اردو ویکیپیڈیا کے سب سے زیادہ ملاحظہ کردہ مضامین کی فہرست۔ مزید معلومات کے لیے ۔ ۔ ۔
ابو بکر صدیق عبد اللہ بن ابو قحافہ تیمی قریشی (پیدائش: 573ء— وفات: 22 اگست 634ء) پہلے خلیفہ راشد، عشرہ مبشرہ میں شامل، پیغمبر اسلام کے وزیر، صحابی و خسر اور ہجرت مدینہ کے وقت رفیق سفر تھے۔ اہل سنت و الجماعت کے یہاں ابو بکر صدیق انبیا اور رسولوں کے بعد انسانوں میں سب سے بہتر، صحابہ میں ایمان و زہد کے لحاظ سے سب سے برتر اور ام المومنین عائشہ بنت ابی بکر کے بعد پیغمبر اسلام کے محبوب تر تھے۔ عموماً ان کی کنیت "ابو بکر" کے ساتھ صدیق کا لقب لگایا جاتا جسے ابو بکر صدیق کی تصدیق و تائید کی بنا پر پیغمبر اسلام نے دیا تھا۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان جنوبی ایشیا کے شمال مغرب وسطی ایشیا اور مغربی ایشیا کے لیے دفاعی طور پر اہم حصے میں واقع ایک خود مختار اسلامی ملک ہے۔ 21 کروڑ کی آبادی کے ساتھ یہ دنیا کا پانچواں بڑی آبادی والا ملک ہے۔ 881,913 مربع کلومیٹر (340,509 مربع میل) کے ساتھ یہ دنیا کا تینتیسواں بڑے رقبے والا ملک ہے۔ اس کے جنوب میں 1046 کلومیٹر (650 میل) کی ساحلی پٹی ہے جو بحیرہ عرب سے ملتی ہے۔پاکستان کے مشرق ميں بھارت، شمال مشرق ميں چین اور مغرب ميں افغانستان اور ايران واقع ہيں۔ پاکستان کو شمال میں ایک تنگ واخان راہداری تاجکستان سے جدا کرتی ہے جبکہ اس ملک کی سمندری سرحدی حدود عمان کے سمندری حدود سے بھی ملتی ہیں۔ موجودہ پاکستان کے علاقے قدیم ترین دنیا میں وہ علاقے تھے جن میں موہنجوداڑو اور انڈس سولائیزیشن مہر گڑھ ٹیکسلا پراچین سنسکرت دور اور دیگر زیرتحقیق آرک لوجیکل سائٹسٹ جیسے قندھارا تہذیب و تمدن تھی۔ اس علاقے پر پراچین راجپوت ایرانی یونانیعرب،بدھ مت، سکھ، مغل، ہن سفید اور ترک حملہ آوروں کی حکومت بھی رہی ہے۔ یہ علاقہ مختلف سلطنتوں جیسے چندر گپت موریا، ہخامنشی سلطنت عربوں کی خلافت امویہ، مغول سلطنت، مغلیہ سلطنت، درانی سلطنت، سکھ سلطنت اور برطانوی راج کا اہم حصہ رہا ہے۔ اس کے بعد محمد علی جناح کی قیادت میں تحریک پاکستان کامیاب ہوئی اور 14 اگست 1947ء کو ہندوستان کے مشرق اور مغرب میں دو حصوں میں ایک آزاد اور خودمختار اسلامی ریاست قائم ہوئی۔ پاکستان نے 1956ء میں اپنا پہلا قانون اپنایا۔ 1971ء میں ایک خانہ جنگی کے دوران میں اس کا مشرقی حصہ الگ ہو کر ایک نیا ملک بنگلہ دیش بن گیا۔ پاکستان وفاقی پارلیمانی جمہوری ریاست کے تحت چلتا ہے۔ اس کے چار صوبے اور کچھ وفاقی حکومت کے زیر انتظام علاقے ہیں۔ یہ ملک لسانی اور قومی طور پر مختلف اقوام کا علاقہ ہے اور اس کا جغرافیہ بھی ہر طرح کے خطے پر مشتمل ہے۔ پاکستان دنیا کا ایک اہم طاقتور ملک ہے، جیسا کہ اس کی فوج دنیا کی چھویں بڑی فوج ہے اور یہ اسلامی دنیا کی واحد اور جنوبی ایشیا کی دوسری ایٹمی طاقت ہے۔ اس کی معیشت دنیا میں 27 ویں نمبر پر ہے۔ پاکستان کی تاریخ فوجی آمریت، سیاسی عدم استحکام اور پڑوسی ملک سےجھگڑوں پر مشتمل ہے۔ یہ ملک مؤتمر عالم اسلامی، اقوام متحدہ، دولت مشترکہ ممالک، سارک، ترقی پذیر 8، اقتصادی تعاون تنظیم جیسی تنظیموں کا اہم رکن ہے۔ ان سرزمین اور ممالک کے ناموں میں، جس میں لاحقہ "ستان" شامل ہے، پاکستان کا لفظ سب سے نیا ہے اور کردستان سب سے پرانا نام ہے۔ پاکستان کے مطلب پاک نفسوں کی سرزمین ہے.
متضاد مخالف؛ اُلٹ؛ اُلٹی طرف؛ دوسری جانب؛ ضِد؛ مُقابل؛ بِالمقابل؛ متقابل؛ متضاد؛ ایک لفظ جو مفہوم کے لحاظ سے دوسرے کی ضد ہو؛ متضاد المعنی۔ ایسے الفاظ جو مماثل وضع میں لیکن ایک دوسرے کے مخالف، برعکس یا یکسر مختلف ہوں۔ اسے 'بائنری' تعلق سے تعبیر کیا جاتا ہے کیوں کہ متضاد جوڑوں میں دو رکن ہوتے ہیں۔ باہم مخالف تعلق کو متضاد کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ایک جوڑے میں مخالف لفظ کو عام طور پر اس سوال کے ذریعہ طے کیا جا سکتا ہے کہ الف کے برعکس کیا ہے؟ جیسے:
ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال (ولادت: 9 نومبر 1877ء - وفات: 21 اپریل 1938ء) بیسویں صدی کے ایک معروف شاعر، مصنف، قانون دان، سیاستدان اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھے۔ اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے اور یہی ان کی بنیادی وجہ شہرت ہے۔ شاعری میں بنیادی رجحان تصوف اور احیائے امت اسلام کی طرف تھا۔ "دا ریکنسٹرکشن آف ریلیجس تھاٹ ان اسلام" کے نام سے انگریزی میں ایک نثری کتاب بھی تحریر کی۔ علامہ اقبال کو دور جدید کا صوفی سمجھا جاتا ہے۔[حوالہ درکار] بحیثیت سیاست دان ان کا سب سے نمایاں کارنامہ نظریۂ پاکستان کی تشکیل ہے، جو انہوں نے 1930ء میں الہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پیش کیا تھا۔ یہی نظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا۔ اسی وجہ سے علامہ اقبال کو پاکستان کا نظریاتی باپ سمجھا جاتا ہے۔ گو کہ انہوں نے اس نئے ملک کے قیام کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن انہیں پاکستان کے قومی شاعر کی حیثیت حاصل ہے۔
تلنگانہ کا شعبہ سیاحت : TelanganaTourism Sector: سیاحت بہت سے مواقع فراہم کرنے والی ایک صنعت ہے جو ریاست کی سماجی اور معاشی ترقی میں اہم رول ادا کرتی ہے۔ تلنگانہ ریاست میں بھی کئی سیاحتی مراکز ہیں۔ جہاں دنیا بھر سے سیاح آتے ہیں۔ حید رآباد ملک کے ان چند بڑے شہروں میں شمار ہوتا ہے جو سیاحوں کو اپنی جانب راغب کرتا ہے۔ دنیا بھر میں مشہور چارمینار یہیں واقع ہے۔ اور حیدرآباد کو دنیاکے 20بہترین شہروں میں سے دوسرا درجہ حاصل ہواہے۔
واحد کا مفہوم (انگریزی: Meaning of Singular) ایک شخص یا ایک چیز کو واحد کہا جاتا ہے۔ یا واحد وہ اسم ہوتا ہے جو ایک شخص یا چیز کو ظاہر کرے۔ مثلاﹰ کتاب، لڑکا، مسجد، استاد، فوج، بلی، شجر، میز، کرسی، وغیرہ۔ جبکہ جمع ایک سے زیادہ شخصوں یا چیزوں کو جمع کہتے ہیں۔ یا جمع وہ اسم ہوتا ہے جو ایک سے زیادہ اشخاص ا اسماء کو ظاہر کرے۔ مثلاً کُتب، لڑکے، مساجد، اساتذہ، افواج، بلیاں، اشجار، میزیں، کرسیاں وغیرہ
نجم الدولہ، دبیر الملک، مرزا نوشہ اسد اللہ خان غالب بہادر نظام جنگ (1797ء- 1869ء) اردو زبان کے سب سے بڑے شاعروں میں ایک سمجھے جاتے ہیں۔ یہ تسلیم شدہ بات ہے کہ 19 ویں صدی غالب کی صدی ہے۔ جبکہ 18 ویں میر تقی میر کی تھی اور 20 ویں علامہ اقبال کی۔ غالب کی عظمت کا راز صرف ان کی شاعری کے حسن اور بیان کی خوبی ہی میں نہیں ہے۔ ان کا اصل کمال یہ ہے کہ وہ زندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کو گہرائی میں جا کر سمجھتے تھے اور بڑی سادگی سے عام لوگوں کے لیے بیان کر دیتے تھے۔ غالب جس پر آشوب دور میں پیدا ہوئے اس میں انہوں نے مسلمانوں کی ایک عظیم سلطنت کو برباد ہوتے ہوئے اور باہر سے آئی ہوئی انگریز قوم کو ملک کے اقتدار پر چھاتے ہوئے دیکھا۔ غالباً یہی وہ پس منظر ہے جس نے ان کی نظر میں گہرائی اور فکر میں وسعت پیدا کی۔
ابو القاسم محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب (12 ربیع الاول عام الفیل / 8 جون 570ء یا 571ء – 12 ربیع الاول 10ھ / 8 جون 632ء) مسلمانوں کے آخری نبی ہیں۔ اہل اسلام کے نزدیک محمد تمام مذاہب کے پیشواؤں سے کامیاب ترین پیشوا تھے۔ آپ کی کنیت ابوالقاسم تھی۔ مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ کی طرف سے انسانیت کی جانب بھیجے جانے والے انبیا اکرام کے سلسلے کے آخری نبی ہیں جن کو اللہ نے اپنے دین کی درست شکل انسانوں کی جانب آخری بار پہنچانے کیلئے دنیا میں بھیجا۔ انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دنیا کی تمام مذہبی شخصیات میں سب سے کامیاب شخصیت تھے۔
نعمان ابن ثابت بن زوطا بن مرزبان (پیدائش: 5 ستمبر 699ء– وفات: 14 جون 767ء) (فارسی: ابوحنیفه،عربی: نعمان بن ثابت بن زوطا بن مرزبان)، عام طور پر آپکو امام ابو حنیفہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ آپ سنی حنفی فقہ (اسلامی فقہ) کے بانی تھے۔ آپ ایک تابعی، مسلمان عالم دین، مجتہد، فقیہ اور اسلامی قانون کے اولین تدوین کرنے والوں میں شامل تھے۔ آپ کے ماننے والوں کو حنفی کہا جاتا ہے۔ زیدی شیعہ مسلمانوں کی طرف سے بھی آ پ کو ایک معروف اسلامی عالم دین اور شخصیت تصور کیا جا تا ہے۔ انہیں عام طور پر "امام اعظم" کہا جاتا ہے۔
اردو صحافت کے آغاز سے متعلق کئی متضاد دعوے کیے گئے ہیں۔ کسی نے مولوی محمد باقر دہلوی کے سر اس کا سہرا باندھا ہے جو تحریک آزادی کے لیے شہید ہونے والے پہلے صحافی تھے جنہیں انگریزوں نے توپ سے باندھ کر اُڑا دیا تھا۔ مولوی محمد باقر کا اردو اخبار دہلی سے 1836سے 1857ء تک جاری رہا۔ بعض کا یہ دعوی ہے کہ اردو کا پہلا اخبار ’’آگرہ اخبار‘‘ ہے جو اکبرآباد سے 1831ء میں جاری کیا گیا۔ مورخین لکھتے ہیں کہ اردو کا سب سے پہلا اخبار ’’جام جہاں نما‘‘ کا ضمیمہ تھا جو27؍مارچ 1823ء کو جاری ہوا اور 1824تک نکلتا رہا اور پھر بند ہوکر دوبارہ 1825میں جاری ہوا۔ جناب یوسف کاظم عارف کا دعویٰ ہے کہ ’’مراۃ الاخبار‘‘ اردو کا پہلا اخبار ہے جو 1821 میں کلکتہ سے جاری ہوا۔ جس کے روح رواں راجا رام موہن رائے تھے۔ ایک اور دعویٰ یہ بھی ہے کہ 1810ء میں کلکتہ سے کاظم علی نے ’’اردو اخبار‘‘ کے نام سے اردو صحافت کا آغاز کیا۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اردو اخبار کا آغاز ہندوستان کے پہلے مجاہد اور شہید آزادی ٹیپو سلطان شہید نے کیا تھا۔ جنہوں نے 1794ء میں ایک حکم صادر کیا کہ ایک سرکاری پریس جاری کیا جائے جس میں عربی حروف میں ٹائپ کی چھپائی ہو۔ ان کے حکم کی تعمیل ہوئی۔ ٹیپو سلطان نے ارشاد فرمایا کہ اس پریس سے اردو زبان کا اخبار جاری کیا جائے جس کا نام ’’فوجی اخبار‘‘ رکھا جائے۔ یہ اخبار شاہی سرپرستی اور سرکاری نگرانی میں جاری ہوا جو اردو زبان کا پہلا اخبار تھا اگرچہ کہ عوام تک اس کی رسائی نہیں تھی بلکہ صرف شاہی فوج کے افسر اور سپائیوں میں تقسیم کیا جاتا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب سرکاری زبان فارسی تھی۔ اردو کی ابتدائی حالت تھی۔ مگر ٹیپو سلطان شہید کی دور بین نظروں نے یہ بھانپ لیا تھاکہ آنے والا دور اردو کا ہوگا۔ اس فوجی اخبار میں جو تقطیع پر ہفتہ وار شائع ہوتا تھا اس میں فوج کی نقل و حرکت، افسروں کے تعین اور تبادلے کی اطلاعات درج ہوتی تھیں۔ فوج کے متعلق احکامات بھی شائع کیے جاتے تھے۔ یہ پانچ سال تک پابندی کے ساتھ شائع ہوتا رہا۔ ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد انگریزوں نے پریس اور فوجی اخبار کی تمام فائلوں کو ضبط کر لیا اور اسے آگ لگادی۔
معراج کمالِ معجزاتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ یہ وہ عظیم خارقِ عادت واقعہ ہے جس نے تسخیرِ کائنات کے مقفّل دروازوں کو کھولنے کی اِبتداء کی۔ اِنسان نے آگے چل کر تحقیق و جستجو کے بند کواڑوں پر دستک دی اور خلاء میں پیچیدہ راستوں کی تلاش کا فریضہ سر انجام دیا۔ رات کے مختصر سے وقفے میں جب اللہ ربّ العزّت حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مسجدِ حرام سے نہ صرف مسجد اقصیٰ تک بلکہ جملہ سماوِی کائنات کی بے اَنت وُسعتوں کے اُس پار ’’قَابَ قَوْسَيْنِ‘‘ اور ’’أَوْ أَدْنَى‘‘ کے مقاماتِ بلند تک لے گیا اور آپ مدّتوں وہاں قیام کے بعد اُسی قلیل مدّتی زمینی ساعت میں اِس زمین پر دوبارہ جلوہ اَفروز بھی ہو گئے۔ قرآن کریم میں سورہ بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں ارشادِ خداوندی ہے کہ وہ (ذات) پاک ہے جو ایک رات اپنے بندے کو مسجد الحرام یعنی (خانہ کعبہ) سے مسجد اقصیٰ (یعنی بیت المقدس) تک جس کے اردگرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں لے گیا تاکہ ہم اسے اپنی (قدرت کی) نشانیاں دکھائیں۔ بے شک وہ سننے والا (اور) دیکھنے والا ہے۔ رجب کی ستائیسویں شب کو اللہ کے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو معراج کا شرف عطا کیا گیا۔اگرچہ اس واقعہ کے زمان کے بارے میں کئی روایات موجود ہیں لیکن محققین کی تحقیق کے مطابق یہ واقعہ ہجرت سے تین سال قبل پیش آیا،یعنی دسویں سالِ بعثت کو۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ شیعہ سنی علما کا اتفاق ہے کہ نماز جناب ابو طالبؑ کی وفات کے بعد یعنی بعثت کے دسویں سال کو واجب ہوگئ تو پانچ وقت کی نماز اسی معراج کی رات امت پہ واجب ہو گئی تھی۔منقول ہے کہ اس دن کفار نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بہت ستایا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی چچازاد بہن ام ہانی کے گھر تشریف لے گئے اور وہاں آرام فرمانے لگے۔ ادھر اللہ کے حکم سے حضرت جبرئیل پچاس ہزار فرشتوں کی برات اور براق لے کر نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ کا رب آپ سے ملاقات چاہتا ہے۔ چنانچہ سوئے عرش سفر کی تیاریاں ہونے لگیں۔ سفر معراج کا سلسلہ شروع ہونے والا تھا نبی رحمت کی بارگاہ میں براق حاضر کیا گیا جس پر حضور کو سوار ہونا تھا، مگر اللہ کے پیارے محبوب نے کچھ توقف فرمایا۔ جبرئیل امین نے اس پس و پیش کی وجہ دریافت کی تو آپ نے ارشاد فرمایا: مجھ پر تو اللہ رب العزت کی اس قدر نوازشات ہیں، مگر روز قیامت میری امت کا کیا ہو گا؟ میری امت پل صراط سے کیسے گزرے گی؟ اسی وقت اللہ تعالٰی کی طرف سے بشارت دی گئی :اے محبوب!
قرآن، قرآن مجید یا قرآن شریف (عربی: القرآن الكريم) دین اسلام کی مقدس و مرکزی کتاب ہے جس کے متعلق اسلام کے پیروکاروں کا اعتقاد ہے کہ وہ کلام الہی ہے اور اسی بنا پر یہ انتہائی محترم و قابل عظمت کتاب ہے۔ اسے پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی کے ذریعے اتارا گیا۔ یہ وحی اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتے حضرت جبرائیل علیہ السلام لاتے تھے جیسے جیسے قرآن مجید کی آیات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوتیں آپ صلی علیہ وآلہ وسلم اسے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو سنا اور ان آیات کے مطالب و معانی سمجھا دیتے۔ کچھ صحابہ کرام تو ان آیات کو وہیں یاد کر لیتے اور کچھ لکھ کر محفوظ کر لیتے۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن ہر قسم کی تحریف سے پاک سے محفوظ ہے، قرآن میں آج تک کوئی کمی بیشی نہیں ہو سکی اور اسے دنیا کی واحد محفوظ کتاب ہونے کی حیثیت حاصل ہے، جس کا حقیقی مفہوم تبدیل نہیں ہو سکا اور تمام دنیا میں کروڑوں کی تعداد میں چھپنے کے باوجود اس کا متن ایک جیسا ہے اور اس کی تلاوت عبادت ہے۔ نیز صحف ابراہیم، زبور اور تورات و انجیل کے بعد آسمانی کتابوں میں یہ سب سے آخری کتاب ہے اور سابقہ آسمانی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اب اس کے بعد کوئی آسمانی کتاب نازل نہیں ہوگی۔ قرآن کی فصاحت و بلاغت کے پیش نظر اسے لغوی و مذہبی لحاظ سے تمام عربی کتابوں میں اعلیٰ ترین مقام دیا گیا ہے۔ نیز عربی زبان و ادب اور اس کے نحوی و صرفی قواعد کی وحدت و ارتقا میں بھی قرآن کا خاصا اہم کردار دکھائی دیتا ہے۔ چنانچہ قرآن کے وضع کردہ عربی زبان کے قواعد بلند پایہ عرب محققین اور علمائے لغت مثلاً سیبویہ، ابو الاسود الدؤلی اور خلیل بن احمد فراہیدی وغیرہ کے یہاں بنیادی ماخذ سمجھے گئے ہیں۔
مذکر: نر اسم ہوتا ہے جیسےمرد، باپ، بیل، بیٹا جبکہ مونث: مادہ اسم ہوتا ہے جیسے عورت، ماں، گائے، بیٹی بے جان اسماء میں نر اور مادہ کا کوئی فرق نہیں ہوتا اس لیے ان کی تذکیر و تانیث کا تمام تر درارومدار اہل زبان پر ہوتا ہے جیسے قلم کو اہل زبان مذکر بولتے ہیں اور گیند کو مونث اسی لیے ایسے اسماء کی تذکیر و تانیث کو غیر حقیقی تذکیر و تانیث کہا جاتا ہے۔ جبکہ حقیقی تذکیر و تانیث وہ ہوتی ہے جس میں نر کے مقابلے میں مادہ اور مادہ کے مقابلے میں نر ہو جانداروں میں کیوں کہ قدرتی طور پر نر اور مادہ کا فرق موجود ہوتا ہے اس لیے اس لیے ان کی تذکیرو تانیث حقیقی ہوتی ہے جیسے مرد، عورت۔ بیل، گائے وغیرہ
حسین بن علی بن ابی طالب ( عربی: ٱلْحُسَيْن ٱبْن عَلِيّ 10 جنوری 626 - 10 اکتوبر 680) نبی اسلام محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نواسے اور علی ابن ابی طالب اور محمد کی بیٹی فاطمہ زہرا کے بیٹے تھے۔ وہ اسلام میں ایک اہم شخصیت ہیں کیوںکہ وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ( اہل بیت ) اور اہل کسا کے علاوہ تیسرے شیعہ امام بھی تھے۔
ابو عیسیٰ محمد ترمذی ایک مشہور محدث گذرے ہیں جن کا پورا نام ابو عیسیٰ محمد بن سورہ بن شداد ہے۔ آپ کے حالات کے متعلق بہت کم علم ہے۔ کہتے ہیں کہ پیدائشی نابینا تھے۔ بعض کے بقول آخری عمر میں نابینا ہو گئے تھے۔ آپ نے امام احمد ابن حنبل، امام بخاری اور امام ابو داؤد سے حدیث کا درس لیا اور پھر احادیث جمع کرنے کے لیے خراسان عراق اور حجاز گئے۔ شہر ترمذ میں، جو بلخ سے کچھ فاصلے پر دریائے آمو کے کنارے واقع ہے، انتقال کیا، آپ کی دو تصانیف ہم تک پہنچی ہیں۔ ایک آنحضرت کی سیرت، جس کا نام شمائل ترمذی ہے۔ اور دوسری احادیث کا مجموعہ جو جامع ترمذی کے نام سے مشہور ہے۔ دونوں کتابیں بہت وقیع اور مستند ہیں۔ ان کے علاوہ انساب، کنیت اور اسماء الرجال پر بھی آپ نے کچھ کام کیا تھا مگر یہ کتابیں اب نہیں ملتیں۔
برصغیر پاک و ہند میں 1857ء کی ناکام جنگ آزادی اور سقوطِ دہلی کے بعد مسلمانان برصغیر کی فلاح بہودکی ترقی کے لیے جو کوششیں کی گئیں، عرف عام میں وہ ”علی گڑھ تحریک “ کے نام سے مشہور ہوئیں۔ سر سید نے اس تحریک کا آغاز جنگ آزادی سے ایک طرح سے پہلے سے ہی کر دیا تھا۔ غازی پور میں سائنٹفک سوسائٹی کا قیام اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔ لیکن جنگ آزادی نے سرسید کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کیے اور ان ہی واقعات نے علی گڑھ تحریک کو بارآور کرنے میں بڑی مدد دی۔ لیکن یہ پیش قدمی اضطراری نہ تھی بلکہ اس کے پس پشت بہت سے عوامل کارفرما تھے۔ مثلاً راجا رم موہن رائے کی تحریک نے بھی ان پر گہرا اثر چھوڑا۔
ابو حفص عمر بن خطاب عدوی قرشی ملقب بہ فاروق (پیدائش: 586ء تا 590ء کے درمیان مکہ میں- وفات: 6 نومبر، 644ء مدینہ میں) ابو بکر صدیق کے بعد مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ راشد، محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خسر اور تاریخ اسلام کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک ہیں۔ عمر بن خطاب عشرہ مبشرہ میں سے ہیں، ان کا شمار علما و زاہدین صحابہ میں ہوتا تھا۔ ابو بکر صدیق کی وفات کے بعد 23 اگست سنہ 634ء مطابق 22 جمادی الثانی سنہ 13ھ کو مسند خلافت سنبھالی۔ عمر بن خطاب ایک باعظمت، انصاف پسند اور عادل حکمران مشہور ہیں، ان کی عدالت میں مسلم و غیر مسلم دونوں کو یکساں انصاف ملا کرتا تھا، عمر بن خطاب کا یہ عدل و انصاف انتہائی مشہور ہوا اور ان کے لقب فاروق کی دیگر وجوہ تسمیہ میں ایک وجہ یہ بھی بنی۔
اردو ادب کی دو اصناف ہیں، اردو نثر اور اردو نظم یعنی اردو شاعری۔ پھر اردو شاعری کی کئی قسمیں ہیں جن میں نظم، غزل، مثنوی، قصیدہ، مرثیہ، رباعی، مخمس، مسدس، مثمن، قطعہ، نعت وغیرہ شامل ہیں۔ ان میں سب سے مشہور صنف غزل ہے جسے ہر خاص و عام نے قبول کیا اور سراہا ہے مگر اردو شاعری کی سب سے وسیع قسم اردو نظم ہے۔ اردو نظم میں بہت زیادہ تجربے کیے گئے ہیں اور یہی اس کی وسعت کی دلیل ہے۔ نظیر اکبر آبادی، الطاف حسین حالی، اکبر الہ آبادی اور اقبال، جوش ملیح آبادی، ساحر لدھیانوی، فیض احمد فیض، علی سردار جعفری، ن م راشد، اسماعیل میرٹھی، نظم طباطبائی نظم کے بڑے شاعروں میں سے ہیں۔ اردو میں نظم کی صنف انیسویں صدی کی آخری دہائیوں کے دوران میں انگریزی کے اثر سے پیدا ہوئی جو دھیرے دھیرے پوری طرح قائم ہو گئی۔ نظم بحر اور قافیے میں بھی ہوتی ہے اور اس کے بغیر بھی۔ اب نثری نظم بھی اردو میں مستحکم ہو گئی ہے۔نثری نظم کے حوالے سے میراں جی.ن م راشد . ہوتے ہوئے احمد ہمیش سے ہوتے ہوئےجواز جعفری تک سلسلہ آتا ہے۔لیکن ایک اور بات ...! اس سارے سلسلے میں ڈاکٹر وحید احمد آج بھی نمایا ہیں..
اردو زبان کی ابتدا کے متعلق نظریات
اردو کی ابتدا و آغاز کے بارے میں کئی مختلف نظریات ملتے ہیں یہ آپس میں اس حد تک متضاد ہیں کہ ایک انسان چکرا کر رہ جاتا ہے۔ ان مشہور نظریات میں ایک بات مشترک ہے کہ ان میں اردو کی ابتدا کی بنیاد برصغیر پاک و ہند میں مسلمان فاتحین کی آمد پر رکھی گئی ہے۔ اور بنیادی استدلال یہ ہے کہ اردو زبان کا آغاز مسلمان فاتحین کی ہند میں آمد اور مقامی لوگوں سے میل جول اور مقامی زبان پر اثرات و تاثر سے ہوا۔ اور ایک نئی زبان معرض وجود میں آئی جو بعد میں اردو کہلائی۔ کچھ ماہرین لسانیات نے اردو کی ابتدا کا سراغ قدیم آریائوں کے زمانے میں لگانے کی کوشش کی ہے۔ بہر طور اردو زبان کی ابتدا کے بارے میں کوئی حتمی بات کہنا ذرا مشکل ہے۔ اردو زبان کے محققین اگرچہ اس بات پر متفق ہیں کہ اردو کی ابتدا مسلمانوں کی آمد کے بعد ہوئی لیکن مقام اور نوعیت کے تعین اور نتائج کے استخراج میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس انداز سے اگر اردو کے متعلق نظریات کو دیکھا جائے تو وہ نمایاں طور پر چار مختلف نظریات کی شکل میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔
شعبان اسلامی تقویم کا آٹھواں مہینہ ہے۔ اسے شعبان المعظم بھی کہا جاتا ہے۔ اسے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منسوب کیا جاتا ہے۔ یہ ایک متبرک مہینہ ہے اور اس میں مسلمان نفلی روزے رکھتے ہیں۔ شعبان کے مہینہ میں زیادہ سے زيادہ روزے رکھنے مستحب ہيں، حدیث میں بیان کیا گيا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سارے شعبان کے روزے رکھا کرتے تھے :
اللہ کے ذاتی نام 'اللہ' کے علاوہ اللہ کے ننانوے صفاتی نام مشہور ہیں۔ انہیں کہا جاتا ہے۔ ان میں سے بیشتر قرآن میں موجود ہیں اگرچہ قرآن میں ننانوے کی تعداد مذکور نہیں مگر یہ ارشاد ہے کہ اللہ کو اچھے اچھے ناموں سے پکارا جائے۔ روایات میں بکثرت نیچے دیے گئے ننانوے صفاتی نام ملتے ہیں جن کے ساتھ ان کا اردو ترجمہ بھی درج کیا جا رہا ہے۔
شاعری (Poetry) کا مادہ "شعر" ہے اس کے معانی کسی چیز کے جاننے پہچاننے اور واقفیت کے ہیں۔ لیکن اصطلاحاً شعر اس کلامِ موزوں کو کہتے ہیں جو قصداً کہا جائے۔ یہ کلام موزوں جذبات اور احساسات کے تابع ہوتا ہے۔ اور کسی واقعہ کی طرف جاننے کا اشارہ کرتا ہے۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ آپ نے کوئی حادثہ دیکھا ہو اور وہ آپ کے دل پر اثر کر گیا ہو اور آپ کے اندر سے خود بخود الفاظ کی صورت میں ادا ہو جائے اس اثر کے بیان کو شعر کہتے ہیں اور انہی شعروں کو شاعری کے نام سے جانا جاتا ہے۔
قمری ہجری تقویم (ماہ و سال) کو بعض ممالک میں اسلامی تقویم بھی کہا جاتا ہے۔ ہجری تقویم سے مراد تواریخ کا حساب حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مدینہ کی طرف ہجرت سے لگانا ہے۔ اس میں جو مہینے استعمال ہوتے ہیں ان کا استعمال اسلام سے پہلے بھی تھا۔ جس میں سے محرم پہلا مہینہ ہے۔ چونکہ ایک قمری تقویم ہے لہذا اس کا ہر مہینہ چاند کو دیکھ کر شروع ہوتا ہے۔ سال کا کل دورانیہ 354.367056 دن اور ایک ماہ کا کل دورانیہ 29.530588 دن ہے۔
میر تقی میر (پیدائش: 28 مئی 1723ء— وفات: 22 ستمبر 1810ء) اصل نام میر محمد تقى اردو كے عظیم شاعر تھے۔ میر ان کا تخلص تھا۔ اردو شاعرى ميں مير تقى مير كا مقام بہت اونچا ہے ـ انہیں ناقدین و شعرائے متاخرین نے خدائے سخن کے خطاب سے نوازا۔ وہ اپنے زمانے كے ايك منفرد شاعر تھےـ۔ آپ كے متعلق اردو كے عظیم الشان شاعرمرزا غالب نے لکھا ہے۔
محمد علی جناح پیدائشی نام، محمد علی جناح بھائی، 25 دسمبر 1876ء – 11 ستمبر 1948ء) کے نامور وکیل، سیاست دان اور بانی پاکستان تھے۔ محمد علی جناح 1913ء سے لے کر پاکستان کی آزادی 14 اگست 1947ء تک آل انڈیا مسلم لیگ کے سربراہ رہے، پھر قیام پاکستان کے بعد اپنی وفات تک، وہ ملک کے پہلے گورنر جنرل رہے۔ سرکاری طور پر پاکستان میں آپ کو قائدِ اعظم یعنی سب سے عظیم رہبر اور بابائے قوم یعنی قوم کا باپ بھی کہا جاتا ہے۔ جناح کا یومِ پیدائش پاکستان میں قومی تعطیل کے طور پر منایا جاتا ہے۔کراچی کے پیدائشی اور لنکن ان سے بیرسٹری کی تربیت حاصل کرنے والے جناح، بیسویں صدی کے ابتدائی دو عشروں میں آل انڈیا کانگریس کے اہم رہنما کے طور پر ابھرے۔ اپنی سیاست کے ابتدائی ادوار میں انہوں نے ہندو مسلم اتحاد کے لیے کام کیا۔ 1916ء میں آل انڈیا مسلم لیگ اور آل انڈیا کانگریس کے مابین ہونے والے میثاق لکھنؤ کو مرتب کرنے میں بھی انہوں نے اہم کردار ادا کیا۔ جناح آل انڈیا ہوم رول لیگ کے اہم رہنماوں میں سے تھے، انہوں نے چودہ نکات بھی پیش کیے، جن کا مقصد ہندوستان کے مسلمانوں کے سیاسی حقوق کا تحفظ کرنا تھا۔ بہر کیف جناح 1920ء میں آل انڈیا کانگریس سے مستعفی ہو گئے، جس کی وجہ آل انڈیا کانگریس کے موہن داس گاندھی کی قیادت میں ستیاگرا کی مہم چلانے کا فیصلہ تھا۔1940ء تک جناح کو یہ یقین ہو چلا تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک علاحدہ وطن کی جدوجہد کرنی چاہیے۔ اسی سال، مسلم لیگ نے جناح کی قیادت میں قرارداد پاکستان منظور کی جس کا مقصد نئی مملکت کی قیام کا مطالبہ تھا۔دوسری جنگ عظیم کے دوران، آل انڈیا مسلم لیگ نے مضبوطی پکڑلی جبکہ ان ادوار میں کانگریس کے کئی رہنما قید کاٹ رہے تھے اور جنگ کے ختم ہونے کے مختصر عرصے میں ہی انتخابات کا انعقاد ہوا، جس میں جناح کی جماعت نے مسلمانوں کے لیے مختص نشستوں میں سے بڑی تعداد جیت لی۔ اس کے بعد آل انڈیا کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ متحدہ ہندوستان میں اختیارات کے توازن کے لیے کسی صیغے پر متفق نا ہو سکے نتیجتاً تمام جماعتیں اس امر پر متفق ہوگئیں کہ ہندوستان کے دو حصے کیے جائیں جن میں ایک مسلم اکثریتی علاقوں میں پاکستان جبکہ باقی ماندہ علاقوں میں بھارت کا قیام ہو۔پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کے طور پر جناح نے اپنی حکومتی پالیسیوں کے قیام کے لیے کام کیا نیز انہوں نے ان لاکھوں لوگوں کے بہبود اور آباد کاری کے لیے بھی کام کیا جو تقسیم ہند کے بعد پاکستان کی جانب ہجرت کر چلے تھے، انہوں نے ان مہاجر کیمپوں کی ذاتی طور پر دیکھ بھال کی۔ جناح 71 سال کے عمر میں انتقال کر گئے جبکہ ان کے نوزائیدہ ملک کو سلطنت برطانیہ سے آزاد ہوئے محض ایک سال کا عرصہ ہوا تھا۔ ان کی سوانح عمری لکھنے والے لکھاری،اسٹینلی وولپرٹ لکھتے ہیں کہ، وہ (یعنی جناح) پاکستان کے عظیم ترین رہنما رہیں گے۔
تصوف کا لفظ اس طریقۂ کار یا اسلوبِ عمل کے لیے اختیار کیا جاتا ہے جس پر کوئی صوفی (جمع: صوفیا) عمل پیرا ہو۔ اسلام سے قربت رکھنے والے صوفی، لفظ تصوف کی تعریف یوں کرتے ہیں کہ ؛ تصوف کو قرآنی اصطلاح میں تزکیۂ نفس اور حدیث کی اصطلاح میں احسان کہتے ہیں۔ تصوف کی اس مذکوہ بالا تعریف بیان کرنے والے افراد تصوف کو قرآن و سنت کے عین مطابق قرار دیتے ہیں؛ اور ابتدائی ایام میں متعدد فقہی علما کرام بھی اس ہی تصوف کی جانب مراد لیتے ہیں۔ پھر بعد میں تصوف میں ایسے افکار ظاہر ہونا شروع ہوئے کہ جن پر شریعت و فقہ پر قائم علما نے نہ صرف یہ کہ ناپسندیدگی کا اظہار کیا بلکہ ان کو رد بھی کیا۔
ہجرت مدینہ پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ان کے صحابہ کی طرف سے مکہ مکرمہ سے یثرب (جسے اس ہجرت کے بعد مدینۃ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نام دیا گیا) منتقل ہوجانے کے عمل کو کہتے ہیں جو 12ربیع الاول 13نبوی (جو بعد میں پہلا ہجری سال کہلایا)، بمطابق 24 ستمبر 622ء عیسوی بروز جمعہ کو ہوئی، بعد میں اسی دن کی نسبت سے ہجری تقویم کا آغاز ہوا۔ مسلمانوں نے قمری ہجری تقویم اور شمسی ہجری تقویم دونوں کا آغاز اسی واقعہ کی بنیاد پر کیا۔
سنن ابی داؤد، کتب ستہ اور سنن اربعہ میں ایک اہم کتاب ہے، اہل سنت و جماعت کے اس کتاب کا ایک اہم مقام ہے، امہات احادیث میں مصدر اور مرجع شمار کی جاتی ہے، مرتبہ میں صحیحین کے بعد اسی کا نام آتا ہے۔ سنن ابی داؤد کے مصنف امام ابو داؤد سلیمان بن اشعث بن اسحاق بن بشیر بن شداد بن عمرو ازدی سجستانی ہیں۔ جس میں ابو داؤد نے 5275 احادیثکو پانچ لاکھ احادیث میں سے منتخب کر کے جمع کیا ہے۔ابو داؤد نے اس احادیث پر زیادہ توجہ دی ہے جن سے فقہا استدلال کرتے ہیں، اور جن پر فقہی احکام بنتے ہیں۔ انھوں نے اہل مکہ کے نام اپنے ایک رسالہ میں لکھا ہے: «یہ سنن کی احادیث تمام کے تمام احکام سے تعلق رکھتی ہیں، اس میں سے بہت سی احادیث زہد اور فضائل وغیرہ سے بھی متعلق ہیں جن کی میں نے تخریج نہیں کی ہے»۔ انھوں نے اپنی کتاب کو کو 36 کتاب میں تقسیم کیا ہے، اور ہر کتاب کو متعدد ابواب میں تقسیم کیا جس میں کل ابواب کی تعداد 1871 ہے۔ ہر حدیث پر علما کے استنباط پر مشتمل ترجمہ باندھا ہے۔ کتاب میں اکثر احادیث مرفوع ہیں، اسی طرح کچھ احادیث موقوف بھی ہیں اور کچھ علمائے تابعین کے آثار بھی ہیں۔جہاں تک بات ہے احادیث کی تخریج کی، تو امام ابو داؤد احادیث پر شدید ضعف کی بھی تصریح و تاکید بھی کرتے ہیں، اور صحیح اور حسن احادیث پر خاموش رہتے ہیں (وہاں کوئی تعلیق نہیں کرتے)۔ انھوں نے لکھا ہے: «میں نے اس میں صحیح اور مشابہ صحیح اور قریب الصحیح احادیث کو بیان کیا ہے، جس حدیث میں سخت ضعف ہوتا ہے میں نے اسے بیان کر دیا ہے، اور جہاں میں نے کوئی تعلیق نہیں کی ہے تو وہ حدیث قابل قبول ہے، بعض احادیث انتہائی صحیح درجے کی ہیں۔» علمائے حدیث نے اس احادیث کے تعلق سے آرا میں اختلاف کیا جس پر ابو داؤد سکوت اختیار کیا ہے، چنانچہ ابن صلاح، یحیٰی بن شرف نووی اور ابن کثیر دمشقی کی رائے ہے کہ وہ اگر صحیحین میں موجود نہیں ہیں تو حسن ہیں۔ اور دوسرے محدثین کی رائے ہے کہ وہ صحیح اور حسن کی اقسام سے ہیں بعض ضعیف بھی ہیں تو قبول کی حد تک درست ہیں۔
غزل اردو شاعری کی مقبول ترین "صنف" سخن ہے۔ غزل توازن میں لکھی جاتی ہے اور یہ ہم قافیہ و بحر اور ہم ردیف مصرعوں سے بنے اشعار کا مجموعہ ہوتی ہے مطلع کے علاوہ غزل کے باقی تمام اشعار کے پہلے مصرع میں قافیہ اور ردیف کی قید نہیں ہوتی ہے جبکہ مصرع ثانی میں غزل کا ہم آواز قافیہ و ہم ردیف کا استعمال کرنا لازمی ہے غزل کا پہلا شعر مطلع کہلاتا ہے جس کے دونوں مصرعے ہم بحر اور ہم قافیہ و ہم ردیف ہوتے ہیں غزل کا آخری شعر مقطع کہلاتا ہے بشرطیکہ اس میں شاعر اپنا تخلص استعمال کرے ورنہ وہ بھی شعر ہی کہلاتا ہے
خواجہ الطاف حسین حاؔلی ، ہندوستان میں ’’اردو‘‘ کے نامورشاعراورنقاد گزرے ہیں۔ حالی 1837ء میں پانی پت میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام خواجہ ایزؔو بخش تھا - ابھی 9 سال کے تھے کہ والد کا انتقال ہو گیا۔ بڑے بھائی امدؔاد حسین نے پرورش کی۔ اسلامی دستور کے مطابق پہلے قرآن مجید حفظ کیا۔ بعد ازاں عربی کی تعلیم شروع کی۔ 17 برس کی عمر میں ان کی مرضی کے خلاف شادی کر دی گئی۔ اب انہوں نے دلی کا قصد کیا اور 2 سال تک عربی صرف و نحو اور منطق وغیرہ پڑھتے رہے۔ حالؔی کے بچپن کا زمانہ ہندوستان میں تمدن اور معاشرت کے انتہائی زوال کا دور تھا۔ سلطنتِ مغلیہ جو 300 سال سے اہل ِ ہند خصوصاََ مسلمانوں کی تمدنی زندگی کی مرکز بنی ہوئی تھی، دم توڑ رہی تھی۔ سیاسی انتشار کی وجہ سے جماعت کا شیرازہ بکھر چکا تھا اور انفرادیت کی ہوا چل رہی تھی۔
قبیلہ قریش کی اموی شاخ کے ایک سردار۔ پورانام صخر بن حرب بن امیہ۔ ابوسفیان کنیت۔ مکے میں پیدا ہوئے۔ آنحضرت سے چند سال بڑے تھے۔ مدت تک اسلام کی مخالفت کرتے رہے۔ غزوہ بدر اورغزوہ احد کے معرکوں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خلاف جنگ لڑی۔ پھر ایک لشکر جرار لے کر مدینے پر چڑھائی کی مگر مسلمانوں نے مدینے کے گرد خندق کھود کر حملہ آوروں کے عزائم ناکام بنادیا۔ ابوسفیان نے حدیبیہ کے مقام پر صلح کی۔ مسلمانوں نے مکے پر چڑھائی کی تو ابوسفیان نے شہر نبی اکرم کے حوالے کر دیا۔ نبی اکرم نے مکے میں داخل ہوتے وقت اعلان فرمایا کہ جو لوگ ابو سفیان کے گھر میں پناہ لیں گے، ان سے تعرض نہیں کیا جائے گا۔ ابوسفیان کے لیے یہ بہت بڑا اعزاز تھا۔ فتح مکہ ہوجانے کے بعد حلقہ بگوش اسلام ہو گئے۔ قبول اسلام کے بعد غزوہ حنین اور پھر جنگ طائف میں حصہ لیا۔ آخر الذکر جنگ میں ان کی ایک آنکھ جاتی رہی۔ حضرت عمر کے عہد میں شام کی مہم میں شریک ہوئے اور اس کے بعد جنگ یرموک میں، جس میں دوسری آنکھ بھی جاتی رہی۔ امیر معاویہ ابوسفیان کے بیٹے تھے۔
یوم پاکستان پاکستان کی تاریخ کا بہت اہم دن ہے۔ اس دن۔ یعنی 23 مارچ 1940 کو قرارداد پاکستان پیش کی گئی تھی۔ قرارداد پاکستان جس کی بنیاد پر مسلم لیگ نے برصغیر میں مسلمانوں کے جدا گانہ وطن کے حصول کے لیے تحریک شروع کی تھی اور سات برس کے بعد اپنا مطالبہ منظور کرانے میں کامیاب رہی۔ وہ مطالبہ جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام سے دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ اس دن "23 مارچ" پورے پاکستان میں عام چھٹی ہوتی ہے۔
جنگ احد 17 شوال 3ھ (23 مارچ 625ء) میں مسلمانوں اور مشرکینِ مکہ کے درمیان احد کے پہاڑ کے دامن میں ہوئی۔ مشرکین کے لشکر کی قیادت ابوسفیان کے پاس تھی اور اس نے 3000 سے زائد افراد کے ساتھ مسلمانوں پر حملہ کی ٹھانی تھی جس کی باقاعدہ تیاری کی گئی تھی۔ مسلمانوں کی قیادت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کی۔ اس جنگ کے نتیجہ کو کسی کی فتح یا شکست نہیں کہا جا سکتا کیونکہ دونوں طرف شدید نقصان ہوا اور کبھی مسلمان غالب آئے اور کبھی مشرکین لیکن آخر میں مشرکین کا لشکر لڑائی ترک کر کے مکہ واپس چلا گیا۔
امیر معاویہ یا معاویہ اول (عربی: معاوية بن أبي سفيان، 597ء، 603ء یا 605ء – اپریل 680ء) اموی خلافت کے بانی تھے اور 661ء سے اپنی وفات 680ء تک خلیفہ رہے۔ وہ نبی محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے 30 سال بعد خلیفہ بن گئے، ان سے قبل خلفائے راشدین اور حسن ابن علی خلیفہ رہے۔ اگرچہ ان کے دور میں انفاص و تقوی کو دور خلفائے راشدین کے مقابلے میں کمتر سمجھا جاتا ہے، لیکن نمو پزیر اسلام میں امیر معاویہ پہلے مسلمان خلیفہ ہیں جن کا نام سرکاری دستاویزات، سکوں اور کتبوں پر کندہ ہوا۔ امیر معاویہ کاتبین وحی میں سے تھے۔
دریائے کرم (پشتو: د کرمې سيند) افغانستان کے صوبے غزنی کے پہاڑوں سے متصل 50 میل دور کوہ سفید کے جنوبی حصے سے نکل کر علاقہ کرم ایجنسی میں قوم بنگش کے زمینوں کو سیراب کرتے ہوئے ٹل بلند خیل شاخ، بنگش خیل کے پاس سے گزرتا ہے۔ ضلع بنوں کی مغربی حد سے متصل پوسٹ کرم کے مقام مشرق سے بنوں میں داخل ہوتا ہے یہ دریا تقریباً ہر موسم میں بہتا ہے آس پاس پہاڑی برساتی نالے اس میں جاگرتے ہیں۔ ماضی میں برسات کے دنوں دونوں کناروں تک بہتا تھا مگر کرم گڑھی سکیم کے بعد دریا سنبھلنے لگا۔ اب ماضی کی طرح کہرام بپا نہیں کرتا۔ ماضی میں بہت سارے قصبات اور اراضی دریا برد ہوئے ہیں۔ دریائے کرم سے قبیلہ منگل نے پہلی بار نہر کچکوٹ نکالی تھی ایک دوسری ویال پٹونہ ہے جو بعد میں جنوب سے موجود اولاد شیتک کے عہد میں نکالی گئی ہے جس سے علاقہ ممد خیل وزیر سیراب ہوتا ہے۔ مجیر نکلسن نے ویال لنڈیڈوک ٹیلی رام تحصیلدار کی نگرانی میں 1855ء میں کھدوائی۔ اسے ٹیلی رام نہر بھی کہتے ہیں اس سے لنڈیڈوک کی چھ ہزار کنال اراضی قابل کاشت بن گئی ہے اس کے علاوہ ویال آمندی ویال ہنجل، ویال منڈان، ویال فاطمہ خیل، خون بہا، ویال چشنہ اور ویال شاہ اسی دریائے کرم سے نکالی گئی ہیں۔ ویال شاہ جو یہ شاجہان کے بیٹے دارا سے منسوب کی جاتی ہے۔ بہتر نظامِ آبپاشی کے باعث بنوں ایک زرخیر جگہ ہے۔ دور سے دیکھا جائے تو بنوں جنگل نظر آتا ہے۔
مسلمانان ہند و پاک کے دورِ زوال کی اہم ترین شخصیت (پیدائش: 1703ء، انتقال:1762ء) برصغیر پاک و ہند میں جب مسلمانوں کا زوال شروع ہوا تو بہت سے لوگوں نے سنجیدگی کے ساتھ زوال کے اسباب پر غور کرنا شروع کیا ان لوگوں میں عہد مغلیہ کے مشہور عالم اور مصنف شاہ ولی اللہ (1703ء تا 1763ء) کا نام سب سے نمایاں ہے۔ مجدد الف ثانی اور ان کے ساتھیوں نے اصلاح کا جو کام شروع کیا تھا شاہ ولی اللہ نے اس کام کی رفتار اور تیز کردی۔ ان دونوں میں بس یہ فرق تھا کہ مجدد الف ثانی چونکہ مسلمانوں کے عہد عروج میں ہوئے تھے اس لیے ان کی توجہ زیادہ تر ان خرابیوں کی طرف رہی جو مسلمانوں میں غیر مسلموں کے میل جول کی وجہ سے پھیل گئیں تھیں لیکن شاہ ولی اللہ چونکہ ایک ایسے زمانے سے تعلق رکھتے تھے جب مسلمانوں کا زوال شروع ہو گیا تھا اس لیے انہوں نے مسلمانوں کے زوال کے اسباب پر بھی غور کیا اور اس کے علاج کے بھی طریقے بتائے۔
اردو زبان میں چھتیس حروفِ تہجی اور سینتالیس آوازیں ہیں جن میں سے بیشتر عربی سے لیے گئے ہیں اور دیگر انہی کی مختلف شکلیں ہیں۔ کچھ حروف کئی طریقوں سے استعمال ہوتے ہیں اور کچھ مخلوط حروف بھی استعمال ہوتے ہیں جو دو حروف سے مل کر بنتے ہیں۔ بعض لوگ 'ء' کو الگ حرف نہیں مانتے مگر پرانی اردو کتب اور لغات میں اسے الگ حرف کے طور پر لکھا جاتا ہے۔ مختلف الفاظ میں یہ الگ حرف کے طور پر ہی استعمال ہوتا ہے مثلاً 'دائرہ'۔ یہ بات مدِنظر رکھنا ضروری ہے کہ اردو تختی اور اردو حروف دو مختلف چیزیں ہیں کیونکہ اردو تختی میں اردو حروفِ تہجی کی کئی اشکال ہو سکتی ہیں جن کو الگ حرف کا درجہ نہیں دیا جا سکتا بلکہ وہ ایک ہی حرف کی مختلف شکلیں ہیں۔ مثلاً نون غنہ نون کی شکل ہے اور 'ھ' اور 'ہ' ایک ہی حرف کی مختلف اشکال ہیں۔ ایک اور مثال الف ممدودہ (آ) اور الف مقصورہ (ا) کی ہے جو اردو تختی میں الگ ہیں مگر اردو کا ایک ہی حرف شمار ہوتے ہیں۔
سلطنت عثمانیہ (یا خلافت عثمانیہ 1299ء سے 1924ء تک) (عثمانی ترک زبان: "دولت علیہ عثمانیہ"، ترک زبان: Osmanlı Devleti) سنہ 1299ء سے 1924ء تک قائم رہنے والی ایک مسلم سلطنت تھی جس کے حکمران ترک تھے۔ اپنے عروج کے زمانے میں (16 ویں – 17 ویں صدی) یہ سلطنت تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی اور جنوب مشرقی یورپ، مشرق وسطٰی اور شمالی افریقہ کا بیشتر حصہ اس کے زیر نگیں تھا۔ اس عظیم سلطنت کی سرحدیں مغرب میں آبنائے جبرالٹر، مشرق میں بحیرۂ قزوین اور خلیج فارس اور شمال میں آسٹریا کی سرحدوں، سلوواکیہ اور کریمیا (موجودہ یوکرین) سے جنوب میں سوڈان، صومالیہ اور یمن تک پھیلی ہوئی تھی۔ مالدووا، ٹرانسلوانیا اور ولاچیا کے باجگذار علاقوں کے علاوہ اس کے 29 صوبے تھے۔
سال1857کے ہنگامے کے بعد ملک میں ایک تعطل پیدا ہو گیا تھا۔ اس تعطل کودور کرنے اور زندگی کو ازسر نو متحرک کرنے کے لیے حکومت کے ایماءپر مختلف صوبوں اور شہروں میں علمی و ادبی سوسائٹیاں قائم کی گئیں ہیں۔ سب سے پہلے بمبئی، بنارس ،لکھنؤ، شاہ جہاں پور، بریلی اور کلکتہ میں ادبی انجمنیں قائم ہوئیں۔ ایسی ہی ایک انجمن لاہور میں قائم کی گئی جس کا پور ا نام ”انجمن اشاعت مطالب ِ مفیدہ پنجاب “ تھا جو بعد میں انجمن پنجاب کے نام سے مشہور ہوئی۔
پہلی جنگ عظیم میں ترکی نے برطانیہ کے خلاف جرمنی کا ساتھ دیا۔ترکی کی جنگ میں شمولیت سے ہندوستان کے مسلمان پریشان ہوئے کہ اگر انگریز کامیاب ہو گیا تو ترکی کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جائے گا۔ ہندوستان کے مسلمانوں نے انگریزوں کا ساتھ دینے کے لیے وزیر اعظم برطانیہ لائیڈ جارج سے وعدہ لیا کہ جنگ کے دوران میں مسلمانوں کے مقامات مقدسہ کی بے حرمتی نہیں ہو گی اور جنگ کے بعد مسلمانوں کی خلافت محفوظ
سلجوقی سلطنت 11ویں تا 14ویں صدی عیسوی کے درمیان میں مشرق وسطی اور وسط ایشیا میں قائم ایک مسلم بادشاہت تھی جو نسلا اوغوز ترک تھے۔ مسلم تاریخ میں اسے بہت اہمیت حاصل ہے کیونکہ یہ دولت عباسیہ کے خاتمے کے بعد عالم اسلام کو ایک مرکز پر جمع کرنے والی آخری سلطنت تھی۔ اس کی سرحدیں ایک جانب چین سے لے کر بحیرۂ متوسط اور دوسری جانب عدن لے کر خوارزم و بخارا تک پھیلی ہوئی تھیں۔ ان کا عہد تاریخ اسلام کا آخری عہد زریں کہلا سکتا ہے اسی لیے سلاجقہ کو مسلم تاریخ میں خاص درجہ و مقام حاصل ہے۔ سلجوقیوں کے زوال کے ساتھ امت مسلمہ میں جس سیاسی انتشار کا آغاز ہوا اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اہلیان یورپ نے مسلمانوں پر صلیبی جنگیں مسلط کیں اور عالم اسلام کے قلب میں مقدس ترین مقام (بیت المقدس) پر قبضہ کر لیا۔
دہشت گردی کی کوئی ایسی تعریف کرنا کہ جو ہر لحاظ سے مکمل اور ہر موقع پر سو فیصد اتفاق رائے سے لاگو کی جا سکے، اگر ناممکن نہیں تو کم از کم انتہائی مشکل ضرور ہے۔ اگر ہر قسم کے پس منظر اور اس معاشرے کے حالات کو یکسر نظرانداز کر دیا جائے تو پھر اس لفظ کی لغوی تشریح یوں ہوسکتی ہے کہ “خوف اور ہراس پیدا کرکے اپنے مقاصد کے حصول کی خاطر ایسا نپا تلا طریقہ کار یا حکمت عملی اختیار کرنا جس سے قصوروار اور بے قصور کی تمیز کے بغیر، (عام شہریوں سمیت) ہر ممکنہ ہدف کو ملوث کرتے ہوئے، وسیع پیمانے پر دہشت و تکلیف اور رعب و اضطراب (جسمانی نہ سہی نفسیاتی) پھیلایا جائے۔“
ٹیلی ویژن یا بعید نما (Television) دراصل ایک ایسی برقیاتی اختراع (Electronic Device) کو کہا جاتا ہے کہ جو متحرک (یا ساکت) تصاویر (جنکو عام طور پر منظرہ (Video) بھی کہ دیا جاتا ہے) کو بشمول سماعیہ (Audio) کے وصول کر کہ اپنے تظاہرہ (Screen) پر قابلِ بصری و سماعتی مشاہدے کی خوبیوں کے ساتھ پیش کرسکتی ہے۔ اگر دقیق النظری کے تحت بعید نما کی تعریف کی جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ اصل میں برقناطیسی اشعاع (Electromagnetic Radiation) کی مدد سے متحرک تصاویر کو آواز کے ساتھ نشر اور وصول کر نے کا ایک مکمل نظام ہوتا ہے جس کو بعید نما نظام کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ اوپر بھی ذکر آیا کہ اس بعید نما یا ٹیلیوژن نظام کی یہ تصاویر و آواز، ارسال و صول کرنے کے لیے برقیاتی اشارے (Electronic Signals) استعمال کیے جاتے ہیں، یہ برقیاتی اشارے عام طور پر کسی ایک منتخب مقام سے نشر کیے جاتے ہیں جس کو مرکزِ بعید نما یا Television Center اور یا بعید نما مستقر (Television Station) بھی کہا جاتا ہے۔
ابو عبد اللہ عثمان بن عفان اموی قرشی (47 ق ھ - 35 ھ / 576ء – 656ء) اسلام کے تیسرے خلیفہ، داماد رسول اور جامع قرآن تھے۔ عثمان غنی سابقین اسلام میں شامل اور عشرہ مبشرہ میں سے تھے، ان کی کنیت ذو النورین ہے کیونکہ انھوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دو صاحبزادیوں سے نکاح کیا تھا، پہلے رقیہ بنت محمد سے کیا، پھر ان کی وفات کے بعد ام کلثوم بنت محمد سے نکاح کیا۔ عثمان غنی پہلے صحابی ہیں جنھوں نے سرزمین حبشہ کی ہجرت کی، بعد میں دیگر صحابہ بھی آپ کے پیچھے حبشہ پہنچے۔ بعد ازاں دوسری ہجرت مدینہ منورہ کی جانب کی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عثمان غنی پر مکمل اعتماد اور ان کی فطری حیاء و شرافت اور جو انھوں نے اپنے مال کے ذریعہ اہل ایمان کی نصرت کی تھی، اس کی انتہائی قدر کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیگر صحابہ کے ساتھ ان کو بھی جنت اور شہادت کی موت کی خوش خبری دی۔
کسی ملک کے دوسرے ممالک سے تعلقات قائم کرنا تاکہ وہ ملک دیگر ممالک سے برآمدات اور درآمدات کاسلسلہ قائم رکھ سکے اس سلسلہ میں ملکی مذہبی امور،دفاعی سامان کی خرید وفروخت اور ملکی و قومی نظریات کو بھی مدنظر رکھاجاتا ہے،ایک نقطہ ذہن نشین کر لیں کہ خارجہ پالیسی میں نہ توئی مستقل دشمن ہوتا ہے اور نہ مستقل دوست۔ یہ سب وقت اور حالات کے تحت بدلتا رہتا ہے۔ پاکستان آبادی کے لحاظ سے انڈونیشیا کے بعد دوسرا بڑا اسلامی ملک ہے۔ ایک ایٹمی قوت ہونے کے باعث بھی اسے اقوام عالم میں مسلمان ممالک میں اونچا مقام حاصل ہے۔
سانحۂ کربلا یا واقعہ کربلا یا کربلا کی جنگ 10 محرم 61ھ (بمطابق 9 یا 10 اکتوبر، 680ء) کو موجودہ عراق میں کربلا کے مقام پر پیش آیا۔ یہ جنگ نواسہ رسول حضرت امام حسین ابن علی، ان کے حامیوں اور رشتہ داروں کے ایک چھوٹے سے گروہ، حسین ابن علیؓ کے ساتھ 72 ساتھی، کچھ غلام، 22 اہل بیت کے جوان اور خاندان نبوی کی کچھ خواتین و بچے شامل تھے اور اموی ظالم حکمران یزید اول کی ایک بڑی فوج کے مابین ہوئی۔جس کو حسین نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔جس میں اموی خلیفہ یزید اول کی فوج نے پیغمبر اسلام محمد ﷺ کے نواسے حسین ابن علی اور ان کے رفقا کو لڑائی میں شہید کیا، حرم حسین کے خیموں کو لوٹ لیا گیا اور بالآخر آگ لگا دی گئی۔ عمر بن سعد کی فوج نے کربلا کے صحرا میں مقتولین کی لاشیں چھوڑ دیں۔ بنی اسد کے لوگوں نے لاشوں کو تین دن بعد دفن کیا۔ واقعہ کربلا کے بعد، حسین ابن علی کی فوج سے وابستہ متعدد خواتین اور بچوں کو گرفتار کر کے قید کر دیا گیا، بازار اور ہجوم والے مقامات سے گزر کر ان کی توہین کی گئی اور انہیں یزید ابن معاویہ کے دربار شام بھیج دیا گیا تھا۔ جنگ میں شہادت کے بعد حضرت امام حسین کو سید الشہدا کے لقب سے پکارا جاتا ہے۔
سیدہ عائشہ بنت ابی بکر (رضی اللہ عنہا) (پیدائش: 614ء– وفات: 13 جولائی 678ء) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ ہیں۔ آپ کو اُم المومنین کے خطاب سے یاد کیا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد عہد خلفائے راشدین میں آپ کی شخصیت بہت نمایاں نظر آتی ہے۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد 47 سال بقید حیات رہیں اور یہ تمام وہ عرصہ ہے جس میں ابتدائی مسلم فتوحات ہوئیں، مختلف ممالک مملکت اسلامیہ میں داخل ہوئے۔ علم الحدیث میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایات کے بعد سب سے زیادہ روایاتِ حدیث کا ذخیرہ آپ سے ہی روایت کیا گیا ہے۔ آپ عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور عہد خلفائے راشدین کی عینی شاہد بھی تھیں اور مزید برآں آپ نے خلافت امویہ کے ابتدائی 17 سال بھی ملاحظہ فرمائے۔ سنہ 678ء میں آپ کا اِنتقال مدینہ منورہ میں ہوا۔ آپ کے مناقب و فضائل کثیر ہیں جن سے آپ کی عظمت و شان جلالت مسلم خواتین پر نمایاں ہے۔
شوال۔ ذی القعدہ 5ھ (مارچ 627ء) میں مشرکینِ مکہ نے مسلمانوں سے جنگ کی ٹھانی۔ ابوسفیان نے قریش اور دیگر قبائل حتیٰ کہ یہودیوں سے بھی لوگوں کو جنگ پر راضی کیا اور اس سلسلے میں کئی معاہدے کیے اور ایک بہت بڑی فوج اکٹھی کر لی مگر مسلمانوں نے سلمان فارسی کے مشورہ سے مدینہ کے ارد گرد ایک خندق کھود لی۔ مشرکینِ مکہ ان کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ خندق کھودنے کی عرب میں یہ پہلی مثال تھی کیونکہ اصل میں یہ ایرانیوں کا طریقہ تھا۔ ایک ماہ کے محاصرے اور اپنے بے شمار افراد کے قتل کے بعد مشرکین مایوس ہو کر واپس چلے گئے۔ اسے غزوہ خندق یا جنگِ احزاب کہا جاتا ہے۔ احزاب کا نام اس لیے دیا جاتا ہے کہ اصل میں یہ کئی قبائل کا مجموعہ تھی۔ جیسے آج کل امریکا، برطانیہ وغیرہ کی اتحادی افواج کہلاتی ہیں۔ اس جنگ کا ذکر قرآن میں سورۃ الاحزاب میں ہے۔
اسم (انگریزی: Noun) کسی جگہ شخص یا چیز کے نام کو اسم کہا جاتا ہے جیسے پاکستان، کراچی، لاہور، امجد، حنا، انور، کرسی، میز، قلم وغیرہ اسم کی کئی اقسام ہیں۔ اسم جامد، اسم مشتق، اسم مصدر، اسم معرفہ (خاص)، اسم نکرہ (عام) اسم معرفہ کی درج ذیل اقسام ہیں۔ اسم علم، اسم ضمیر، اسم اشارہ، اسم موصول۔ اسم نکرہ کی درج ذیل اقسام ہیں۔ اسم ذات، اسم حاصل مصدر، اسم حالیہ، اسم فاعل، اسم مفعول، اسم استفہام۔
بنو امیہ قریش کا ایک ممتاز اور دولت مند قبیلہ تھا۔ اسی خاندان نے خلافت راشدہ کے بعد تقریباً ایک صدی تک ملوکیت سنبھالی اور اسلامی فتوحات کو بام عروج پر پہنچایا۔ جس کی سرحدیں ایک طرف چین اور دوسری طرف اسپین تک پھیلی ہوئی تھیں۔ البتہ مرکزی خلافت کے خاتمے کے باوجود اس خاندان کا ایک شہزادہ عبدالرحمن الداخل اسپین میں حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوا۔ جہاں 1492ء تک اموی سلطنت قائم رہی۔
باغ و بہار میر امن دہلوی کی تصنیف کردہ ایک داستان ہے جو اُنھوں نے فورٹ ولیم کالج میں جان گلکرسٹ کی فرمائش پر لکھی۔ عام خیال ہے کہ باغ و بہار کو میر امن نے امیر خسرو کی فارسی داستان قصہ چہار درویش سے اردو میں ترجمہ کیا ہے لیکن یہ خیال پایہ استناد کو نہیں پہنچتا۔ حافظ محمود شیرانی نے تحقیق سے یہ ثابت کیا ہے کہ اس قصے کا امیر خسرو سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں ان کے مطابق یہ قصہ محمد علی معصوم کی تصنیف ہےباغ و بہار فورٹ ولیم کالج کی دین ہے جو انگریزوں کو مقامی زبانوں سے آشنا کرنے کے لیے قائم کیا گیا تھا اور یہیں میر امن نے باغ و بہار کو جان گل کرائسٹ کی فرمائش پر میر حسین عطا تحسین کی نو طرز مرصع سے استفادہ کرکے تصنیف کیا۔ اس طرح یہ داستان اردو نثر میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے اور اسے بجا طور پر جدید اردو نثر کا پہلا صحیفہ قرار دیا گیا ہے۔ اس داستان کی اشاعت کے بعد اردو نثر میں پہلی مرتبہ سلیس زبان اور آسان عبارت آرائی کا رواج ہوا اور آگے چل کر غالب کی نثر نے اسے کمال تک پہنچا دیا۔ اسی بنا پر مولوی عبدالحق کا کہنا ہے کہ اردو نثر کی ان چند کتابوں میں باغ و بہار کو شمار کیا جاتا ہے جو ہمیشہ زندہ رہنے والی ہیں اور شوق سے پڑھی جائیں گی۔ بقول سید محمد، "میر امن نے باغ و بہار میں ایسی سحر کاری کی ہے کہ جب تک اردو زبان زندہ ہے مقبول رہے گی اور اس کی قدر و قیمت میں مرورِ ایام کے ساتھ کوئی کمی نہ ہوگی۔" نیز سید وقار عظیم کے الفاظ میں "داستانوں میں جو قبول عام باغ و بہار کے حصے میں آیا ہے وہ اردو کی کسی اور داستان کو نصیب نہیں ہوا"۔
قرآن اور جدید سائنس یا اسلام اور سائنس، دراصل اسلام اور جدید سائنس کی آپس میں وابستگی، ربط اور موافقیت کو کہا جاتا ہے۔ اور مسلمانوں کا یہ دعویٰ ہے کہ اسلام اور جدید سائنس میں مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ اور قرآن مجید میں ایک ہزار سے زیادہ آیات سائنس کے متعلق گفتگو کرتی ہیں۔ قرآن میں موجود آیات کے متعلق حقائق جدید سائنس سے مکمل مطابقت رکھتے ہیں۔
خدیجہ بنت خویلد (پیدائش: 556ء– وفات: 30 اپریل 619ء) مکہ کی ایک معزز، مالدار، عالی نسب خاتون جن کا تعلق عرب کے قبیلے قریش سے تھا۔ جو حسن صورت و سیرت کے لحاظ سے "طاہرہ" کے لقب سے مشہور تھیں۔ انھوں نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تجارتی کاروبار میں شریک کیا اور کئی مرتبہ اپنا سامانِ تجارت دے کر بیرون ملک بھیجا۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تاجرانہ حکمت، دیانت، صداقت، محنت اور اعلیٰ اخلاق سے اتنی متاثر ہوئیں کہ آپ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو شادی کا پیغام بھجوایا۔ جس کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے بڑوں کے مشورے سے قبول فرمایا۔ اس وقت ان کی عمر چاليس سال تھی جبکہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم صرف پچیس سال کے تھے۔ خدیجہ نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور پہلی ام المومنین ہونے کی سعادت حاصل کی۔
منشی پریم چند اردو کا مشہور ناول نگار اور افسانہ نگار ہیں۔ ان کا اصلی نام دھنپت رائے ہے، لیکن ادبی دنیا میں پریم چند کے نام سے مشہور ہیں۔ وہ 1880ء میں منشی عجائب لال کے وہاں ضلع وارانسی مرٹھوا کے گاؤں لمہی میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ایک ڈاک خانے میں کلرک تھے۔ پریم چند ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ نے تقریباً سات آٹھ برس فارسی پڑھنے کے بعد انگریزی تعلیم شروع کی۔ پندرہ سال کی عمر میں شادی ہو گئی۔ ایک سال بعد والد کا انتقال ہو گیا۔ اس وقت آٹھویں جماعت میں پڑھتے تھے۔ پورے گھر بار کا بوجھ آپ پر ہی پڑ گیا۔ فکر معاش نے زیادہ پریشان کیا تو لڑکوں کو بطور ٹیوٹر پڑھانے لگے اور میٹرک پاس کرنے کے بعد محکمہ تعلیم میں ملازم ہو گئے۔ اسی دوران میں بی۔ اے کی ڈگری حاصل کی۔ منشی پریم چند کا ابتدائی سوانحی خاکہ منشی پریم چند جس کا اصل نام دحنپت رائے سریوستوا تھا 31 جولائی 1880 ء میں بنارس کے قریب گاؤں لامہا میں ، جہاں ان کا والد پوسٹ آفس میں ایک کلرک تھا ۔ پریم چند کے والدین نوجوان مر گئے-اس کی ماں جب وہ چودہ تھا اور اس کے والد اب بھی ایک طالب علم تھے. پریم چند اپنے سوتیلی ماں اور اس کے قدم بہن بھائیوں کے لئے ذمہ دار چھوڑ دیا گیا تھا. زندگی کے ابتدائی دور میں پریم چند نے بہت زیادہ غربت کا سامنا کیا ۔ انہوں نے ایک وکیل کے بچے کو ایک ماہ کے لیے پانچ روپے کمایا ۔ وہ پندرہ سال کی ابتدائی عمر میں شادی شدہ تھی لیکن اس کی شادی ناکام ہوگئی, بعد میں اس نے دوبارہ شادی کر لی, شاورانا دیوی کے لئے, ایک بالاوادہاوا (بچے بیوہ), اور کئی بچے تھے.
خلافت راشدہ کے خاتمے کے بعد عربوں کی قائم کردہ دو عظیم ترین سلطنتوں میں سے دوسری سلطنت خلافت عباسیہ ہے۔خاندان عباسیہ کے دو بھائیوں السفاح اور ابو جعفر المنصور نے خلافت قائم کی جس کا قیام 750ء (132ھ) میں عمل میں آیا اور 1258ء (656ھ) میں اس کا خاتمہ ہو گیا۔ یہ خلافت ایک تحریک کے ذریعے قائم ہوئی جو بنو امیہ کے خلاف تھی۔ تحریک نے ایک عرصے تک اپنے مقاصد کے حصول کے لیے جدوجہد کی اور بالآخر بنو امیہ کو شکست دینے کے بعد بر سر اقتدار آگئی۔
انشائیہ : انشائیہ کے لغوی معنی "عبارت" کے ہیں۔ انشائیہ نثری ادب کی وہ صنف ہے جو مضمون کی مانند لگتی ہے مگر مضمون سے الگ انداز رکھتی ہے۔ انشائیہ میں انشائیہ نگار آزادانہ طور پر اپنی تحریر پیش کرتاہے، جس میں اس کی شخصیت کا پہلو نظر آتا ہے۔ کسی خاص نتیجہ کے بغیر بات کو ختم کرتا ہے، یعنی نتیجہ کو قاری پر چھوڑ دیتا ہے۔ مشہور انشاء پروازوں میں محمد حسین آزاد، سرسید احمد خان، ابو الکلام آزاد، مرزا فرحت اللہ بیگ، پطرس بخاری، خواجہ حسن نظامی، رشید احمد صدیقی، ابن انشاء وغیرہ مشہور ہیں۔
علم بیان کی اصطلاح میں حقیقی اور مجازی معنوں کے درمیان تشبیہ کا علاقہ ہونا۔ یعنی حقیقی معنی کا لباس عاریۃَ َ لے کر مجازی معنوں کو پہنانا۔ مثلا نرگس کہہ کر آنکھ مراد لینا۔ استعارہ اور تشبیہ میں یہ فرق ہے کہ استعارہ تشبیہ سے زیادہ بلیغ ہوتا ہے۔ تشبیہ میں ایک چیز کو دوسری جیسا قرار دیا جاتا ہے جب ان میں کوئی صفت یا خوبی مشترک ہو لیکن استعارے میں ایک چیزکوہوبہودوسری چیزمان لیا جاتاہے۔ تشبیہ میں مشبہ اور مشبہ بہ دونوں کا ذکر کیاجاتا ہے جب کہ استعارہ میں مستعار لہ ( جسے تشبیہ میں مشبہ کہتے ہیں) نہیں لکھا جاتا صرف مستعار منہ ( جسے تشبیہ میں مشبہ بہ کہتے ہیں ) کا ذکر ہوتا ہے۔ گویا استعارہ میں صرف اس چیز کا ذکر ہوتا ہے جسکواستعارہ بنایا جائے جب کہ تشبیہ میں دونوں کا ذکر کیا جاتا ہے کبھی حرفِ تشبیہ کے ساتھ اور کبھی حرفِ تشبیہ کے بغیر۔
عربی لفظ جس سے مراد کسی قوم یا طبقے کی تہذیب ہے۔ علما نے اس کی یہ تعریف مقرر کی ہے، ’’ثقافت اکتسابی یا ارادی یا شعوری طرز عمل کا نام ہے‘‘۔ اکتسابی طرز عمل میں ہماری وہ تمام عادات، افعال، خیالات اور رسوم اور اقدار شامل ہیں جن کو ہم ایک منظم معاشرے یا خاندان کے رکن کی حیثیت سے عزیز رکھتے ہیں یا ان پرعمل کرتے ہیں یا ان پر عمل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ تاہم ثقافت یا کلچر کی کوئی جامع و مانع تعریف آج تک نہیں ہو سکی۔
رموز اوقاف (انگریزی: Punctuation) وہ علامتیں اور نشانیاں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ عبارت میں کس جگہ اور کس طرح وقف کرنا ہے۔ رموز، رمز کی جمع ہے جس کا مطلب ہے علامت یا اشارہ جبکہ اوقاف، وقف کی جمع ہے جس کے معنی ٹھہرنے یا رکنے کے ہیں، یعنی رموز اقاف یا علامات وقف اُن اشاروں یا علامتوں کو کہتے ہیں جو کسی عبارت کے ایک جملے کے ایک حصے کو اس کے باقی حصوں سے علاحدہ کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ اردو، انگریزی یا دوسری زبانوں کے قواعد میں ان اوقاف اور علامات کو بہت اہمیت حاصل ہے اگر ان کا خیال نہ رکھا جائے تو مفہوم کچھ سے کچھ بلکہ بعض اوقات تو اس کے بالکل اُلٹ ہو جاتا ہے جہاں ٹھہرنا یا وقفہ کرنا ہو ان کے لیے اردو میں درج ذیل رموز اوقاف استعمال ہوتے ہیں۔ ختمہ (۔)، سوالیہ (؟)، سکتہ (،) تفصیلہ (:_)، قوسین () واوین (” “) ندائیہ یا فجائیہ (!) علامت شعر(؎) علامت مصرع (؏) علامت وغیرہ۔
'مرزا اسد اللہ خان غالب' کی شخصیت کو کون نہیں جانتا۔ ہمارے ملک میں تو یہ عالم ہے کہ اگر کسی کو تھوڑی بہت اردو کی سوجھ بوجھ ہے تو غالب کے نام کو تو ضرور جانتا ہوگا۔ بحیثیتِ شاعر وہ اتنے مقبول ہیں کہ اُن کے اشعار زبان زدِ خلائق ہیں۔ اور بحیثیتِ نثر نگار بھی وہ کسی سے کم نہیں۔ بلکہ اس لحاظ سے ان کا پایہ سب سے بلند ہے کہ ایسے زمانے میں جب رنگینی و قافیہ پیمائی، انشا پردازی کا اصل سرمایہ سمجھی جاتی تھی ، انہوں نے نثر میں بھی ایک نئی راہ نکالی ۔ سادہ و پرکار، حسین و رنگین۔ یہی نمونۂ نثر آنے والوں کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوئے۔
امام محمد بن ادریس شافعی (پیدائش: 28 اگست 767ء— وفات: 30 رجب 204ھ/19 جنوری 820ء) جو امام شافعی کے لقب سے معروف ہیں، سنی فقہی مذہب شافعی کے بانی ہیں۔ ان کے فقہی پیروکاروں کو شافعی (جمع شوافع) کہتے ہیں۔ امام شافعی کا عرصہ حیات مسلم دنیا کے عروج کا دور یعنی اسلامی عہد زریں ہے۔ خلافت عباسیہ کے زمانہ عروج میں بغداد میں مسلک شافعی کا بول بالا اور بعد ازاں مصر سے عام ہوا۔ مذہب شافعی کے پیروکار زیادہ تر مشرقی مصر، صومالیہ، ارتریا، ایتھوپیا، جبوتی، سواحلی ساحل، یمن، مشرق وسطیٰ کے کرد علاقوں میں، داغستان، فلسطین، لبنان، چیچنیا، قفقاز، انڈونیشیا، ملائیشیا، سری لنکا کے کچھ ساحلی علاقوں میں، مالدیپ، سنگاپور، بھارت کے مسلم علاقوں، میانمار، تھائی لینڈ، برونائی اور فلپائن میں پائے جاتے ہیں۔
فعل (انگریزی: Verb) وہ کلمہ جس کے معانی میں کسی کام کا کرنا یا ہونا پایا جائے اور جس میں تینوں زمانوں ماضی، حال، مستقبل میں سے کوئی ایک زمانہ موجود ہو۔ فعل کی زمانے کے لحاظ سے تین اقسام ہیں۔ فعل ماضی وہ فعل جس میں کسی کام کا کرنا، ہونا یا سہنا گزرے ہوئے زمانے میں پایا جائے۔ فعل حال وہ فعل جس میں کسی کام کا کرنا، ہونا یا سہنا موجودہ زمانے میں پایا جائے۔ فعل مستقبل ایسا فعل جس میں کسی کام کا کرنا، ہونا یا سہنا آنے والے زمانے میں پایا جائے۔
اردو میں اخبار ایسی اشاعت کو کہتے ہیں جس میں خبریں چھپتی ہیں۔ اس میں سیاست، فن، تہذیب، کھیل، سماج، تجارت وغیرہ شعبوں کی خبریں شائع ہوتی ہیں۔ اصطلاحاً کسی واقعے کا براہ راست، بے لاگ اور صحیح بیان جس میں بہت سے افراد کو دلچسپی ہو۔ صحیح خبر ایسے واقعہ کا بیان ہے جس میں کوئی تبصرہ نہ ہو کوئی الزام نہ لگایا گیا ہو، کسی ذاتی رائے کا اظہار نہ کیا گیا ہو۔ کوئی حقیقت مسخ نہ کی گئی ہو اور اپنی جانب سے کسی بات کا اضافہ نہ کیا گیا ہو۔ خبر میں تازگی، قرب زماں و مکاں اور وسعت ہونی ضروری ہے۔ طرز تحریر موثر اور دل نشین ہونا چاہیے۔ بعض خبریں مقامی اہمیت کی ہوتی ہیں اور بعض عالمی امن و امان پر اثرانداز ہوتی ہیں جن سے ہر ملک کے عوام کو دلچسپی ہوتی ہے بعض اوقات چھوٹی سی جگہ پر انوکھا یا دلچسپ واقعہ پیش آ جاتا ہے جو لوگوں کی دلچسپی کا موجب بن جاتا ہے۔ خبر کی اہمیت کا تعلق متعدد چیزوں سے ہوتا ہے جن میں خبر کا فوری پن یا تازگی قربت مکانی اثرات یا نتیجہ تعدد حیثیت عرفی تنازع مقدار یا تعداد انوکھا پنشامل ہیں۔ کسی قانون کا نفاذ یا حکومت کا کوئی اعلان عوام پر اثر نداز ہوتا ہو تو یہ بڑی خبر ہے۔ راز بھی خبر کا ایک اہم عنصر ہے۔ بڑے لوگوں کی زندگی یا کردار کے چھپے ہوئے گوشوں میں جھانکنے کا شوق شدید ہوتا ہے۔ کسی معمولی حیثیت کے آدمی کا بڑا کارنامہ یا بڑے آدمی کی چھوٹی سی بات بھی خبر بن سکتی ہے۔ واقعہ، مشاہدہ اور واقعہ نگاری خبر کے عناصر ترکیبی ہیں۔ لیکن صحافی کو قاری کے رجحانات، اپنے اخبار کی پالیسی اور بعض اخلاقی اصولوں کا بھی پاس رکھنا ہوتا ہے۔ اخبارات خبریں بین الاقوامی اور ملکی خبررساں ایجینسیوں کے علاوہ اپنے نامہ نگاروں اور خاص نمائندوں سے بھی حاصل کرتے ہیں۔ ہر اخبار کے سٹاف رپورٹر عام تقاریب سے متعلق خبروں کے علاوہ تلاش اور کوشش سے خصوصی خبریں فراہم کرتے ہیں۔
فورٹ ولیم کالج کا قیام اردو ادب کی تاریخ میں ایک اہم واقعہ ہے۔ اردو نثر کی تاریخ میں خصوصاً یہ کالج سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگرچہ کالج انگریزوں کی سیاسی مصلحتوں کے تحت عمل میں آیا تھا۔ تاہم اس کالج نے اردو زبان کے نثری ادب کی ترقی کے لیے نئی راہیں کھول دیں تھیں۔ سر زمین پاک و ہند میں فورٹ ولیم کالج مغربی طرز کا پہلا تعلیمی ادارہ تھا جو لارڈ ولزلی کے حکم پر 1800ءمیں قائم کیا گیاتھا۔
چارمینار ، جو 1591 میں تعمیر کیا گیا تھا ، ایک یادگار اور مسجد ہے جو ہندوستان کی ریاست تلنگانہ میں حیدرآباد میں واقع ہے۔ تاریخی نشان عالمی سطح پر حیدرآباد کی علامت کے طور پر جانا جاتا ہے اور یہ ہندوستان کے سب سے زیادہ تسلیم شدہ ڈھانچے میں شامل ہے۔ اس کو سرکاری طور پر تلنگانہ ریاست کے لئے تلنگانہ کا نشان کے طور پر بھی شامل کیا گیا ہے۔ چارمینار کی لمبی تاریخ میں 400 سال سے زیادہ عرصے سے اس کی اونچی منزل پر ایک مسجد کا وجود شامل ہے۔ اگرچہ یہ تاریخی اور مذہبی لحاظ سے دونوں اہم ہیں ، یہ اس ڈھانچے کے آس پاس کی مشہور اور مصروف مقامی مارکیٹوں کے لئے بھی جانا جاتا ہے ، اور یہ حیدرآباد میں اکثر سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔ چارمینار جیسے متعدد تہوار کی تقریبات، عید الاضحی اور عید الفطر کی ایک جگہ ہے۔چارمینار موسی ندی کے مشرقی کنارے پر واقع ہے۔ مغرب میں لاڈ بازار ہے ، اور جنوب مغرب میں گرینائٹ مکہ مکرمہ کے زیور واقع ہے۔ ہندوستان کے آثار قدیمہ کے سروے آف انڈیا کے تیار کردہ سرکاری "یادگاروں کی فہرست" میں اسے آثار قدیمہ اور تعمیراتی خزانے کے طور پر درج کیا گیا ہے ۔ انگریزی نام کا ایک ترجمہ اور مجموعہ ہے اردو الفاظ حروف اور مینار یا منار، "چار ستون" میں ترجمہ؛ مترادف ٹاورز زیور مینار سے منسلک ہیں اور چار عظیم محرابوں کے ذریعہ اس کی تائید کرتی ہیں۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مدینہ ہجرت کے بعد یہاں کی آبادی (خصوصاً یہود) کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جو میثاق مدینہ کے نام سے موسوم ہے۔ یہ پہلا بین الاقوامی تحریری معاہدہ ہے۔ بعض مورخین میگنا کارٹا کو پہلا بین الاقوامی معاہدہ قرار دیتے ہیں حالانکہ میثاق مدینہ 622ء میں ہوا جبکہ میگنا کارٹا 600 سالوں بعد 1215ء میں انگلستان کے شاہ جان اول کے زمانے میں ہوا۔
محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصال کے بعد ابوبکر صدیق، عمر فاروق، عثمان غنی اور علی المرتضی، حسن المجتبی کا عہد خلافت خلافت راشدہ کہلاتا ہے۔ اس عہد کی مجموعی مدت تیس سال ہے جس میں ابوبکر صدیق اولین اور علی آخری خلیفہ ہیں، حسن کی خلافت کے چھ ماہ خلافت علی میں شمار ہوتے ہیں جیسا کہ جمہور اسلاف کی رائے ہے۔ اس عہد کی نمایاں ترین خصوصیت یہ تھی کہ یہ قرآن و سنت کی بنیاد پر قائم نظام حکومت تھا۔
مثنوی کا لفظ، عربی کے لفظ ”مثنیٰ “ سے بنا ہے اور مثنیٰ کے معنی دو کے ہیں۔ اصطلاح میں ہیت کے لحاظ سے ایسی صنفِ سخن اور مسلسل نظم کو کہتے ہیں جس کے شعر میں دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوں اور ہر دوسرے شعر میں قافیہ بدل جائے، لیکن ساری مثنوی ایک ہی بحر میں ہو۔ مثنوی میں عموماً لمبے لمبے قصے بیان کیے جاتے ہیں نثر میں جو کام ایک ناول سے لیا جاتا ہے، شاعری میں وہی کام مثنوی سے لیا جاتا ہے، یعنی دونوں ہی میں کہانی بیان کرتے ہیں۔ مثنوی ایک وسیع صنفِ سخن ہے اور تاریخی، اخلاقی اور مذہبی موضوعات پر کئی ایک خوبصورت مثنویاں کہی گئی ہیں۔ مثنوی عموماً چھوٹی بحروں میں کہی جاتی ہے اور اس کے لیے چند بحریں مخصوص بھی ہیں اور شعرا عموماً اس کی پاسداری کرتے ہیں لیکن مثنوی میں شعروں کی تعداد پر کوئی پابندی نہیں ہے، کچھ مثنویاں تو کئی کئی ہزار اشعار پر مشتمل ہیں۔
اسم مصدر اسم کی ایک قسم ہے۔ اسم مصدر ایسا اسم ہوتا ہے جو خود تو کسی اسم سے نہیں بنتا لیکن اس سے مقررہ قاعدوں کے مطابق کئی الفاظ بنائے جا سکتے ہوں مثلا پڑھنا سے پڑھو، دیکھنا سے دیکھو، بڑھانا سے بڑھائو، بنانا سے بناوٹ، سونگھنا سے سونگھو وغیرہ اسم مصدر کی بلحاظ بناوٹ درج ذیل اقسام ہیں۔ مصدر اصلی یا مصدر وضعی، مصدر جعلی یا مصدر مرکب اسی طرح مصدر کی بلحاظ معنی درج ذیل اقسام ہیں۔ مصدر لازم، مصدر متعدی۔