اردو ویکیپیڈیا کے سب سے زیادہ ملاحظہ کردہ مضامین کی فہرست۔ مزید معلومات کے لیے ۔ ۔ ۔
روزہ اسلام کے 5 ارکان میں سے ایک ہے جسے عربی میں صوم کہتے ہیں۔ مسلمان اسلامی سال کے مقدس مہینے رمضان المبارک میں روزے رکھتے ہیں۔ روزے میں مسلمان صبح صادق سے غروب آفتاب تک کھانے اور پینے، جبکہ میاں بیوی آپس میں جنسی تعلق سے باز رہتے ہیں۔ روزہ رکھنے کے لیے صبح صادق سے قبل کھانا کھایا جاتا ہے جسے سحری کہتے ہیں جس کے بعد نماز فجر ادا کی جاتی ہے جبکہ غروب آفتاب کے وقت اذان مغرب کے ساتھ روزہ کھول لیا جاتا ہے جسے افطار کرنا کہتے ہیں۔
فاطمہ بنت محمد بن عبد اللہ جن کا معروف نام فاطمۃ الزہراء ہے حضرت محمد بن عبد اللہ اور خدیجہ بنت خویلد کی بیٹی تھیں۔ تمام مسلمانوں کے نزدیک آپ ایک برگزیدہ ہستی ہیں۔۔ آپ کی ولادت 20 جمادی الثانی بروز جمعہ بعثت کے پانچویں سال میں مکہ میں ہوئی۔ آپ کی شادی علی ابن ابی طالب سے ہوئی جن سے آپ کے دو بیٹے حسن اور حسین اور دو بیٹیاں زینب اور ام کلثوم پیدا ہوئیں۔ آپ کی وفات اپنے والد حضرت محمد بن عبد اللہ کی وفات کے کچھ ماہ بعد 632ء میں ہوئی۔ آپ کے کثیر الالقابات مشہور ہیں۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان جنوبی ايشياء کے شمال مغرب وسطی ایشیا اور مغربی ایشیا کے لیے دفاعی طور پر اہم حصے میں واقع ایک خود مختار اسلامی ملک ہے۔ 21 کروڑ کی آبادی کے ساتھ یہ دنیا کا پانچواں بڑی آبادی والا ملک ہے۔ 881,913 مربع کلومیٹر (340,509 مربع میل) کے ساتھ یہ دنیا کا تینتیسواں بڑے رقبے والا ملک ہے۔ اس کے جنوب میں 1046 کلومیٹر (650 میل) کی ساحلی پٹی ہے جو بحیرہ عرب سے ملتی ہے۔پاکستان کے مشرق ميں بھارت، شمال مشرق ميں چین اور مغرب ميں افغانستان اور ايران واقع ہيں۔ پاکستان کو شمال میں ایک تنگ واخان راہداری تاجکستان سے جدا کرتی ہے جبکہ اس ملک کی سمندری سرحدی حدود عمان کے سمندری حدود سے بھی ملتی ہیں۔
ابو القاسم محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب (12 ربیع الاول عام الفیل / 8 جون 570ء یا 571ء – 12 ربیع الاول 10ھ / 8 جون 632ء) مسلمانوں کے آخری نبی ہیں۔ اہل اسلام کے نزدیک محمد تمام مذاہب کے پیشواؤں سے کامیاب ترین پیشوا تھے۔ آپ کی کنیت ابوالقاسم تھی۔ مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ کی طرف سے انسانیت کی جانب بھیجے جانے والے انبیا اکرام کے سلسلے کے آخری نبی ہیں جن کو اللہ نے اپنے دین کی درست شکل انسانوں کی جانب آخری بار پہنچانے کیلئے دنیا میں بھیجا۔ انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دنیا کی تمام مذہبی شخصیات میں سب سے کامیاب شخصیت تھے۔
قرآن، قرآن مجید یا قرآن شریف (عربی: القرآن الكريم) دین اسلام کی مقدس و مرکزی کتاب ہے جس کے متعلق اسلام کے پیروکاروں کا اعتقاد ہے کہ وہ کلام الہی ہے اور اسی بنا پر یہ انتہائی محترم و قابل عظمت کتاب ہے۔ اسے پیغمبر اسلام محمد پر اتارا گیا اور ان سے تواتر کے ساتھ اگلی نسلوں تک منتقل ہوا۔ مسلمانوں کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ قرآن ہر قسم کی تحریف سے پاک سینوں اور سفینوں میں محفوظ ہے، قرآن میں آج تک کوئی کمی بیشی نہیں ہو سکی اور اسے دنیا کی واحد محفوظ کتاب ہونے کی حیثیت حاصل ہے، جس کا حقیقی مفہوم تبدیل نہیں ہو سکا اور تمام دنیا میں کروڑوں کی تعداد میں چھپنے کے باوجود اس کا متن ایک جیسا ہے اور اس کی تلاوت عبادت ہے۔ نیز صحف ابراہیم، زبور اور تورات و انجیل کے بعد آسمانی کتابوں میں یہ سب سے آخری کتاب ہے، اب اس کے بعد کوئی آسمانی کتاب نازل نہیں ہوگی۔ قرآن کی فصاحت و بلاغت کے پیش نظر اسے لغوی و مذہبی لحاظ سے تمام عربی کتابوں میں اعلیٰ ترین مقام دیا گیا ہے۔ نیز عربی زبان و ادب اور اس کے نحوی و صرفی قواعد کی وحدت و ارتقا میں بھی قرآن کا خاصا اہم کردار دکھائی دیتا ہے۔ چنانچہ قرآن کے وضع کردہ عربی زبان کے قواعد بلند پایہ عرب محققین اور علمائے لغت مثلاً سیبویہ، ابو الاسود دویلی اور خلیل بن احمد فراہیدی وغیرہ کے یہاں بنیادی ماخذ سمجھے گئے ہیں۔
ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال (9 نومبر 1877ء تا 21 اپریل 1938ء) بیسویں صدی کے ایک معروف شاعر، مصنف، قانون دان، سیاستدان، مسلم صوفی اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھے۔ اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے اور یہی ان کی بنیادی وجہ شہرت ہے۔ شاعری میں بنیادی رجحان تصوف اور احیائے امت اسلام کی طرف تھا۔ "دا ریکنسٹرکشن آف ریلیجس تھاٹ ان اسلام" کے نام سے انگریزی میں ایک نثری کتاب بھی تحریر کی۔ علامہ اقبال کو دور جدید کا صوفی سمجھا جاتا ہے۔ بحیثیت سیاست دان ان کا سب سے نمایاں کارنامہ نظریۂ پاکستان کی تشکیل ہے، جو انہوں نے 1930ء میں الہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پیش کیا تھا۔ یہی نظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا۔ اسی وجہ سے علامہ اقبال کو پاکستان کا نظریاتی باپ سمجھا جاتا ہے۔ گو کہ انہوں نے اس نئے ملک کے قیام کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن انہیں پاکستان کے قومی شاعر کی حیثیت حاصل ہے۔
رمضان اسلامی تقویم کا نواں مہینہ ہے۔ اسے رمضان المبارک بھی کہا جاتا ہے۔اس ماہ مبارک میں قرآن کا نزول ہوا ہے۔جیسا کہ قرآن کی سورہ قدر میں ہے(اناانزلناه فى ليلة القدر، ) مسلمانوں کے لیے اس پورے مہینے ميں روزے رکھنے فرض ہيں۔ اسى ميں ايک رات ايسى ہے جس کو شب قدر کہا جاتا ہے۔ قرآن کے مطابق جس (رات) کى عبادت ہزار مہینوں کى عبادت سے بہتر ہے۔ جنت کو رمضان کے لیے پورا سال مزین کیا جاتا ہے إِنَّ الْجَنَّةَ تُزَخْرَفُ لِرَمَضَانَ مِنْ رَأْسِ الْحَوْلِ إِلَى حَوْلِ قَابِلٍ» . قَالَ: فَإِذَا كَانَ أَوَّلُ يَوْمٍ مِنْ رَمَضَانَ هَبَّتْ رِيحٌ تَحْتَ الْعَرْشِ مِنْ وَرَقِ الْجَنَّةِ عَلَى الْحُورِ الْعِينِ فَيَقُلْنَ: يَا رَبِّ اجْعَلْ لَنَا مِنْ عِبَادِكَ أَزْوَاجًا تَقَرَّ بِهِمْ أَعْيُنُنَا وَتَقَرَّ أَعْيُنُهُمْ بِنَا . . ” جنت کو رمضان کے لیے پورا سال مزین کیا جاتا ہے۔فرمایا: جب رمضان کا پہلا دن ہوتا ہے تو عرش کے نیچے جنت کے پتوں سے ہوا چلتی ہوئی حورعین تک پہنچتی ہے تو وہ کہتی ہیں: رب جی!
ابو بکر صدیق عبد اللہ بن ابو قحافہ تیمی قریشی (پیدائش: 573ء— وفات: 22 اگست 634ء) پہلے خلیفہ راشد، عشرہ مبشرہ میں شامل، پیغمبر اسلام کے وزیر، صحابی و خسر اور ہجرت مدینہ کے وقت رفیق سفر تھے۔ اہل سنت و الجماعت کے یہاں ابو بکر صدیق انبیا اور رسولوں کے بعد انسانوں میں سب سے بہتر، صحابہ میں ایمان و زہد کے لحاظ سے سب سے برتر اور ام المومنین عائشہ بنت ابی بکر کے بعد پیغمبر اسلام کے محبوب تر تھے۔ عموماً ان کی کنیت "ابو بکر" کے ساتھ صدیق کا لقب لگایا جاتا جسے ابو بکر صدیق کی تصدیق و تائید کی بنا پر پیغمبر اسلام نے دیا تھا۔
بشار الاسد (11 ستمبر 1965ء) شام کے صدر اور شام اور عرب سوشلسٹ باتھ پارٹی (عربی:حزب البعث العربي الاشتراكي – قطر سوريا) کے شام کی قیادت والی شاخ کے صدر ہیں۔ انہوں نے خود سے پہلے 30 سال تک شام کی قیادت کرنے والے اپنے والد حافظ الاسد کی موت پر، کامیاب ہوئے وہ 2000ء کے بعد سے صدر کے طور پر خدمت کر رہے ہیں۔
رمضان کے مہینے میں عشاء کی نماز کے بعد اور وتروں،سے پہلے باجماعت ادا کی جاتی ہے۔ جوبیس یا آٹھ رکعت پر مشتمل ہوتی ہے اور دو دو رکعت کرکے پڑھی جاتی ہے۔ ہر چار رکعت کے بعد وقف ہوتا ہے۔ جس میں تسبیح و تحلیل ہوتی ہے اور اسی کی وجہ سے اس کا نام تروایح ہوا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان شریف میں رات کی عبادت کو بڑی فضیلت دی ہے۔ حضرت عمر نے سب سے پہلی تروایح کے باجماعت اور اول رات میں پڑھنے کا حکم دیا اور اُس وقت سے اب تک یہ اسی طرح پڑھی جاتی ہے۔ اس نماز کی امامت بالعموم حافظ قرآن کرتے ہیں اور رمضان کے پورے مہینے میں ایک بار یا زیادہ مرتبہ قرآن شریف پورا ختم کر دیا جاتا ہے۔ حنفی بیس رکعت پڑھتے ہیں اور اہل حدیث آٹھ رکعت، تروایح کے بعد وتر بھی باجماعت پڑھے جاتے ہیں۔
عمر بن خطاب (عربی: أبو حفص عمر بن الخطاب العدوي القریشي) ملقب بہ فاروق (پیدائش: 586ء تا 590ء کے درمیان مکہ میں- وفات: 6 نومبر، 644ء مدینہ میں) ابو بکر صدیق کے بعد مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ راشد، محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خسر اور تاریخ اسلام کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک ہیں۔ عمر بن خطاب عشرہ مبشرہ میں سے ہیں، ان کا شمار علما و زاہدین صحابہ میں ہوتا تھا۔ ابو بکر صدیق کی وفات کے بعد 23 اگست سنہ 634ء مطابق 22 جمادی الثانی سنہ 13ھ کو مسند خلافت سنبھالی۔ عمر بن خطاب ایک باعظمت، انصاف پسند اور عادل حکمران مشہور ہیں، ان کی عدالت میں مسلم و غیر مسلم دونوں کو یکساں انصاف ملا کرتا تھا، عمر بن خطاب کا یہ عدل و انصاف انتہائی مشہور ہوا اور ان کے لقب فاروق کی دیگر وجوہ تسمیہ میں ایک وجہ یہ بھی بنی۔
جمعہ کی نماز فرضِ عین ہے اور اس کی فرضیت ظہر سے زیادہ موکد ہے۔ یعنی ظہر کی نماز سے اس کی تاکید زیادہ ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ جو تین جمعے سستی کی وجہ سے چھوڑے اللہ تعالٰیٰ اس کے دل پر مہر کر دے گا اور ایک روایت میں ہے وہ منافق ہے اور اللہ سے بے علاقہ۔ اور چونکہ اس کی فرضیت کا ثبوت دلیل قطعی سے ہے لہٰذا اس کا منکر کافر ہے ۔
ننجا (忍者) یا شنوبی (忍び) نوابی دور کے جاپان میں خفیہ کارندے یا قاتل ہوتے تھے۔ ننجا کے کاموں میں جاسوسی، سبوتاژ، دشمن کی صفوں میں گھسنا، قتل اور گوریلا جنگیں شامل تھیں۔ یہ کاروائیاں سامورائی سے کمتر درجے کی سمجھی جاتی تھیں کیونکہ سامورائی لڑائی اور عزت کے حوالے سے انتہائی سخت اصولوں کی پابندی کرتے تھے۔ شنوبی جاسوسوں اور قاتلوں کے خصوصی تربیت یافتہ جتھوں کا ظہور پندرہویں صدی میں ہوا تاہم اس سے ایک سے تین صدیاں قبل بھی ایسے افراد کا وجود ممکن تھا۔سینگوکو دور میں (پندرہویں سے سترہویں صدی تک) کرائے کے قاتل اور جاسوس جو ایگا صوبے اور کوگا دیہات سے ملحقہ علاقوں میں سرگرم ہو گئے اور اسی علاقے کے قبائل کے پاس ننجا کے بارے میں زیادہ تر معلومات ہیں۔ توکوگاوا شوگون شاہی کے تحت جاپان کے اتحاد کے بعد (سترہویں صدی میں) ننجا گمنامی کا شکار ہو گئے۔ شنوبی ہدایات کا زیادہ تر حصہ چینی فوجی فلسفے سے لیا گیا ہے جنہیں سترہویں اور اٹھارہویں صدی میں لکھا گیا جس میں بانسینشوکائی سب سے اہم ہے۔1868ء میں بحالی میجی کے بعد شنوبی کو قصے کہانیوں میں بہت اہمیت دی گئی۔ ننجا کے بارے بہت سی غلط باتیں مشہور ہو گئیں تھیں مثلاﹰ وہ غائب ہو سکتے تھے، پانی پر چل سکتے تھے اور قدرتی عناصر کو قابو میں کر سکتے تھے۔ چنانچہ اُس دور کے ننجا کے بارے میں بیشتر معلومات سینگوکو دور کی بجائے تخیل کی مدد سے اخذ کی گئی ہیں۔
نجم الدولہ، دبیر الملک، مرزا نوشہ اسد اللہ خان غالب بہادر نظام جنگ (1797ء- 1869ء) اردو زبان کے سب سے بڑے شاعروں میں ایک سمجھے جاتے ہیں۔ یہ تسلیم شدہ بات ہے کہ 19 ویں صدی غالب کی صدی ہے۔ جبکہ 18 ویں میر تقی میر کی تھی اور 20 ویں علامہ اقبال کی۔ غالب کی عظمت کا راز صرف ان کی شاعری کے حسن اور بیان کی خوبی ہی میں نہیں ہے۔ ان کاا صل کمال یہ ہے کہ وہ ز ندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کو گہرائی میں جاکر سمجھتے تھے اور بڑی سادگی سے عام لوگوں کے لیے بیان کردیتے تھے۔ غالب جس پر آشوب دور میں پیدا ہوئے اس میں انہوں نے مسلمانوں کی ایک عظیم سلطنت کو برباد ہوتے ہوئے اور باہر سے آئی ہوئی انگریز قوم کو ملک کے اقتدار پر چھاتے ہوئے دیکھا۔ غالباً یہی وہ پس منظر ہے جس نے ان کی نظر میں گہرائی اور فکر میں وسعت پیدا کی۔
سید احمد بن متقی خان (17 اکتوبر 1817ء – 27 مارچ 1898ء) المعروف سر سید انیسویں صدی کا ایک ہندوستانی مسلم نظریۂ عملیت کا حامل ، مصلح اور فلسفی تھا۔ سر سید احمد خان ایک نبیل گھرانے میں پیدا ہوا جس کے مغل دربار کے ساتھ مضبوط تعلقات تھے ۔ سر سید نے قرآن اور سائنس کی تعلیم دربار میں ہی حاصل کی، جس کے بعد یونیورسٹی آف ایڈنبرا نے انہیں قانون میں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری عطا کی۔1838ء میں اس نے ایسٹ انڈیا کمپنی میں ملازمت اختیار کی اور 1867ء وہ چھوٹے مقدمات کے لیے جج مقرر کیا گیا۔ 1876ء میں وہ ملازمت سے مستعفی ہوئے۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے دوران میں وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا وفادار رہے اور یورپیوں کی جانیں بچانے میں اس کے کردار کی سلطنت برطانیہ کی طرف سے ستائش کی گئی۔بغاوت ختم ہونے کے بعد انہوں نے اسباب بغاوت ہند پر ایک رسالہ لکھا جس میں ہندوستان کی رعایا کو اور خاص کر مسلمانوں کو بغاوت کے الزام سے بری کیا۔ اس رسالہ کا فائدہ سلطنت برطانیہ کو ہوا جس نے اس کی بنیاد پر ایسٹ انڈیا کمپنی سے برصغیر کا تمام قبضہ لے لیا اور ہندوستان کے تمام معاملات براہ راست اپنے قبضہ میں لے لیے۔ مسلمانوں کے راسخ الاعتقاد طرز کو ان کے مستقبل کے لیے خطرہ سمجھتے ہوئے سرسید نے مغربی طرز کی سائنسی تعلیم کو فروغ دینے کے لیے جدید اسکولوں اور جرائد کا اجرا کیا اپنے کلامی مکتبِ فکر کی بنیاد ڈالی جو معتزلہ کے افکار کا چربہ تھا مگر اس کے کلامی نظریات مقبول نہ ہو سکے اس لیے صرف سائنسی علوم کی اشاعت تک محدود رہا۔
عثمان بن عفان اموی قریشی (47 ق ھ - 35 ھ / 576ء - 656ء) اسلام کے تیسرے خلیفہ، داماد رسول اور جامع قرآن تھے۔ عثمان غنی سابقین اسلام میں شامل اور عشرہ مبشرہ میں سے تھے، ان کی کنیت ذو النورین ہے کیونکہ انھوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دو صاحبزادیوں سے نکاح کیا تھا، پہلے رقیہ بنت محمد سے کیا، پھر ان کی وفات کے بعد ام کلثوم بنت محمد سے نکاح کیا۔ عثمان غنی پہلے صحابی ہیں جنھوں نے سرزمین حبشہ کی ہجرت کی، بعد میں دیگر صحابہ بھی آپ کے پیچھے حبشہ پہنچے۔ بعد ازاں دوسری ہجرت مدینہ منورہ کی جانب کی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عثمان غنی پر مکمل اعتماد اور ان کی فطری حیاء و شرافت اور جو انھوں نے اپنے مال کے ذریعہ اہل ایمان کی نصرت کی تھی، اس کی انتہائی قدر کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیگر صحابہ کے ساتھ ان کو بھی جنت اور شہادت کی موت کی خوش خبری دی۔
مغلیہ سلطنت 1526ء سے 1857ء تک برصغیر پر حکومت کرنے والی ایک مسلم سلطنت تھی جس کی بنیاد ظہیر الدین بابر نے 1526ء میں پہلی جنگ پانی پت میں دہلی سلطنت کے آخری سلطان ابراہیم لودھی کو شکست دے کر رکھی تھی۔ مغلیہ سلطنت اپنے عروج میں تقریباً پورے برصغیر پر حکومت کرتی تھی، یعنی موجودہ دور کے افغانستان، پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے ممالک پر مشتمل خطے پر انکا دور دورہ تھا۔-
اردو زبان کی ابتدا کے متعلق نظریات
اردو کی ابتدا و آغاز کے بارے میں کئی مختلف و متضاد نظریات ملتے ہیں یہ آپس میں اس حد تک متضاد ہیں کہ ایک انسان چکرا کر رہ جاتا ہے۔ ان مشہور نظریات میں ایک بات مشترک ہے کہ ان میں اردو کی ابتدا کی بنیاد برصغیر پاک و ہند میں مسلمان فاتحین کی آمد پر رکھی گئی ہے۔ اور بنیادی استدلال یہ ہے کہ اردو زبان کا آغاز مسلمان فاتحین کی ہند میں آمد اور مقامی لوگوں سے میل جول اور مقامی زبان پر اثرات و تاثر سے ہوا۔ اور ایک نئی زبان معرض وجود میں آئی جو بعد میں اردو کہلائی۔ کچھ ماہرین لسانیات نے اردو کی ابتدا کا سراغ قدیم آریائوں کے زمانے میں لگانے کی کوشش کی ہے۔ بہر طور اردو زبان کی ابتدا کے بارے میں کوئی حتمی بات کہنا ذرا مشکل ہے۔ اردو زبان کے محققین اگرچہ اس بات پر متفق ہیں کہ اردو کی ابتدا مسلمانوں کی آمد کے بعد ہوئی لیکن مقام اور نوعیت کے تعین اور نتائج کے استخراج میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس انداز سے اگر اردو کے متعلق نظریات کو دیکھا جائے تو وہ نمایاں طور پر چار مختلف نظریات کی شکل میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔
ذیل میں اردو کے ان محاوروں کی فہرست بلحاظ حروف تہجی درج ہے جو کثیر الاستعمال ہیں۔ محاورے دوسرے الفاظ میں کسی بھی زبان میں سینہ بسینہ منتقل ہونے والے وہ جملے یا کہاوتیں ہوتی ہیں جو ضرب المثل بن جاتی ہیں اور انھیں گفتگو کے دوران خصوصی موقع پر استعمال کیا جاتا ہے۔ محاوروں کا برمحل استعمال گفتگو میں دلچسپی اور روح پیدا کر دیتا ہے، چونکہ محاورے کسی بھی صورت حال کو چند الفاظ میں بیان کر دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں اس لیے بسا اوقات طویل جملوں اور نصائح سے زیادہ موثر ثابت ہوتے ہیں۔ اردو زبان کے محاورے اس کا سب سے دلچسپ حصہ سمجھے جاتے ہیں۔
مذکر: نر اسم ہوتا ہے جیسےمرد، باپ، بیل، بیٹا جبکہ مونث: مادہ اسم ہوتا ہے جیسے عورت، ماں، گائے، بیٹی بے جان اسماء میں نر اور مادہ کا کوئی فرق نہیں ہوتا اس لیے ان کی تذکیر و تانیث کا تمام تر درارومدار اہل زبان پر ہوتا ہے جیسے قلم کو اہل زبان مذکر بولتے ہیں اور گیند کو مونث اسی لیے ایسے اسماء کی تذکیر و تانیث کو غیر حقیقی تذکیر و تانیث کہا جاتا ہے۔ جبکہ حقیقی تذکیر و تانیث وہ ہوتی ہے جس میں نر کے مقابلے میں مادہ اور مادہ کے مقابلے میں نر ہو جانداروں میں کیونکہ قدرتی طور پر نر اور مادہ کا فرق موجود ہوتا ہے اس لیے اس لیے ان کی تذکیرو تانیث حقیقی ہوتی ہے جیسے مرد، عورت۔ بیل، گائے وغیرہ
بنو ہاشم کی طرح بنو امیہ بھی قریش کا ایک ممتاز اور دولت مند قبیلہ تھا، اسی خاندان نے خلافت راشدہ کے بعد تقریباًً ایک صدی تک خلافت سنبھالی اور اسلامی فتوحات کو بام عروج پر پہنچایا۔ جس کی سرحدیں ایک طرف چین اور دوسری طرف اسپین تک پھیلی ہوئی تھیں۔ البتہ مرکزی خلافت کے خاتمے کے باوجود اس خاندان کا ایک شہزادہ عبدالرحمن الداخل اسپین میں حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوا۔ جہاں 1492ء تک اموی سلطنت قائم رہی۔
خلافت راشدہ کے خاتمے کے بعد عربوں کی قائم کردہ دو عظیم ترین سلطنتوں میں سے دوسری سلطنت خلافت عباسیہ کہلاتی ہے۔ جس کا قیام 750ء (132ھ) میں عمل میں آیا اور 1258ء (656ھ) میں اس کا خاتمہ ہو گیا۔ یہ خلافت ایک تحریک کے ذریعے قائم ہوئی جو بنو امیہ کے خلاف تھی۔ تحریک نے ایک عرصے تک اپنے مقاصد کے حصول کے لیے جدوجہد کی اور بالآخر بنو امیہ کو شکست دینے کے بعد بر سر اقتدار آگئی۔
خدیجہ بنت خویلد (پیدائش: 556ء– وفات: 30 اپریل 619ء) مکہ کی ایک معزز، مالدار، عالی نسب خاتون جن کا تعلق عرب کے قبیلے قریش سے تھا۔ جو حسن صورت و سیرت کے لحاظ سے "طاہرہ" کے لقب سے مشہور تھیں۔ انھوں نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تجارتی کاروبار میں شریک کیا اور کئی مرتبہ اپنا سامانِ تجارت دے کر بیرون ملک بھیجا۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تاجرانہ حکمت، دیانت، صداقت، محنت اور اعلی اخلاق سے اتنی متاثر ہوئیں کہ آپ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو شادی کا پیغام بھجوایا۔ جس کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے بڑوں کے مشورے سے قبول فرمایا۔ اس وقت ان کی عمر چاليس سال تھی جبکہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم صرف پچیس سال کے تھے۔ خدیجہ نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور پہلی ام المومنین ہونے کی سعادت حاصل کی۔
محمد بن قاسم (عربی: محمد بن القاسم الثقفي) کا پورا نام عماد الدین محمد بن قاسم تھا جو بنو امیہ کے ایک مشہور سپہ سالار حجاج بن یوسف کے بھتیجا تھے۔ محمد بن قاسم نے 17 سال کی عمر میں سندھ فتح کرکے ہندوستان میں اسلام کو متعارف کرایا۔ ان کو اس عظیم فتح کے باعث ہندوستان و پاکستان کے مسلمانوں میں ایک ہیرو کا اعزاز حاصل ہے اور اسی لیے سندھ کو "باب الاسلام" کہا جاتا ہے کیونکہ ہندوستان پر اسلام کا دروازہ یہیں سے کھلا۔
پریم چند اردو کا مشہور ناول نگار اور افسانہ نگار ہیں۔ ان کا اصلی نام دھنپت رائے ہے، لیکن ادبی دنیا میں پریم چند کے نام سے مشہور ہیں۔ وہ 1885ء میں منشی عجائب لال کے ہاں موضع پانڈے پور ضلع بنارس میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ایک ڈاک خانے میں کلرک تھے۔ پریم چند ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ نے تقریباً سات آٹھ برس فارسی پڑھنے کے بعد انگریزی تعلیم شروع کی۔ پندرہ سال کی عمر میں شادی ہو گئی۔ ایک سال بعد والد کا انتقال ہو گیا۔ اس وقت آٹھویں جماعت میں پڑھتے تھے۔ پورے گھر بار کا بوجھ آپ پ رہی پڑ گیا۔ فکر معاش نے زیادہ پریشان کیا تو لڑکوں کو بطور ٹیوٹر پڑھانے لگے اور میٹرک پاس کرنے کے بعد محکمہ تعلیم میں ملازم ہو گئے۔ اسی دوران میں بی۔ اے کی ڈگری حاصل کی۔
صحابہ (عربی: الصحابۃ، "پیروکار") اسلام میں نبی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، کے ان پیرو کاروں کو کہا جاتا ہے جنہوں نے ان کی اپنی حیات میں اسلام قبول کیا اور ان کو کچھ وقت کی صحبت ملی۔ اور اسی ایمان کی حالت میں وہ دنیا سے گئے۔ بعض صحابہ نابینا بھی تھے اور بعض لوگ جنہوں نے اسلام قبول کیا، مگر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دور یا بعد میں پھر مرتد ہوئے اور پھر اسلام قبول کیا (محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیات کے بعد) تو ان کو صحابی نہیں کہا جاتا۔
صلوٰۃ " (نماز) کے لغوی معنی "دعا" کے ہیں۔ قرآن میں فرمانِ اللہ ہے: خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌاے پیغمبر! ان لوگوں کے اموال میں سے صدقہ وصول کرلو جس کے ذریعے تم انہیں پاک کردو گے اور ان کے لیے باعثِ برکت بنو گے، اور اُن کے لیے دعا کرو۔ یقینا! تمہاری دعا ان کے لیے سراپا تسکین ہے، اور اللہ ہر بات سنتا اور سب کچھ جانتا ہے جبکہ فرمانِ نبوی ہے: اور اللہ کی جانب سے "صلوٰۃ" کے معنی بہترین ذکر کے ہیں جبکہ ملائکہ کی طرف سے "صلوٰۃ" کے معنی دعا ہی کے لیے جائیں گے۔ قرآن میں لکھا ہے: إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًابے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو!
واحد کا مفہوم (انگریزی: Meaning of Singular) ایک شخص یا ایک چیز کو واحد کہا جاتا ہے۔ یا واحد وہ اسم ہوتا ہے جو ایک شخص یا چیز کو ظاہر کرے۔ مثلاﹰ کتاب، لڑکا، مسجد، استاد، فوج، بلی، شجر، میز، کرسی، وغیرہ۔ جبکہ جمع ایک سے زیادہ شخصوں یا چیزوں کو جمع کہتے ہیں۔ یا جمع وہ اسم ہوتا ہے جو ایک سے زیادہ اشخاص یا اسماء کو ظاہر کرے۔ مثلاً کُتب، لڑکے، مساجد، اساتذہ، افواج، بلیاں، اشجار، میزیں، کرسیاں وغیرہ
نعمان ابن ثابت بن زوطا بن مرزبان (پیدائش: 5 ستمبر 699ء– وفات: 14 جون 767ء) (فارسی: ابوحنیفه،عربی: نعمان بن ثابت بن زوطا بن مرزبان)، عام طور پر آپکو امام ابو حنیفہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ آپ سنی حنفی فقہ (اسلامی فقہ) کے بانی تھے۔ آپ ایک تابعی، مسلمان عالم دین، مجتہد، فقیہ اور اسلامی قانون کے اولین تدوین کرنے والوں میں شامل تھے۔ آپ کے ماننے والوں کو حنفی کہا جاتا ہے۔ زیدی شیعہ مسلمانوں کی طرف سے بھی آ پ کو ایک معروف اسلامی عالم دین اور شخصیت تصور کیا جا تا ہے۔ انہیں عام طور پر "امام اعظم" کہا جاتا ہے۔
اللہ کے ذاتی نام 'اللہ' کے علاوہ اللہ کے ننانوے صفاتی نام مشہور ہیں۔ انہیں کہا جاتا ہے۔ ان میں سے بیشتر قرآن میں موجود ہیں اگرچہ قرآن میں ننانوے کی تعداد مذکور نہیں مگر یہ ارشاد ہے کہ اللہ کو اچھے اچھے ناموں سے پکارا جائے۔ روایات میں بکثرت نیچے دیے گئے ننانوے صفاتی نام ملتے ہیں جن کے ساتھ ان کا اردو ترجمہ بھی درج کیا جا رہا ہے۔
'مرزا اسد اللہ خان غالب' کی شخصیت کو کون نہیں جانتا۔ ہمارے ملک میں تو یہ عالم ہے کہ اگر کسی کو تھوڑی بہت اردو کی سوجھ بوجھ ہے تو غالب کے نام کو تو ضرور جانتا ہوگا۔ بحیثیتِ شاعر وہ اتنے مقبول ہیں کہ اُن کے اشعار زبان زدِ خلائق ہیں۔ اور بحیثیتِ نثر نگار بھی وہ کسی سے کم نہیں۔ بلکہ اس لحاظ سے ان کا پایہ سب سے بلند ہے کہ ایسے زمانے میں جب رنگینی و قافیہ پیمائی، انشا پردازی کا اصل سرمایہ سمجھی جاتی تھی ، انہوں نے نثر میں بھی ایک نئی راہ نکالی ۔ سادہ و پرکار، حسین و رنگین۔ یہی نمونۂ نثر آنے والوں کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوئے۔ [[مکتوب نگاری]] زمانہ قدیم سے جذبات ، واقعات اور حالات کی ترسیل کا ذریعہ ہی ہے ۔ فارسی میں مکاتیب اور واقعات میں انشا پردازی کے اعلیٰ نمونے پیش کیے گئے ۔ لیکن یہ انشا پردازی محض لفظی بازی گری تھی اس میں جذبات اوراحساسات کا دخل بہت کم تھا ۔ مرصع و مسجع عبارت آرائی ہوتی تھی ۔ اردو خطوط میں بھی اسی کی تقلید کی گئی ۔ مرزا غالب نے اس فرسودہ روش کو ترک کر کے اردو خطوط نویسی میں انقلاب لایا ۔ انہوں نے خطوط کو زندگی کی حرارت بخشی ۔ سادہ اور عام فہم زبان کا استعمال کیا جس میں بے تکلف عبارتیں ہوتیں ، مسجع و مرصع عبارتوں سے پاک ۔ غالب خط نہیں لکھتے تھے بلکہ بات چیت کرتے تھے ۔ گرچہ یہ مکالمہ یک طرفہ ہوتا تھا لیکن مکتوب الیہ کو ایسا محسوس ہوتا تھا گویا غالب ان کے سامنے ان سے گفتگو کر رہے ہیں. غالب کے خطوط معلومات کا گنجینہ ہیں ۔ ان سے اس دور کی سیاسی سماجی زندگی پر روشنی پڑتی ہے ۔ خاص طور ایام غدر اور اس کے بعد کے چشم دید حالات اس خطوط میں بیان ہوئے ہیں ۔ بہت سے خطوط شاگردوں کے نام ہیں جن میں ان کے کلام پر اصلاح دینے کے ساتھ زبان و بیان کے نکات بتائے گئے ہیں. اردو ادب کی اس صنف مکتوب نگاری میں غالب کے خطوط کو نمایہ مقام حاصل ہے .
انگریزی (English) انگلستان سمیت دنیا بھر میں بولی جانے والی ایک وسیع زبان ہے جو متعدد ممالک میں بنیادی زبان کے طور پر بولی جاتی ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں ثانوی یا سرکاری زبان کی حیثیت رکھتی ہے۔ انگریزی دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی اور سمجھی جانے والی زبان ہے جبکہ یہ دنیا بھر میں رابطے کی زبان سمجھی جاتی ہے۔
سلطنت عثمانیہ (یا خلافت عثمانیہ 1517ء سے 1924ء تک) (عثمانی ترک زبان: "دولت علیہ عثمانیہ"، ترک زبان: Osmanlı Devleti) سنہ 1299ء سے 1922ء تک قائم رہنے والی ایک مسلم سلطنت تھی جس کے حکمران ترک تھے۔ اپنے عروج کے زمانے میں (16 ویں – 17 ویں صدی) یہ سلطنت تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی اور جنوب مشرقی یورپ، مشرق وسطٰی اور شمالی افریقہ کا بیشتر حصہ اس کے زیر نگیں تھا۔ اس عظیم سلطنت کی سرحدیں مغرب میں آبنائے جبرالٹر، مشرق میں بحیرۂ قزوین اور خلیج فارس اور شمال میں آسٹریا کی سرحدوں، سلوواکیہ اور کریمیا (موجودہ یوکرین) سے جنوب میں سوڈان، صومالیہ اور یمن تک پھیلی ہوئی تھی۔ مالدووا، ٹرانسلوانیا اور ولاچیا کے باجگذار علاقوں کے علاوہ اس کے 29 صوبے تھے۔
سیدہ عائشہ بنت ابی بکر (رضی اللہ عنہا) (پیدائش: 614ء– وفات: 13 جولائی 678ء) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ ہیں۔ آپ کو اُم المومنین کے خطاب سے یاد کیا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد عہد خلفائے راشدین میں آپ کی شخصیت بہت نمایاں نظر آتی ہے۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد 47 سال بقید حیات رہیں اور یہ تمام وہ عرصہ ہے جس میں ابتدائی مسلم فتوحات ہوئیں، مختلف ممالک مملکت اسلامیہ میں داخل ہوئے۔ علم الحدیث میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایات کے بعد سب سے زیادہ روایاتِ حدیث کا ذخیرہ آپ سے ہی روایت کیا گیا ہے۔ آپ عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور عہد خلفائے راشدین کی عینی شاہد بھی تھیں اور مزید برآں آپ نے خلافت امویہ کے ابتدائی 17 سال بھی ملاحظہ فرمائے۔ سنہ 678ء میں آپ کا اِنتقال مدینہ منورہ میں ہوا۔ آپ کے مناقب و فضائل کثیر ہیں جن سے آپ کی عظمت و شان جلالت مسلم خواتین پر نمایاں ہے۔
اسلام ایک توحیدی مذہب ہے جو اللہ کی طرف سے آخری رسول و نبی، محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ذریعے انسانوں تک پہنچائی گئی آخری الہامی کتاب (قرآن مجيد) کی تعلیمات پر قائم ہے۔ یعنی دنیاوی اعتبار سے بھی اور دینی اعتبار سے بھی اسلام (اور مسلم نظریے کے مطابق گذشتہ ادیان کی اصلاح) کا آغاز، 610ء تا 632ء تک 23 سال پر محیط عرصے میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اللہ کی طرف سے اترنے والے الہام (قرآن) سے ہوتا ہے۔ قرآن عربی زبان میں نازل ہوا (برائے وجہ : اللسان القرآن) اور اسی زبان میں دنیا کی کل آبادی کا کوئی 24% حصہ یعنی لگ بھگ 1.6 تا 1.8 ارب افراد اس کو پڑھتے ہیں ؛ ان میں (مختلف ذرائع کے مطابق) قریباً 20 تا 30 کروڑ ہی وہ ہیں جن کی مادری زبان عربی ہے جبکہ 70 تا 80 کروڑ، غیر عرب یا عجمی ہیں جن کی مادری زبان عربی کے سوا کوئی اور ہوتی ہے۔ متعدد شخصی ماخذ سے اپنی موجودہ شکل میں آنے والی دیگر الہامی کتابوں کے برعکس، بوسیلۂ وحی، فردِ واحد (محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے منہ سے ادا ہوکر لکھی جانے والی کتاب اور اس کتاب پر عمل پیرا ہونے کی راہنمائی فراہم کرنے والی شریعت ہی دو ایسے وسائل ہیں جن کو اسلام کی معلومات کا منبع قرار دیا جاتا ہے۔
اسلامی جمہوریۂ ایران (عرف عام: ایران، سابق نام: فارس، موجودہ فارسی نام: جمہوری اسلامی ایران) جنوب مغربی ایشیا کا ایک ملک ہے، جو مشرق وسطی میں واقع ہے۔ ایران کی سرحدیں شمال میں آرمینیا، آذربائیجان اور ترکمانستان، مشرق میں پاکستان اور افغانستان اور مغرب میں ترکی اور عراق (کردستان علاقہ) سے ملتی ہیں۔ مزید برآں خلیج فارس بھی اس سے ملحق ہے۔ اسلام ملک کا سرکاری مذہب اور فارسی قومی زبان ہے۔ فارسوں، آزربائیجان، کردوں (کردستانی) اور لروں (لرستانی) ملک میں سب سے زیادہ اہم نسلی گروہ ہیں ۔
فسانہ آزاد اردو ناول نگاری کے عہد اولین کا نقش ہے جسے پنڈت رتن ناتھ سرشار کشمیری نے لکھا۔ درحقیقت یہ ناول 1878ء میں لکھا گیا تھا اور شروع میں یہ لکھنؤ کے اودھ اخبار میں "ظرافت" کے عنوان سے قسط وار شائع ہوتا رہا پھر 1880ء میں پہلی دفعہ اسے منشی نول کشور لکھنؤ نے کتابی شکل میں چھاپا۔ یہ کتاب اردو ادب میں کلاسیک کا درجہ رکھتی ہے اور صدیاں گزرنے کے باوجود مقبول خاص و عام ہیں۔
اہل تشیع یا شیعیت (عربی: شيعة) اسلام کا دوسرا بڑا فرقہ ہے۔ اہل تشیع رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد فقط حضرت علی بن ابی طالب کی امامت کے قائل ہیں اور صرف انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا جانشین اور پہلا معصوم امام مانتے ہیں۔ شیعہ یا اہل تشیع نظریہ خلافت کو تسلیم نہیں کرتے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دعوت ذوالعشیرہ جو حدیث یوم الدار یا حدیث العشیرہ والدار کے نام سے مشہور ہے اور خطبہ حجتہ الوداع کے موقع پر علی بن ابی طالب کو اپنا جانشین مقرر کر دیا تھا۔ دعوت ذوالعشیرہ کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ
اردو ادب کی دو اصناف ہیں، اردو نثر اور اردو نظم یعنی اردو شاعری۔ پھر اردو شاعری کی کئی قسمیں ہیں جن میں نظم، غزل، مثنوی، قصیدہ، مرثیہ، رباعی، مخمس، مسدس، مثمن، قطعہ، نعت وغیرہ شامل ہیں۔ ان میں سب سے مشہور صنف غزل ہے جسے ہر خاص و عام نے قبول کیا اور سراہا ہے مگر اردو شاعری کی سب سے وسیع قسم اردو نظم ہے۔ اردو نظم میں بہت زیادہ تجربے کیے گئے ہیں اور یہی اس کی وسعت کی دلیل ہے۔ نظیر اکبر آبادی، الطاف حسین حالی، اکبر الہ آبادی اور اقبال، جوش ملیح آبادی، ساحر لدھیانوی، فیض احمد فیض، علی سردار جعفری، ن م راشد، اسماعیل میرٹھی، نظم طباطبائی نظم کے بڑے شاعروں میں سے ہیں۔
ابراہیم علیہ السلام وہ پہلے پیغمبر تھے جن کو اللہ نے مُسلمان نبی پیغمبر ابو الانبیاء، خلیل اللہ امام الناس اور حنیف کہہ کر پُکارا۔اللہ تعالی نے اپنے اس دوست برگزیده اور پیارے نبی کو قرآن مجید میں امتہ (النحل : 120) امام الناس (البقره: 124) حنیف اور مسلم (آل عمران: 67) کے ناموں سے بار بار بار کیا ہے۔ اکثر انبیائے کرام انہی کی اولاد سے ہیں۔ابراہیم علیہ السلام کے نام کی وجہ تسمیہ کے بارے میں بائبل کا بیان ہے کہ خدا تعالی ان سے مخاطب ہو کر کہتا ہے۔ دیکھ میرا عہد تیرے ساتھ ہے اور تو بہت قوموں کا باپ ہو گا۔ اور تیرا نام ابرام نہیں بلکہ ابراہام ہو گا۔ کیونکہ میں نے تجھے قوموں کا باپ بنایا ہے۔ (پیدائش 170:5)اکثر ماہرین کے نزدیک ابراہام یا ابراہیم ؑ بھی لفظ ہے۔ ہو سکتا ہے کہ پہلے آپ کا نام ابراہم ہو اور پھر ابراہام یا ابو رہام ہو گیا ہو۔مُسلمان اُن کو خلیل اللہ (اللہ کا دوست) کہتے ہیں۔ ابراہیم کی نسل سے کئی پیغمبر پیدا ہوئے، جن کا تذکرہ عہدنامہ قدیم میں ہے۔ اسلام کی کتاب قرآن مجید میں بھی بہت سارے ایسے انبیا کا ذکر ہے جو ابراہیم کی نسل میں سے تھے۔ اسلام کے آخری نبی مُحمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی ابراہیم کی نسل میں سے ہیں۔شرک، ستارہ پرستی اور بت سازی کے خلاف اپنی قوم اور اوروں کے ساتھ ان کا مجادلہ و محاجہ بڑے زور سے پیش کیا گیا ہے۔ ابراہیم کا بچپن میں ہی رشد عطا کیا گیا اور قلب سلیم بھی عنایت فرمایا گیا۔ تکوینی عجائبات اور ملکوت السمٰوت والارض ان کے سامنے تھے۔ انہیں کے مشاہدے سے اُن کو یقین کامل حاصل ہوا۔ بت پرستی کے خلاف ابراہیم کے جہاد کا ذکر بھی قران کریم میں کئی بار آیا ہے۔قرآن حکیم میں حضرت ابراہیم ؑ اور آذر کے اختلاف عقائد کو جس طرح نمایاں کیا گیا ہے اور جس طرح آپ اپنی قوم کے شرک سے متنفر اور متصادم ہوئے۔ اس سے ہم آپ کی عظمت و جلالت کی حقیقت کو بھی پاسکتے ہیں۔ اور اپنے لیے شمع ہدایت بھی روشن کر سکتے ہیں۔ اس وجہ سے مسلمانوں کو ملت براہیمی ہونے پر فخر ہے۔ ان کے بارے میں یہ توکہیں وضاحت نہیں ہوئی کہ کیا وحی ان پر نازل ہوئی تھی یا ان کی بعثت محض روحانی تھی؟ البتہ قرآن مجید میں ایک جگہ اس امر کی تصدیق ہوئی ہے کہ اللہ تعالی آپ سے ہمکلام تھا۔ اہل تاریخ کے نزدیک متعدد صحیفے تھے جو ابراہیم پر نازل ہوئے۔ ایک صحیفہ جو ان کی طرف سے منسوب ہے یونانی سے انگریزی میں ترجمہ ہو کر شائع ہو چکا ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ کے دین کے بارے میں قرآن مجید میں کئی جگہ پر ارشار ہوتا ہے کہ آپ موحد مسلم اورراست رو تھے۔ ارشاد ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے: ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ”پھر ہم نے تیری طرف (حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی طرف) وحی کی کہ ابراہیم ؑ راست رو (مسلم) کے دین پر چل اور وہ مشرکوں میں سے نہیں تھا “ اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے: يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تُحَآجُّونَ فِي إِبْرَاهِيمَ وَمَا أُنزِلَتِ التَّورَاةُ وَالإنجِيلُ إِلاَّ مِن بَعْدِهِ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ هَاأَنتُمْ هَؤُلاء حَاجَجْتُمْ فِيمَا لَكُم بِهِ عِلمٌ فَلِمَ تُحَآجُّونَ فِيمَا لَيْسَ لَكُم بِهِ عِلْمٌ وَاللّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ مَا كَانَ إِبْرَاهِيمُ يَهُودِيًّا وَلاَ نَصْرَانِيًّا وَلَكِن كَانَ حَنِيفًا مُّسْلِمًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْرَاهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ وَهَـذَا النَّبِيُّ وَالَّذِينَ آمَنُواْ وَاللّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ ”اے اہل کتاب! تم ابراہیم ؑ کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو۔ حالانکہ توریت اور انجیل اس کے بعد ہی اتاری گئیں۔ پھر کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے۔ سنو!
مسلمانان ہند و پاک کے دورِ زوال کی اہم ترین شخصیت (پیدائش: 1703ء، انتقال:1762ء) برصغیر پاک و ہند میں جب مسلمانوں کا زوال شروع ہوا تو بہت سے لوگوں نے سنجیدگی کے ساتھ زوال کے اسباب پر غور کرنا شروع کیا ان لوگوں میں عہد مغلیہ کے مشہور عالم اور مصنف شاہ ولی اللہ (1703ء تا 1763ء) کا نام سب سے نمایاں ہے۔ مجدد الف ثانی اور ان کے ساتھیوں نے اصلاح کا جو کام شروع کیا تھا شاہ ولی اللہ نے اس کام کی رفتار اور تیز کردی۔ ان دونوں میں بس یہ فرق تھا کہ مجدد الف ثانی چونکہ مسلمانوں کے عہد عروج میں ہوئے تھے اس لیے ان کی توجہ زیادہ تر ان خرابیوں کی طرف رہی جو مسلمانوں میں غیر مسلموں کے میل جول کی وجہ سے پھیل گئیں تھیں لیکن شاہ ولی اللہ چونکہ ایک ایسے زمانے سے تعلق رکھتے تھے جب مسلمانوں کا زوال شروع ہو گیا تھا اس لیے انہوں نے مسلمانوں کے زوال کے اسباب پر بھی غور کیا اور اس کے علاج کے بھی طریقے بتائے۔
کرنسی سے مراد ایسی چیز ہوتی ہے جس کے بدلے دوسری چیزیں خریدی یا بیچی جا سکیں۔ اور اگر یہ چیز کاغذ کی بنی ہو تو یہ کاغذی کرنسی کہلاتی ہے۔ماضی میں کرنسی مختلف دھاتوں کی بنی ہوتی تھی اور اب بھی چھوٹی مالیت کے سِکّے دھاتوں سے ہی بنائے جاتے ہیں۔ کمپیوٹر کی ایجاد کے بعد کاغذی کرنسی بتدریج ڈیجیٹل کرنسی میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔مذہب کی طرح کرنسی بھی انسان کو کنٹرول کرتی ہے۔ لیکن مذہب کے برعکس کرنسی حکومتوں کو بھی کنٹرول کرتی ہے۔ساڑھے تین سال کی مدت میں 5600 میل کا سفر طے کر کے جب مئی، 1275ء میں مارکو پولو پہلی دفعہ چین پہنچا تو چار چیزیں دیکھ کر بہت حیران ہوا۔ یہ چیزیں تھیں: جلنے والا پتھر( کوئلہ)، نہ جلنے والے کپڑے کا دسترخوان (ایسبسٹوس) ،کاغذی کرنسی اور شاہی ڈاک کا نظام۔ مارکو پولو لکھتا ہے "آپ کہہ سکتے ہیں کہ ( قبلائ ) خان کو کیمیا گری ( یعنی سونا بنانے کے فن ) میں مہارت حاصل تھی۔ بغیر کسی خرچ کے خان ہر سال یہ دولت اتنی بڑی مقدار میں بنا لیتا تھا جو دنیا کے سارے خزانوں کے برابر ہوتی تھی۔ لیکن چین سے بھی پہلے کاغذی کرنسی جاپان میں استعمال ہوئی۔ جاپان میں یہ کاغذی کرنسی کسی بینک یا بادشاہ نے نہیں بلکہ پگوڈا نے جاری کی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ کاغذی کرنسی موجودہ دنیا کا سب سے بڑا دھوکا ہے۔ جولائی، 2006ء کے ایک جریدہ وسہل بلور کے ایک مضمون کا عنوان ہے کہ ڈالر جاری کرنے والا امریکی سینٹرل بینک "فیڈرل ریزرو اس صدی کا سب سے بڑا دھوکا ہے"۔ مشہور برطانوی ماہر معاشیات جان کینز نے کہا تھا کہ مسلسل نوٹ چھاپ کر حکومت نہایت خاموشی اور رازداری سے اپنے عوام کی دولت کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کر لیتی ہے۔ یہ طریقہ اکثریت کو غریب بنا دیتا ہے مگر چند لوگ امیر ہو جاتے ہیں۔1927ء میں بینک آف انگلینڈ کے گورنر جوسیہ سٹیمپ ( جو انگلستان کا دوسرا امیر ترین فرد تھا ) نے کہا تھا کہ"جدید بینکاری نظام بغیر کسی خرچ کے رقم (کرنسی) بناتا ہے۔ یہ غالباً آج تک بنائی گئی سب سے بڑی شعبدہ بازی ہے۔ بینک مالکان پوری دنیا کے مالک ہیں۔ اگر یہ دنیا ان سے چھن بھی جائے لیکن ان کے پاس کرنسی بنانے کا اختیار باقی رہے تو وہ ایک جنبش قلم سے اتنی کرنسی بنا لیں گے کہ دوبارہ دنیا خرید لیں۔..
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصال کے بعد حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان غنی اور حضرت علی رضوان اللہ علیہم اجمعین کا عہد خلافت خلافت راشدہ کہلاتا ہے۔ اس عہد کی مجموعی مدت تیس سال ہے جس میں حضرت ابوبکر صدیق اولین اور حضرت علی آخری خلیفہ ہیں۔ اس عہد کی نمایاں ترین خصوصیت یہ تھی کہ یہ قرآن و سنت کی بنیاد پر قائم نظام حکومت تھا۔
جماع کا لفظ عربی اساس جمع سے اخذ کیا جاتا ہے اور اس کے معنی جمع ہو جانا یا باہم ملنا کے ہوتے ہیں جبکہ اس باھم ملنے سے عمومی طور پر مراد جنسی طور پر ملنے کی ہوتی ہے۔، اسی مفہوم کو عام طور پر جنسی روابط، مباشرت، ہم بستری وغیرہ کے ناموں سے بھی اختیار کیا جاتا ہے لیکن چونکہ یہ الفاظ نسبتاً سخت و معیوب ہیں لہذا طبی و دیگر ویکیپیڈیا کے مضامین میں جماع کی اصطلاح کو منتخب کیا گیا ہے جس کو انگریزی میں sexual intercourse اور طب میں coitus یا پھر copulation بھی کہا جاتا ہے۔ اور طبی تعریف کی رو سے مؤنث و مذکر کے مابین ایسا رابطہ کے جس میں مذکر کے جسم سے منی (sperm) کا انتقال، مؤنث کے جسم کی جانب واقع ہو جماع کہلایا جاتا ہے۔ جماع کے برعکس، جنس (sex) ایک ایسا لفظ ہے جو متعدد استعمالات رکھتا ہے؛ طب میں عام طور پر جنس سے مراد مؤنث یا مذکر صنف کی لی جاتی ہے۔ جبکہ جنس کا لفظ، بلا تفریقِ جنسِ مؤنث و مذکر، دو (یا دو سے زائد) افراد کے درمیان اس قسم کے کسی بھی رابطے یا تعلق ظاہر کرتا ہے کہ جسمیں دونوں یا کسی ایک کے تولیدی اعضاء کو تحریک ملے
معراج کمالِ معجزاتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ یہ وہ عظیم خارقِ عادت واقعہ ہے جس نے تسخیرِ کائنات کے مقفّل دروازوں کو کھولنے کی اِبتداء کی۔ اِنسان نے آگے چل کر تحقیق و جستجو کے بند کواڑوں پر دستک دی اور خلاء میں پیچیدہ راستوں کی تلاش کا فریضہ سر انجام دیا۔ رات کے مختصر سے وقفے میں جب اللہ ربّ العزّت حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مسجدِ حرام سے نہ صرف مسجد اقصیٰ تک بلکہ جملہ سماوِی کائنات کی بے اَنت وُسعتوں کے اُس پار ’’قَابَ قَوْسَيْنِ‘‘ اور ’’أَوْ أَدْنَى‘‘ کے مقاماتِ بلند تک لے گیا اور آپ مدّتوں وہاں قیام کے بعد اُسی قلیل مدّتی زمینی ساعت میں اِس زمین پر دوبارہ جلوہ اَفروز بھی ہو گئے۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ یا آئی ایم ایف (انٹرنیشنل مونیٹری فنڈ:IMF) ایک عالمی مالیاتی ادارہ ہے جو ملکی معیشتوں اور انکی باہمی کارکردگی بالخصوص زر مبادلہ، بیرونی قرضہ جات پر نظررکھتا ہے اور انکی معاشی فلاح اور مالی خسارے سے نبٹنے کے لیے قرضے اور تیکنیکی معاونت فراہم کرتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کی وجہ سے بہت سے یورپی ممالک کا توازن ادائیگی کا خسارہ پیدا ہو گیا تھا۔ ایسے ممالک کی مدد کرنے کے لیے یہ ادارہ وجود میں آیا۔ یہ ادارہ جنگ عظیم دوم کے بعد بریٹن وڈز کے معاہدہ کے تحت بین الاقوامی تجارت اور مالی لین دین کی ثالثی کے لیے دسمبر 1945 میں قائم ہوا۔ اس کا مرکزی دفتر امریکہ کے دار الحکومت واشنگٹن میں ہے۔ اس وقت دنیا کے 185 ممالک اس کے رکن ہیں۔ شمالی کوریا، کیوبا اور کچھ دوسرے چھوٹے ممالک کے علاوہ تمام ممالک اس کے ارکان میں شامل ہیں۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ پر بڑی طاقتوں کا مکمل راج ہے جس کی وجہ اس کے فیصلوں کے لیے ووٹ ڈالنے کی غیر منصفانہ تقسیم ہے۔ یہ ادارہ تقریباً تمام ممالک کو قرضہ دیتا ہے جو ان ممالک کے بیرونی قرضہ میں شامل ہوتے ہیں۔ ان قرضوں کے ساتھ غریب ممالک کے اوپر کچھ شرائط بھی لگائی جاتی ہیں جن کے بارے میں ناقدین کا خیال ہے کہ یہ شرائط اکثر اوقات مقروض ملک کے معاشی حالت کو بہتر بنانے کی بجائے اسے بگاڑتے ہیں۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ جیسے بین الاقوامی اداروں کے ڈھانچے کو بدلنے کی ضرورت وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ محسوس کی جا رہی ہے۔
اسدالدین اویسی حیدرآباد، دکن، آندھراپردیش کے دار الحکومت میں 13 مئی 1969 میں پیدا ہوئے۔ اسد الدینہندوستان کی قومی سیا سی جماعت کل ہند مجلس اتحاد المسلمین کے قومی صدر ہیں۔ اُنہیں نقیب ملت کا لقب دیا گیا ہے۔ وہ حیدرآباد کے مسلسل 3 مرتبہ رکن پارلیمان رہ چکے ہیں۔ وہ سلطان صلاح الدین اویسی کے فرزند اور اکبر الدین اویسی کے بڑے بھائی ہیں۔ اور دکن کے شیر ہیں
اگر یہ آپ کا مطلوبہ صفحہ نہیں تو دیکھیے، مصری (ضدابہام)عرب جمہوریہ مصر یا مصر، جمهورية مصر العربية ، بر اعظم افریقا کے شمال مغرب اور بر اعظم ایشیا کے سنائی جزیرہ نما میں واقع ایک ملک ہے۔ مصر کا رقبہ 1،001،450 مربع کلو میٹر ہے۔ مصر کی سرحدوں کو دیکھا جائے تو مغرب میں لیبیا، جنوب میں سوڈان، مشرق میں بحیرہ احمر، شمال مشرق میں فلسطین شمال میں بحیرہ روم ہیں۔
عمران احمد خان نیازی پاکستانی سیاست دان اور سابقہ کرکٹ کھلاڑی جو پاکستان کے بائیسویں اور موجودہ وزیر اعظم ہیں اور وہ موجودہ وزیر داخلہ اور پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ بھی ہیں۔ اس سے پہلے وہ 2002ء تا 2007ء اور 2008ء تا 2013ء تک پاکستان قومی اسمبلی کے رکن بھی رہ چکے ہیں۔ سیاست میں قدم رکھنے سے قبل عمران خان ایک کرکٹر اور مخیر تھے۔ انہوں نے دو دہائیوں تک بین الاقوامی کرکٹ کھیلی اور بعد میں خدمت خلق کے منصوبے بنائے جیسے کہ شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال اور ریسرچ سینٹر اور نمل کالج وغیرہ۔
محمد علی جناح پیدائشی نام، محمد علی جناح بھائی، 25 دسمبر 1876ء – 11 ستمبر 1948ء) کے نامور وکیل، سیاست دان اور بانی پاکستان تھے۔ محمد علی جناح 1913ء سے لے کر پاکستان کی آزادی 14 اگست 1947ء تک آل انڈیا مسلم لیگ کے سربراہ رہے، پھر قیام پاکستان کے بعد اپنی وفات تک، وہ ملک کے پہلے گورنر جنرل رہے۔ سرکاری طور پر پاکستان میں آپ کو قائدِ اعظم یعنی سب سے عظیم رہبر اور بابائے قوم یعنی قوم کا باپ بھی کہا جاتا ہے۔ جناح کا یومِ پیدائش پاکستان میں قومی تعطیل کے طور پر منایا جاتا ہے۔کراچی کے پیدائشی اور لنکن ان سے بیرسٹری کی تربیت حاصل کرنے والے جناح، بیسویں صدی کے ابتدائی دو عشروں میں آل انڈیا کانگریس کے اہم رہنما کے طور پر ابھرے۔ اپنی سیاست کے ابتدائی ادوار میں انہوں نے ہندو مسلم اتحاد کے لیے کام کیا۔ 1916ء میں آل انڈیا مسلم لیگ اور آل انڈیا کانگریس کے مابین ہونے والے میثاق لکھنؤ کو مرتب کرنے میں بھی انہوں نے اہم کردار ادا کیا۔ جناح آل انڈیا ہوم رول لیگ کے اہم رہنماوں میں سے تھے، انہوں نے چودہ نکات بھی پیش کیے، جن کا مقصد ہندوستان کے مسلمانوں کے سیاسی حقوق کا تحفظ کرنا تھا۔ بہر کیف جناح 1920ء میں آل انڈیا کانگریس سے مستعفی ہو گئے، جس کی وجہ آل انڈیا کانگریس کے موہن داس گاندھی کی قیادت میں ستیاگرا کی مہم چلانے کا فیصلہ تھا۔1940ء تک جناح کو یہ یقین ہو چلا تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک علاحدہ وطن کی جدوجہد کرنی چاہیے۔ اسی سال، مسلم لیگ نے جناح کی قیادت میں قرارداد پاکستان منظور کی جس کا مقصد نئی مملکت کی قیام کا مطالبہ تھا۔دوسری جنگ عظیم کے دوران، آل انڈیا مسلم لیگ نے مضبوطی پکڑلی جبکہ ان ادوار میں کانگریس کے کئی رہنما قید کاٹ رہے تھے اور جنگ کے ختم ہونے کے مختصر عرصے میں ہی انتخابات کا انعقاد ہوا، جس میں جناح کی جماعت نے مسلمانوں کے لیے مختص نشستوں میں سے بڑی تعداد جیت لی۔ اس کے بعد آل انڈیا کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ متحدہ ہندوستان میں اختیارات کے توازن کے لیے کسی صیغے پر متفق نا ہو سکے نتیجتاً تمام جماعتیں اس امر پر متفق ہوگئیں کہ ہندوستان کے دو حصے کیے جائیں جن میں ایک مسلم اکثریتی علاقوں میں پاکستان جبکہ باقی ماندہ علاقوں میں بھارت کا قیام ہو۔پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کے طور پر جناح نے اپنی حکومتی پالیسیوں کے قیام کے لیے کام کیا نیز انہوں نے ان لاکھوں لوگوں کے بہبود اور آباد کاری کے لیے بھی کام کیا جو تقسیم ہند کے بعد پاکستان کی جانب ہجرت کر چلے تھے، انہوں نے ان مہاجر کیمپوں کی ذاتی طور پر دیکھ بھال کی۔ جناح 71 سال کے عمر میں انتقال کر گئے جبکہ ان کے نوزائیدہ ملک کو سلطنت برطانیہ سے آزاد ہوئے محض ایک سال کا عرصہ ہوا تھا۔ ان کی سوانح عمری لکھنے والے لکھاری،اسٹینلی وولپرٹ لکھتے ہیں کہ، وہ (یعنی جناح) پاکستان کے عظیم ترین رہنما رہیں گے۔
اردو زبان میں چھتیس حروفِ تہجی اور سینتالیس آوازیں ہیں جن میں سے بیشتر عربی سے لیے گئے ہیں اور دیگر انہی کی مختلف شکلیں ہیں۔ کچھ حروف کئی طریقوں سے استعمال ہوتے ہیں اور کچھ مخلوط حروف بھی استعمال ہوتے ہیں جو دو حروف سے مل کر بنتے ہیں۔ بعض لوگ 'ء' کو الگ حرف نہیں مانتے مگر پرانی اردو کتب اور لغات میں اسے الگ حرف کے طور پر لکھا جاتا ہے۔ مختلف الفاظ میں یہ الگ حرف کے طور پر ہی استعمال ہوتا ہے مثلاً 'دائرہ'۔ یہ بات مدِنظر رکھنا ضروری ہے کہ اردو تختی اور اردو حروف دو مختلف چیزیں ہیں کیونکہ اردو تختی میں اردو حروفِ تہجی کی کئی اشکال ہو سکتی ہیں جن کو الگ حرف کا درجہ نہیں دیا جا سکتا بلکہ وہ ایک ہی حرف کی مختلف شکلیں ہیں۔ مثلاً نون غنہ نون کی شکل ہے اور 'ھ' اور 'ہ' ایک ہی حرف کی مختلف اشکال ہیں۔ ایک اور مثال الف ممدودہ (آ) اور الف مقصورہ (ا) کی ہے جو اردو تختی میں الگ ہیں مگر اردو کا ایک ہی حرف شمار ہوتے ہیں۔
ناول اطالوی زبان کے لفظ ناولا (Novella) سے نکلا ہے۔ ناولا کے معنیٰ ہے نیا۔ لغت کے اعتبار سے ناول کے معانی نادر اور نئی بات کے ہیں۔ لیکن صنفِ ادب میں اس کی تعریف بنیادی زندگی کے حقائق بیان کرنا ہے۔ ناول کی اگر جامع تعریف کی جائے تو وہ کچھ یوں ہوگی کہ “ناول ایک نثری قصہ ہے جس میں پوری ایک زندگی بیان کی جاتی ہے”۔ ناول کے عناصر ِ ترکیبی میں کہانی، پلاٹ، کردار، مکالمے ،زماں و مکاں، اسلوب ،نکتہ نظر اور موضوع وغیرہ شامل ہیں۔
تقویٰ کا مطلب ہے پی رہی ز گاری، نیکی اور ہدایت کی راہ۔ تقویٰ دل کی اس کیفیت کا نام ہے جس کے حاصل ہو جانے کے بعد دل کو گناہوں سے جھجک معلوم ہونے لگتی ہے اور نیک کاموں کی طرف اس کو بے تاہانہ تڑپ ہوتی ہے۔۔ خدا کو تقوی پسند ہے۔ ذات پات یا قومیت وغیرہ کی اس کی نگاہ میں کوئی وقعت نہیں۔ ترجمہ: خدا کے حضور میں سب سے قابل عزت و احترام وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔ یہ قرآن پاک کا ارشاد ہے۔ تقوی دینداری اور راہ ہدایت پر چلنے سے پیدا ہوتا ہے۔ بزرگان دین کا وصف اولین تقوی رہا ہے۔ قرآن پاک متقی لوگوں کی ہدایت کے لیے ہے۔ افعال و اقوال کے عواقب پر غوروخوص کرنا تقوی کو فروغ دیتا ہے۔
عیسیٰ ابن مریم ایک قرآنی نبی ہیں۔ مسلمان ان کو اللہ کا برگزیدہ نبی مانتے ہیں۔ جو مخلوق خدا کی ہدایت اور رہبری کے لیے مبعوث ہوئے۔ ایک مدت تک زمین پر رہے پھر زندہ آسمان پر اٹھا لیے گئے۔ قرب قیامت آپ پھر نزول فرمائیں گے اور شریعت محمدیہ پہ عامل ہوں گے۔ ایک مدت تک قیام کریں گے اور پھر وصال فرما کر مدینہ منورہ میں مدفون ہوں گے۔
یہ وہ شہر آفاق نظم ہے جو اپریل 1911ءکے جلسہ انجمن حمایت اسلام میں پڑھی گئی۔ لندن سے واپسی پر اقبال نے ریواز ہوسٹل کے صحن میں یہ نظم پڑھی۔ اقبال نے یہ نظم خلاف معمول تحت اللفظ میں پڑھی۔ مگر انداز بڑا دلا ویز تھا۔ اس نظم کی جو کاپی اقبال اپنے قلم سے لکھ کر لائے تھے اس کے لیے متعدد اصحاب نے مختلف رقوم پیش کیں اور نواب ذوالفقار علی خان نے ایک سوروپے کی پیشکش کی اور رقم ادا کرکے اصل انجمنِ پنجاب کو دے دی۔ ”شکوہ“ اقبال کے دل کی آواز ہے اس کا موثر ہونا یقینی تھا۔ اس سے اہل دل مسلمان تڑپ اُٹھے اور انہوں نے سوچنا شروع کیا کہ مسلمانوں کے حوصلہ شکن زوال کے اسباب کیا ہیں۔ آخر اللہ کے وہ بندے جن کی ضرب شمشیر اور نعرہ تکبیر سے بڑے بڑے قہار و جبار سلاطین کے دل لرز جاتے تھے کیوں اس ذلت و رسوائی کا شکار ہوئے؟۔ یہ نظم دراصل مسلمانوں کے بے عملی، مذہب سے غفلت اور بیزاری پر طنز ہے۔ بانگ درا میں شامل کرتے وقت اقبال نے اس میں کئی مقامات پر تبدیلی کی۔ جبکہ بانگ درا میں اشاعت سے پہلے نظم مختلف رسالوں مثلاً مخزن، تمدن اور ادیب میں شائع ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ کئی زبانوں میں اس کے تراجم بھی ہو چکے ہیں۔
محمد اقبال کا پیغام یا فلسفہ حیات کیا ہے اگر چاہیں تو اس کے جواب میں صرف ایک لفظ ”خودی“ کہہ سکتے ہیں اس لیے کہ یہی ان کی فکر و نظر کے جملہ مباحث کا محور ہے اور انہوں نے اپنے پیغام یا فلسفہ حیات کو اسی نام سے موسوم کیا ہے۔ اس محور تک اقبال کی رسائی ذات و کائنات کے بارے میں بعض سوالوں کے جوابات کی تلاش میں ہوئی ہے۔ انسان کیا ہے؟ کائنات اور اس کی اصل کیا ہے؟ آیا یہ فی الواقع کوئی وجود رکھتی ہے یا محض فریب نظر ہے؟ اگر فریب نظر ہے تو اس کے پس پردہ کیاہے؟ اس طرح کے اور جانے کتنے سوالات ہیں جن کے جوابات کی جستجو میں انسان شروع سے سرگرداں رہا ہے۔ اس طرح کے سوالات جن سے انسان کے وجود کا اثبات ہوتا ہے۔ اردو شاعری میں اقبال سے پہلے غالب نے بھی اُٹھائے تھے۔
سنت مؤکدہ:شریعت اسلامی کی اصطلاح میں سنت مؤکدہ وہ عمل ہے جسے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یا صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عموماً اور اکثر بطور عبادت کیا ہو اور کبھی بغیر کسی عذر کے ترک بھی کیا ہو۔ اس کا ترک گناہ اور ترک کی عادت فسق ہے اور اس کی اقامت، تکمیل دین کی خاطر ہو جیسے اذان، اقامت، نماز باجماعت وغیرہ سنت مؤکدہ ہیں۔ جہاں مطلق سنت بولا جائے اس سے مراد سنت مؤکدہ ہوتی ہے۔ اسے سنت ہدیٰ بھی کہتے ہیں
مشتاق احمد یوسفی (4 ستمبر 1921ء - 20 جون 2018ء) اردو کے بھارتی نزاد پاکستانی مزاح نگار تھے۔ ان کی ولادت تب کے ہندوستان اور اس وقت کے بھارت میں ہوئی مگر انہوں نے بطور مزاح نگار خود کو پاکستانی کہلوانا زیادہ پسند کیا اور تقسیم ہند کے بعد بھارت کو جو نقصان ہوا ان میں مشتاق احمد یوسفی کا ہجرت کر جانا بھی ہے۔ یوسفی بہت سے قومی اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے صدر بھی رہے۔ سنہ 1999ء میں حکومت پاکستان کی جانب سے انہیں ستارہ امتیاز ملا پھر سنہ 2002ء میں پاکستان کا سب سے بڑا تعلیمی اعزاز نشان امتیاز سے نوازا گیا۔ مشتاق احمد یوسفی بڑے نستعلیق انسان تھے۔ وہ بینکر تھے۔ عوامی اور تعلقات عامہ کے آدمی نہیں تھے۔ وہ لکھتے کم تھے لیکن معیار پر نظر رکھتے تھے۔
مملکت سعودی عرب (عربی: المملكة العربية السعودية ) جزیرہ نمائے عرب میں سب سے بڑا ملک ہے ۔ شمال مغرب میں اس کی سرحد اردن، شمال میں عراق اور شمال مشرق میں کویت، قطر اور بحرین اور مشرق میں متحدہ عرب امارات، جنوب مشرق میں سلطنت عمان، جنوب میں یمن سے ملی ہوئی ہے جبکہ خلیج فارس اس کے شمال مشرق اور بحیرہ قلزم اس کے مغرب میں واقع ہے ۔ یہ حرمین شریفین کی سرزمین کہلاتی ہے کیونکہ یہاں اسلام کے دو مقدس ترین مقامات مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ موجود ہیں۔
خواجہ الطاف حسین حاؔلی ، ہندوستان میں ’’اردو‘‘ کے نامورشاعراورنقاد گزرے ہیں۔ حالی 1837ء میں پانی پت میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام خواجہ ایزؔو بخش تھا - ابھی 9 سال کے تھے کہ والد کا انتقال ہو گیا۔ بڑے بھائی امدؔاد حسین نے پرورش کی۔ اسلامی دستور کے مطابق پہلے قرآن مجید حفظ کیا۔ بعد ازاں عربی کی تعلیم شروع کی۔ 17 برس کی عمر میں ان کی مرضی کے خلاف شادی کر دی گئی۔ اب انہوں نے دلی کا قصد کیا اور 2 سال تک عربی صرف و نحو اور منطق وغیرہ پڑھتے رہے۔ حالؔی کے بچپن کا زمانہ ہندوستان میں تمدن اور معاشرت کے انتہائی زوال کا دور تھا۔ سلطنتِ مغلیہ جو 300 سال سے اہل ِ ہند خصوصاََ مسلمانوں کی تمدنی زندگی کی مرکز بنی ہوئی تھی، دم توڑ رہی تھی۔ سیاسی انتشار کی وجہ سے جماعت کا شیرازہ بکھر چکا تھا اور انفرادیت کی ہوا چل رہی تھی۔
اہلسنت و الجماعت (أهل السنة والجماعة) مسلمانوں میں پیدا ہو جانے والے دو بڑے تفرقوں میں سے ایک تفرقہ ہے اور اس کو عام الفاظ میں سنی بھی کہا جاتا ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت اسی تفرقے سے تعلق رکھتی ہے۔ اہل سنت وہ لوگ ہیں جو خدا اور اس کے رسول کی اطاعت پر ایمان رکھتے ہیں۔ تمام صحابہ کرام کو احترام اور عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک سب صحابی بالخصوص خلفائے راشدین برحق ہیں۔ اور ان کا زمانہ ملت اسلامیہ کا بہترین اور درخشاں دور ہے۔ ان کے نزدیک خلافت پر ہر مومن فائز ہو سکتا ہے بشرطیکہ وہ اس کا اہل ہو۔ ان کے نزدیک خلیفہ جمہور کی رائے سے منتخب ہونا چاہیے۔ وہ خدا کی طرف سے مامور نہیں ہوتا، وہ خلافت کے موروثی نظریے کو بھی تسلیم نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک ابوبکر صدیق صحابہ میں فضیلت کا درجہ رکھتے ہیں۔ اور پھر خلافت کی ترتیب سے حضرت عمر فاروق حضرت عثمان اور حضرت علی بن ابی طالب۔ خاندان اہل بیت کو بھی سنی بڑی احترام و عقیدت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ سنی عقیدہ کے مطابق سوائے پیغمبروں کے کوئی انسان معصوم نہیں۔ یہ اسلامی فرقہ مذہب میں اعتدال اور میانہ روی پر زور دیتا ہے۔ سنی پانچ فقہوں میں بٹے ہوئے ہیں جیسے ؛ شافعی، مالکی، حنفی، حنبلی اور ظاہری