اردو ویکیپیڈیا کے سب سے زیادہ ملاحظہ کردہ مضامین کی فہرست۔ مزید معلومات کے لیے ۔ ۔ ۔
مولانا سید محمد ولی رحمانی ایک ہندوستانی سنی دیوبندی اسلامی اسکالر اور ماہر تعلیم تھےـ انہوں نے 1974 سے 1996 تک بہار قانون ساز کونسل کے ارکان کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ وہ اپنے والد ماجد حضرت مولانا منت اللہ رحمانی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات 1991 کے بعد سے خانقاہ رحمانی مونگیر کے موجودہ سجادہ نشین اور جامعہ رحمانی مونگیر کے سرپرست ہیں ، آپ کے دادا مولانا محمد علی مونگیری بانی ندوۃ العلماء ہیں۔ اس خانقاہ کے روحانی سلسلہ میں شاہ فضل الرحمن گنج مرادآبادی بہت ہی اہم کڑی ہیں۔ وہ اس وقت آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے جنرل سکریٹری کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ وہ رحمانی 30 کے بانی بھی ہیں ، وہ پلیٹ فارم جہاں عصری تعلیم کے متعدد شعبوں میں معیاری اعلی تعلیم و قومی مقابلاجاتی امتحانات کے لیے طلبہ کو تیار کیا جاتا ہے ۔ اس ادارے سے ہر سال NEET اور JEE میں 100 سے زائد طلبہ منتخب ہوتے ہیں۔ حضرت مولانا سید ولی رحمانی عوامی تقریر ، اپنی شخصیت و ملی مسائل میں جرأت صاف گویئ و بےباکی اور دونوں ہی شعبوں میں تعلیم کے لیے مشہور ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ کسی کو ایک وقت میں دونوں طرح کی تعلیم حاصل کرنی چاہیے اور کسی بھی چیز سے پہلے انسان کو انسان ہی ہونا چاہیے۔ شاہ عمران حسن نے مولانا ولی رحمانی کی سوانح عمری حیات ولی (حیات ولی) لکھا ہے.
ابو بکر صدیق عبد اللہ بن ابو قحافہ تیمی قریشی (پیدائش: 573ء— وفات: 22 اگست 634ء) پہلے خلیفہ راشد، عشرہ مبشرہ میں شامل، پیغمبر اسلام کے وزیر، صحابی و خسر اور ہجرت مدینہ کے وقت رفیق سفر تھے۔ اہل سنت و الجماعت کے یہاں ابو بکر صدیق انبیا اور رسولوں کے بعد انسانوں میں سب سے بہتر، صحابہ میں ایمان و زہد کے لحاظ سے سب سے برتر اور ام المومنین عائشہ بنت ابی بکر کے بعد پیغمبر اسلام کے محبوب تر تھے۔ عموماً ان کی کنیت "ابو بکر" کے ساتھ صدیق کا لقب لگایا جاتا جسے ابو بکر صدیق کی تصدیق و تائید کی بنا پر پیغمبر اسلام نے دیا تھا۔
ندوۃ العلماء 1894ء میں قائم ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ مولوی عبد الغفور صاحب اس خیال کے محرک تھے، لیکن بعد میں مولانا محمد علی مونگیری نے اس کو عملی جامہ پہنایا۔ موج کوثر کے مصنف محمد اکرم (شیخ) کے مطابق مولانا شبلی اور مولوی عبد الحق دہلوی نے اس ادارے کے قواعد مرتب کیے، علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ اس اولین فضلاء میں سے ہیں۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان جنوبی ایشیا کے شمال مغرب وسطی ایشیا اور مغربی ایشیا کے لیے دفاعی طور پر اہم حصے میں واقع ایک خود مختار اسلامی ملک ہے۔ 21 کروڑ کی آبادی کے ساتھ یہ دنیا کا پانچواں بڑی آبادی والا ملک ہے۔ 881,913 مربع کلومیٹر (340,509 مربع میل) کے ساتھ یہ دنیا کا تینتیسواں بڑے رقبے والا ملک ہے۔ اس کے جنوب میں 1046 کلومیٹر (650 میل) کی ساحلی پٹی ہے جو بحیرہ عرب سے ملتی ہے۔پاکستان کے مشرق ميں بھارت، شمال مشرق ميں چین اور مغرب ميں افغانستان اور ايران واقع ہيں۔ پاکستان کو شمال میں ایک تنگ واخان راہداری تاجکستان سے جدا کرتی ہے جبکہ اس ملک کی سمندری سرحدی حدود عمان کے سمندری حدود سے بھی ملتی ہیں۔ موجودہ پاکستان کے علاقے قدیم ترین دنیا میں وہ علاقے تھے جن میں موہنجوداڑو اور انڈس سولائیزیشن مہر گڑھ ٹیکسلا پراچین سنسکرت دور اور دیگر زیرتحقیق آرک لوجیکل سائٹسٹ جیسے قندھارا تہذیب و تمدن تھی۔ اس علاقے پر پراچین راجپوت ایرانی یونانیعرب،بدھ مت، سکھ، مغل، ہن سفید اور ترک حملہ آوروں کی حکومت بھی رہی ہے۔ یہ علاقہ مختلف سلطنتوں جیسے چندر گپت موریا، ہخامنشی سلطنت عربوں کی خلافت امویہ، مغول سلطنت، مغلیہ سلطنت، درانی سلطنت، سکھ سلطنت اور برطانوی راج کا اہم حصہ رہا ہے۔ اس کے بعد محمد علی جناح کی قیادت میں تحریک پاکستان کامیاب ہوئی اور 14 اگست 1947ء کو ہندوستان کے مشرق اور مغرب میں دو حصوں میں ایک آزاد اور خودمختار اسلامی ریاست قائم ہوئی۔ پاکستان نے 1956ء میں اپنا پہلا قانون اپنایا۔ 1971ء میں ایک خانہ جنگی کے دوران میں اس کا مشرقی حصہ الگ ہو کر ایک نیا ملک بنگلہ دیش بن گیا۔ پاکستان وفاقی پارلیمانی جمہوری ریاست کے تحت چلتا ہے۔ اس کے چار صوبے اور کچھ وفاقی حکومت کے زیر انتظام علاقے ہیں۔ یہ ملک لسانی اور قومی طور پر مختلف اقوام کا علاقہ ہے اور اس کا جغرافیہ بھی ہر طرح کے خطے پر مشتمل ہے۔ پاکستان دنیا کا ایک اہم طاقتور ملک ہے، جیسا کہ اس کی فوج دنیا کی چھویں بڑی فوج ہے اور یہ اسلامی دنیا کی واحد اور جنوبی ایشیا کی دوسری ایٹمی طاقت ہے۔ اس کی معیشت دنیا میں 27 ویں نمبر پر ہے۔ پاکستان کی تاریخ فوجی آمریت، سیاسی عدم استحکام اور پڑوسی ملک سےجھگڑوں پر مشتمل ہے۔ یہ ملک مؤتمر عالم اسلامی، اقوام متحدہ، دولت مشترکہ ممالک، سارک، ترقی پذیر 8، اقتصادی تعاون تنظیم جیسی تنظیموں کا اہم رکن ہے۔ ان سرزمین اور ممالک کے ناموں میں، جس میں لاحقہ "ستان" شامل ہے، پاکستان کا لفظ سب سے نیا ہے اور کردستان سب سے پرانا نام ہے۔ پاکستان کے مطلب پاک نفسوں کی سرزمین ہے.
ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال (ولادت: 9 نومبر 1877ء - وفات: 21 اپریل 1938ء) بیسویں صدی کے ایک معروف شاعر، مصنف، قانون دان، سیاستدان اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھے۔ اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے اور یہی ان کی بنیادی وجہ شہرت ہے۔ شاعری میں بنیادی رجحان تصوف اور احیائے امت اسلام کی طرف تھا۔ "دا ریکنسٹرکشن آف ریلیجس تھاٹ ان اسلام" کے نام سے انگریزی میں ایک نثری کتاب بھی تحریر کی۔ علامہ اقبال کو دور جدید کا صوفی سمجھا جاتا ہے۔[حوالہ درکار] بحیثیت سیاست دان ان کا سب سے نمایاں کارنامہ نظریۂ پاکستان کی تشکیل ہے، جو انہوں نے 1930ء میں الہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پیش کیا تھا۔ یہی نظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا۔ اسی وجہ سے علامہ اقبال کو پاکستان کا نظریاتی باپ سمجھا جاتا ہے۔ گو کہ انہوں نے اس نئے ملک کے قیام کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن انہیں پاکستان کے قومی شاعر کی حیثیت حاصل ہے۔
ابو القاسم محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب (12 ربیع الاول عام الفیل / 8 جون 570ء یا 571ء – 12 ربیع الاول 10ھ / 8 جون 632ء) مسلمانوں کے آخری نبی ہیں۔ اہل اسلام کے نزدیک محمد تمام مذاہب کے پیشواؤں سے کامیاب ترین پیشوا تھے۔ آپ کی کنیت ابوالقاسم تھی۔ مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ کی طرف سے انسانیت کی جانب بھیجے جانے والے انبیا اکرام کے سلسلے کے آخری نبی ہیں جن کو اللہ نے اپنے دین کی درست شکل انسانوں کی جانب آخری بار پہنچانے کیلئے دنیا میں بھیجا۔ انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دنیا کی تمام مذہبی شخصیات میں سب سے کامیاب شخصیت تھے۔
واحد کا مفہوم (انگریزی: Meaning of Singular) ایک شخص یا ایک چیز کو واحد کہا جاتا ہے۔ یا واحد وہ اسم ہوتا ہے جو ایک شخص یا چیز کو ظاہر کرے۔ مثلاﹰ کتاب، لڑکا، مسجد، استاد، فوج، بلی، شجر، میز، کرسی، وغیرہ۔ جبکہ جمع ایک سے زیادہ شخصوں یا چیزوں کو جمع کہتے ہیں۔ یا جمع وہ اسم ہوتا ہے جو ایک سے زیادہ اشخاص ا اسماء کو ظاہر کرے۔ مثلاً کُتب، لڑکے، مساجد، اساتذہ، افواج، بلیاں، اشجار، میزیں، کرسیاں وغیرہ
متضاد مخالف؛ اُلٹ؛ اُلٹی طرف؛ دوسری جانب؛ ضِد؛ مُقابل؛ بِالمقابل؛ متقابل؛ متضاد؛ ایک لفظ جو مفہوم کے لحاظ سے دوسرے کی ضد ہو؛ متضاد المعنی۔ ایسے الفاظ جو مماثل وضع میں لیکن ایک دوسرے کے مخالف، برعکس یا یکسر مختلف ہوں۔ اسے 'بائنری' تعلق سے تعبیر کیا جاتا ہے کیوں کہ متضاد جوڑوں میں دو رکن ہوتے ہیں۔ باہم مخالف تعلق کو متضاد کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ایک جوڑے میں مخالف لفظ کو عام طور پر اس سوال کے ذریعہ طے کیا جا سکتا ہے کہ الف کے برعکس کیا ہے؟ جیسے:
اِیسٹر، یا عید قیامت یا جی اٹھنے کا اتوار مسیحیوں کا سب سے بڑا تہوار جو یسوع مسیح کے زندہ ہونے کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ مدتوں اس کی تاریخ انعقاد میں اختلاف رہا۔ 325ء میں رومی بادشاہ، قسطنطین اول نے ایشائے کوچک (ترکی) کے مقام پر ازنک میں مسیحی علما کی ایک کونسل بلائی جسے نائسیا کی پہلی کونسل کہتے ہیں۔ لیکن یہ کونسل بھی، مشرقی اور مغربی کیلنڈروں میں اختلاف کے باعث کوئی متفقہ تاریخ مقرر نہ کر سکی۔ مشرقی راسخُ الاعتقاد کلیسیا ایسٹر کی تاریخ کا تعین جولین کیلنڈر سے کرتا ہے۔ اس کی تاریخ 22 مارچ اور 25 اپریل کے درمیان ہوتی ہے یعنی موسمِ بہار کے اُس دن کے بعد جب رات اور دن برابر ہوتے ہیں (21 مارچ)۔ اس کی تاریخ کو معلوم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ 21 مارچ یا اس کے بعد جس تاریخ کو پُورا چاند ہو، اُس کے بعد پہلا اتوار ایسٹر ہوگا۔
لعل شہباز قلندر (1177ء تا 1274ء) جن کا اصل نام سید عثمان مروندی تھا، سندھ میں مدفون ایک مشہور صوفی بزرگ تھے۔ ان کا مزار سندھ کے علاقے سیہون شریف میں ہے۔ وہ ایک مشہور صوفی بزرگ، شاعر، الٰہیات دان، فلسفی اور قلندر تھے۔ ان کا زمانہ اولیائے کرام کا زمانہ مشہور ہے۔ مشہور بزرگ شیخ بہاؤ الدین زکریا ملتانی، شیخ فرید الدین گنج شکر، شمس تبریزی،مخدوم عبدالرشید حقانی، جلال الدین رومی اور سید جلال الدین سرخ بخاری، مخدوم صدر الدین قتال، صدر الدین عارف (فرزند بہاؤ الدین زکریا)، شیخ بو علی قلندر پانی پتی ان کے قریباً ہم عصر تھے۔ ہندوﺅں اور مسلمانوں میں مذہبی رواداری کی تبلیغ کی بنا پر لعل شہباز قلندر تمام مذاہب کے پیروکاروں میں یکساں محترم تصور کیے جاتے ہیں۔ چونکہ ان کا خرقہ تابدار یاقوتی رنگ کا ہوا کرتا تھا اس لیے انہیں "لعل"، ان کی خدا پرستی اور شرافت کی بنا پر "شہباز" اور قلندرانہ مزاج و انداز کی بنا پر "قلندر" کہا جانے لگا۔ برصغیر کے تمام ممالک بھارت، پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش میں انتہائی مشہور صوفی گیت دما دم مست قلندر میں لعل شہباز قلندر ہی کی تعلیمات کو پیش کیا گیا ہے۔ اصلاً یہ گیت تیرہویں صدی عیسوی میں لکھا گیا تھا اور اس کے بعد سے اسے بہت سے موسیقاروں اور گلوکاروں نے گایا اور ہر دور میں یہ انتہائی مقبول رہا۔
اللہ کے ذاتی نام 'اللہ' کے علاوہ اللہ کے ننانوے صفاتی نام مشہور ہیں۔ انہیں کہا جاتا ہے۔ ان میں سے بیشتر قرآن میں موجود ہیں اگرچہ قرآن میں ننانوے کی تعداد مذکور نہیں مگر یہ ارشاد ہے کہ اللہ کو اچھے اچھے ناموں سے پکارا جائے۔ روایات میں بکثرت نیچے دیے گئے ننانوے صفاتی نام ملتے ہیں جن کے ساتھ ان کا اردو ترجمہ بھی درج کیا جا رہا ہے۔
ابو عبد اللہ احمد بن محمد بن حنبل شیبانی ذہلی (پیدائش: نومبر 780ء— وفات: 2 اگست 855ء) فقیہ، محدث، اہل سنت کے ائمہ اربعہ میں سے ایک مجتہد اور فقہ حنبلی کے مؤسس تھے۔ امام احمد بن حنبل کی پوری زندگی سنتِ رسول سے عبارت ہے، وہ در حقیقت امام فی الحدیث، امام فی الفقہ، امام فی القرآن، امام فی الفقر، امام فی الزہد، امام فی الورع اور امام فی السنت کے عالی مقام پر فائز رہے۔وہ اپنے عہد کے سب سے بڑے عالم حدیث، مجتہد تھے۔ سنت نبوی سے عملی و علمی لگاؤ تھا، اس لیے امت سے امام اہل السنت و الجماعت کا لقب پایا۔ زہد و استغناء ایسا مثالی تھا کہ جذبۂ جہاد سے ہر وقت معمور رہتے۔ ان کے والد فوج کے ایک سپاہی تھے، جو جوانی میں ہی انتقال کر گئے۔ اس وقت ان کی عمر دو برس کی تھی۔ اُن کی والدہ نے تربیت و تعلیم کی ذمہ داری نبھائی اور ابتدائی تعلیم بغداد میں ہی دلائی۔ امام احمد بن حنبل امام شافعی کے شاگرد تھے۔ اپنے زمانہ کے مشہور علمائے حدیث میں آپ کا شمار ہوتا تھا۔ انہوں نے مسند کے نام سے حدیث کی کتاب تالیف کی، جس میں تقریباً چالیس ہزار احادیث شامل ہیں۔ امام شافعی کی طرح امام احمد بن حنبل کی مالی حالت بھی کمزور تھی۔ لوگ انہیں بے شمار تحائف اور ہدیہ پیش کرتے، لیکن آپ سب کچھ بانٹ دیتے اور اس میں سے کچھ بھی اپنے اوپر صرف نہ کرتے۔امام احمد نوجوان ہی تھے، مگر اپنے زمانہ میں امام المحدثین خیال کیے جاتے تھے اور مشائخ کے حلقے میں بہت ہی عزت و احترام سے دیکھے جاتے تھے۔ امام احمد نے درس دینا شروع کیا مگر واثق کی خلافت کے زمانے میں مجبوراً انہوں نے درس بند کر دیا۔
مولانا سید منت اللہ رحمانی (7 اپریل 1913۔ 19 مارچ 1991) ایک بھارتی سنی دیوبندی عالمِ دین اور ملی رہنما تھے وحدتِ امت کے بڑے داعی اور اختلاف رائے میں اعتدال کے نقیب تھے۔ آپ مسلم پرسنل لا بورڈ کے فاؤنڈر امارت شرعیہ بہار اڑیسہ و جھار کھنڈ کے چوتھے امیر شریعت و مسلم پرسنل لا بورڈ کے پہلے جنرل سیکریٹریری اور انچاس سال تک خانقاہ رحمانی مونگیر کے سجادہ نشیں اور جامعہ رحمانی مونگیر کے سرپرست رہے در اصل مولانا رحمانی ہی اس جامعہ کے بانی ثانی ہیں۔
اردو زبان کی ابتدا کے متعلق نظریات
اردو کی ابتدا و آغاز کے بارے میں کئی مختلف نظریات ملتے ہیں یہ آپس میں اس حد تک متضاد ہیں کہ ایک انسان چکرا کر رہ جاتا ہے۔ ان مشہور نظریات میں ایک بات مشترک ہے کہ ان میں اردو کی ابتدا کی بنیاد برصغیر پاک و ہند میں مسلمان فاتحین کی آمد پر رکھی گئی ہے۔ اور بنیادی استدلال یہ ہے کہ اردو زبان کا آغاز مسلمان فاتحین کی ہند میں آمد اور مقامی لوگوں سے میل جول اور مقامی زبان پر اثرات و تاثر سے ہوا۔ اور ایک نئی زبان معرض وجود میں آئی جو بعد میں اردو کہلائی۔ کچھ ماہرین لسانیات نے اردو کی ابتدا کا سراغ قدیم آریائوں کے زمانے میں لگانے کی کوشش کی ہے۔ بہر طور اردو زبان کی ابتدا کے بارے میں کوئی حتمی بات کہنا ذرا مشکل ہے۔ اردو زبان کے محققین اگرچہ اس بات پر متفق ہیں کہ اردو کی ابتدا مسلمانوں کی آمد کے بعد ہوئی لیکن مقام اور نوعیت کے تعین اور نتائج کے استخراج میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس انداز سے اگر اردو کے متعلق نظریات کو دیکھا جائے تو وہ نمایاں طور پر چار مختلف نظریات کی شکل میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔
ببر شیر (Panthera Leo، پینتھرا لیو) جنس پینتھرا میں موجود پانچ بڑی بلیوں میں شامل خاندان گربہ کا رکن ہے۔ افریقی شیروں کی عام مستعمل اصطلاح سے مراد افریقہ کی ذیلی ببرشیروں کی انواع (species) ہیں۔ بعض شیروں کا وزن ڈھائی سو کلو گرام سے بھی زیادہ ہو سکتا ہے اور اس لحاظ سے یہ شیرکے بعد دوسری بڑی بلی ہے۔ جنگلی ببر شیر افریقا کے نیم صحارا علاقوں اور ایشیا (جو بھارتی گیر فورسٹ نیشنل پارک میں پائی جاتی ہے اور اس علاقے میں یہ معدومی کے خطرے سے دوچار ہے) جبکہ ببر شیروں کی دیگر انواع شمالی افریقہ اور جنوب مغربی ایشیا سے بہت پہلے غائب ہوچکی ہیں۔ آج سے دس ہزار سال قبل پیلسٹوسین ادوار کے اواخر میں ببر شیر ہی انسان کے بعد سب سے زیادہ خشکی کے رقبے پر پھیلا ہوا ممالیہ تھا۔ اس زمانے میں یہ تقریباً تمام افریقا، تمام یوریشیا مغربی یورپ سے ہندوستان اور امریکا میں يوكون سے پیرو تک پایا جاتا تھا۔ببر شیر معدومی کے خطرے سے دوچار جانور ہے، اور افریقی خطے میں بیسویں صدی کے دوسرے حصے میں اس کی آبادی میں 30 سے 50 فیصد کی کمی دیکھنے میں آئی۔شیروں کی آبادی قومی پارکوں اور غیر محفوظ علاقوں میں غیر مستحکم ثابت ہوتی ہے۔اگرچہ اس کے معدوم ہونے کی وجوہات مکمل طور پرسمجھی نہیں جاسکیں لیکن مسکن سے محروم ہونا اور انسان سے سامنا ہونا جیسے امور عہد حاضر میں خطرے کی اہم وجوہات میں سے ہیں۔ افریقہ میں مغربی افریقی ببر شیروں کی آبادی معدومی کے خطرے سے دوچار ہے۔
ابو حفص عمر بن خطاب عدوی قرشی ملقب بہ فاروق (پیدائش: 586ء تا 590ء کے درمیان مکہ میں- وفات: 6 نومبر، 644ء مدینہ میں) ابو بکر صدیق کے بعد مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ راشد، محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خسر اور تاریخ اسلام کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک ہیں۔ عمر بن خطاب عشرہ مبشرہ میں سے ہیں، ان کا شمار علما و زاہدین صحابہ میں ہوتا تھا۔ ابو بکر صدیق کی وفات کے بعد 23 اگست سنہ 634ء مطابق 22 جمادی الثانی سنہ 13ھ کو مسند خلافت سنبھالی۔ عمر بن خطاب ایک باعظمت، انصاف پسند اور عادل حکمران مشہور ہیں، ان کی عدالت میں مسلم و غیر مسلم دونوں کو یکساں انصاف ملا کرتا تھا، عمر بن خطاب کا یہ عدل و انصاف انتہائی مشہور ہوا اور ان کے لقب فاروق کی دیگر وجوہ تسمیہ میں ایک وجہ یہ بھی بنی۔
قرآن، قرآن مجید یا قرآن شریف (عربی: القرآن الكريم) دین اسلام کی مقدس و مرکزی کتاب ہے جس کے متعلق اسلام کے پیروکاروں کا اعتقاد ہے کہ وہ کلام الہی ہے اور اسی بنا پر یہ انتہائی محترم و قابل عظمت کتاب ہے۔ اسے پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی کے ذریعے اتارا گیا۔ یہ وحی اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتے حضرت جبرائیل علیہ السلام لاتے تھے جیسے جیسے قرآن مجید کی آیات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوتیں آپ صلی علیہ وآلہ وسلم اسے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو سنا اور ان آیات کے مطالب و معانی سمجھا دیتے۔ کچھ صحابہ کرام تو ان آیات کو وہیں یاد کر لیتے اور کچھ لکھ کر محفوظ کر لیتے۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن ہر قسم کی تحریف سے پاک سے محفوظ ہے، قرآن میں آج تک کوئی کمی بیشی نہیں ہو سکی اور اسے دنیا کی واحد محفوظ کتاب ہونے کی حیثیت حاصل ہے، جس کا حقیقی مفہوم تبدیل نہیں ہو سکا اور تمام دنیا میں کروڑوں کی تعداد میں چھپنے کے باوجود اس کا متن ایک جیسا ہے اور اس کی تلاوت عبادت ہے۔ نیز صحف ابراہیم، زبور اور تورات و انجیل کے بعد آسمانی کتابوں میں یہ سب سے آخری کتاب ہے اور سابقہ آسمانی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اب اس کے بعد کوئی آسمانی کتاب نازل نہیں ہوگی۔ قرآن کی فصاحت و بلاغت کے پیش نظر اسے لغوی و مذہبی لحاظ سے تمام عربی کتابوں میں اعلیٰ ترین مقام دیا گیا ہے۔ نیز عربی زبان و ادب اور اس کے نحوی و صرفی قواعد کی وحدت و ارتقا میں بھی قرآن کا خاصا اہم کردار دکھائی دیتا ہے۔ چنانچہ قرآن کے وضع کردہ عربی زبان کے قواعد بلند پایہ عرب محققین اور علمائے لغت مثلاً سیبویہ، ابو الاسود الدؤلی اور خلیل بن احمد فراہیدی وغیرہ کے یہاں بنیادی ماخذ سمجھے گئے ہیں۔
مولانا محمد علی مونگیری (پیدائش: 3 شعبان المعظم 1262ھ بہ مطابق 28 جولائی 1846ء - وفات: 9 ربیع الاول 1346ھ بہ مطابق 13 ستمبر 1927ء) انیسویں صدی میں تعلیمی نظام کی اصلاح کے لیے برپا ہونے والی معروف تحریک ندوۃ العلماء کے بانی اور اس کے ناظمِ اول تھے۔ ضلع مظفر نگر،اترپردیش میں سادات کی ایک بستی میں پیدا ہوئے۔ اُن کا سلسلۂ نسب 23 واسطوں سے محی الدین عبد القادر جیلانی ؒسے جاملتا ہے۔ مولانا لطف اللہ علی گڑھی سے مختلف علوم حاصل کیے۔ بعد ازاں مدرسہ فیض عام، کان پور اور سہارنپور میں حضرت مولانا احمد علی محدث سہارنپوری کے پاس انکے گھر پر رہ کر تعلیم حاصل کی۔ اور اصلاح باطن کے لیے مولانا شاہ فضل رحمان گنج مرادآبادی سے وابستہ ہوئے اور خلافت سے سرفراز ہوئے۔
غزل اردو شاعری کی مقبول ترین "صنف" سخن ہے۔ غزل توازن میں لکھی جاتی ہے اور یہ ہم قافیہ و بحر اور ہم ردیف مصرعوں سے بنے اشعار کا مجموعہ ہوتی ہے مطلع کے علاوہ غزل کے باقی تمام اشعار کے پہلے مصرع میں قافیہ اور ردیف کی قید نہیں ہوتی ہے جبکہ مصرع ثانی میں غزل کا ہم آواز قافیہ و ہم ردیف کا استعمال کرنا لازمی ہے غزل کا پہلا شعر مطلع کہلاتا ہے جس کے دونوں مصرعے ہم بحر اور ہم قافیہ و ہم ردیف ہوتے ہیں غزل کا آخری شعر مقطع کہلاتا ہے بشرطیکہ اس میں شاعر اپنا تخلص استعمال کرے ورنہ وہ بھی شعر ہی کہلاتا ہے
مونگیر ایک تاریخی شہر ہے جہاں انگریزوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے والے محب وطن جانباز میر قاسم جیسے عظیم شہسوار کا یہ پایہ تخت بھی رہا ہے، آج بھی میرقاسم کے قلعہ کی فصیل موجود ہے جو میرقاسم کی شجاعت و دلاوری کی کہانی سناتی ہے۔ یہ بہت ہی قدیم ضلع ہے اس ضلع سے جموئی، سہرسہ، لکھی سرائے ،بیگوسرائے، کھگڑیا جیسے اضلاع قائم ہوئے ہیں۔ یہ شہر اس لیے بھی تاریخی حیثیت کا حامل ہے کہ یہاں معروف دینی ادارہ جامعہ رحمانی اور معروف خانقاہ خانقاہ رحمانی بھی ہے، جہاں لاکھوں اور کروڑوں بھٹکے ہوئے افراد ہدایت پاتے ہیں۔ اس خانقاہ کے اولین سجادہ نشیں قطب عالم حضرت مولانا محمد علی مونگیری ؒ جنہوں نے مونگیر اور اس کے ا طراف میں قادیانیت کا قلع قمع کیا تھا اور قادیانیت کی حقیقت کی نقاب کشائی کی تھی۔ اسی خانقاہ رحمانی کے سجادہ نشیں امیر شریعت مولانا سید منت اللہ رحمانی ؒ نے اس خانقاہ سے ایسے کا رہائے نمایاں انجام دیے ہیں جس کی مثال ملنی مشکل ہے ایک طرف جہاں وہ رشد وہدایت کی راہ دکھا رہے تھے وہیں ایوان سیاست میں بھی اہل سیاست کو’ سیاست‘کے مفہوم پڑھانے میں پیش پیش رہے تھے، ان کے کئی عظیم کارنامے ہیں جو آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہیں، ان کے ہی ایماءپر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ جیسی فعال تنظیم وجود میں آئی تھی۔ نسبندی اور ایمرجنسی کے دنوں میں انہوں نے ایک جانباز کی طرح حکومت وقت کے آگے ڈٹ گئے تھے اور اس کی شدید مخالفت کی تھی۔ یونیفارم سو ل کوڈ کے ہنگامہ رستخیزمیں ان کی ہمت اور جوش کی داد دینی چاہیے کہ ا نہوں نے بلاخوف و خطر شرعی موقف کے تحت کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ فی الوقت اسی خانقاہ کے سجادہ نشیں مفکر اسلام حضرت مولانا محمد ولی رحمانی جو فی الوقت امارت شرعیہ کے امیر شریعت ہیں اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سیکریٹری بھی ہیں موروثی جوش و خروش اور ہمت کے ساتھ میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں۔ مولانا محمد ولی رحمانی نے قوم میں عصری تعلیم و تربیت کی ایک نئی کرن’رحمانی 30‘ کے نام سے قائم کی ہے، جہاں غریب مسلم طالب علموں کو مفت میں کوچنگ اور دیگر سہولیات کے سا تھ اعلیٰ امتحانات میں شریک ہونے کا زریں موقع پیش کرر ہے ہیں۔ علاوہ ازیں جامعہ رحمانی خود ا یک مثالی ادارہ ہے جو مذہبی تعلیم و تربیت میں ایک ممتاز حیثیت کا حامل ہے، جہاں ہر سال طلبہ کی ایک معتدبہ تعداد فارغ ہو کر قوم کی خدمت میں مصروف ہے۔
شاعری (Poetry) کا مادہ "شعر" ہے اس کے معانی کسی چیز کے جاننے پہچاننے اور واقفیت کے ہیں۔ لیکن اصطلاحاً شعر اس کلامِ موزوں کو کہتے ہیں جو قصداً کہا جائے۔ یہ کلام موزوں جذبات اور احساسات کے تابع ہوتا ہے۔ اور کسی واقعہ کی طرف جاننے کا اشارہ کرتا ہے۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ آپ نے کوئی حادثہ دیکھا ہو اور وہ آپ کے دل پر اثر کر گیا ہو اور آپ کے اندر سے خود بخود الفاظ کی صورت میں ادا ہو جائے اس اثر کے بیان کو شعر کہتے ہیں اور انہی شعروں کو شاعری کے نام سے جانا جاتا ہے۔
علامہ شبلی نعمانی کی پیدائش اعظم گڑھ ضلع کے ایک گاؤں بندول جیراج پور میں 1857ء میں ہوئی تھی- ابتدائی تعلیم گھر پر ہی مولوی فاروق چریاکوٹی سے حاصل کی- 1876ء میں حج کے لیے تشریف لے گئے۔ وکالت کا امتحان بھی پاس کیا مگر اس پیشہ سے دلچسپی نہ تھی۔ علی گڑھ گئے تو سرسید احمد خان سے ملاقات ہوئی، چنانچہ فارسی کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ یہیں سے شبلی نے علمی و تحقیقی زندگی کا آغاز کیا۔ پروفیسر آرنلڈ سے فرانسیسی سیکھی۔ 1892ء میں روم اور شام کا سفر کیا۔ 1898ء میں ملازمت ترک کرکے اعظم گڑھ آ گئے۔ 1913ء میں دار المصنفین کی بنیاد ڈالی۔ 1914ء میں انتقال ہوا۔
ابو الحسن اشعری عباسی دور کے مشہور مسلمان عالم دین اور علم کلام کے بانی تھے۔ 873ء میں بصرہ میں پیدا ہوئے۔ چالیس برس تک معتزلی عقائد کے حامی رہے۔ پھر مسئلہ قدر کے بارے میں معتزلہ سے اختلاف ہو گیا۔ اور اس کے خلاف کئی کتب لکھیں۔ اسلام کے علمی عروج کے زمانے میں فلسفے کے دو مکاتب فکر کو بڑی شہرت حاصل ہوئی۔ ایک مکتب فکر معتزلہ کے نام سے مشہور ہوا۔ دوسرا اشاعرہ یا اشعرئیین کے نام سے۔ آخرالذکر مکتب فکر اپنے بانی ابوالحسن اشعری کی طرف منسوب ہے۔ اشعری نے تقریباً اپنی تمام تصانیف میں معتزلہ کا جواب دیا ہے اور ان کے دلائل کو بے بنیاد ثابت کیا ہے۔ ان کی تصانیف بے شمار تھیں مگر بیشتر ضائع ہوگئیں۔
نعمان ابن ثابت بن زوطا بن مرزبان (پیدائش: 5 ستمبر 699ء– وفات: 14 جون 767ء) (فارسی: ابوحنیفه،عربی: نعمان بن ثابت بن زوطا بن مرزبان)، عام طور پر آپکو امام ابو حنیفہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ آپ سنی حنفی فقہ (اسلامی فقہ) کے بانی تھے۔ آپ ایک تابعی، مسلمان عالم دین، مجتہد، فقیہ اور اسلامی قانون کے اولین تدوین کرنے والوں میں شامل تھے۔ آپ کے ماننے والوں کو حنفی کہا جاتا ہے۔ زیدی شیعہ مسلمانوں کی طرف سے بھی آ پ کو ایک معروف اسلامی عالم دین اور شخصیت تصور کیا جا تا ہے۔ انہیں عام طور پر "امام اعظم" کہا جاتا ہے۔
سلجوقی سلطنت 11ویں تا 14ویں صدی عیسوی کے درمیان میں مشرق وسطی اور وسط ایشیا میں قائم ایک مسلم بادشاہت تھی جو نسلا اوغوز ترک تھے۔ مسلم تاریخ میں اسے بہت اہمیت حاصل ہے کیونکہ یہ دولت عباسیہ کے خاتمے کے بعد عالم اسلام کو ایک مرکز پر جمع کرنے والی آخری سلطنت تھی۔ اس کی سرحدیں ایک جانب چین سے لے کر بحیرۂ متوسط اور دوسری جانب عدن لے کر خوارزم و بخارا تک پھیلی ہوئی تھیں۔ ان کا عہد تاریخ اسلام کا آخری عہد زریں کہلا سکتا ہے اسی لیے سلاجقہ کو مسلم تاریخ میں خاص درجہ و مقام حاصل ہے۔ سلجوقیوں کے زوال کے ساتھ امت مسلمہ میں جس سیاسی انتشار کا آغاز ہوا اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اہلیان یورپ نے مسلمانوں پر صلیبی جنگیں مسلط کیں اور عالم اسلام کے قلب میں مقدس ترین مقام (بیت المقدس) پر قبضہ کر لیا۔
سلطنت عثمانیہ (یا خلافت عثمانیہ 1299ء سے 1924ء تک) (عثمانی ترک زبان: "دولت علیہ عثمانیہ"، ترک زبان: Osmanlı Devleti) سنہ 1299ء سے 1924ء تک قائم رہنے والی ایک مسلم سلطنت تھی جس کے حکمران ترک تھے۔ اپنے عروج کے زمانے میں (16 ویں – 17 ویں صدی) یہ سلطنت تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی اور جنوب مشرقی یورپ، مشرق وسطٰی اور شمالی افریقہ کا بیشتر حصہ اس کے زیر نگیں تھا۔ اس عظیم سلطنت کی سرحدیں مغرب میں آبنائے جبرالٹر، مشرق میں بحیرۂ قزوین اور خلیج فارس اور شمال میں آسٹریا کی سرحدوں، سلوواکیہ اور کریمیا (موجودہ یوکرین) سے جنوب میں سوڈان، صومالیہ اور یمن تک پھیلی ہوئی تھی۔ مالدووا، ٹرانسلوانیا اور ولاچیا کے باجگذار علاقوں کے علاوہ اس کے 29 صوبے تھے۔
امیر معاویہ یا معاویہ اول (عربی: معاوية بن أبي سفيان، 597ء، 603ء یا 605ء – اپریل 680ء) اموی خلافت کے بانی تھے اور 661ء سے اپنی وفات 680ء تک خلیفہ رہے۔ وہ نبی محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے 30 سال بعد خلیفہ بن گئے، ان سے قبل خلفائے راشدین اور حسن ابن علی خلیفہ رہے۔ اگرچہ ان کے دور میں انفاص و تقوی کو دور خلفائے راشدین کے مقابلے میں کمتر سمجھا جاتا ہے، لیکن نمو پزیر اسلام میں امیر معاویہ پہلے مسلمان خلیفہ ہیں جن کا نام سرکاری دستاویزات، سکوں اور کتبوں پر کندہ ہوا۔ امیر معاویہ کاتبین وحی میں سے تھے۔
میر تقی میر (پیدائش: 28 مئی 1723ء— وفات: 22 ستمبر 1810ء) اصل نام میر محمد تقى اردو كے عظیم شاعر تھے۔ میر ان کا تخلص تھا۔ اردو شاعرى ميں مير تقى مير كا مقام بہت اونچا ہے ـ انہیں ناقدین و شعرائے متاخرین نے خدائے سخن کے خطاب سے نوازا۔ وہ اپنے زمانے كے ايك منفرد شاعر تھےـ۔ آپ كے متعلق اردو كے عظیم الشان شاعرمرزا غالب نے لکھا ہے۔
اردو ادب کی دو اصناف ہیں، اردو نثر اور اردو نظم یعنی اردو شاعری۔ پھر اردو شاعری کی کئی قسمیں ہیں جن میں نظم، غزل، مثنوی، قصیدہ، مرثیہ، رباعی، مخمس، مسدس، مثمن، قطعہ، نعت وغیرہ شامل ہیں۔ ان میں سب سے مشہور صنف غزل ہے جسے ہر خاص و عام نے قبول کیا اور سراہا ہے مگر اردو شاعری کی سب سے وسیع قسم اردو نظم ہے۔ اردو نظم میں بہت زیادہ تجربے کیے گئے ہیں اور یہی اس کی وسعت کی دلیل ہے۔ نظیر اکبر آبادی، الطاف حسین حالی، اکبر الہ آبادی اور اقبال، جوش ملیح آبادی، ساحر لدھیانوی، فیض احمد فیض، علی سردار جعفری، ن م راشد، اسماعیل میرٹھی، نظم طباطبائی نظم کے بڑے شاعروں میں سے ہیں۔ اردو میں نظم کی صنف انیسویں صدی کی آخری دہائیوں کے دوران میں انگریزی کے اثر سے پیدا ہوئی جو دھیرے دھیرے پوری طرح قائم ہو گئی۔ نظم بحر اور قافیے میں بھی ہوتی ہے اور اس کے بغیر بھی۔ اب نثری نظم بھی اردو میں مستحکم ہو گئی ہے۔نثری نظم کے حوالے سے میراں جی.ن م راشد . ہوتے ہوئے احمد ہمیش سے ہوتے ہوئےجواز جعفری تک سلسلہ آتا ہے۔لیکن ایک اور بات ...! اس سارے سلسلے میں ڈاکٹر وحید احمد آج بھی نمایا ہیں..
محمد اقبال کا پیغام یا فلسفہ حیات کیا ہے اگر چاہیں تو اس کے جواب میں صرف ایک لفظ ”خودی“ کہہ سکتے ہیں اس لیے کہ یہی ان کی فکر و نظر کے جملہ مباحث کا محور ہے اور انہوں نے اپنے پیغام یا فلسفہ حیات کو اسی نام سے موسوم کیا ہے۔ اس محور تک اقبال کی رسائی ذات و کائنات کے بارے میں بعض سوالوں کے جوابات کی تلاش میں ہوئی ہے۔ انسان کیا ہے؟ کائنات اور اس کی اصل کیا ہے؟ آیا یہ فی الواقع کوئی وجود رکھتی ہے یا محض فریب نظر ہے؟ اگر فریب نظر ہے تو اس کے پس پردہ کیاہے؟ اس طرح کے اور جانے کتنے سوالات ہیں جن کے جوابات کی جستجو میں انسان شروع سے سرگرداں رہا ہے۔ اس طرح کے سوالات جن سے انسان کے وجود کا اثبات ہوتا ہے۔ اردو شاعری میں اقبال سے پہلے غالب نے بھی اُٹھائے تھے۔
محمد بن اسماعيل بخاری بخارا میں پیدا ہوئے گو ان کے والد بھی ایک محدث تھے اور امام مالک کے شاگرد تھے مگر احادیث رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جانچ پڑتال، پھر ان کی جمع و ترتیب پر آپ کی مساعی جمیلہ کو آنے والی تمام مسلمان نسلیں خراج تحسین پیش کرتی رہیں گی۔ آپ کا ظہور پر سرور عین اس قرآنی پیش گوئی کے مطابق ہوا جو اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ جمعہ میں فرمائی تھی۔
سیدہ عائشہ بنت ابی بکر (رضی اللہ عنہا) (پیدائش: 614ء– وفات: 13 جولائی 678ء) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ ہیں۔ آپ کو اُم المومنین کے خطاب سے یاد کیا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد عہد خلفائے راشدین میں آپ کی شخصیت بہت نمایاں نظر آتی ہے۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد 47 سال بقید حیات رہیں اور یہ تمام وہ عرصہ ہے جس میں ابتدائی مسلم فتوحات ہوئیں، مختلف ممالک مملکت اسلامیہ میں داخل ہوئے۔ علم الحدیث میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایات کے بعد سب سے زیادہ روایاتِ حدیث کا ذخیرہ آپ سے ہی روایت کیا گیا ہے۔ آپ عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور عہد خلفائے راشدین کی عینی شاہد بھی تھیں اور مزید برآں آپ نے خلافت امویہ کے ابتدائی 17 سال بھی ملاحظہ فرمائے۔ سنہ 678ء میں آپ کا اِنتقال مدینہ منورہ میں ہوا۔ آپ کے مناقب و فضائل کثیر ہیں جن سے آپ کی عظمت و شان جلالت مسلم خواتین پر نمایاں ہے۔
اردو زبان میں چھتیس حروفِ تہجی اور سینتالیس آوازیں ہیں جن میں سے بیشتر عربی سے لیے گئے ہیں اور دیگر انہی کی مختلف شکلیں ہیں۔ کچھ حروف کئی طریقوں سے استعمال ہوتے ہیں اور کچھ مخلوط حروف بھی استعمال ہوتے ہیں جو دو حروف سے مل کر بنتے ہیں۔ بعض لوگ 'ء' کو الگ حرف نہیں مانتے مگر پرانی اردو کتب اور لغات میں اسے الگ حرف کے طور پر لکھا جاتا ہے۔ مختلف الفاظ میں یہ الگ حرف کے طور پر ہی استعمال ہوتا ہے مثلاً 'دائرہ'۔ یہ بات مدِنظر رکھنا ضروری ہے کہ اردو تختی اور اردو حروف دو مختلف چیزیں ہیں کیونکہ اردو تختی میں اردو حروفِ تہجی کی کئی اشکال ہو سکتی ہیں جن کو الگ حرف کا درجہ نہیں دیا جا سکتا بلکہ وہ ایک ہی حرف کی مختلف شکلیں ہیں۔ مثلاً نون غنہ نون کی شکل ہے اور 'ھ' اور 'ہ' ایک ہی حرف کی مختلف اشکال ہیں۔ ایک اور مثال الف ممدودہ (آ) اور الف مقصورہ (ا) کی ہے جو اردو تختی میں الگ ہیں مگر اردو کا ایک ہی حرف شمار ہوتے ہیں۔
سانحۂ کربلا یا واقعہ کربلا یا کربلا کی جنگ 10 محرم 61ھ (بمطابق 9 یا 10 اکتوبر، 680ء) کو موجودہ عراق میں کربلا کے مقام پر پیش آیا۔ یہ جنگ نواسہ رسول حضرت امام حسین ابن علی، ان کے حامیوں اور رشتہ داروں کے ایک چھوٹے سے گروہ، حسین ابن علیؓ کے ساتھ 72 ساتھی، کچھ غلام، 22 اہل بیت کے جوان اور خاندان نبوی کی کچھ خواتین و بچے شامل تھے اور اموی ظالم حکمران یزید اول کی ایک بڑی فوج کے مابین ہوئی۔جس کو حسین نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔جس میں اموی خلیفہ یزید اول کی فوج نے پیغمبر اسلام محمد ﷺ کے نواسے حسین ابن علی اور ان کے رفقا کو لڑائی میں شہید کیا، حرم حسین کے خیموں کو لوٹ لیا گیا اور بالآخر آگ لگا دی گئی۔ عمر بن سعد کی فوج نے کربلا کے صحرا میں مقتولین کی لاشیں چھوڑ دیں۔ بنی اسد کے لوگوں نے لاشوں کو تین دن بعد دفن کیا۔ واقعہ کربلا کے بعد، حسین ابن علی کی فوج سے وابستہ متعدد خواتین اور بچوں کو گرفتار کر کے قید کر دیا گیا، بازار اور ہجوم والے مقامات سے گزر کر ان کی توہین کی گئی اور انہیں یزید ابن معاویہ کے دربار شام بھیج دیا گیا تھا۔ جنگ میں شہادت کے بعد حضرت امام حسین کو سید الشہدا کے لقب سے پکارا جاتا ہے۔
تصوف کا لفظ اس طریقۂ کار یا اسلوبِ عمل کے لیے اختیار کیا جاتا ہے جس پر کوئی صوفی (جمع: صوفیا) عمل پیرا ہو۔ اسلام سے قربت رکھنے والے صوفی، لفظ تصوف کی تعریف یوں کرتے ہیں کہ ؛ تصوف کو قرآنی اصطلاح میں تزکیۂ نفس اور حدیث کی اصطلاح میں احسان کہتے ہیں۔ تصوف کی اس مذکوہ بالا تعریف بیان کرنے والے افراد تصوف کو قرآن و سنت کے عین مطابق قرار دیتے ہیں؛ اور ابتدائی ایام میں متعدد فقہی علما کرام بھی اس ہی تصوف کی جانب مراد لیتے ہیں۔ پھر بعد میں تصوف میں ایسے افکار ظاہر ہونا شروع ہوئے کہ جن پر شریعت و فقہ پر قائم علما نے نہ صرف یہ کہ ناپسندیدگی کا اظہار کیا بلکہ ان کو رد بھی کیا۔
مسلمانان ہند و پاک کے دورِ زوال کی اہم ترین شخصیت (پیدائش: 1703ء، انتقال:1762ء) برصغیر پاک و ہند میں جب مسلمانوں کا زوال شروع ہوا تو بہت سے لوگوں نے سنجیدگی کے ساتھ زوال کے اسباب پر غور کرنا شروع کیا ان لوگوں میں عہد مغلیہ کے مشہور عالم اور مصنف شاہ ولی اللہ (1703ء تا 1763ء) کا نام سب سے نمایاں ہے۔ مجدد الف ثانی اور ان کے ساتھیوں نے اصلاح کا جو کام شروع کیا تھا شاہ ولی اللہ نے اس کام کی رفتار اور تیز کردی۔ ان دونوں میں بس یہ فرق تھا کہ مجدد الف ثانی چونکہ مسلمانوں کے عہد عروج میں ہوئے تھے اس لیے ان کی توجہ زیادہ تر ان خرابیوں کی طرف رہی جو مسلمانوں میں غیر مسلموں کے میل جول کی وجہ سے پھیل گئیں تھیں لیکن شاہ ولی اللہ چونکہ ایک ایسے زمانے سے تعلق رکھتے تھے جب مسلمانوں کا زوال شروع ہو گیا تھا اس لیے انہوں نے مسلمانوں کے زوال کے اسباب پر بھی غور کیا اور اس کے علاج کے بھی طریقے بتائے۔
پیشہ (profession) سے مراد ایک ایسے روزگارزندگی یعنی حِرفہ کی ہوتی ہے کہ جس کو اختیار کرنے کے ليے مشق اور تعلیم کے ساتھ ساتھ خصوصی معلومات کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور عام طور پر اس کا واسطہ یا رابطہ کسی پیشہ ور ادارے سے بھی جڑا ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ فنیہ یا پیشہ، کی اپنی اخلاقیات ہوتی ہے جس پر عمل کرنا لازمی ہوتا ہے۔ پیشے کی تعلیم کی تکمیل کے بعد کوئی سند (certificate) عطا کی جاتی ہے جو یا تو ایک دانشنامہ ہو سکتا ہے یا کوئی درجہ (degree) بھی۔ اس سند کے ساتھ مشق یا تدریب کی مدت مکمل ہوجانے کے بعد ایک اجازہ (license) دیا جاتا ہے جو تعلیم مکمل کرنے والے (پیشہ ور / professional) کو اس شعبہ حیات میں ایک ماہر کی حیثیت سے کام کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
مذکر: نر اسم ہوتا ہے جیسےمرد، باپ، بیل، بیٹا جبکہ مونث: مادہ اسم ہوتا ہے جیسے عورت، ماں، گائے، بیٹی بے جان اسماء میں نر اور مادہ کا کوئی فرق نہیں ہوتا اس لیے ان کی تذکیر و تانیث کا تمام تر درارومدار اہل زبان پر ہوتا ہے جیسے قلم کو اہل زبان مذکر بولتے ہیں اور گیند کو مونث اسی لیے ایسے اسماء کی تذکیر و تانیث کو غیر حقیقی تذکیر و تانیث کہا جاتا ہے۔ جبکہ حقیقی تذکیر و تانیث وہ ہوتی ہے جس میں نر کے مقابلے میں مادہ اور مادہ کے مقابلے میں نر ہو جانداروں میں کیوں کہ قدرتی طور پر نر اور مادہ کا فرق موجود ہوتا ہے اس لیے اس لیے ان کی تذکیرو تانیث حقیقی ہوتی ہے جیسے مرد، عورت۔ بیل، گائے وغیرہ
خواجہ الطاف حسین حاؔلی ، ہندوستان میں ’’اردو‘‘ کے نامورشاعراورنقاد گزرے ہیں۔ حالی 1837ء میں پانی پت میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام خواجہ ایزؔو بخش تھا - ابھی 9 سال کے تھے کہ والد کا انتقال ہو گیا۔ بڑے بھائی امدؔاد حسین نے پرورش کی۔ اسلامی دستور کے مطابق پہلے قرآن مجید حفظ کیا۔ بعد ازاں عربی کی تعلیم شروع کی۔ 17 برس کی عمر میں ان کی مرضی کے خلاف شادی کر دی گئی۔ اب انہوں نے دلی کا قصد کیا اور 2 سال تک عربی صرف و نحو اور منطق وغیرہ پڑھتے رہے۔ حالؔی کے بچپن کا زمانہ ہندوستان میں تمدن اور معاشرت کے انتہائی زوال کا دور تھا۔ سلطنتِ مغلیہ جو 300 سال سے اہل ِ ہند خصوصاََ مسلمانوں کی تمدنی زندگی کی مرکز بنی ہوئی تھی، دم توڑ رہی تھی۔ سیاسی انتشار کی وجہ سے جماعت کا شیرازہ بکھر چکا تھا اور انفرادیت کی ہوا چل رہی تھی۔
برصغیر پاک و ہند میں 1857ء کی ناکام جنگ آزادی اور سقوطِ دہلی کے بعد مسلمانان برصغیر کی فلاح بہودکی ترقی کے لیے جو کوششیں کی گئیں، عرف عام میں وہ ”علی گڑھ تحریک “ کے نام سے مشہور ہوئیں۔ سر سید نے اس تحریک کا آغاز جنگ آزادی سے ایک طرح سے پہلے سے ہی کر دیا تھا۔ غازی پور میں سائنٹفک سوسائٹی کا قیام اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔ لیکن جنگ آزادی نے سرسید کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کیے اور ان ہی واقعات نے علی گڑھ تحریک کو بارآور کرنے میں بڑی مدد دی۔ لیکن یہ پیش قدمی اضطراری نہ تھی بلکہ اس کے پس پشت بہت سے عوامل کارفرما تھے۔ مثلاً راجا رم موہن رائے کی تحریک نے بھی ان پر گہرا اثر چھوڑا۔
اسلام ایک توحیدی مذہب ہے جو اللہ کی طرف سے آخری رسول و نبی، محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ذریعے انسانوں تک پہنچائی گئی آخری الہامی کتاب (قرآن مجيد) کی تعلیمات پر قائم ہے۔ یعنی دنیاوی اعتبار سے بھی اور دینی اعتبار سے بھی اسلام (اور مسلم نظریے کے مطابق گذشتہ ادیان کی اصلاح) کا آغاز، 610ء تا 632ء تک 23 سال پر محیط عرصے میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اللہ کی طرف سے اترنے والے الہام (قرآن) سے ہوتا ہے۔ قرآن عربی زبان میں نازل ہوا (برائے وجہ : اللسان القرآن) اور اسی زبان میں دنیا کی کل آبادی کا کوئی 24% حصہ یعنی لگ بھگ 1.6 تا 1.8 ارب افراد اس کو پڑھتے ہیں ؛ ان میں (مختلف ذرائع کے مطابق) قریباً 20 تا 30 کروڑ ہی وہ ہیں جن کی مادری زبان عربی ہے جبکہ 70 تا 80 کروڑ، غیر عرب یا عجمی ہیں جن کی مادری زبان عربی کے سوا کوئی اور ہوتی ہے۔ متعدد شخصی ماخذ سے اپنی موجودہ شکل میں آنے والی دیگر الہامی کتابوں کے برعکس، بوسیلۂ وحی، فردِ واحد (محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے منہ سے ادا ہوکر لکھی جانے والی کتاب اور اس کتاب پر عمل پیرا ہونے کی راہنمائی فراہم کرنے والی شریعت ہی دو ایسے وسائل ہیں جن کو اسلام کی معلومات کا منبع قرار دیا جاتا ہے۔
ہجرت مدینہ پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ان کے صحابہ کی طرف سے مکہ مکرمہ سے یثرب (جسے اس ہجرت کے بعد مدینۃ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نام دیا گیا) منتقل ہوجانے کے عمل کو کہتے ہیں جو 12ربیع الاول 13نبوی (جو بعد میں پہلا ہجری سال کہلایا)، بمطابق 24 ستمبر 622ء عیسوی بروز جمعہ کو ہوئی، بعد میں اسی دن کی نسبت سے ہجری تقویم کا آغاز ہوا۔ مسلمانوں نے قمری ہجری تقویم اور شمسی ہجری تقویم دونوں کا آغاز اسی واقعہ کی بنیاد پر کیا۔
فعل (انگریزی: Verb) وہ کلمہ جس کے معانی میں کسی کام کا کرنا یا ہونا پایا جائے اور جس میں تینوں زمانوں ماضی، حال، مستقبل میں سے کوئی ایک زمانہ موجود ہو۔ فعل کی زمانے کے لحاظ سے تین اقسام ہیں۔ فعل ماضی وہ فعل جس میں کسی کام کا کرنا، ہونا یا سہنا گزرے ہوئے زمانے میں پایا جائے۔ فعل حال وہ فعل جس میں کسی کام کا کرنا، ہونا یا سہنا موجودہ زمانے میں پایا جائے۔ فعل مستقبل ایسا فعل جس میں کسی کام کا کرنا، ہونا یا سہنا آنے والے زمانے میں پایا جائے۔
قیام پاکستان کے وقت پاکستان کا آئین نہیں تھا آئین 1935ء میں ترامیم کرکے عبوری آئین کے طور پر نافذ کیا گیا پاکستان اس وقت لاتعداد مسائل میں گھرا ہوا تھا لاکھوں مہاجرین ہندوستان سے پاکستان میں پناہ لے رہے تھے ان کی رہائش اور خوراک کا بندوبست ایک بہت بڑا مسئلہ تھا۔ مغربی پاکستان میں غیر مسلموں کی تعداد تقریباً 3 فی صد جبکہ مشرقی پاکستان میں غیر مسلموں کی تعداد 22 فی صد تھی اس لیے بہت سے ایسے سیاست دان تھے جو 25 فی صد غیر مسلم آبادی والا ملک کہتے ہوئے ایسے آئین کا مطالبہ کر رہے تھے جو سیکولر ہو جبکہ علمائے کرام کا ایک گروہ اس نقطہ پر زور دے رہا تھا کہ پاکستان اسلام کے نام پر قائم ہوا لہٰذا پاکستان کا سرکاری مذہب اسلام ہوگا نواب زادہ لیاقت علی خان ان حالات سے آگاہ اور باخبر تھے وہ بھی علما کے خیالات سے متفق تھے اس لیے انہوں نے علمائے کرام کے تعاون سے ایک قرارداد تیار کی جسے قرارداد مقاصد کا نام دیا گیا قراردادِ مقاصد ایک قرارداد تھی جسے پاکستان کی آئین ساز اسمبلی نے 12 مارچ 1949ء کو منظور کیا۔ یہ قرارداد 7 مارچ 1949ء کو وزیر اعظم پاکستان لیاقت علی خان نے اسمبلی میں پیش کی۔ اس کے مطابق مستقبل میں پاکستان کے آئین کا ڈھانچہ یورپی طرز کا قطعی نہیں ہوگا، بلکہ اس کی بنیاد اسلامی جمہوریت و نظریات پر ہوگی۔
خلافت راشدہ کے خاتمے کے بعد عربوں کی قائم کردہ دو عظیم ترین سلطنتوں میں سے دوسری سلطنت خلافت عباسیہ ہے۔خاندان عباسیہ کے دو بھائیوں السفاح اور ابو جعفر المنصور نے خلافت قائم کی جس کا قیام 750ء (132ھ) میں عمل میں آیا اور 1258ء (656ھ) میں اس کا خاتمہ ہو گیا۔ یہ خلافت ایک تحریک کے ذریعے قائم ہوئی جو بنو امیہ کے خلاف تھی۔ تحریک نے ایک عرصے تک اپنے مقاصد کے حصول کے لیے جدوجہد کی اور بالآخر بنو امیہ کو شکست دینے کے بعد بر سر اقتدار آگئی۔
ہر زبان کے لیے کچھ اصول اور قوانین ہوتے ہیں، جن سے اس زبان کو صحیح طور سے سیکھا اور استعمال کیا جا سکتا ہے۔ زبان کی درستی اور اس کی خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لیے ان قوانین پر عمل درآمد کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اردو زبان کے بھی کچھ اصول ہیں، جنہیں قواعد یا گرامر کہا جاتا ہے۔ ان کے جاننے سے اردو زبان کو ٹھیک طریقے سے بولا اور سمجھا جا سکتا ہے۔ انگریزی میں قواعد کو grammar کہتے ہیں۔ قواعد یا گرامر، لسانیات کی ایک اہم شاخ ہے اور اس کا مطالعہ زبان پہ دسترس حاصل کرنے کے لیے نہایت ضروری ہے۔ یہ مضمون اردو زبان کے قواعد کے متعلق ہے۔
امیر غازی ارطغرل بن سلیمان شاہ قایوی ترکمانی (عثمانی ترک زبان: ارطغرل) (وفات: 1280ء) ترک اوغوز کی شاخ قائی قبیلہ کے سردار سلیمان شاہ کے بیٹے اور سلطنت عثمانیہ کے بانی عثمان اول کے والد تھے۔ ولادت کا زمانہ سنہ 1191ء کے آس پاس کا ہے جبکہ سنہ وفات 1281ء بتائی جاتی ہے اور مدفن اناطولیہ کے شہر سوغوت میں واقع ہے۔ ارطغرل غازی ایک بہادر، نڈر، بے خوف، عقلمند، دلیر، ایماندار اور بارعب سپاہی تھے۔ وہ ساری عمر سلجوقی سلطنت کے وفادار رہے۔ سلطان علا الدین کیقباد اول نے ارطغرل کی خدمات سے متاثر ہو کر ان کو سوغوت اور اس کے نواح میں واقع دوسرے شہر بطور جاگیر عطا کیے اور ساتھ ہی "سردار اعلیٰ" کا عہدہ بھی دیا۔ اس کے بعد آس پاس کے تمام ترک قبائل ان کے ماتحت آگئے تھے۔
رموز اوقاف (انگریزی: Punctuation) وہ علامتیں اور نشانیاں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ عبارت میں کس جگہ اور کس طرح وقف کرنا ہے۔ رموز، رمز کی جمع ہے جس کا مطلب ہے علامت یا اشارہ جبکہ اوقاف، وقف کی جمع ہے جس کے معنی ٹھہرنے یا رکنے کے ہیں، یعنی رموز اقاف یا علامات وقف اُن اشاروں یا علامتوں کو کہتے ہیں جو کسی عبارت کے ایک جملے کے ایک حصے کو اس کے باقی حصوں سے علاحدہ کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ اردو، انگریزی یا دوسری زبانوں کے قواعد میں ان اوقاف اور علامات کو بہت اہمیت حاصل ہے اگر ان کا خیال نہ رکھا جائے تو مفہوم کچھ سے کچھ بلکہ بعض اوقات تو اس کے بالکل اُلٹ ہو جاتا ہے جہاں ٹھہرنا یا وقفہ کرنا ہو ان کے لیے اردو میں درج ذیل رموز اوقاف استعمال ہوتے ہیں۔ ختمہ (۔)، سوالیہ (؟)، سکتہ (،) تفصیلہ (:_)، قوسین () واوین (” “) ندائیہ یا فجائیہ (!) علامت شعر(؎) علامت مصرع (؏) علامت وغیرہ۔
“لفظ قصیدہ عربی لفظ قصد سے بنا ہے اس کے لغوی معنی قصد (ارادہ ) کرنے کے ہیں۔ گویا قصیدے میں شاعر کسی خاص موضوع پر اظہار خیال کرنے کا قصد کرتا ہے اس کے دوسرے معانی مغز کے ہیں یعنی قصیدہ اپنے موضوعات و مفاہیم کے اعتبار سے دیگر اصناف ِ شعر کے مقابلے میں وہی نمایاں اور امتیازی حیثیت رکھتا ہے جو انسانی جسم و اعضاءمیں مغز کو حاصل ہوتی ہے فارسی میں قصیدے کو چامہ بھی کہتے ہیں”۔
محمد علی جناح پیدائشی نام، محمد علی جناح بھائی، 25 دسمبر 1876ء – 11 ستمبر 1948ء) کے نامور وکیل، سیاست دان اور بانی پاکستان تھے۔ محمد علی جناح 1913ء سے لے کر پاکستان کی آزادی 14 اگست 1947ء تک آل انڈیا مسلم لیگ کے سربراہ رہے، پھر قیام پاکستان کے بعد اپنی وفات تک، وہ ملک کے پہلے گورنر جنرل رہے۔ سرکاری طور پر پاکستان میں آپ کو قائدِ اعظم یعنی سب سے عظیم رہبر اور بابائے قوم یعنی قوم کا باپ بھی کہا جاتا ہے۔ جناح کا یومِ پیدائش پاکستان میں قومی تعطیل کے طور پر منایا جاتا ہے۔کراچی کے پیدائشی اور لنکن ان سے بیرسٹری کی تربیت حاصل کرنے والے جناح، بیسویں صدی کے ابتدائی دو عشروں میں آل انڈیا کانگریس کے اہم رہنما کے طور پر ابھرے۔ اپنی سیاست کے ابتدائی ادوار میں انہوں نے ہندو مسلم اتحاد کے لیے کام کیا۔ 1916ء میں آل انڈیا مسلم لیگ اور آل انڈیا کانگریس کے مابین ہونے والے میثاق لکھنؤ کو مرتب کرنے میں بھی انہوں نے اہم کردار ادا کیا۔ جناح آل انڈیا ہوم رول لیگ کے اہم رہنماوں میں سے تھے، انہوں نے چودہ نکات بھی پیش کیے، جن کا مقصد ہندوستان کے مسلمانوں کے سیاسی حقوق کا تحفظ کرنا تھا۔ بہر کیف جناح 1920ء میں آل انڈیا کانگریس سے مستعفی ہو گئے، جس کی وجہ آل انڈیا کانگریس کے موہن داس گاندھی کی قیادت میں ستیاگرا کی مہم چلانے کا فیصلہ تھا۔1940ء تک جناح کو یہ یقین ہو چلا تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک علاحدہ وطن کی جدوجہد کرنی چاہیے۔ اسی سال، مسلم لیگ نے جناح کی قیادت میں قرارداد پاکستان منظور کی جس کا مقصد نئی مملکت کی قیام کا مطالبہ تھا۔دوسری جنگ عظیم کے دوران، آل انڈیا مسلم لیگ نے مضبوطی پکڑلی جبکہ ان ادوار میں کانگریس کے کئی رہنما قید کاٹ رہے تھے اور جنگ کے ختم ہونے کے مختصر عرصے میں ہی انتخابات کا انعقاد ہوا، جس میں جناح کی جماعت نے مسلمانوں کے لیے مختص نشستوں میں سے بڑی تعداد جیت لی۔ اس کے بعد آل انڈیا کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ متحدہ ہندوستان میں اختیارات کے توازن کے لیے کسی صیغے پر متفق نا ہو سکے نتیجتاً تمام جماعتیں اس امر پر متفق ہوگئیں کہ ہندوستان کے دو حصے کیے جائیں جن میں ایک مسلم اکثریتی علاقوں میں پاکستان جبکہ باقی ماندہ علاقوں میں بھارت کا قیام ہو۔پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کے طور پر جناح نے اپنی حکومتی پالیسیوں کے قیام کے لیے کام کیا نیز انہوں نے ان لاکھوں لوگوں کے بہبود اور آباد کاری کے لیے بھی کام کیا جو تقسیم ہند کے بعد پاکستان کی جانب ہجرت کر چلے تھے، انہوں نے ان مہاجر کیمپوں کی ذاتی طور پر دیکھ بھال کی۔ جناح 71 سال کے عمر میں انتقال کر گئے جبکہ ان کے نوزائیدہ ملک کو سلطنت برطانیہ سے آزاد ہوئے محض ایک سال کا عرصہ ہوا تھا۔ ان کی سوانح عمری لکھنے والے لکھاری،اسٹینلی وولپرٹ لکھتے ہیں کہ، وہ (یعنی جناح) پاکستان کے عظیم ترین رہنما رہیں گے۔
صحیح بخاری کا اصل نام «الجامع المسند الصحیح المختصر من امور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وسننہ و ایامہ» ہے جو «صحیح البخاری» کے نام سے مشہور ہے، یہ اہل سنت وجماعت کے مسلمانوں کی سب سے مشہور حدیث کی کتاب ہے، اس کو امام محمد بن اسماعیل بخاری نے سولہ سال کی مدت میں بڑی جانفشانی اور محنت کے ساتھ لکھا ہے، اس کتاب میں انھوں نے چھ لاکھ احادیث سے منتخب کر کے جمع کیا ہے۔ اہل سنت کے یہاں اس کتاب کو ایک خاص مرتبہ و حیثیت حاصل ہے اور ان کی حدیث میں چھ امہات الکتب (صحاح ستہ) میں اول مقام حاصل ہے، خالص صحیح احادیث میں لکھی جانی والی پہلی کتاب شمار ہوتی ہے، اسی طرح اہل سنت میں قرآن مجید کے بعد سب سے صحیح کتاب مانی جاتی ہے۔ اسی طرح صحیح بخاری کا شمار کتب الجوامع میں بھی ہوتا ہے، یعنی ایسی کتاب جو اپنے فن حدیث میں تمام ابواب عقائد، احکام، تفسیر، تاریخ، زہد اور آداب وغیرہ پر مشتمل اور جامع ہو۔اس کتاب نے امام بخاری کی زندگی ہی میں بڑی شہرت و مقبولیت حاصل کر لی تھی، بیان کیا جاتا ہے کہ اس کتاب کو تقریباً ستر ہزار سے زائد لوگوں نے ان سے پڑھا اور سماعت کی، اس کی شہرت اس زمانہ میں عام ہو گئی تھی، ہر چہار جانب خصوصاً اس زمانے کے علما میں اس کتاب کو توجہ اور مقبولیت حاصل ہو گئی تھی، چنانچہ بے شمار کتابیں اس کی شرح، مختصر، تعلیق، مستدرک، تخریج اور علومِ حدیث وغیرہ پر بھی لکھی گئیں، یہاں تک کہ بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ اس کی شروحات کی تعداد بیاسی (82) سے زیادہ ہو گئی تھی۔
قمری ہجری تقویم (ماہ و سال) کو بعض ممالک میں اسلامی تقویم بھی کہا جاتا ہے۔ ہجری تقویم سے مراد تواریخ کا حساب حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مدینہ کی طرف ہجرت سے لگانا ہے۔ اس میں جو مہینے استعمال ہوتے ہیں ان کا استعمال اسلام سے پہلے بھی تھا۔ جس میں سے محرم پہلا مہینہ ہے۔ چونکہ ایک قمری تقویم ہے لہذا اس کا ہر مہینہ چاند کو دیکھ کر شروع ہوتا ہے۔ سال کا کل دورانیہ 354.367056 دن اور ایک ماہ کا کل دورانیہ 29.530588 دن ہے۔
اپریل فول دوسروں کے ساتھ عملی مذاق کرنے اور بے وقوف بنانے کا تہوار ہے۔ اس کا خاص دن اپریل کی پہلی تاریخ ہے۔ یہ یورپ سے شروع ہوا[حوالہ درکار] اور اب ساری دنیا میں مقبول ہے۔ 1508ء سے 1539ء کے ولندیزی اور فرانسیسی ذرائع ملتے ہیں جن سے یہ پتہ چلتا ہے کہ مغربی یورپ کے ان علاقوں میں یہ تہوار تھا۔ برطانیہ میں اٹھارویں صدی کے شروع میں اس کا عام رواج ہوا۔
1206ء سے 1526ء تک ہندوستان پر حکومت کرنے والی کئی حکومتوں کو مشترکہ طور پر دہلی سلطنت کہا جاتا ہے۔ ترک اور پشتون نسل کی ان حکومتوں میں خاندان غلاماں (1206ء تا 1290ء)، خلجی خاندان (1290ء تا 1320ء)، تغلق خاندان (1320ء تا 1413ء)، سید خاندان (1414ء تا 1451ء) اور لودھی خاندان (1451ء تا 1526ء) کی حکومتیں شامل ہیں۔ 1526ء میں دہلی کی آخری سلطنت مغلیہ سلطنت میں ضم ہو گئی۔
محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصال کے بعد ابوبکر صدیق، عمر فاروق، عثمان غنی اور علی المرتضی، حسن المجتبی کا عہد خلافت خلافت راشدہ کہلاتا ہے۔ اس عہد کی مجموعی مدت تیس سال ہے جس میں ابوبکر صدیق اولین اور علی آخری خلیفہ ہیں، حسن کی خلافت کے چھ ماہ خلافت علی میں شمار ہوتے ہیں جیسا کہ جمہور اسلاف کی رائے ہے۔ اس عہد کی نمایاں ترین خصوصیت یہ تھی کہ یہ قرآن و سنت کی بنیاد پر قائم نظام حکومت تھا۔
سلمان فارسی (فارسی : سلمان پارسی، عربی : سلمان الفارسی ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مشہور اصحاب میں سے تھے۔ ابتدائی طور پر ان کا تعلق زرتشتی مذ ہب سے تھا مگر حق کی تلاش ان کو اسلام کے دامن تک لے آئی۔ آپ کئی زبانیں جانتے تھے اور مختلف مذاہب کا علم رکھتے تھے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بارے میں مختلف مذاہب کی پیشینگوئیوں کی وجہ سے وہ اس انتظار میں تھے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ظہور ہو اور وہ حق کو اختیار کر سکیں۔
علم بیان کی اصطلاح میں حقیقی اور مجازی معنوں کے درمیان تشبیہ کا علاقہ ہونا۔ یعنی حقیقی معنی کا لباس عاریۃَ َ لے کر مجازی معنوں کو پہنانا۔ مثلا نرگس کہہ کر آنکھ مراد لینا۔ استعارہ اور تشبیہ میں یہ فرق ہے کہ استعارہ تشبیہ سے زیادہ بلیغ ہوتا ہے۔ تشبیہ میں ایک چیز کو دوسری جیسا قرار دیا جاتا ہے جب ان میں کوئی صفت یا خوبی مشترک ہو لیکن استعارے میں ایک چیزکوہوبہودوسری چیزمان لیا جاتاہے۔ تشبیہ میں مشبہ اور مشبہ بہ دونوں کا ذکر کیاجاتا ہے جب کہ استعارہ میں مستعار لہ ( جسے تشبیہ میں مشبہ کہتے ہیں) نہیں لکھا جاتا صرف مستعار منہ ( جسے تشبیہ میں مشبہ بہ کہتے ہیں ) کا ذکر ہوتا ہے۔ گویا استعارہ میں صرف اس چیز کا ذکر ہوتا ہے جسکواستعارہ بنایا جائے جب کہ تشبیہ میں دونوں کا ذکر کیا جاتا ہے کبھی حرفِ تشبیہ کے ساتھ اور کبھی حرفِ تشبیہ کے بغیر۔
کراچی (سندھی: ڪراچي) (انگریزی: Karachi) پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور صنعتی، تجارتی، تعلیمی، مواصلاتی و اقتصادی مرکز ہے۔ کراچی دنیا کاچهٹا بڑا شہر ہے۔ کراچی پاکستان کے صوبہ سندھ کا دارالحکومت ہے۔ شہر دریائے سندھ کے مغرب میں بحیرہ عرب کی شمالی ساحل پر واقع ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی بندرگاہ اور ہوائی اڈا بھی کراچی میں قائم ہے۔ کراچی 1947ء سے 1960ء تک پاکستان کا دار الحکومت بھی رہا۔
اسلامی اصول برائےبنیادی ضروریات زندگی
'کفالت عامہ' یعنی عوام کے لیے بنیادیں ضروریات (Basic Needs) زندگی کی فراہمی اسلامی حکو مت کی ذمہ داری ہے مثلاً روٹی، کپڑا، مکان، پانی وغیرہ۔ رسول صلی اللہ عليہ وسلم اللہ کا ارشاد پاک ہے :
مثنوی کا لفظ، عربی کے لفظ ”مثنیٰ “ سے بنا ہے اور مثنیٰ کے معنی دو کے ہیں۔ اصطلاح میں ہیت کے لحاظ سے ایسی صنفِ سخن اور مسلسل نظم کو کہتے ہیں جس کے شعر میں دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوں اور ہر دوسرے شعر میں قافیہ بدل جائے، لیکن ساری مثنوی ایک ہی بحر میں ہو۔ مثنوی میں عموماً لمبے لمبے قصے بیان کیے جاتے ہیں نثر میں جو کام ایک ناول سے لیا جاتا ہے، شاعری میں وہی کام مثنوی سے لیا جاتا ہے، یعنی دونوں ہی میں کہانی بیان کرتے ہیں۔ مثنوی ایک وسیع صنفِ سخن ہے اور تاریخی، اخلاقی اور مذہبی موضوعات پر کئی ایک خوبصورت مثنویاں کہی گئی ہیں۔ مثنوی عموماً چھوٹی بحروں میں کہی جاتی ہے اور اس کے لیے چند بحریں مخصوص بھی ہیں اور شعرا عموماً اس کی پاسداری کرتے ہیں لیکن مثنوی میں شعروں کی تعداد پر کوئی پابندی نہیں ہے، کچھ مثنویاں تو کئی کئی ہزار اشعار پر مشتمل ہیں۔
نجم الدولہ، دبیر الملک، مرزا نوشہ اسد اللہ خان غالب بہادر نظام جنگ (1797ء- 1869ء) اردو زبان کے سب سے بڑے شاعروں میں ایک سمجھے جاتے ہیں۔ یہ تسلیم شدہ بات ہے کہ 19 ویں صدی غالب کی صدی ہے۔ جبکہ 18 ویں میر تقی میر کی تھی اور 20 ویں علامہ اقبال کی۔ غالب کی عظمت کا راز صرف ان کی شاعری کے حسن اور بیان کی خوبی ہی میں نہیں ہے۔ ان کا اصل کمال یہ ہے کہ وہ زندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کو گہرائی میں جا کر سمجھتے تھے اور بڑی سادگی سے عام لوگوں کے لیے بیان کر دیتے تھے۔ غالب جس پر آشوب دور میں پیدا ہوئے اس میں انہوں نے مسلمانوں کی ایک عظیم سلطنت کو برباد ہوتے ہوئے اور باہر سے آئی ہوئی انگریز قوم کو ملک کے اقتدار پر چھاتے ہوئے دیکھا۔ غالباً یہی وہ پس منظر ہے جس نے ان کی نظر میں گہرائی اور فکر میں وسعت پیدا کی۔
ہندو مت یا ہندو دھرم (ہندی: हिन्दू धर्म) جنوبی ایشیا اور بالخصوص بھارت اور نیپال میں غالب اکثریت کا ایک مذہب ہے جس کی بنیاد برصغیر میں رکھی گئی۔ اسے دنیا کا قدیم ترین مذہب مانا جاتا ہے جسکے ابھی بھی پیروکار موجود ہیں۔ ہندومت کے پیروکار اِس کو سناتن دھرم (सनातन धर्म) کہتے ہیں جو سنسکرت کے الفاظ ہیں، ان کا مطلب ہے ‘‘لازوال قانون’’۔
اردو کو مختلف ناموں سے موسوم کیا جاتا رہا ہے۔ شرف الدین اصلاحی لکھتے ہیں : ’’اردو نام کچھ زیادہ پرانا نہیں۔ کوئی دو سو سال سے ہماری زبان اس نام سے موسوم ہے۔ ابتدا لفظ اردو بصورت ترکیب اپنے لغوی معنی میں استعمال ہوتا تھا۔ زبان اردوئے معلی کہلاتی تھی یعنی شاہی لشکر کی زباں۔ رفتہ رفتہ زبان کا لفظ خارج ہو گیا اور اردوئے معلی بچ رہا۔ کچھ عرصہ بعد ازراہ اختصار معلی بھی ساقط ہو گیا اورصرف اردو باقی رہ گیا۔ اردو کے چند قدیم نام یہ ہیں۔ ہندی، ہندوی، ہندوستانی، دہلوی، زبان ہندوستان، لنگوا اندستان کا، ریختہ۔ ‘‘
محمد جلال الدین رومی (پیدائش:1207ء میں پیدا ہوئے، مشہور فارسی شاعر تھے۔ مثنوی، فیہ ما فیہ اور دیوان شمس تبریز(یہ اصل میں مولانا کا ہی دیوان ہے لیکن اشعار میں زیادہ تر شمس تبریز کا نام آتا ہے اس لیے اسے انھی کا دیوان سمجھا جاتا ہے) آپ کی معروف کتب ہے، آپ دنیا بھر میں اپنی لازاول تصنیف مثنوی کی بدولت جانے جاتے ہیں، آپ کا مزار ترکی میں واقع ہے۔
نوح علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے پیغمبر تھے۔ آپ نے تقریباً 900 سال تک لوگوں کو اللہ کی طرف بلایا مگر آپ کی قوم کا جواب یہ تھا کہ آپ بھی ہماری طرح عام آدمی ہیں اگر اللہ کسی کوبطورِ رسول بھیجتا تو وہ فرشتہ ہوتااور اس میں سے صرف 80 لوگوں نے ان کا دین قبول کیا۔ نوح علیہ السلام تمام رسولوں میں سب سے پہلے رسول تھے۔ جنہیں زمین میں مبعوث کیا گیا تھا۔ ان کی بیوی کا نام واہلہ تھا۔نوح علیہ اسلام نے ان کے عذاب کی بد دعا فرمائی جس کے نتیجے میں ان پر سیلاب کا عذاب نازل ہوا۔
اسم (انگریزی: Noun) کسی جگہ شخص یا چیز کے نام کو اسم کہا جاتا ہے جیسے پاکستان، کراچی، لاہور، امجد، حنا، انور، کرسی، میز، قلم وغیرہ اسم کی کئی اقسام ہیں۔ اسم جامد، اسم مشتق، اسم مصدر، اسم معرفہ (خاص)، اسم نکرہ (عام) اسم معرفہ کی درج ذیل اقسام ہیں۔ اسم علم، اسم ضمیر، اسم اشارہ، اسم موصول۔ اسم نکرہ کی درج ذیل اقسام ہیں۔ اسم ذات، اسم حاصل مصدر، اسم حالیہ، اسم فاعل، اسم مفعول، اسم استفہام۔
وحی اس کلام کو کہتے ہیں جس کو اللہ تعالٰی اپنے نبیوں کی طرف نازل فرماتا ہے۔ ابن الانباری نے کہا کہ اس کو وحی اس لیے کہتے ہیں کہ فرشتہ اس کلام کو لوگوں سے مخفی رکھتا ہے اور وحی نبی کے ساتھ مخصوص ہے جو کو لوگوں کی طرف بھیجا جاتا ہے۔ لوگ ایک دوسرے سے جو خفیہ بات کرتے ہیں وہ وحی کا اصل معنی ہے، قرآن مجید میں ہے