا،علی وردی خان نے فورٹ ولیم پرحملہ کرکے انگریزوں کو بھگایا، انگریزڈائمنڈ ہاربرمیں پناہ لینے پرمجبورہوئے۔ اسے پہلی منظم اورمسلح جنگ آزادی قرار دیا جاسکتاہے۔ علی وردی خان کے بعدان کے نواسہ نواب سراج الدولہ حاکم ہوئے اور اس خطرہ کومحسوس کیا کہ انگریز ان کے ملک پرآہستہ آہستہ حاوی ہو رہے ہیں اوران کو ملک سے نکالناضروری ہے۔ اس نے حوصلہ اورہمت سے انگریزوں کوشکست دیناچاہا؛مگر انکا دربار سازشوں کا اڈا بن گیاتھا؛ اس لیے انہیں شکست ہوئی اور1757ء میں برٹش فوج نے ان کے دارالسلطنت مرشدآبادمیں انھیں شہیدکردیا۔ تاریخ کے صفحات میں پلاسی کی جنگ 1757ء اوربکسرکی جنگ1764کی تفصیل موجود ہے،یہ جنگ بھی ہندوستانیوں کی شکست پرختم ہوئی،اس کے بعدانگریزبنگال، بہار اور اوڑیسہ پرپوری طرح حاوی ہو گئے۔ جنگِ آزادی میں حیدرعلی اورٹیپوسلطان کاکردار دکن فرمانروا حیدرعلی(م1782ء) اوران کے صاحبزادہ ٹیپوسلطان کے ذکر کے بغیر جنگ آزادی کی تاریخ ادھوری ہوگی،جومستقل انگریزوں کے لیے چیلنج بنے رہے، حیدر علی اور ٹیپو سلطان نے انگریزوں سے چارجنگیں کیں، ٹیپوسلطان 1782ء میں حکراں ہوئے،1783ء میں انگریزوں سے ٹیپوکی پہلی جنگ ہوئی اور انگریزوں کوشکست ہوئی۔ یہ جنگ 1784ء میں ختم ہوئی، یہ میسور کی دوسری جنگ کہلاتی ہے۔ انگریز اپنی شکست کاانتقام لینے کے لیے بے چین تھے؛ چنانچہ 1792ء میں انگریزوں نے اپنی شکست کاانتقام لیتے ہوئے حملہ کیا؛مگر اپنے بعض وزراء وافسران کی بے وفائی اور اپنی ہی فوج کی غداری اور اچانک حملہ کی وجہ سے ٹیپو معاہدہ کرنے پر مجبور ہوئے۔ ٹیپو کو بطور تاوان تین کروڑ روپئے، نصف علاقہ اوردو شہزادوں کوبطورِیرغمال انگریزوں کودینا پڑا۔ مفکراسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمه الله لکھتے ہیں: ”سب سے پہلاشخص جس کواس خطرہ کااحساس ہواوہ میسور کابلندہمت اورغیور فرمانروا فتح علی خان ٹیپوسلطان (۱۳۱۳ھ۱۷۹۹ ء)تھا، جس نے اپنی بالغ نظری اورغیرمعمولی ذہانت سے یہ بات محسوس کرلی کہ انگریزاسی طرح ایک ایک صوبہ اورایک ایک ریاست ہضم کرتے رہیں گے اور اگرکوئی منظم طاقت ان کے مقابلہ پرنہ آئی توآخرکارپوراملک ان کالقمہ تربن جائے گا؛ چنانچہ انھوں نے انگریزوں سے جنگ کافیصلہ کیااوراپنے پورے سازوسامان، وسائل اور فوجی تیاریوں کے ساتھ ان کے مقابلہ میں آگئے“۔ ٹیپوسلطان کی جدوجہداوراولوالعزمی ٹیپونے ہندوستان کے راجوں،مہاراجوں اور نوابوں کوانگریزوں سے جنگ پرآمادہ کرنے کی کوشش کی، اس مقصدسے انھوں نے سلطان ترکی سلیم عثمانی، دوسرے مسلمان بادشاہوں اور ہندوستان کے امرا اورنوابوں سے خط کتابت کی اور زندگی بھرانگریزوں سے سخت معرکہ آرائی میں مشغول رہے، قریب تھاکہ انگریزوں کے سارے منصوبوں پرپانی پھرجائے اوروہ اس ملک سے بالکل بے دخل ہوجائیں؛ مگر انگریزوں نے جنوبی ہندکے امرا کو اپنے ساتھ ملالیااور آخرکاراس مجاہد بادشاہ نے ۴/مئی ۱۷۹۹ ء کوسرنگا پٹنم کے معرکہ میں شہیدہوکرسرخروئی حاصل کی، انھوں نے انگریزوں کی غلامی اوراسیری اوران کے رحم وکرم پرزندہ رہنے پرموت کوترجیح دی، ان کامشہور تاریخی مقولہ ہے کہ ”گیڈرکی صد سالہ زندگی سے شیرکی ایک دن کی زندگی اچھی ہے“۔ جب جرنل HORSE کوسلطان کی شہادت کی خبرملی تواس نے ان کی نعش پرکھڑے ہوکریہ الفاظ کہے کہ:آج سے ہندوستان ہماراہے۔“(ہندوستانی مسلمان ص۱۳۷) جنگ آزادی میں شاہ ولی الله اورانکے شاگردوں کاکردار ٹیپوسلطان کی شہادت نیزہزاروں افرادکے قتل کے بعدملک میں برطانوی اثرات بڑھتے چلے گئے، انگریز سیاسی اثرات بڑھانے کے ساتھ ساتھ مشنری ورک بھی کر رہے تھے،اس زمانہ میں دینی مدارس بڑی تعدادمیں تباہ کیے گئے،ان کوششوں کے ساتھ ساتھ دہلی میں ایک تحریک وجود میں آئی، جس کے بانی شاہ ولی الله محدث دہلوی رحمه الله (م1762ء )تھے،ان کی وفات کے بعد ان کے صاحبزادے شاہ عبد العزیزمحدث دہلوی رحمه الله (م1824ء)نے اپنے والدکی تحریک کوبڑھایا، وہ انگریزوں کے سخت خلاف تھے۔ انہوں نے1803ء میں انگریزوں کے خلاف جہاد کا مشہور فتوی دیا،جس میں ہندوستان کودارالحرب قراردیاگیااورسیداحمدشہیدرائے بریلوی رحمه الله کولبریشن موومنٹ کا قائد مقرر کیا۔1831ء میں سیداحمدشہید رحمه الله اورشاہ اسماعیل شہید رحمه الله بالاکوٹ میں اپنے بے شمار رفقا کے ساتھ اس ملک کے انسانوں کوآزادی دلانے کے لیے انگریزوں اوران کے اتحادی سکھ ساتھیوں کے خلاف جہادمیں شہیدہوئے؛لیکن یہ تحریک چلتی رہی،مولانانصیرالدین دہلوی رحمه الله نے قیادت کی ذمہ داری سنبھالی۔1840ء میں آپ کی وفات ہوئی۔ ان کے بعدمولانا ولایت علی عظیم آبادی رحمه الله (م1852ء)اورانکے بھائی مولاناعنایت علی عظیم آبادی (م1858ء) نے اس تحریک کوزندہ رکھنے میں اہم کرداراداکیا۔ اس طرح یہ جہادکاقافلہ برابررواں دواں رہا؛ حتیٰ کہ سن ستاون 1857ء تک لے آیا۔ علما کی اس تحریک کوانگریزوں نے وہابی تحریک کے نام سے مشہورکیا جو نجد کے محمدبن عبد الوہاب نامی عالم کے نظریات پرمبنی تھی؛لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس تحریک کے اکثر افرادہندوستان ہی کے مشہورعالم شاہ ولی الله محدث دہلوی رحمه الله کے تربیت یافتہ تھے،اوریہ تحریک انھیں کے نظریات پرمبنی تھی؛ اس لیے اسے ”ولی اللّٰہی“ تحریک کانام دیا جاناچاہئے۔ انگریزوں کے خلاف عَلمِ بغاوت بلند کرنے میں علما کرام کی خدمات 1857ء میں شاہ ولی الله اورشاہ عبد العزیزمحدث دہلوی رحمه الله اورشاہ اسحاق محدث دہلوی رحمه الله اور ان کے شاگردوں کی محنت رنگ لائی اور 1857 ء میں علما کرام کی ایک جماعت تیارہوئی۔ ان میں مولانااحمدالله شاہ مدراسی رحمه الله، مولانا رحمت الله کیرانوی رحمه الله، مولانافضلِ حق خیرآبادی، رحمه الله مولاناسرفراز رحمه الله، حاجی امدالله مہاجرمکی رحمه الله، مولانا رشید احمد گنگوہی رحمه الله، مولانا قاسم نانوتوی رحمه الله ،حافظ ضامن شہید رحمه الله اور مولانا منیر نانوتوی رحمه الله خاص طور پر قابل ذک رہیں۔ غدر کے زمانہ میں مولانافضل حق خیرآبادی رحمه الله نے انگیریزوں کے خلاف فتوی مرتب کرایاجس پر علما دہلی سے دستخط لیے گئے اور یہی فتوی مولاناکی گرفتاری کاسبب بنا،جب مولاناپرمقدمہ چلااور جہاد کے فتوی کی عدالت نے تصدیق چاہی،تومولانا نے کھل کرکہاکہ فتوی میراہی مرتب کیاہواہے۔1857ء کے زمانہ میں مولانااحمدالله شاہ مدراسی رحمه الله سپہ سالارکی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔ ہومزلکھتاہے: ”مولوی احمدالله شاہ شمالی ہندمیں انگریزوں کاسب سے بڑادشمن تھا۔1865ء میں مولانااحمدالله عظیم آبادی رحمه الله، مولانایحییٰ علی رحمه الله، مولاناعبدالرحیم صادق پوری رحمه الله، مولانا جعفرتھانیسری رحمه الله کوانڈمان بھیج دیا گیا جو کالاپانی کہلاتاہے۔ اسی زمانہ میں مولانافضل حق خیرآبادی رحمه الله، مفتی احمدکاکوروی رحمه الله اورمفتی مظہرکریم دریابادی رحمه الله کوبھی انڈمان روانہ کیا گیا، جن میں مولانا احمدالله عظیم آبادی رحمه الله، مولانایحییٰ علی رحمه الله، اورمولانا فضل حق خیرآبادی رحمه الله وغیرہم کا وہیں انتقال ہو گیا۔ مولانا عبد الرحیم صادق پوری رحمه الله اورمولانا جعفر تھانیسری رحمه الله اٹھارہ سال کی قیدبامشقت اور جلاوطنی کے بعد 1883ء میں اپنے وطن واپس ہوئے۔ مولاناجعفرتھانیسری رحمه الله اپنی کتاب کالاپانی میں تحریرفرماتے ہیں:”ہمارے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں، پیروں میں بیڑیاں، جسم پرجیل کا لباس اور کمرپرلوہے کی سلاخیں تھیں۔ انگریزہم تین علما کے لیے خاص لوہے کے قفس تیار کروائے اور ہمیں ان میں ڈال دیا۔ اس پنجرے میں لوہے کی چونچ دارسلاخیں بھی لگوائیں، جس کی وجہ سے ہم نہ سہارالے سکتے تھے، نہ بیٹھ سکتے تھے۔ ہماری آنکھوں سے آنسوں اورپیروں سے خون بہہ رہے تھے۔ غدر کے ملزمان انگریزوں کی نگاہ میں اتنے بڑے مجرم سمجھے گئے کہ غدر1857ء میں پکڑے گئے لوگوں کو یاتوسرعام پھانسی دیدی گئی یابہت سے لوگوں کواسی جزیرے انڈمان میں موت سے بدترزندگی گذارنے کے لیے بھیجاگیا۔ مولانا جعفر تھانیسری رحمه الله نے جزیرہ انڈمان کی زندگی پربہت ہی مفصل آپ بیتی”کالاپانی“کے نام سے لکھی ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں! جنگ آزادی میں علما دیوبندکاکردار 1857ء میں شاملی ضلع مظفرنگرکے میدان میں علما دیوبندنے انگریزوں سے باقاعدہ جنگ کی، جس کے امیرحاجی امدالله مہاجرمکی رحمه الله مقررہوئے۔ اور اس کی قیادت مولانارشیداحمدگنگوہی رحمه الله، مولاناقاسم نانوتوی رحمه الله، اورمولانامنیرنانوتوی رحمه الله کر رہے تھے۔ اس جنگ میں حافظ ضامن رحمه الله شہیدہوئے، مولانا قاسم نانوتوی رحمه الله انگریزوں کی گولی لگ کرزخمی ہوئے، انگریزی حکومت کی طرف سے آپ کے نام وارنٹ رہا؛لیکن گرفتارنہ ہو سکے،1880ء میں وفات پائی،دیوبندمیں قبرستان قاسمی میں آسودئہ خواب ہیں۔ حاجی امدادالله مہاجرمکی رحمه الله نے یہ محسوس کرتے ہوئے کہ ان حالات میں ملک میں رہ کراب اپنے مشن کوبرقراررکھنا ممکن نہیں، مکہ مکرمہ ہجرت کرگئے۔ وہاں سے انھوں نے اپنے مریدین ومتوسلین کے ذریعہ ہندوستان میں اپنے ہدایت وفیض کاسلسلہ جاری رکھا۔1899ء میں وفات پائی اورجنت المعلیٰ میں دفن ہوئے۔ مولانارشیداحمدگنگوہی رحمه الله کوگرفتارکیاگیااورسہارنپورکے قیدخانہ میں رکھاگیا،پھرکچھ دن کال کوٹھری میں رکھ کرمظفرنگرکے قیدخانہ میں منتقل کیا گیا۔ چھ ماہ تک آپ کوقیدوبندکی مصیبتیں جھیلنی پڑی۔1905 ء میں وفات پائی۔گنگوہ کی سرزمین میں آسودہ خواب ہیں۔1857ء کی جنگ میں مسلمانوں کوبظاہرشکست ہوئی، مگریہ شکست نہیں، فتح تھی۔ 1857ء کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعدانگریزوں نے اسلام پرحملہ کیا اسلامی عقائد،اسلامی فکراوراسلامی تہذیب کو ہندوستان سے ختم کرنے کافیصلہ کیا، یہاں سے انگریزوں کازوال شروع ہوا،حکومت برطانیہ کا لارڈمیکالے جب وایسرائے بن کرآیا تواس نے مغربی تہذیب اورمغربی فکر،نصرانی عقائد قائم کرنے کاایک پروگرام بنایا،اس نے کہا:”میں ایک ایسانظام تعلیم وضع کرجاوں گاجوایک ہندوستانی مسلمان کاجسم توکالاہوگامگردماغ گورایعنی انگریزکی طرح سوچے گا“۔ ہندوستان میں اسلام کی حفاظت کے لیے الله تعالیٰ نے چندشخصیات کوپیداکیا،ان میں سے ایک اہم شخصیت حجة الاسلام حضرت مولانامحمدقاسم نانوتوی رحمه الله کی تھی،اس زمانہ میں اسلام کی بقاء، اسلامی عقائد،اسلامی فکر اوراسلامی تہذیب کی حفاظت کے لیے حجة الاسلام حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمه الله نے ایک تحریک چلائی،جس کوتحریک دیوبندکہاجاتاہے،جگہ جگہ مدرسہ قائم کیے،اس مقصدکے لیے انھوں نے اپنے رفقا (حاجی عابدحسین دیوبندی رحمه الله ،مولاناذولفقارعلی دیوبندی رحمه الله، مولانا فضل الرحمن عثمانی رحمه الله اورمولانارفیع الدین رحمه الله وغیرہم)کی مددسے15 محرم 1283ھ مطابق 30مئی 1866ء جمعرات کے دن ضلع سہارنپورمیں واقع دیوبندنامی مقام پرایک دار العلوم کی بنیادرکھی؛ تاکہ یہ مسلمانوں میں نظم پیداکرے، جوان کواسلام اورمسلمانوں کی اصل شکل میں قائم رکھنے میں معین ہو،ایشیاکی اس عظیم درسگاہ کاآغازدیوبندکی ایک مسجد(چھتہ مسجدکے صحن میں آنارکے درخت کے سایہ میں ایک استاد(ملامحمود)اورایک طالب علم (محمودحسن)سے ہوا جو بعدمیں ”ازہرہند“کہلائی اورجسے دار العلوم دیوبندکے نام سے شہرت ومقبولیت حاصل ہوئی،بقول حضرت حاجی امدادالله مہاجرمکی رحمه الله ”دار العلوم دیوبندہندوستان میں بقاء اسلام اورتحفظِ علم کاذریعہ ہے“۔ انڈین نیشنل کانگرس کاقیام اوراس میں مسلمانوں کاحصہ 1884ء میں انڈین نیشنل کانگرس کاپہلااجلاس منعقدہوا،جس میں بعض ممتازاہل علم واہل فکرمسلمان بھی شریک تھے،اور اس کا قیام 1885 ء میں عمل میں آیا۔ اس کے بانیوں میں مسلمان بھی شامل تھے، جن کے نام بدرالدین طیب جی اوررحمت الله سیانی تھے،کانگرس کا چوتھااجلاس 1887ء میں مدراس میں ہوا،جس کی صدارت بدرالدین طیب جی نے کی۔ جنگ آزادی میں دار العلوم دیوبندکاکردار جنگ آزادی میں اکابردیوبند(حاجی امدالله مہاجرمکی رحمه الله ،مولاناقاسم نانوتوی رحمه الله، مولانارشیداحمد گنگوہی رحمه الله ) اور فرزندان دار العلوم دیوبند(شیخ الہندمولانامحمودحسن دیوبندی رحمه الله، مولاناحسین احمدمدنی رحمه الله، مولاناعبیدالله سندھی رحمه الله، مولانا عزیز گل پیشاوری رحمه الله، مولانا منصورانصاری رحمه الله، مولانا فضل ربی رحمه الله، مولانا محمداکبر رحمه الله، مولانا احمدچکوالی رحمه الله، مولانا احمدالله پانی پتی رحمه الله، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی رحمه الله وغیرہم) کو فراموش نہیں کیاجاسکتا۔ 1912ء میں ریشمی رومال تحریک کی ابتدا ہوئی،جس کے بانی فرزندِ اول دار العلوم دیوبند تھے، جن کودنیاشیخ الہند حضرت مولانامحمودحسن دیوبندی رحمه الله کے نام سے جانتی ہے، بقول مفکراسلام حضرت مولاناسیدابوالحسن علی ندوی رحمه الله :”آپ(شیخ الہند)انگریزی حکومت اور اقتدار کے سخت ترین مخالف تھے،سلطان ٹیپو کے بعدانگریزوں کاایسادشمن اورمخالف دیکھنے میں نہیں آیا“۔ اس تحریک میں اہم رول آپ کے شاگردمولاناعبیدالله سندھی رحمه الله نے ادا کیا، افغانستان کی حکومت کومدد کے لیے تیارکرنااورانگریزوں کے خلاف رائے عامہ بنانا مولانا عبید الله سندھی رحمه الله کامشن تھا۔ شیخ الہند رحمه الله کے نمائندے ملک کے اندر اور ملک کے باہرسرگرم اورفعال تھے، افغانستان، پاکستان، صوبہ سرحداورحجازکے اندرقاصدکاکام کر رہے تھے،خلافتِ عثمانیہ کے ذمہ داروں سے مثلاًانورپاشاہ وغیرہ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی،اورترکی جانے کاشیخ الہند نے خودعزم مصمم کر لیا تھا، اس مقصدکے لیے پہلے وہ حجازتشریف لے گئے اوروہاں تقریباًدوسال قیام رہا،اس اثنا میں دوحج کیے،مکہ مکرمہ پہنچ کرحجازمیں مقیم ترک گورنرغالب پاشاسے ملاقاتیں کیں، اورترکی کے وزیر جنگ انورپاشاسے بھی ملاقات کی، جوان دنوں مدینہ آئے ہوئے تھے،انھیں ہندوستان کی صورت حال سے آگاہ کیااوراپنے منصوبہ سے واقف کرایا،ان دونوں نے شیخ الہند رحمه الله کے خیالات سے اتفاق کرتے ہوئے، ان کے منصوبے کی تائیدکی اور برطانوی حکومت کے خلاف اپنے اوراپنی حکومت کے تعاون کایقین دلایا، مولانا عبید الله سندھی رحمه الله نے کابل سے ریشمی رومال پرجوراز دارانہ خطوط شیخ الہند مولانامحمودحسن رحمه الله کومکہ مکرمہ روانہ کیے تھے، ان کوحکومت برطانیہ کے لوگوں نے پکڑلیا، یہی شیخ الہند رحمه الله کی گرفتاری کاسبب بنی اورپورے منصوبے پر پانی پھیردیا۔1916 ء میں شریف حسین کی حکومت نے ان کومدینہ منورہ میں گرفتار کرکے انگریزی حکومت کے حوالہ کر دیا۔ شریف حسین نے خلافت عثمانیہ کے خلاف بغاوت اور غداری کی تھی، وہ برطانوی حکومت کاوفاداردوست تھا اورخلافت عثمانیہ اورمسلمانوں کی تحریک آزادی کاشدید مخالف تھا۔1917ء میں شیخ الہند رحمه الله اور ساتھوں کوبحیرئہ روم میں واقع جزیرہ مالٹا جلاوطن کیا گیا۔ مولاناحسین احمدمدنی رحمه الله ،مولاناعزیزگل پیشاوری رحمه الله ،مولاناحکیم نصرت حسین رحمه الله ،مولاناوحیداحمد رحمه الله وغیرہم نے مدتوں اپنے استاذشیخ الہند رحمه الله کے ساتھ مالٹا کے قیدخانہ میں سختیاں برداشت کیں،مالٹاکے قیدخانہ میں انگریزوں نے شیخ الہند رحمه الله کے ساتھ ظالمانہ برتاؤ کیا، سخت سے سخت سزائیں دی گئیں؛چنانچہ مولانا حسین احمدمدنی رحمه الله فرماتے ہیں کہ جب شیخ الہند رحمه الله کو مالٹا جیل میں نظربندکیاگیاتو انگریزمیرے استادکوایک تہ خانہ میں لے گئے اور لوہے کی گرم تپتی ہوئی سلاخیں لے کرکمرپرلگاتے رہے اور ساتھ میں یہ فرماتے رہے کہ ”اے محمودحسن!
سینیٹ پاکستان کی پارلیمان کا ایوان بالا ہے۔ یہ دو ایوانی مقننہ کا اعلیٰ حصہ ہے۔ اس کے انتخابات ہر تین سال بعد آدھی تعداد کی نشستوں کے لیے منعقد کیے جاتے ہیں اور۔ اور ارکان کی مدت 6 سال ہوتی ہے۔ سینیٹ کا امیر ملک کے صدر کا قائم مقام ہوتا ہے۔ موجودہ امیر ایوان بالا صادق سنجرانی ہیں جو 12 مارچ 2018 سے اس عہدے پر ہیں ۔
انگریزی (English) انگلستان سمیت دنیا بھر میں بولی جانے والی ایک وسیع زبان ہے جو متعدد ممالک میں بنیادی زبان کے طور پر بولی جاتی ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں ثانوی یا سرکاری زبان کی حیثیت رکھتی ہے۔ انگریزی دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی اور سمجھی جانے والی زبان ہے جبکہ یہ دنیا بھر میں رابطے کی زبان سمجھی جاتی ہے۔
معاشیات یا اقتصادیات (Economics) معاشرتی علوم (Social Sciences) کی اہم ایک شاخ ہے جس میں قلیل مادی وسائل و پیداوار کی تقسیم اور انکی طلب و رسد کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ عربی اور فارسی میں رائج اصطلاح اقتصادیات اردو میں معاشیات کے مترادف کے طور پر بھی استعمال ہوتی رہی ہے۔ معاشیات کی ایک جامع تعریف جو روبنز (Lionel Robbins) نے دی تھی کچھ یوں ہے کہ 'معاشیات ایک ایسا علم ہے جس میں ہم انسانی رویہ کا مطالعہ کرتے ہیں جب اسے لامحدود خواہشات اور ان کے مقابلے میں محدود ذرائع کا سامنا کرنا پڑے۔ جبکہ ان محدود ذرائع کے متنوع استعمال ہوں'۔ معاشیات آج ایک جدید معاشرتی علم بن چکا ہے جس میں نہ صرف انسانی معاشی رویہ بلکہ مجموعی طور پر معاشرہ اور ممالک کے معاشی رویہ اور انسانی زندگی اور اس کی معاشی ترقی سے متعلق تمام امور کا احاطہ کیا جاتا ہے اور اس میں مستقبل کی منصوبہ بندی اور انسانی فلاح جیسے مضامین بھی شامل ہیں جن کا احاطہ پہلے نہیں کیا جاتا تھا۔ معاشیات سے بہت سے نئے مضامین جنم لے چکے ہیں جنہوں نے اب اپنی علاحدہ حیثیت اختیار کر لی ہے جیسے مالیات، تجارت اور نظامت۔ معاشیات کی بہت سی شاخیں ہیں مگر مجموعی طور پر انہیں جزیاتی معاشیات (Microeconomics) اور کلیاتی معاشیات (Macroeconomics) میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
مملکت سعودی عرب (عربی: المملكة العربية السعودية ) جزیرہ نمائے عرب میں سب سے بڑا ملک ہے ۔ شمال مغرب میں اس کی سرحد اردن، شمال میں عراق اور شمال مشرق میں کویت، قطر اور بحرین اور مشرق میں متحدہ عرب امارات، جنوب مشرق میں اومان، جنوب میں یمن سے ملی ہوئی ہے جبکہ خلیج فارس اس کے شمال مشرق اور بحیرہ قلزم اس کے مغرب میں واقع ہے ۔ یہ حرمین شریفین کی سرزمین کہلاتی ہے کیونکہ یہاں اسلام کے دو مقدس ترین مقامات مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ موجود ہیں۔
پاک چین اقتصادی راہداری (CPEC) چینی: 中国-巴基斯坦经济走廊 ایک بہت بڑا تجارتی منصوبہ ہے، جس کا مقصد جنوب مغربی پاکستان سے چین کے شمال مغربی خود مختار علاقے سنکیانگ تک گوادر بندرگاہ، ریلوے اور موٹروے کے ذریعے تیل اور گیس کی کم وقت میں ترسیل کرنا ہے۔ اقتصادی راہداری پاک چین تعلقات میں مرکزی اہمیت کی حامل تصور کی جاتی ہے، گوادر سے کاشغر تک تقریباً 2442 کلومیٹر طویل ہے۔یہ منصوبہ مکمل ہونے میں کئی سال لگیں گے اس پر کل 46 بلین ڈالر لاگت کا اندازہ کیا گيا ہے۔ راہداری چین کی اکیسویں صدی میں شاہراہ ریشم میں توسیع ہے۔
ہجرت مدینہ پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ان کے صحابہ کی طرف سے مکہ مکرمہ سے یثرب (جسے اس ہجرت کے بعد مدینۃ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نام دیا گیا) منتقل ہوجانے کے عمل کو کہتے ہیں جو 12ربیع الاول 13نبوی (جو بعد میں پہلا ہجری سال کہلایا)، بمطابق 24 ستمبر 622ء عیسوی بروز جمعہ کو ہوئی، بعد میں اسی دن کی نسبت سے ہجری تقویم کا آغاز ہوا۔ مسلمانوں نے قمری ہجری تقویم اور شمسی ہجری تقویم دونوں کا آغاز اسی واقعہ کی بنیاد پر کیا۔
پاکستان کے قومی پرچم کا ڈیزائن سید امیر الدین کدوائی نے قائد اعظم کی ہدایت پر مرتب کیا تھا۔ یہ گہرے سبز اور سفید رنگ پر مشتمل ہے جس میں تین حصے سبز اور ایک حصہ سفید رنگ کا ہوتا ہے۔سبز رنگ مسلمانوں اور سفید رنگ پاکستان میں رہنے والی اقلیتوں کو ظاہر کرتا ہے، جبکہ سبز حصے کے بالکل درمیان میں چاند (ہلال) اور پانچ کونوں والا ستارہ ہوتاہے، سفید رنگ کے چاند کا مطلب ترقی اور ستارے کا مطلب روشنی اور علم کو ظاہر کرتا ہے۔کسی سرکاری تدفین کے موقع پر’ 21′+14′, 18′+12′, 10′+6-2/3′, 9′+6-1/4سائز کا قومی پرچم استعمال کیا جاتا ہے اور عمارتوں پر لگائے جانے کے لیے 6′+4′ یا3′+2′کا سائز مقرر ہے۔