اردو ویکیپیڈیا کے سب سے زیادہ ملاحظہ کردہ مضامین کی فہرست۔ مزید معلومات کے لیے ۔ ۔ ۔
سول نافرمانی، ترک موالات یا عدم تعاون (انگریزی: Civil Disobedience)، اپنے مطالبات منوانے یا کسی فعل پر احتجاجی طور پربعض حکومتی یا کسی عالمی طاقت کے قوانین کی اطاعت سے انکار کرنا ہے۔ عام طور پر اس میں حکومت کو محصول جمع کرانے سے انکار کیا جاتا ہے۔ جس کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں؛ جیسے مختلف سہولیات پر مقرر قیمت دینے سے انکار جس میں بجلی، ٹیلی فون، گھریلو استعمال کی گيس، پانی، پلوں، شاہراہوں اور دیگر ایسی چیزیں جن سے حکومت کو پیسہ آتا ہوں۔ ان تمام یا کچھ ذرائع محصول سے روکنا، رکنا یا ان کے استعمال پر محصول ادا نہ کرنا۔ سول نافرمانی اکثر اجتماعی عمل کی صورت میں کی جاتی ہے۔برطانوی ہند میں تحریک ترک موالات اس کی ایک مثال ہے۔
برطانوی قانون آزادی ہند 1947ء کے تحت 15 اگست 1947ء کو پاکستان اور بھارت کے قیام کو تقسیم ہند کہا جاتا ہے جس کے تحت دونوں ممالک نے برطانیہ سے آزادی حاصل کی۔ اس تقسیم کے نتیجے میں مشرقی بنگال پاکستان اور مغربی بنگال بھارت میں شامل ہوا اور پنجاب بھی پاکستان کے موجودہ صوبہ پنجاب اور بھارت کے مشرقی پنجاب میں تقسیم ہو گیا۔
اسلام ایک توحیدی مذہب ہے جو اللہ کی طرف سے آخری رسول و نبی، محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ذریعے انسانوں تک پہنچائی گئی آخری الہامی کتاب (قرآن مجيد) کی تعلیمات پر قائم ہے۔ یعنی دنیاوی اعتبار سے بھی اور دینی اعتبار سے بھی اسلام (اور مسلم نظریے کے مطابق گذشتہ ادیان کی اصلاح) کا آغاز، 610ء تا 632ء تک 23 سال پر محیط عرصے میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اللہ کی طرف سے اترنے والے الہام (قرآن) سے ہوتا ہے۔ قرآن عربی زبان میں نازل ہوا (برائے وجہ : اللسان القرآن) اور اسی زبان میں دنیا کی کل آبادی کا کوئی 24% حصہ یعنی لگ بھگ 1.6 تا 1.8 ارب افراد اس کو پڑھتے ہیں ؛ ان میں (مختلف ذرائع کے مطابق) قریباً 20 تا 30 کروڑ ہی وہ ہیں جن کی مادری زبان عربی ہے جبکہ 70 تا 80 کروڑ، غیر عرب یا عجمی ہیں جن کی مادری زبان عربی کے سوا کوئی اور ہوتی ہے۔ متعدد شخصی ماخذ سے اپنی موجودہ شکل میں آنے والی دیگر الہامی کتابوں کے برعکس، بوسیلۂ وحی، فردِ واحد (محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے منہ سے ادا ہوکر لکھی جانے والی کتاب اور اس کتاب پر عمل پیرا ہونے کی راہنمائی فراہم کرنے والی شریعت ہی دو ایسے وسائل ہیں جن کو اسلام کی معلومات کا منبع قرار دیا جاتا ہے۔
شاہ ولی اللہ (پیدائش: 1703ء، انتقال:1762ء) برصغیر پاک و ہند میں عہد مغلیہ کے مشہور عالم دین، محدث اور مصنف تھے۔ مجدد الف ثانی اور ان کے ساتھیوں نے اصلاح کا جو کام شروع کیا تھا شاہ ولی اللہ نے اس کام کی رفتار اور تیز کردی۔ ان دونوں میں بس یہ فرق تھا کہ مجدد الف ثانی چونکہ مسلمانوں کے عہد عروج میں ہوئے تھے اس لیے ان کی توجہ زیادہ تر ان خرابیوں کی طرف رہی جو مسلمانوں میں غیر مسلموں کے میل جول کی وجہ سے پھیل گئیں تھیں لیکن شاہ ولی اللہ چونکہ ایک ایسے زمانے سے تعلق رکھتے تھے جب مسلمانوں کا زوال شروع ہو گیا تھا اس لیے انہوں نے مسلمانوں کے زوال کے اسباب پر بھی غور کیا اور اس کے علاج کے بھی طریقے بتائے۔
محمد علی جناح پیدائشی نام، محمد علی جناح بھائی، 25 دسمبر 1876ء – 11 ستمبر 1948ء) کے نامور وکیل، سیاست دان اور بانی پاکستان تھے۔ محمد علی جناح 1913ء سے لے کر پاکستان کی آزادی 14 اگست 1947ء تک آل انڈیا مسلم لیگ کے سربراہ رہے، پھر قیام پاکستان کے بعد اپنی وفات تک، وہ ملک کے پہلے گورنر جنرل رہے۔ سرکاری طور پر پاکستان میں آپ کو قائدِ اعظم یعنی سب سے عظیم رہبر اور بابائے قوم یعنی قوم کا باپ بھی کہا جاتا ہے۔ جناح کا یومِ پیدائش پاکستان میں قومی تعطیل کے طور پر منایا جاتا ہے۔کراچی کے پیدائشی اور لنکن ان سے بیرسٹری کی تربیت حاصل کرنے والے جناح، بیسویں صدی کے ابتدائی دو عشروں میں آل انڈیا کانگریس کے اہم رہنما کے طور پر ابھرے۔ اپنی سیاست کے ابتدائی ادوار میں انہوں نے ہندو مسلم اتحاد کے لیے کام کیا۔ 1916ء میں آل انڈیا مسلم لیگ اور آل انڈیا کانگریس کے مابین ہونے والے میثاق لکھنؤ کو مرتب کرنے میں بھی انہوں نے اہم کردار ادا کیا۔ جناح آل انڈیا ہوم رول لیگ کے اہم رہنماوں میں سے تھے، انہوں نے چودہ نکات بھی پیش کیے، جن کا مقصد ہندوستان کے مسلمانوں کے سیاسی حقوق کا تحفظ کرنا تھا۔ بہر کیف جناح 1920ء میں آل انڈیا کانگریس سے مستعفی ہو گئے، جس کی وجہ آل انڈیا کانگریس کے موہن داس گاندھی کی قیادت میں ستیاگرا کی مہم چلانے کا فیصلہ تھا۔1940ء تک جناح کو یہ یقین ہو چلا تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک علاحدہ وطن کی جدوجہد کرنی چاہیے۔ اسی سال، مسلم لیگ نے جناح کی قیادت میں قرارداد پاکستان منظور کی جس کا مقصد نئی مملکت کی قیام کا مطالبہ تھا۔دوسری جنگ عظیم کے دوران، آل انڈیا مسلم لیگ نے مضبوطی پکڑلی جبکہ ان ادوار میں کانگریس کے کئی رہنما قید کاٹ رہے تھے اور جنگ کے ختم ہونے کے مختصر عرصے میں ہی انتخابات کا انعقاد ہوا، جس میں جناح کی جماعت نے مسلمانوں کے لیے مختص نشستوں میں سے بڑی تعداد جیت لی۔ اس کے بعد آل انڈیا کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ متحدہ ہندوستان میں اختیارات کے توازن کے لیے کسی صیغے پر متفق نا ہو سکے نتیجتاً تمام جماعتیں اس امر پر متفق ہوگئیں کہ ہندوستان کے دو حصے کیے جائیں جن میں ایک مسلم اکثریتی علاقوں میں پاکستان جبکہ باقی ماندہ علاقوں میں بھارت کا قیام ہو۔پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کے طور پر جناح نے اپنی حکومتی پالیسیوں کے قیام کے لیے کام کیا نیز انہوں نے ان لاکھوں لوگوں کے بہبود اور آباد کاری کے لیے بھی کام کیا جو تقسیم ہند کے بعد پاکستان کی جانب ہجرت کر چلے تھے، انہوں نے ان مہاجر کیمپوں کی ذاتی طور پر دیکھ بھال کی۔ جناح 71 سال کے عمر میں انتقال کر گئے جبکہ ان کے نوزائیدہ ملک کو سلطنت برطانیہ سے آزاد ہوئے محض ایک سال کا عرصہ ہوا تھا۔ ان کی سوانح عمری لکھنے والے لکھاری،اسٹینلی وولپرٹ لکھتے ہیں کہ، وہ (یعنی جناح) پاکستان کے عظیم ترین رہنما رہیں گے۔
ابو القاسم محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب (12 ربیع الاول عام الفیل / 8 جون 570ء یا 571ء – 12 ربیع الاول 10ھ / 8 جون 632ء) مسلمانوں کے آخری نبی ہیں۔ اہل اسلام کے نزدیک محمد تمام مذاہب کے پیشواؤں سے کامیاب ترین پیشوا تھے۔ آپ کی کنیت ابوالقاسم تھی۔ مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ کی طرف سے انسانیت کی جانب بھیجے جانے والے انبیا اکرام کے سلسلے کے آخری نبی ہیں جن کو اللہ نے اپنے دین کی درست شکل انسانوں کی جانب آخری بار پہنچانے کیلئے دنیا میں بھیجا۔ انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دنیا کی تمام مذہبی شخصیات میں سب سے کامیاب شخصیت تھے۔
1920ء میں گاندھی جی اور مولاناابوالکلام آزاد نے غیرملکی مال کے بائیکاٹ اورنان کوآپریشن (ترک موالات) کی تجویزپیش کی،یہ بہت کارگرہتھیار تھا، جواس جنگ آزادی اور قومی جدوجہدمیں استعمال کیاگیا، انگریزی حکومت اس کا پورا پورا نوٹس لینے پر مجبورہوئی اوراس کا خطرہ پیدا ہوا کہ پورا ملکی نظام مفلوج ہوجائے اورعام بغاوت پھیل جائے، آثار انگریزی حکومت کے خاتمہ کی کی پیشینگوئی کررہے تھے۔(ہندوستانی مسلمان،ص۱۵۷) اس تحریک کو تحریک عدم تعاون بھی کہا جاتا ہے،
اسلامی جمہوریہ پاکستان جنوبی ایشیا کے شمال مغرب وسطی ایشیا اور مغربی ایشیا کے لیے دفاعی طور پر اہم حصے میں واقع ایک خود مختار اسلامی ملک ہے۔ 21 کروڑ کی آبادی کے ساتھ یہ دنیا کا پانچواں بڑی آبادی والا ملک ہے۔ 881,913 مربع کلومیٹر (340,509 مربع میل) کے ساتھ یہ دنیا کا تینتیسواں بڑے رقبے والا ملک ہے۔ اس کے جنوب میں 1046 کلومیٹر (650 میل) کی ساحلی پٹی ہے جو بحیرہ عرب سے ملتی ہے۔پاکستان کے مشرق ميں بھارت، شمال مشرق ميں چین اور مغرب ميں افغانستان اور ايران واقع ہيں۔ پاکستان کو شمال میں ایک تنگ واخان راہداری تاجکستان سے جدا کرتی ہے جبکہ اس ملک کی سمندری سرحدی حدود عمان کے سمندری حدود سے بھی ملتی ہیں۔ موجودہ پاکستان کے علاقے قدیم ترین دنیا میں وہ علاقے تھے جن میں موہنجوداڑو اور انڈس سولائیزیشن مہر گڑھ ٹیکسلا پراچین سنسکرت دور اور دیگر زیرتحقیق آرک لوجیکل سائٹسٹ جیسے قندھارا تہذیب و تمدن تھی۔ اس علاقے پر پراچین راجپوت ایرانی یونانیعرب،بدھ مت، سکھ، مغل، ہن سفید اور ترک حملہ آوروں کی حکومت بھی رہی ہے۔ یہ علاقہ مختلف سلطنتوں جیسے چندر گپت موریا، ہخامنشی سلطنت عربوں کی خلافت امویہ، مغول سلطنت، مغلیہ سلطنت، درانی سلطنت، سکھ سلطنت اور برطانوی راج کا اہم حصہ رہا ہے۔ اس کے بعد محمد علی جناح کی قیادت میں تحریک پاکستان کامیاب ہوئی اور 14 اگست 1947ء کو ہندوستان کے مشرق اور مغرب میں دو حصوں میں ایک آزاد اور خودمختار اسلامی ریاست قائم ہوئی۔ پاکستان نے 1956ء میں اپنا پہلا قانون اپنایا۔ 1971ء میں ایک خانہ جنگی کے دوران میں اس کا مشرقی حصہ الگ ہو کر ایک نیا ملک بنگلہ دیش بن گیا۔ پاکستان وفاقی پارلیمانی جمہوری ریاست کے تحت چلتا ہے۔ اس کے چار صوبے اور کچھ وفاقی حکومت کے زیر انتظام علاقے ہیں۔ یہ ملک لسانی اور قومی طور پر مختلف اقوام کا علاقہ ہے اور اس کا جغرافیہ بھی ہر طرح کے خطے پر مشتمل ہے۔ پاکستان دنیا کا ایک اہم طاقتور ملک ہے، جیسا کہ اس کی فوج دنیا کی چھویں بڑی فوج ہے اور یہ اسلامی دنیا کی واحد اور جنوبی ایشیا کی دوسری ایٹمی طاقت ہے۔ اس کی معیشت دنیا میں 27 ویں نمبر پر ہے۔ پاکستان کی تاریخ فوجی آمریت، سیاسی عدم استحکام اور پڑوسی ملک سےجھگڑوں پر مشتمل ہے۔ یہ ملک مؤتمر عالم اسلامی، اقوام متحدہ، دولت مشترکہ ممالک، سارک، ترقی پذیر 8، اقتصادی تعاون تنظیم جیسی تنظیموں کا اہم رکن ہے۔ ان سرزمین اور ممالک کے ناموں میں، جس میں لاحقہ "ستان" شامل ہے، پاکستان کا لفظ سب سے نیا ہے اور کردستان سب سے پرانا نام ہے۔ پاکستان کے مطلب پاک نفسوں کی سرزمین ہے.
ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال (ولادت: 9 نومبر 1877ء - وفات: 21 اپریل 1938ء) بیسویں صدی کے ایک معروف شاعر، مصنف، قانون دان، سیاستدان اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھے۔ اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے اور یہی ان کی بنیادی وجہ شہرت ہے۔ شاعری میں بنیادی رجحان تصوف اور احیائے امت اسلام کی طرف تھا۔ "دا ریکنسٹرکشن آف ریلیجس تھاٹ ان اسلام" کے نام سے انگریزی میں ایک نثری کتاب بھی تحریر کی۔ علامہ اقبال کو دور جدید کا صوفی سمجھا جاتا ہے۔[حوالہ درکار] بحیثیت سیاست دان ان کا سب سے نمایاں کارنامہ نظریۂ پاکستان کی تشکیل ہے، جو انہوں نے 1930ء میں الہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پیش کیا تھا۔ یہی نظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا۔ اسی وجہ سے علامہ اقبال کو پاکستان کا نظریاتی باپ سمجھا جاتا ہے۔ گو کہ انہوں نے اس نئے ملک کے قیام کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن انہیں پاکستان کے قومی شاعر کی حیثیت حاصل ہے۔
کالم نویسی کی اقسامکے اصو لو اور فنی خصو صیات کی روشنی مین حامد میر عطاالحق قاسمی اورنذیر ناجی کی کالم نگاری کا تقابلی جاءذہ لے
کالم نویسی کے اصو لو کی اقسام اور فنی خصوصیات کی روشنی مین حامد میر عطاالحق قاسمی اورنذیر ناجی کی کالم نگاری کا تقابلی جاءذہ لے
متضاد مخالف؛ اُلٹ؛ اُلٹی طرف؛ دوسری جانب؛ ضِد؛ مُقابل؛ بِالمقابل؛ متقابل؛ متضاد؛ ایک لفظ جو مفہوم کے لحاظ سے دوسرے کی ضد ہو؛ متضاد المعنی۔ ایسے الفاظ جو مماثل وضع میں لیکن ایک دوسرے کے مخالف، برعکس یا یکسر مختلف ہوں۔ اسے 'بائنری' تعلق سے تعبیر کیا جاتا ہے کیوں کہ متضاد جوڑوں میں دو رکن ہوتے ہیں۔ باہم مخالف تعلق کو متضاد کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ایک جوڑے میں مخالف لفظ کو عام طور پر اس سوال کے ذریعہ طے کیا جا سکتا ہے کہ الف کے برعکس کیا ہے؟ جیسے:
اردو میں تعلیم کا لفظ، دو خاص معنوں میں مستعمل ہے ایک اصطلاحی دوسر ے غیر اصطلاحی، غیر اصطلاحی مفہوم میں تعلیم کا لفظ واحد اور جمع دونوں صورتوں میں استعمال ہو سکتا ہے اور آدرش، پیغام، درسِ حیات، ارشادات، ہدایات اور نصائح کے معنی دیتا ہے۔ جیسے آنحضرت کی تعلیم یا تعلیمات، حضرت عیسیٰ کی تعلیم یا تعلیمات اور شری کرشن کی تعلیمات، کے فقروں میں، لیکن اصطلاحی معنوں میں تعلیم یا ایجوکیشن سے وہ شعبہ مراد لیا جاتا ہے جس میں خاص عمر کے بچوں اور نوجوانوں کی ذہنی اور جسمانی نشو و نما، تخیلی و تخلیقی قوتوں کی تربیت و تہذیب، سماجی عوامل و محرکات، نظم و نسق مدرسہ، اساتذہ، طریقہ تدریس، نصاب، معیار تعلیم، تاریخ تعلیم، اساتذہ کی تربیت اور اس طرح کے دوسرے موضوعات زیر بحث آتے ہیں۔
واحد کا مفہوم (انگریزی: Meaning of Singular) ایک شخص یا ایک چیز کو واحد کہا جاتا ہے۔ یا واحد وہ اسم ہوتا ہے جو ایک شخص یا چیز کو ظاہر کرے۔ مثلاﹰ کتاب، لڑکا، مسجد، استاد، فوج، بلی، شجر، میز، کرسی، وغیرہ۔ جبکہ جمع ایک سے زیادہ شخصوں یا چیزوں کو جمع کہتے ہیں۔ یا جمع وہ اسم ہوتا ہے جو ایک سے زیادہ اشخاص ا اسماء کو ظاہر کرے۔ مثلاً کُتب، لڑکے، مساجد، اساتذہ، افواج، بلیاں، اشجار، میزیں، کرسیاں وغیرہ
خلافت راشدہ کے خاتمے کے بعد عربوں کی قائم کردہ دو عظیم ترین سلطنتوں میں سے دوسری سلطنت خلافت عباسیہ ہے۔خاندان عباسیہ کے دو بھائیوں السفاح اور ابو جعفر المنصور نے خلافت قائم کی جس کا قیام 750ء (132ھ) میں عمل میں آیا اور 1258ء (656ھ) میں اس کا خاتمہ ہو گیا۔ یہ خلافت ایک تحریک کے ذریعے قائم ہوئی جو بنو امیہ کے خلاف تھی۔ تحریک نے ایک عرصے تک اپنے مقاصد کے حصول کے لیے جدوجہد کی اور بالآخر بنو امیہ کو شکست دینے کے بعد بر سر اقتدار آگئی۔
بچوں کی نشو و نما میں حیاتیاتی، نفسیاتی اور جذباتی تبدیلیاں شامل ہیں جو انسانوں کی پیدائش سے لے کر جواں سالی کے دور کے ختم تک جاری رہتی ہیں، جیسا کہ افراد آزانہ طور نشو و نما کرتے ہیں۔ یہ ایک مسلسل کا طرز عمل ہے جس کے تسلسل کی قیاس آرائی تو لگائی جا سکتی ہے، تاہم یہ سلسلہ ہر لڑکے میں منفرد ہوتا ہے۔ یہ ایک ہی شرح سے آگے نہیں بڑھتی اور ہر مرحلہ اپنے سے سابقہ نشوونمااتی تجربے سے متاثر ہوتا ہے۔ چوں کہ یہ نشوونمااتی تبدیلیاں وراثیاتی عوامل اور ماقبل ولادت زندگی سے کافی متاثر ہوتے ہیں، وراثیات اور ماقبل ولادت نشو و نما کو عمومًا بچوں کی نشو و نما کے مطالعے میں شامل کیا جاتا ہے۔ متعلقہ اصطلاحات میں نشوونمااتی نفسیات، جو مکمل حین حیات کی نشو و نما کا حوالہ دیتی ہے اور طفلیات، جو طب کو وہ شاخ ہے جو بچوں کی دیکھ ریکھ سے تعلق رکھتی ہے۔ نشوونمااتی تبدیلیاں وراثیاتی گرفت والے طریقوں کا نتیجہ ہو سکتے ہیں جسے نشوونمااتی حیاتیات کہا جاتا ہے، یا پھر یہ ماحولیاتی عوامل اور سیکھنے کا نتیجہ ہو سکتا ہے، مگر زیادہ تر اس ان دونوں کی تال میل ہوتی ہے۔ یہ انسانی فطرت کی وجہ سے بھی ممکن ہے اور اس میں انسانوں کی ماحول سے سیکھنے کی عادت کا بھی دخل ممکن ہے۔
ابو بکر صدیق عبد اللہ بن ابو قحافہ تیمی قریشی (پیدائش: 573ء— وفات: 22 اگست 634ء) پہلے خلیفہ راشد، عشرہ مبشرہ میں شامل، پیغمبر اسلام کے وزیر، صحابی و خسر اور ہجرت مدینہ کے وقت رفیق سفر تھے۔ اہل سنت و الجماعت کے یہاں ابو بکر صدیق انبیا اور رسولوں کے بعد انسانوں میں سب سے بہتر، صحابہ میں ایمان و زہد کے لحاظ سے سب سے برتر اور ام المومنین عائشہ بنت ابی بکر کے بعد پیغمبر اسلام کے محبوب تر تھے۔ عموماً ان کی کنیت "ابو بکر" کے ساتھ صدیق کا لقب لگایا جاتا جسے ابو بکر صدیق کی تصدیق و تائید کی بنا پر پیغمبر اسلام نے دیا تھا۔
قرآن، قرآن مجید یا قرآن شریف (عربی: القرآن الكريم) دین اسلام کی مقدس و مرکزی کتاب ہے جس کے متعلق اسلام کے پیروکاروں کا اعتقاد ہے کہ وہ کلام الہی ہے اور اسی بنا پر یہ انتہائی محترم و قابل عظمت کتاب ہے۔ اسے پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی کے ذریعے اتارا گیا۔ یہ وحی اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتے حضرت جبرائیل علیہ السلام لاتے تھے جیسے جیسے قرآن مجید کی آیات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوتیں آپ صلی علیہ وآلہ وسلم اسے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو سنا اور ان آیات کے مطالب و معانی سمجھا دیتے۔ کچھ صحابہ کرام تو ان آیات کو وہیں یاد کر لیتے اور کچھ لکھ کر محفوظ کر لیتے۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن ہر قسم کی تحریف سے پاک سے محفوظ ہے، قرآن میں آج تک کوئی کمی بیشی نہیں ہو سکی اور اسے دنیا کی واحد محفوظ کتاب ہونے کی حیثیت حاصل ہے، جس کا حقیقی مفہوم تبدیل نہیں ہو سکا اور تمام دنیا میں کروڑوں کی تعداد میں چھپنے کے باوجود اس کا متن ایک جیسا ہے اور اس کی تلاوت عبادت ہے۔ نیز صحف ابراہیم، زبور اور تورات و انجیل کے بعد آسمانی کتابوں میں یہ سب سے آخری کتاب ہے اور سابقہ آسمانی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اب اس کے بعد کوئی آسمانی کتاب نازل نہیں ہوگی۔ قرآن کی فصاحت و بلاغت کے پیش نظر اسے لغوی و مذہبی لحاظ سے تمام عربی کتابوں میں اعلیٰ ترین مقام دیا گیا ہے۔ نیز عربی زبان و ادب اور اس کے نحوی و صرفی قواعد کی وحدت و ارتقا میں بھی قرآن کا خاصا اہم کردار دکھائی دیتا ہے۔ چنانچہ قرآن کے وضع کردہ عربی زبان کے قواعد بلند پایہ عرب محققین اور علمائے لغت مثلاً سیبویہ، ابو الاسود الدؤلی اور خلیل بن احمد فراہیدی وغیرہ کے یہاں بنیادی ماخذ سمجھے گئے ہیں۔
قمری ہجری تقویم (ماہ و سال) کو بعض ممالک میں اسلامی تقویم بھی کہا جاتا ہے۔ ہجری تقویم سے مراد تواریخ کا حساب حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مدینہ کی طرف ہجرت سے لگانا ہے۔ اس میں جو مہینے استعمال ہوتے ہیں ان کا استعمال اسلام سے پہلے بھی تھا۔ جس میں سے محرم پہلا مہینہ ہے۔ چونکہ ایک قمری تقویم ہے لہذا اس کا ہر مہینہ چاند کو دیکھ کر شروع ہوتا ہے۔ سال کا کل دورانیہ 354.367056 دن اور ایک ماہ کا کل دورانیہ 29.530588 دن ہے۔
عُمرانیات یا سماجیات سماجی رویے، اس کے مآخذ، ترقی، تنظیم اور اداروں کے مطالعے کا علم ہے۔ یہ ایک ایسا سماجی علم ہے جو مختلف تجرباتی تفتیشی طریقوں اور تنقیدی جائزوں کے ذریعے معاشرتی نظم، بدنظمی اور معاشرتی تبدیلی کے بارے میں ایک علمی ڈھانچہ وضع کرتا ہے۔ ایک ماہر عمرانیات کا عمومی ہدف سماجی پالیسی اور فلاح کے لیے براہ راست لاگو ہونے والی تحقیق منعقد کرنا ہوتا ہے، تاہم عمرانیات کے علم میں معاشرتی عمل کی تصوراتی تفہیم کو بہتر بنانا بھی شامل ہے۔ موضوعاتی مواد کا احاطہ فرد کے کردار اور عمل سے لے کر پورے نظام اور سماجی ڈھانچے کی تفہیم تک جاتا ہے۔
برصغیر پاک و ہند میں 1857ء کی ناکام جنگ آزادی اور سقوطِ دہلی کے بعد مسلمانان برصغیر کی فلاح بہودکی ترقی کے لیے جو کوششیں کی گئیں، عرف عام میں وہ ”علی گڑھ تحریک “ کے نام سے مشہور ہوئیں۔ سر سید نے اس تحریک کا آغاز جنگ آزادی سے ایک طرح سے پہلے سے ہی کر دیا تھا۔ غازی پور میں سائنٹفک سوسائٹی کا قیام اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔ لیکن جنگ آزادی نے سرسید کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کیے اور ان ہی واقعات نے علی گڑھ تحریک کو بارآور کرنے میں بڑی مدد دی۔ لیکن یہ پیش قدمی اضطراری نہ تھی بلکہ اس کے پس پشت بہت سے عوامل کارفرما تھے۔ مثلاً راجا رم موہن رائے کی تحریک نے بھی ان پر گہرا اثر چھوڑا۔
عبد مَناف بْن عَبْدُ الْمُطلب بن ہاشم، ابوطالب کے نام سے مشہور تھے۔ آپ کا ایک اسمِ گرامی عمران بھی تاریخ کی کتابوں میں ملتا ہے، امام علیؑ کے والد، پیغمبر اسلامؐ کے چچا اور مکہ میں قبیلہ بنی ہاشم کے سردار تھے۔ کچھ عرصے کے لیے آپ سقایۃ الحاج کے عہدے پر فائز رہے اور اپنے والد عبد المطلب کی وفات کے بعد حضرت محمدؐ کی سرپرستی قبول کی اور آنحضرت (ص) کی جانب سے نبوت کے اعلان کے بعد ان کی مکمل حمایت کی۔ اور جب تک زندہ رہے مشرکین اور کفار کو جرأت نہ ہوئی کہ حضرت رسولؐ خدا پہ کسی قسم کی سختی کر سکیں۔ آپ کے القاب میں سیدالعرب ، شیخ بطخا،اور مومنِ قریش زیادہ مشہور ہیں۔
کریڈٹ سے مراد قرض ہوتا ہے جو کرنسی کا متبادل ہوتا ہے۔ لین دین بذریعہ کرنسی میں ادائیگی فوراً ہوتی ہے جبکہ لین دین بذریعہ کریڈٹ یا قرض کی صورت میں ادائیگی کچھ مدت بعد ہوتی ہے۔ یعنی سارے قرضوں کی طرح کریڈٹ بھی ایک معاہدہ ہوتا ہے اور کسی بھی معاہدے کی طرح یہ معاہدہ بھی ٹوٹ سکتا ہے۔ سارے معاہدے قابل خرید و فروخت ہوتے ہیں۔
مسلمانوں کا سیاسی عروج و زوال برطانیہ کی معروف مصنفہ کیرن آرم سٹرانگ (Karen Armstrong) کی تحریر کردہ کتاب Islam: A Short History کا اردو ترجمہ ہے۔ محمد احسن بٹ کی ترجمہ شدہ یہ کتاب دور رسالت سے لے کر سن 2000 عیسوی تک کی اسلامی تاریخ کا احاطہ کرتی ہے۔ اس کے بارے میں بلا مبالغہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ اسلام کی مختصر تاریخ کے حوالے سے یہ ایک موزوں ترین کتاب ہے جس میں مصنفہ نے اسلام کا مختصر مگر جامع تعارف پیش کیا ہے، مزید براآں مصنفہ نے اسلام کے بنیادی عقائد کا بھی تجزیہ کیا ہے اور مسلمانوں کے عروج اور زوال کی وجوہات بھی بیان کی ہیں۔
اردو زبان کی ابتدا کے متعلق نظریات
اردو کی ابتدا و آغاز کے بارے میں کئی مختلف نظریات ملتے ہیں یہ آپس میں اس حد تک متضاد ہیں کہ ایک انسان چکرا کر رہ جاتا ہے۔ ان مشہور نظریات میں ایک بات مشترک ہے کہ ان میں اردو کی ابتدا کی بنیاد برصغیر پاک و ہند میں مسلمان فاتحین کی آمد پر رکھی گئی ہے۔ اور بنیادی استدلال یہ ہے کہ اردو زبان کا آغاز مسلمان فاتحین کی ہند میں آمد اور مقامی لوگوں سے میل جول اور مقامی زبان پر اثرات و تاثر سے ہوا۔ اور ایک نئی زبان معرض وجود میں آئی جو بعد میں اردو کہلائی۔ کچھ ماہرین لسانیات نے اردو کی ابتدا کا سراغ قدیم آریائوں کے زمانے میں لگانے کی کوشش کی ہے۔ بہر طور اردو زبان کی ابتدا کے بارے میں کوئی حتمی بات کہنا ذرا مشکل ہے۔ اردو زبان کے محققین اگرچہ اس بات پر متفق ہیں کہ اردو کی ابتدا مسلمانوں کی آمد کے بعد ہوئی لیکن مقام اور نوعیت کے تعین اور نتائج کے استخراج میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس انداز سے اگر اردو کے متعلق نظریات کو دیکھا جائے تو وہ نمایاں طور پر چار مختلف نظریات کی شکل میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔
شوال۔ ذی القعدہ 5ھ (مارچ 627ء) میں مشرکینِ مکہ نے مسلمانوں سے جنگ کی ٹھانی۔ ابوسفیان نے قریش اور دیگر قبائل حتیٰ کہ یہودیوں سے بھی لوگوں کو جنگ پر راضی کیا اور اس سلسلے میں کئی معاہدے کیے اور ایک بہت بڑی فوج اکٹھی کر لی مگر مسلمانوں نے سلمان فارسی کے مشورہ سے مدینہ کے ارد گرد ایک خندق کھود لی۔ مشرکینِ مکہ ان کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ خندق کھودنے کی عرب میں یہ پہلی مثال تھی کیونکہ اصل میں یہ ایرانیوں کا طریقہ تھا۔ ایک ماہ کے محاصرے اور اپنے بے شمار افراد کے قتل کے بعد مشرکین مایوس ہو کر واپس چلے گئے۔ اسے غزوہ خندق یا جنگِ احزاب کہا جاتا ہے۔ احزاب کا نام اس لیے دیا جاتا ہے کہ اصل میں یہ کئی قبائل کا مجموعہ تھی۔ جیسے آج کل امریکا، برطانیہ وغیرہ کی اتحادی افواج کہلاتی ہیں۔ اس جنگ کا ذکر قرآن میں سورۃ الاحزاب میں ہے۔
ابو حفص عمر بن خطاب عدوی قرشی ملقب بہ فاروق (پیدائش: 586ء تا 590ء کے درمیان مکہ میں- وفات: 6 نومبر، 644ء مدینہ میں) ابو بکر صدیق کے بعد مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ راشد، محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خسر اور تاریخ اسلام کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک ہیں۔ عمر بن خطاب عشرہ مبشرہ میں سے ہیں، ان کا شمار علما و زاہدین صحابہ میں ہوتا تھا۔ ابو بکر صدیق کی وفات کے بعد 23 اگست سنہ 634ء مطابق 22 جمادی الثانی سنہ 13ھ کو مسند خلافت سنبھالی۔ عمر بن خطاب ایک باعظمت، انصاف پسند اور عادل حکمران مشہور ہیں، ان کی عدالت میں مسلم و غیر مسلم دونوں کو یکساں انصاف ملا کرتا تھا، عمر بن خطاب کا یہ عدل و انصاف انتہائی مشہور ہوا اور ان کے لقب فاروق کی دیگر وجوہ تسمیہ میں ایک وجہ یہ بھی بنی۔
ایمان شریعت اسلامی کی ایک اہم اصطلاح ہے۔ اس کے لغوی معنی تصدیق کرنے (سچا ماننا) کوکہتے ہیں۔ ایمان کا دوسرا لغوی معنیٰ ہیں : امن دینا، مفتی احمد یار خاں نعیمی اس کی وضاحت کرتے ہیں : چونکہ مومن جبکہ اصطلاح شرع میں ایمان سے مراد سچے دل سے ان سب باتوں کی تصدیق کرنے کا نام ہے جو ضروریاتِ دیں سے ہیں ۔ ایمان کا الٹ کفر ہے۔
میر تقی میر (پیدائش: 28 مئی 1723ء— وفات: 22 ستمبر 1810ء) اصل نام میر محمد تقى اردو كے عظیم شاعر تھے۔ میر ان کا تخلص تھا۔ اردو شاعرى ميں مير تقى مير كا مقام بہت اونچا ہے ـ انہیں ناقدین و شعرائے متاخرین نے خدائے سخن کے خطاب سے نوازا۔ وہ اپنے زمانے كے ايك منفرد شاعر تھےـ۔ آپ كے متعلق اردو كے عظیم الشان شاعرمرزا غالب نے لکھا ہے۔
نعمان ابن ثابت بن زوطا بن مرزبان (پیدائش: 5 ستمبر 699ء– وفات: 14 جون 767ء) (فارسی: ابوحنیفه،عربی: نعمان بن ثابت بن زوطا بن مرزبان)، عام طور پر آپکو امام ابو حنیفہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ آپ سنی حنفی فقہ (اسلامی فقہ) کے بانی تھے۔ آپ ایک تابعی، مسلمان عالم دین، مجتہد، فقیہ اور اسلامی قانون کے اولین تدوین کرنے والوں میں شامل تھے۔ آپ کے ماننے والوں کو حنفی کہا جاتا ہے۔ زیدی شیعہ مسلمانوں کی طرف سے بھی آ پ کو ایک معروف اسلامی عالم دین اور شخصیت تصور کیا جا تا ہے۔ انہیں عام طور پر "امام اعظم" کہا جاتا ہے۔
کُل ہند مسلم لیگ (آل انڈیا مسلم لیگ) برطانوی انڈیا میں ایک سیاسی جماعت تھی اور برصغیر میں مسلم ریاست کی تشکیل میں سب سے زیادہ کارفرما قوت تھی۔ انڈیا کی تقسیم کے بعد بھی آل انڈیا مسلم لیگ انڈیا میں ایک اہم جماعت کے طور پر قائم رہی۔ خصوصاً کیرلا میں دوسری پارٹیوں کے ساتھ شامل ہو کر حکومت سازی کی۔ پاکستان کی تشکیل کے بعد مسلم لیگ اکثر موقعوں پر حکومت میں شامل رہی۔
ابراہیم علیہ السلام وہ پہلے پیغمبر تھے جن کو اللہ نے مُسلمان نبی پیغمبر ابو الانبیاء، خلیل اللہ امام الناس اور حنیف کہہ کر پُکارا۔اللہ تعالی نے اپنے اس دوست برگزیده اور پیارے نبی کو قرآن مجید میں امتہ (النحل : 120) امام الناس (البقره: 124) حنیف اور مسلم (آل عمران: 67) کے ناموں سے بار بار بار کیا ہے۔ اکثر انبیائے کرام انہی کی اولاد سے ہیں۔ابراہیم علیہ السلام کے نام کی وجہ تسمیہ کے بارے میں بائبل کا بیان ہے کہ خدا تعالی ان سے مخاطب ہو کر کہتا ہے۔ دیکھ میرا عہد تیرے ساتھ ہے اور تو بہت قوموں کا باپ ہو گا۔ اور تیرا نام ابرام نہیں بلکہ ابراہام ہو گا۔ کیونکہ میں نے تجھے قوموں کا باپ بنایا ہے۔ (پیدائش 170:5)اکثر ماہرین کے نزدیک ابراہام یا ابراہیم ؑ بھی لفظ ہے۔ ہو سکتا ہے کہ پہلے آپ کا نام ابراہم ہو اور پھر ابراہام یا ابو رہام ہو گیا ہو۔مُسلمان اُن کو خلیل اللہ (اللہ کا دوست) کہتے ہیں۔ ابراہیم کی نسل سے کئی پیغمبر پیدا ہوئے، جن کا تذکرہ عہدنامہ قدیم میں ہے۔ اسلام کی کتاب قرآن مجید میں بھی بہت سارے ایسے انبیا کا ذکر ہے جو ابراہیم کی نسل میں سے تھے۔ اسلام کے آخری نبی مُحمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی ابراہیم کی نسل میں سے ہیں۔شرک، ستارہ پرستی اور بت سازی کے خلاف اپنی قوم اور اوروں کے ساتھ ان کا مجادلہ و محاجہ بڑے زور سے پیش کیا گیا ہے۔ ابراہیم کا بچپن میں ہی رشد عطا کیا گیا اور قلب سلیم بھی عنایت فرمایا گیا۔ تکوینی عجائبات اور ملکوت السمٰوت والارض ان کے سامنے تھے۔ انہیں کے مشاہدے سے اُن کو یقین کامل حاصل ہوا۔ بت پرستی کے خلاف ابراہیم کے جہاد کا ذکر بھی قران کریم میں کئی بار آیا ہے۔قرآن حکیم میں حضرت ابراہیم ؑ اور آذر کے اختلاف عقائد کو جس طرح نمایاں کیا گیا ہے اور جس طرح آپ اپنی قوم کے شرک سے متنفر اور متصادم ہوئے۔ اس سے ہم آپ کی عظمت و جلالت کی حقیقت کو بھی پاسکتے ہیں۔ اور اپنے لیے شمع ہدایت بھی روشن کر سکتے ہیں۔ اس وجہ سے مسلمانوں کو ملت براہیمی ہونے پر فخر ہے۔ ان کے بارے میں یہ توکہیں وضاحت نہیں ہوئی کہ کیا وحی ان پر نازل ہوئی تھی یا ان کی بعثت محض روحانی تھی؟ البتہ قرآن مجید میں ایک جگہ اس امر کی تصدیق ہوئی ہے کہ اللہ تعالی آپ سے ہمکلام تھا۔ اہل تاریخ کے نزدیک متعدد صحیفے تھے جو ابراہیم پر نازل ہوئے۔ ایک صحیفہ جو ان کی طرف سے منسوب ہے یونانی سے انگریزی میں ترجمہ ہو کر شائع ہو چکا ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ کے دین کے بارے میں قرآن مجید میں کئی جگہ پر ارشار ہوتا ہے کہ آپ موحد مسلم اورراست رو تھے۔ ارشاد ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے: ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ”پھر ہم نے تیری طرف (حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی طرف) وحی کی کہ ابراہیم ؑ راست رو (مسلم) کے دین پر چل اور وہ مشرکوں میں سے نہیں تھا “ اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے: يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تُحَآجُّونَ فِي إِبْرَاهِيمَ وَمَا أُنزِلَتِ التَّورَاةُ وَالإنجِيلُ إِلاَّ مِن بَعْدِهِ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ هَاأَنتُمْ هَؤُلاء حَاجَجْتُمْ فِيمَا لَكُم بِهِ عِلمٌ فَلِمَ تُحَآجُّونَ فِيمَا لَيْسَ لَكُم بِهِ عِلْمٌ وَاللّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ مَا كَانَ إِبْرَاهِيمُ يَهُودِيًّا وَلاَ نَصْرَانِيًّا وَلَكِن كَانَ حَنِيفًا مُّسْلِمًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْرَاهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ وَهَـذَا النَّبِيُّ وَالَّذِينَ آمَنُواْ وَاللّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ ”اے اہل کتاب! تم ابراہیم ؑ کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو۔ حالانکہ توریت اور انجیل اس کے بعد ہی اتاری گئیں۔ پھر کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے۔ سنو!
صلوٰۃ " (نماز) کے لغوی معنی "دعا" کے ہیں۔ قرآن میں فرمانِ اللہ ہے: خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌاے پیغمبر! ان لوگوں کے اموال میں سے صدقہ وصول کرلو جس کے ذریعے تم انہیں پاک کردو گے اور ان کے لیے باعثِ برکت بنو گے، اور اُن کے لیے دعا کرو۔ یقینا! تمہاری دعا ان کے لیے سراپا تسکین ہے، اور اللہ ہر بات سنتا اور سب کچھ جانتا ہے جبکہ فرمانِ نبوی ہے: اور اللہ کی جانب سے "صلوٰۃ" کے معنی بہترین ذکر کے ہیں جبکہ ملائکہ کی طرف سے "صلوٰۃ" کے معنی دعا ہی کے لیے جائیں گے۔ قرآن میں لکھا ہے: إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًابے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو!
نذیر ناجی آج کل اخبار جنگ میں کالم لکھتے ہیں۔ ایک زمانہ میں نواز شریف کے تقریر نویس بھی رہے۔ پرویز مشرف نے نواز شریف کی حکومت ختم کی تو ٹی وی اسٹیشن سے گرفتار ہوئے۔ فوج سے معافی مانگی اور نواز شریف کے خلاف لکھنا شروع کر دیا۔ مشرف دور میں حکومت اور مسلم لیگ (ق) کے حق میں لکھتے رہے۔ منصف اعظم افتخار چودھری کی بحالی کے مخالف رہے۔ مشرف کے جاتے دنوں میں اپنی گرفتاری کے حوالے سے تنقیدی کالم لکھے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت بننے کے بعد زرداری کے قصیدہ خواں ہو گئے۔
امیر معاویہ یا معاویہ اول (عربی: معاوية بن أبي سفيان، 597ء، 603ء یا 605ء – اپریل 680ء) اموی خلافت کے بانی تھے اور 661ء سے اپنی وفات 680ء تک خلیفہ رہے۔ وہ نبی محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے 30 سال بعد خلیفہ بن گئے، ان سے قبل خلفائے راشدین اور حسن ابن علی خلیفہ رہے۔ اگرچہ ان کے دور میں انفاص و تقوی کو دور خلفائے راشدین کے مقابلے میں کمتر سمجھا جاتا ہے، لیکن نمو پزیر اسلام میں امیر معاویہ پہلے مسلمان خلیفہ ہیں جن کا نام سرکاری دستاویزات، سکوں اور کتبوں پر کندہ ہوا۔ امیر معاویہ کاتبین وحی میں سے تھے۔
جنگ احد 17 شوال 3ھ (23 مارچ 625ء) میں مسلمانوں اور مشرکینِ مکہ کے درمیان احد کے پہاڑ کے دامن میں ہوئی۔ مشرکین کے لشکر کی قیادت ابوسفیان کے پاس تھی اور اس نے 3000 سے زائد افراد کے ساتھ مسلمانوں پر حملہ کی ٹھانی تھی جس کی باقاعدہ تیاری کی گئی تھی۔ مسلمانوں کی قیادت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کی۔ اس جنگ کے نتیجہ کو کسی کی فتح یا شکست نہیں کہا جا سکتا کیونکہ دونوں طرف شدید نقصان ہوا اور کبھی مسلمان غالب آئے اور کبھی مشرکین لیکن آخر میں مشرکین کا لشکر لڑائی ترک کر کے مکہ واپس چلا گیا۔
سیدہ عائشہ بنت ابی بکر (رضی اللہ عنہا) (پیدائش: 614ء– وفات: 13 جولائی 678ء) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ ہیں۔ آپ کو اُم المومنین کے خطاب سے یاد کیا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد عہد خلفائے راشدین میں آپ کی شخصیت بہت نمایاں نظر آتی ہے۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد 47 سال بقید حیات رہیں اور یہ تمام وہ عرصہ ہے جس میں ابتدائی مسلم فتوحات ہوئیں، مختلف ممالک مملکت اسلامیہ میں داخل ہوئے۔ علم الحدیث میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایات کے بعد سب سے زیادہ روایاتِ حدیث کا ذخیرہ آپ سے ہی روایت کیا گیا ہے۔ آپ عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور عہد خلفائے راشدین کی عینی شاہد بھی تھیں اور مزید برآں آپ نے خلافت امویہ کے ابتدائی 17 سال بھی ملاحظہ فرمائے۔ سنہ 678ء میں آپ کا اِنتقال مدینہ منورہ میں ہوا۔ آپ کے مناقب و فضائل کثیر ہیں جن سے آپ کی عظمت و شان جلالت مسلم خواتین پر نمایاں ہے۔
راجستھان کے لغوی معنی راجاوں کا استھان یا راجاوں کی جگہ ہے۔ تقسیم ہند اور تشکیل راجستھان سے قبل یہاں کثیر تعداد میں چھوٹی بڑی ریاستیں اور رجواڑے آباد تھے جن میں اکثریت راجپوتوں کی تھی اسی لئے اسے راجپوتانہ بھی کہا جاتا تھا۔ راجستھان بھارت کی ایک شمالی ریاست ہے۔ اس کا کل رقبہ 342,239 کلومربع میٹر (132,139 مربع میل) ہے جو بھارت کے کل جغرافیائی رقبہ کا 10.4 فیصد بنتا ہے۔ یہ بلحاظ رقبہ بھارت کی سب سے بڑی ریاست ہے اور بلحاظ آبادی ساتویں بڑی رہاست ہے۔
مذکر: نر اسم ہوتا ہے جیسےمرد، باپ، بیل، بیٹا جبکہ مونث: مادہ اسم ہوتا ہے جیسے عورت، ماں، گائے، بیٹی بے جان اسماء میں نر اور مادہ کا کوئی فرق نہیں ہوتا اس لیے ان کی تذکیر و تانیث کا تمام تر درارومدار اہل زبان پر ہوتا ہے جیسے قلم کو اہل زبان مذکر بولتے ہیں اور گیند کو مونث اسی لیے ایسے اسماء کی تذکیر و تانیث کو غیر حقیقی تذکیر و تانیث کہا جاتا ہے۔ جبکہ حقیقی تذکیر و تانیث وہ ہوتی ہے جس میں نر کے مقابلے میں مادہ اور مادہ کے مقابلے میں نر ہو جانداروں میں کیوں کہ قدرتی طور پر نر اور مادہ کا فرق موجود ہوتا ہے اس لیے اس لیے ان کی تذکیرو تانیث حقیقی ہوتی ہے جیسے مرد، عورت۔ بیل، گائے وغیرہ
اللہ کے ذاتی نام 'اللہ' کے علاوہ اللہ کے ننانوے صفاتی نام مشہور ہیں۔ انہیں کہا جاتا ہے۔ ان میں سے بیشتر قرآن میں موجود ہیں اگرچہ قرآن میں ننانوے کی تعداد مذکور نہیں مگر یہ ارشاد ہے کہ اللہ کو اچھے اچھے ناموں سے پکارا جائے۔ روایات میں بکثرت نیچے دیے گئے ننانوے صفاتی نام ملتے ہیں جن کے ساتھ ان کا اردو ترجمہ بھی درج کیا جا رہا ہے۔
باغ و بہار میر امن دہلوی کی تصنیف کردہ ایک داستان ہے جو اُنھوں نے فورٹ ولیم کالج میں جان گلکرسٹ کی فرمائش پر لکھی۔ عام خیال ہے کہ باغ و بہار کو میر امن نے امیر خسرو کی فارسی داستان قصہ چہار درویش سے اردو میں ترجمہ کیا ہے لیکن یہ خیال پایہ استناد کو نہیں پہنچتا۔ حافظ محمود شیرانی نے تحقیق سے یہ ثابت کیا ہے کہ اس قصے کا امیر خسرو سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں ان کے مطابق یہ قصہ محمد علی معصوم کی تصنیف ہےباغ و بہار فورٹ ولیم کالج کی دین ہے جو انگریزوں کو مقامی زبانوں سے آشنا کرنے کے لیے قائم کیا گیا تھا اور یہیں میر امن نے باغ و بہار کو جان گل کرائسٹ کی فرمائش پر میر حسین عطا تحسین کی نو طرز مرصع سے استفادہ کرکے تصنیف کیا۔ اس طرح یہ داستان اردو نثر میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے اور اسے بجا طور پر جدید اردو نثر کا پہلا صحیفہ قرار دیا گیا ہے۔ اس داستان کی اشاعت کے بعد اردو نثر میں پہلی مرتبہ سلیس زبان اور آسان عبارت آرائی کا رواج ہوا اور آگے چل کر غالب کی نثر نے اسے کمال تک پہنچا دیا۔ اسی بنا پر مولوی عبدالحق کا کہنا ہے کہ اردو نثر کی ان چند کتابوں میں باغ و بہار کو شمار کیا جاتا ہے جو ہمیشہ زندہ رہنے والی ہیں اور شوق سے پڑھی جائیں گی۔ بقول سید محمد، "میر امن نے باغ و بہار میں ایسی سحر کاری کی ہے کہ جب تک اردو زبان زندہ ہے مقبول رہے گی اور اس کی قدر و قیمت میں مرورِ ایام کے ساتھ کوئی کمی نہ ہوگی۔" نیز سید وقار عظیم کے الفاظ میں "داستانوں میں جو قبول عام باغ و بہار کے حصے میں آیا ہے وہ اردو کی کسی اور داستان کو نصیب نہیں ہوا"۔
آگاہی (awareness) کا لفظ اردو میں وسیع معنوں میں مستعمل ہے۔ اگر اس لفظ کی طبی تعریف کی بات کی جائے تو علم طب میں آگاہی سے مراد وہ صلاحیت ہوتی ہے جس کی مدد سے تمام جاندار (بشمول انسان) حسی منبات (sensory stimuli) کو حاصل کرنے کے بعد ان میں تفریق یعنی ان کی الگ الگ احساسات کی صورت میں شناخت کر سکیں۔ آسان الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ آگاہی اصل میں آگاہ (perceive) ہونے کی صلاحیت کو کہا جاتا ہے یعنی محسوس کرنا یا واقعات، اجرام و قرینات کو شعوری طور پر سمجھنا ہی آگاہی کہلاتا ہے۔
علامہ شبلی نعمانی کی پیدائش اعظم گڑھ ضلع کے ایک گاؤں بندول جیراج پور میں 1857ء میں ہوئی تھی- ابتدائی تعلیم گھر پر ہی مولوی فاروق چریاکوٹی سے حاصل کی- 1876ء میں حج کے لیے تشریف لے گئے۔ وکالت کا امتحان بھی پاس کیا مگر اس پیشہ سے دلچسپی نہ تھی۔ علی گڑھ گئے تو سرسید احمد خان سے ملاقات ہوئی، چنانچہ فارسی کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ یہیں سے شبلی نے علمی و تحقیقی زندگی کا آغاز کیا۔ پروفیسر آرنلڈ سے فرانسیسی سیکھی۔ 1892ء میں روم اور شام کا سفر کیا۔ 1898ء میں ملازمت ترک کرکے اعظم گڑھ آ گئے۔ 1913ء میں دار المصنفین کی بنیاد ڈالی۔ 1914ء میں انتقال ہوا۔
تازہ پھلوں اور سبزیوں میں ایک خاص جزو ہوتا ہے جو صحت کے حیاتین یا وٹامن (vitamin) رکھا گیا ہے۔hayateen namiyati maade hai (organic substances).jism ke tibe istehaali afaal keliye in ki intahai qaleel miqdaar darkar hoti hai. Is ki tashkeel jism ke qulyat mai nahi hoti balke ise ajnaas aur gizaao se haasil karna zaroori hota hai .is ku casimar funk ne sab se pehle mushahida kiya.
نجم الدولہ، دبیر الملک، مرزا نوشہ اسد اللہ خان غالب بہادر نظام جنگ (1797ء- 1869ء) اردو زبان کے سب سے بڑے شاعروں میں ایک سمجھے جاتے ہیں۔ یہ تسلیم شدہ بات ہے کہ 19 ویں صدی غالب کی صدی ہے۔ جبکہ 18 ویں میر تقی میر کی تھی اور 20 ویں علامہ اقبال کی۔ غالب کی عظمت کا راز صرف ان کی شاعری کے حسن اور بیان کی خوبی ہی میں نہیں ہے۔ ان کا اصل کمال یہ ہے کہ وہ زندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کو گہرائی میں جا کر سمجھتے تھے اور بڑی سادگی سے عام لوگوں کے لیے بیان کر دیتے تھے۔ غالب جس پر آشوب دور میں پیدا ہوئے اس میں انہوں نے مسلمانوں کی ایک عظیم سلطنت کو برباد ہوتے ہوئے اور باہر سے آئی ہوئی انگریز قوم کو ملک کے اقتدار پر چھاتے ہوئے دیکھا۔ غالباً یہی وہ پس منظر ہے جس نے ان کی نظر میں گہرائی اور فکر میں وسعت پیدا کی۔
محمد بن عبد اللہ کی مدنی زندگی
محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مدنی زندگی کا آغاز 622ء میں ہجرت مدینہ سے ہوتا ہے۔ یثرب اس وقت خانہ جنگی کا شکار تھا۔ اوس و خزرج آپس میں دست و گریباں تھے تو دونوں مل کر یہودی قبائل سے لڑتے تھے۔ چنانچہ اوس و خزرج نے اپنی طاقت کو مضبوط کرنے کے لئے اور آپسی خاندانی جھگڑوں کو ختم کرنے کے لئے نبی محمد کو اپنے شہر آکر رہنے کی دعوت دی جسے نبی نے بخوشی قبول فرمایا۔ آپ نے مکہ کو الوداع کہ کر یثرب کا رخ کیا جسے بعد از ہجرت مدینۃ النبی اور مختصرا مدینہ کہا جانے لگا۔
ہندوستان چھوڑدو تحریک (ہندی: भारत छोड़ो आन्दोलन تلفظ: بھارت چھوڑو آندولن) برصغیر پاک وہند میں چلنے والی ایک تحریک کو کہا جاتا ہے جس کا آغاز مہاتما گاندھی نے کیا۔ یہ انڈین نیشنل کانگریس کی تحریک تھی جس کا مقصد سول نافرمانی کر کے انگریز سرکار کو ہندوستان چھوڑنے پر مجبور کرنا تھا۔کرپس کی تجاویز غیر موثر ہوچکی تھیں۔ کانگریس نے انگریز سرکار کی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فوری طور پر انگریزوں کو ہندوستان چھوڑنے کا الٹی میٹم دیا۔ مہاتما گاندھی نے 8 اگست 1942ء کو اپنے خطاب میں کہا کرو یا مرو، مہاتما گاندھی کے سخت بیان کے بعد کانگریس نے احتجاجی ریلیاں نکالیں اور انگریزوں سے ہندوستان چھوڑنے کا مطالبہ کیا۔ان سب چیزوں کا برطانوی حکومت نے سخت نوٹس لیا یہاں تک کہ مہاتما گاندھی سمیت کئی کانگریسی لیڈران گرفتار کیے گئے۔
فعل (انگریزی: Verb) وہ کلمہ جس کے معانی میں کسی کام کا کرنا یا ہونا پایا جائے اور جس میں تینوں زمانوں ماضی، حال، مستقبل میں سے کوئی ایک زمانہ موجود ہو۔ فعل کی زمانے کے لحاظ سے تین اقسام ہیں۔ فعل ماضی وہ فعل جس میں کسی کام کا کرنا، ہونا یا سہنا گذرے ہوئے زمانے میں پایا جائے۔ فعل حال وہ فعل جس میں کسی کام کا کرنا، ہونا یا سہنا موجودہ زمانے میں پایا جائے۔ فعل مستقبل ایسا فعل جس میں کسی کام کا کرنا، ہونا یا سہنا آنے والے زمانے میں پایا جائے۔
سلطنت عثمانیہ (یا خلافت عثمانیہ 1517ء سے 1924ء تک) (عثمانی ترک زبان: "دولت عالیہ عثمانیہ"، ترک زبان: Osmanlı Devleti) سنہ 1299ء سے 1922ء تک قائم رہنے والی ایک مسلم سلطنت تھی جس کے حکمران ترک تھے۔ اپنے عروج کے زمانے میں (16 ویں – 17 ویں صدی) یہ سلطنت تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی اور جنوب مشرقی یورپ، مشرق وسطٰی اور شمالی افریقہ کا بیشتر حصہ اس کے زیر نگیں تھا۔ اس عظیم سلطنت کی سرحدیں مغرب میں آبنائے جبرالٹر، مشرق میں بحیرۂ قزوین اور خلیج فارس اور شمال میں آسٹریا کی سرحدوں، سلوواکیہ اور کریمیا (موجودہ یوکرین) سے جنوب میں سوڈان، صومالیہ اور یمن تک پھیلی ہوئی تھی۔ مالدووا، ٹرانسلوانیا اور ولاچیا کے باجگذار علاقوں کے علاوہ اس کے 29 صوبے تھے۔
خدیجہ بنت خویلد (پیدائش: 556ء– وفات: 30 اپریل 619ء) مکہ کی ایک معزز، مالدار، عالی نسب خاتون جن کا تعلق عرب کے قبیلے قریش سے تھا۔ جو حسن صورت و سیرت کے لحاظ سے "طاہرہ" کے لقب سے مشہور تھیں۔ انھوں نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تجارتی کاروبار میں شریک کیا اور کئی مرتبہ اپنا سامانِ تجارت دے کر بیرون ملک بھیجا۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تاجرانہ حکمت، دیانت، صداقت، محنت اور اعلیٰ اخلاق سے اتنی متاثر ہوئیں کہ آپ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو شادی کا پیغام بھجوایا۔ جس کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے بڑوں کے مشورے سے قبول فرمایا۔ اس وقت ان کی عمر چاليس سال تھی جبکہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم صرف پچیس سال کے تھے۔ خدیجہ نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور پہلی ام المومنین ہونے کی سعادت حاصل کی۔
محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصال کے بعد ابوبکر صدیق، عمر فاروق، عثمان غنی اور علی المرتضی، حسن المجتبی کا عہد خلافت خلافت راشدہ کہلاتا ہے۔ اس عہد کی مجموعی مدت تیس سال ہے جس میں ابوبکر صدیق اولین اور علی آخری خلیفہ ہیں، حسن کی خلافت کے چھ ماہ خلافت علی میں شمار ہوتے ہیں جیسا کہ جمہور اسلاف کی رائے ہے۔ اس عہد کی نمایاں ترین خصوصیت یہ تھی کہ یہ قرآن و سنت کی بنیاد پر قائم نظام حکومت تھا۔
تصوف کا لفظ اس طریقۂ کار یا اسلوبِ عمل کے لیے اختیار کیا جاتا ہے جس پر کوئی صوفی (جمع: صوفیا) عمل پیرا ہو۔ اسلام سے قربت رکھنے والے صوفی، لفظ تصوف کی تعریف یوں کرتے ہیں کہ ؛ تصوف کو قرآنی اصطلاح میں تزکیۂ نفس اور حدیث کی اصطلاح میں احسان کہتے ہیں۔ تصوف کی اس مذکوہ بالا تعریف بیان کرنے والے افراد تصوف کو قرآن و سنت کے عین مطابق قرار دیتے ہیں؛ اور ابتدائی ایام میں متعدد فقہی علما کرام بھی اس ہی تصوف کی جانب مراد لیتے ہیں۔ پھر بعد میں تصوف میں ایسے افکار ظاہر ہونا شروع ہوئے کہ جن پر شریعت و فقہ پر قائم علما نے نہ صرف یہ کہ ناپسندیدگی کا اظہار کیا بلکہ ان کو رد بھی کیا۔
تحول (metabolism) سے مراد تمام جانداروں کے جسم میں ہونے والے مختلف کیمیائی تعملات کی ہوتی ہے کہ جو مجموعی طور پر حیات کو ممکن بناتے ہیں۔ کیمیائی تعملات یا عوامل کے اس مجموعے میں وہ عوامل بھی شامل ہیں کہ جو جسم میں تعمیری کیمیائی تعملات کے دوران واقع ہوتے ہیں اور وہ عوامل بھی شامل ہیں کہ جو متعدد کیمیائی مرکبات کی توڑ پھوڑ کے ذریعہ توانائی پیدا کرنے کے دوران واقع ہوتے ہوں۔
اردو میں اخبار ایسی اشاعت کو کہتے ہیں جس میں خبریں چھپتی ہیں۔ اس میں سیاست، فن، تہذیب، کھیل، سماج، تجارت وغیرہ شعبوں کی خبریں شائع ہوتی ہیں۔ اصطلاحاً کسی واقعے کا براہ راست، بے لاگ اور صحیح بیان جس میں بہت سے افراد کو دلچسپی ہو۔ صحیح خبر ایسے واقعہ کا بیان ہے جس میں کوئی تبصرہ نہ ہو کوئی الزام نہ لگایا گیا ہو، کسی ذاتی رائے کا اظہار نہ کیا گیا ہو۔ کوئی حقیقت مسخ نہ کی گئی ہو اور اپنی جانب سے کسی بات کا اضافہ نہ کیا گیا ہو۔ خبر میں تازگی، قرب زماں و مکاں اور وسعت ہونی ضروری ہے۔ طرز تحریر موثر اور دل نشین ہونا چاہیے۔ بعض خبریں مقامی اہمیت کی ہوتی ہیں اور بعض عالمی امن و امان پر اثرانداز ہوتی ہیں جن سے ہر ملک کے عوام کو دلچسپی ہوتی ہے بعض اوقات چھوٹی سی جگہ پر انوکھا یا دلچسپ واقعہ پیش آ جاتا ہے جو لوگوں کی دلچسپی کا موجب بن جاتا ہے۔ خبر کی اہمیت کا تعلق متعدد چیزوں سے ہوتا ہے جن میں خبر کا فوری پن یا تازگی قربت مکانی اثرات یا نتیجہ تعدد حیثیت عرفی تنازع مقدار یا تعداد انوکھا پنشامل ہیں۔ کسی قانون کا نفاذ یا حکومت کا کوئی اعلان عوام پر اثر نداز ہوتا ہو تو یہ بڑی خبر ہے۔ راز بھی خبر کا ایک اہم عنصر ہے۔ بڑے لوگوں کی زندگی یا کردار کے چھپے ہوئے گوشوں میں جھانکنے کا شوق شدید ہوتا ہے۔ کسی معمولی حیثیت کے آدمی کا بڑا کارنامہ یا بڑے آدمی کی چھوٹی سی بات بھی خبر بن سکتی ہے۔ واقعہ، مشاہدہ اور واقعہ نگاری خبر کے عناصر ترکیبی ہیں۔ لیکن صحافی کو قاری کے رجحانات، اپنے اخبار کی پالیسی اور بعض اخلاقی اصولوں کا بھی پاس رکھنا ہوتا ہے۔ اخبارات خبریں بین الاقوامی اور ملکی خبررساں ایجینسیوں کے علاوہ اپنے نامہ نگاروں اور خاص نمائندوں سے بھی حاصل کرتے ہیں۔ ہر اخبار کے سٹاف رپورٹر عام تقاریب سے متعلق خبروں کے علاوہ تلاش اور کوشش سے خصوصی خبریں فراہم کرتے ہیں۔
پہلی جنگ عظیم میں ترکی نے برطانیہ کے خلاف جرمنی کا ساتھ دیا۔ترکی کی جنگ میں شمولیت سے ہندوستان کے مسلمان پریشان ہوئے کہ اگر انگریز کامیاب ہو گیا تو ترکی کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جائے گا۔ ہندوستان کے مسلمانوں نے انگریزوں کا ساتھ دینے کے لیے وزیر اعظم برطانیہ لائیڈ جارج سے وعدہ لیا کہ جنگ کے دوران میں مسلمانوں کے مقامات مقدسہ کی بے حرمتی نہیں ہو گی اور جنگ کے بعد مسلمانوں کی خلافت محفوظ
حدیث کا لفظ تحدیث سے اسم ہے، تحدیث کے معنی ہیں:خبر دینا ہو الاسم من التحدیث، و ہو الاخبار۔ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت سے قبل عرب حدیث بمعنی اخبار (خبردینے) کے معنی میں استعمال کرتے تھے، مثلاً وہ اپنے مشہور ایام کو احادیث سے تعبیر کرتے تھے، اسی لیے مشہور الفراء نحوی کا کہنا ہے کہ حدیث کی جمع احدوثہ اور احدوثہ کی جمع احادیث ہے، لفظ حدیث کے مادہ کو جیسے بھی تبدیل کریں اس میں خبر دینے کا مفہوم ضرور موجود ہو گا، اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے وجعلناہم احادیث، فجعلناہم احادیث، اللہ نزل احسن الحدیث کتابا متشابھا، فلیاتو حدیث مثلہ،بعض علما کے نزدیک لفظ حدیث میں جدت کامفہوم پایا جاتاہے، اس طرح حدیث قدیم کی ضد ہے، حافظ ابن حجر فتح الباری میں فرماتے ہیں:- المراد بالحدیث فی عرف الشرع مایضاف الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم ،وکانہ ارید بہ مقابلۃ القرآن لانہ قدیم شرعی اصطلاح میں حدیث سے وہ اقوال واعمال مراد ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب منسوب ہوں، گویا حدیث کا لفظ قرآن کے مقابلہ میں بولاجاتاہے،اس لیے کہ قرآن قدیم ہے اور حدیث اس کے مقابلہ میں جدید ہے، اصطلاح میں حدیث سے مراد وہ اقوال واعمال اور تقریر(تصویب) مراد ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب منسوب ہوں المراد بالحدیث فی عرف الشارع مایضاف الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم الحدیث النبوی ھو عند الاطلاق ینصرف الی ما حدث بہ عنہ بعد النبوۃ من قولہ وفعلہ واقرارہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے اقوال کو حدیث کا نام دیا ہے،آپ ہی نے یہ اصطلاح مقرر فرمائی، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ ابوہریرہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کے یہ سوال کرتے ہیں کہ آپ کی شفاعت کی سعادت کس کو نصیب ہوگی آپ نے جوابًا فرمایا ابو ہریرہ سے پہلے کو ئی شخص مجھ سے اس حدیث کے بارے میں سوال نہیں کرے گا کیونکہ وہ طلب حدیث کے بہت حریص ہیں۔
شاعری (Poetry) کا مادہ "شعر" ہے اس کے معانی کسی چیز کے جاننے پہچاننے اور واقفیت کے ہیں۔ لیکن اصطلاحاً شعر اس کلامِ موزوں کو کہتے ہیں جو قصداً کہا جائے۔ یہ کلام موزوں جذبات اور احساسات کے تابع ہوتا ہے۔ اور کسی واقعہ کی طرف جاننے کا اشارہ کرتا ہے۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ آپ نے کوئی حادثہ دیکھا ہو اور وہ آپ کے دل پر اثر کر گیا ہو اور آپ کے اندر سے خود بخود الفاظ کی صورت میں ادا ہو جائے اس اثر کے بیان کو شعر کہتے ہیں اور انہی شعروں کو شاعری کے نام سے جانا جاتا ہے۔
امام محمد بن ادریس شافعی (پیدائش: 28 اگست 767ء— وفات: 30 رجب 204ھ/19 جنوری 820ء) جو امام شافعی کے لقب سے معروف ہیں، سنی فقہی مذہب شافعی کے بانی ہیں۔ ان کے فقہی پیروکاروں کو شافعی (جمع شوافع) کہتے ہیں۔ امام شافعی کا عرصہ حیات مسلم دنیا کے عروج کا دور یعنی اسلامی عہد زریں ہے۔ خلافت عباسیہ کے زمانہ عروج میں بغداد میں مسلک شافعی کا بول بالا اور بعد ازاں مصر سے عام ہوا۔ مذہب شافعی کے پیروکار زیادہ تر مشرقی مصر، صومالیہ، ارتریا، ایتھوپیا، جبوتی، سواحلی ساحل، یمن، مشرق وسطیٰ کے کرد علاقوں میں، داغستان، فلسطین، لبنان، چیچنیا، قفقاز، انڈونیشیا، ملائیشیا، سری لنکا کے کچھ ساحلی علاقوں میں، مالدیپ، سنگاپور، بھارت کے مسلم علاقوں، میانمار، تھائی لینڈ، برونائی اور فلپائن میں پائے جاتے ہیں۔
بنو امیہ قریش کا ایک ممتاز اور دولت مند قبیلہ تھا۔ اسی خاندان نے خلافت راشدہ کے بعد تقریباً ایک صدی تک ملوکیت سنبھالی اور اسلامی فتوحات کو بام عروج پر پہنچایا۔ جس کی سرحدیں ایک طرف چین اور دوسری طرف اسپین تک پھیلی ہوئی تھیں۔ البتہ مرکزی خلافت کے خاتمے کے باوجود اس خاندان کا ایک شہزادہ عبدالرحمن الداخل اسپین میں حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوا۔ جہاں 1492ء تک اموی سلطنت قائم رہی۔
محمد بن قاسم (عربی: محمد بن القاسم الثقفي) کا پورا نام عماد الدین محمد بن قاسم تھا جو بنو امیہ کے ایک مشہور سپہ سالار حجاج بن یوسف کے بھتیجا تھے۔ محمد بن قاسم نے 17 سال کی عمر میں سندھ فتح کرکے ہندوستان میں اسلام کو متعارف کرایا۔ ان کو اس عظیم فتح کے باعث ہندوستان و پاکستان کے مسلمانوں میں ایک مسیحاء کا اعزاز حاصل ہے اور اسی لیے سندھ کو "باب الاسلام" کہا جاتا ہے کیونکہ ہندوستان پر اسلام کا دروازہ یہیں سے کھلا۔