اردو ویکیپیڈیا کے سب سے زیادہ ملاحظہ کردہ مضامین کی فہرست۔ مزید معلومات کے لیے ۔ ۔ ۔
ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال (9 نومبر 1877ء تا 21 اپریل 1938ء) بیسویں صدی کے ایک معروف شاعر، مصنف، قانون دان، سیاستدان، مسلم صوفی اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھے۔ اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے اور یہی ان کی بنیادی وجہ شہرت ہے۔ شاعری میں بنیادی رجحان تصوف اور احیائے امت اسلام کی طرف تھا۔ "دا ریکنسٹرکشن آف ریلیجس تھاٹ ان اسلام" کے نام سے انگریزی میں ایک نثری کتاب بھی تحریر کی۔ علامہ اقبال کو دور جدید کا صوفی سمجھا جاتا ہے۔ بحیثیت سیاست دان ان کا سب سے نمایاں کارنامہ نظریۂ پاکستان کی تشکیل ہے، جو انہوں نے 1930ء میں الہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پیش کیا تھا۔ یہی نظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا۔ اسی وجہ سے علامہ اقبال کو پاکستان کا نظریاتی باپ سمجھا جاتا ہے۔ گو کہ انہوں نے اس نئے ملک کے قیام کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن انہیں پاکستان کے قومی شاعر کی حیثیت حاصل ہے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان جنوبی ايشياء کے شمال مغرب وسطی ایشیا اور مغربی ایشیا کے لیے دفاعی طور پر اہم حصے میں واقع ایک خود مختار اسلامی ملک ہے۔ 21 کروڑ کی آبادی کے ساتھ یہ دنیا کا پانچواں بڑی آبادی والا ملک ہے۔ 881,913 مربع کلومیٹر (340,509 مربع میل) کے ساتھ یہ دنیا کا تینتیسواں بڑے رقبے والا ملک ہے۔ اس کے جنوب میں 1046 کلومیٹر (650 میل) کی ساحلی پٹی ہے جو بحیرہ عرب سے ملتی ہے۔پاکستان کے مشرق ميں بھارت، شمال مشرق ميں چین اور مغرب ميں افغانستان اور ايران واقع ہيں۔ پاکستان کو شمال میں ایک تنگ واخان راہداری تاجکستان سے جدا کرتی ہے جبکہ اس ملک کی سمندری سرحدی حدود عمان کے سمندری حدود سے بھی ملتی ہیں۔
ابو القاسم محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب (12 ربیع الاول عام الفیل / 8 جون 570ء یا 571ء – 12 ربیع الاول 10ھ / 8 جون 632ء) مسلمانوں کے آخری نبی ہیں۔ اہل اسلام کے نزدیک محمد تمام مذاہب کے پیشواؤں سے کامیاب ترین پیشوا تھے۔ آپ کی کنیت ابوالقاسم تھی۔ مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ کی طرف سے انسانیت کی جانب بھیجے جانے والے انبیا اکرام کے سلسلے کے آخری نبی ہیں جن کو اللہ نے اپنے دین کی درست شکل انسانوں کی جانب آخری بار پہنچانے کیلئے دنیا میں بھیجا۔ انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دنیا کی تمام مذہبی شخصیات میں سب سے کامیاب شخصیت تھے۔
قرآن، قرآن مجید یا قرآن شریف (عربی: القرآن الكريم) دین اسلام کی مقدس و مرکزی کتاب ہے جس کے متعلق اسلام کے پیروکاروں کا اعتقاد ہے کہ وہ کلام الہی ہے اور اسی بنا پر یہ انتہائی محترم و قابل عظمت کتاب ہے۔ اسے پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی کے ذریعے اتارا گیا۔ یہ وحی اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتے حضرت جبرائیل علیہ السلام لاتے تھے جیسے جیسے قرآن مجید کی آیات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوتیں آپ صلی علیہ وآلہ وسلم اسے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو سنا اور ان آیات کے مطالب و معانی سمجھا دیتے۔ کچھ صحابہ کرام تو ان آیات کو وہیں یاد کر لیتے اور کچھ لکھ کر محفوظ کر لیتے۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن ہر قسم کی تحریف سے پاک سے محفوظ ہے، قرآن میں آج تک کوئی کمی بیشی نہیں ہو سکی اور اسے دنیا کی واحد محفوظ کتاب ہونے کی حیثیت حاصل ہے، جس کا حقیقی مفہوم تبدیل نہیں ہو سکا اور تمام دنیا میں کروڑوں کی تعداد میں چھپنے کے باوجود اس کا متن ایک جیسا ہے اور اس کی تلاوت عبادت ہے۔ نیز صحف ابراہیم، زبور اور تورات و انجیل کے بعد آسمانی کتابوں میں یہ سب سے آخری کتاب ہے اور سابقہ آسمانی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اب اس کے بعد کوئی آسمانی کتاب نازل نہیں ہوگی۔ قرآن کی فصاحت و بلاغت کے پیش نظر اسے لغوی و مذہبی لحاظ سے تمام عربی کتابوں میں اعلیٰ ترین مقام دیا گیا ہے۔ نیز عربی زبان و ادب اور اس کے نحوی و صرفی قواعد کی وحدت و ارتقا میں بھی قرآن کا خاصا اہم کردار دکھائی دیتا ہے۔ چنانچہ قرآن کے وضع کردہ عربی زبان کے قواعد بلند پایہ عرب محققین اور علمائے لغت مثلاً سیبویہ، ابو الاسود دویلی اور خلیل بن احمد فراہیدی وغیرہ کے یہاں بنیادی ماخذ سمجھے گئے ہیں۔
یہودیت میں شادی کو مرد و عورت کے درمیان کا ایک ایسا بندھن تصور کیا جاتا ہے جس میں خدا بذات خود شامل ہے۔ گوکہ ان کے یہاں شادی کا واحد مقصد افزائش نسل نہیں ہے لیکن اس عمل کو افزائش نسل کے ربانی حکم کے پورا کرنے کا ذریعہ بتایا گیا ہے۔ اسی مقصد کے پیش نظر جب مرد و عورت شادی کے رشتے میں منسلک ہوتے ہیں تو انہیں یک جان دو قالب سمجھا جاتا ہے۔ اگر کوئی یہودی مرد شادی نہ کرے تو تلمود کی نگاہ میں وہ ایک ”نامکمل“ مرد ہے۔ عصر حاضر میں بعض یہودی فرقے ہم جنسی کی شادی کو درست سمجھتے اور افزائش نسل کے مقصد کو کمتر خیال کرتے ہیں۔یہودیت کے ازدواجی نظام پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے یہاں عورت کا مقام نہایت پست ہے اور اس کی وجہ یہ نظریہ ہے کہ حوا نے آدم کو ممنوعہ پھل کھانے پر اکسایا اور اسی وجہ سے وہ جنت سے نکالے گئے۔ اور اسی بنا پر عورت کو مرد کی غلامی، حیض جیسی ناپاکی اور حمل کے درد کی سزا ملی۔ بائبل میں ہے:
سید احمد بن متقی خان (17 اکتوبر 1817ء – 27 مارچ 1898ء) المعروف سر سید انیسویں صدی کا ایک ہندوستانی مسلم نظریۂ عملیت کا حامل ، مصلح اور فلسفی تھے۔ سر سید احمد خان ایک نبیل گھرانے میں پیدا ہوئے جس کے مغل دربار کے ساتھ مضبوط تعلقات تھے ۔ سر سید نے قرآن اور سائنس کی تعلیم دربار میں ہی حاصل کی، جس کے بعد یونیورسٹی آف ایڈنبرا نے انہیں قانون میں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری عطا کی۔1838ء میں اس نے ایسٹ انڈیا کمپنی میں ملازمت اختیار کی اور 1867ء وہ چھوٹے مقدمات کے لیے جج مقرر کیے گئے۔ 1876ء میں وہ ملازمت سے مستعفی ہوئے۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے دوران میں وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا وفادار رہے اور یورپیوں کی جانیں بچانے میں اس کے کردار کی سلطنت برطانیہ کی طرف سے ستائش کی گئی۔بغاوت ختم ہونے کے بعد انہوں نے اسباب بغاوت ہند پر ایک رسالہ لکھا جس میں ہندوستان کی رعایا کو اور خاص کر مسلمانوں کو بغاوت کے الزام سے بری کیا۔ اس رسالہ کا فائدہ سلطنت برطانیہ کو ہوا جس نے اس کی بنیاد پر ایسٹ انڈیا کمپنی سے برصغیر کا تمام قبضہ لے لیا اور ہندوستان کے تمام معاملات براہ راست اپنے قبضہ میں لے لیے۔ مسلمانوں کے راسخ الاعتقاد طرز کو ان کے مستقبل کے لیے خطرہ سمجھتے ہوئے سرسید نے مغربی طرز کی سائنسی تعلیم کو فروغ دینے کے لیے جدید اسکولوں اور جرائد کا اجرا کیا اپنے کلامی مکتبِ فکر کی بنیاد ڈالی جو معتزلہ کے افکار کا چربہ تھا مگر اس کے کلامی نظریات مقبول نہ ہو سکے اس لیے صرف سائنسی علوم کی اشاعت تک محدود رہا۔
زلزلہ کشمیر 2019ء 24 ستمبر 2019ء کو پاکستان میں آزاد کشمیر کے تمام شہروں میں محسوس کیا جانے والا سال 2019ء کا سب سے بڑا زلزلہ تھا جس کی شدت ریکٹر اسکیل پر 5.6 تھی۔26 ستمبر کی اطلاعات کے مطابق اِس زلزلے سے ضلع میرپور میں 38 افراد جاں بحق اور 723 افراد زخمی ہوئے۔ علاوہ ازیں اِس زلزلے کو پاکستانی پنجاب، کشمیر، بھارت کے شمالی علاقوں بالخصوص اُترا کھنڈ، بھارتی پنجاب اور نئی دہلی میں بھی محسوس کیا گیا۔
آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین یا کل ہند مجلس اتحاد المسلمین (All India Majlis-e-Ittehad-ul Muslimeen or AIMIM) ایک مسلم سیاسی تنظیم ہے جس کی بنیاد اور تعلق شہر حیدرآباد سے ہے۔ یم۔ آئی۔ یم۔ پارٹی کے نام سے مشہور ہے۔ حیدرآباد پارلیمانی حلقہ کی سیٹ سنہ 1984 سے لے کر آج تک اسی کے حق میں آ رہی ہے۔ سابقہ ریاست آندھراپردیش کی اسمبلی میں بھی اس کی نمائندگی رہی ہے۔ 2009 کے آندھراپردیش اسمبلی انتخابات میں بھی اس کے 7 نشستیں رہی ہیں اور 2014 کے تلنگانا ریاستی اسمبلی انتخابات میں بھی اس کی 7 نشستیں ہیں۔ یہ ایک رجسٹرڈ پارٹی ہے لیکن اس کو ایلکشن کمیشن نے ریکاگنائز نہیں کیا ہے اس لیے کہ یہ پارٹی عوام میں اتنی مقبول نہیں ہے اور اہلیت نہیں رکھتی۔ یعنی کہ ایلیکشن کمیشن کے ہدایات کے مطابق اس کو اتنے ووٹ شیئر 6% نہیں ملے یا کم سے کم 9 نشستیں جیتنی چاہیے۔ جون 2014 میں ایلکشن کمیشن آف انڈیا نے اس پارٹی کو تلنگانا ریاست کی صوبائی پارٹی کا ریکاگنیشن دیا۔ اکتوبر 2014 میں مہاراشٹرا اسمبلی عام انتخابات میں 2 نشستیں جیت کر مہاراشٹرا اسمبلی میں قدم رکھا۔ پارٹی کے صدر اسدالدین اویسی کی پارلیمان میں خوش انگیز کارکردگیوں کی بنا پر انہیں پارلیمانی اعزاز “سنسد رتنا“ (جوہر پارلیمان) دیا گیا۔
ابو بکر صدیق عبد اللہ بن ابو قحافہ تیمی قریشی (پیدائش: 573ء— وفات: 22 اگست 634ء) پہلے خلیفہ راشد، عشرہ مبشرہ میں شامل، پیغمبر اسلام کے وزیر، صحابی و خسر اور ہجرت مدینہ کے وقت رفیق سفر تھے۔ اہل سنت و الجماعت کے یہاں ابو بکر صدیق انبیا اور رسولوں کے بعد انسانوں میں سب سے بہتر، صحابہ میں ایمان و زہد کے لحاظ سے سب سے برتر اور ام المومنین عائشہ بنت ابی بکر کے بعد پیغمبر اسلام کے محبوب تر تھے۔ عموماً ان کی کنیت "ابو بکر" کے ساتھ صدیق کا لقب لگایا جاتا جسے ابو بکر صدیق کی تصدیق و تائید کی بنا پر پیغمبر اسلام نے دیا تھا۔
یہودیت توحیدی اور ابراہیمی ادیان میں سے ایک دين ہے جس كے تابعين اسلام ميں قومِ نبی موسیٰ يا بنی اسرائيل کہلاتے ہيں مگر تاريخی مطالعہ ميں یہ دونوں نام اس عصر اور اس قوم كے لیے منتخب ہيں جس كا تورات كے جز خروج (Exodus) ميں ذكر ہے۔ اس كے مطابق بنی اسرائيل كو فرعون كی غلامی سے نبی موسٰی نے آزاد كيا اور بحيرہ احمر پار كر کے جزيرہ نمائے سینا لے آئے۔
فحش فلم، بالغ فلم، جنسی فلم، ننگی فلم، گندی فلم، عریاں فلم، ٹرپل یا ٹرپل ایکس فلم ایک ایسی فلم کو کہتے ہیں جس ميں جنسی تصورات کو ناظرین کی جنسی تحریک اور شہوانی لطف کے لیے دکھایا جاتا ہے۔ ایسی فلموں میں شہوانی ترغیب والا مواد دکھایا جاتا ہے جیسا کہ عریانی اور کھلے عام جنسی اعمال وغیرہ۔ فحش فلموں کی صنعت کے کارکن اسے بالغ فلمیں یا بالغ صنعت کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ برصغیر میں بالغ فلم کو بلیو فلم بھی کہا جاتا ہے۔ فحش فلموں کو بلیو پرنٹ یا بلیو پرنٹ فلمیں کہنا ایک غلط العام ہے۔ بلیو پرنٹ کا اصل مطلب ہے تکنیکی نقشہ۔
ابو حفص عمر بن خطاب عدوی قرشی ملقب بہ فاروق (پیدائش: 586ء تا 590ء کے درمیان مکہ میں- وفات: 6 نومبر، 644ء مدینہ میں) ابو بکر صدیق کے بعد مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ راشد، محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خسر اور تاریخ اسلام کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک ہیں۔ عمر بن خطاب عشرہ مبشرہ میں سے ہیں، ان کا شمار علما و زاہدین صحابہ میں ہوتا تھا۔ ابو بکر صدیق کی وفات کے بعد 23 اگست سنہ 634ء مطابق 22 جمادی الثانی سنہ 13ھ کو مسند خلافت سنبھالی۔ عمر بن خطاب ایک باعظمت، انصاف پسند اور عادل حکمران مشہور ہیں، ان کی عدالت میں مسلم و غیر مسلم دونوں کو یکساں انصاف ملا کرتا تھا، عمر بن خطاب کا یہ عدل و انصاف انتہائی مشہور ہوا اور ان کے لقب فاروق کی دیگر وجوہ تسمیہ میں ایک وجہ یہ بھی بنی۔
اردو زبان کی ابتدا کے متعلق نظریات
اردو کی ابتدا و آغاز کے بارے میں کئی مختلف و متضاد نظریات ملتے ہیں یہ آپس میں اس حد تک متضاد ہیں کہ ایک انسان چکرا کر رہ جاتا ہے۔ ان مشہور نظریات میں ایک بات مشترک ہے کہ ان میں اردو کی ابتدا کی بنیاد برصغیر پاک و ہند میں مسلمان فاتحین کی آمد پر رکھی گئی ہے۔ اور بنیادی استدلال یہ ہے کہ اردو زبان کا آغاز مسلمان فاتحین کی ہند میں آمد اور مقامی لوگوں سے میل جول اور مقامی زبان پر اثرات و تاثر سے ہوا۔ اور ایک نئی زبان معرض وجود میں آئی جو بعد میں اردو کہلائی۔ کچھ ماہرین لسانیات نے اردو کی ابتدا کا سراغ قدیم آریائوں کے زمانے میں لگانے کی کوشش کی ہے۔ بہر طور اردو زبان کی ابتدا کے بارے میں کوئی حتمی بات کہنا ذرا مشکل ہے۔ اردو زبان کے محققین اگرچہ اس بات پر متفق ہیں کہ اردو کی ابتدا مسلمانوں کی آمد کے بعد ہوئی لیکن مقام اور نوعیت کے تعین اور نتائج کے استخراج میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس انداز سے اگر اردو کے متعلق نظریات کو دیکھا جائے تو وہ نمایاں طور پر چار مختلف نظریات کی شکل میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔
نکاح متعہ (عربی : نكاح المتعة ) جسے عرف عام میں متعہ یا صیغہ کہا جاتا ہے؛ ولی (شہادت) کی موجودگی یا غیر موجودگی میں ہونے والا ایک ایسا نکاح ہے جس کی مدت (ایک روز، چند روز، ماہ، سال یا کئی سال) معین ہوتی ہے جو فریقین خود طے کرتے ہیں اور اس مدت کے اختتام پر خود بخود علیحدگی ہو جاتی ہے یا اگر مرد باقی ماندہ مدت بخش دے تب بھی عورت نکاح سے آزاد ہو جاتی ہے مگر ہر صورت میں عدت اپنی شرائط کے ساتھ پوری کرنی پڑتی ہے ؛ اور اولاد انہیں والدین سے منسوب ہو تی ہے؛ اگر فریقین چاہیں تو مدتِ اختتامِ متعہ پر علیحدگی کی بجائے اسے جاری (یا مستقل) بھی کر سکتے ہیں۔ یہ نکاح ابتدا سے اسلام میں متعدد بار جائز ہوا اور اس سے روکا گیا پھر جائز ہوا۔ تاریخی اعتبار سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات سے چند سال قبل تک اس کی موجودگی پر سنی بھی اور شیعہ بھی دونوں اتفاق کرتے ہیں۔ یعنی اس کا اصل میں حلال ہونا مسلم اور مورد اتفاق ہے مگر اکثر شیعہ اور سنی نیز دیگر فرقے اس کے حلیت باقی رہنے یا حرام ہوجانے کے بارے میں مختلف نظریات رکھتے ہیں۔
محمد علی جناح پیدائشی نام، محمد علی جناح بھائی، 25 دسمبر 1876ء – 11 ستمبر 1948ء) کے نامور وکیل، سیاست دان اور بانی پاکستان تھے۔ محمد علی جناح 1913ء سے لے کر پاکستان کی آزادی 14 اگست 1947ء تک آل انڈیا مسلم لیگ کے سربراہ رہے، پھر قیام پاکستان کے بعد اپنی وفات تک، وہ ملک کے پہلے گورنر جنرل رہے۔ سرکاری طور پر پاکستان میں آپ کو قائدِ اعظم یعنی سب سے عظیم رہبر اور بابائے قوم یعنی قوم کا باپ بھی کہا جاتا ہے۔ جناح کا یومِ پیدائش پاکستان میں قومی تعطیل کے طور پر منایا جاتا ہے۔کراچی کے پیدائشی اور لنکن ان سے بیرسٹری کی تربیت حاصل کرنے والے جناح، بیسویں صدی کے ابتدائی دو عشروں میں آل انڈیا کانگریس کے اہم رہنما کے طور پر ابھرے۔ اپنی سیاست کے ابتدائی ادوار میں انہوں نے ہندو مسلم اتحاد کے لیے کام کیا۔ 1916ء میں آل انڈیا مسلم لیگ اور آل انڈیا کانگریس کے مابین ہونے والے میثاق لکھنؤ کو مرتب کرنے میں بھی انہوں نے اہم کردار ادا کیا۔ جناح آل انڈیا ہوم رول لیگ کے اہم رہنماوں میں سے تھے، انہوں نے چودہ نکات بھی پیش کیے، جن کا مقصد ہندوستان کے مسلمانوں کے سیاسی حقوق کا تحفظ کرنا تھا۔ بہر کیف جناح 1920ء میں آل انڈیا کانگریس سے مستعفی ہو گئے، جس کی وجہ آل انڈیا کانگریس کے موہن داس گاندھی کی قیادت میں ستیاگرا کی مہم چلانے کا فیصلہ تھا۔1940ء تک جناح کو یہ یقین ہو چلا تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک علاحدہ وطن کی جدوجہد کرنی چاہیے۔ اسی سال، مسلم لیگ نے جناح کی قیادت میں قرارداد پاکستان منظور کی جس کا مقصد نئی مملکت کی قیام کا مطالبہ تھا۔دوسری جنگ عظیم کے دوران، آل انڈیا مسلم لیگ نے مضبوطی پکڑلی جبکہ ان ادوار میں کانگریس کے کئی رہنما قید کاٹ رہے تھے اور جنگ کے ختم ہونے کے مختصر عرصے میں ہی انتخابات کا انعقاد ہوا، جس میں جناح کی جماعت نے مسلمانوں کے لیے مختص نشستوں میں سے بڑی تعداد جیت لی۔ اس کے بعد آل انڈیا کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ متحدہ ہندوستان میں اختیارات کے توازن کے لیے کسی صیغے پر متفق نا ہو سکے نتیجتاً تمام جماعتیں اس امر پر متفق ہوگئیں کہ ہندوستان کے دو حصے کیے جائیں جن میں ایک مسلم اکثریتی علاقوں میں پاکستان جبکہ باقی ماندہ علاقوں میں بھارت کا قیام ہو۔پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کے طور پر جناح نے اپنی حکومتی پالیسیوں کے قیام کے لیے کام کیا نیز انہوں نے ان لاکھوں لوگوں کے بہبود اور آباد کاری کے لیے بھی کام کیا جو تقسیم ہند کے بعد پاکستان کی جانب ہجرت کر چلے تھے، انہوں نے ان مہاجر کیمپوں کی ذاتی طور پر دیکھ بھال کی۔ جناح 71 سال کے عمر میں انتقال کر گئے جبکہ ان کے نوزائیدہ ملک کو سلطنت برطانیہ سے آزاد ہوئے محض ایک سال کا عرصہ ہوا تھا۔ ان کی سوانح عمری لکھنے والے لکھاری،اسٹینلی وولپرٹ لکھتے ہیں کہ، وہ (یعنی جناح) پاکستان کے عظیم ترین رہنما رہیں گے۔
صوبہ پنجاب، آزاد کشمیر اور خیبر پختونخوا میں 7.6ریکٹر اسکیل کی شدت سے آنے والا زلزلہ پاکستان کی تاریخ کا بدترین اور 2005ء میں دنیا کا چوتھا بڑازلزلہ تھا۔ جب کہ اس سے قبل دسمبر 2004ء میں 9.0ریکٹر اسکیل کی شدت سے انڈونیشیا کے زیر سمندر زلزلے کے باعث اٹھنے والی سونامی کی لہر کے نتیجے میں لاکھوں ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ جب کہ ایران کے شہر بام میں 2003ء میں زلزلے سے 30ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس کی شدت 6.7تھی۔ جنوری 2001میں بھارتی صوبے گجرات میں 20ہزار افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ جون 1990ء میں شمال مغربی ایران میں زلزلے کے نتیجے میں 40ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔ جبکہ جولائی 1976ء میں چین میں آنے والے زلزلے سے ڈھائی لاکھ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس سے قبل مئی 1970میں پیرو کے شہر ماونٹ ہواسکاران میں زلزلے اور مٹی کے تودے گرنے سے 70ہزار افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔ اسی طرح دسمبر 1939ء میں ترکی کے شہر ایر زنکن میں تقریباً 40ہزار ہلاکتیں ہوئیں۔ جبکہ 1935میں کوئٹہ میں آنے والے زلزلے سے 50ہزار افراد ہلاک ہو گئے تھے۔1927ء میں چین میں زلزلے کی تباہی سے 80ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ چین ہی میں 1927میں ایک اور زلزلے میں دولاکھ افراد ہلاک ہو گئے۔1923ء میں جاپان کے شہر اوکلا ہوما میں زلزلے نے ایک لاکھ 40ہزار افراد کو موت کی نیند سلا دیا۔ جب کہ چین ہی میں 1920میں آنے والے ایک زلزلے سے 2لاکھ 35ہزار افراد ہلاک ہو گئے تھے۔1908میں اٹلی میں ایک زلزلہ آیا جس نے 83ہزار افراد کو ہلاک کر دیا۔ بھارتی محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر نے کہا کہ ہفتہ کے روز آنے والا شدید زلزلہ مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ 120 سال کے دوران آنے والا شدید ترین زلزلہ تھا۔
امام احمد رضا خان (14 جون 1856ء – 28 اکتوبر 1921ء) بیسویں صدی عیسوی کے ممتاز سنی کے نامور حنفی فقہیہ، محدث، اصولی، نعت گو شاعر، علوم نقلیہ وعقلیہ کے ماہر، سلسلہ قادریہ کے شیخ، عربی، فارسی اور اردو کی کثیر کتابوں کے مصنف جن میں مشہور ترجمہ قرآن کنزالایمان، فتاوی کا مجموعہ فتاویٰ رضویہ اور نعتیہ دیوان حدائق بخشش مشہور ہیں۔ احمد رضا خان نے شدت سے تقلید اور حنفیت کا دفاع کیا سلسلۂ حدیث میں شاہ ولی اللہ اور عبد الحق محدث دہلوی سے استفادہ کیا اور فقہ میں سند اجازت شیخ عبد الرحمن حنقی مکی سے حاصل کی، جن کا سلسلہ عبد اللہ بن مسعود تک پہنچتا ہے۔ احمد رضا خان نے دو قومی نظریہ کا پرچار کیا اور کسی بھی سطح پر ہندو مسلم اتحاد کو رد کیا، تحریک ترک موالات اور تحریک خلافت میں مسلمانوں کو متنبہ کیا کہ ان تحریکوں میں مسلم ہندو اتحاد کا نعرہ لگایا جا رہا ہے جو شرع حیثیت سے ناجائز ہے۔ عورتوں کی ضروری دینی تعلیم کی سختی سے تلقین کی، عورتوں کے زیارت قبور کے لیے گھر سے نکلنے کے مسئلے پر ممانعت کا فتوی دیا۔کثرت سے فقہی مسائل پر رسائل اور عقائد و اعمال کی اصلاح کے لیے کتابیں تصنیف کیں، ریاضی اور فلکیات کے علاوہ سائنس کے دیگر کئی موضوعات پر علمی اور مذہبی نکتہ نظر سے اپنی آرا پیش کیں۔ بریلی میں منظر اسلام کے نام سے اسلامی جامعہ قائم کی، بریلوی مکتب فکر کو متعارف کروایا، جس کی وجہ شہرت عشق رسول میں شدت اور تصوف کی طرف مائل ہونا ہے۔ احمد رضا خان کو اعلیٰ حضرت، امام اہلسنت اور حسان الہند جیسے القابات سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں ہر سال 25 صفر کو یوم رضا کے نام سے احمد رضا خان کا عرس کیا جاتا ہے۔
کِرِسْمَس، بڑا دن، جشن ولادت مسیح، عید ولادت مسیح اور عید ولادت خداوند مسیحیت میں ایسٹر کے بعد سب سے اہم تہوار سمجھا جاتا ہے، اس تہوار کے موقع پر یسوع مسیح کی ولادت کی سالگرہ منائی جاتی ہے۔ گریگوری تقویم کے مطابق 24 دسمبر کی رات سے کرسمس کی ابتدا ہوتی ہے اور 25 دسمبر کی شام کو ختم ہوتا ہے جبکہ جولینی تقویم کے پیروکار اہل کلیسیا کے ہاں 6 جنوری کی رات سے شروع ہو کر 7 جنوری کی شام کو ختم ہوتا ہے۔ گوکہ بائبل ولادت مسیح کی تاریخ کے ذکر سے یکسر خاموش ہے تاہم آبائے کلیسیا نے 325ء میں منعقدہ نیقیہ کونسل میں اس تاریخ کو ولادت مسیح کا دن قرار دیا۔ عموماً یہ خیال کیا جاتا تھا کہ ولادت کا وقت نصف شب کو رہا ہوگا، پھر پوپ پائیس یازدہم نے کاتھولک کلیسیا میں سنہ 1921ء میں نصف شب کی ولادت کو باقاعدہ تسلیم کر لیا۔ کہا جاتا ہے کہ مسیحیت سے قبل بھی روم میں 25 دسمبر کو آفتاب پرستوں کا تہوار ہوا کرتا تھا چنانچہ ولادت مسیح کی حقیقی تاریخ کا علم نہ ہونے کی بنا پر آبائے کلیسیا نے یسوع مسیح کو "عہد جدید کا سورج" اور "دنیا کا نور" خیال کرتے ہوئے اس تہوار کو یوم ولادت تسلیم کر لیا۔ کرسمس کو "عشرہ کرسمس" کا ایک حصہ خیال کیا جاتا ہے، عشرہ کرسمس اس عرصے کو کہتے ہیں جس میں اس یادگار سے جڑے دیگر واقعات مثلاﹰ بشارت ولادت، ولادت یوحنا اصطباغی اور ختنہ مسیح وغیرہ پیش آئے۔ چنانچہ اس پورے عرصے میں گرجا گھروں میں ان تمام واقعات کا ذکر ہوتا ہے۔
افغانستان وسط ایشیا اور جنوبی ایشیا میں واقع ایک زمین بند ملک ہے۔ Dari: Afġānestān [avɣɒnesˈtɒn])، جس کا سرکاری نام اسلامی جمہوریہ افغانستان ہے۔ اس کے جنوب اور مشرق میں پاکستان، مغرب میں ایران، شمال مشرق میں چین، شمال میں ترکمانستان، ازبکستان اور تاجکستان ہیں۔ اردگرد کے تمام ممالک سے افغانستان کے تاریخی، مذہبی اور ثقافتی تعلق بہت گہرا ہے۔ اس کے بیشتر لوگ مسلمان ہیں۔ یہ ملک بالترتیب ایرانیوں، یونانیوں، عربوں، ترکوں، منگولوں، برطانیوں، روسیوں اور اب امریکہ کے قبضے میں رہا ہے۔ مگر اس کے لوگ بیرونی قبضہ کے خلاف ہمیشہ مزاحمت کرتے رہے ہیں۔ ایک ملک کے طور پر اٹھارویں صدی کے وسط میں احمد شاہ ابدالی کے دور میں یہ ابھرا اگرچہ بعد میں درانی کی سلطنت کے کافی حصے اردگرد کے ممالک کے حصے بن گئے۔ 1919ء میں شاہ امان اللہ خان کی قیادت میں انگریزوں سے افغانستان کی آزادی حاصل کی۔ جس کے بعد افغانستان صحیح معنوں میں ایک ملک بن گیا۔ مگر انگریزوں کے دور میں اس کے بیشتر علاقے حقیقت میں آزاد ہی تھے اور برطانیہ کبھی اس پر مکمل قبضہ نہیں رکھ سکا۔ آج افغانستان امریکی قبضہ میں ہے اور بظاہر ایک آزاد ملک اور حکومت کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ افغانستان پچھلے پینتیس سال سے مسلسل جنگ کی سی حالت میں ہے جس نے اس کو تباہ کر دیا ہے اور اس کی کئی نسلوں کو بے گھر کر دیا ہے۔ یہ تباہی کبھی غیروں کے ہاتھوں ہوئی اور کبھی خانہ جنگی سے یہ صورت حال پیدا ہوئی۔ اگرچہ افغانستان کے پاس تیل یا دوسرے وسائل کی کمی ہے مگر اس کی جغرافیائی حیثیت ایسی ہے کہ وہ وسطی ایشیاء، جنوبی ایشیاء اور مشرقِ وسطیٰ کے درمیان میں ہے اور تینوں خطوں سے ہمیشہ اس کے نسلی، مذہبی اور ثقافتی تعلق رہا ہے اور جنگی لحاظ سے اور علاقے میں اپنا دباؤ رکھنے کے لیے ہمیشہ اہم رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ استعماری طاقتوں نے ہمیشہ اس پر اپنا قبضہ یا اثر رکھنے کی کوشش کی ہے۔ افغانستان کا زیادہ رقبہ پتھریلا پہاڑی علاقہ ہے اس وجہ سے کسی بھی بیرونی طاقت کا یہاں قبضہ رکھنا مشکل ہے اور لوگ زیادہ تر قبائلی ہیں اس لیے کبھی بیرونی طاقتوں کو تسلیم نہیں کرتے، نتیجہ یہ کہ اس ملک کو کبھی بھی لمبے عرصے کے لیے امن نصیب نہیں ہو سکا۔
نجم الدولہ، دبیر الملک، مرزا نوشہ اسد اللہ خان غالب بہادر نظام جنگ (1797ء- 1869ء) اردو زبان کے سب سے بڑے شاعروں میں ایک سمجھے جاتے ہیں۔ یہ تسلیم شدہ بات ہے کہ 19 ویں صدی غالب کی صدی ہے۔ جبکہ 18 ویں میر تقی میر کی تھی اور 20 ویں علامہ اقبال کی۔ غالب کی عظمت کا راز صرف ان کی شاعری کے حسن اور بیان کی خوبی ہی میں نہیں ہے۔ ان کاا صل کمال یہ ہے کہ وہ ز ندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کو گہرائی میں جاکر سمجھتے تھے اور بڑی سادگی سے عام لوگوں کے لیے بیان کردیتے تھے۔ غالب جس پر آشوب دور میں پیدا ہوئے اس میں انہوں نے مسلمانوں کی ایک عظیم سلطنت کو برباد ہوتے ہوئے اور باہر سے آئی ہوئی انگریز قوم کو ملک کے اقتدار پر چھاتے ہوئے دیکھا۔ غالباً یہی وہ پس منظر ہے جس نے ان کی نظر میں گہرائی اور فکر میں وسعت پیدا کی۔
ذیل میں اردو کے ان محاوروں کی فہرست بلحاظ حروف تہجی درج ہے جو کثیر الاستعمال ہیں۔ محاورے دوسرے الفاظ میں کسی بھی زبان میں سینہ بسینہ منتقل ہونے والے وہ جملے یا کہاوتیں ہوتی ہیں جو ضرب المثل بن جاتی ہیں اور انھیں گفتگو کے دوران خصوصی موقع پر استعمال کیا جاتا ہے۔ محاوروں کا برمحل استعمال گفتگو میں دلچسپی اور روح پیدا کر دیتا ہے، چونکہ محاورے کسی بھی صورت حال کو چند الفاظ میں بیان کر دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں اس لیے بسا اوقات طویل جملوں اور نصائح سے زیادہ موثر ثابت ہوتے ہیں۔ اردو زبان کے محاورے اس کا سب سے دلچسپ حصہ سمجھے جاتے ہیں۔
شاعری (Poetry) کا مادہ "شعر" ہے اس کے معانی کسی چیز کے جاننے پہچاننے اور واقفیت کے ہیں۔ لیکن اصطلاحاً شعر اس کلامِ موزوں کو کہتے ہیں جو قصداً کہا جائے۔ یہ کلام موزوں جذبات اور احساسات کے تابع ہوتا ہے۔ اور کسی واقعہ کی طرف جاننے کا اشارہ کرتا ہے۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ آپ نے کوئی حادثہ دیکھا ہو اور وہ آپ کے دل پر اثر کر گیا ہو اور آپ کے اندر سے خود بخود الفاظ کی صورت میں ادا ہو جائے اس اثر کے بیان کو شعر کہتے ہیں اور انہی شعروں کو شاعری کے نام سے جانا جاتا ہے۔
خلافت راشدہ کے خاتمے کے بعد عربوں کی قائم کردہ دو عظیم ترین سلطنتوں میں سے دوسری سلطنت خلافت عباسیہ کہلاتی ہے۔ خلافت عباسیہ مذہب ابن عباس کے مطیع ان علما و مشائخ و فقہا و مجتہدین عظام نے رکھوائی جن کی اکثریت فارسی النسل علما و مشائخ و فقہا و مجتہدین عظام پر مشتمل تھی۔ خلافت عباسیہ فقہ عباسیہ کے دو فقیہہ بھائیوں امام سفاح عباسی رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابوجعفر منصور عباسی رحمۃ اللہ علیہ نے خلافت عباسیہ قائم کی جس کا قیام 750ء (132ھ) میں عمل میں آیا اور 1258ء (656ھ) میں اس کا خاتمہ ہو گیا۔ یہ خلافت ایک تحریک کے ذریعے قائم ہوئی جو بنو امیہ کے خلاف تھی۔ تحریک نے ایک عرصے تک اپنے مقاصد کے حصول کے لیے جدوجہد کی اور بالآخر بنو امیہ کو شکست دینے کے بعد بر سر اقتدار آگئی۔
اسلام ایک توحیدی مذہب ہے جو اللہ کی طرف سے آخری رسول و نبی، محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ذریعے انسانوں تک پہنچائی گئی آخری الہامی کتاب (قرآن مجيد) کی تعلیمات پر قائم ہے۔ یعنی دنیاوی اعتبار سے بھی اور دینی اعتبار سے بھی اسلام (اور مسلم نظریے کے مطابق گذشتہ ادیان کی اصلاح) کا آغاز، 610ء تا 632ء تک 23 سال پر محیط عرصے میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اللہ کی طرف سے اترنے والے الہام (قرآن) سے ہوتا ہے۔ قرآن عربی زبان میں نازل ہوا (برائے وجہ : اللسان القرآن) اور اسی زبان میں دنیا کی کل آبادی کا کوئی 24% حصہ یعنی لگ بھگ 1.6 تا 1.8 ارب افراد اس کو پڑھتے ہیں ؛ ان میں (مختلف ذرائع کے مطابق) قریباً 20 تا 30 کروڑ ہی وہ ہیں جن کی مادری زبان عربی ہے جبکہ 70 تا 80 کروڑ، غیر عرب یا عجمی ہیں جن کی مادری زبان عربی کے سوا کوئی اور ہوتی ہے۔ متعدد شخصی ماخذ سے اپنی موجودہ شکل میں آنے والی دیگر الہامی کتابوں کے برعکس، بوسیلۂ وحی، فردِ واحد (محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے منہ سے ادا ہوکر لکھی جانے والی کتاب اور اس کتاب پر عمل پیرا ہونے کی راہنمائی فراہم کرنے والی شریعت ہی دو ایسے وسائل ہیں جن کو اسلام کی معلومات کا منبع قرار دیا جاتا ہے۔
مذکر: نر اسم ہوتا ہے جیسےمرد، باپ، بیل، بیٹا جبکہ مونث: مادہ اسم ہوتا ہے جیسے عورت، ماں، گائے، بیٹی بے جان اسماء میں نر اور مادہ کا کوئی فرق نہیں ہوتا اس لیے ان کی تذکیر و تانیث کا تمام تر درارومدار اہل زبان پر ہوتا ہے جیسے قلم کو اہل زبان مذکر بولتے ہیں اور گیند کو مونث اسی لیے ایسے اسماء کی تذکیر و تانیث کو غیر حقیقی تذکیر و تانیث کہا جاتا ہے۔ جبکہ حقیقی تذکیر و تانیث وہ ہوتی ہے جس میں نر کے مقابلے میں مادہ اور مادہ کے مقابلے میں نر ہو جانداروں میں کیونکہ قدرتی طور پر نر اور مادہ کا فرق موجود ہوتا ہے اس لیے اس لیے ان کی تذکیرو تانیث حقیقی ہوتی ہے جیسے مرد، عورت۔ بیل، گائے وغیرہ
سیدہ عائشہ بنت ابی بکر (رضی اللہ عنہا) (پیدائش: 614ء– وفات: 13 جولائی 678ء) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ ہیں۔ آپ کو اُم المومنین کے خطاب سے یاد کیا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد عہد خلفائے راشدین میں آپ کی شخصیت بہت نمایاں نظر آتی ہے۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد 47 سال بقید حیات رہیں اور یہ تمام وہ عرصہ ہے جس میں ابتدائی مسلم فتوحات ہوئیں، مختلف ممالک مملکت اسلامیہ میں داخل ہوئے۔ علم الحدیث میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایات کے بعد سب سے زیادہ روایاتِ حدیث کا ذخیرہ آپ سے ہی روایت کیا گیا ہے۔ آپ عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور عہد خلفائے راشدین کی عینی شاہد بھی تھیں اور مزید برآں آپ نے خلافت امویہ کے ابتدائی 17 سال بھی ملاحظہ فرمائے۔ سنہ 678ء میں آپ کا اِنتقال مدینہ منورہ میں ہوا۔ آپ کے مناقب و فضائل کثیر ہیں جن سے آپ کی عظمت و شان جلالت مسلم خواتین پر نمایاں ہے۔
رومانوی تحریک کو عموماً سرسید احمد خان کی علی گڑھ تحریک کا رد عمل قرار دیا جاتا ہے۔ کیونکہ سرسید احمد خان کی تحریک ایک اصلاحی تحریک تھی۔ یہ دور تہذیب الاخلاق کا دور تھا اور تہذیب الاخلاق کی نثر عقلیت، منطقیت، استدلال اور معنویت کی حامل تھی۔ مزید برآں تہذیب الاخلاق کا ادب مذہبی، اخلاقی، تہذیبی اور تمدنی قدروں کو وقعت کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ اس جذبے اور احساس کے خلاف رومانی نوعیت کا رد عمل شروع ہوا اور جذبے اور تخیل کی وہ رو جسے علی گڑھ تحریک نے روکنے کی کوشش کی تھی ابھرے بغیر نہ رہ سکی۔ لیکن اس سے قبل کہ رومانیت یا رومانوی تحریک کے بارے میں پڑھیں، ہم یہ دیکھ لیں کہ رومانیت سے کیا مراد ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن پاکستان کے مذہبی سیاسی جماعت جمعیت علماء اسلام (ف) گروپ کے مرکزی امیر اور اسی جماعت کے سابق سربراہ اور صوبہ خیبر پختونخوا کے سابق وزیر اعلیٰ مولانا مفتی محمود کے صاحبزادے ہیں۔ آج کل پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے اتحادی ہیں جبکہ اسی حکومت میں بطور رکن قومی اسمبلی کشمیر کمیٹی کے چیئرمین بھی ہیں۔ اہل سنت کے مدرسہ دیوبند کے پیروکار ہونے کے باعث وہ دیوبندی حنفی کہلاتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان کے پاکستان میں لاکھوں عقیدت مند ہیں جو انکو دیوانہ وار چاہتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان کی جما عت جمعیت علما اسلام (ف) پاکستان کے صوبوں خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بہت اثر ورسوخ رکھتی ہے۔ بلوچستان میں ہمیشہ ان کی جماعت کے بغیر کوئی پارٹی حکومت نہیں بنا سکی ہے۔ اور خیبر پختونخوامیں بھی اس وقت اپوزیشن لیڈر جمعیت علما اسلام (ف) کے جناب مولانا لطف الرحمن ہیں جو مولانا فضل الرحمن کے چھوٹے بھائی ہیں جبکہ سینٹ میں ڈپٹی چیئرمین مولانا عبد الغفور حیدری بھی جمعیت علمائے اسلام ہی کے ہیں جو جماعت کے مرکزی جنرل سیکرٹری بھی ہیں مولانا فضل الرحمٰن اسلام کے سخت پابند اور حمایتی ہیں۔ انہوں نے مشہور تحریک ایم آر ڈی میں قائدانہ کردار ادا کیا جو جنرل ضیاءالحق کے خلاف تھی جن میں ان کے ساتھ پیپلزپارٹی شریک تھی جس کی پاداش وہ 2 سال تک جیل میں بھی رہے ان کا کردار حکومت کی بائیں بازو کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی میں 1992ء میں بڑھ گیا اور جموں و کشمیر اور افغانستان کے متعلق علاقائی پالیسی میں اپنا کردار موؑثر طور پر ادا کیا۔ وہ 1988ء میں قومی سطح کی سیاست میں آئے اور پہلی بار قومی اسمبلی کے ارکان بنے۔ مولانا فضل الرحمٰن 19 جون، 1953ء کو ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے عبد الخیل میں پیدا ہوئے۔ مولانا صاحب نے اپنی ابتدائی تعلیم ایک مقامی دینی مدرسے میں حاصل کی۔ اس کے بعد انہوں نے جامعہ پشاور سے 1983ء میں اسلامک اسٹڈیز میں بی۔ اے کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔ اس کے بعد وہ مصر کے جامعہ الاظہرمیں تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے گئے اور وہاں سے ایم۔ اے کا امتحان پاس کیا۔ وہاں انہوں نے مذہبی علم ذات میں تعلیم حاصل کی اور اسی صنف میں تحقیق کی -انہوں نے الاظہر یونیورسٹی سی ایم۔ اے کی سند حاصل کی۔ پاکستان واپسی پر انہوں نے 1988ء کے عام انتخابات میں حصہ لیا۔ انہوں نے 1988ء کے انتخابات جمعیت علما اسلام (ف) کے پلیٹ فارم سے لڑے تھے جو ایک اسلامی بنیاد رکھنے والی پارٹی ہے۔ بےنظیر بھٹو کے دور میں مولانا فضل الرحمن خارجہ کمیٹی کی سربراہ رہے۔ 2013ء کے انتخابات میں بھی اپنے حلقہ سے کامیابی ہوئ نواز شریف کے درخواست پر وفاقی حکومت میں شریک جبکہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں حزب اختلاف میں ہیں۔ مولانا فضل الرحمان کے سعودی عرب کے ساتھ بھتر تعلقات ہیں یھی وجہ ہے کہ امام الحرمین جب بھی پاکستان تشریف لاتے ہیں تو ان کی مھمان نوازی ضرور قبول کرتے ہیں بین الاقوامی سطح پر مولانا فضل الرحمان کی رائے کو ایک مقام حاصل ہے اس کا اندازہ آپ اس سے لگاسکتے ہیں کہ اقوام متحدہ میں ان کی رائے کو رجسٹرڈ کیا جاتا ہے۔ بیرون ممالک میں مولانا فضل الرحمان کے چاہنے والے کثیر تعداد میں ہیں .
واحد کا مفہوم (انگریزی: Meaning of Singular) ایک شخص یا ایک چیز کو واحد کہا جاتا ہے۔ یا واحد وہ اسم ہوتا ہے جو ایک شخص یا چیز کو ظاہر کرے۔ مثلاﹰ کتاب، لڑکا، مسجد، استاد، فوج، بلی، شجر، میز، کرسی، وغیرہ۔ جبکہ جمع ایک سے زیادہ شخصوں یا چیزوں کو جمع کہتے ہیں۔ یا جمع وہ اسم ہوتا ہے جو ایک سے زیادہ اشخاص یا اسماء کو ظاہر کرے۔ مثلاً کُتب، لڑکے، مساجد، اساتذہ، افواج، بلیاں، اشجار، میزیں، کرسیاں وغیرہ
برصغیر پاک و ہند میں 1857ء کی ناکام جنگ آزادی اور سقوطِ دہلی کے بعد مسلمانان برصغیر کی فلاح بہودکی ترقی کے لیے جو کوششیں کی گئیں، عرف عام میں وہ ”علی گڑھ تحریک “ کے نام سے مشہور ہوئیں۔ سر سید نے اس تحریک کا آغاز جنگ آزادی سے ایک طرح سے پہلے سے ہی کر دیا تھا۔ غازی پور میں سائنٹفک سوسائٹی کا قیام اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔ لیکن جنگ آزادی نے سرسید کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کیے اور ان ہی واقعات نے علی گڑھ تحریک کو بارآور کرنے میں بڑی مدد دی۔ لیکن یہ پیش قدمی اضطراری نہ تھی بلکہ اس کے پس پشت بہت سے عوامل کارفرما تھے۔ مثلاً راجا رم موہن رائے کی تحریک نے بھی ان پر گہرا اثر چھوڑا۔
لاہور (پنجابی: لہور، شاہ مکھی: ਲਹੌਰ؛ عربی: لاهور؛ فارسی: لاهور؛ انگریزی: Lahore) صوبہ پنجاب، پاکستان کا دار الحکومت اور دوسرا بڑا شہر ہے۔ اسے پاکستان کا ثقافتی، تعلیمی اور تاریخی مرکز اور پاکستان کا دل اور باغوں کا شہر کہا جاتا ہے۔ یہ شہر دریائے راوی کے کنارے واقع ہے۔ اس شہر کی آبادی ایک کروڑ کے قریب ہے اور یہ ملک کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ لاہور کا شمار دنیا کے قدیم اور اہم ترین شہروں میں کیا جاتا ہے۔ زندہ دلان لاہور کے روایتی جوش و جذبے کے باعث اسے بجا طور پر پاکستان کا دل کہا جاتا ہے۔ مغل شہنشاہ جہانگیر کی ملکہ نورجہاں نے لاہور کے بارے میں کہا تھا۔
اسدالدین اویسی حیدرآباد، دکن، آندھراپردیش کے دار الحکومت میں 13 مئی 1969 میں پیدا ہوئے۔ اسد الدین ہندوستان کی قومی سیا سی جماعت کل ہند مجلس اتحاد المسلمین کے قومی صدر ہیں۔ اُنہیں نقیب ملت کا لقب دیا گیا ہے۔ وہ حیدرآباد کے مسلسل 3 مرتبہ رکن پارلیمان رہ چکے ہیں۔ وہ سلطان صلاح الدین اویسی کے فرزند اور اکبر الدین اویسی کے بڑے بھائی ہیں۔ اور دکن کے شیر ہیں۔
مغلیہ سلطنت 1526ء سے 1857ء تک برصغیر پر حکومت کرنے والی ایک مسلم سلطنت تھی جس کی بنیاد ظہیر الدین بابر نے 1526ء میں پہلی جنگ پانی پت میں دہلی سلطنت کے آخری سلطان ابراہیم لودھی کو شکست دے کر رکھی تھی۔ مغلیہ سلطنت اپنے عروج میں تقریباً پورے برصغیر پر حکومت کرتی تھی، یعنی موجودہ دور کے افغانستان، پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے ممالک پر مشتمل خطے پر انکا دور دورہ تھا۔-
عمران احمد خان نیازی پاکستانی سیاست دان اور سابقہ کرکٹ کھلاڑی جو پاکستان کے بائیسویں اور موجودہ وزیر اعظم ہیں اور پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ بھی ہیں۔ اس سے پہلے وہ 2002ء تا 2007ء اور 2008ء تا 2013ء تک پاکستان قومی اسمبلی کے رکن بھی رہ چکے ہیں۔ سیاست میں قدم رکھنے سے قبل عمران خان ایک کرکٹر اور مخیر تھے۔ انہوں نے دو دہائیوں تک بین الاقوامی کرکٹ کھیلی اور بعد میں خدمت خلق کے منصوبے بنائے جیسے کہ شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال اور ریسرچ سینٹر اور نمل کالج وغیرہ۔
سلطنت عثمانیہ (یا خلافت عثمانیہ 1517ء سے 1924ء تک) (عثمانی ترک زبان: "دولت علیہ عثمانیہ"، ترک زبان: Osmanlı Devleti) سنہ 1299ء سے 1922ء تک قائم رہنے والی ایک مسلم سلطنت تھی جس کے حکمران ترک تھے۔ اپنے عروج کے زمانے میں (16 ویں – 17 ویں صدی) یہ سلطنت تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی اور جنوب مشرقی یورپ، مشرق وسطٰی اور شمالی افریقہ کا بیشتر حصہ اس کے زیر نگیں تھا۔ اس عظیم سلطنت کی سرحدیں مغرب میں آبنائے جبرالٹر، مشرق میں بحیرۂ قزوین اور خلیج فارس اور شمال میں آسٹریا کی سرحدوں، سلوواکیہ اور کریمیا (موجودہ یوکرین) سے جنوب میں سوڈان، صومالیہ اور یمن تک پھیلی ہوئی تھی۔ مالدووا، ٹرانسلوانیا اور ولاچیا کے باجگذار علاقوں کے علاوہ اس کے 29 صوبے تھے۔
نعمان ابن ثابت بن زوطا بن مرزبان (پیدائش: 5 ستمبر 699ء– وفات: 14 جون 767ء) (فارسی: ابوحنیفه،عربی: نعمان بن ثابت بن زوطا بن مرزبان)، عام طور پر آپکو امام ابو حنیفہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ آپ سنی حنفی فقہ (اسلامی فقہ) کے بانی تھے۔ آپ ایک تابعی، مسلمان عالم دین، مجتہد، فقیہ اور اسلامی قانون کے اولین تدوین کرنے والوں میں شامل تھے۔ آپ کے ماننے والوں کو حنفی کہا جاتا ہے۔ زیدی شیعہ مسلمانوں کی طرف سے بھی آ پ کو ایک معروف اسلامی عالم دین اور شخصیت تصور کیا جا تا ہے۔ انہیں عام طور پر "امام اعظم" کہا جاتا ہے۔
موہن داس کرم چند گاندھی (گجراتی: મોહનદાસ કરમચંદ ગાંધી؛ ہندی: मोहनदास करमचंद गांधी؛ انگریزی: Mohandas Karamchand Gandhi؛ 2 اکتوبر، 1869ء تا 30 جنوری 1948ء) بھارت کے سیاسی اور روحانی رہنما اور آزادی کی تحریک کے اہم ترین کردار تھے۔ انہوں نے ستیہ گرہ اور اہنسا (عدم تشدد) کو اپنا ہتھیار بنایا۔ ستیہ گرہ، ظلم کے خلاف عوامی سطح پر منظم سول نافرمانی ہے جو عدم تشدد پر مبنی ہے۔ یہ طریقئہ کار ہندوستان کی آزادی کی وجہ بنی۔ اور ساری دنیا کے لیے حقوق انسانی اور آزادی کی تحاریک کے لیے روح رواں ثابت ہوئی۔ بھارت میں انھیں احترام سے مہاتما گاندھی اور باپو کہا جاتا ہے۔ انہیں بھارت سرکار کی طرف سے بابائے قوم(راشٹر پتا) کے لقب سے نوازا گیا ہے۔ گاندھی کی یوم پیدائش (گاندھی جینتی) بھارت میں قومی تعطیل کا درجہ رکھتا ہے ا ور دنیا بھر میں یوم عدم تشدد کی طور پر منایا جاتا ہے۔ 30 جنوری، 1948ء کو ایک ہندو قوم پرست نتھو رام گوڈسے نے ان کا قتل کر دیا۔جنوبی افریقا میں وکالت کے دوران میں گاندھی جی نے رہائشی ہندوستانی باشندوں کے شہری حقوق کی جدوجہد کے لیے شہری نافرمانی کا استعمال پہلی بار کیا۔ 1915ء میں ہندوستان واپسی کے بعد، انہوں نے کسانوں اور شہری مزدوردں کے ساتھ بے تحاشہ زمین کی چنگی اور تعصب کے خلاف احتجاج کیا۔ 1921ء میں انڈین نیشنل کانگریس کی قیادت سنبھالنے کے بعد، گاندھی ملک سے غربت کم کرنے، خواتین کے حقوق کو بڑھانے، مذہبی اور نسلی خیرسگالی، چھواچھوت کے خاتمہ اور معاشی خود انحصاری کا درس بڑھانے کی مہم کی قیادت کی۔ انہوں نے بھارت کوغیر ملکی تسلّط سے آزاد کرانے کے لیے سوراج کا عزم کیا۔ گاندھی نے مشہور عدم تعاون تحریک کی قیادت کی۔ جو 1930ء میں مارچ سے برطانوی حکومت کی طرف سے عائد نمک چنگی کی مخالفت میں 400 کلومیٹر (240 میل) لمبی دانڈی نمک احتجاج سے شروع ہوئی۔ اس کے بعد 1942ء میں انہوں نے بھارت چھوڑو شہری نافرمانی تحریک کا آغاز فوری طور پر آزادی کا مطالبہ کے ساتھ کیا۔ گاندھی دونوں جگہ جنوبی افریقا اور بھارت میں کئی سال قید میں گزارے۔
مزید دیکھیےحمل (ضد ابہام)۔حمل کا لفظ اردو اور طب دونوں میں متعدد معنوں میں آنے کے ساتھ اپنے نزدیک ترین مفہوم میں ماں کے پیٹ میں جنین (embryo) یا حمیل (fetus) کی موجودگی کے لیے استعمال ہوتا ہے؛ یعنی رحمِ مادر (uterus) میں ایک یا ایک سے زائد بچوں کا ہونا حمل (pregnancy) کہلاتا ہے۔ جبکہ اردو میں موجود اس عربی لفظ کے لغوی معنی متنوع ہیں جن میں ؛ وزن، وزن (لے جانا یا منتقل کرنا) اور اٹھانا وغیرہ شامل ہیں اور اپنے اسی وزن اٹھانے کے بنیادی مفہوم کی وجہ سے یہ لفظ، ماں کا بچے (بچوں) کی پیدائش سے قبل ان کے وزن یا بوجھ کو اٹھانے یا برداشت کرنے (حمل کرنے یعنی ت + حمل = تحمل کرنے) کی تشبیہ کی وجہ سے ماں کے پیٹ میں بچے کے ہونے کے فعلیاتی (physiological) مظہرِ قدرت کے لیے مستعمل ہوا ہے۔
شہاب الدین محمد شاہ جہاں اول یا مرزا شہاب الدین بیگ محمد خان خرم (پیدائش: 5 جنوری 1592ء— وفات: 22 جنوری 1666ء) سلطنت مغلیہ کا پانچواں شہنشاہ تھا جس نے 1628ء سے 1658ء تک حکومت کی۔ شاہ جہاں کا عہد مغلیہ سلطنت کے عروج کا دَور تھا اور اِس دور کو عہدِ زریں بھی کہا جاتا ہے۔ 1658ء میں شاہ جہاں کو اُس کے بیٹے اورنگزیب عالمگیر نے معزول کر دیا۔ شاہ جہاں کی تعمیرات سے دِلچسپی اور اُس کے عہد میں تعمیر ہونے والے تعمیری شاہکار آج بھی قائم ہیں۔ اُسے مغلیہ سلطنت کا عظیم ترین معمار شہنشاہ یا انجنئیر شہنشاہ بھی کہا جاتا ہے۔ شاہ جہاں کی وجہ شہرت تاج محل اور ممتاز محل سے اُس کی محبت کی داستانیں ہیں۔
جماع کا لفظ عربی اساس جمع سے اخذ کیا جاتا ہے اور اس کے معنی جمع ہو جانا یا باہم ملنا کے ہوتے ہیں جبکہ اس باھم ملنے سے عمومی طور پر مراد جنسی طور پر ملنے کی ہوتی ہے۔، اسی مفہوم کو عام طور پر جنسی روابط، مباشرت، ہم بستری وغیرہ کے ناموں سے بھی اختیار کیا جاتا ہے لیکن چونکہ یہ الفاظ نسبتاً سخت و معیوب ہیں لہذا طبی و دیگر ویکیپیڈیا کے مضامین میں جماع کی اصطلاح کو منتخب کیا گیا ہے جس کو انگریزی میں sexual intercourse اور طب میں coitus یا پھر copulation بھی کہا جاتا ہے۔ اور طبی تعریف کی رو سے مؤنث و مذکر کے مابین ایسا رابطہ کے جس میں مذکر کے جسم سے منی (sperm) کا انتقال، مؤنث کے جسم کی جانب واقع ہو جماع کہلایا جاتا ہے۔ جماع کے برعکس، جنس (sex) ایک ایسا لفظ ہے جو متعدد استعمالات رکھتا ہے؛ طب میں عام طور پر جنس سے مراد مؤنث یا مذکر صنف کی لی جاتی ہے۔ جبکہ جنس کا لفظ، بلا تفریقِ جنسِ مؤنث و مذکر، دو (یا دو سے زائد) افراد کے درمیان اس قسم کے کسی بھی رابطے یا تعلق ظاہر کرتا ہے کہ جسمیں دونوں یا کسی ایک کے تولیدی اعضاء کو تحریک ملے
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصال کے بعد حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان غنی اور حضرت علی رضوان اللہ علیہم اجمعین کا عہد خلافت خلافت راشدہ کہلاتا ہے۔ اس عہد کی مجموعی مدت تیس سال ہے جس میں حضرت ابوبکر صدیق اولین اور حضرت علی آخری خلیفہ ہیں۔ اس عہد کی نمایاں ترین خصوصیت یہ تھی کہ یہ قرآن و سنت کی بنیاد پر قائم نظام حکومت تھا۔
گرو نانک دیو (گرمکھی پنجابی: ਗੁਰੂ ਨਾਨਕ) کی پیدائش شہر ننکانہ صاحب، لاہور، پنجاب موجودہ پاکستان میں 15 اپریل، 1469ء کو ہوئی اور وفات 22 ستمبر، 1539ء کو شہر کرتار پور میں ہوئی۔ گرونانک سکھ مت کے بانی اور دس سکھ گروؤں میں سے پہلے گرو تھے۔ ان کا یوم پیدائش گرو نانک گرپورب کے طور پر دنیا بھر میں ماہ کاتک (اکتوبر–نومبر) میں پورے چاند کے دن، یعنی کارتک پورن ماشی کو منایا جاتا ہے۔گرونانک کو ’’زمانے کا عظیم ترین مذہبی موجد‘‘ قرار دیا جاتا ہے۔ انھوں نے دور دراز سفر کرکے لوگوں کو اس ایک خدا کا پیغام پہنچایا جو اپنی ہر ایک تخلیق میں جلوہ گر ہے اور لازوال حقیقت ہے۔ انھوں نے ایک منفرد روحانی، سماجی اور سیاسی نظام ترتیب دیا جس کی بنیاد مساوات، بھائی چارے، نیکی اور حسن سیرت پر ہے۔گرونانک کا کلام سکھوں کی مقدس کتاب، گرنتھ صاحب میں 974 منظوم بھجنوں کی صورت میں موجود ہے، جس کی چند اہم ترین مناجات میں جپجی صاحب، اسا دی وار اور سدھ گھوسٹ شامل ہیں۔ سکھ مذہب کے عقائد کے مطابق جب بعد میں آنے والے نو گروؤں کو یہ منصب عطا ہوا تو گرو نانک کے تقدس، الوہیت اور مذہبی اختیارات کی روح ان میں سے ہر ایک میں حلول کرگئی۔
کتابِ مقدس یا بائیبل (یونانی τὰ βιβλία) (انگریزی: Bible) یونانی لفظ۔ بمعنی کتب) مسیحیوں کا ایک مذہبی کتب کا مقدس مجموعہ ہے۔ یہ مجموعۂ صحائف مختلف مقامات پر مختلف اوقات میں مختلف مصنفین نے تحریر کیے۔ یہود اور مسیحی بائبل کی کتابوں کو خدائی الہام یا خدا اور انسان کے درمیان رشتے کا ایک مستند ریکارڈ سمجھتے ہیں۔
حسین بن علی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چھوٹے نواسے اور علی بن ابی طالب و فاطمہ زہرا کے چھوٹے بیٹے تھے۔ 'حسین' نام اور ابو عبد اللہ کنیت ہے۔ ان کے بارے میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ حُسَيْنٌ مِنِّي وَأَنَا مِنْ حُسَيْنٍ أَحَبَّ اللَّهُ مَنْ أَحَبَّ حُسَيْنًا حُسَيْنٌ سِبْطٌ مِنْ الْأَسْبَاطِ یعنی 'حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں جو حسین سے محبت کرے اللہ اس سے محبت کرے۔ حسین میری نسلوں میں سے ایک نسل ہے'ان کی وفات سے قبل اموی حکمران مُعاویہ نے صلح حسن کے برخلاف یزید کو اپنا جانشین مقرر کیا۔ جب 680ء میں معاویہ انتقال کر گئے تو یزید نے بیعت کا مطالبہ کیا، حسین نے یزید کی بیعت سے انکار کر دیا، یعنی انہوں نے خود کو قربان کرنے کا فیصلہ کیا۔ نتیجاً انہوں نے 60ھ میں مدینہ چھوڑ دیا اور مکہ آ گئے۔ یہاں اہل کوفہ نے انہیں خطوط بھیجے اور ان سے مدد مانگی اور حسین کی بیعت کرنے کا کہا۔ سو وہ کوفہ کے لیے روانہ ہوئے، کربلا کے نزدیک ان کے کارواں پر یزیدی فوج نے حملہ کر دیا۔ کربلا کی جنگ میں انہیں اور ان کی آل کو 10 محرم 61ھ (10 اکتوبر 680ء) کو قتل کر کے سر قلم کر دیا گیا، شہدا میں ان کے چھ ماہ کے بیٹے، علی اصغر بھی شامل تھے، اس کے علاوہ اہل بیت کی خواتین اور بچوں کو قیدی بنا دیا گیا۔ بعد ازاں وفات حسین پر غم اتنا بڑھ گیا کہ لوگ دولت امویہ کے شدید مخالف ہو گئے اور عباسیوں نے امویوں کو عبرت ناک شکست دے کر ان لوگوں کے دل ٹھنڈے کیے۔
نبو کد نضر یا بخت نصر بابل،بابی لونیا کا بادشاہ۔ زمانہ شہزادگی میں مصر فتح کیا۔ اپنے باپ نبولا سر کے بعد تخت پر بیٹھا۔ 597ء ق م میں یہوداہ (جودیا) بغاوت فرو کی۔ اس علاقے میں دوبارہ بغاوت ہوئی تو یروشلم کو تباہ کر دیا۔ (586 ق م ) اور چار ہزار یہودیوں کو گرفتار کرکے بابل لایا۔ یہودیوں کی اس قید کو بابل کی اسیری کہا جاتا ہے۔ اس عہد میں سلطنت کی زیادہ تر دولت بابل کی قلعہ بندی اور تعمیرات پر خرچ کی اس کا محل عجوبہ روزگار تھا۔ بابل کے معلق باغات سات عجائبات اسی نے بنوائے تھے۔ بابل علم و ادب اور تہذیب و تمدن کا بہت بڑا مرکز تھا۔ بائبل میں اس کا ذکر نبوکد نضر کے نام سے ہے۔
اردو ادب کی دو اصناف ہیں، اردو نثر اور اردو نظم یعنی اردو شاعری۔ پھر اردو شاعری کی کئی قسمیں ہیں جن میں نظم، غزل، مثنوی، قصیدہ، مرثیہ، رباعی، مخمس، مسدس، مثمن، قطعہ، نعت وغیرہ شامل ہیں۔ ان میں سب سے مشہور صنف غزل ہے جسے ہر خاص و عام نے قبول کیا اور سراہا ہے مگر اردو شاعری کی سب سے وسیع قسم اردو نظم ہے۔ اردو نظم میں بہت زیادہ تجربے کیے گئے ہیں اور یہی اس کی وسعت کی دلیل ہے۔ نظیر اکبر آبادی، الطاف حسین حالی، اکبر الہ آبادی اور اقبال، جوش ملیح آبادی، ساحر لدھیانوی، فیض احمد فیض، علی سردار جعفری، ن م راشد، اسماعیل میرٹھی، نظم طباطبائی نظم کے بڑے شاعروں میں سے ہیں۔ اردو میں نظم کی صنف انیسویں صدی کی آخری دہائیوں کے دوران میں انگریزی کے اثر سے پیدا ہوئی جو دھیرے دھیرے پوری طرح قائم ہو گئی۔ نظم بحر اور قافیے میں بھی ہوتی ہے اور اس کے بغیر بھی۔ اب نثری نظم بھی اردو میں مستحکم ہو گئی ہے۔نثری نظم کے حوالے سے میراں جی.ن م راشد . ہوتے ہوئے احمد ہمیش سے ہوتے ہوئےجواز جعفری تک سلسلہ آتا ہے۔لیکن ایک اور بات ...! اس سارے سلسلے میں ڈاکٹر وحید احمد آج بھی نمایا ہیں..
اردو زبان میں چھتیس حروفِ تہجی اور سینتالیس آوازیں ہیں جن میں سے بیشتر عربی سے لیے گئے ہیں اور دیگر انہی کی مختلف شکلیں ہیں۔ کچھ حروف کئی طریقوں سے استعمال ہوتے ہیں اور کچھ مخلوط حروف بھی استعمال ہوتے ہیں جو دو حروف سے مل کر بنتے ہیں۔ بعض لوگ 'ء' کو الگ حرف نہیں مانتے مگر پرانی اردو کتب اور لغات میں اسے الگ حرف کے طور پر لکھا جاتا ہے۔ مختلف الفاظ میں یہ الگ حرف کے طور پر ہی استعمال ہوتا ہے مثلاً 'دائرہ'۔ یہ بات مدِنظر رکھنا ضروری ہے کہ اردو تختی اور اردو حروف دو مختلف چیزیں ہیں کیونکہ اردو تختی میں اردو حروفِ تہجی کی کئی اشکال ہو سکتی ہیں جن کو الگ حرف کا درجہ نہیں دیا جا سکتا بلکہ وہ ایک ہی حرف کی مختلف شکلیں ہیں۔ مثلاً نون غنہ نون کی شکل ہے اور 'ھ' اور 'ہ' ایک ہی حرف کی مختلف اشکال ہیں۔ ایک اور مثال الف ممدودہ (آ) اور الف مقصورہ (ا) کی ہے جو اردو تختی میں الگ ہیں مگر اردو کا ایک ہی حرف شمار ہوتے ہیں۔
- کارگل جنگ کنٹرول لائن پر ہونے والی ایک محدود جنگ تھی جو پاکستان اور ہندوستان کے درمیان 1999ء میں لڑی گئی۔ اس جنگ میں واضح کامیابی کسی ملک کو نہ مل سکی۔ لیکن پاکستانی فوج نے بھارت کے تین لڑاکا جہاز مار گرے اس کے علاوہ بھارتی فوج کارگل سیکٹر میں توازن کھو بیٹھی اور 700 سے زائد فوجی ہلاک کر دیے اس جنگ میں بھارت کو برا جٹکا لگا لیکن بعد میں دونوں فریقین جنگ بندی کا علان کیا۔ پاکستانی فوج اور کشمیری باغیوں نے بھارت اور پاکستان کے درمیان لائن کنٹرول کو پار کر بھارت کی زمین پر قبضہ کرنے کی کوشش کی. پاکستان نے دعوی کیا کہ تمام کشمیری عسکریت پسند لڑ رہے ہیں، لیکن جنگ میں برآمد کردہ دستاویزات اور پاکستانی رہنماؤں کے بیانات ثابت ہوئے کہ پاکستان کی فوج اس جنگ میں براہ راست اس جنگ میں ملوث تھی. اس جنگ میں تقریبا 30،000 بھارتی سپاہیوں اور 5،000 گھومنا شامل تھے.
شادی فارسی زبان کا لفظ ہے، فارسی زبان کے اسم صفت شاد کے ساتھ لاحقہ کیفیت "ی" کے اضافہ سے لفظ شادی وجود میں آیا۔ یہ لفظ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے، اس کے لفظی معنی خوشی، مسرت اور انبساط کے ہیں؛ چنانچہ اردو میں شادی مرگ اور دل شادی جیسی تراکیب انہی معنوں میں مستعمل ہے۔ اصطلاحاً شادی کا مفہوم متفرق ثقافتوں میں مختلف ہوتا ہے، البتہ بنیادی طور پر شادی کی تعریف یہ کی جاسکتی ہے کہ کسی بھی ثقافت میں وہ رسم یا قانونی معاہدہ جس کے ذریعے معاشرہ، قانون اور مذہب مرد (شوہر) و زن (بیوی) کے مابین قریبی جنسی اور ازدواجی تعلق کو قبولیت بخشتا ہے۔ اس اقدام کے ذریعے معاشرے میں ایک نئے گھرانے کا اضافہ ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچوں کو شناخت اور قانونی تحفظ فراہم ہوتا ہے۔
وزن کی متروک اکائیاں (پاکستان)
وزن ناپنے کی پاکستان میں استعمال ہونے والی اکائیاں، جو اب متروک ہو چکی ہیں۔ ان اکائیوں اور ان کے اعشاریہ نظام میں برابر کا جدول دیا ہے۔ پاکستان کے علاوہ ان کا استعمال برصغیر میں بھی ہوتا تھا اور اردو کتب میں ملتا ہے۔
غزل اردو شاعری کی مقبول ترین "صنف" سخن ہے۔ غزل توازن میں لکھی جاتی ہے اور یہ ہم قافیہ و بحر اور ہم ردیف مصرعوں سے بنے اشعار کا مجموعہ ہوتی ہے مطلع کے علاوہ غزل کے باقی تمام اشعار کے پہلے مصرع اولی میں قافیہ اور ردیف کی قید نہیں ہوتی ہے جبکہ مصرع ثانی میں غزل کا ہم آواز قافیہ و ہم ردیف کا استعمال کرنا لازمی ہے غزل کا پہلا شعر مطلع کہلاتا ہے جس کے دونوں مصرعے ہم بحر اور ہم قافیہ و ہم ردیف ہوتے ہیں غزل کا آخری شعر مقطع کہلاتا ہے بشرطیکہ اس میں شاعر اپنا تخلص استعمال کرے ورنہ وہ بھی شعر ہی کہلاتا ہے
ڈینگو بخار : 1775کے عشرے میں جب ایشیا ،افریقا اور شمالی امریکا میں ایک ایسی بیماری پھیلی کہ جس میں مریض کو یکدم تیز بخار ہو جاتا اور ساتھ ہی سر میں درد اور جوڑوں میں درد شروع ہو جاتاجبکہ بعض مریضوں کے پیٹ میں درد ،خونی الٹیاں اورخونی پیچس کی بھی شکایت ہو گئی۔ یہ مریض سات سے دس دن تک اسی بیماری میں مبتلا رہے اور آخر کار مر گئے۔ لوگوں میں خوف و ہراس پھیل گیا اور ان علاقوں سے لوگوں نے ہجرت کرنا شروع کر دی۔ جب اس وقت کے طبیبوں اور ڈاکٹروں نے اس بارے میں تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ یہ ایک خاص قسم کا مچھر ہے جس کے کاٹنے سے یہ مرض لاحق ہو جاتا ہے۔
الاندلس (انگریزی: Al-Andalus، عربی: الأندلس، کلمہ نویسی al-ʼAndalus; ہسپانوی: Al-Ándalus; پرتگیزی: Al-Andalus; اراغونی: Al-Andalus; کاتالان: Al-Àndalus; بربر: Andalus یا Wandalus) یورپ میں موجود ایک سابقہ مسلم ریاست تھی جو ہسپانیہ، پرتگال اور جدید فرانس پر مشتمل تھی، جسے مسلم ہسپانیہ (Muslim Spain) یا اسلامی آئبیریا (Islamic Iberia) بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ریاست جزیرہ نما آئبیریا کے علاقے میں تھی۔
انگریزی (English) انگلستان سمیت دنیا بھر میں بولی جانے والی ایک وسیع زبان ہے جو متعدد ممالک میں بنیادی زبان کے طور پر بولی جاتی ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں ثانوی یا سرکاری زبان کی حیثیت رکھتی ہے۔ انگریزی دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی اور سمجھی جانے والی زبان ہے جبکہ یہ دنیا بھر میں رابطے کی زبان سمجھی جاتی ہے۔
غزوہ بدر 17 رمضان 2 ہجری بروز جمعہ ہوا۔ اس میں کفار تقریباً ایک ہزار تھے اور ان کے ساتھ بہت زیادہ سامان جنگ تھا جبکہ مسلمان تین سو تیرہ (313) تھے اور ان میں سے بھی اکثر نہتے تھے، مسلمانوں کے پاس دو گھوڑے، چھ ز رہیں، آٹھ تلواریں اور ستر اونٹ تھے۔روایات میں مجموعی تعداد 313 ہے لیکن والد کا نام، قبیلہ کا نام اور ملتے جلتے ناموں کی وجہ سے متفقہ 313 نام کسی جگہ بھی نہیں، البتہ تھوڑے اختلاف سے مندرجہ ذیل 331 (91 مہاجر 64 اوس کے اور 176 خزرج کے ) نام میسر ہیں۔
مسئلہ کشمیر، پاکستان، ہندوستان اور کشمیری حریت پسندوں کے درمیان مقبوضہ کشمیر کی ملکیت کا تنازع ہے۔ یہ مسئلہ تقسیم ہندوستان سے چلا آ رہا ہے۔ کشمیر کے معاملے پر پاکستان اور ہندوستان کے مابین تین جنگیں بھی ہو چکی ہیں۔ پہلی جنگ 1947ء، دوسری 1965ء اور تیسری 1971ء اور آخری چوتھی 1999ء میں لڑی گئی۔ اس کے علاوہ آئے دن مقبوضہ کشمیر اور پاکستان کی سرحد جسے لائن آف کنٹرول کہا جاتا ہے پر بھی گولہ باری کا تبادلہ ہوتا رہا ہے۔ جس میں اکثر پاکستانی شہری آبادی نشانہ بنتی رہی ہے۔
سلطان صلاح الدین یوسف بن ایوب ایوبی سلطنت (کردی ناوندی : سەلاحەدینی ئەییووبی / کردی کرمانجی : Selahedînê Eyûbî) کے بانی تھے۔ وہ نہ صرف تاریخ اسلام بلکہ تاریخ عالم کے مشہور ترین فاتحین و حکمرانوں میں سے ایک ہیں۔ وہ 1138ء میں موجودہ عراق کے شہر تکریت میں پیدا ہوئے۔ ان کی زیر قیادت ایوبی سلطنت نے مصر، شام، یمن، عراق، حجاز اور دیار باکر پر حکومت کی۔ صلاح الدین ایوبی کو بہادری، فیاضی، حسن خلق، سخاوت اور بردباری کے باعث نہ صرف مسلمان بلکہ مسیحی بھی عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ صلاح الدین کو فاتح بیت المقدس کہا جاتا ہے جنہوں نے 1187ء میں یورپ کی متحدہ افواج کو عبرتناک شکست دے کر بیت المقدس ان سے آزاد کروا لیا تھا۔
فاطمہ بنت محمد بن عبد اللہ جن کا معروف نام فاطمۃ الزہراء ہے حضرت محمد بن عبد اللہ اور خدیجہ بنت خویلد کی بیٹی تھیں۔ تمام مسلمانوں کے نزدیک آپ ایک برگزیدہ ہستی ہیں۔۔ آپ کی ولادت 20 جمادی الثانی بروز جمعہ بعثت کے پانچویں سال میں مکہ میں ہوئی۔ آپ کی شادی علی ابن ابی طالب سے ہوئی جن سے آپ کے دو بیٹے حسن اور حسین اور دو بیٹیاں زینب اور ام کلثوم پیدا ہوئیں۔ آپ کی وفات اپنے والد حضرت محمد بن عبد اللہ کی وفات کے کچھ ماہ بعد 632ء میں ہوئی۔ آپ کے کثیر الالقابات مشہور ہیں۔
صحابہ (عربی: الصحابۃ، "پیروکار") اسلام میں نبی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، کے ان پیرو کاروں کو کہا جاتا ہے جنہوں نے ان کی اپنی حیات میں اسلام قبول کیا اور ان کو کچھ وقت کی صحبت ملی۔ اور اسی ایمان کی حالت میں وہ دنیا سے گئے۔ بعض صحابہ نابینا بھی تھے اور بعض لوگ جنہوں نے اسلام قبول کیا، مگر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دور یا بعد میں پھر مرتد ہوئے اور پھر اسلام قبول کیا (محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیات کے بعد) تو ان کو صحابی نہیں کہا جاتا۔
ابو عبد اللہ عثمان بن عفان اموی قرشی (47 ق ھ - 35 ھ / 576ء – 656ء) اسلام کے تیسرے خلیفہ، داماد رسول اور جامع قرآن تھے۔ عثمان غنی سابقین اسلام میں شامل اور عشرہ مبشرہ میں سے تھے، ان کی کنیت ذو النورین ہے کیونکہ انھوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دو صاحبزادیوں سے نکاح کیا تھا، پہلے رقیہ بنت محمد سے کیا، پھر ان کی وفات کے بعد ام کلثوم بنت محمد سے نکاح کیا۔ عثمان غنی پہلے صحابی ہیں جنھوں نے سرزمین حبشہ کی ہجرت کی، بعد میں دیگر صحابہ بھی آپ کے پیچھے حبشہ پہنچے۔ بعد ازاں دوسری ہجرت مدینہ منورہ کی جانب کی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عثمان غنی پر مکمل اعتماد اور ان کی فطری حیاء و شرافت اور جو انھوں نے اپنے مال کے ذریعہ اہل ایمان کی نصرت کی تھی، اس کی انتہائی قدر کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیگر صحابہ کے ساتھ ان کو بھی جنت اور شہادت کی موت کی خوش خبری دی۔
جموں و کشمیر (کشمیر یا بھارت کے زیر انتظام کشمیر) بھارت کی سب سے شمالی ریاست ہے جس کا بیشتر علاقہ ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے پر پھیلا ہوا ہے۔ جموں و کشمیر کی سرحدیں جنوب میں ہماچل پردیش اور پنجاب، بھارت، مغرب میں پاکستان اور شمال اور مشرق میں چین سے ملتی ہیں۔ پاکستان میں جموں و کشمیر کو اکثر مقبوضہ کشمیر کے نام سے پکارا جاتا ہے۔
ہر زبان کے لیے کچھ اصول اور قوانین ہوتے ہیں، جن سے اس زبان کو صحیح طور سے سیکھا اور استعمال کیا جا سکتا ہے۔ زبان کی درستی اور اس کی خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لیے ان قوانین پر عمل درآمد کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اردو زبان کے بھی کچھ اصول ہیں، جنہیں قواعد یا گرامر کہا جاتا ہے۔ ان کے جاننے سے اردو زبان کو ٹھیک طریقے سے بولا اور سمجھا جا سکتا ہے۔ انگریزی میں قواعد کو grammar کہتے ہیں۔ قواعد یا گرامر، لسانیات کی ایک اہم شاخ ہے اور اس کا مطالعہ زبان پہ دسترس حاصل کرنے کے لیے نہایت ضروری ہے۔ یہ مضمون اردو زبان کے قواعد کے متعلق ہے۔
قمری ہجری تقویم (ماہ و سال) کو بعض ممالک میں اسلامی تقویم بھی کہا جاتا ہے۔ ہجری تقویم سے مراد تواریخ کا حساب حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مدینہ کی طرف ہجرت سے لگانا ہے۔ اس میں جو مہینے استعمال ہوتے ہیں ان کا استعمال اسلام سے پہلے بھی تھا۔ جس میں سے محرم پہلا مہینہ ہے۔ چونکہ ایک قمری تقویم ہے لہذا اس کا ہر مہینہ چاند کو دیکھ کر شروع ہوتا ہے۔ سال کا کل دورانیہ 354.367056 دن اور ایک ماہ کا کل دورانیہ 29.530588 دن ہے۔
عربی (عربی: العربية) سامی زبانوں میں سب سے بڑی زبان ہے اور عبرانی اور آرامی زبانوں سے بہت ملتی ہے۔ جدید عربی کلاسیکی یا فصیح عربی کی تھوڑی سی بدلی ہوئی شکل ہے۔ فصیح عربی قدیم زمانے سے ہی بہت ترقی یافتہ شکل میں تھی اور قرآن کی زبان ہونے کی وجہ سے زندہ ہے۔ فصیح عربی اور بولے جانے والی عربی میں بہت فرق نہیں بلکہ ایسے ہی ہے جیسے بولے جانے والی اردو اور ادبی اردو میں فرق ہے۔ عربی زبان نے اسلام کی ترقی کی وجہ سے مسلمانوں کی دوسری زبانوں مثلاً اردو، فارسی، ترکی وغیرہ پر بڑا اثر ڈالا ہے اور ان زبانوں میں عربی کے بے شمار الفاظ موجود ہیں۔ عربی کو مسلمانوں کی مذہبی زبان کی حیثیت حاصل ہے اور تمام دنیا کے مسلمان قرآن پڑھنے کی وجہ سے عربی حروف اور الفاظ سے مانوس ہیں۔ تاریخ میں عربی زبان کی اہمیّت کے سبب بہت سے مغربی زبانوں میں بھی اِس کے الفاظ وارد ہوئے ہیں۔
ابراہیم علیہ السلام وہ پہلے پیغمبر تھے جن کو اللہ نے مُسلمان نبی پیغمبر ابو الانبیاء، خلیل اللہ امام الناس اور حنیف کہہ کر پُکارا۔اللہ تعالی نے اپنے اس دوست برگزیده اور پیارے نبی کو قرآن مجید میں امتہ (النحل : 120) امام الناس (البقره: 124) حنیف اور مسلم (آل عمران: 67) کے ناموں سے بار بار بار کیا ہے۔ اکثر انبیائے کرام انہی کی اولاد سے ہیں۔ابراہیم علیہ السلام کے نام کی وجہ تسمیہ کے بارے میں بائبل کا بیان ہے کہ خدا تعالی ان سے مخاطب ہو کر کہتا ہے۔ دیکھ میرا عہد تیرے ساتھ ہے اور تو بہت قوموں کا باپ ہو گا۔ اور تیرا نام ابرام نہیں بلکہ ابراہام ہو گا۔ کیونکہ میں نے تجھے قوموں کا باپ بنایا ہے۔ (پیدائش 170:5)اکثر ماہرین کے نزدیک ابراہام یا ابراہیم ؑ بھی لفظ ہے۔ ہو سکتا ہے کہ پہلے آپ کا نام ابراہم ہو اور پھر ابراہام یا ابو رہام ہو گیا ہو۔مُسلمان اُن کو خلیل اللہ (اللہ کا دوست) کہتے ہیں۔ ابراہیم کی نسل سے کئی پیغمبر پیدا ہوئے، جن کا تذکرہ عہدنامہ قدیم میں ہے۔ اسلام کی کتاب قرآن مجید میں بھی بہت سارے ایسے انبیا کا ذکر ہے جو ابراہیم کی نسل میں سے تھے۔ اسلام کے آخری نبی مُحمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی ابراہیم کی نسل میں سے ہیں۔شرک، ستارہ پرستی اور بت سازی کے خلاف اپنی قوم اور اوروں کے ساتھ ان کا مجادلہ و محاجہ بڑے زور سے پیش کیا گیا ہے۔ ابراہیم کا بچپن میں ہی رشد عطا کیا گیا اور قلب سلیم بھی عنایت فرمایا گیا۔ تکوینی عجائبات اور ملکوت السمٰوت والارض ان کے سامنے تھے۔ انہیں کے مشاہدے سے اُن کو یقین کامل حاصل ہوا۔ بت پرستی کے خلاف ابراہیم کے جہاد کا ذکر بھی قران کریم میں کئی بار آیا ہے۔قرآن حکیم میں حضرت ابراہیم ؑ اور آذر کے اختلاف عقائد کو جس طرح نمایاں کیا گیا ہے اور جس طرح آپ اپنی قوم کے شرک سے متنفر اور متصادم ہوئے۔ اس سے ہم آپ کی عظمت و جلالت کی حقیقت کو بھی پاسکتے ہیں۔ اور اپنے لیے شمع ہدایت بھی روشن کر سکتے ہیں۔ اس وجہ سے مسلمانوں کو ملت براہیمی ہونے پر فخر ہے۔ ان کے بارے میں یہ توکہیں وضاحت نہیں ہوئی کہ کیا وحی ان پر نازل ہوئی تھی یا ان کی بعثت محض روحانی تھی؟ البتہ قرآن مجید میں ایک جگہ اس امر کی تصدیق ہوئی ہے کہ اللہ تعالی آپ سے ہمکلام تھا۔ اہل تاریخ کے نزدیک متعدد صحیفے تھے جو ابراہیم پر نازل ہوئے۔ ایک صحیفہ جو ان کی طرف سے منسوب ہے یونانی سے انگریزی میں ترجمہ ہو کر شائع ہو چکا ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ کے دین کے بارے میں قرآن مجید میں کئی جگہ پر ارشار ہوتا ہے کہ آپ موحد مسلم اورراست رو تھے۔ ارشاد ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے: ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ”پھر ہم نے تیری طرف (حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی طرف) وحی کی کہ ابراہیم ؑ راست رو (مسلم) کے دین پر چل اور وہ مشرکوں میں سے نہیں تھا “ اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے: يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تُحَآجُّونَ فِي إِبْرَاهِيمَ وَمَا أُنزِلَتِ التَّورَاةُ وَالإنجِيلُ إِلاَّ مِن بَعْدِهِ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ هَاأَنتُمْ هَؤُلاء حَاجَجْتُمْ فِيمَا لَكُم بِهِ عِلمٌ فَلِمَ تُحَآجُّونَ فِيمَا لَيْسَ لَكُم بِهِ عِلْمٌ وَاللّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ مَا كَانَ إِبْرَاهِيمُ يَهُودِيًّا وَلاَ نَصْرَانِيًّا وَلَكِن كَانَ حَنِيفًا مُّسْلِمًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْرَاهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ وَهَـذَا النَّبِيُّ وَالَّذِينَ آمَنُواْ وَاللّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ ”اے اہل کتاب! تم ابراہیم ؑ کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو۔ حالانکہ توریت اور انجیل اس کے بعد ہی اتاری گئیں۔ پھر کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے۔ سنو!
تصوف کا لفظ اس طریقۂ کار یا اسلوبِ عمل کے لیے اختیار کیا جاتا ہے جس پر کوئی صوفی (جمع: صوفیا) عمل پیرا ہو۔ اسلام سے قربت رکھنے والے صوفی، لفظ تصوف کی تعریف یوں کرتے ہیں کہ ؛ تصوف کو قرآنی اصطلاح میں تزکیۂ نفس اور حدیث کی اصطلاح میں احسان کہتے ہیں۔ تصوف کی اس مذکوہ بالا تعریف بیان کرنے والے افراد تصوف کو قرآن و سنت کے عین مطابق قرار دیتے ہیں؛ اور ابتدائی ایام میں متعدد فقہی علما کرام بھی اس ہی تصوف کی جانب مراد لیتے ہیں۔ پھر بعد میں تصوف میں ایسے افکار ظاہر ہونا شروع ہوئے کہ جن پر شریعت و فقہ پر قائم علما نے نہ صرف یہ کہ ناپسندیدگی کا اظہار کیا بلکہ ان کو رد بھی کیا۔
ہجرت مدینہ پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ان کے صحابہ کی طرف سے مکہ مکرمہ سے یثرب (جسے اس ہجرت کے بعد مدینۃ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نام دیا گیا) منتقل ہوجانے کے عمل کو کہتے ہیں جو 12ربیع الاول 13نبوی (جو بعد میں پہلا ہجری سال کہلایا)، بمطابق 24 ستمبر 622ء عیسوی بروز جمعہ کو ہوئی، بعد میں اسی دن کی نسبت سے ہجری تقویم کا آغاز ہوا۔ مسلمانوں نے قمری ہجری تقویم اور شمسی ہجری تقویم دونوں کا آغاز اسی واقعہ کی بنیاد پر کیا۔