اردو ویکیپیڈیا کے سب سے زیادہ ملاحظہ کردہ مضامین کی فہرست۔ مزید معلومات کے لیے ۔ ۔ ۔
مکتوب نگاری زمانہ قدیم سے جذبات ، واقعات اور حالات کی ترسیل کا ذریعہ ہی ہے ۔ فارسی میں مکاتیب اور واقعات میں انشا پردازی کے اعلیٰ نمونے پیش کیے گئے ۔ لیکن یہ انشا پردازی محض لفظی بازی گری تھی اس میں جذبات اوراحساسات کا دخل بہت کم تھا ۔ مرصع و مسجع عبارت آرائی ہوتی تھی ۔ اردو خطوط میں بھی اسی کی تقلید کی گئی ۔ مرزا غالب نے اس فرسودہ روش کو ترک کر کے اردو خطوط نویسی میں انقلاب لایا ۔ انہوں نے خطوط کو زندگی کی حرارت بخشی ۔ سادہ اور عام فہم زبان کا استعمال کیا جس میں بے تکلف عبارتیں ہوتیں ، مسجع و مرصع عبارتوں سے پاک ۔ غالب خط نہیں لکھتے تھے بلکہ بات چیت کرتے تھے ۔ گرچہ یہ مکالمہ یک طرفہ ہوتا تھا لیکن مکتوب الیہ کو ایسا محسوس ہوتا تھا گویا غالب ان کے سامنے ان سے گفتگو کر رہے ہیں. غالب کے خطوط معلومات کا گنجینہ ہیں ۔ ان سے اس دور کی سیاسی سماجی زندگی پر روشنی پڑتی ہے ۔ خاص طور ایام غدر اور اس کے بعد کے چشم دید حالات اس خطوط میں بیان ہوئے ہیں ۔ بہت سے خطوط شاگردوں کے نام ہیں جن میں ان کے کلام پر اصلاح دینے کے ساتھ زبان و بیان کے نکات بتائے گئے ہیں. اردو ادب کی اس صنف مکتوب نگاری میں غالب کے خطوط کو نمایہ مقام حاصل ہے .
'مرزا اسد اللہ خان غالب' کی شخصیت کو کون نہیں جانتا۔ ہمارے ملک میں تو یہ عالم ہے کہ اگر کسی کو تھوڑی بہت اردو کی سوجھ بوجھ ہے تو غالب کے نام کو تو ضرور جانتا ہوگا۔ بحیثیتِ شاعر وہ اتنے مقبول ہیں کہ اُن کے اشعار زبان زدِ خلائق ہیں۔ اور بحیثیتِ نثر نگار بھی وہ کسی سے کم نہیں۔ بلکہ اس لحاظ سے ان کا پایہ سب سے بلند ہے کہ ایسے زمانے میں جب رنگینی و قافیہ پیمائی، انشا پردازی کا اصل سرمایہ سمجھی جاتی تھی ، انہوں نے نثر میں بھی ایک نئی راہ نکالی ۔ سادہ و پرکار، حسین و رنگین۔ یہی نمونۂ نثر آنے والوں کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوئے۔
مریخ نظام شمسی میں سورج سے فاصلے کے لحاظ سے چوتھا اور عطارد کے بعد دوسرا سب سے چھوٹا سیارہ ہے۔ قدیم رومی مذہب میں مریخ کو جنگ کا خدا کے نام سے پکارا جاتا تھا کیونکہ وہ مریخ کی پرستش کرتے تھے۔ مریخ کی سرخ رنگت کی وجہ سے اسے سرخ سیارہ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ سرخ رنگ مریخ کی سطح پر آئرن آکسائڈ کی کثرت کی وجہ سے ہے۔ مریخ کی سرخی مائل رنگت اسے کھلی آنکھ سے نظر آنے والے دوسرے سماوی اجسام سے ممتاز کرتی ہے ۔ مریخ ایک زمین مماثل سیارہ ہے جو زمین کی نسبت ہلکا کرہ ہوائی رکھتا ہے۔ اس کے سطح پر زمین کے چاند کی طرح شھاب ثاقب یا کسی دوسرے سماوی جسم کے ٹکرانے سے بننے والے گڑھے موجود ہیں اور اس کی سطح پر زمین کی طرح وادیاں اور صحرا بھی موجود ہیں۔ زمین کی طرح اس کے قطبین پر بھی برف جمی رہتی ہے۔ مریخ کا محوری گردش کا دورانیہ اور موسموں کی گردش زمین جیسی ہے اور زمین کی طرح اس کا محور بھی جھکا ہوا ہے جو موسموں کے تغیر کا باعث بنتا ہے۔ مریخ پر ایک بہت بڑا آتش فشاں پہاڑ ہے جسے کوہ اولیمپس مونس کہتے ہیں یہ پہاڑ نظام شمسی کے سیاروں پر اب تک دریافت ہونے والے پہاڑوں میں سے سب سے بڑا پہاڑ ہے اور اس پر ایک بہت بڑی وادی جسے [[وادئ میرینرس] کہتے ہیں یہ وادی نظام شمسی کے سیاروں پر اب تک دریافت ہونے والی وادیوں میں سب سے بڑی وادی ہے۔ مریخ کے شمالی کرہ میں ایک ہموار طاس (جغرافیہ) ہے جسے بوریالس طاس کہتے ہیں یہ طاس مریخ کے 40 فی صد رقبے کو گھیرے ہوئے ہے اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ کسی سماوی جسم جیسے شھاب ثاقب کے ٹکرانے سے بنا ہے ۔ مریخ کے دو چاند ہیں جنہیں فوبوس اور دیموس کہتے ہیں یہ چاند چھوٹے اور بے ترتیب شکل کے ہیں۔ ان کے بارے میں یہ بھی قیاس کیا جاتا ہے کہ یہ چھوٹے سیارچے ہو سکتے ہیں جنہیں مریخ کی کشش ثقل نے پکڑ لیا ہو جس کی وجہ سے یہ مریخ کے گرد گھوم رہے ہیں ۔
شاہ ولی اللہ (پیدائش: 1703ء، انتقال:1762ء) برصغیر پاک و ہند میں عہد مغلیہ کے مشہور عالم دین، محدث اور مصنف تھے۔ مجدد الف ثانی اور ان کے ساتھیوں نے اصلاح کا جو کام شروع کیا تھا شاہ ولی اللہ نے اس کام کی رفتار اور تیز کردی۔ ان دونوں میں بس یہ فرق تھا کہ مجدد الف ثانی چونکہ مسلمانوں کے عہد عروج میں ہوئے تھے اس لیے ان کی توجہ زیادہ تر ان خرابیوں کی طرف رہی جو مسلمانوں میں غیر مسلموں کے میل جول کی وجہ سے پھیل گئیں تھیں لیکن شاہ ولی اللہ چونکہ ایک ایسے زمانے سے تعلق رکھتے تھے جب مسلمانوں کا زوال شروع ہو گیا تھا اس لیے انہوں نے مسلمانوں کے زوال کے اسباب پر بھی غور کیا اور اس کے علاج کے بھی طریقے بتائے۔
میراجی، جن کا اصل نام محمد ثناء اللہ تھا۔ منشی محمد مہتاب الدین کے ہاں 25 مئی، 1912ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ پہلے ”ساحری“ تخلص کرتے تھے۔ لیکن ایک بنگالی لڑکی ”میرا سین“ کے یک طرفہ عشق میں گرفتار ہو کر ”میراجی“ تخلص اختیار کر لیا۔ میراجی کی ذات سے ایسے واقعات وابستہ ہیں کہ ان کی ذات عام آدمی کے لیے ایک افسانہ بن کر رہ گئی ہے۔ اُن کا حلیہ اور ان کی حرکات و سکنات ایسی تھیں کہ یوں معلوم ہوتا تھا انہوں نے سلسلہ ملامتیہ میں بیعت کر لی ہے۔ لمبے لمبے بال ،بڑی بڑی مونچھیں، گلے میں مالا، شیروانی پھٹی ہوئی، اوپر نیچے بیک وقت تین پتلونیں، اوپر کی جب میلی ہو گئی تو نیچے کی اوپر اور اوپر کی نیچے بدل جاتی۔ شیروانی کی دونوں جیبوں میں بہت کچھ ہوتا۔ کاغذوں اور بیاضوں کا پلندہ بغل میں دابے بڑی سڑک پر پھرتا تھااور چلتے ہوئے ہمیشہ ناک کی سیدھ میں دیکھتا تھا۔ وہ اپنے گھر اپنے محلے اور اپنی سوسائٹی کے ماحول کو دیکھ دیکھ کر کڑتا تھا اس نے عہد کر رکھا تھا کہ وہ اپنے لیے شعر کہے گا۔ صرف 38 سال کی عمر میں 3 نومبر، 1949ء کو انتقال کرگئے۔ اس مختصر سی عمر میں میراجی کی تصانیف میں ”مشرق و مغرب کے نغمے“ ”اس نظم میں “”نگار خانہ“”خیمے کے آس پاس“ شامل ہیں۔ جبکہ میراجی کی نظمیں، گیت ہی گیت، پابند نظمیں اور تین رنگ بھی شاعری کے مجموعے ہیں۔[حوالہ درکار]
اسلامی جمہوریہ پاکستان جنوبی ایشیا کے شمال مغرب وسطی ایشیا اور مغربی ایشیا کے لیے دفاعی طور پر اہم حصے میں واقع ایک خود مختار اسلامی ملک ہے۔ 21 کروڑ کی آبادی کے ساتھ یہ دنیا کا پانچواں بڑی آبادی والا ملک ہے۔ 881,913 مربع کلومیٹر (340,509 مربع میل) کے ساتھ یہ دنیا کا تینتیسواں بڑے رقبے والا ملک ہے۔ اس کے جنوب میں 1046 کلومیٹر (650 میل) کی ساحلی پٹی ہے جو بحیرہ عرب سے ملتی ہے۔پاکستان کے مشرق ميں بھارت، شمال مشرق ميں چین اور مغرب ميں افغانستان اور ايران واقع ہيں۔ پاکستان کو شمال میں ایک تنگ واخان راہداری تاجکستان سے جدا کرتی ہے جبکہ اس ملک کی سمندری سرحدی حدود عمان کے سمندری حدود سے بھی ملتی ہیں۔ موجودہ پاکستان کے علاقے قدیم ترین دنیا میں وہ علاقے تھے جن میں موہنجوداڑو اور انڈس سولائیزیشن مہر گڑھ ٹیکسلا پراچین سنسکرت دور اور دیگر زیرتحقیق آرک لوجیکل سائٹسٹ جیسے قندھارا تہذیب و تمدن تھی۔ اس علاقے پر پراچین راجپوت ایرانی یونانیعرب،بدھ مت، سکھ، مغل، ہن سفید اور ترک حملہ آوروں کی حکومت بھی رہی ہے۔ یہ علاقہ مختلف سلطنتوں جیسے چندر گپت موریا، ہخامنشی سلطنت عربوں کی خلافت امویہ، مغول سلطنت، مغلیہ سلطنت، درانی سلطنت، سکھ سلطنت اور برطانوی راج کا اہم حصہ رہا ہے۔ اس کے بعد محمد علی جناح کی قیادت میں تحریک پاکستان کامیاب ہوئی اور 14 اگست 1947ء کو ہندوستان کے مشرق اور مغرب میں دو حصوں میں ایک آزاد اور خودمختار اسلامی ریاست قائم ہوئی۔ پاکستان نے 1956ء میں اپنا پہلا قانون اپنایا۔ 1971ء میں ایک خانہ جنگی کے دوران میں اس کا مشرقی حصہ الگ ہو کر ایک نیا ملک بنگلہ دیش بن گیا۔ پاکستان وفاقی پارلیمانی جمہوری ریاست کے تحت چلتا ہے۔ اس کے چار صوبے اور کچھ وفاقی حکومت کے زیر انتظام علاقے ہیں۔ یہ ملک لسانی اور قومی طور پر مختلف اقوام کا علاقہ ہے اور اس کا جغرافیہ بھی ہر طرح کے خطے پر مشتمل ہے۔ پاکستان دنیا کا ایک اہم طاقتور ملک ہے، جیسا کہ اس کی فوج دنیا کی چھویں بڑی فوج ہے اور یہ اسلامی دنیا کی واحد اور جنوبی ایشیا کی دوسری ایٹمی طاقت ہے۔ اس کی معیشت دنیا میں 27 ویں نمبر پر ہے۔ پاکستان کی تاریخ فوجی آمریت، سیاسی عدم استحکام اور پڑوسی ملک سےجھگڑوں پر مشتمل ہے۔ یہ ملک مؤتمر عالم اسلامی، اقوام متحدہ، دولت مشترکہ ممالک، سارک، ترقی پذیر 8، اقتصادی تعاون تنظیم جیسی تنظیموں کا اہم رکن ہے۔ ان سرزمین اور ممالک کے ناموں میں، جس میں لاحقہ "ستان" شامل ہے، پاکستان کا لفظ سب سے نیا ہے اور کردستان سب سے پرانا نام ہے۔ پاکستان کے مطلب پاک نفسوں کی سرزمین ہے.
ابو القاسم محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب (12 ربیع الاول عام الفیل / 8 جون 570ء یا 571ء – 12 ربیع الاول 10ھ / 8 جون 632ء) مسلمانوں کے آخری نبی ہیں۔ اہل اسلام کے نزدیک محمد تمام مذاہب کے پیشواؤں سے کامیاب ترین پیشوا تھے۔ آپ کی کنیت ابوالقاسم تھی۔ مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ کی طرف سے انسانیت کی جانب بھیجے جانے والے انبیا اکرام کے سلسلے کے آخری نبی ہیں جن کو اللہ نے اپنے دین کی درست شکل انسانوں کی جانب آخری بار پہنچانے کیلئے دنیا میں بھیجا۔ انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دنیا کی تمام مذہبی شخصیات میں سب سے کامیاب شخصیت تھے۔
مشتاق احمد یوسفی (4 ستمبر 1921ء - 20 جون 2018ء) اردو کے بھارتی نژاز پاکستانی مزاح نگار تھے۔ ان کی ولادت تب کے ہندوستان اور اس وقت کے بھارت میں ہوئی مگر انہوں نے بطور مزاح نگار خود کو پاکستانی کہلوانا زیادہ پسند کیا اور تقسیم ہند کے بعد بھارت کو جو نقصان ہوا ان میں مشتاق احمد یوسفی کا ہجرت کر جانا بھی ہے۔ یوسفی بہت سے قومی اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے صدر بھی رہے۔ سنہ 1999ء میں حکومت پاکستان کی جانب سے انہیں ستارہ امتیاز ملا پھر سنہ 2002ء میں پاکستان کا سب سے بڑا تعلیمی اعزاز نشان امتیاز سے نوازا گیا۔ مشتاق احمد یوسفی بڑے نستعلیق انسان تھے۔ وہ بینکر تھے۔ عوامی اور تعلقات عامہ کے آدمی نہیں تھے۔ وہ لکھتے کم تھے لیکن معیار پر نظر رکھتے تھے۔
بچوں کی نشو و نما میں حیاتیاتی، نفسیاتی اور جذباتی تبدیلیاں شامل ہیں جو انسانوں کی پیدائش سے لے کر جواں سالی کے دور کے ختم تک جاری رہتی ہیں، جیسا کہ افراد آزانہ طور نشو و نما کرتے ہیں۔ یہ ایک مسلسل کا طرز عمل ہے جس کے تسلسل کی قیاس آرائی تو لگائی جا سکتی ہے، تاہم یہ سلسلہ ہر لڑکے میں منفرد ہوتا ہے۔ یہ ایک ہی شرح سے آگے نہیں بڑھتی اور ہر مرحلہ اپنے سے سابقہ نشوونمااتی تجربے سے متاثر ہوتا ہے۔ چوں کہ یہ نشوونمااتی تبدیلیاں وراثیاتی عوامل اور ماقبل ولادت زندگی سے کافی متاثر ہوتے ہیں، وراثیات اور ماقبل ولادت نشو و نما کو عمومًا بچوں کی نشو و نما کے مطالعے میں شامل کیا جاتا ہے۔ متعلقہ اصطلاحات میں نشوونمااتی نفسیات، جو مکمل حین حیات کی نشو و نما کا حوالہ دیتی ہے اور طفلیات، جو طب کو وہ شاخ ہے جو بچوں کی دیکھ ریکھ سے تعلق رکھتی ہے۔ نشوونمااتی تبدیلیاں وراثیاتی گرفت والے طریقوں کا نتیجہ ہو سکتے ہیں جسے نشوونمااتی حیاتیات کہا جاتا ہے، یا پھر یہ ماحولیاتی عوامل اور سیکھنے کا نتیجہ ہو سکتا ہے، مگر زیادہ تر اس ان دونوں کی تال میل ہوتی ہے۔ یہ انسانی فطرت کی وجہ سے بھی ممکن ہے اور اس میں انسانوں کی ماحول سے سیکھنے کی عادت کا بھی دخل ممکن ہے۔
ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال (ولادت: 9 نومبر 1877ء - وفات: 21 اپریل 1938ء) بیسویں صدی کے ایک معروف شاعر، مصنف، قانون دان، سیاستدان اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھے۔ اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے اور یہی ان کی بنیادی وجہ شہرت ہے۔ شاعری میں بنیادی رجحان تصوف اور احیائے امت اسلام کی طرف تھا۔ "دا ریکنسٹرکشن آف ریلیجس تھاٹ ان اسلام" کے نام سے انگریزی میں ایک نثری کتاب بھی تحریر کی۔ علامہ اقبال کو دور جدید کا صوفی سمجھا جاتا ہے۔[حوالہ درکار] بحیثیت سیاست دان ان کا سب سے نمایاں کارنامہ نظریۂ پاکستان کی تشکیل ہے، جو انہوں نے 1930ء میں الہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پیش کیا تھا۔ یہی نظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا۔ اسی وجہ سے علامہ اقبال کو پاکستان کا نظریاتی باپ سمجھا جاتا ہے۔ گو کہ انہوں نے اس نئے ملک کے قیام کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن انہیں پاکستان کے قومی شاعر کی حیثیت حاصل ہے۔
راجستھان کے لغوی معنی راجاوں کا استھان یا راجاوں کی جگہ ہے۔ تقسیم ہند اور تشکیل راجستھان سے قبل یہاں کثیر تعداد میں چھوٹی بڑی ریاستیں اور رجواڑے آباد تھے جن میں اکثریت راجپوتوں کی تھی اسی لئے اسے راجپوتانہ بھی کہا جاتا تھا۔ راجستھان بھارت کی ایک شمالی ریاست ہے۔ اس کا کل رقبہ 342,239 کلومربع میٹر (132,139 مربع میل) ہے جو بھارت کے کل جغرافیائی رقبہ کا 10.4 فیصد بنتا ہے۔ یہ بلحاظ رقبہ بھارت کی سب سے بڑی ریاست ہے اور بلحاظ آبادی ساتویں بڑی رہاست ہے۔
قرآن، قرآن مجید یا قرآن شریف (عربی: القرآن الكريم) دین اسلام کی مقدس و مرکزی کتاب ہے جس کے متعلق اسلام کے پیروکاروں کا اعتقاد ہے کہ وہ کلام الہی ہے اور اسی بنا پر یہ انتہائی محترم و قابل عظمت کتاب ہے۔ اسے پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی کے ذریعے اتارا گیا۔ یہ وحی اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتے حضرت جبرائیل علیہ السلام لاتے تھے جیسے جیسے قرآن مجید کی آیات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوتیں آپ صلی علیہ وآلہ وسلم اسے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو سنا اور ان آیات کے مطالب و معانی سمجھا دیتے۔ کچھ صحابہ کرام تو ان آیات کو وہیں یاد کر لیتے اور کچھ لکھ کر محفوظ کر لیتے۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن ہر قسم کی تحریف سے پاک سے محفوظ ہے، قرآن میں آج تک کوئی کمی بیشی نہیں ہو سکی اور اسے دنیا کی واحد محفوظ کتاب ہونے کی حیثیت حاصل ہے، جس کا حقیقی مفہوم تبدیل نہیں ہو سکا اور تمام دنیا میں کروڑوں کی تعداد میں چھپنے کے باوجود اس کا متن ایک جیسا ہے اور اس کی تلاوت عبادت ہے۔ نیز صحف ابراہیم، زبور اور تورات و انجیل کے بعد آسمانی کتابوں میں یہ سب سے آخری کتاب ہے اور سابقہ آسمانی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اب اس کے بعد کوئی آسمانی کتاب نازل نہیں ہوگی۔ قرآن کی فصاحت و بلاغت کے پیش نظر اسے لغوی و مذہبی لحاظ سے تمام عربی کتابوں میں اعلیٰ ترین مقام دیا گیا ہے۔ نیز عربی زبان و ادب اور اس کے نحوی و صرفی قواعد کی وحدت و ارتقا میں بھی قرآن کا خاصا اہم کردار دکھائی دیتا ہے۔ چنانچہ قرآن کے وضع کردہ عربی زبان کے قواعد بلند پایہ عرب محققین اور علمائے لغت مثلاً سیبویہ، ابو الاسود الدؤلی اور خلیل بن احمد فراہیدی وغیرہ کے یہاں بنیادی ماخذ سمجھے گئے ہیں۔
عُمرانیات یا سماجیات سماجی رویے، اس کے مآخذ، ترقی، تنظیم اور اداروں کے مطالعے کا علم ہے۔ یہ ایک ایسا سماجی علم ہے جو مختلف تجرباتی تفتیشی طریقوں اور تنقیدی جائزوں کے ذریعے معاشرتی نظم، بدنظمی اور معاشرتی تبدیلی کے بارے میں ایک علمی ڈھانچہ وضع کرتا ہے۔ ایک ماہر عمرانیات کا عمومی ہدف سماجی پالیسی اور فلاح کے لیے براہ راست لاگو ہونے والی تحقیق منعقد کرنا ہوتا ہے، تاہم عمرانیات کے علم میں معاشرتی عمل کی تصوراتی تفہیم کو بہتر بنانا بھی شامل ہے۔ موضوعاتی مواد کا احاطہ فرد کے کردار اور عمل سے لے کر پورے نظام اور سماجی ڈھانچے کی تفہیم تک جاتا ہے۔
علامہ شبلی نعمانی کی پیدائش اعظم گڑھ ضلع کے ایک گاؤں بندول جیراج پور میں 1857ء میں ہوئی تھی- ابتدائی تعلیم گھر پر ہی مولوی فاروق چریاکوٹی سے حاصل کی- 1876ء میں حج کے لیے تشریف لے گئے۔ وکالت کا امتحان بھی پاس کیا مگر اس پیشہ سے دلچسپی نہ تھی۔ علی گڑھ گئے تو سرسید احمد خان سے ملاقات ہوئی، چنانچہ فارسی کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ یہیں سے شبلی نے علمی و تحقیقی زندگی کا آغاز کیا۔ پروفیسر آرنلڈ سے فرانسیسی سیکھی۔ 1892ء میں روم اور شام کا سفر کیا۔ 1898ء میں ملازمت ترک کرکے اعظم گڑھ آ گئے۔ 1913ء میں دار المصنفین کی بنیاد ڈالی۔ 1914ء میں انتقال ہوا۔
اردو میں تعلیم کا لفظ، دو خاص معنوں میں مستعمل ہے ایک اصطلاحی دوسر ے غیر اصطلاحی، غیر اصطلاحی مفہوم میں تعلیم کا لفظ واحد اور جمع دونوں صورتوں میں استعمال ہو سکتا ہے اور آدرش، پیغام، درسِ حیات، ارشادات، ہدایات اور نصائح کے معنی دیتا ہے۔ جیسے آنحضرت کی تعلیم یا تعلیمات، حضرت عیسیٰ کی تعلیم یا تعلیمات اور شری کرشن کی تعلیمات، کے فقروں میں، لیکن اصطلاحی معنوں میں تعلیم یا ایجوکیشن سے وہ شعبہ مراد لیا جاتا ہے جس میں خاص عمر کے بچوں اور نوجوانوں کی ذہنی اور جسمانی نشو و نما، تخیلی و تخلیقی قوتوں کی تربیت و تہذیب، سماجی عوامل و محرکات، نظم و نسق مدرسہ، اساتذہ، طریقہ تدریس، نصاب، معیار تعلیم، تاریخ تعلیم، اساتذہ کی تربیت اور اس طرح کے دوسرے موضوعات زیر بحث آتے ہیں۔
نجم الدولہ، دبیر الملک، مرزا نوشہ اسد اللہ خان غالب بہادر نظام جنگ (1797ء- 1869ء) اردو زبان کے سب سے بڑے شاعروں میں ایک سمجھے جاتے ہیں۔ یہ تسلیم شدہ بات ہے کہ 19 ویں صدی غالب کی صدی ہے۔ جبکہ 18 ویں میر تقی میر کی تھی اور 20 ویں علامہ اقبال کی۔ غالب کی عظمت کا راز صرف ان کی شاعری کے حسن اور بیان کی خوبی ہی میں نہیں ہے۔ ان کا اصل کمال یہ ہے کہ وہ زندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کو گہرائی میں جا کر سمجھتے تھے اور بڑی سادگی سے عام لوگوں کے لیے بیان کر دیتے تھے۔ غالب جس پر آشوب دور میں پیدا ہوئے اس میں انہوں نے مسلمانوں کی ایک عظیم سلطنت کو برباد ہوتے ہوئے اور باہر سے آئی ہوئی انگریز قوم کو ملک کے اقتدار پر چھاتے ہوئے دیکھا۔ غالباً یہی وہ پس منظر ہے جس نے ان کی نظر میں گہرائی اور فکر میں وسعت پیدا کی۔
نعمان ابن ثابت بن زوطا بن مرزبان (پیدائش: 5 ستمبر 699ء– وفات: 14 جون 767ء) (فارسی: ابوحنیفه،عربی: نعمان بن ثابت بن زوطا بن مرزبان)، عام طور پر آپکو امام ابو حنیفہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ آپ سنی حنفی فقہ (اسلامی فقہ) کے بانی تھے۔ آپ ایک تابعی، مسلمان عالم دین، مجتہد، فقیہ اور اسلامی قانون کے اولین تدوین کرنے والوں میں شامل تھے۔ آپ کے ماننے والوں کو حنفی کہا جاتا ہے۔ زیدی شیعہ مسلمانوں کی طرف سے بھی آ پ کو ایک معروف اسلامی عالم دین اور شخصیت تصور کیا جا تا ہے۔ انہیں عام طور پر "امام اعظم" کہا جاتا ہے۔
ابو حفص عمر بن خطاب عدوی قرشی ملقب بہ فاروق (پیدائش: 586ء تا 590ء کے درمیان مکہ میں- وفات: 6 نومبر، 644ء مدینہ میں) ابو بکر صدیق کے بعد مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ راشد، محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خسر اور تاریخ اسلام کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک ہیں۔ عمر بن خطاب عشرہ مبشرہ میں سے ہیں، ان کا شمار علما و زاہدین صحابہ میں ہوتا تھا۔ ابو بکر صدیق کی وفات کے بعد 23 اگست سنہ 634ء مطابق 22 جمادی الثانی سنہ 13ھ کو مسند خلافت سنبھالی۔ عمر بن خطاب ایک باعظمت، انصاف پسند اور عادل حکمران مشہور ہیں، ان کی عدالت میں مسلم و غیر مسلم دونوں کو یکساں انصاف ملا کرتا تھا، عمر بن خطاب کا یہ عدل و انصاف انتہائی مشہور ہوا اور ان کے لقب فاروق کی دیگر وجوہ تسمیہ میں ایک وجہ یہ بھی بنی۔
ناول اطالوی زبان کے لفظ ناولا (Novella) سے نکلا ہے۔ ناولا کے معنیٰ ہے نیا۔ لغت کے اعتبار سے ناول کے معانی نادر اور نئی بات کے ہیں۔ لیکن صنفِ ادب میں اس کی تعریف بنیادی زندگی کے حقائق بیان کرنا ہے۔ ناول کی اگر جامع تعریف کی جائے تو وہ کچھ یوں ہوگی کہ “ناول ایک نثری قصہ ہے جس میں پوری ایک زندگی بیان کی جاتی ہے”۔ ناول کے عناصر ِ ترکیبی میں کہانی، پلاٹ، کردار، مکالمے ،زماں و مکاں، اسلوب ،نکتہ نظر اور موضوع وغیرہ شامل ہیں۔
ابو بکر صدیق عبد اللہ بن ابو قحافہ تیمی قریشی (پیدائش: 573ء— وفات: 22 اگست 634ء) پہلے خلیفہ راشد، عشرہ مبشرہ میں شامل، پیغمبر اسلام کے وزیر، صحابی و خسر اور ہجرت مدینہ کے وقت رفیق سفر تھے۔ اہل سنت و الجماعت کے یہاں ابو بکر صدیق انبیا اور رسولوں کے بعد انسانوں میں سب سے بہتر، صحابہ میں ایمان و زہد کے لحاظ سے سب سے برتر اور ام المومنین عائشہ بنت ابی بکر کے بعد پیغمبر اسلام کے محبوب تر تھے۔ عموماً ان کی کنیت "ابو بکر" کے ساتھ صدیق کا لقب لگایا جاتا جسے ابو بکر صدیق کی تصدیق و تائید کی بنا پر پیغمبر اسلام نے دیا تھا۔
واحد کا مفہوم (انگریزی: Meaning of Singular) ایک شخص یا ایک چیز کو واحد کہا جاتا ہے۔ یا واحد وہ اسم ہوتا ہے جو ایک شخص یا چیز کو ظاہر کرے۔ مثلاﹰ کتاب، لڑکا، مسجد، استاد، فوج، بلی، شجر، میز، کرسی، وغیرہ۔ جبکہ جمع ایک سے زیادہ شخصوں یا چیزوں کو جمع کہتے ہیں۔ یا جمع وہ اسم ہوتا ہے جو ایک سے زیادہ اشخاص ا اسماء کو ظاہر کرے۔ مثلاً کُتب، لڑکے، مساجد، اساتذہ، افواج، بلیاں، اشجار، میزیں، کرسیاں وغیرہ
اردو ادب کی دو اصناف ہیں، اردو نثر اور اردو نظم یعنی اردو شاعری۔ پھر اردو شاعری کی کئی قسمیں ہیں جن میں نظم، غزل، مثنوی، قصیدہ، مرثیہ، رباعی، مخمس، مسدس، مثمن، قطعہ، نعت وغیرہ شامل ہیں۔ ان میں سب سے مشہور صنف غزل ہے جسے ہر خاص و عام نے قبول کیا اور سراہا ہے مگر اردو شاعری کی سب سے وسیع قسم اردو نظم ہے۔ اردو نظم میں بہت زیادہ تجربے کیے گئے ہیں اور یہی اس کی وسعت کی دلیل ہے۔ نظیر اکبر آبادی، الطاف حسین حالی، اکبر الہ آبادی اور اقبال، جوش ملیح آبادی، ساحر لدھیانوی، فیض احمد فیض، علی سردار جعفری، ن م راشد، اسماعیل میرٹھی، نظم طباطبائی نظم کے بڑے شاعروں میں سے ہیں۔ اردو میں نظم کی صنف انیسویں صدی کی آخری دہائیوں کے دوران میں انگریزی کے اثر سے پیدا ہوئی جو دھیرے دھیرے پوری طرح قائم ہو گئی۔ نظم بحر اور قافیے میں بھی ہوتی ہے اور اس کے بغیر بھی۔ اب نثری نظم بھی اردو میں مستحکم ہو گئی ہے۔نثری نظم کے حوالے سے میراں جی.ن م راشد . ہوتے ہوئے احمد ہمیش سے ہوتے ہوئےجواز جعفری تک سلسلہ آتا ہے۔لیکن ایک اور بات ...! اس سارے سلسلے میں ڈاکٹر وحید احمد آج بھی نمایا ہیں..
محمد علی جناح پیدائشی نام، محمد علی جناح بھائی، 25 دسمبر 1876ء – 11 ستمبر 1948ء) کے نامور وکیل، سیاست دان اور بانی پاکستان تھے۔ محمد علی جناح 1913ء سے لے کر پاکستان کی آزادی 14 اگست 1947ء تک آل انڈیا مسلم لیگ کے سربراہ رہے، پھر قیام پاکستان کے بعد اپنی وفات تک، وہ ملک کے پہلے گورنر جنرل رہے۔ سرکاری طور پر پاکستان میں آپ کو قائدِ اعظم یعنی سب سے عظیم رہبر اور بابائے قوم یعنی قوم کا باپ بھی کہا جاتا ہے۔ جناح کا یومِ پیدائش پاکستان میں قومی تعطیل کے طور پر منایا جاتا ہے۔کراچی کے پیدائشی اور لنکن ان سے بیرسٹری کی تربیت حاصل کرنے والے جناح، بیسویں صدی کے ابتدائی دو عشروں میں آل انڈیا کانگریس کے اہم رہنما کے طور پر ابھرے۔ اپنی سیاست کے ابتدائی ادوار میں انہوں نے ہندو مسلم اتحاد کے لیے کام کیا۔ 1916ء میں آل انڈیا مسلم لیگ اور آل انڈیا کانگریس کے مابین ہونے والے میثاق لکھنؤ کو مرتب کرنے میں بھی انہوں نے اہم کردار ادا کیا۔ جناح آل انڈیا ہوم رول لیگ کے اہم رہنماوں میں سے تھے، انہوں نے چودہ نکات بھی پیش کیے، جن کا مقصد ہندوستان کے مسلمانوں کے سیاسی حقوق کا تحفظ کرنا تھا۔ بہر کیف جناح 1920ء میں آل انڈیا کانگریس سے مستعفی ہو گئے، جس کی وجہ آل انڈیا کانگریس کے موہن داس گاندھی کی قیادت میں ستیاگرا کی مہم چلانے کا فیصلہ تھا۔1940ء تک جناح کو یہ یقین ہو چلا تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک علاحدہ وطن کی جدوجہد کرنی چاہیے۔ اسی سال، مسلم لیگ نے جناح کی قیادت میں قرارداد پاکستان منظور کی جس کا مقصد نئی مملکت کی قیام کا مطالبہ تھا۔دوسری جنگ عظیم کے دوران، آل انڈیا مسلم لیگ نے مضبوطی پکڑلی جبکہ ان ادوار میں کانگریس کے کئی رہنما قید کاٹ رہے تھے اور جنگ کے ختم ہونے کے مختصر عرصے میں ہی انتخابات کا انعقاد ہوا، جس میں جناح کی جماعت نے مسلمانوں کے لیے مختص نشستوں میں سے بڑی تعداد جیت لی۔ اس کے بعد آل انڈیا کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ متحدہ ہندوستان میں اختیارات کے توازن کے لیے کسی صیغے پر متفق نا ہو سکے نتیجتاً تمام جماعتیں اس امر پر متفق ہوگئیں کہ ہندوستان کے دو حصے کیے جائیں جن میں ایک مسلم اکثریتی علاقوں میں پاکستان جبکہ باقی ماندہ علاقوں میں بھارت کا قیام ہو۔پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کے طور پر جناح نے اپنی حکومتی پالیسیوں کے قیام کے لیے کام کیا نیز انہوں نے ان لاکھوں لوگوں کے بہبود اور آباد کاری کے لیے بھی کام کیا جو تقسیم ہند کے بعد پاکستان کی جانب ہجرت کر چلے تھے، انہوں نے ان مہاجر کیمپوں کی ذاتی طور پر دیکھ بھال کی۔ جناح 71 سال کے عمر میں انتقال کر گئے جبکہ ان کے نوزائیدہ ملک کو سلطنت برطانیہ سے آزاد ہوئے محض ایک سال کا عرصہ ہوا تھا۔ ان کی سوانح عمری لکھنے والے لکھاری،اسٹینلی وولپرٹ لکھتے ہیں کہ، وہ (یعنی جناح) پاکستان کے عظیم ترین رہنما رہیں گے۔
متضاد مخالف؛ اُلٹ؛ اُلٹی طرف؛ دوسری جانب؛ ضِد؛ مُقابل؛ بِالمقابل؛ متقابل؛ متضاد؛ ایک لفظ جو مفہوم کے لحاظ سے دوسرے کی ضد ہو؛ متضاد المعنی۔ ایسے الفاظ جو مماثل وضع میں لیکن ایک دوسرے کے مخالف، برعکس یا یکسر مختلف ہوں۔ اسے 'بائنری' تعلق سے تعبیر کیا جاتا ہے کیوں کہ متضاد جوڑوں میں دو رکن ہوتے ہیں۔ باہم مخالف تعلق کو متضاد کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ایک جوڑے میں مخالف لفظ کو عام طور پر اس سوال کے ذریعہ طے کیا جا سکتا ہے کہ الف کے برعکس کیا ہے؟ جیسے:
تحول (metabolism) سے مراد تمام جانداروں کے جسم میں ہونے والے مختلف کیمیائی تعملات کی ہوتی ہے کہ جو مجموعی طور پر حیات کو ممکن بناتے ہیں۔ کیمیائی تعملات یا عوامل کے اس مجموعے میں وہ عوامل بھی شامل ہیں کہ جو جسم میں تعمیری کیمیائی تعملات کے دوران واقع ہوتے ہیں اور وہ عوامل بھی شامل ہیں کہ جو متعدد کیمیائی مرکبات کی توڑ پھوڑ کے ذریعہ توانائی پیدا کرنے کے دوران واقع ہوتے ہوں۔
اردو زبان کی ابتدا کے متعلق نظریات
اردو کی ابتدا و آغاز کے بارے میں کئی مختلف نظریات ملتے ہیں یہ آپس میں اس حد تک متضاد ہیں کہ ایک انسان چکرا کر رہ جاتا ہے۔ ان مشہور نظریات میں ایک بات مشترک ہے کہ ان میں اردو کی ابتدا کی بنیاد برصغیر پاک و ہند میں مسلمان فاتحین کی آمد پر رکھی گئی ہے۔ اور بنیادی استدلال یہ ہے کہ اردو زبان کا آغاز مسلمان فاتحین کی ہند میں آمد اور مقامی لوگوں سے میل جول اور مقامی زبان پر اثرات و تاثر سے ہوا۔ اور ایک نئی زبان معرض وجود میں آئی جو بعد میں اردو کہلائی۔ کچھ ماہرین لسانیات نے اردو کی ابتدا کا سراغ قدیم آریائوں کے زمانے میں لگانے کی کوشش کی ہے۔ بہر طور اردو زبان کی ابتدا کے بارے میں کوئی حتمی بات کہنا ذرا مشکل ہے۔ اردو زبان کے محققین اگرچہ اس بات پر متفق ہیں کہ اردو کی ابتدا مسلمانوں کی آمد کے بعد ہوئی لیکن مقام اور نوعیت کے تعین اور نتائج کے استخراج میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس انداز سے اگر اردو کے متعلق نظریات کو دیکھا جائے تو وہ نمایاں طور پر چار مختلف نظریات کی شکل میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔
جموں و کشمیر ایک خطہ ہے جو بھارت کے زیر انتظام ایک یونین علاقہ ہے۔ یہ ملک کے بعید شمال مغربی حصے میں واقع اور ہمالیائی پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے۔ اس کی سرحدیں شمال سے ہماچل پردیش و پنجاب اور مشرق سے یونین علاقے لداخ سے ملتی ہیں۔ لائن آف کنٹرول جموں و کشمیر کو پاکستان کے زیر انتظام آزاد کشمیر (مغرب) اور گلگت بلتستان (شمال) سے جدا کرتی ہے۔
برصغیر پاک و ہند میں 1857ء کی ناکام جنگ آزادی اور سقوطِ دہلی کے بعد مسلمانان برصغیر کی فلاح بہودکی ترقی کے لیے جو کوششیں کی گئیں، عرف عام میں وہ ”علی گڑھ تحریک “ کے نام سے مشہور ہوئیں۔ سر سید نے اس تحریک کا آغاز جنگ آزادی سے ایک طرح سے پہلے سے ہی کر دیا تھا۔ غازی پور میں سائنٹفک سوسائٹی کا قیام اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔ لیکن جنگ آزادی نے سرسید کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کیے اور ان ہی واقعات نے علی گڑھ تحریک کو بارآور کرنے میں بڑی مدد دی۔ لیکن یہ پیش قدمی اضطراری نہ تھی بلکہ اس کے پس پشت بہت سے عوامل کارفرما تھے۔ مثلاً راجا رم موہن رائے کی تحریک نے بھی ان پر گہرا اثر چھوڑا۔
خلافت راشدہ کے خاتمے کے بعد عربوں کی قائم کردہ دو عظیم ترین سلطنتوں میں سے دوسری سلطنت خلافت عباسیہ ہے۔خاندان عباسیہ کے دو بھائیوں السفاح اور ابو جعفر المنصور نے خلافت قائم کی جس کا قیام 750ء (132ھ) میں عمل میں آیا اور 1258ء (656ھ) میں اس کا خاتمہ ہو گیا۔ یہ خلافت ایک تحریک کے ذریعے قائم ہوئی جو بنو امیہ کے خلاف تھی۔ تحریک نے ایک عرصے تک اپنے مقاصد کے حصول کے لیے جدوجہد کی اور بالآخر بنو امیہ کو شکست دینے کے بعد بر سر اقتدار آگئی۔
اُردو ادب میں طنز و مزاح کو عموماً یکساں معنوں میں لیا اور ایک ساتھ استعمال کیا جاتا ہے، حالانکہ طنز اور مزاح میں فرق ہے۔ دونوں کی اپنی اپنی حدود ہیں، لیکن اس کے باوجود اکثر ایک دوسرے کے متوازی بھی چل رہے ہوتے ہیں اور بعض اوقات تو ان کی سرحدیں ایک دوسرے سے ایسے ملی ہوتی ہیں کہ ان کو الگ کرنا دشوار ہو جاتا ہے۔ طنز سے مراد طعنہ، ٹھٹھہ، تمسخر یا رمز کے ساتھ بات کرنا ہے، جب کہ مزاح سے خوش طبعی، مذاق یا ظرافت مراد لیا جاتا ہے۔
مذکر: نر اسم ہوتا ہے جیسےمرد، باپ، بیل، بیٹا جبکہ مونث: مادہ اسم ہوتا ہے جیسے عورت، ماں، گائے، بیٹی بے جان اسماء میں نر اور مادہ کا کوئی فرق نہیں ہوتا اس لیے ان کی تذکیر و تانیث کا تمام تر درارومدار اہل زبان پر ہوتا ہے جیسے قلم کو اہل زبان مذکر بولتے ہیں اور گیند کو مونث اسی لیے ایسے اسماء کی تذکیر و تانیث کو غیر حقیقی تذکیر و تانیث کہا جاتا ہے۔ جبکہ حقیقی تذکیر و تانیث وہ ہوتی ہے جس میں نر کے مقابلے میں مادہ اور مادہ کے مقابلے میں نر ہو جانداروں میں کیوں کہ قدرتی طور پر نر اور مادہ کا فرق موجود ہوتا ہے اس لیے اس لیے ان کی تذکیرو تانیث حقیقی ہوتی ہے جیسے مرد، عورت۔ بیل، گائے وغیرہ
ہر زبان کے لیے کچھ اصول اور قوانین ہوتے ہیں، جن سے اس زبان کو صحیح طور سے سیکھا اور استعمال کیا جا سکتا ہے۔ زبان کی درستی اور اس کی خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لیے ان قوانین پر عمل درآمد کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اردو زبان کے بھی کچھ اصول ہیں، جنہیں قواعد یا گرامر کہا جاتا ہے۔ ان کے جاننے سے اردو زبان کو ٹھیک طریقے سے بولا اور سمجھا جا سکتا ہے۔ انگریزی میں قواعد کو grammar کہتے ہیں۔ قواعد یا گرامر، لسانیات کی ایک اہم شاخ ہے اور اس کا مطالعہ زبان پہ دسترس حاصل کرنے کے لیے نہایت ضروری ہے۔ یہ مضمون اردو زبان کے قواعد کے متعلق ہے۔
پہلی جنگ عظیم میں ترکی نے برطانیہ کے خلاف جرمنی کا ساتھ دیا۔ترکی کی جنگ میں شمولیت سے ہندوستان کے مسلمان پریشان ہوئے کہ اگر انگریز کامیاب ہو گیا تو ترکی کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جائے گا۔ ہندوستان کے مسلمانوں نے انگریزوں کا ساتھ دینے کے لیے وزیر اعظم برطانیہ لائیڈ جارج سے وعدہ لیا کہ جنگ کے دوران میں مسلمانوں کے مقامات مقدسہ کی بے حرمتی نہیں ہو گی اور جنگ کے بعد مسلمانوں کی خلافت محفوظ
خبر (news)، کوئی بھی نئی معلومات یا حالیہ واقعات کی معلومات ہیں جو عام طور پر خبررساں اِدار ےپیش کرتے ہیں خبر کی دنیا بہت وسیع ہے اور اسی لیے اسی نسبت سے اس کی تعریفات بھی بہت وسعت ہے۔ بسااوقات یہ تعریفیں ایک دوسرے کے متضاد نظر آتی ہیں لیکن دراصل ی خبر کو دیکھنے کا زاویہ ہے جہاں سے تعریف مرتب کرنے والا خبر کو دیکھ رہا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر خبر کی چند ایک معروف تعریفیں مندرجہ ذیل ہیں خلیل اللہ فراز کہتا ہے۔ خبر ایسا جملہ ہوتا ہے جس کا کوئی منشا ہے، اور اس جملہ کے بعد ایک انشائیہ جملہ بنے۔ جیسے ؛ کسی نے خبر دی "آپ کی سائیکل کا ٹائر پنکچر ہے" انشا یہ بنا کہ پنکچر بنوالو۔ اب آج کل یہ جو میڈیا میں خبریں چل رہی ہیں کہ "فلاں جگہ تین لوگ مر گئے" اس طرح کی خبریں در اصل خبریں نہیں ہوتیں۔ یہ ذہنی ٹارچر ہوتا ہے۔ امریکی صحافی اینڈرسن ڈانا کے مطابق ’اگر کتا انسان کو کاٹے تو یہ خبر نہیں لیکن اگر انسان کتے کو کاٹے تو یہ خبر ہے‘ ڈاکٹر عبدالسلام خورشید فنِٕ صحافت میں خبر کی تعریف یوں کرتے ہیں ’‘ خبر کا تعلق ایسے واقعات اور مشاہدات سے ہوتا ہے جو معمول سے ہٹ کر ہوں،، برطانوی پبلشر لارڈ نورتھ کلف کے مطابق ’خبر وہ اطلاع ہے جسے کوئی ایک شخص چھپانا چاہتا ہے جبکہ دیگر تمام لوگ اسے مشتہر کرنا چاہتے ہیں‘. امریکی صحافی کرٹ لوڈر کے مطابق’خبر کوئی بھی ایسی چیز ہوسکتی ہے جودلچسپ ہوجس کا تعلق دنیا میں ہونے والے واقعات سے ہو‘. فرانسیسی صحافی ہاولے کے مطابق’ اچھی خبر کوئی خبر نہیں ہوتی۔ کینیڈین ماہر ابلاغیات کے مطابق ’ حقیقی خبر کوئی بدخبری ہی ہوتی ہے‘.
جنگ احد 17 شوال 3ھ (23 مارچ 625ء) میں مسلمانوں اور مشرکینِ مکہ کے درمیان احد کے پہاڑ کے دامن میں ہوئی۔ مشرکین کے لشکر کی قیادت ابوسفیان کے پاس تھی اور اس نے 3000 سے زائد افراد کے ساتھ مسلمانوں پر حملہ کی ٹھانی تھی جس کی باقاعدہ تیاری کی گئی تھی۔ مسلمانوں کی قیادت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کی۔ اس جنگ کے نتیجہ کو کسی کی فتح یا شکست نہیں کہا جا سکتا کیونکہ دونوں طرف شدید نقصان ہوا اور کبھی مسلمان غالب آئے اور کبھی مشرکین لیکن آخر میں مشرکین کا لشکر لڑائی ترک کر کے مکہ واپس چلا گیا۔
خضر راہ اقبال کی ایک نظم ہے جسے انہوں نے انجمن حمایت اسلام کے 37 ویں سالانہ اجلاس میں جو 12 اپریل 1922ء کو اسلامیہ ہائی سکول اندرون شیرانوالہ میں منعقد ہوا تھا میں ترنم سے پڑھ کر سنائی تھی۔ بعض اشعار پر اقبال خود بھی بے اختیار روئے اور مجمع بھی اشک بار ہو گیا۔ عالم اسلام کے لیے وہ وقت بہت نازک تھا۔ قسطنطنیہ پر اتحادی قابض تھے۔ اتحادیوں کے ایماءپر یونانیوں نے اناطولیہ میں فوجیں اتار دی تھیں۔ شریف حسین جیسے لوگ انگریزوں کے ساتھ مل کر اسلام کا بیڑا غرق کرنے میں پیش پیش تھے۔ خود ہندوستان میں تحریک ہجرت جاری ہوئی۔ پھر خلافت اور ترک موالات کا دور شروع ہوا۔ ادھر دنیائے اسلام کے روبرو نئے نئے مسائل آ گئے۔ اقبال نے انہی میں سے بعض اہم مسائل کے متعلق حضرت خضر کی زبان سے مسلمانوں کے سامنے صحیح روشنی پیش کی۔ اور نظم کا نام خضر راہ اسی وجہ سے رکھا۔ ابتداءمیں نظم میں صرف دو عنوان تھے۔ پہلے دو بندوں کا عنوان تھا ”شاعر“ یعنی شاعر کا خضر سے خطاب باقی نو بندوں کا عنوان تھا ”جواب خضر “ نظر ثانی میں اقبال نے مختلف مسائل پر الگ الگ عنوان قائم کر دیے۔
سلطنت عثمانیہ (یا خلافت عثمانیہ 1517ء سے 1924ء تک) (عثمانی ترک زبان: "دولت عالیہ عثمانیہ"، ترک زبان: Osmanlı Devleti) سنہ 1299ء سے 1922ء تک قائم رہنے والی ایک مسلم سلطنت تھی جس کے حکمران ترک تھے۔ اپنے عروج کے زمانے میں (16 ویں – 17 ویں صدی) یہ سلطنت تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی اور جنوب مشرقی یورپ، مشرق وسطٰی اور شمالی افریقہ کا بیشتر حصہ اس کے زیر نگیں تھا۔ اس عظیم سلطنت کی سرحدیں مغرب میں آبنائے جبرالٹر، مشرق میں بحیرۂ قزوین اور خلیج فارس اور شمال میں آسٹریا کی سرحدوں، سلوواکیہ اور کریمیا (موجودہ یوکرین) سے جنوب میں سوڈان، صومالیہ اور یمن تک پھیلی ہوئی تھی۔ مالدووا، ٹرانسلوانیا اور ولاچیا کے باجگذار علاقوں کے علاوہ اس کے 29 صوبے تھے۔
لفظی معنی: پرکھ، چھان بین، کھوٹا کھرا جانچنا۔ اصطلاحی معنی: ایسی رائے جو برے بھلے یا صحیح اور غلط کی تمیز کرا دے.کرلپ اردو لغت</ref> لفظ تنقید علم مصطلح الحدیث میں بھی مستعمل ہے، جس میں کسی حدیث کے راویوں پر جرح و تعدیل کرتے ہوئے انہیں پرکھا جاتا ہے تاکہ غلط اور درست میں تمیز کی جا سکے۔ تنقید کا مطلب دو برابر حصوں میں بانٹ دینے میں بھی لیا گیا ہے جس میں کسی کی جتنی اچھائی بیان کرتے ہیں اتنے ہی اسکے منفی پہلو بھی بیان کردیتے ہیں، یعنی کے پورا پورا انصاف کردینا اردو میں اس لفظ کا استعمال بعض اوقات منفی معنوں میں بطور اعتراض بھی لیا جاتا ہے، حالانکہ بنیادی طور پر یہ مثبت مفہوم کا حامل ہے۔ احمد سرور اپنے مضمون "تنقید کیا ہے“ میں لکھتے ہیں.
ہجرت مدینہ پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ان کے صحابہ کی طرف سے مکہ مکرمہ سے یثرب (جسے اس ہجرت کے بعد مدینۃ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نام دیا گیا) منتقل ہوجانے کے عمل کو کہتے ہیں جو 12ربیع الاول 13نبوی (جو بعد میں پہلا ہجری سال کہلایا)، بمطابق 24 ستمبر 622ء عیسوی بروز جمعہ کو ہوئی، بعد میں اسی دن کی نسبت سے ہجری تقویم کا آغاز ہوا۔ مسلمانوں نے قمری ہجری تقویم اور شمسی ہجری تقویم دونوں کا آغاز اسی واقعہ کی بنیاد پر کیا۔
ملالہ یوسف زئی (ولادت: 12 جنوری، 1997ء) پاکستان میں پیدا ہونے والی خواتین کی تعلیم کی سرگرم رکن ہے اور اسے کسی بھی شعبے میں نوبل انعام وصول کرنے والے سب سے کم سن فرد ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس کی وجہ شہرت اپنے آبائی علاقے سوات اور خیبر پختونخوا میں انسانی حقوق، تعلیم اور حقوق نسواں کے حق میں کام کرنا ہے جب مقامی طالبان نے لڑکیوں کو اسکول جانے سے روک دیا تھا۔ اب ملالہ کی تحریک بین الاقوامی درجہ اختیار کر چکی ہے۔
صحیح بخاری کا اصل نام «الجامع المسند الصحیح المختصر من امور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وسننہ و ایامہ» ہے جو «صحیح البخاری» کے نام سے مشہور ہے، یہ اہل سنت وجماعت کے مسلمانوں کی سب سے مشہور حدیث کی کتاب ہے، اس کو امام محمد بن اسماعیل بخاری نے سولہ سال کی مدت میں بڑی جانفشانی اور محنت کے ساتھ لکھا ہے، اس کتاب میں انھوں نے چھ لاکھ احادیث سے منتخب کر کے جمع کیا ہے۔ اہل سنت کے یہاں اس کتاب کو ایک خاص مرتبہ و حیثیت حاصل ہے اور ان کی حدیث میں چھ امہات الکتب (صحاح ستہ) میں اول مقام حاصل ہے، خالص صحیح احادیث میں لکھی جانی والی پہلی کتاب شمار ہوتی ہے، اسی طرح اہل سنت میں قرآن مجید کے بعد سب سے صحیح کتاب مانی جاتی ہے۔ اسی طرح صحیح بخاری کا شمار کتب الجوامع میں بھی ہوتا ہے، یعنی ایسی کتاب جو اپنے فن حدیث میں تمام ابواب عقائد، احکام، تفسیر، تاریخ، زہد اور آداب وغیرہ پر مشتمل اور جامع ہو۔اس کتاب نے امام بخاری کی زندگی ہی میں بڑی شہرت و مقبولیت حاصل کر لی تھی، بیان کیا جاتا ہے کہ اس کتاب کو تقریباً ستر ہزار سے زائد لوگوں نے ان سے پڑھا اور سماعت کی، اس کی شہرت اس زمانہ میں عام ہو گئی تھی، ہر چہار جانب خصوصاً اس زمانے کے علما میں اس کتاب کو توجہ اور مقبولیت حاصل ہو گئی تھی، چنانچہ بے شمار کتابیں اس کی شرح، مختصر، تعلیق، مستدرک، تخریج اور علومِ حدیث وغیرہ پر بھی لکھی گئیں، یہاں تک کہ بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ اس کی شروحات کی تعداد بیاسی (82) سے زیادہ ہو گئی تھی۔
اوڈیشا (انگریزی: /əˈdɪsə/، مقامی: [oɽiˈsaː] ( سنیے) ، (سابق نام: اڑیسہ ) بھارت کا ایک صوبہ، جو مشرقی بھارت میں واقع ہے۔ یہ رقبہ کے لحاظ سے بھارت کی آٹھویں اور آبادی کے لحاظ سے گیارھویں بڑی ریاست ہے۔ نیز اس ریاست میں بھارت کے درج فہرست قبائل کی تیسری بڑی آبادی ہے۔ اس کی سرحدیں شمال میں بنگال کے کچھ حصوں اور جھارکھنڈ سے، مغرب میں چھتیس گڑھ سے اور جنوب میں آندھرا پردیش کی ریاستوں سے ملتی ہیں۔ اوڈیشا کی ساحلی پٹی خلیج بنگال پر 485 کلومیٹر (1,591,000 فٹ) طویل ہے۔ اس علاقہ کو "اتکلہ" یا "اتکل" کے نام سے بھی جانا جاتا ہے اور بھارت کے قومی ترانہ "جنا منا گنا" میں اس کا ذکر ملتا ہے۔ اوڈیشا کی زبان اڈیہ ہے جو بھارت کی کلاسیکی زبانوں میں سے ایک ہے۔کلنگ کی قدیم سلطنت جس پر موریہ شہنشاہ اشوک نے حملہ کیا تھا (اور بعد میں بادشاہ کھاراویلا نے اسے دوبارہ حاصل کر لیا تھا) 261 قبل مسیح میں کلنگا جنگ کا نتیجہ تھی جو جدید دور کے اوڈیشا کی سرحدوں سے متصل ہے۔ ہندوستان کی برطانوی حکومت نے اوڈیشا کی نئی سرحدوں کی حدبندی اس وقت کی، جب یکم اپریل 1936ء کو صوبہ اڑیسہ کا قیام عمل میں آیا، اس میں اڈیہ بولنے والے صوبجات بہار و اڑیسہ کے اضلاع شامل تھے۔ اسی بنا پر یہاں یکم اپریل کا دن اُتکلہ دیبسہ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ کٹک کو اننتھ ورمن چوڈاگنگا نے ت 1135ء میں اس خطہ کا دار الحکومت بنایا تھا، جس کے بعد 1948ء تک انگریزوں کے دور میں یہ شہر بہت سارے حکمرانوں کے دار الحکومت کے طور پر استعمال ہوتا رہا اور بعد ازاں بھونیشور اوڈیشا کا دار الحکومت بن گیا۔اوڈیشا کی معیشت ؛ مجموعی ملکی پیداوار میں 5.33₹ لاکھ کروڑ (75$ ارب امریکی ڈالر ) کی ہے اور یوں معیشت میں؛ بھارت کی سولھویں سب سے بڑی ریاست ہے اور فی کس خام ملکی پیداوار 116,614₹ (1,600 ارب امریکی ڈالر) ہے۔ (2018ء) کے حساب سے انسانی ترقیاتی اشاریہ میں اوڈیشا بتیسویں نمبر پر ہے۔
اللہ کے ذاتی نام 'اللہ' کے علاوہ اللہ کے ننانوے صفاتی نام مشہور ہیں۔ انہیں کہا جاتا ہے۔ ان میں سے بیشتر قرآن میں موجود ہیں اگرچہ قرآن میں ننانوے کی تعداد مذکور نہیں مگر یہ ارشاد ہے کہ اللہ کو اچھے اچھے ناموں سے پکارا جائے۔ روایات میں بکثرت نیچے دیے گئے ننانوے صفاتی نام ملتے ہیں جن کے ساتھ ان کا اردو ترجمہ بھی درج کیا جا رہا ہے۔
بنو امیہ قریش کا ایک ممتاز اور دولت مند قبیلہ تھا۔ اسی خاندان نے خلافت راشدہ کے بعد تقریباً ایک صدی تک ملوکیت سنبھالی اور اسلامی فتوحات کو بام عروج پر پہنچایا۔ جس کی سرحدیں ایک طرف چین اور دوسری طرف اسپین تک پھیلی ہوئی تھیں۔ البتہ مرکزی خلافت کے خاتمے کے باوجود اس خاندان کا ایک شہزادہ عبدالرحمن الداخل اسپین میں حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوا۔ جہاں 1492ء تک اموی سلطنت قائم رہی۔
صلوٰۃ " (نماز) کے لغوی معنی "دعا" کے ہیں۔ قرآن میں فرمانِ اللہ ہے: خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌاے پیغمبر! ان لوگوں کے اموال میں سے صدقہ وصول کرلو جس کے ذریعے تم انہیں پاک کردو گے اور ان کے لیے باعثِ برکت بنو گے، اور اُن کے لیے دعا کرو۔ یقینا! تمہاری دعا ان کے لیے سراپا تسکین ہے، اور اللہ ہر بات سنتا اور سب کچھ جانتا ہے جبکہ فرمانِ نبوی ہے: اور اللہ کی جانب سے "صلوٰۃ" کے معنی بہترین ذکر کے ہیں جبکہ ملائکہ کی طرف سے "صلوٰۃ" کے معنی دعا ہی کے لیے جائیں گے۔ قرآن میں لکھا ہے: إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًابے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو!
نذیر ناجی آج کل اخبار جنگ میں کالم لکھتے ہیں۔ ایک زمانہ میں نواز شریف کے تقریر نویس بھی رہے۔ پرویز مشرف نے نواز شریف کی حکومت ختم کی تو ٹی وی اسٹیشن سے گرفتار ہوئے۔ فوج سے معافی مانگی اور نواز شریف کے خلاف لکھنا شروع کر دیا۔ مشرف دور میں حکومت اور مسلم لیگ (ق) کے حق میں لکھتے رہے۔ منصف اعظم افتخار چودھری کی بحالی کے مخالف رہے۔ مشرف کے جاتے دنوں میں اپنی گرفتاری کے حوالے سے تنقیدی کالم لکھے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت بننے کے بعد زرداری کے قصیدہ خواں ہو گئے۔
منشی پریم چند اردو کا مشہور ناول نگار اور افسانہ نگار ہیں۔ ان کا اصلی نام دھنپت رائے ہے، لیکن ادبی دنیا میں پریم چند کے نام سے مشہور ہیں۔ وہ 1880ء میں منشی عجائب لال کے وہاں ضلع وارانسی مرٹھوا کے گاؤں لمہی میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ایک ڈاک خانے میں کلرک تھے۔ پریم چند ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ نے تقریباً سات آٹھ برس فارسی پڑھنے کے بعد انگریزی تعلیم شروع کی۔ پندرہ سال کی عمر میں شادی ہو گئی۔ ایک سال بعد والد کا انتقال ہو گیا۔ اس وقت آٹھویں جماعت میں پڑھتے تھے۔ پورے گھر بار کا بوجھ آپ پر ہی پڑ گیا۔ فکر معاش نے زیادہ پریشان کیا تو لڑکوں کو بطور ٹیوٹر پڑھانے لگے اور میٹرک پاس کرنے کے بعد محکمہ تعلیم میں ملازم ہو گئے۔ اسی دوران میں بی۔ اے کی ڈگری حاصل کی۔ منشی پریم چند کا ابتدائی سوانحی خاکہ منشی پریم چند جس کا اصل نام دحنپت رائے سریوستوا تھا 31 جولائی 1880 ء میں بنارس کے قریب گاؤں لامہا میں ، جہاں ان کا والد پوسٹ آفس میں ایک کلرک تھا ۔ پریم چند کے والدین نوجوان مر گئے-اس کی ماں جب وہ چودہ تھا اور اس کے والد اب بھی ایک طالب علم تھے. پریم چند اپنے سوتیلی ماں اور اس کے قدم بہن بھائیوں کے لئے ذمہ دار چھوڑ دیا گیا تھا. زندگی کے ابتدائی دور میں پریم چند نے بہت زیادہ غربت کا سامنا کیا ۔ انہوں نے ایک وکیل کے بچے کو ایک ماہ کے لیے پانچ روپے کمایا ۔ وہ پندرہ سال کی ابتدائی عمر میں شادی شدہ تھی لیکن اس کی شادی ناکام ہوگئی, بعد میں اس نے دوبارہ شادی کر لی, شاورانا دیوی کے لئے, ایک بالاوادہاوا (بچے بیوہ), اور کئی بچے تھے.
محمد بن اسماعيل بخاری بخارا میں پیدا ہوئے گو ان کے والد بھی ایک محدث تھے اور امام مالک کے شاگرد تھے مگر احادیث رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جانچ پڑتال، پھر ان کی جمع و ترتیب پر آپ کی مساعی جمیلہ کو آنے والی تمام مسلمان نسلیں خراج تحسین پیش کرتی رہیں گی۔ آپ کا ظہور پر سرور عین اس قرآنی پیش گوئی کے مطابق ہوا جو اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ جمعہ میں فرمائی تھی۔
ابو عبد اللہ عثمان بن عفان اموی قرشی (47 ق ھ - 35 ھ / 576ء – 656ء) اسلام کے تیسرے خلیفہ، داماد رسول اور جامع قرآن تھے۔ عثمان غنی سابقین اسلام میں شامل اور عشرہ مبشرہ میں سے تھے، ان کی کنیت ذو النورین ہے کیونکہ انھوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دو صاحبزادیوں سے نکاح کیا تھا، پہلے رقیہ بنت محمد سے کیا، پھر ان کی وفات کے بعد ام کلثوم بنت محمد سے نکاح کیا۔ عثمان غنی پہلے صحابی ہیں جنھوں نے سرزمین حبشہ کی ہجرت کی، بعد میں دیگر صحابہ بھی آپ کے پیچھے حبشہ پہنچے۔ بعد ازاں دوسری ہجرت مدینہ منورہ کی جانب کی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عثمان غنی پر مکمل اعتماد اور ان کی فطری حیاء و شرافت اور جو انھوں نے اپنے مال کے ذریعہ اہل ایمان کی نصرت کی تھی، اس کی انتہائی قدر کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیگر صحابہ کے ساتھ ان کو بھی جنت اور شہادت کی موت کی خوش خبری دی۔
میر تقی میر (پیدائش: 28 مئی 1723ء— وفات: 22 ستمبر 1810ء) اصل نام میر محمد تقى اردو كے عظیم شاعر تھے۔ میر ان کا تخلص تھا۔ اردو شاعرى ميں مير تقى مير كا مقام بہت اونچا ہے ـ انہیں ناقدین و شعرائے متاخرین نے خدائے سخن کے خطاب سے نوازا۔ وہ اپنے زمانے كے ايك منفرد شاعر تھےـ۔ آپ كے متعلق اردو كے عظیم الشان شاعرمرزا غالب نے لکھا ہے۔
مغلیہ سلطنت 1526ء سے 1857ء تک برصغیر پر حکومت کرنے والی ایک مسلم سلطنت تھی جس کی بنیاد ظہیر الدین بابر نے 1526ء میں پہلی جنگ پانی پت میں دہلی سلطنت کے آخری سلطان ابراہیم لودھی کو شکست دے کر رکھی تھی۔ مغلیہ سلطنت اپنے عروج میں تقریباً پورے برصغیر پر حکومت کرتی تھی، یعنی موجودہ دور کے افغانستان، پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے ممالک پر مشتمل خطے پر انکا دور دورہ تھا۔-
اسلام ایک توحیدی مذہب ہے جو اللہ کی طرف سے آخری رسول و نبی، محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ذریعے انسانوں تک پہنچائی گئی آخری الہامی کتاب (قرآن مجيد) کی تعلیمات پر قائم ہے۔ یعنی دنیاوی اعتبار سے بھی اور دینی اعتبار سے بھی اسلام (اور مسلم نظریے کے مطابق گذشتہ ادیان کی اصلاح) کا آغاز، 610ء تا 632ء تک 23 سال پر محیط عرصے میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اللہ کی طرف سے اترنے والے الہام (قرآن) سے ہوتا ہے۔ قرآن عربی زبان میں نازل ہوا (برائے وجہ : اللسان القرآن) اور اسی زبان میں دنیا کی کل آبادی کا کوئی 24% حصہ یعنی لگ بھگ 1.6 تا 1.8 ارب افراد اس کو پڑھتے ہیں ؛ ان میں (مختلف ذرائع کے مطابق) قریباً 20 تا 30 کروڑ ہی وہ ہیں جن کی مادری زبان عربی ہے جبکہ 70 تا 80 کروڑ، غیر عرب یا عجمی ہیں جن کی مادری زبان عربی کے سوا کوئی اور ہوتی ہے۔ متعدد شخصی ماخذ سے اپنی موجودہ شکل میں آنے والی دیگر الہامی کتابوں کے برعکس، بوسیلۂ وحی، فردِ واحد (محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے منہ سے ادا ہوکر لکھی جانے والی کتاب اور اس کتاب پر عمل پیرا ہونے کی راہنمائی فراہم کرنے والی شریعت ہی دو ایسے وسائل ہیں جن کو اسلام کی معلومات کا منبع قرار دیا جاتا ہے۔
اردو زبان میں چھتیس حروفِ تہجی اور سینتالیس آوازیں ہیں جن میں سے بیشتر عربی سے لیے گئے ہیں اور دیگر انہی کی مختلف شکلیں ہیں۔ کچھ حروف کئی طریقوں سے استعمال ہوتے ہیں اور کچھ مخلوط حروف بھی استعمال ہوتے ہیں جو دو حروف سے مل کر بنتے ہیں۔ بعض لوگ 'ء' کو الگ حرف نہیں مانتے مگر پرانی اردو کتب اور لغات میں اسے الگ حرف کے طور پر لکھا جاتا ہے۔ مختلف الفاظ میں یہ الگ حرف کے طور پر ہی استعمال ہوتا ہے مثلاً 'دائرہ'۔ یہ بات مدِنظر رکھنا ضروری ہے کہ اردو تختی اور اردو حروف دو مختلف چیزیں ہیں کیونکہ اردو تختی میں اردو حروفِ تہجی کی کئی اشکال ہو سکتی ہیں جن کو الگ حرف کا درجہ نہیں دیا جا سکتا بلکہ وہ ایک ہی حرف کی مختلف شکلیں ہیں۔ مثلاً نون غنہ نون کی شکل ہے اور 'ھ' اور 'ہ' ایک ہی حرف کی مختلف اشکال ہیں۔ ایک اور مثال الف ممدودہ (آ) اور الف مقصورہ (ا) کی ہے جو اردو تختی میں الگ ہیں مگر اردو کا ایک ہی حرف شمار ہوتے ہیں۔
ضلع سہارنپور کے ایک قصبہ نانوتہ کے مولانا محمد قاسم نانوتوی نے 30 مئی 1866ء بہ مطابق 15 محرم الحرام 1283ھ کو دیوبند کی ایک چھوٹی سی مسجد (مسجد چھتہ) میں مدرسۂ دیوبند کی بنیاد رکھی۔ واضح رہے کہ اس نیک کام میں انھیں مولانا سید محمد عابد دیوبندی صاحب، مولانا ذوالفقار علی دیوبندی صاحب اور فضل الرحمن عثمانی دیوبندی صاحب کا عملی تعاون حاصل رہا۔