اردو ویکیپیڈیا کے سب سے زیادہ ملاحظہ کردہ مضامین کی فہرست۔ مزید معلومات کے لیے ۔ ۔ ۔
عید الفطر ایک اہم مذہبی تہوار ہے جسے پوری دنیا میں بسنے والے مسلمان رمضان المبارک کا مہینہ ختم ہونے پر مناتے ہیں۔ عید کے دن مسلمانوں کو روزہ رکھنے سے منع کیا گیا ہے۔ مسلمان رمضان کے 29 یا 30 روزے رکھنے کے بعد یکم شوال کو عید مناتے ہیں۔ کسی بھی قمری ہجری مہینے کا آغاز مقامی مذہبی رہنماؤں کے چاند نظر آجانے کے فیصلے سے ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک میں عید مختلف دنوں میں منائی جاتی ہے۔ اس کے برعکس کچھ ممالک ایسے ہیں جو سعودی عرب کی پیروی کرتے ہیں۔ عید الفطر کے دن نماز عید (دو رکعت 12 تکبیروں)( ابو داؤد حدیث نمبر 1151)کے ساتھ پڑھی جاتی ہے، جسے جامع مسجد یا کسی کھلے میدان یعنی عیدگاہ میں ادا کیا جاتا ہے۔ اس میں 12 زائد تکبیریں ہوتی ہیں (جن میں سے سات پہلی رکعت کے شروع میں ہوتے ہی اور بقیہ پانچ دوسری رکعت کے رکوع میں جانے سے پہلے ادا کی جاتی ہیں)۔ مسلمان کا عقیدہ ہے کہ اسلام میں انھیں حکم دیا گیا ہے کہ "رمضان کے آخری دن تک روزے رکھو۔ اور عید کی نماز سے پہلے صدقہ فطر ادا کرو"۔
فلسطین دنیا کے قدیم ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ یہ اس علاقہ کا نام ہے جو لبنان اور مصر کے درمیان تھا جس کے بیشتر حصے پر اب اسرائیل کی ریاست قائم کی گئی ہے۔ 1948ء سے پہلے یہ تمام علاقہ فلسطین کہلاتا تھا۔ جو خلافت عثمانیہ میں قائم رہا مگر بعد میں انگریزوں اور فرانسیسیوں نے اس پر قبضہ کر لیا۔ 1948ء میں یہاں کے بیشتر علاقے پر اسرائیلی ریاست قائم کی گئی۔
یروشلم یا القدس شہر یہودیوں، مسیحیوں اور مسلمانوں تینوں کے نزدیک مقدس ہے۔ یہاں حضرت سلیمان کا تعمیر کردہ معبد ہے جو بنی اسرائیل کے نبیوں کا قبلہ تھا اور اسی شہر سے ان کی تاریخ وابستہ ہے۔ یہی شہر مسیح کی پیدائش کا مقام ہے اور یہی ان کی تبلیغ کا مرکز تھا۔ مسلمان تبدیلی قبلہ سے قبل تک اسی کی طرف رخ کرکے نماز ادا کرتے تھے۔
اسرائیل (عبرانی: יִשְׂרָאֵל، یِسْرائل) مغربی ایشیا کا ایک ملک ہے جو بحیرہ روم کے جنوب مشرقی ساحل پر واقع ہے۔ اس کے شمال میں لبنان، شمال مشرق میں شام، مشرق میں اردن، مشرق اور جنوب مشرق میں فلسطین اور جنوب میں مصر، خلیج عقبہ اور بحیرہ احمر واقع ہیں۔ اسرائیل خود کو یہودی جمہوریہ کہلاتا ہے اور دنیا میں واحد یہود اکثریتی ملک ہے۔
الناصر صلاح الدین بن یوسف بن ایوب (عربی: الناصر صلاح الدين يوسف بن أيوب؛ کردی: سەلاحەدینی ئەییووبی) جنہیں عام طور پر صلاح الدین ایوبی کے نام سے جانا جاتا ہے ایوبی سلطنت کے بانی تھے۔ وہ نہ صرف تاریخ اسلام بلکہ تاریخ عالم کے مشہور ترین فاتحین و حکمرانوں میں سے ایک ہیں۔ وہ 1138ء میں موجودہ عراق کے شہر تکریت میں پیدا ہوئے۔ ان کی زیر قیادت ایوبی سلطنت نے مصر، شام، یمن، عراق، حجاز اور دیار باکر پر حکومت کی۔ سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللّٰہ علیہ کو بہادری، فیاضی، حسن خلق، سخاوت اور بردباری کے باعث نہ صرف مسلمان بلکہ مسیحی بھی عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ صلاح الدین کو فاتح بیت المقدس کہا جاتا ہے جنھوں نے 1187ء میں یورپ کی متحدہ افواج کو عبرتناک شکست دے کر بیت المقدس ان سے آزاد کروا لیا تھا۔
بیت المقدس (Temple in Jerusalem یا Holy Temple) (عبرانی: בֵּית - הַמִּקְדָּשׁ، جدید عبرانی: Bet HaMikdash / بیت ھا مقدش؛ طبری: Beṯ HamMiqdāš؛ اشکنازی: Beis HaMikdosh; عربی: بيت القدس / بيت المقدس) سے مراد ہیکل سلیمانی ہے جو قدیم یروشلم میں واقع تھا جو موجودہ مسجد اقصٰی اور قبۃ الصخرۃ کا مقام ہے۔ "بیت المقدس"سے مراد وہ "مبارک گھر" یا ایسا گھر ہے جس کے ذریعے گناہوں سے پاک ہوا جاتا ہے۔ پہلی صدی ق م میں جب رومیوں نے یروشلم پر قبضہ کیا تو انہوں نے اسے ایلیا کا نام دیا تھا۔
قبۃ الصخرۃ (Dome of the Rock) یروشلم/بیت المقدس میں مسجد اقصی کے قریب موجود ایک تاریخی چٹان کے اوپر سنہری گنبد کا نام ہے۔ یہ ہشت پہلو عمارت پچھلی تیرہ صدیوں سے دنیا کی خوبصورت ترین عمارتوں ميں شمار ہو رہی ہے۔ یہ حرم قدسی شریف کا ایک حصہ ہے۔ مسیحی اور یہودی اسے Dome of the Rock کہتے ہیں۔ عربی میں قبۃ کا مطلب گنبد اور الصخرۃ کا مطلب چٹان ہے۔
مولانا جاوید حیدر زیدی زیدپوری
مولانا جاوید حیدر زیدی زیدپوری کی تاریخِ پیدائش 14 دسمبر 1997 ہے مولانا کا شمار ہندوستان کے معروف شیعہ عالمِ دین میں ہوتا ہے۔ یہ زیدپور سے تعلق رکھنے والے مسلمان عالم اور مشہور صحافی ہیں۔ مجمع العلوم جامعۂ ایمانیہ میں انہوں نے تعلیم حاصل کی اور پھر علیٰ تعلیم کے لیے ایران کے شہر قم تشریف لے گئے۔ ان کی بہت سی تحریر اور مضامین مختلف اردو اخبارات اور نیٹ پر موجود ہیں۔ آپ ان کی کُچھ تحریر کو حوزہ نیوز ایجنسی پر ملاحظہ کر سکتے ہیں مولانا خطابت کے میدان میں بھی اپنی مثال آپ ہے۔ ہندوستان کے مختلف علاقوں میں مجلس کو خطاب کیا۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان جنوبی ایشیا کے شمال مغرب وسطی ایشیا اور مغربی ایشیا کے لیے دفاعی طور پر اہم حصے میں واقع ایک خود مختار اسلامی ملک ہے۔ 21 کروڑ کی آبادی کے ساتھ یہ دنیا کا پانچواں بڑی آبادی والا ملک ہے۔ 881,913 مربع کلومیٹر (340,509 مربع میل) کے ساتھ یہ دنیا کا تینتیسواں بڑے رقبے والا ملک ہے۔ اس کے جنوب میں 1046 کلومیٹر (650 میل) کی ساحلی پٹی ہے جو بحیرہ عرب سے ملتی ہے۔پاکستان کے مشرق ميں بھارت، شمال مشرق ميں چین اور مغرب ميں افغانستان اور ايران واقع ہيں۔ پاکستان کو شمال میں ایک تنگ واخان راہداری تاجکستان سے جدا کرتی ہے جبکہ اس ملک کی سمندری سرحدی حدود عمان کے سمندری حدود سے بھی ملتی ہیں۔ موجودہ پاکستان کے علاقے قدیم ترین دنیا میں وہ علاقے تھے جن میں موہنجوداڑو اور انڈس سولائیزیشن مہر گڑھ ٹیکسلا پراچین سنسکرت دور اور دیگر زیرتحقیق آرک لوجیکل سائٹسٹ جیسے قندھارا تہذیب و تمدن تھی۔ اس علاقے پر پراچین راجپوت ایرانی یونانیعرب،بدھ مت، سکھ، مغل، ہن سفید اور ترک حملہ آوروں کی حکومت بھی رہی ہے۔ یہ علاقہ مختلف سلطنتوں جیسے چندر گپت موریا، ہخامنشی سلطنت عربوں کی خلافت امویہ، مغول سلطنت، مغلیہ سلطنت، درانی سلطنت، سکھ سلطنت اور برطانوی راج کا اہم حصہ رہا ہے۔ اس کے بعد محمد علی جناح کی قیادت میں تحریک پاکستان کامیاب ہوئی اور 14 اگست 1947ء کو ہندوستان کے مشرق اور مغرب میں دو حصوں میں ایک آزاد اور خودمختار اسلامی ریاست قائم ہوئی۔ پاکستان نے 1956ء میں اپنا پہلا قانون اپنایا۔ 1971ء میں ایک خانہ جنگی کے دوران میں اس کا مشرقی حصہ الگ ہو کر ایک نیا ملک بنگلہ دیش بن گیا۔ پاکستان وفاقی پارلیمانی جمہوری ریاست کے تحت چلتا ہے۔ اس کے چار صوبے اور کچھ وفاقی حکومت کے زیر انتظام علاقے ہیں۔ یہ ملک لسانی اور قومی طور پر مختلف اقوام کا علاقہ ہے اور اس کا جغرافیہ بھی ہر طرح کے خطے پر مشتمل ہے۔ پاکستان دنیا کا ایک اہم طاقتور ملک ہے، جیسا کہ اس کی فوج دنیا کی چھویں بڑی فوج ہے اور یہ اسلامی دنیا کی واحد اور جنوبی ایشیا کی دوسری ایٹمی طاقت ہے۔ اس کی معیشت دنیا میں 27 ویں نمبر پر ہے۔ پاکستان کی تاریخ فوجی آمریت، سیاسی عدم استحکام اور پڑوسی ملک سےجھگڑوں پر مشتمل ہے۔ یہ ملک مؤتمر عالم اسلامی، اقوام متحدہ، دولت مشترکہ ممالک، سارک، ترقی پذیر 8، اقتصادی تعاون تنظیم جیسی تنظیموں کا اہم رکن ہے۔ ان سرزمین اور ممالک کے ناموں میں، جس میں لاحقہ "ستان" شامل ہے، پاکستان کا لفظ سب سے نیا ہے اور کردستان سب سے پرانا نام ہے۔ پاکستان کے مطلب پاک نفسوں کی سرزمین ہے.
ابو بکر صدیق عبد اللہ بن ابو قحافہ تیمی قریشی (پیدائش: 573ء— وفات: 22 اگست 634ء) پہلے خلیفہ راشد، عشرہ مبشرہ میں شامل، پیغمبر اسلام کے وزیر، صحابی و خسر اور ہجرت مدینہ کے وقت رفیق سفر تھے۔ اہل سنت و الجماعت کے یہاں ابو بکر صدیق انبیا اور رسولوں کے بعد انسانوں میں سب سے بہتر، صحابہ میں ایمان و زہد کے لحاظ سے سب سے برتر اور ام المومنین عائشہ بنت ابی بکر کے بعد پیغمبر اسلام کے محبوب تر تھے۔ عموماً ان کی کنیت "ابو بکر" کے ساتھ صدیق کا لقب لگایا جاتا جسے ابو بکر صدیق کی تصدیق و تائید کی بنا پر پیغمبر اسلام نے دیا تھا۔
کام جاری فلسطین کی تاریخ ، فلسطین کے خطے میں ماضی کا مطالعہ ہے ، جسے عام طور پر بحیرہ روم اور دریائے اردن (جہاں اسرائیل اور فلسطین آج موجود ہے) اور مختلف ملحقہ زمینوں کے درمیان واقع جنوبی جغرافیائی خطے کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ یوروپ ، ایشیاء اور افریقہ اور یہودیت اور عیسائیت کی جائے پیدائش کے مابین ایک تزویراتی نقطہ پر واقع ، اس خطے کی مذہب ، ثقافت ، تجارت اور سیاست کے سنگم کے طور پر ایک لمبی اور ہنگامہ خیز تاریخ ہے۔ قدیم زمانے میں ، فلسطین پر وقفے وقفے سے متعدد آزاد سلطنتوں اور متعدد عظیم طاقتوں کے ذریعہ کنٹرول کیا جاتا تھا ، بشمول قدیم مصر ، فارس ، سکندر اعظم اور اس کے جانشین ، رومن سلطنت ، متعدد مسلم خاندانوں اور صلیبی جنگوں نے ۔ جدید دور میں ، اس علاقے پر سلطنت عثمانیہ ، تب برطانیہ کا راج تھا۔ 1948 سے ، فلسطین اسرائیل ، مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں منقسم ہے۔ تقریبا اسی جغرافیائی علاقے کی دیگر شرائط میں کنان ، صہیون ، سرزمین اسرائیل ، جنوبی شام ، آؤٹمر اور مقدس سرزمین شامل ہیں۔ یہ خطہ انسانی آبادی ، زرعی برادریوں اور تہذیب کو دیکھنے کے لیے دنیا کے قدیم ترین لوگوں میں شامل تھا۔ ابتدائی اور مشرق وسطی کانسی کے دور کے دوران ، کنیانا کے شہر آزاد ریاستیں قائم ہوئیں اور وہ میسوپوٹیمیا ، فینیشیا ، مینوئن کریٹ ، شام اور قدیم مصر کی آس پاس کی تہذیبوں سے متاثر ہوئیں ، جنھوں نے دیر پیتل کے دور (1550–1200 بی سی ای ) میں اس علاقے پر راج کیا۔ اگلے دور میں اسرائیلیوں کا ظہور ہوا ، جنھوں نے متنازع بائبل کی روایت کے مطابق ، 1020 قبل مسیح میں برطانیہ اسرائیل قائم کیا ، جو اسرائیل اور یہوداہ کی ریاستوں کے مابین تقسیم ہوا۔ نو اشور سلطنت نے خطے کو فتح کر لیا سی۔ 740 قبل مسیح ، پھر نو بابل کی سلطنت تقریبا۔ 627 قبل مسیح۔ مؤخر الذکر نے 6 586 قبل مسیح میں بیت المقدس کو تباہ کیا اور یہودی رہنماؤں کو بابل بھیج دیا۔ انہیں صرف اچیمینیڈ شہنشاہ سائرس عظیم کے ذریعہ 539 قبل مسیح میں واپس آنے کی اجازت تھی۔ 330 کی دہائی قبل مسیح میں ، سکندر اعظم نے فلسطین سمیت ہخامنشی سلطنت کو فتح کیا ، جس نے اس کے جانشینوں کی جنگوں کے دوران متعدد بار ہاتھ بدلے ، یہاں تک کہ سیلیوسیڈ سلطنت نے 219 اور 200 قبل مسیح کے درمیان اپنا کنٹرول حاصل کر لیا۔ 116 قبل مسیح میں ، یہودی ہسمونیوں نے سیلیوڈس سے آزادی حاصل کرلی ، لیکن ان کی بادشاہت آہستہ آہستہ روم کی ایک باضابطہ حیثیت اختیار کر گئی ، جو بالآخر فلسطین سے منسلک ہو گئی اور 6 قبل مسیح میں یہودیہ صوبہ تشکیل دیا۔ اس کے باوجود رومی حکمرانی کئی یہودی بغاوتوں سے پریشان تھی ، جس کا جواب روم نے بیت المقدس کی بوری ، ہیکل کی دوسری تباہی سے دیا۔ آخری بر کوخبا کی بغاوت کے بعد ہیڈرین نے یہودیہ اور شام کے صوبوں میں شمولیت اختیار کر کے شام پلسٹینا تشکیل دیا ۔ بعد میں ، رومن سلطنت کی عیسائیت کے ساتھ ہی فلسطین عیسائیت کا ایک مرکز بن گیا ، جس میں متعدد راہبوں اور مذہبی اسکالروں کو راغب کیا گیا۔ شام کی مسلم فتح کے دوران 636 عیسوی یرموک کی جنگ کے بعد امویوں نے فلسطین کا علاقہ فتح کیا تھا اور اسے بلد الشام میں اردون اور فلاستن کے فوجی اضلاع کے طور پر شامل کیا تھا۔ سن 661 عیسوی میں ، معاویہ اول نے یروشلم میں اموی خلافت کی بنیاد رکھی۔ اس کے جانشینوں نے وہاں خاص طور پر اسلامی فن تعمیر کا دنیا کا پہلا عظیم کام اور مسجد اقصیٰ کا گنبد ، چٹان کا گنبد تعمیر کیا۔ عباسیوں نے ان کی جگہ 750 میں لے لی ، لیکن 878 سے ہی فلسطین پر مصر سے نیم خود مختار حکمرانوں نے حکومت کی: تولیونڈ ، پھر اخلاصیڈ ۔ فاطمیوں نے 969 میں یہ خطہ فتح کر لیا ، لیکن اسے 1073 میں عظیم سلجوق سلطنت سے شکست ہوئی اور 1098 میں دوبارہ قبضہ کر لیا۔ تاہم ، اگلے ہی سال صلیبیوں نے فلسطین میں یروشلم بادشاہت قائم کی ، جو ایوبی سلطنت کے بانی صلاح الدین ایوبی کی اس کی فتح تک تقریبا ایک صدی تک جاری رہی۔ مزید سات صلیبی جنگوں کے باوجود ، صلیبی فوجی خطے میں اپنی طاقت بحال نہیں کرسکے۔ 1260 میں عین جلوت کی کلیدی لڑائی کے بعد مصری مملوک سلطانی نے فلسطین کو منگولوں (جس نے ایوبیڈ سلطنت کو فتح کیا تھا) سے قبضہ کر لیا۔ عثمانی ترکوں نے 1516 میں مملوک فلسطین اور شام پر قبضہ کیا۔ 1832 میں محمد علی کے مصر کی فتح تک اس ملک پر عثمانی حکمرانی تین صدیوں تک بغیر کسی مداخلت کے چلتی رہی۔ آٹھ سال بعد ، برطانیہ نے مداخلت کی اور فلسطین میں بسنے والے یورپی باشندوں کے ماورائے حقوق کے بدلے میں عثمانیوں کو لیوینٹ کا کنٹرول واپس کر دیا۔ 19 ویں صدی کے دوران اور ڈروز ، سرکیسیوں اور بیڈوین قبائل کی علاقائی نقل مکانی کے ساتھ ہی آبادیاتی آبادی میں کافی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ صیہونیت کے ظہور سے یوروپ سے بہت سے یہودی تارکین وطن اور عبرانی زبان کی بحالی ہوئی ۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران برطانوی حکومت نے 1917 کا بالفور اعلامیہ جاری کیا ، جس میں فلسطین میں یہودی عوام کے لیے قومی گھر کے قیام کی حمایت کی گئی تھی۔ انگریزوں نے ایک ماہ بعد عثمانیوں سے یروشلم پر قبضہ کیا۔ لیگ آف نیشنز نے باضابطہ طور پر برطانیہ کو 1922 میں فلسطین پر ایک مینڈیٹ دیا۔ مستقل یہودی امیگریشن اور برطانوی نوآبادیاتی حکمرانی کے نتیجے میں یہودیوں اور عربوں کے مابین فرقہ وارانہ تشدد ہوا جس کے نتیجے میں برطانوی حکومت نے 1947 میں مینڈیٹ کو ختم کرنے کے اپنے ارادے کا اعلان کیا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کو آزاد عرب اور یہودی ریاستوں میں تقسیم کرنے کے حق میں ووٹ دیا۔ تاہم ، فلسطین کی صورت حال عربوں اور یہودیوں کے مابین خانہ جنگی میں بگڑ گئی تھی۔ سابقہ نے پارٹیشن پلان کو مسترد کر دیا ، مؤخر الذکر نے مئی 1948 میں برطانوی مینڈیٹ کے خاتمے پر ریاست اسرائیل کی آزادی کا اعلان کرتے ہوئے اسے واضح طور پر قبول کر لیا ۔ آس پاس کے عرب ممالک نے فورا.
صحابہ (عربی: الصحابۃ، "پیروکار") اسلام میں نبی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، کے ان پیرو کاروں کو کہا جاتا ہے جنہوں نے ان کی اپنی حیات میں اسلام قبول کیا اور ان کو کچھ وقت کی صحبت ملی۔ اور اسی ایمان کی حالت میں وہ دنیا سے گئے۔ بعض صحابہ نابینا بھی تھے اور بعض لوگ جنہوں نے اسلام قبول کیا، مگر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دور یا بعد میں پھر مرتد ہوئے اور پھر اسلام قبول کیا (محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیات کے بعد) تو ان کو صحابی نہیں کہا جاتا۔
یہودیت توحیدی اور ابراہیمی ادیان میں سے ایک دين ہے جس كے تابعين اسلام ميں قومِ نبی موسیٰ يا بنی اسرائيل کہلاتے ہيں مگر تاريخی مطالعہ ميں یہ دونوں نام اس عصر اور اس قوم كے لیے منتخب ہيں جس كا تورات كے جز خروج (Exodus) ميں ذكر ہے۔ اس كے مطابق بنی اسرائيل كو فرعون كی غلامی سے نبی موسٰی نے آزاد كيا اور بحيرہ احمر پار كر کے جزيرہ نمائے سینا لے آئے۔
ابو القاسم محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب (12 ربیع الاول عام الفیل / 8 جون 570ء یا 571ء – 12 ربیع الاول 10ھ / 8 جون 632ء) مسلمانوں کے آخری نبی ہیں۔ اہل اسلام کے نزدیک محمد تمام مذاہب کے پیشواؤں سے کامیاب ترین پیشوا تھے۔ آپ کی کنیت ابوالقاسم تھی۔ مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ کی طرف سے انسانیت کی جانب بھیجے جانے والے انبیا اکرام کے سلسلے کے آخری نبی ہیں جن کو اللہ نے اپنے دین کی درست شکل انسانوں کی جانب آخری بار پہنچانے کیلئے دنیا میں بھیجا۔ انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دنیا کی تمام مذہبی شخصیات میں سب سے کامیاب شخصیت تھے۔
سلطنت عثمانیہ (یا خلافت عثمانیہ 1517ء سے 1924ء تک) (عثمانی ترک زبان: "دولت عالیہ عثمانیہ"، ترک زبان: Osmanlı Devleti) سنہ 1299ء سے 1922ء تک قائم رہنے والی ایک مسلم سلطنت تھی جس کے حکمران ترک تھے۔ اپنے عروج کے زمانے میں (16 ویں – 17 ویں صدی) یہ سلطنت تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی اور جنوب مشرقی یورپ، مشرق وسطٰی اور شمالی افریقہ کا بیشتر حصہ اس کے زیر نگیں تھا۔ اس عظیم سلطنت کی سرحدیں مغرب میں آبنائے جبرالٹر، مشرق میں بحیرۂ قزوین اور خلیج فارس اور شمال میں آسٹریا کی سرحدوں، سلوواکیہ اور کریمیا (موجودہ یوکرین) سے جنوب میں سوڈان، صومالیہ اور یمن تک پھیلی ہوئی تھی۔ مالدووا، ٹرانسلوانیا اور ولاچیا کے باجگذار علاقوں کے علاوہ اس کے 29 صوبے تھے۔
بیت المقدس 583ھ بمطابق 1187ء میں ایوبی سلطان صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں صلیبیوں کی شکست کے ساتھ فتح ہوا۔ صلاح الدین ایوبی نے جنگ حطین میں کامیابی حاصل کرنے کے بیت المقدس کا محاصرہ کر لیا اور 20 ستمبر سے 2 اکتوبر تک جاری محاصرے کے بعد شہر فتح کر لیا۔ فتح بیت المقدس کے بعد سلطان نے کسی قسم کا خون خرابا نہیں کیا جس کا مظاہرہ پہلی صلیبی جنگ کے موقع پر صلیبیوں نے کیا تھا۔
غزہ فلسطین کا ایک علاقہ ہے جس کی سرحد مصر سے ملتی ہے۔ اس علاقہ کو اسرائیل نے گھیرے میں لے رکھا ہے اور اس کی تجارت اور خارجی معاملات بھی آزاد نہیں۔ اس علاقے میں اسرائیل نے 38 سال قبضہ کرنے کے بعد چھوڑا تو اس کے بعد ظلم و ستم کا بازار گرم رکھا جیسا کہ 2008ء-2009ء میں اسرائیل کے غزہ پر حملے میں دیکھا جا سکتا ہے جہاں، اسرائیل نے فلسطینیوں پر چوہوں اور خرگوشوں کی طرح کثیف غیرعامل دھاتی دھماکا خیز مواد کا تجربہ کیا ہے اور حملہ کے پہلے ہی دن 500 فلسطینیوں کا قتل عام کیا اور جنگ کے 12 دن بعد یہ تعداد 1000 سے بڑھ گئی۔
حضرت مولانا ڈاکٹر سید محمد عبدالقادر آزاد 1939ء کو برصغیر پاک و ہند کی مشہور مجذوب شخصیت اور پیر حضرت سید محمد سعید احمد شاہ پیرزادہ عرف پیر پٹھان، پیر افغانی کے ہاں پیدا ہوئے، ولادت کے بعد آپ کا نام سید عبدالقادر آزاد تجویز کیا گیا۔ جونہی یہ بچہ گود میں آیا تو خاندان کے ہر فرد نے آپ کے بارے پیران پیر حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کے سلسلہ تصوف کا وارث بننے کی نوید دی۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم حضرت مولانا پیر سید محمد سعیداحمد شاہ پیرزادہ سے حاصل کی ۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے مدرسہ قاسم العلوم ملتان سے سند فراغت حاصل کی۔ مولانا ڈاکٹر سید محمد عبدالقادر آزاد زندگی بھر علم و حکمت کے حصول میں منہمک رہے۔ آپ نے’’ حکیم الامت مجدد ملت مولانا اشرف علی تھانوی بحیثیت مفسر قران ‘‘میں پی ایچ ڈی کر کے ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ ریاست بہاولپور میں آپ نے مرکزی درس گاہ اسلامی مشن سے تدریسی خدمات کی ابتداء کی۔ آپ اس ادارہ کے مہتمم اور پرنسپل کے فرائض بھی سر انجام دیتے رہے ۔ 1970 ء میں آپ لاہور تشریف لاے اور مشہور عالمگیری بادشاہی مسجد کی خطابت کے فرائض آپ کے سپرد کئے گئے۔ یاد رہے جب سے بادشاہی مسجد لاہور اور جامعہ مسجد دہلی مغل بادشاہوں نے تعمیر کیں تب سے مغل بادشاہوں نے یہ دونوں مساجد پیر پٹھان پیر افغانی کبیروالا شریف کے حوالے کر دیں کیونکہ پچھلے چودہ سو سالوں سے اس خاندان کی دین اسلام کے لیے خدمات قابل قدر تھیں۔ عالمگیری بادشاہی مسجد کی امامت و خطابت سب سے زیادہ ڈاکٹر حضرت محمد عبدالقادر آزاد کی ممد و معاون ثابت ہوئی وہ ان کی بے نیازی سرچشمی اور استغناء تھا۔ انہوں نے دین کی خدمت کیلئے اعلیٰ طبقوں اور جدید تعلیم یافتہ حضرات میں تبلیغ و اصلاح دین کو اپنا نصب العین بنایا ۔ مولانا آزاد ایک محنتی اورا نتھک انسان تھے‘ بیکار بیٹھنا ان کیلئے امر محال تھا۔مولانا آزاد سادگی ‘ نفاست ،پاکیزگی متانت کا مزاج رکھتے تھے ۔ آپ کا انداز گفتگو دلکش ‘ خندہ جبیں اور زبان میں میٹھاس تھی۔ ضرورت مند وں کا مجمع رہائش گاہ پر ہر وقت موجود رہتا ،دسترخواں ہر وقت بچھا رہتا ۔کوئی سائل کوئی سفارشی سب کو جیب میں ہاتھ ڈال کر جو نکلتا مٹھی بند کر کے دے دیتے ۔ جُبہ اور دستار والے بھی آپ کے پاس آتے اور شرٹ پتلون والے سب کے ساتھ محبت کا سلوک فرماتے ۔
سلجوقی سلطنت 11ویں تا 14ویں صدی عیسوی کے درمیان میں مشرق وسطی اور وسط ایشیا میں قائم ایک مسلم بادشاہت تھی جو نسلا اوغوز ترک تھے۔ مسلم تاریخ میں اسے بہت اہمیت حاصل ہے کیونکہ یہ دولت عباسیہ کے خاتمے کے بعد عالم اسلام کو ایک مرکز پر جمع کرنے والی آخری سلطنت تھی۔ اس کی سرحدیں ایک جانب چین سے لے کر بحیرۂ متوسط اور دوسری جانب عدن لے کر خوارزم و بخارا تک پھیلی ہوئی تھیں۔ ان کا عہد تاریخ اسلام کا آخری عہد زریں کہلا سکتا ہے اسی لیے سلاجقہ کو مسلم تاریخ میں خاص درجہ و مقام حاصل ہے۔ سلجوقیوں کے زوال کے ساتھ امت مسلمہ میں جس سیاسی انتشار کا آغاز ہوا اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اہلیان یورپ نے مسلمانوں پر صلیبی جنگیں مسلط کیں اور عالم اسلام کے قلب میں مقدس ترین مقام (بیت المقدس) پر قبضہ کر لیا۔
اسے مغربی دیوار (عبرانی:הכותל המערבי) بھی کہا جاتا ہے، قدیم شہر یروشلم میں واقع یہودیوں کی اہم مذہبی یادگار ہے۔ یہودیوں کے بقول 70ء کی تباہی سے ہیکل سلیمانی کی ایک دیوار کا کچھ حصہ بچا ہوا ہے جہاں دو ہزار سال سے یہودی زائرین آ کر رویا کرتے تھے اسی لیے اسے "دیوار گریہ" کہا جاتا ہے جبکہ مسلمان اس کو دیوارِ براق کہتے ہیں۔
آئرن ڈوم (عبرانی میں :כיפת ברזל kipat barzelانگریزی میں :Iron Dome) اسرائیل کا بنایا گیا تین سو کلومیٹر تک مارکرنے والا اینٹی میزائل سسٹم جسے حزب اللہ اور حماس کی جانب سے پھینکے جانے والے راکٹوں کو تباہ کرنے کے لیے استعمال کیا گیا اور اسے اسرائیلی کمپنی Rafael Advanced Defense Systems نے بنایا ہے۔
ابو حفص عمر بن خطاب عدوی قرشی ملقب بہ فاروق (پیدائش: 586ء تا 590ء کے درمیان مکہ میں- وفات: 6 نومبر، 644ء مدینہ میں) ابو بکر صدیق کے بعد مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ راشد، محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خسر اور تاریخ اسلام کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک ہیں۔ عمر بن خطاب عشرہ مبشرہ میں سے ہیں، ان کا شمار علما و زاہدین صحابہ میں ہوتا تھا۔ ابو بکر صدیق کی وفات کے بعد 23 اگست سنہ 634ء مطابق 22 جمادی الثانی سنہ 13ھ کو مسند خلافت سنبھالی۔ عمر بن خطاب ایک باعظمت، انصاف پسند اور عادل حکمران مشہور ہیں، ان کی عدالت میں مسلم و غیر مسلم دونوں کو یکساں انصاف ملا کرتا تھا، عمر بن خطاب کا یہ عدل و انصاف انتہائی مشہور ہوا اور ان کے لقب فاروق کی دیگر وجوہ تسمیہ میں ایک وجہ یہ بھی بنی۔
فحش فلم، بالغ فلم، جنسی فلم، ننگی فلم، گندی فلم، عریاں فلم، ٹرپل یا ٹرپل ایکس فلم ایک ایسی فلم کو کہتے ہیں جس ميں جنسی تصورات کو ناظرین کی جنسی تحریک اور شہوانی لطف کے لیے دکھایا جاتا ہے۔ ایسی فلموں میں شہوانی ترغیب والا مواد دکھایا جاتا ہے جیسا کہ عریانی اور کھلے عام جنسی اعمال وغیرہ۔ فحش فلموں کی صنعت کے کارکن اسے بالغ فلمیں یا بالغ صنعت کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ برصغیر میں بالغ فلم کو بلیو فلم بھی کہا جاتا ہے۔ فحش فلموں کو بلیو پرنٹ یا بلیو پرنٹ فلمیں کہنا ایک غلط العام ہے۔ بلیو پرنٹ کا اصل مطلب ہے تکنیکی نقشہ۔
شلیش ڈاٹ امریکا میں واقعہ ویب سائٹ ہے جو تکنیکی، سائنسی، سیاسی اور دوسرے موضوعات پر خبروں اور واقعات کو بحث کے لیے پیش کرتا ہے اور قارین اس موضوع پر اپنی رائے لکھتے ہیں۔ قاریین کی رائے کو دوسرے ارکان نقاط عطا کرتے ہیں جس سے رائے کی اہمیت بڑھتی ہے اور وہ موقع پر نمایاں نظر آتی ہے۔ چونکہ ارکان کی زیادہ تعداد خاص طبقات سے تعلق رکھتی ہے اس لیے اہم سمجھی جانے والی آراء میں واضح طرفداری یا تعصب نظر آتا ہے۔ مثال کے طور پر کچھ کہانیاں:
قرآن، قرآن مجید یا قرآن شریف (عربی: القرآن الكريم) دین اسلام کی مقدس و مرکزی کتاب ہے جس کے متعلق اسلام کے پیروکاروں کا اعتقاد ہے کہ وہ کلام الہی ہے اور اسی بنا پر یہ انتہائی محترم و قابل عظمت کتاب ہے۔ اسے پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی کے ذریعے اتارا گیا۔ یہ وحی اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتے حضرت جبرائیل علیہ السلام لاتے تھے جیسے جیسے قرآن مجید کی آیات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوتیں آپ صلی علیہ وآلہ وسلم اسے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو سنا اور ان آیات کے مطالب و معانی سمجھا دیتے۔ کچھ صحابہ کرام تو ان آیات کو وہیں یاد کر لیتے اور کچھ لکھ کر محفوظ کر لیتے۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن ہر قسم کی تحریف سے پاک سے محفوظ ہے، قرآن میں آج تک کوئی کمی بیشی نہیں ہو سکی اور اسے دنیا کی واحد محفوظ کتاب ہونے کی حیثیت حاصل ہے، جس کا حقیقی مفہوم تبدیل نہیں ہو سکا اور تمام دنیا میں کروڑوں کی تعداد میں چھپنے کے باوجود اس کا متن ایک جیسا ہے اور اس کی تلاوت عبادت ہے۔ نیز صحف ابراہیم، زبور اور تورات و انجیل کے بعد آسمانی کتابوں میں یہ سب سے آخری کتاب ہے اور سابقہ آسمانی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اب اس کے بعد کوئی آسمانی کتاب نازل نہیں ہوگی۔ قرآن کی فصاحت و بلاغت کے پیش نظر اسے لغوی و مذہبی لحاظ سے تمام عربی کتابوں میں اعلیٰ ترین مقام دیا گیا ہے۔ نیز عربی زبان و ادب اور اس کے نحوی و صرفی قواعد کی وحدت و ارتقا میں بھی قرآن کا خاصا اہم کردار دکھائی دیتا ہے۔ چنانچہ قرآن کے وضع کردہ عربی زبان کے قواعد بلند پایہ عرب محققین اور علمائے لغت مثلاً سیبویہ، ابو الاسود الدؤلی اور خلیل بن احمد فراہیدی وغیرہ کے یہاں بنیادی ماخذ سمجھے گئے ہیں۔
امیر غازی ارطغرل بن سلیمان شاہ قایوی ترکمانی (عثمانی ترک زبان: ارطغرل) (وفات: 1280ء) ترک اوغوز کی شاخ قائی قبیلہ کے سردار سلیمان شاہ کے بیٹے اور سلطنت عثمانیہ کے بانی عثمان اول کے والد تھے۔ ولادت کا زمانہ سنہ 1191ء کے آس پاس کا ہے جبکہ سنہ وفات 1281ء بتائی جاتی ہے اور مدفن اناطولیہ کے شہر سوغوت میں واقع ہے۔ ارطغرل غازی ایک بہادر، نڈر، بے خوف، عقلمند، دلیر، ایماندار اور بارعب سپاہی تھے۔ وہ ساری عمر سلجوقی سلطنت کے وفادار رہے۔ سلطان علا الدین کیقباد اول نے ارطغرل کی خدمات سے متاثر ہو کر ان کو سوغوت اور اس کے نواح میں واقع دوسرے شہر بطور جاگیر عطا کیے اور ساتھ ہی "سردار اعلیٰ" کا عہدہ بھی دیا۔ اس کے بعد آس پاس کے تمام ترک قبائل ان کے ماتحت آگئے تھے۔
جماع کا لفظ عربی اساس جمع سے اخذ کیا جاتا ہے اور اس کے معنی جمع ہو جانا یا باہم ملنا کے ہوتے ہیں جبکہ اس باھم ملنے سے عمومی طور پر مراد جنسی طور پر ملنے کی ہوتی ہے۔، اسی مفہوم کو عام طور پر جنسی روابط، مباشرت، ہم بستری وغیرہ کے ناموں سے بھی اختیار کیا جاتا ہے لیکن چونکہ یہ الفاظ نسبتاً سخت و معیوب ہیں لہذا طبی و دیگر ویکیپیڈیا کے مضامین میں جماع کی اصطلاح کو منتخب کیا گیا ہے جس کو انگریزی میں sexual intercourse اور طب میں coitus یا پھر copulation بھی کہا جاتا ہے۔ اور طبی تعریف کی رو سے مؤنث و مذکر کے مابین ایسا رابطہ کے جس میں مذکر کے جسم سے منی (sperm) کا انتقال، مؤنث کے جسم کی جانب واقع ہو جماع کہلایا جاتا ہے۔ جماع کے برعکس، جنس (sex) ایک ایسا لفظ ہے جو متعدد استعمالات رکھتا ہے؛ طب میں عام طور پر جنس سے مراد مؤنث یا مذکر صنف کی لی جاتی ہے۔ جبکہ جنس کا لفظ، بلا تفریقِ جنسِ مؤنث و مذکر، دو (یا دو سے زائد) افراد کے درمیان اس قسم کے کسی بھی رابطے یا تعلق ظاہر کرتا ہے جس میں دونوں یا کسی ایک کے تولیدی اعضا کو تحریک ملے
محمد بن اسماعيل بخاری بخارا میں پیدا ہوئے گو ان کے والد بھی ایک محدث تھے اور امام مالک کے شاگرد تھے مگر احادیث رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جانچ پڑتال، پھر ان کی جمع و ترتیب پر آپ کی مساعی جمیلہ کو آنے والی تمام مسلمان نسلیں خراج تحسین پیش کرتی رہیں گی۔ آپ کا ظہور پر سرور عین اس قرآنی پیش گوئی کے مطابق ہوا جو اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ جمعہ میں فرمائی تھی۔
خلافت راشدہ کے چوتھے خلیفہ اور اہل تشیع کے پہلے امام علی بن ابی طالب پر خارجی ابن ملجم نے 26 جنوری 661ء بمطابق 19 رمضان، 40ھ کو کوفہ کی مسجد میں زہر آلود تلوار کے ذریعہ نماز کے دوران میں قاتلانہ حملہ کیا۔ اس حملہ کی وجہ سے علی زخمی ہوئے، اگلے دو دن تک آپ زندہ رہے لیکن زخم گہرا تھا، چنانچہ جانبر نہ ہو سکے اور 21 رمضان 40ھ کو وفات پائی۔ آپ تیسرے خلیفہ تھے جن کو خلافت کے دوران میں قتل کیا گیا، آپ سے پہلے عمر بن خطاب اور عثمان بن عفان کو قتل کیا جا چکا تھا۔
خلافت راشدہ کے خاتمے کے بعد عربوں کی قائم کردہ دو عظیم ترین سلطنتوں میں سے دوسری سلطنت خلافت عباسیہ ہے۔خاندان عباسیہ کے دو بھائیوں السفاح اور ابو جعفر المنصور نے خلافت قائم کی جس کا قیام 750ء (132ھ) میں عمل میں آیا اور 1258ء (656ھ) میں اس کا خاتمہ ہو گیا۔ یہ خلافت ایک تحریک کے ذریعے قائم ہوئی جو بنو امیہ کے خلاف تھی۔ تحریک نے ایک عرصے تک اپنے مقاصد کے حصول کے لیے جدوجہد کی اور بالآخر بنو امیہ کو شکست دینے کے بعد بر سر اقتدار آگئی۔
صیہونیت (عبرانی: צִיּוֹנוּת تصیہونت عبرانی تلفظ: [t͡sijo̞ˈnut] از ) قومی تحریک ہے جو یہودی لوگوں کی دوبارہ یہودی وطن یعنی ملک اسرائیل (جو کنعان، ارض مقدس اور فلسطین پر مشتمل ہے)۔ قیام کی حمایت کرتی ہے جدید صیہونیت انیسویں صدی کے اخائر میں وسطی اور مشرقی یورپ میں ایک یہودی قومی احیاء کی تحریک کے طور پر ابھر کر سامنے آئی، جس نے سام دشمنی کے رد عمل اور اخراجی قوم پرست تحریکوں کے جواب میں جنم لیا۔ اس کے بعد جلد ہی، اس کے زیادہ تر رہنماؤں نے اس تحریک کا مقصد مطلوبہ ریاست فلسطین اور بعد میں سلطنت عثمانیہ کے زیر حکومت علاقوں میں قائم کرنے سے وابستہ کر لیا۔1948ء تک صیہونیت کے بنیادی مقاصد میں دوبارہ یہود کو ارض مقدسہ میں تاریخی خود مختاری دلوانے، اجتماعِ جلاوطن یہود ، سام دشمنی، امتیازی سلوک اور یہود پرظلم و ستم سے آزادی پر مرکوز تھے جس کا سامنہ انہوں نے یہودی جلاوطنی میں کیا تھا۔ 1948ء میں اسرائیل کی ریاست کے قیام کے بعد صیہونیت بنیادی طور پر منجانب اسرائیل اس کی مسلسل موجودگی، توسیع اور دفاع کے خطرات سے نمٹنے کے لیے وکالت اور حمایت کا نام ہے۔
مملکت سعودی عرب (عربی: المملكة العربية السعودية ) جزیرہ نمائے عرب میں سب سے بڑا ملک ہے۔ شمال مغرب میں اس کی سرحد اردن، شمال میں عراق اور شمال مشرق میں کویت، قطر اور بحرین اور مشرق میں متحدہ عرب امارات، جنوب مشرق میں سلطنت عمان، جنوب میں یمن سے ملی ہوئی ہے جبکہ خلیج فارس اس کے شمال مشرق اور بحیرہ قلزم اس کے مغرب میں واقع ہے۔ یہ حرمین شریفین کی سرزمین کہلاتی ہے کیونکہ یہاں اسلام کے دو مقدس ترین مقامات مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ موجود ہیں۔
سلطنت عثمانیہ کے سلاطین کی فہرست
آل عثمان کی حکومت جولائی 1299ء میں قائم ہوئی اور یکم نومبر 1922ء تک قائم رہی۔ 623 سالوں تک 36 عثمانی سلاطین نے فرمانروائی کی۔ آخری عثمانی سلطان عبدالمجید ثانی تھے جنہیں رسمی طور پر خلیفہ مقرر کیا گیا تھا۔ سلطنت عثمانیہ کے آخری خلیفہ و سلطان عبدالمجید ثانی کو 3 مارچ 1924ء کو معزول کر دیا گیا اور سلطنت عثمانیہ ختم ہو گئی۔
نعمان ابن ثابت بن زوطا بن مرزبان (پیدائش: 5 ستمبر 699ء– وفات: 14 جون 767ء) (فارسی: ابوحنیفه،عربی: نعمان بن ثابت بن زوطا بن مرزبان)، عام طور پر آپکو امام ابو حنیفہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ آپ سنی حنفی فقہ (اسلامی فقہ) کے بانی تھے۔ آپ ایک تابعی، مسلمان عالم دین، مجتہد، فقیہ اور اسلامی قانون کے اولین تدوین کرنے والوں میں شامل تھے۔ آپ کے ماننے والوں کو حنفی کہا جاتا ہے۔ زیدی شیعہ مسلمانوں کی طرف سے بھی آ پ کو ایک معروف اسلامی عالم دین اور شخصیت تصور کیا جا تا ہے۔ انہیں عام طور پر "امام اعظم" کہا جاتا ہے۔
1948ء میں ریاست اسرائیل کے قیام کے ساتھ ہی عرب اور اسرائیلی میں پہلی بار ایک دوسرے سے ٹکرائے اور اس ٹکراؤ کو عرب اسرائیل جنگ 1948ء کا نام دیا گیا جبکہ اسرائیلی اسے "جنگ آزادی" کہتے ہیں۔ اسرائیل نے فلسطین پر قابض ہوتے ہی علاقے کی عرب اقلیت پر ظلم کے پہاڑ توڑ ڈالے جس کی وجہ سے عربوں کو مجبوراً اپنا وطن چھوڑنا پڑا۔ بے خانماں عربوں کی تعداد جلد ہی 10 لاکھ تک پہنچ گئی۔ عرب پوری طرح مسلح یہودی دستوں کا مقابلہ نہ کرسکے اور 15 مئی 1948ء تک اندرون فلسطین عربوں کی مزاحمت ختم ہو گئی۔ 14 اور 15 مئی کی درمیانی شب 12 بجے یہودیوں نے تل ابیب میں ریاست اسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا۔
ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال (ولادت: 9 نومبر 1877ء - وفات: 21 اپریل 1938ء) بیسویں صدی کے ایک معروف شاعر، مصنف، قانون دان، سیاستدان اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھے۔ اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے اور یہی ان کی بنیادی وجہ شہرت ہے۔ شاعری میں بنیادی رجحان تصوف اور احیائے امت اسلام کی طرف تھا۔ "دا ریکنسٹرکشن آف ریلیجس تھاٹ ان اسلام" کے نام سے انگریزی میں ایک نثری کتاب بھی تحریر کی۔ علامہ اقبال کو دور جدید کا صوفی سمجھا جاتا ہے۔[حوالہ درکار] بحیثیت سیاست دان ان کا سب سے نمایاں کارنامہ نظریۂ پاکستان کی تشکیل ہے، جو انہوں نے 1930ء میں الہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پیش کیا تھا۔ یہی نظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا۔ اسی وجہ سے علامہ اقبال کو پاکستان کا نظریاتی باپ سمجھا جاتا ہے۔ گو کہ انہوں نے اس نئے ملک کے قیام کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن انہیں پاکستان کے قومی شاعر کی حیثیت حاصل ہے۔
اسلام مسیحیت کے بعد دنیا کا دوسرا سب سے بڑا مذہب ہے۔ 2010 کے جائزہ کے مطابق دنیا بھر میں مسلم آبادی 1.92 بلین افراد پر مشتمل ہے، اس لحاظ سے دنیا کی 29 فیصد آبادی صرف سنی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔اسلام مشرق وسطی، شمالی افریقہ اور ایشیا کے بعض علاقوں میں غالب اکثریت کا دین ہے۔ جبکہ چین، بلقان، مشرقی یورپ اور روس میں بڑی مسلم آبادی موجود ہے۔ نیز مسلم مہاجرین کی کثیر تعداد دنیا کے دیگر حصوں مثلا مغربی یورپ میں آباد ہے، جہاں مسیحیت کے بعد اسلام دوسرا سب سے بڑا مذہب ہے جبکہ مسلمان مجموعی آبادی کے محض 6 فیصد پر مشتمل ہے۔مسلم اکثریت والے 57 ممالک، جن میں دنیا بھر میں مسلم آبادی کے لحاظ سے 62 فیصد یعنی تقریباً 1 بلین مسلمان ایشیا میں رہائش پزیر ہیں۔ سب سے بڑا مسلم ملک انڈونیشیا میں 12.7 فیصد، پاکستان میں 11.0 فیصد، بھارت میں 10.9 فیصد اور بنگلہ دیش میں 9.2 فیصد مسلمان آباد ہیں۔
ابراہیم علیہ السلام وہ پہلے پیغمبر تھے جن کو اللہ نے مُسلمان نبی پیغمبر ابو الانبیاء، خلیل اللہ امام الناس اور حنیف کہہ کر پُکارا۔اللہ تعالی نے اپنے اس دوست برگزیده اور پیارے نبی کو قرآن مجید میں امتہ (النحل : 120) امام الناس (البقره: 124) حنیف اور مسلم (آل عمران: 67) کے ناموں سے بار بار بار کیا ہے۔ اکثر انبیائے کرام انہی کی اولاد سے ہیں۔ابراہیم علیہ السلام کے نام کی وجہ تسمیہ کے بارے میں بائبل کا بیان ہے کہ خدا تعالی ان سے مخاطب ہو کر کہتا ہے۔ دیکھ میرا عہد تیرے ساتھ ہے اور تو بہت قوموں کا باپ ہو گا۔ اور تیرا نام ابرام نہیں بلکہ ابراہام ہو گا۔ کیونکہ میں نے تجھے قوموں کا باپ بنایا ہے۔ (پیدائش 170:5)اکثر ماہرین کے نزدیک ابراہام یا ابراہیم ؑ بھی لفظ ہے۔ ہو سکتا ہے کہ پہلے آپ کا نام ابراہم ہو اور پھر ابراہام یا ابو رہام ہو گیا ہو۔مُسلمان اُن کو خلیل اللہ (اللہ کا دوست) کہتے ہیں۔ ابراہیم کی نسل سے کئی پیغمبر پیدا ہوئے، جن کا تذکرہ عہدنامہ قدیم میں ہے۔ اسلام کی کتاب قرآن مجید میں بھی بہت سارے ایسے انبیا کا ذکر ہے جو ابراہیم کی نسل میں سے تھے۔ اسلام کے آخری نبی مُحمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی ابراہیم کی نسل میں سے ہیں۔شرک، ستارہ پرستی اور بت سازی کے خلاف اپنی قوم اور اوروں کے ساتھ ان کا مجادلہ و محاجہ بڑے زور سے پیش کیا گیا ہے۔ ابراہیم کا بچپن میں ہی رشد عطا کیا گیا اور قلب سلیم بھی عنایت فرمایا گیا۔ تکوینی عجائبات اور ملکوت السمٰوت والارض ان کے سامنے تھے۔ انہیں کے مشاہدے سے اُن کو یقین کامل حاصل ہوا۔ بت پرستی کے خلاف ابراہیم کے جہاد کا ذکر بھی قران کریم میں کئی بار آیا ہے۔قرآن حکیم میں حضرت ابراہیم ؑ اور آذر کے اختلاف عقائد کو جس طرح نمایاں کیا گیا ہے اور جس طرح آپ اپنی قوم کے شرک سے متنفر اور متصادم ہوئے۔ اس سے ہم آپ کی عظمت و جلالت کی حقیقت کو بھی پاسکتے ہیں۔ اور اپنے لیے شمع ہدایت بھی روشن کر سکتے ہیں۔ اس وجہ سے مسلمانوں کو ملت براہیمی ہونے پر فخر ہے۔ ان کے بارے میں یہ توکہیں وضاحت نہیں ہوئی کہ کیا وحی ان پر نازل ہوئی تھی یا ان کی بعثت محض روحانی تھی؟ البتہ قرآن مجید میں ایک جگہ اس امر کی تصدیق ہوئی ہے کہ اللہ تعالی آپ سے ہمکلام تھا۔ اہل تاریخ کے نزدیک متعدد صحیفے تھے جو ابراہیم پر نازل ہوئے۔ ایک صحیفہ جو ان کی طرف سے منسوب ہے یونانی سے انگریزی میں ترجمہ ہو کر شائع ہو چکا ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ کے دین کے بارے میں قرآن مجید میں کئی جگہ پر ارشار ہوتا ہے کہ آپ موحد مسلم اورراست رو تھے۔ ارشاد ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے: ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ”پھر ہم نے تیری طرف (حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی طرف) وحی کی کہ ابراہیم ؑ راست رو (مسلم) کے دین پر چل اور وہ مشرکوں میں سے نہیں تھا “ اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے: يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تُحَآجُّونَ فِي إِبْرَاهِيمَ وَمَا أُنزِلَتِ التَّورَاةُ وَالإنجِيلُ إِلاَّ مِن بَعْدِهِ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ هَاأَنتُمْ هَؤُلاء حَاجَجْتُمْ فِيمَا لَكُم بِهِ عِلمٌ فَلِمَ تُحَآجُّونَ فِيمَا لَيْسَ لَكُم بِهِ عِلْمٌ وَاللّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ مَا كَانَ إِبْرَاهِيمُ يَهُودِيًّا وَلاَ نَصْرَانِيًّا وَلَكِن كَانَ حَنِيفًا مُّسْلِمًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْرَاهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ وَهَـذَا النَّبِيُّ وَالَّذِينَ آمَنُواْ وَاللّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ ”اے اہل کتاب! تم ابراہیم ؑ کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو۔ حالانکہ توریت اور انجیل اس کے بعد ہی اتاری گئیں۔ پھر کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے۔ سنو!
امیر معاویہ یا معاویہ اول (عربی: معاوية بن أبي سفيان، 597ء، 603ء یا 605ء – اپریل 680ء) اموی خلافت کے بانی تھے اور 661ء سے اپنی وفات 680ء تک خلیفہ رہے۔ وہ نبی محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے 30 سال بعد خلیفہ بن گئے، ان سے قبل خلفائے راشدین اور حسن ابن علی خلیفہ رہے۔ اگرچہ ان کے دور میں انفاص و تقوی کو دور خلفائے راشدین کے مقابلے میں کمتر سمجھا جاتا ہے، لیکن نمو پزیر اسلام میں امیر معاویہ پہلے مسلمان خلیفہ ہیں جن کا نام سرکاری دستاویزات، سکوں اور کتبوں پر کندہ ہوا۔ امیر معاویہ کاتبین وحی میں سے تھے۔
اہل تشیع یا شیعیت (عربی: شيعة) اسلام کا دوسرا بڑا فرقہ ہے۔ اہل تشیع رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد فقط حضرت علی بن ابی طالب کی امامت کے قائل ہیں اور صرف انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا جانشین اور پہلا معصوم امام مانتے ہیں۔ شیعہ یا اہل تشیع نظریہ خلافت کو تسلیم نہیں کرتے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دعوت ذوالعشیرہ جو حدیث یوم الدار یا حدیث العشیرہ والدار کے نام سے مشہور ہے اور خطبہ حجتہ الوداع کے موقع پر علی بن ابی طالب کو اپنا جانشین مقرر کر دیا تھا۔ دعوت ذوالعشیرہ کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ
رُویّت کے لغوی معنی نظر آنا ، نظارہ ، دِیدار ، جاننا کے ہوتے ہیں۔ رویت ہلال عموما پہلی تاریخ کے چاند کے دیکھنے کو کہتے ہیں۔ اسلام میں اس سے مراد پہلی تاریخ کے چاند کو دیکھ کر اسلامی مہینے کا اعلان کرنا ہے۔ پاکستان میں چاند دیکھ کر اسلامی مہینے کےآغاز کا اعلان کرنے کی ذمہ داری (رویت ہلال کمیٹی، پاکستان) کے سپرد ہے۔
ایڈولف ہٹلر 20 اپريل 1889ء كو آسٹريا كے ايك غريب گھرانے ميں پيدا ہوا۔ اس کی تعليم نہايت كم تھی۔ آسٹريا كے دارالحكومت ويانا كے كالج آف فائن آرٹس ميں محض اس لیے داخلہ نہ مل سكا كہ وہ ان كے مطلوبہ معيار پر نہيں اترتا تھا۔ 1913ء ميں ہٹلر جرمنی چلا آيا جہاں پہلی جنگ عظيم ميں جرمنی کی طرف سے ايك عام سپاہی کی حيثيت سے لڑا اور فوج ميں اس لیے ترقی حاصل نہ كر سكا كہ افسران كے نزديك اس ميں قائدانہ صلاحيتوں كی كمی تھی۔ 1919ء ميں ہٹلر جرمنی کی وركرز پارٹی كا ركن بنا جو 1920ء ميں نيشنل سوشلسٹ جرمن وركرز پارٹی (نازی) كہلائی۔ 1921ء ميں وہ پارٹی كا چيئرمين منتخب ہوا۔ 1930ء ميں منعقد ہونے والے انتخابات ميں نازی پارٹی جرمنی کی دوسری بڑی پارٹی بن گئی۔ یقینا ہٹلر خوبیوں اور خامیوں کا عجیب پیکر تھا
بنو امیہ قریش کا ایک ممتاز اور دولت مند قبیلہ تھا۔ اسی خاندان نے خلافت راشدہ کے بعد تقریباً ایک صدی تک ملوکیت سنبھالی اور اسلامی فتوحات کو بام عروج پر پہنچایا۔ جس کی سرحدیں ایک طرف چین اور دوسری طرف اسپین تک پھیلی ہوئی تھیں۔ البتہ مرکزی خلافت کے خاتمے کے باوجود اس خاندان کا ایک شہزادہ عبدالرحمن الداخل اسپین میں حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوا۔ جہاں 1492ء تک اموی سلطنت قائم رہی۔
اسلامی جمہوریۂ ایران (عرف عام: ایران، سابق نام: فارس، موجودہ فارسی نام: جمہوری اسلامی ایران) جنوب مغربی ایشیا کا ایک ملک ہے، جو مشرق وسطی میں واقع ہے۔ ایران کی سرحدیں شمال میں آرمینیا، آذربائیجان اور ترکمانستان، مشرق میں پاکستان اور افغانستان اور مغرب میں ترکی اور عراق (کردستان علاقہ) سے ملتی ہیں۔ مزید برآں خلیج فارس اور خلیج عمان واقع ہیں۔ اسلام ملک کا سرکاری مذہب اور فارسی قومی زبان ہے اور اس کے سکے کو ریال کہتے ہیں۔ فارسوں، آزربائیجان، کردوں (کردستانی) اور لروں (لرستانی) ملک میں سب سے زیادہ اہم نسلی گروہ ہیں ۔ ایران کا دار السلطنت تہران ہے جو کوہ البرج کے قریب واقع ہے۔ ایران جغرافیائ اعتبار سے بہت اہم ہے قدرتی گیس, تیل اور قیمتی معدنیات اس کےدامن میں پوشیدہ ہیں۔ رقبہ کے اعتبار سے دنیا میں 17ویں نمر پر شمار کیا جاتا ہے ایران دنیاکی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک ہے۔ ملک کی تاریخ ہزاروں سالوں پر محیط ہےجو مدائن سلطنت ٦٧8 ق.م سے لے کرصفوی اور پہلوی سلطنت تک پھیلی ہوئی ہے۔یہ ملک اپنے تہذیب تمدن کے اعتبار سے ایشیا میں تیسرے اور دنیا میں گیارہویں درجے پر قابض ہے.
جنگ احد 17 شوال 3ھ (23 مارچ 625ء) میں مسلمانوں اور مشرکینِ مکہ کے درمیان احد کے پہاڑ کے دامن میں ہوئی۔ مشرکین کے لشکر کی قیادت ابوسفیان کے پاس تھی اور اس نے 3000 سے زائد افراد کے ساتھ مسلمانوں پر حملہ کی ٹھانی تھی جس کی باقاعدہ تیاری کی گئی تھی۔ مسلمانوں کی قیادت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کی۔ اس جنگ کے نتیجہ کو کسی کی فتح یا شکست نہیں کہا جا سکتا کیونکہ دونوں طرف شدید نقصان ہوا اور کبھی مسلمان غالب آئے اور کبھی مشرکین لیکن آخر میں مشرکین کا لشکر لڑائی ترک کر کے مکہ واپس چلا گیا۔
افغانستان وسط ایشیا اور جنوبی ایشیا میں واقع ایک زمین بند ملک ہے۔ Dari: Afġānestān [avɣɒnesˈtɒn])، جس کا سرکاری نام اسلامی جمہوریہ افغانستان ہے۔ اس کے جنوب اور مشرق میں پاکستان، مغرب میں ایران، شمال مشرق میں چین، شمال میں ترکمانستان، ازبکستان اور تاجکستان ہیں۔ اردگرد کے تمام ممالک سے افغانستان کے تاریخی، مذہبی اور ثقافتی تعلق بہت گہرا ہے۔ اس کے بیشتر لوگ مسلمان ہیں۔ یہ ملک بالترتیب ایرانیوں، یونانیوں، عربوں، ترکوں، منگولوں، برطانیوں، روسیوں اور اب امریکہ کے قبضے میں رہا ہے۔ مگر اس کے لوگ بیرونی قبضہ کے خلاف ہمیشہ مزاحمت کرتے رہے ہیں۔ ایک ملک کے طور پر اٹھارویں صدی کے وسط میں احمد شاہ ابدالی کے دور میں یہ ابھرا اگرچہ بعد میں درانی کی سلطنت کے کافی حصے اردگرد کے ممالک کے حصے بن گئے۔ 1919ء میں شاہ امان اللہ خان کی قیادت میں انگریزوں سے افغانستان کی آزادی حاصل کی۔ جس کے بعد افغانستان صحیح معنوں میں ایک ملک بن گیا۔ مگر انگریزوں کے دور میں اس کے بیشتر علاقے حقیقت میں آزاد ہی تھے اور برطانیہ کبھی اس پر مکمل قبضہ نہیں رکھ سکا۔ آج افغانستان امریکی قبضہ میں ہے اور بظاہر ایک آزاد ملک اور حکومت کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ افغانستان پچھلے پینتیس سال سے مسلسل جنگ کی سی حالت میں ہے جس نے اس کو تباہ کر دیا ہے اور اس کی کئی نسلوں کو بے گھر کر دیا ہے۔ یہ تباہی کبھی غیروں کے ہاتھوں ہوئی اور کبھی خانہ جنگی سے یہ صورت حال پیدا ہوئی۔ اگرچہ افغانستان کے پاس تیل یا دوسرے وسائل کی کمی ہے مگر اس کی جغرافیائی حیثیت ایسی ہے کہ وہ وسطی ایشیاء، جنوبی ایشیاء اور مشرقِ وسطیٰ کے درمیان میں ہے اور تینوں خطوں سے ہمیشہ اس کے نسلی، مذہبی اور ثقافتی تعلق رہا ہے اور جنگی لحاظ سے اور علاقے میں اپنا دباؤ رکھنے کے لیے ہمیشہ اہم رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ استعماری طاقتوں نے ہمیشہ اس پر اپنا قبضہ یا اثر رکھنے کی کوشش کی ہے۔ افغانستان کا زیادہ رقبہ پتھریلا پہاڑی علاقہ ہے اس وجہ سے کسی بھی بیرونی طاقت کا یہاں قبضہ رکھنا مشکل ہے اور لوگ زیادہ تر قبائلی ہیں اس لیے کبھی بیرونی طاقتوں کو تسلیم نہیں کرتے، نتیجہ یہ کہ اس ملک کو کبھی بھی لمبے عرصے کے لیے امن نصیب نہیں ہو سکا۔
اللہ کے ذاتی نام 'اللہ' کے علاوہ اللہ کے ننانوے صفاتی نام مشہور ہیں۔ انہیں کہا جاتا ہے۔ ان میں سے بیشتر قرآن میں موجود ہیں اگرچہ قرآن میں ننانوے کی تعداد مذکور نہیں مگر یہ ارشاد ہے کہ اللہ کو اچھے اچھے ناموں سے پکارا جائے۔ روایات میں بکثرت نیچے دیے گئے ننانوے صفاتی نام ملتے ہیں جن کے ساتھ ان کا اردو ترجمہ بھی درج کیا جا رہا ہے۔
2008ء-2009ء غزہ پر اسرائیلی حملے اسرائیل اور فلسطین کے اسلامی گروپ حماس و دیگر چھوٹے بڑے اسلامی گروپوں کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ ہے، جس کا آغاز 27 دسمبر، 2008ء کو اسرائیلی فضائی حملوں سے ہوا، جس کو اسرائیل نے آپریشن کاسٹ لیڈ (Operation Cast Lead) کا نام دیا، جس کے نتیجے میں 19 دسمبر، 2008ء کو چھ ماہ سے جاری عارضی جنگ بندی کا خاتمہ ہو گیا۔
قمری ہجری تقویم (ماہ و سال) کو بعض ممالک میں اسلامی تقویم بھی کہا جاتا ہے۔ ہجری تقویم سے مراد تواریخ کا حساب حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مدینہ کی طرف ہجرت سے لگانا ہے۔ اس میں جو مہینے استعمال ہوتے ہیں ان کا استعمال اسلام سے پہلے بھی تھا۔ جس میں سے محرم پہلا مہینہ ہے۔ چونکہ ایک قمری تقویم ہے لہذا اس کا ہر مہینہ چاند کو دیکھ کر شروع ہوتا ہے۔ سال کا کل دورانیہ 354.367056 دن اور ایک ماہ کا کل دورانیہ 29.530588 دن ہے۔
ہلاکو خان (پیدائش 15 اکتوبر 1218ء – وفات 8 فروری 1265ء) ایل خانی حکومت کا بانی اور منگول حکمران چنگیز خان کا پوتا تھا۔ چنگیز خان کے لڑکے تولی خان کے تین بیٹے تھے۔ ان میں ایک منگو خان تھا جو قراقرم میں رہتا تھا اور پوری منگول سلطنت کا خان اعظم تھا، دوسرا بیٹا قبلائی خان تھا جو چین میں منگول سلطنت کا بانی تھا جبکہ تیسرا لڑکا ہلاکو خان تھا۔ منگو خان کے زمانے میں شمال مغربی ایران میں ایک اسماعیلی گروہ حشاشین نے بڑا ہنگامہ اور خونریزی شروع کردی۔ یہ علاقہ منگولوں کے زیر حکومت تھا اس لیے وہاں کے باشندوں نے منگو خان سے اس ظلم و ستم کے خلاف فریاد کی۔ منگو خان نے اس شکایت پر اپنے بھائی ہلاکو خان کو 1256ء میں ایران کا حاکم بناکر روانہ کیا اور اس کو اسماعیلیوں کے خلاف کارروائی کرنے کا حکم دیا۔ ہلاکو نے اسی سال اسماعیلیوں کے مرکز قلعہ الموت پر قبضہ کرکے اسماعیلی حکومت کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دیا اور ان کے آخری بادشاہ خور شاہ کو قتل کر دیا۔
اسلام ایک توحیدی مذہب ہے جو اللہ کی طرف سے آخری رسول و نبی، محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ذریعے انسانوں تک پہنچائی گئی آخری الہامی کتاب (قرآن مجيد) کی تعلیمات پر قائم ہے۔ یعنی دنیاوی اعتبار سے بھی اور دینی اعتبار سے بھی اسلام (اور مسلم نظریے کے مطابق گذشتہ ادیان کی اصلاح) کا آغاز، 610ء تا 632ء تک 23 سال پر محیط عرصے میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اللہ کی طرف سے اترنے والے الہام (قرآن) سے ہوتا ہے۔ قرآن عربی زبان میں نازل ہوا (برائے وجہ : اللسان القرآن) اور اسی زبان میں دنیا کی کل آبادی کا کوئی 24% حصہ یعنی لگ بھگ 1.6 تا 1.8 ارب افراد اس کو پڑھتے ہیں ؛ ان میں (مختلف ذرائع کے مطابق) قریباً 20 تا 30 کروڑ ہی وہ ہیں جن کی مادری زبان عربی ہے جبکہ 70 تا 80 کروڑ، غیر عرب یا عجمی ہیں جن کی مادری زبان عربی کے سوا کوئی اور ہوتی ہے۔ متعدد شخصی ماخذ سے اپنی موجودہ شکل میں آنے والی دیگر الہامی کتابوں کے برعکس، بوسیلۂ وحی، فردِ واحد (محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے منہ سے ادا ہوکر لکھی جانے والی کتاب اور اس کتاب پر عمل پیرا ہونے کی راہنمائی فراہم کرنے والی شریعت ہی دو ایسے وسائل ہیں جن کو اسلام کی معلومات کا منبع قرار دیا جاتا ہے۔
مسیحی عقیدہ کے مطابق یسوع مسیح کا صعود اُن کی زمینی خدمت اور آسمانی خدمت کے درمیان ہوا۔ وہ انسان کو گناہوں سے نجات دینے کے لیے مرے اور اسے راستباز ٹھہرانے کے لیے جلائے گئے۔ اس کے بعد وہ آسمان پر گئے تاکہ خدا کے دہنے ہاتھ بیٹھیں اور جب انسان دعا میں خدا کے پاس جائیں تو وہ ان کی شفاعت کریں اور جب انسان لغزش کھائیں تو اُن کی مدد کریں یسوع مسیح کا صعودِ آسمانی ظاہری اور دیدنی تھا۔ اس کا ایک مقصد تو شاگردوں کو اِس واقعہ کی حقیقت کا یقین دلانا تھا اور دوسرا اُن میں اُس کی ظاہرہ آمدِ ثانی کے بارے میں قوی اُمید پیدا کرنا تھا۔ یسوع کے صعودِ آسمانی کے متعلق عہد نامہ قدیم میں بھی پیشینگوئیاں پائی جاتی ہیں۔ اور مسیح نے خود بھی اِس کی پیش گوئی کی تھی۔
ابو عبد اللہ عثمان بن عفان اموی قرشی (47 ق ھ - 35 ھ / 576ء – 656ء) اسلام کے تیسرے خلیفہ، داماد رسول اور جامع قرآن تھے۔ عثمان غنی سابقین اسلام میں شامل اور عشرہ مبشرہ میں سے تھے، ان کی کنیت ذو النورین ہے کیونکہ انھوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دو صاحبزادیوں سے نکاح کیا تھا، پہلے رقیہ بنت محمد سے کیا، پھر ان کی وفات کے بعد ام کلثوم بنت محمد سے نکاح کیا۔ عثمان غنی پہلے صحابی ہیں جنھوں نے سرزمین حبشہ کی ہجرت کی، بعد میں دیگر صحابہ بھی آپ کے پیچھے حبشہ پہنچے۔ بعد ازاں دوسری ہجرت مدینہ منورہ کی جانب کی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عثمان غنی پر مکمل اعتماد اور ان کی فطری حیاء و شرافت اور جو انھوں نے اپنے مال کے ذریعہ اہل ایمان کی نصرت کی تھی، اس کی انتہائی قدر کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیگر صحابہ کے ساتھ ان کو بھی جنت اور شہادت کی موت کی خوش خبری دی۔
معاہدہ لوزان 24 جولائی 1923ء کو سوئٹزرلینڈ کے شہر لوزان میں جنگ عظیم اول کے اتحادیوں اور ترکی کے درمیان طے پایا۔ معاہدے کے تحت یونان، بلغاریہ اور ترکی کی سرحدیں متعین کی گئیں اور قبرص، عراق اور شام پر ترکی کا دعویٰ ختم کرکے آخر الذکر دونوں ممالک کی سرحدوں کا تعین کیا گیا۔ اس معاہدے کے تحت جمہوریہ ترکی کو عالمی سطح پر تسلیم کیا گیا۔
جنگ صفین 37ھ جولائی 657ء میں خلیفہ چہارم علی بن ابی طالب اور شام کے گورنر معاویہ بن ابی سفیان کے درمیان ہوئی۔ یہ جنگ دریائے فرات کے کنارے اس علاقے میں ہوئی جو اب ملک شام میں شامل ہے اور الرقہ (اردو میں رقہ) کہلاتا ہے۔ اس جنگ میں شامی افوج کے 45000 اور خلیفہ کی افواج کے 25000 افراد مارے گئے[حوالہ درکار]۔ جن میں سے بیشتر اصحاب رسول تھے۔ اس جنگ کی پیشینگوئی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کی تھی اور عمار بن یاسر کو بتایا تھا کہ اے عمار تجھ کو ایک باغی گروہ شہید کرے گا۔ ابوموسیٰ اور ابومسعود دونوں عمار بن یاسر کے پاس گئے جب انہیں علی نے اہل کوفہ کے پاس اس لیے بھیجا تھا کہ لوگوں کو لڑنے کے لیے تیار کریں۔ ابوموسیٰ اور ابومسعود دونوں عمار سے کہنے لگے جب سے تم مسلمانوں ہوئے ہو ہم نے کوئی بات اس سے زیادہ بری نہیں دیکھی جو تم اس کام میں جلدی کر رہے ہو۔ عمار نے جواب دیا میں نے بھی جب سے تم دونوں مسلمان ہوئے ہو تمہاری کوئی بات اس سے بری نہیں دیکھی جو تم اس کام میں دیر کر رہے ہو۔ ابومسعود نے عمار اور ابوموسیٰ دونوں کو ایک ایک کپڑے کا نیا جوڑا پہنایا پھر تینوں مل کر مسجد میں تشریف لے گئے ۔ ابومریم عبد اللہ بن زیاد الاسدی نے بیان کیا کہ جب طلحہ، زبیر اور عائشہ بصرہ کی طرف روانہ ہوئے تو علی نے عمار بن یاسر اور حسن بن علی کو بھیجا۔ یہ دونوں بزرگ ہمارے پاس کوفہ آئے اور منبر پر چڑھے۔ حسن بن علی منبر کے اوپر سب سے اونچی جگہ تھے اور عمار بن یاسر ان سے نیچے تھے۔ پھر ہم ان کے پاس جمع ہو گئے اور میں نے عمار کو یہ کہتے سنا کہ عائشہ بصرہ گئی ہیں اور اللہ کی قسم وہ دنیا و آخرت میں تمہارے نبی کریم ﷺ کی پاک بیوی ہیں لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ نے تمہیں آزمایا ہے تاکہ جان لے کہ تم اس اللہ کی اطاعت کرتے ہو یا عائشہ کی۔خزیمہ بن ثابت انصاری بھی اسی جنگ میں شہید ہوئے۔ یہ دونوں اصحاب علی کی فوج میں شامل تھے۔ اسی جنگ میں اویس قرنی بھی علی کرم اللہ وجہہ کی حمایت میں لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔ علی کی فوج کے امیر مالک اشتر اور دوسری طرف عمرو ابن العاص تھے۔
اسرائیل پاکستان تعلقات ان دو طرفہ تعلقات کو کہا جاتا ہے جو اسلامی جمہوریۂ پاکستان اور یہودی مملکت اسرائیل کے درمیان میں رہے ہیں۔ یہ تعلقات غیر تسلیم شدگی سے لے کر سوویت افغان جنگ کے دوران میں قریبی تال میل تک ہر دور میں بدلتے رہے۔ ان دونوں مملکتوں کا قیام نظریاتی قرار دادوں پر مبنی رہا ہے (دیکھیے دو قومی نظریہ اور یہودیوں کا وطن) اور دونوں ہی ریاستیں برطانوی سلطنت سے آزاد ہو کر وجود میں آئی تھیں۔ درحقیقت پاکستان اور اسرائیل کے مابین حکومتی سطح پر باضابطہ تعلقات کبھی قائم نہیں ہوئے۔ پاکستانی اہلکاروں کا کہنا ہے کہ اگر اسرائیل عرب ریاستوں سے کچھ معاہدے کر لے تو وہ اسرائیل سے علانیہ سفارتی تعلقات قائم کریں گے۔ اس کے برعکس پاکستان کے اسرائیل مخالف تنظیم آزادی فلسطین سے قریبی تعلقات ہیں، مثلاً پہلے انتفاضہ کے موقع پر پاکستان کی جانب سے فلسطینی مزاحمت کاروں کے لیے رسد رسانی اور طبی امداد کا بندوبست کیا گیا تھا۔ نیز متعدد موقعوں پر بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا اسرائیل کے خلاف جارحانہ رویہ اپنانے کی بنا پر ریاست ہائے متحدہ امریکا سے کشیدگی بھی پیدا ہوئی ہے۔ جب پاکستان کی جوہری صلاحیتوں کا افشا ہوا تو اسرائیل کو ہمیشہ ان جوہری صلاحیتوں سے خدشہ رہا۔ پاکستان میں بہت سے حلقوں کا خیال ہے کہ اسرائیل نے ان کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن حکومت اسرائیل کی کچھ کلیدی شخصیتوں نے اس کی مخالفت کی جس کی بنا پر یہ حملہ نہیں ہو سکا۔
ریاستہائےمتحدہامریکا (انگریزی:United States of America تلفظ:یُونَائٹِڈ سَٹَےْٹَز اَوو اَمَیرِکَا)شمالی امریکا میں واقع ایک ملک ہے۔ اسے عرف عام میں صرف یونائیٹڈ سٹیٹس (انگریزی: United States؛ ریاستہائے متحدہ) بھی کہتے ہیں جبکہ امریکا (انگریزی: America؛ امیریکا) کا لفظ بھی زیادہ تر اسی ملک سے موسوم کیا جاتا ہے جو بعض ماہرین کے مطابق تکنیکی لحاظ سے غلط ہے۔
محمد بن قاسم (عربی: محمد بن القاسم الثقفي) کا پورا نام عماد الدین محمد بن قاسم تھا جو بنو امیہ کے ایک مشہور سپہ سالار حجاج بن یوسف کے بھتیجا تھے۔ محمد بن قاسم نے 17 سال کی عمر میں سندھ فتح کرکے ہندوستان میں اسلام کو متعارف کرایا۔ ان کو اس عظیم فتح کے باعث ہندوستان و پاکستان کے مسلمانوں میں ایک مسیحاء کا اعزاز حاصل ہے اور اسی لیے سندھ کو "باب الاسلام" کہا جاتا ہے کیونکہ ہندوستان پر اسلام کا دروازہ یہیں سے کھلا۔
یہودی تاریخ یہودیوں اور یہودیت کی تاریخ ہے۔ اگرچہ یہودیت بطور مذہب یونانی تاریخی حوالوں کے مطابق سب سے پہلے ھلنستی دور (31 ق م – 323 ق م) میں ظاہر ہوا اور اسرائیل کا قدیم ترین ذکر، قطبہ مرنپتاح 1203–1213 ق م پر لکھا ملتا ہے، مذہبی ادب بنی اسرائیلیوں کی کہانی 1500 سال ق م پرانی بتلاتا ہے۔ یہودی جلاوطن برادری اسوری فتح کے ساتھ ہی شروع ہوئی اور بابلی فتح پر شدت اختیار کی۔ یہودی رومی سلطنت میں بھی جابجا پھیلے ہوئے تھے، جس میں بازنطینی حکمرانی دور میں وسطی اور مشرقی بحیرہ روم میں کمی واقع ہوئی ہے۔ 638ء میں بازنطینی سلطنت نے بلاد شام اور مشرقی بحیرہ رومی علاقوں کا قبضہ کھو دیا، عرب اسلامی سلطنت کے تحت خلیفہ عمر نے یروشلم، میسوپوٹامیا، شام، فلسطین اور مصر فتح کیا۔ سپین میں یہودی ثقافت کا سنہری دور مسلم سنہری دور اور یورپ کے قرون وسطی کے تاریک دور ساتھ وقوع پزیر ہوا جب جزیرہ نما آئبیریا کے زیادہ تر علاقوں میں مسلم حکمرانی تھی۔ اس دور میں یہودیوں کو عام طور پر معاشرے میں تسلیم کیا جاتا تھا چنانچہ یہودی مذہبی، ثقافتی اور اقتصادی زندگی نے ترقی کی۔
اہلسنت و الجماعت (أهل السنة والجماعة) مسلمانوں میں پیدا ہو جانے والے دو بڑے تفرقوں میں سے ایک تفرقہ ہے اور اس کو عام الفاظ میں سنی بھی کہا جاتا ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت اسی تفرقے سے تعلق رکھتی ہے۔ اہل سنت وہ لوگ ہیں جو خدا اور اس کے رسول کی اطاعت پر ایمان رکھتے ہیں۔ تمام صحابہ کرام کو احترام اور عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک سب صحابی بالخصوص خلفائے راشدین برحق ہیں۔ اور ان کا زمانہ ملت اسلامیہ کا بہترین اور درخشاں دور ہے۔ ان کے نزدیک خلافت پر ہر مومن فائز ہو سکتا ہے بشرطیکہ وہ اس کا اہل ہو۔ ان کے نزدیک خلیفہ جمہور کی رائے سے منتخب ہونا چاہیے۔ وہ خدا کی طرف سے مامور نہیں ہوتا، وہ خلافت کے موروثی نظریے کو بھی تسلیم نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک ابوبکر صدیق صحابہ میں فضیلت کا درجہ رکھتے ہیں۔ اور پھر خلافت کی ترتیب سے حضرت عمر فاروق حضرت عثمان اور حضرت علی بن ابی طالب۔ خاندان اہل بیت کو بھی سنی بڑی احترام و عقیدت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ سنی عقیدہ کے مطابق سوائے پیغمبروں کے کوئی انسان معصوم نہیں۔ یہ اسلامی فرقہ مذہب میں اعتدال اور میانہ روی پر زور دیتا ہے۔ سنی پانچ فقہوں میں بٹے ہوئے ہیں جیسے ؛ شافعی، مالکی، حنفی، حنبلی اور ظاہری۔