اردو ویکیپیڈیا کے سب سے زیادہ ملاحظہ کردہ مضامین کی فہرست۔ مزید معلومات کے لیے ۔ ۔ ۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان جنوبی ايشياء کے شمال مغرب وسطی ایشیا اور مغربی ایشیا کے لیے دفاعی طور پر اہم حصے میں واقع ایک خود مختار اسلامی ملک ہے۔ 21 کروڑ کی آبادی کے ساتھ یہ دنیا کا پانچواں بڑی آبادی والا ملک ہے۔ 881,913 مربع کلومیٹر (340,509 مربع میل) کے ساتھ یہ دنیا کا تینتیسواں بڑے رقبے والا ملک ہے۔ اس کے جنوب میں 1046 کلومیٹر (650 میل) کی ساحلی پٹی ہے جو بحیرہ عرب سے ملتی ہے۔پاکستان کے مشرق ميں بھارت، شمال مشرق ميں چین اور مغرب ميں افغانستان اور ايران واقع ہيں۔ پاکستان کو شمال میں ایک تنگ واخان راہداری تاجکستان سے جدا کرتی ہے جبکہ اس ملک کی سمندری سرحدی حدود عمان کے سمندری حدود سے بھی ملتی ہیں۔ موجودہ پاکستان کے علاقے قدیم دنیا میں وہ علاقے تھے جن میں مہر گڑھ اور وادیٔ سندھ کی تہذیب پنپی تھی۔ اس علاقے پر یونانی، ایرانی ،عرب،ہندو، سکھ، افغان، منگول اور ترک حملہ آوروں کی حکومت بھی رہی ہے۔ یہ علاقہ مختلف سلطنتوں جیسے موریا، ہخامنشی سلطنت عربوں کی خلافت امویہ، مغول سلطنت، مغلیہ سلطنت، درانی سلطنت، سکھ سلطنت اور برطانوی راج کا اہم حصہ رہا ہے۔ اس کے بعد محمد علی جناح کی قیادت میں تحریک پاکستان کامیاب ہوئی اور 14 اگست 1947ء کو ہندوستان کے مشرق اور مغرب میں دو حصوں میں ایک آزاد اور خودمختار اسلامی ریاست قائم ہوئی۔ پاکستان نے 1956ء میں اپنا پہلا قانون اپنایا۔ 1971ء میں ایک خانہ جنگی کے دوران میں اس کا مشرقی حصہ الگ ہو کر ایک نیا ملک بنگلہ دیش بن گیا۔ پاکستان وفاقی پارلیمانی جمہوری ریاست کے تحت چلتا ہے۔ اس کے چار صوبے اور کچھ وفاقی حکومت کے زیر انتظام علاقے ہیں۔ یہ ملک لسانی اور قومی طور پر مختلف اقوام کا علاقہ ہے اور اس کا جغرافیہ بھی ہر طرح کے خطے پر مشتمل ہے۔ پاکستان دنیا کا ایک اہم طاقتور ملک ہے، جیسا کہ اس کی فوج دنیا کی چھویں بڑی فوج ہے اور یہ اسلامی دنیا کی واحد اور جنوبی ایشیا کی دوسری ایٹمی طاقت ہے۔ اس کی معیشت دنیا میں 27 ویں نمبر پر ہے۔ پاکستان کی تاریخ فوجی آمریت، سیاسی عدم استحکام اور پڑوسی ملک سےجھگڑوں پر مشتمل ہے۔ یہ ملک مؤتمر عالم اسلامی، اقوام متحدہ، دولت مشترکہ ممالک، سارک، ترقی پذیر 8، اقتصادی تعاون تنظیم جیسی تنظیموں کا اہم رکن ہے۔ ان سرزمین اور ممالک کے ناموں میں، جس میں لاحقہ "ستان" شامل ہے، پاکستان کا لفظ سب سے نیا ہے اور کردستان سب سے پرانا نام ہے۔ پاکستان کے مطلب پاک نفسوں کی سرزمین ہے.
بزرگ یا سَنت (Saint) اس شخص کو کہتے ہیں جس کے متعلق یہ تسلیم کر لیا جائے کہ وہ تقدس کے اعلٰی مقام پر فائز یا خدا سے غیر معمولی قربت یا مشابہت رکھتا ہے۔ مسیحیت میں بزرگ کے لیے مقدس رائج ہے۔ جبکہ اسلام میں ولی بولا جاتا ہے۔ اسلام اور مسیحیت کی طرح دوسرے مذاہب میں مختلف ناموں کے ساتھ بزرگ کا تصور ملتا ہے۔
ابو القاسم محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب (12 ربیع الاول عام الفیل / 8 جون 570ء یا 571ء – 12 ربیع الاول 10ھ / 8 جون 632ء) مسلمانوں کے آخری نبی ہیں۔ اہل اسلام کے نزدیک محمد تمام مذاہب کے پیشواؤں سے کامیاب ترین پیشوا تھے۔ آپ کی کنیت ابوالقاسم تھی۔ مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ کی طرف سے انسانیت کی جانب بھیجے جانے والے انبیا اکرام کے سلسلے کے آخری نبی ہیں جن کو اللہ نے اپنے دین کی درست شکل انسانوں کی جانب آخری بار پہنچانے کیلئے دنیا میں بھیجا۔ انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دنیا کی تمام مذہبی شخصیات میں سب سے کامیاب شخصیت تھے۔
ایوانِ بالا (انگریزی: Upper House) ایک ایسا ادارہ ہے جو قانون ساز حیثیت کا حامل ہوتا ہے اور آج بھی کئی ممالک میں اسے ایوانِ زیریں پر سبقت حاصل ہوتی ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک کے ایوانِ بالا موجود ہیں۔ تاریخی طور پر روم کا ایوانِ بالا شہرت کا حامل ہے۔ ایوانِ بالا کے ارکان اکثر ممالک میں عوام کے منتخب نمائندے نہیں ہوتے بلکہ انہیں ایوانِ زیریں کے ارکان منتخب کرتے ہیں۔ ایک لحاظ سے ایوانِ بالا میں وہ لوگ شامل ہوتے ہیں جن کو طبقہ اشرافیہ یا ملک کا امیر طبقہ سمجھا جاتا ہے۔ مثلاً برطانیہ کا ایوانِ بالا دارالامرا (House of Lords) ایک ایسی ہی مثال ہے۔ یاد رکھیے کہ ضروری نہیں کہ ہر ملک کا ایوان بالا سینٹ ہو، ہر سینٹ ایوان بالا ہوتا ہے مگر ہر ایوان بالا سینٹ نہیں ہوتا۔ یعنی جو ممالک بھی دو ایوان رکھتے ہیں ان میں ایوان بالا پارلمانی جمہوری نظام میں سینٹ ہوتا ہے (جیسے پاکستان) ،لیکن کہیں ممالک میں ایوان بالا سینٹ نہیں بلکہ کوئی اور نام کا ایوان ہوتا ہے (جیسے برطانیہ میں ہاوس آف لارڈز اور افغانستان میں مشرانو جرگہ)۔ پاکستان میں ایوان بالا کی 104 نشستیں ہیں .
سید کا لفظ ان لوگوں کے لیے مخصوص ہے جو حضرت علی اور حضرت خاتونِ قیامت سیدۃ نساء العالمين صلواۃ اللہ علیہا بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اولاد سے ہیں۔ عربی میں ان کے لیے شریف کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ سید کا لفظی مطلب سردار کا ہے جو احتراماً ان کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قرابت کی وجہ سے کہا جاتا ہے۔ سادات ساری دنیا میں پائے جاتے ہیں مگر ان کی زیادہ تعداد عرب علاقوں، ایران، پاکستان، ترکی اور وسط ایشیا میں پائی جاتی ہے۔ سادات سنی اور شیعہ دونوں مسلکوں میں پائے جاتے ہیں سادات کی بہت سی اقسام ہیں جن کا تفصیلی ذکر سید قمر عباس اعرجی ہمدانی نے اپنی کتاب مدرک الطالب فی نسب آل ابی طالب میں کیا۔[حوالہ درکار]https://archive.org/details/MudrikAlTalib2ndEddition
قرآن، قرآن مجید یا قرآن شریف (عربی: القرآن الكريم) دین اسلام کی مقدس و مرکزی کتاب ہے جس کے متعلق اسلام کے پیروکاروں کا اعتقاد ہے کہ وہ کلام الہی ہے اور اسی بنا پر یہ انتہائی محترم و قابل عظمت کتاب ہے۔ اسے پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی کے ذریعے اتارا گیا۔ یہ وحی اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتے حضرت جبرائیل علیہ السلام لاتے تھے جیسے جیسے قرآن مجید کی آیات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوتیں آپ صلی علیہ وآلہ وسلم اسے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو سنا اور ان آیات کے مطالب و معانی سمجھا دیتے۔ کچھ صحابہ کرام تو ان آیات کو وہیں یاد کر لیتے اور کچھ لکھ کر محفوظ کر لیتے۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن ہر قسم کی تحریف سے پاک سے محفوظ ہے، قرآن میں آج تک کوئی کمی بیشی نہیں ہو سکی اور اسے دنیا کی واحد محفوظ کتاب ہونے کی حیثیت حاصل ہے، جس کا حقیقی مفہوم تبدیل نہیں ہو سکا اور تمام دنیا میں کروڑوں کی تعداد میں چھپنے کے باوجود اس کا متن ایک جیسا ہے اور اس کی تلاوت عبادت ہے۔ نیز صحف ابراہیم، زبور اور تورات و انجیل کے بعد آسمانی کتابوں میں یہ سب سے آخری کتاب ہے اور سابقہ آسمانی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اب اس کے بعد کوئی آسمانی کتاب نازل نہیں ہوگی۔ قرآن کی فصاحت و بلاغت کے پیش نظر اسے لغوی و مذہبی لحاظ سے تمام عربی کتابوں میں اعلیٰ ترین مقام دیا گیا ہے۔ نیز عربی زبان و ادب اور اس کے نحوی و صرفی قواعد کی وحدت و ارتقا میں بھی قرآن کا خاصا اہم کردار دکھائی دیتا ہے۔ چنانچہ قرآن کے وضع کردہ عربی زبان کے قواعد بلند پایہ عرب محققین اور علمائے لغت مثلاً سیبویہ، ابو الاسود دویلی اور خلیل بن احمد فراہیدی وغیرہ کے یہاں بنیادی ماخذ سمجھے گئے ہیں۔
اپنے وسیع تر مفہوم میں ہر وہ تحریر جو کسی شکل میں محفوظ کی گئی ہو کتاب📖 کہلاتی ہے۔ گویا مٹی کی تختیاں، پیپرس کے رول اور ہڈیاں جن پر تحریر محفوظ ہے کتاب ہے؛ یہ چمڑے یا جھلی پر بھی ہو سکتی ہے اور کاغذ پر بھی۔ کتاب لکھے اور چھاپے گئے کاغذوں کے مجموعہ کو کہتے ہیں، جن کی جلد بندی کی گئی ہواور انھیں محفوظ کرنے کے لیے جلد موجود ہو۔ موجودہ دور میں ٹیکنالوجی اور سائنس کی ترقی کی بدولت کتاب صرف کاغذ پر چھپی تحریر ہی نہیں رہی، بلکہ اب کتاب ای بک کرئیٹر انٹرنیٹ اور بک ریڈر کے ذریعے ڈیجیٹل ہو چکی ہے۔
وادی ایک علاقے یا خطے کو کہا جاتا ہے۔ اکثر وادی اس جگہ کو کہاں جاتا ہے جو پہاڑوں کے درمیان واقع ہو۔ وادی گاؤں سے بڑا اور صوبے سے چھوٹی ہوتی ہے وادی ایک یا ایک سے زیادہ ضلعوں پہ بھی مشتمل ہوسکتی ہے۔ پاکستان ،بھارت اور دیگر جنوبی ایشیا کے ممالک میں وادی سے اکثر وہ جگہ مراد لیا جاتا ہے جو سرسبز پہاڑوں کے ایک خوبصورت جگہ واقع ہو۔عرب علاقوں میں وادی کا تصور مختلف ہے
ابو بکر صدیق عبد اللہ بن ابو قحافہ تیمی قریشی (پیدائش: 573ء— وفات: 22 اگست 634ء) پہلے خلیفہ راشد، عشرہ مبشرہ میں شامل، پیغمبر اسلام کے وزیر، صحابی و خسر اور ہجرت مدینہ کے وقت رفیق سفر تھے۔ اہل سنت و الجماعت کے یہاں ابو بکر صدیق انبیا اور رسولوں کے بعد انسانوں میں سب سے بہتر، صحابہ میں ایمان و زہد کے لحاظ سے سب سے برتر اور ام المومنین عائشہ بنت ابی بکر کے بعد پیغمبر اسلام کے محبوب تر تھے۔ عموماً ان کی کنیت "ابو بکر" کے ساتھ صدیق کا لقب لگایا جاتا جسے ابو بکر صدیق کی تصدیق و تائید کی بنا پر پیغمبر اسلام نے دیا تھا۔
ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال (٩ نومبر ١٨۷۷ء تا ٢١ اپریل ١٩٣٨ء) بیسویں صدی کے ایک معروف شاعر، مصنف، قانون دان، سیاستدان، مسلم صوفی اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھے۔ اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے اور یہی ان کی بنیادی وجہ شہرت ہے۔ شاعری میں بنیادی رجحان تصوف اور احیائے امت اسلام کی طرف تھا۔ "دا ریکنسٹرکشن آف ریلیجس تھاٹ ان اسلام" کے نام سے انگریزی میں ایک نثری کتاب بھی تحریر کی۔ علامہ اقبال کو دور جدید کا صوفی سمجھا جاتا ہے۔ بحیثیت سیاست دان ان کا سب سے نمایاں کارنامہ نظریۂ پاکستان کی تشکیل ہے، جو انہوں نے ١٩٣٠ء میں الہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پیش کیا تھا۔ یہی نظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا۔ اسی وجہ سے علامہ اقبال کو پاکستان کا نظریاتی باپ سمجھا جاتا ہے۔ گو کہ انہوں نے اس نئے ملک کے قیام کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن انہیں پاکستان کے قومی شاعر کی حیثیت حاصل ہے۔
جمہوریہ، طرز حکومت، حکومت کی ایک حالت ہے جس میں لوگ یا لوگوں کا منتخب شدہ نمائندہ حکومت چلانے کا اہل ہوتا ہے۔ اس طرز حکومت میں سربراہ حکومت منتخب کیا جاتا ہے، اس کو بادشاہت عطا نہیں ہوتی۔ یہ اصطلاح جمہوریہ انگریزی اصطلاح Republic کا ترجمہ ہے جو لاطینی زبان کی اصطلاح res publica سے اخذ ہوا ہے اور اس کا مطلب عوامی معاملہ کے ہیں۔
نظریات* کرہ ارض پر زندگی کا آغاز تقریباً تین ارب اسی کروڑ سال پرانا ہے۔ یہ آغاز کیسے ہوا یہ بھی ایک سوال ہے۔ جس کا حتمی جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ مذہبی مفکرین سے لے کر سائنس دانوں تک سب اہل دانش نے اس کا جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ زندگی کے بارے پیلے یہ خیال کیا جاتا تھا کہ زندہ شے خود بخود براہ راست بے جان چیزوں سے جنم لیتی ہے۔ جیسے مثلاً شوربہ خراب ہو کر جراثیم کو جنم دیتا ہے یا گوشت گل سڑ کر کیڑوں کو۔ اس نظریہ کی تردید سترھویں صدی عیسویں میں اٹلی کے سائنس دان فرانسکو ریڈی نے عملی ثبوت مہیاکر کے کی۔ اس نے ثابت کیا کہ کیڑے گوشت کے اندر سے جنم نہیں لیتے، بلکہ اس پر مکھیوں کے دیے گئے انڈوں سے جنم لیتے ہیں۔ اس نظریہ کے حامی یہ ثابت نہیں کر سکے کہ کوئی ایسی چیز جس کے اندر زندہ خلیے نہ ہوں، کیوں کر زندہ خلیوں کو جنم دے سکتی ہے۔ * ایک اور دلچسپ نظریہ یہ بھی پیش کیا گیا کہ زمین پر زندگی ستاروں پر سے آئی ہے۔ اس نظریہ کے مشہور مبلغ ایرک وان ڈینی گن ہیں۔ ان کا موقف یہ کہ لاکھوں سال پہلے کوئی مخلوق ( دیوتا ) کسی
محمد علی جناح پیدائشی نام، محمد علی جناح بھائی، 25 دسمبر 1876ء – 11 ستمبر 1948ء) کے نامور وکیل، سیاست دان اور بانی پاکستان تھے۔ محمد علی جناح 1913ء سے لے کر پاکستان کی آزادی 14 اگست 1947ء تک آل انڈیا مسلم لیگ کے سربراہ رہے، پھر قیام پاکستان کے بعد اپنی وفات تک، وہ ملک کے پہلے گورنر جنرل رہے۔ سرکاری طور پر پاکستان میں آپ کو قائدِ اعظم یعنی سب سے عظیم رہبر اور بابائے قوم یعنی قوم کا باپ بھی کہا جاتا ہے۔ جناح کا یومِ پیدائش پاکستان میں قومی تعطیل کے طور پر منایا جاتا ہے۔کراچی کے پیدائشی اور لنکن ان سے بیرسٹری کی تربیت حاصل کرنے والے جناح، بیسویں صدی کے ابتدائی دو عشروں میں آل انڈیا کانگریس کے اہم رہنما کے طور پر ابھرے۔ اپنی سیاست کے ابتدائی ادوار میں انہوں نے ہندو مسلم اتحاد کے لیے کام کیا۔ 1916ء میں آل انڈیا مسلم لیگ اور آل انڈیا کانگریس کے مابین ہونے والے میثاق لکھنؤ کو مرتب کرنے میں بھی انہوں نے اہم کردار ادا کیا۔ جناح آل انڈیا ہوم رول لیگ کے اہم رہنماوں میں سے تھے، انہوں نے چودہ نکات بھی پیش کیے، جن کا مقصد ہندوستان کے مسلمانوں کے سیاسی حقوق کا تحفظ کرنا تھا۔ بہر کیف جناح 1920ء میں آل انڈیا کانگریس سے مستعفی ہو گئے، جس کی وجہ آل انڈیا کانگریس کے موہن داس گاندھی کی قیادت میں ستیاگرا کی مہم چلانے کا فیصلہ تھا۔1940ء تک جناح کو یہ یقین ہو چلا تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک علاحدہ وطن کی جدوجہد کرنی چاہیے۔ اسی سال، مسلم لیگ نے جناح کی قیادت میں قرارداد پاکستان منظور کی جس کا مقصد نئی مملکت کی قیام کا مطالبہ تھا۔دوسری جنگ عظیم کے دوران، آل انڈیا مسلم لیگ نے مضبوطی پکڑلی جبکہ ان ادوار میں کانگریس کے کئی رہنما قید کاٹ رہے تھے اور جنگ کے ختم ہونے کے مختصر عرصے میں ہی انتخابات کا انعقاد ہوا، جس میں جناح کی جماعت نے مسلمانوں کے لیے مختص نشستوں میں سے بڑی تعداد جیت لی۔ اس کے بعد آل انڈیا کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ متحدہ ہندوستان میں اختیارات کے توازن کے لیے کسی صیغے پر متفق نا ہو سکے نتیجتاً تمام جماعتیں اس امر پر متفق ہوگئیں کہ ہندوستان کے دو حصے کیے جائیں جن میں ایک مسلم اکثریتی علاقوں میں پاکستان جبکہ باقی ماندہ علاقوں میں بھارت کا قیام ہو۔پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کے طور پر جناح نے اپنی حکومتی پالیسیوں کے قیام کے لیے کام کیا نیز انہوں نے ان لاکھوں لوگوں کے بہبود اور آباد کاری کے لیے بھی کام کیا جو تقسیم ہند کے بعد پاکستان کی جانب ہجرت کر چلے تھے، انہوں نے ان مہاجر کیمپوں کی ذاتی طور پر دیکھ بھال کی۔ جناح 71 سال کے عمر میں انتقال کر گئے جبکہ ان کے نوزائیدہ ملک کو سلطنت برطانیہ سے آزاد ہوئے محض ایک سال کا عرصہ ہوا تھا۔ ان کی سوانح عمری لکھنے والے لکھاری،اسٹینلی وولپرٹ لکھتے ہیں کہ، وہ (یعنی جناح) پاکستان کے عظیم ترین رہنما رہیں گے۔
جامعہ (عربی سے ماخوذ۔ انگریزی: University) ایک اعلٰی تعلیمی و تحقیقی اِدارہ جو مختلف مضامین میں تعلیمی اسناد دیتا ہے۔ دنیا میں سب سے پہلی یونیورسٹی مسلمانوں نے 859ء میں اسلامی ملک مراکش کے شہر فاس میں بنائی تھی جو جامعۃ ا لقرویین (University of Al-Qarawiyyin) کے نام سے جانی جاتی تھی جو آج بھی موجود ہے۔ یہ مسجد بھی تھی اور ساتھ ہی یونیورسٹی بھی۔
سید احمد بن متقی خان (17 اکتوبر 1817ء – 27 مارچ 1898ء) المعروف سر سید انیسویں صدی کا ایک ہندوستانی مسلم نظریۂ عملیت کا حامل ، مصلح اور فلسفی تھے۔ سر سید احمد خان ایک نبیل گھرانے میں پیدا ہوئے جس کے مغل دربار کے ساتھ مضبوط تعلقات تھے ۔ سر سید نے قرآن اور سائنس کی تعلیم دربار میں ہی حاصل کی، جس کے بعد یونیورسٹی آف ایڈنبرا نے انہیں قانون میں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری عطا کی۔1838ء میں اس نے ایسٹ انڈیا کمپنی میں ملازمت اختیار کی اور 1867ء وہ چھوٹے مقدمات کے لیے جج مقرر کیے گئے۔ 1876ء میں وہ ملازمت سے مستعفی ہوئے۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے دوران میں وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا وفادار رہے اور یورپیوں کی جانیں بچانے میں اس کے کردار کی سلطنت برطانیہ کی طرف سے ستائش کی گئی۔بغاوت ختم ہونے کے بعد انہوں نے اسباب بغاوت ہند پر ایک رسالہ لکھا جس میں ہندوستان کی رعایا کو اور خاص کر مسلمانوں کو بغاوت کے الزام سے بری کیا۔ اس رسالہ کا فائدہ سلطنت برطانیہ کو ہوا جس نے اس کی بنیاد پر ایسٹ انڈیا کمپنی سے برصغیر کا تمام قبضہ لے لیا اور ہندوستان کے تمام معاملات براہ راست اپنے قبضہ میں لے لیے۔ مسلمانوں کے راسخ الاعتقاد طرز کو ان کے مستقبل کے لیے خطرہ سمجھتے ہوئے سرسید نے مغربی طرز کی سائنسی تعلیم کو فروغ دینے کے لیے جدید اسکولوں اور جرائد کا اجرا کیا اپنے کلامی مکتبِ فکر کی بنیاد ڈالی جو معتزلہ کے افکار کا چربہ تھا مگر اس کے کلامی نظریات مقبول نہ ہو سکے اس لیے صرف سائنسی علوم کی اشاعت تک محدود رہا۔
کراچی (سندھی: ڪراچي) (انگریزی: Karachi) پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور صنعتی، تجارتی، تعلیمی، مواصلاتی و اقتصادی مرکز ہے۔ کراچی دنیا کاچهٹا بڑا شہر ہے۔ کراچی پاکستان کے صوبہ سندھ کا دارالحکومت ہے۔ شہر دریائے سندھ کے مغرب میں بحیرہ عرب کی شمالی ساحل پر واقع ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی بندرگاہ اور ہوائی اڈا بھی کراچی میں قائم ہے۔ کراچی 1947ء سے 1960ء تک پاکستان کا دار الحکومت بھی رہا۔
سلطنت عثمانیہ (یا خلافت عثمانیہ 1517ء سے 1924ء تک) (عثمانی ترک زبان: "دولت علیہ عثمانیہ"، ترک زبان: Osmanlı Devleti) سنہ 1299ء سے 1922ء تک قائم رہنے والی ایک مسلم سلطنت تھی جس کے حکمران ترک تھے۔ اپنے عروج کے زمانے میں (16 ویں – 17 ویں صدی) یہ سلطنت تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی اور جنوب مشرقی یورپ، مشرق وسطٰی اور شمالی افریقہ کا بیشتر حصہ اس کے زیر نگیں تھا۔ اس عظیم سلطنت کی سرحدیں مغرب میں آبنائے جبرالٹر، مشرق میں بحیرۂ قزوین اور خلیج فارس اور شمال میں آسٹریا کی سرحدوں، سلوواکیہ اور کریمیا (موجودہ یوکرین) سے جنوب میں سوڈان، صومالیہ اور یمن تک پھیلی ہوئی تھی۔ مالدووا، ٹرانسلوانیا اور ولاچیا کے باجگذار علاقوں کے علاوہ اس کے 29 صوبے تھے۔
کرکٹ ایک ایسا کھیل ہے جو گیارہ کھلاڑیوں پر مشتمل دو ٹیموں کے درمیان کھیلا جاتا ہے۔ یہ کھیل گیند اور بلے کے ذریعے کھیلا جاتا ہے جس کا میدان بیضوی شکل کا ہوتا ہے۔ میدان کے درمیان میں 20.12 میٹر (22 گز) کا مستقر بنا ہوتا ہے جسے پچ کہا جاتا ہے۔ پچ کے دونوں جانب تین، تین لکڑیاں نصب کی جاتی ہیں جنہیں وکٹ کہا جاتا ہے۔ میدان میں موجود ٹیم کا ایک رکن (گیند باز) چمڑے سے بنی ایک گیند کو پچ کی ایک جانب سے ہاتھ گھما کر دوسری ٹیم کے بلے باز رکن کو پھینکتا ہے۔ عام طور پر گیند بلے باز تک پہنچنے سے قبل ایک مرتبہ اچھلتی ہے جو اپنی وکٹوں کا دفاع کرتا ہے۔ دوسرا بلے باز جو نان اسٹرائیکر کہلاتا ہے گیند باز کے گیند کرانے والی جگہ کھڑا ہوتا ہے۔
مولانا،عربی لفظ مولانا: ہمارے مولا؛ "ہمارا آقا/ مالک"مراد: عالم دین، مشرقی علم کے فاضل اور متشرع بزرگوں کا اعزازی خطاب نیز خطاب کرنے کا تعظیمی کلمہ ایک عنوان ہے جو مذہبی اداروں کے مخصوص فاضلین، جنہوں نے ایک مدرسے یا دار العلوم جامعہ یا دیگر اسلامی علما کرام کے تحت تعلیم حاصل کی ہو، مثال کے طور پر عالم دین/علما، قابل احترام مسلمان مذہبی رہنماؤں کے نام سے پہلے، زیادہ تر وسطی ایشیا میں اور ہندوستانی برصغیر میں استعمال ہوتا ہے۔
پیرس (Paris) (فرانسیسی: [paʁi] ( سنیے)) شمال وسطی فرانس میں دریائے سین کے کنارے واقع ایک شہر ہے جو بلحاظ آبادی ملک کا سب سے بڑا شہر اور دارالحکومت ہے۔ شہر، جس کی انتظامی سرحدیں 1860ء سے تبدیل نہیں ہوئی، کی کل آبادی 2،234،105 (جنوری 2009ء) ہے جبکہ ام البلد کے علاقے کی کل آبادی 12،089،098 (جنوری 2008ء) ہے اور اس طرح یہ یورپ کے بڑے ام البلد میں سے ایک ہے۔
ابو عبد اللہ عثمان بن عفان اموی قرشی (47 ق ھ - 35 ھ / 576ء – 656ء) اسلام کے تیسرے خلیفہ، داماد رسول اور جامع قرآن تھے۔ عثمان غنی سابقین اسلام میں شامل اور عشرہ مبشرہ میں سے تھے، ان کی کنیت ذو النورین ہے کیونکہ انھوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دو صاحبزادیوں سے نکاح کیا تھا، پہلے رقیہ بنت محمد سے کیا، پھر ان کی وفات کے بعد ام کلثوم بنت محمد سے نکاح کیا۔ عثمان غنی پہلے صحابی ہیں جنھوں نے سرزمین حبشہ کی ہجرت کی، بعد میں دیگر صحابہ بھی آپ کے پیچھے حبشہ پہنچے۔ بعد ازاں دوسری ہجرت مدینہ منورہ کی جانب کی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عثمان غنی پر مکمل اعتماد اور ان کی فطری حیاء و شرافت اور جو انھوں نے اپنے مال کے ذریعہ اہل ایمان کی نصرت کی تھی، اس کی انتہائی قدر کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیگر صحابہ کے ساتھ ان کو بھی جنت اور شہادت کی موت کی خوش خبری دی۔
سیاسی طور پر ایک منظم ملت جو کم و بیش آزاد ہوتی ہے اور اس کے قبضہ و تصرف میں ایک مستقل اور معین علاقہ ہوتا ہے۔ کچھ وفاقی جمہوریہ ممالک کا کوئی حصہ اس ذیل میں نہیں آتا، خواہ وہ ریاست ہی کہلاتا ہو، جیسے ریاست ہائے متحدہ امریکا یا بھارت کی کوئی ریاست یا صوبہ۔ بھارت اور متحدہ ریاستہائے امریکا میں ریاست سے انتظامی تقسیم کا دوسرا درجہ مراد لیا جاتا ہے، ا یسے وفاق میں شامل ریاستیں صرف اندرونی معاملات میں خود مختار ہوتی ہیں۔ بیرونی معاملات، کرنسی، دفاع وغیرہ پر وفاق یا مرکز کا کنٹرول ہوتا ہے۔
مدینہ منورہ عربی: اَلْمَدِينَة اَلْمَنَوَّرَة مغربی سعودی عرب کے خطہ حجاز کا شہر،جہاں حضرت محمد صلی الله علىه وآله وسلم کا روضہ مبارک ہے۔ یہ شہر اسلام کا دوسرا مقدس ترین شہر ہے۔ شہر کی آبادی 2004ءکی مردم شماری کے مطابق 9 لاکھ 18 ہزار 889 ہے۔ شہر کا پرانا نام یثرب تھا لیکن حضرت محمد صلى الله عليه وآلہ وسلم کی ہجرت مبارکہ کے بعد اس کا نام مدینۃ النبی رکھ دیا گیا جو بعد ازاں مدینہ بن گیا۔ اس کی بنیاد اسلام پر ہے-
معراج کمالِ معجزاتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ یہ وہ عظیم خارقِ عادت واقعہ ہے جس نے تسخیرِ کائنات کے مقفّل دروازوں کو کھولنے کی اِبتداء کی۔ اِنسان نے آگے چل کر تحقیق و جستجو کے بند کواڑوں پر دستک دی اور خلاء میں پیچیدہ راستوں کی تلاش کا فریضہ سر انجام دیا۔ رات کے مختصر سے وقفے میں جب اللہ ربّ العزّت حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مسجدِ حرام سے نہ صرف مسجد اقصیٰ تک بلکہ جملہ سماوِی کائنات کی بے اَنت وُسعتوں کے اُس پار ’’قَابَ قَوْسَيْنِ‘‘ اور ’’أَوْ أَدْنَى‘‘ کے مقاماتِ بلند تک لے گیا اور آپ مدّتوں وہاں قیام کے بعد اُسی قلیل مدّتی زمینی ساعت میں اِس زمین پر دوبارہ جلوہ اَفروز بھی ہو گئے۔
ذیل میں اردو کے ان محاوروں کی فہرست بلحاظ حروف تہجی درج ہے جو کثیر الاستعمال ہیں۔ محاورے دوسرے الفاظ میں کسی بھی زبان میں سینہ بسینہ منتقل ہونے والے وہ جملے یا کہاوتیں ہوتی ہیں جو ضرب المثل بن جاتی ہیں اور انھیں گفتگو کے دوران خصوصی موقع پر استعمال کیا جاتا ہے۔ محاوروں کا برمحل استعمال گفتگو میں دلچسپی اور روح پیدا کر دیتا ہے، چونکہ محاورے کسی بھی صورت حال کو چند الفاظ میں بیان کر دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں اس لیے بسا اوقات طویل جملوں اور نصائح سے زیادہ موثر ثابت ہوتے ہیں۔ اردو زبان کے محاورے اس کا سب سے دلچسپ حصہ سمجھے جاتے ہیں۔
مسلمان (عربی: مسلم، مسلمة)، (فارسی: مسلمان)، (انگریزی: Muslim) سے مراد وہ شخص ہے جو دینِ اسلام پر یقین رکھتا ہو۔ اگرچہ مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق اسلام خدا کا دین ہے اور یہ دین حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے پہلے بھی موجود تھا اور جو لوگ اللہ کے دین پر عمل کرتے رہے وہ مسلمان ہیں۔ مثلاً قرآن کے مطابق حضرتابراہیم علیہ السلام بھی مسلمان تھے۔ مگر آج کل مسلمان سے مراد اسے لیا جاتا ہے جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لائے ہوئے دین پر عمل کرتا ہو اور یقین رکھتا ہو۔
مذکر: نر اسم ہوتا ہے جیسےمرد، باپ، بیل، بیٹا جبکہ مونث: مادہ اسم ہوتا ہے جیسے عورت، ماں، گائے، بیٹی بے جان اسماء میں نر اور مادہ کا کوئی فرق نہیں ہوتا اس لیے ان کی تذکیر و تانیث کا تمام تر درارومدار اہل زبان پر ہوتا ہے جیسے قلم کو اہل زبان مذکر بولتے ہیں اور گیند کو مونث اسی لیے ایسے اسماء کی تذکیر و تانیث کو غیر حقیقی تذکیر و تانیث کہا جاتا ہے۔ جبکہ حقیقی تذکیر و تانیث وہ ہوتی ہے جس میں نر کے مقابلے میں مادہ اور مادہ کے مقابلے میں نر ہو جانداروں میں کیونکہ قدرتی طور پر نر اور مادہ کا فرق موجود ہوتا ہے اس لیے اس لیے ان کی تذکیرو تانیث حقیقی ہوتی ہے جیسے مرد، عورت۔ بیل، گائے وغیرہ
’’ جنت‘‘ لفظی معنی ہر اس باغ کے ہیں جس کے درخت زمین کو چھپا لیں۔ کل بستان ذی شجر یستر باشجارہ الارض (راغب اصفہانی) ’’ الجنۃ‘‘ سے اصطلاح شرعی میں مراد وہ عظیم الشان باغ ہے جو بے شمار نعمتیں لیے ہوئے عالم آخرت میں نیک کاروں کے لیے مخصوص ہے اور آج نظروں سے مستور ہے، اس کا نام جنت یا تو اس لیے پڑا کہ وہ دنیا کے باغوں سے مشابہ ہے۔ گومشابہت بہت دور کی سہی۔ اور یا اس لیے کہ اس کی نعمتیں ابھی مستور ہیں۔ سمیت الجنۃ اما تشبیھا بالجنۃ فی الارض وان کان بینھما بون واما السترہ نعمھا عنا (راغب)
شاعری (Poetry) کا مادہ "شعر" ہے اس کے معانی کسی چیز کے جاننے پہچاننے اور واقفیت کے ہیں۔ لیکن اصطلاحاً شعر اس کلامِ موزوں کو کہتے ہیں جو قصداً کہا جائے۔ یہ کلام موزوں جذبات اور احساسات کے تابع ہوتا ہے۔ اور کسی واقعہ کی طرف جاننے کا اشارہ کرتا ہے۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ آپ نے کوئی حادثہ دیکھا ہو اور وہ آپ کے دل پر اثر کر گیا ہو اور آپ کے اندر سے خود بخود الفاظ کی صورت میں ادا ہو جائے اس اثر کے بیان کو شعر کہتے ہیں اور انہی شعروں کو شاعری کے نام سے جانا جاتا ہے۔
سیدہ عائشہ بنت ابی بکر (رضی اللہ عنہا) (پیدائش: 614ء– وفات: 13 جولائی 678ء) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ ہیں۔ آپ کو اُم المومنین کے خطاب سے یاد کیا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد عہد خلفائے راشدین میں آپ کی شخصیت بہت نمایاں نظر آتی ہے۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد 47 سال بقید حیات رہیں اور یہ تمام وہ عرصہ ہے جس میں ابتدائی مسلم فتوحات ہوئیں، مختلف ممالک مملکت اسلامیہ میں داخل ہوئے۔ علم الحدیث میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایات کے بعد سب سے زیادہ روایاتِ حدیث کا ذخیرہ آپ سے ہی روایت کیا گیا ہے۔ آپ عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور عہد خلفائے راشدین کی عینی شاہد بھی تھیں اور مزید برآں آپ نے خلافت امویہ کے ابتدائی 17 سال بھی ملاحظہ فرمائے۔ سنہ 678ء میں آپ کا اِنتقال مدینہ منورہ میں ہوا۔ آپ کے مناقب و فضائل کثیر ہیں جن سے آپ کی عظمت و شان جلالت مسلم خواتین پر نمایاں ہے۔
میٹروپولیٹن علاقہ اس شہر کو کہتے ہیں جس کے مرکز میں بہت زیادہ آبادی ہو اور اس کے اطراف میں بھی کم آبادی والے علاقے ہوں۔ اس کے علاوہ وہ شہر صنعت و حرفت میں بھی اپنا کردارادا کرتا ہو۔ شہر کا مرکز ہی کئی انتظامی حصوں میں تقسیم ہو۔ پاکستان میں کراچی اور لاہور میٹروپول ہیں۔ مختلف ممالک میٹروپول کی مختلف تعریف کرتے ہیں۔ جیسے بھارت میں میٹروپول وہ شہر ہوتا ہے جس کی آبادی ایک ملین سے زیادہ ہو، جس کی شہر آبادی چار ملین سے زیادہ ہو اس کومیگا سٹی کہتے ہیں ۔
کھجور ایک قسم کا پھل ہے۔ کھجور زیادہ ترمصر اور خلیج فارس کے علاقے میں پائی جاتی ہے۔ دنیا کی سب سے اعلٰی کھجور عجوہ (کھجور) ہے جو سعودی عرب کے مقدس شہر مدینہ منورہ اور مضافات میں پائی جاتی ہے۔ کھجور کا درخت دنیا کے اکثر مذاہب میں مقدس مانا جاتا ہے۔ مسلمانوں میں اس کی اہمیت کی انتہا یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام درختوں میں سے اس درخت کو مسلمان کہا ہے کیونکہ صابر، شاکر اور اللہ کی طرف سے برکت والا ہے۔ قرآن مجید اوردیگر مقدس کتابوں میں جابجا کھجور کا ذکر ملتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ “جس گھر میں کھجوریں نہ ہوں وہ گھر ایسا ہے کہ جیسے اس میں کھانا نہ ہو“ طبی تحقیق کے مطابق کھجور ایک ایسی منفرد اور مکمل خوراک ہے جس میں ہمارے جسم کے تمام ضروری غذائی اجزاء وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ رمضان المبارک میں افطار کے وقت کھجور کا استعمال اس کی افادیت کا منہ بولتا ثبوت ہے چونکہ دن بھر فاقہ کے بعد توانائی کم ہوجاتی ہے اس لیے افطاری ایسی مکمل اور زود ہضم غذا سے کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جو زیادہ سے زیادہ طاقت و توانائی فراہم کرسکے اور کھجور یہ تمام مقاصد فوراً پورا کردینے کی اہلیت رکھتی ہے۔
واحد کا مفہوم (انگریزی: Meaning of Singular) ایک شخص یا ایک چیز کو واحد کہا جاتا ہے۔ یا واحد وہ اسم ہوتا ہے جو ایک شخص یا چیز کو ظاہر کرے۔ مثلاﹰ کتاب، لڑکا، مسجد، استاد، فوج، بلی، شجر، میز، کرسی، وغیرہ۔ جبکہ جمع ایک سے زیادہ شخصوں یا چیزوں کو جمع کہتے ہیں۔ یا جمع وہ اسم ہوتا ہے جو ایک سے زیادہ اشخاص یا اسماء کو ظاہر کرے۔ مثلاً کُتب، لڑکے، مساجد، اساتذہ، افواج، بلیاں، اشجار، میزیں، کرسیاں وغیرہ
نجم الدولہ، دبیر الملک، مرزا نوشہ اسد اللہ خان غالب بہادر نظام جنگ (1797ء- 1869ء) اردو زبان کے سب سے بڑے شاعروں میں ایک سمجھے جاتے ہیں۔ یہ تسلیم شدہ بات ہے کہ 19 ویں صدی غالب کی صدی ہے۔ جبکہ 18 ویں میر تقی میر کی تھی اور 20 ویں علامہ اقبال کی۔ غالب کی عظمت کا راز صرف ان کی شاعری کے حسن اور بیان کی خوبی ہی میں نہیں ہے۔ ان کاا صل کمال یہ ہے کہ وہ ز ندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کو گہرائی میں جاکر سمجھتے تھے اور بڑی سادگی سے عام لوگوں کے لیے بیان کردیتے تھے۔ غالب جس پر آشوب دور میں پیدا ہوئے اس میں انہوں نے مسلمانوں کی ایک عظیم سلطنت کو برباد ہوتے ہوئے اور باہر سے آئی ہوئی انگریز قوم کو ملک کے اقتدار پر چھاتے ہوئے دیکھا۔ غالباً یہی وہ پس منظر ہے جس نے ان کی نظر میں گہرائی اور فکر میں وسعت پیدا کی۔
افغانستان وسط ایشیا اور جنوبی ایشیا میں واقع ایک زمین بند ملک ہے۔ Dari: Afġānestān [avɣɒnesˈtɒn])، جس کا سرکاری نام اسلامی جمہوریہ افغانستان ہے۔ اس کے جنوب اور مشرق میں پاکستان، مغرب میں ایران، شمال مشرق میں چین، شمال میں ترکمانستان، ازبکستان اور تاجکستان ہیں۔ اردگرد کے تمام ممالک سے افغانستان کے تاریخی، مذہبی اور ثقافتی تعلق بہت گہرا ہے۔ اس کے بیشتر لوگ مسلمان ہیں۔ یہ ملک بالترتیب ایرانیوں، یونانیوں، عربوں، ترکوں، منگولوں، برطانیوں، روسیوں اور اب امریکہ کے قبضے میں رہا ہے۔ مگر اس کے لوگ بیرونی قبضہ کے خلاف ہمیشہ مزاحمت کرتے رہے ہیں۔ ایک ملک کے طور پر اٹھارویں صدی کے وسط میں احمد شاہ ابدالی کے دور میں یہ ابھرا اگرچہ بعد میں درانی کی سلطنت کے کافی حصے اردگرد کے ممالک کے حصے بن گئے۔ 1919ء میں شاہ امان اللہ خان کی قیادت میں انگریزوں سے افغانستان کی آزادی حاصل کی۔ جس کے بعد افغانستان صحیح معنوں میں ایک ملک بن گیا۔ مگر انگریزوں کے دور میں اس کے بیشتر علاقے حقیقت میں آزاد ہی تھے اور برطانیہ کبھی اس پر مکمل قبضہ نہیں رکھ سکا۔ آج افغانستان امریکی قبضہ میں ہے اور بظاہر ایک آزاد ملک اور حکومت کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ افغانستان پچھلے پینتیس سال سے مسلسل جنگ کی سی حالت میں ہے جس نے اس کو تباہ کر دیا ہے اور اس کی کئی نسلوں کو بے گھر کر دیا ہے۔ یہ تباہی کبھی غیروں کے ہاتھوں ہوئی اور کبھی خانہ جنگی سے یہ صورت حال پیدا ہوئی۔ اگرچہ افغانستان کے پاس تیل یا دوسرے وسائل کی کمی ہے مگر اس کی جغرافیائی حیثیت ایسی ہے کہ وہ وسطی ایشیاء، جنوبی ایشیاء اور مشرقِ وسطیٰ کے درمیان میں ہے اور تینوں خطوں سے ہمیشہ اس کے نسلی، مذہبی اور ثقافتی تعلق رہا ہے اور جنگی لحاظ سے اور علاقے میں اپنا دباؤ رکھنے کے لیے ہمیشہ اہم رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ استعماری طاقتوں نے ہمیشہ اس پر اپنا قبضہ یا اثر رکھنے کی کوشش کی ہے۔ افغانستان کا زیادہ رقبہ پتھریلا پہاڑی علاقہ ہے اس وجہ سے کسی بھی بیرونی طاقت کا یہاں قبضہ رکھنا مشکل ہے اور لوگ زیادہ تر قبائلی ہیں اس لیے کبھی بیرونی طاقتوں کو تسلیم نہیں کرتے، نتیجہ یہ کہ اس ملک کو کبھی بھی لمبے عرصے کے لیے امن نصیب نہیں ہو سکا۔
جمہوریہ فرانس یا فرانس (فرانسیسی: République française، دفتری نام: جمہوریہ فرانس) ایک خود مختار ریاست ہے جس کی عمل داری میں مغربی یورپ کا میٹروپولیٹن فرانس اور سمندر پار واقع متعدد علاقے اور عمل داریاں شامل ہیں۔ فرانس کا میٹروپولیٹن خطہ بحیرہ روم سے رودبار انگلستان اور بحیرہ شمال تک نیز دریائے رائن سے بحر اوقیانوس تک پھیلا ہوا ہے، جبکہ سمندر پار علاقوں میں جنوبی امریکا کا فرانسیسی گیانا اور بحر الکاہل و بحر ہند میں واقع متعدد جزائر شامل ہیں۔ ملک کے 18 خطوں (جن میں سے پانچ سمندر پار واقع ہیں) کا مکمل رقبہ 643,801 مربع کلومیٹر (248,573 مربع میل) ہے جس کی مجموعی آبادی (جون 2018ء کے مطابق) 67.26 ملین (چھ کروڑ اکہتر لاکھ چھیاسی ہزار چھ سو اڑتیس) نفوس پر مشتمل ہے۔ فرانس ایک وحدانی نیم صدارتی جمہوریہ ہے جس کا دار الحکومت پیرس ہے۔ یہ فرانس کا سب سے بڑا شہر اور ملک کا اہم ترین ثقافتی و اقتصادی مرکز ہے۔ دیگر اہم شہروں میں مارسئی، لیون، لیل، نیس، تولوز اور بورڈو قابل ذکر ہیں۔
آیت (عربی: آية) عربی زبان کا اسمِ مونث جس کے معنی ہیں اس نے نشانی کی۔ اصطلاحاَ َ قرآن میں ایک پورا جملہ جو شروع ہوتا اور ختم ہوتا ہے،وہ گول نشانقرآن میں جملہ ختم ہونے پر ٹھہرنے کے واسطے بنا ہوتا ہے۔ کلام الہٰی کا ایک فقرہ بھی آیت کہلاتا ہے۔ قرآن شریف پڑھتے وقت جس آیت پر قطعی ٹھہرنا پڑے اسے آیت مطلق اور جس پر ٹھہرنا لازم نہ ہو۔ اسے آیت (لا) کہتے ہیں۔
اردو زبان کی ابتدا کے متعلق نظریات
اردو کی ابتدا و آغاز کے بارے میں کئی مختلف و متضاد نظریات ملتے ہیں یہ آپس میں اس حد تک متضاد ہیں کہ ایک انسان چکرا کر رہ جاتا ہے۔ ان مشہور نظریات میں ایک بات مشترک ہے کہ ان میں اردو کی ابتدا کی بنیاد برصغیر پاک و ہند میں مسلمان فاتحین کی آمد پر رکھی گئی ہے۔ اور بنیادی استدلال یہ ہے کہ اردو زبان کا آغاز مسلمان فاتحین کی ہند میں آمد اور مقامی لوگوں سے میل جول اور مقامی زبان پر اثرات و تاثر سے ہوا۔ اور ایک نئی زبان معرض وجود میں آئی جو بعد میں اردو کہلائی۔ کچھ ماہرین لسانیات نے اردو کی ابتدا کا سراغ قدیم آریائوں کے زمانے میں لگانے کی کوشش کی ہے۔ بہر طور اردو زبان کی ابتدا کے بارے میں کوئی حتمی بات کہنا ذرا مشکل ہے۔ اردو زبان کے محققین اگرچہ اس بات پر متفق ہیں کہ اردو کی ابتدا مسلمانوں کی آمد کے بعد ہوئی لیکن مقام اور نوعیت کے تعین اور نتائج کے استخراج میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس انداز سے اگر اردو کے متعلق نظریات کو دیکھا جائے تو وہ نمایاں طور پر چار مختلف نظریات کی شکل میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔
لاہور (پنجابی: لہور، شاہ مکھی: ਲਹੌਰ؛ عربی: لاهور؛ فارسی: لاهور؛ انگریزی: Lahore) صوبہ پنجاب، پاکستان کا دار الحکومت اور دوسرا بڑا شہر ہے۔ اسے پاکستان کا ثقافتی، تعلیمی اور تاریخی مرکز اور پاکستان کا دل اور باغوں کا شہر کہا جاتا ہے۔ یہ شہر دریائے راوی کے کنارے واقع ہے۔ اس شہر کی آبادی ایک کروڑ کے قریب ہے اور یہ ملک کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ لاہور کا شمار دنیا کے قدیم اور اہم ترین شہروں میں کیا جاتا ہے۔ زندہ دلان لاہور کے روایتی جوش و جذبے کے باعث اسے بجا طور پر پاکستان کا دل کہا جاتا ہے۔ مغل شہنشاہ جہانگیر کی ملکہ نورجہاں نے لاہور کے بارے میں کہا تھا۔