اردو ویکیپیڈیا کے سب سے زیادہ ملاحظہ کردہ مضامین کی فہرست۔ مزید معلومات کے لیے ۔ ۔ ۔
ابو بکر صدیق عبد اللہ بن ابو قحافہ تیمی قریشی (پیدائش: 573ء— وفات: 22 اگست 634ء) پہلے خلیفہ راشد، عشرہ مبشرہ میں شامل، پیغمبر اسلام کے وزیر، صحابی و خسر اور ہجرت مدینہ کے وقت رفیق سفر تھے۔ اہل سنت و الجماعت کے یہاں ابو بکر صدیق انبیا اور رسولوں کے بعد انسانوں میں سب سے بہتر، صحابہ میں ایمان و زہد کے لحاظ سے سب سے برتر اور ام المومنین عائشہ بنت ابی بکر کے بعد پیغمبر اسلام کے محبوب تر تھے۔ عموماً ان کی کنیت "ابو بکر" کے ساتھ صدیق کا لقب لگایا جاتا جسے ابو بکر صدیق کی تصدیق و تائید کی بنا پر پیغمبر اسلام نے دیا تھا۔
یوم آزادی بھارت میں ہر سال 15 اگست کو قومی تعطیل کے طور پر منایا جاتا ہے۔ سنہ 1947 میں اسی تاریخ کو ہندوستان نے ایک طویل جدوجہد کے بعد مملکت متحدہ کے استعمار سے آزادی حاصل کی تھی۔ برطانیہ نے قانون آزادی ہند 1947ء کا بل منظور کر کے قانون سازی کا اختیار مجلس دستور ساز کو سونپ دیا تھا۔ یہ آزادی تحریک آزادی ہند کا نتیجہ تھی جس کے تحت انڈین نیشنل کانگریس کی قیادت میں پورے ہندوستان میں تحریک عدم تشدد اور سول نافرمانی میں عوام نے حصہ لیا اور اس جدوجہد میں ہر کس و ناکس نے اپنا تعاون پیش کیا۔ ہندوستان کی آزادی کے ساتھ ساتھ تقسیم ہند کا واقعہ بھی پیش آیا اور برطانوی ہند کو مذہبی بنیادوں پر دو ڈومینین میں تقسیم کر دیا گیا؛ بھارت ڈومینین اور پاکستان ڈومنین۔ اس تقسیم کے نتیجہ میں دونوں طرف خطرناک مذہبی فسادات ہوئے جن میں تقریباً 1.5 کروڑ لوگ مارے گئے اور بے گھر ہوئے۔ 15 اگست سنہ 1947ی کو بھارت کے وزیر اعظم بھارت جواہر لعل نہرو نے دہلی میں واقع لال قلعہ کے لاہوری دروازہ پر بھارت کا نیا پرچم لہرایا۔ اسی دن ہر سال بھارت کا وزیر اعظم بھارتی پرچم لہراتا ہے اور ملک کو خطاب کرتا ہے۔
سانحۂ کربلا یا واقعہ کربلا یا کربلا کی جنگ 10 محرم 61ھ (بمطابق 9 یا 10 اکتوبر، 680ء) کو موجودہ عراق میں کربلا کے مقام پر پیش آیا۔ یہ جنگ نواسہ رسول حضرت امام حسین ابن علی، ان کے حامیوں اور رشتہ داروں کے ایک چھوٹے سے گروہ، حسین ابن علیؓ کے ساتھ 72 ساتھی، کچھ غلام، 22 اہل بیت کے جوان اور خاندان نبوی کی کچھ خواتین و بچے شامل تھے اور اموی ظالم حکمران یزید اول کی ایک بڑی فوج کے مابین ہوئی۔جس کو حسین نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔جس میں اموی خلیفہ یزید اول کی فوج نے پیغمبر اسلام محمد ﷺ کے نواسے حسین ابن علی اور ان کے رفقا کو لڑائی میں شہید کیا، حرم حسین کے خیموں کو لوٹ لیا گیا اور بالآخر آگ لگا دی گئی۔ عمر بن سعد کی فوج نے کربلا کے صحرا میں مقتولین کی لاشیں چھوڑ دیں۔ بنی اسد کے لوگوں نے لاشوں کو تین دن بعد دفن کیا۔ واقعہ کربلا کے بعد، حسین ابن علی کی فوج سے وابستہ متعدد خواتین اور بچوں کو گرفتار کر کے قید کر دیا گیا، بازار اور ہجوم والے مقامات سے گذر کر ان کی توہین کی گئی اور انہیں یزید ابن معاویہ کے دربار شام بھیج دیا گیا تھا۔ جنگ میں شہادت کے بعد حضرت امام حسین کو سید الشہدا کے لقب سے پکارا جاتا ہے۔
حسین بن علی بن ابی طالب ( عربی: ٱلْحُسَيْن ٱبْن عَلِيّ 10 جنوری 626 - 10 اکتوبر 680) نبی اسلام محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نواسے اور علی ابن ابی طالب اور محمد کی بیٹی فاطمہ زہرا کے بیٹے تھے۔ وہ اسلام میں ایک اہم شخصیت ہیں کیوںکہ وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ( اہل بیت ) اور اہل کسا کے علاوہ تیسرے شیعہ امام بھی تھے۔
افغانستان کی سب سے موثر جنگی و سیاسی قوت ہیں ان کو مختصراً طالبان کہا جاتا ہے۔ نسلی اعتبار سے یہ پشتون ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو روس کی افغانستان میں آمد کے بعد افغان جہاد میں مجاہدین کے ساتھ مل کر لڑتے رہے۔ روس کو شکست دینے کے بعد مجاہدین کی آپس میں شدید چپقلش کے باعث 1994ء میں ظہور پانے والے تحریک اسلامی طالبان کے نام سے چند طلبہ کا گروہ تھا جسے ملا محمد عمر نے قائم کیا اور انہی کی سربراہی میں بزور بازو افغانستان کا مکمل کنٹرول حاصل کر لیا اور اپنی حکومت امارت اسلامیہ افغانستان کے نام سے قائم کرلی جسے وہ اسلامی خلافت قرار دیتے تھے۔
افغانستان وسط ایشیا اور جنوبی ایشیا میں واقع ایک زمین بند ملک ہے۔ Dari: Afġānestān [avɣɒnesˈtɒn])، جس کا سرکاری نام اسلامی جمہوریہ افغانستان ہے۔ اس کے جنوب اور مشرق میں پاکستان، مغرب میں ایران، شمال مشرق میں چین، شمال میں ترکمانستان، ازبکستان اور تاجکستان ہیں۔ اردگرد کے تمام ممالک سے افغانستان کے تاریخی، مذہبی اور ثقافتی تعلق بہت گہرا ہے۔ اس کے بیشتر لوگ مسلمان ہیں۔ یہ ملک بالترتیب ایرانیوں، یونانیوں، عربوں، ترکوں، منگولوں، برطانیوں، روسیوں اور اب امریکہ کے قبضے میں رہا ہے۔ مگر اس کے لوگ بیرونی قبضہ کے خلاف ہمیشہ مزاحمت کرتے رہے ہیں۔ ایک ملک کے طور پر اٹھارویں صدی کے وسط میں احمد شاہ ابدالی کے دور میں یہ ابھرا اگرچہ بعد میں درانی کی سلطنت کے کافی حصے اردگرد کے ممالک کے حصے بن گئے۔ 1919ء میں شاہ امان اللہ خان کی قیادت میں انگریزوں سے افغانستان کی آزادی حاصل کی۔ جس کے بعد افغانستان صحیح معنوں میں ایک ملک بن گیا۔ مگر انگریزوں کے دور میں اس کے بیشتر علاقے حقیقت میں آزاد ہی تھے اور برطانیہ کبھی اس پر مکمل قبضہ نہیں رکھ سکا۔ آج افغانستان امریکی قبضہ میں ہے اور بظاہر ایک آزاد ملک اور حکومت کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ افغانستان پچھلے پینتیس سال سے مسلسل جنگ کی سی حالت میں ہے جس نے اس کو تباہ کر دیا ہے اور اس کی کئی نسلوں کو بے گھر کر دیا ہے۔ یہ تباہی کبھی غیروں کے ہاتھوں ہوئی اور کبھی خانہ جنگی سے یہ صورت حال پیدا ہوئی۔ اگرچہ افغانستان کے پاس تیل یا دوسرے وسائل کی کمی ہے مگر اس کی جغرافیائی حیثیت ایسی ہے کہ وہ وسطی ایشیاء، جنوبی ایشیاء اور مشرقِ وسطیٰ کے درمیان میں ہے اور تینوں خطوں سے ہمیشہ اس کے نسلی، مذہبی اور ثقافتی تعلق رہا ہے اور جنگی لحاظ سے اور علاقے میں اپنا دباؤ رکھنے کے لیے ہمیشہ اہم رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ استعماری طاقتوں نے ہمیشہ اس پر اپنا قبضہ یا اثر رکھنے کی کوشش کی ہے۔ افغانستان کا زیادہ رقبہ پتھریلا پہاڑی علاقہ ہے اس وجہ سے کسی بھی بیرونی طاقت کا یہاں قبضہ رکھنا مشکل ہے اور لوگ زیادہ تر قبائلی ہیں اس لیے کبھی بیرونی طاقتوں کو تسلیم نہیں کرتے، نتیجہ یہ کہ اس ملک کو کبھی بھی لمبے عرصے کے لیے امن نصیب نہیں ہو سکا۔
ابو حفص عمر بن خطاب عدوی قرشی ملقب بہ فاروق (پیدائش: 586ء تا 590ء کے درمیان مکہ میں- وفات: 6 نومبر، 644ء مدینہ میں) ابو بکر صدیق کے بعد مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ راشد، محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خسر اور تاریخ اسلام کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک ہیں۔ عمر بن خطاب عشرہ مبشرہ میں سے ہیں، ان کا شمار علما و زاہدین صحابہ میں ہوتا تھا۔ ابو بکر صدیق کی وفات کے بعد 23 اگست سنہ 634ء مطابق 22 جمادی الثانی سنہ 13ھ کو مسند خلافت سنبھالی۔ عمر بن خطاب ایک باعظمت، انصاف پسند اور عادل حکمران مشہور ہیں، ان کی عدالت میں مسلم و غیر مسلم دونوں کو یکساں انصاف ملا کرتا تھا، عمر بن خطاب کا یہ عدل و انصاف انتہائی مشہور ہوا اور ان کے لقب فاروق کی دیگر وجوہ تسمیہ میں ایک وجہ یہ بھی بنی۔ آپ رضی اللہ عنہ کا نسب نویں پشت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے جا ملتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نویں پشت میں کعب کے دو بیٹے ہیں مرہ اور عدی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مرہ کی اولاد میں سے ہیں، جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ عدی کی اولاد میں سے ہیں۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان جنوبی ایشیا کے شمال مغرب وسطی ایشیا اور مغربی ایشیا کے لیے دفاعی طور پر اہم حصے میں واقع ایک خود مختار اسلامی ملک ہے۔ 21 کروڑ کی آبادی کے ساتھ یہ دنیا کا پانچواں بڑی آبادی والا ملک ہے۔ 881,913 مربع کلومیٹر (340,509 مربع میل) کے ساتھ یہ دنیا کا تینتیسواں بڑے رقبے والا ملک ہے۔ اس کے جنوب میں 1046 کلومیٹر (650 میل) کی ساحلی پٹی ہے جو بحیرہ عرب سے ملتی ہے۔پاکستان کے مشرق ميں بھارت، شمال مشرق ميں چین اور مغرب ميں افغانستان اور ايران واقع ہيں۔ پاکستان کو شمال میں ایک تنگ واخان راہداری تاجکستان سے جدا کرتی ہے جبکہ اس ملک کی سمندری سرحدی حدود عمان کے سمندری حدود سے بھی ملتی ہیں۔ موجودہ پاکستان کے علاقے قدیم ترین دنیا میں وہ علاقے تھے جن میں موہنجوداڑو اور انڈس سولائیزیشن مہر گڑھ ٹیکسلا پراچین سنسکرت دور اور دیگر زیرتحقیق آرک لوجیکل سائٹسٹ جیسے قندھارا تہذیب و تمدن تھی۔ اس علاقے پر پراچین راجپوت ایرانی یونانیعرب،بدھ مت، سکھ، مغل، ہن سفید اور ترک حملہ آوروں کی حکومت بھی رہی ہے۔ یہ علاقہ مختلف سلطنتوں جیسے چندر گپت موریا، ہخامنشی سلطنت عربوں کی خلافت امویہ، مغول سلطنت، مغلیہ سلطنت، درانی سلطنت، سکھ سلطنت اور برطانوی راج کا اہم حصہ رہا ہے۔ اس کے بعد محمد علی جناح کی قیادت میں تحریک پاکستان کامیاب ہوئی اور 14 اگست 1947ء کو ہندوستان کے مشرق اور مغرب میں دو حصوں میں ایک آزاد اور خودمختار اسلامی ریاست قائم ہوئی۔ پاکستان نے 1956ء میں اپنا پہلا قانون اپنایا۔ 1971ء میں ایک خانہ جنگی کے دوران میں اس کا مشرقی حصہ الگ ہو کر ایک نیا ملک بنگلہ دیش بن گیا۔ پاکستان وفاقی پارلیمانی جمہوری ریاست کے تحت چلتا ہے۔ اس کے چار صوبے اور کچھ وفاقی حکومت کے زیر انتظام علاقے ہیں۔ یہ ملک لسانی اور قومی طور پر مختلف اقوام کا علاقہ ہے اور اس کا جغرافیہ بھی ہر طرح کے خطے پر مشتمل ہے۔ پاکستان دنیا کا ایک اہم طاقتور ملک ہے، جیسا کہ اس کی فوج دنیا کی چھویں بڑی فوج ہے اور یہ اسلامی دنیا کی واحد اور جنوبی ایشیا کی دوسری ایٹمی طاقت ہے۔ اس کی معیشت دنیا میں 27 ویں نمبر پر ہے۔ پاکستان کی تاریخ فوجی آمریت، سیاسی عدم استحکام اور پڑوسی ملک سےجھگڑوں پر مشتمل ہے۔ یہ ملک مؤتمر عالم اسلامی، اقوام متحدہ، دولت مشترکہ ممالک، سارک، ترقی پذیر 8، اقتصادی تعاون تنظیم جیسی تنظیموں کا اہم رکن ہے۔ ان سرزمین اور ممالک کے ناموں میں، جس میں لاحقہ "ستان" شامل ہے، پاکستان کا لفظ سب سے نیا ہے اور کردستان سب سے پرانا نام ہے۔ پاکستان کے مطلب پاک نفسوں کی سرزمین ہے.
واقعہ کربلا، جس میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نواسے حسین ابن علی اور ان کے رشتہ دار اور غلاموں کو 10 محرم الحرام، 61ھ میں عراق کے شہر کربلا میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ بے دردی سے شہید کیا گيا۔ اس واقعہ نے آنے والی صدیوں میں اسلامی تاریخ پر دور رس اثرات مرتب کیے؛ جو ہنوز جاری ہیں۔ واقعہ کربلا کے پس منظر، عوامل اور تفصیلات میں تاریخی بنیادوں پر اہل سنت و جماعت اور اہل تشیع کے درمیان میں کئی باتوں میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ لیکن اس بات پر سبھی متفق ہیں کہ یہ واقعہ 10 محرم 61ھ کو کربلا میں پیش آیا اور اس میں حسین ابن علی اور ان کے اصحاب کو قتل کیا گیا۔
یزید بن معاویہ لعنتی (مکمل نام: یزید لعنتی بن معاویہ بن ابوسفیان بن حرب بن امیہ الاموی الدمشقی) خلافت امویہ کا دوسرا خلیفہ تھا۔ اس کی ولادت 23 جولائی 645ء کو عثمان بن عفان کی خلافت میں ہوئی۔ اس کی ماں کا نام میسون تھا اور وہ شام کی کلبیہ قبیلہ کی مسیحی خاتون تھی، اس نے معاویہ کے بعد 680ء سے 683ء تک مسند خلافت سنبھالا۔ اس کے دور میں اس کے حکم سےسانحۂ کربلا میں نواسہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، حسین ابن علی شہید کیے گئے۔ حسین بن علی کا سر یزید کے دربار میں لے جایا گیا۔ جبکہ روایات کے مطابق اسی نے ان کی شہادت کا حکم دیا اور عبد اللہ ابن زیاد کو خصوصی طور پر یہ ذمہ داری دی اور جب حسین بن علی کا سر اس کے سامنے آیا تو اس نے خوشی کا اظہار کیا اور ان کے اہل خانہ کو قید میں رکھا۔ اسی دور میں عبد اللہ ابن حنظلہ کی تحریک کو کچلنے کے لیے مدینہ میں قتل عام ہوا اور عبد اللہ ابن زبیر کے خلاف لڑائی میں خانہ کعبہ پر سنگ باری کی گئی۔ یزید نے معاویہ کی وفات کے بعد 30 برس کی عمر میں رجب 60ھ میں مسند خلافت سنبھالی۔ اس کے عہد حکومت میں عقبہ بن نافع کے ہاتھوں مغربی اقصی فتح ہوا اور مسلم بن زیاد نے بخارا اور خوارزم فتح کیا، دمشق میں ایک چھوٹی سی نہر تھی جس کی توسیع یزید نے کی تھی اس لیے اس نہر کو اس کی طرف منسوب کرکے نہر یزید کہا جاتا ہے، کہا جاتا ہے کہ اسی نے سب سے پہلے کعبۃ اللہ کو ریشمی غلاف پہنایا۔
حسن بن علی بن ابی طالب (624ء–670ء) علی بن ابی طالب اور محمد کی دختر فاطمہ زہرا کے سب سے بڑے بیٹے اور حسین بن علی کے بڑے بھائی تھے۔ اہل اسلام ان کا پیغمبر اسلام کے پوتے کے طور پر احترام کرتے ہیں۔ سنی مسلمان ان کو پانچواں خلیفہ راشد جبکہ شیعہ مسلمان حسن کو دوسرا امام مانتے ہیں۔ ان کے والد کی وفات کے بعد انہیں خلافت کے لیے منتخب کیا گیا لیکن چھ یا سات ماہ کے بعد معاویہ کے سپرد کر دی اور معاویہ کے دور میں خلافت ملوکیت میں بدل گئی اور وہ دولت امویہ کے بانی قرار پائے، یوں پہلے فتنے کا خاتمہ ہوا۔ حسن غریبوں کو عطیہ کرنے، غریبوں اور غلاموں پر اپنی شفقت اور اپنے علم، تاب آوری اور بہادری کے لیے جانے جاتے تھے۔ اپنی باقی زندگی حسن نے مدینہ منورہ میں ہی گزاری، یہاں تک کہ 45 سال کی عمر میں ان کا انتقال ہو گیا اور مدینہ منورہ کے جنت البقیع قبرستان میں سپرد خاک ہو گئے۔ عموماً ان کی زوجہ جعدہ بنت اشعث پر انہیں زہر دینے کا الزام لگایا جاتا ہے۔
امیر معاویہ یا معاویہ اول (عربی: معاوية بن أبي سفيان، 597ء، 603ء یا 605ء – اپریل 680ء) اموی خلافت کے بانی تھے اور 661ء سے اپنی وفات 680ء تک خلیفہ رہے۔ وہ نبی محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے 30 سال بعد خلیفہ بن گئے، ان سے قبل خلفائے راشدین اور حسن ابن علی خلیفہ رہے۔ اگرچہ ان کے دور میں انفاص و تقوی کو دور خلفائے راشدین کے مقابلے میں کمتر سمجھا جاتا ہے، لیکن نمو پزیر اسلام میں امیر معاویہ پہلے مسلمان خلیفہ ہیں جن کا نام سرکاری دستاویزات، سکوں اور کتبوں پر کندہ ہوا۔ امیر معاویہ کاتبین وحی میں سے تھے۔
خالد بن ولید (عربی: خالد بن ولید بن المغیرۃ المخزومی) حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سپہ سالار اور ابتدائی عرب تاریخ کے بہترین سپاہی تھے۔ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے انتقال کے بعد انہوں نے ریاست مدینہ کے خلاف ہونے والی بغاوتوں کو کچلنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ اس کے بعد خالد بن ولید نے ساسانی اور بازنطینی سلطنتوں کو شکست دیکر نہ صرف مدینہ کی چھوٹی سی ریاست کو ایک عالمی طاقت میں تبدیل کر دیا۔ بلکہ پہلے درجہ کے عالمی فاتحین میں بھی اپنے آپ کو شامل کرالیا۔
ابو القاسم محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب (12 ربیع الاول عام الفیل / 8 جون 570ء یا 571ء – 12 ربیع الاول 10ھ / 8 جون 632ء) مسلمانوں کے آخری نبی ہیں۔ اہل اسلام کے نزدیک محمد تمام مذاہب کے پیشواؤں سے کامیاب ترین پیشوا تھے۔ آپ کی کنیت ابوالقاسم تھی۔ مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ کی طرف سے انسانیت کی جانب بھیجے جانے والے انبیا اکرام کے سلسلے کے آخری نبی ہیں جن کو اللہ نے اپنے دین کی درست شکل انسانوں کی جانب آخری بار پہنچانے کیلئے دنیا میں بھیجا۔ انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دنیا کی تمام مذہبی شخصیات میں سب سے کامیاب شخصیت تھے۔
ابو عبد اللہ عثمان بن عفان اموی قرشی (47 ق ھ - 35 ھ / 576ء – 656ء) اسلام کے تیسرے خلیفہ، داماد رسول اور جامع قرآن تھے۔ عثمان غنی سابقین اسلام میں شامل اور عشرہ مبشرہ میں سے تھے، ان کی کنیت ذو النورین ہے کیونکہ انھوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دو صاحبزادیوں سے نکاح کیا تھا، پہلے رقیہ بنت محمد سے کیا، پھر ان کی وفات کے بعد ام کلثوم بنت محمد سے نکاح کیا۔ عثمان غنی پہلے صحابی ہیں جنھوں نے سرزمین حبشہ کی ہجرت کی، بعد میں دیگر صحابہ بھی آپ کے پیچھے حبشہ پہنچے۔ بعد ازاں دوسری ہجرت مدینہ منورہ کی جانب کی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عثمان غنی پر مکمل اعتماد اور ان کی فطری حیاء و شرافت اور جو انھوں نے اپنے مال کے ذریعہ اہل ایمان کی نصرت کی تھی، اس کی انتہائی قدر کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیگر صحابہ کے ساتھ ان کو بھی جنت اور شہادت کی موت کی خوش خبری دی۔
سیدہ عائشہ بنت ابی بکر (رضی اللہ عنہا) (پیدائش: 614ء– وفات: 13 جولائی 678ء) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ ہیں۔ آپ کو اُم المومنین کے خطاب سے یاد کیا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد عہد خلفائے راشدین میں آپ کی شخصیت بہت نمایاں نظر آتی ہے۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد 47 سال بقید حیات رہیں اور یہ تمام وہ عرصہ ہے جس میں ابتدائی مسلم فتوحات ہوئیں، مختلف ممالک مملکت اسلامیہ میں داخل ہوئے۔ علم الحدیث میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایات کے بعد سب سے زیادہ روایاتِ حدیث کا ذخیرہ آپ سے ہی روایت کیا گیا ہے۔ آپ عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور عہد خلفائے راشدین کی عینی شاہد بھی تھیں اور مزید برآں آپ نے خلافت امویہ کے ابتدائی 17 سال بھی ملاحظہ فرمائے۔ سنہ 678ء میں آپ کا اِنتقال مدینہ منورہ میں ہوا۔ آپ کے مناقب و فضائل کثیر ہیں جن سے آپ کی عظمت و شان جلالت مسلم خواتین پر نمایاں ہے۔
سارے جہاں سے اچھا یا ترانۂ ہندی اردو زبان میں لکھی گئی ایک نظم ہے جو تحریک آزادی کے دوران میں برطانوی راج کے خلاف احتجاج کی علامت بنی اور جسے آج بھی عقیدت کے گیت کے طور پر ہندوستان میں گایا جاتا ہے۔ اسے غیر رسمی طور پر بھارت کے قومی گیت کا درجہ حاصل ہے۔ اس نظم کو مشہور شاعر محمد اقبال نے 1905ء میں لکھا تھا اور سب سے پہلے گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھ کر سنایا تھا۔ یہ اقبال کے پہلے مجموعۂ کلام بانگ درا میں شامل ہے۔ اس وقت اقبال لاہور کے گورنمنٹ کالج لاہور میں استاد تھے۔ انھیں لالہ ہردیال نے ایک اجلاس کی صدارت کرنے کی دعوت دی۔ اقبال نے تقریر کرنے کی بجائے یہ نظم پورے جوش سے گاكر سنائی۔ یہ نظم ہندوستان کی تعریف میں لکھی گئی ہے اور الگ الگ مذاہب کے لوگوں کے درمیان میں بھائی چارے کو بڑھاوا دیتی ہے۔ 1950ء کی دہائی میں ستار نواز پنڈت روی شنکر نے اسے سُر سے آہنگ کر دیا۔ جب اندرا گاندھی نے بھارت کے پہلے خلا باز راکیش شرما سے پوچھا کہ خلا سے بھارت کیسا دکھائی دیتا ہے، تو شرما نے اس نظم کا پہلا مصرع سنایا۔
یوم آزادی پاکستان یا یوم استقلال ہر سال 14 اگست کو پاکستان میں آزادی کے دن کی نسبت سے منایا جاتا ہے۔ یہ وہ دن ہے جب پاکستان 1947ء میں انگلستان سے آزاد ہو کر معرض وجود میں آیا۔ 14 اگست کا دن پاکستان میں سرکاری سطح پر قومی تہوار کے طور پر بڑے دھوم دھام سے منایا جاتا ہے پاکستانی عوام اس روز اپنا قومی پرچم فضا میں بلند کرتے ہوئے اپنے قومی محسنوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ ملک بھر کی اہم سرکاری عمارات پر چراغاں کیا جاتا ہے۔اسلام آباد جو پاکستان کا دارالحکومت ہے، اس کو خاص طور پر سجایا جاتا ہے، اس کے مناظر کسی جشن کا سماں پیدا کر رہے ہوتے ہیں۔ اور یہیں ایک قومی حیثیت کی حامل تقریب میں صدر پاکستان اور وزیرآعظم قومی پرچم بلند کرتے ہوئے اس بات کا عہد کرتے ہیں کہ ہم اس پرچم کی طرح اس وطن عزیز کو بھی عروج و ترقی کی بلندیوں تک پہنچائیں گے۔ ان تقاریب کے علاوہ نہ صرف صدارتی اور پارلیمانی عمارات پر قومی پرچم لہرایا جاتا ہے بلکہ پورے ملک میں سرکاری اور نیم سرکاری عمارات پر بھی سبز ہلالی پرچم پوری آب و تا ب سے بلندی کا نظارہ پیش کر رہا ہوتا ہے۔ یوم اسقلال کے روز ریڈیو، ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ پہ براہ راست صدر اور وزیراعظم پاکستان کی تقاریر کو نشر کیا جاتا ہے اور اس عہد کی تجدید کی جاتی ہے کہ ہم سب نے مل کراس وطن عزیز کو ترقی، خوشحالی اور کامیابیوں کی بلند سطح پہ لیجانا ہے۔
جن گن من بھارت کا قومی ترانہ ہے، جو بنگالی زبان میں تھا۔ پھر اس کو سنسکرت کا لہجہ دے کر سنوارا گیا۔ اس کے شاعر نوبل لارائٹ رابندرناتھ ٹیگور ہیں۔ انڈین نیشنل کانگریس کے 1911ء اجلاس میں یہ پہلی دفعہ گائی گئی۔ 24 جنوری، 1950ء کو بھارت کی قانون ساز کمیٹی سرکاری طور پر منظوری دی اور یہ نظم، بھارت کا قومی ترانہ ہو گئی۔
ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال (ولادت: 9 نومبر 1877ء - وفات: 21 اپریل 1938ء) بیسویں صدی کے ایک معروف شاعر، مصنف، قانون دان، سیاستدان اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھے۔ اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے اور یہی ان کی بنیادی وجہ شہرت ہے۔ شاعری میں بنیادی رجحان تصوف اور احیائے امت اسلام کی طرف تھا۔ "دا ریکنسٹرکشن آف ریلیجس تھاٹ ان اسلام" کے نام سے انگریزی میں ایک نثری کتاب بھی تحریر کی۔ علامہ اقبال کو دور جدید کا صوفی سمجھا جاتا ہے۔[حوالہ درکار] بحیثیت سیاست دان ان کا سب سے نمایاں کارنامہ نظریۂ پاکستان کی تشکیل ہے، جو انہوں نے 1930ء میں الہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پیش کیا تھا۔ یہی نظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا۔ اسی وجہ سے علامہ اقبال کو پاکستان کا نظریاتی باپ سمجھا جاتا ہے۔ گو کہ انہوں نے اس نئے ملک کے قیام کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن انہیں پاکستان کے قومی شاعر کی حیثیت حاصل ہے۔
محمد علی جناح پیدائشی نام، محمد علی جناح بھائی، 25 دسمبر 1876ء – 11 ستمبر 1948ء) کے نامور وکیل، سیاست دان اور بانی پاکستان تھے۔ محمد علی جناح 1913ء سے لے کر پاکستان کی آزادی 14 اگست 1947ء تک آل انڈیا مسلم لیگ کے سربراہ رہے، پھر قیام پاکستان کے بعد اپنی وفات تک، وہ ملک کے پہلے گورنر جنرل رہے۔ سرکاری طور پر پاکستان میں آپ کو قائدِ اعظم یعنی سب سے عظیم رہبر اور بابائے قوم یعنی قوم کا باپ بھی کہا جاتا ہے۔ جناح کا یومِ پیدائش پاکستان میں قومی تعطیل کے طور پر منایا جاتا ہے۔کراچی کے پیدائشی اور لنکن ان سے بیرسٹری کی تربیت حاصل کرنے والے جناح، بیسویں صدی کے ابتدائی دو عشروں میں آل انڈیا کانگریس کے اہم رہنما کے طور پر ابھرے۔ اپنی سیاست کے ابتدائی ادوار میں انہوں نے ہندو مسلم اتحاد کے لیے کام کیا۔ 1916ء میں آل انڈیا مسلم لیگ اور آل انڈیا کانگریس کے مابین ہونے والے میثاق لکھنؤ کو مرتب کرنے میں بھی انہوں نے اہم کردار ادا کیا۔ جناح آل انڈیا ہوم رول لیگ کے اہم رہنماوں میں سے تھے، انہوں نے چودہ نکات بھی پیش کیے، جن کا مقصد ہندوستان کے مسلمانوں کے سیاسی حقوق کا تحفظ کرنا تھا۔ بہر کیف جناح 1920ء میں آل انڈیا کانگریس سے مستعفی ہو گئے، جس کی وجہ آل انڈیا کانگریس کے موہن داس گاندھی کی قیادت میں ستیاگرا کی مہم چلانے کا فیصلہ تھا۔1940ء تک جناح کو یہ یقین ہو چلا تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک علاحدہ وطن کی جدوجہد کرنی چاہیے۔ اسی سال، مسلم لیگ نے جناح کی قیادت میں قرارداد پاکستان منظور کی جس کا مقصد نئی مملکت کی قیام کا مطالبہ تھا۔دوسری جنگ عظیم کے دوران، آل انڈیا مسلم لیگ نے مضبوطی پکڑلی جبکہ ان ادوار میں کانگریس کے کئی رہنما قید کاٹ رہے تھے اور جنگ کے ختم ہونے کے مختصر عرصے میں ہی انتخابات کا انعقاد ہوا، جس میں جناح کی جماعت نے مسلمانوں کے لیے مختص نشستوں میں سے بڑی تعداد جیت لی۔ اس کے بعد آل انڈیا کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ متحدہ ہندوستان میں اختیارات کے توازن کے لیے کسی صیغے پر متفق نا ہو سکے نتیجتاً تمام جماعتیں اس امر پر متفق ہوگئیں کہ ہندوستان کے دو حصے کیے جائیں جن میں ایک مسلم اکثریتی علاقوں میں پاکستان جبکہ باقی ماندہ علاقوں میں بھارت کا قیام ہو۔پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کے طور پر جناح نے اپنی حکومتی پالیسیوں کے قیام کے لیے کام کیا نیز انہوں نے ان لاکھوں لوگوں کے بہبود اور آباد کاری کے لیے بھی کام کیا جو تقسیم ہند کے بعد پاکستان کی جانب ہجرت کر چلے تھے، انہوں نے ان مہاجر کیمپوں کی ذاتی طور پر دیکھ بھال کی۔ جناح 71 سال کے عمر میں انتقال کر گئے جبکہ ان کے نوزائیدہ ملک کو سلطنت برطانیہ سے آزاد ہوئے محض ایک سال کا عرصہ ہوا تھا۔ ان کی سوانح عمری لکھنے والے لکھاری،اسٹینلی وولپرٹ لکھتے ہیں کہ، وہ (یعنی جناح) پاکستان کے عظیم ترین رہنما رہیں گے۔
صحابہ (عربی: الصحابۃ، "پیروکار") اسلام میں نبی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، کے ان پیرو کاروں کو کہا جاتا ہے جنہوں نے ان کی اپنی حیات میں اسلام قبول کیا اور ان کو کچھ وقت کی صحبت ملی۔ اور اسی ایمان کی حالت میں وہ دنیا سے گئے۔ بعض صحابہ نابینا بھی تھے اور بعض لوگ جنہوں نے اسلام قبول کیا، مگر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دور یا بعد میں پھر مرتد ہوئے اور پھر اسلام قبول کیا (محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیات کے بعد) تو ان کو صحابی نہیں کہا جاتا۔
قرآن، قرآن مجید یا قرآن شریف (عربی: القرآن الكريم) دین اسلام کی مقدس و مرکزی کتاب ہے جس کے متعلق اسلام کے پیروکاروں کا اعتقاد ہے کہ وہ کلام الہی ہے اور اسی بنا پر یہ انتہائی محترم و قابل عظمت کتاب ہے۔ اسے پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی کے ذریعے اتارا گیا۔ یہ وحی اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتے حضرت جبرائیل علیہ السلام لاتے تھے جیسے جیسے قرآن مجید کی آیات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوتیں آپ صلی علیہ وآلہ وسلم اسے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو سنا اور ان آیات کے مطالب و معانی سمجھا دیتے۔ کچھ صحابہ کرام تو ان آیات کو وہیں یاد کر لیتے اور کچھ لکھ کر محفوظ کر لیتے۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن ہر قسم کی تحریف سے پاک سے محفوظ ہے، قرآن میں آج تک کوئی کمی بیشی نہیں ہو سکی اور اسے دنیا کی واحد محفوظ کتاب ہونے کی حیثیت حاصل ہے، جس کا حقیقی مفہوم تبدیل نہیں ہو سکا اور تمام دنیا میں کروڑوں کی تعداد میں چھپنے کے باوجود اس کا متن ایک جیسا ہے اور اس کی تلاوت عبادت ہے۔ نیز صحف ابراہیم، زبور اور تورات و انجیل کے بعد آسمانی کتابوں میں یہ سب سے آخری کتاب ہے اور سابقہ آسمانی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اب اس کے بعد کوئی آسمانی کتاب نازل نہیں ہوگی۔ قرآن کی فصاحت و بلاغت کے پیش نظر اسے لغوی و مذہبی لحاظ سے تمام عربی کتابوں میں اعلیٰ ترین مقام دیا گیا ہے۔ نیز عربی زبان و ادب اور اس کے نحوی و صرفی قواعد کی وحدت و ارتقا میں بھی قرآن کا خاصا اہم کردار دکھائی دیتا ہے۔ چنانچہ قرآن کے وضع کردہ عربی زبان کے قواعد بلند پایہ عرب محققین اور علمائے لغت مثلاً سیبویہ، ابو الاسود الدؤلی اور خلیل بن احمد فراہیدی وغیرہ کے یہاں بنیادی ماخذ سمجھے گئے ہیں۔
بھارت کا قومی پرچم تین مختلف رنگوں کی افقی مستطیل پٹیوں پر مشتمل ہے، جو زعفرانی، سفید اور سبز رنگوں کی ہیں۔ اس پرچم کے درمیان میں نیلے رنگ کا اشوک چکر ہے جو وسطی سفید پٹی پر نظر آتا ہے۔ اس پرچم کو ڈومنین بھارت کے اجلاس مورخہ 22 جولائی، 1947ء کے موقع پر اختیار کیا گیا اور بعد ازاں جمہوریہ بھارت کے قومی پرچم کے طور پر اسے برقرار رکھا گیا۔ بھارت میں لفظ ترنگا (ہندی: तिरंगा) سے مراد ہمیشہ اسی پرچم کو لیا جاتا ہے۔ یہ پرچم سوراج کے جھنڈے سے مشابہت رکھتا ہے جو انڈین نیشنل کانگریس کا جھنڈا تھا اور اس کے خالق پینگالی ونکایا تھےگاندھی کی خواہش کو دیکھتے ہوئے قانونی طور پر اس جھنڈے کو کھادی (ہاتھوں سے بنا گیا کپڑا) اور ریشم کے کپڑے سے بنایا جاتا ہے۔ اس جھنڈے کو بنانے کے مراحل کی نگرانی بیورو آف انڈین سٹینڈرڈ کرتا ہے۔ اسے بنانے کے حقوق کھادی ڈیولپمنٹ اینڈ لیج انڈسٹریز کمیشن مختلف علاقوں کو جاری کرتا ہے۔ سنہ 2009ء تک کرناٹک کھادی گرام ادیوگ سنیوکتا سنگھ ہی اس جھنڈے کو بنانے والی واحد کمپنی تھی۔
مولوی ہبۃ اللہ اخندزادہ شیخ مولوی محمد خان کے صاحب زادے اور مولانا خدائے رحیم صاحب کے پوتے ہیں۔ انہوں نے 1387ہجری میں رجب کی 15 تاریخ کو قندھار کے ضلع پنجوائی کے ایک گاؤں ناخونی کے ایک علمی اور دین دار خاندان میں آنکھیں کھولیں۔ اُن کی زندگی کا ابتدائی مرحلہ اپنے والد صاحب کی جانب سے علمی پرورش اور تربیت میں گزرا۔
ابو ایوب انصاری انصار کے سرکردہ صحابی رسول اور میزبان رسول کہلاتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مدینہ منورہ میں داخل ہوئے تو ہر شخص میزبانی کا شرف حاصل کرنے کا خواہش مند تھا۔ لیکن حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا جس جگہ اونٹنی بیٹھے گی۔ وہیں آپ مقیم ہوں گے۔ اونٹنی ابو ایوب انصاری کے دروازے پر بیٹھی۔ ان کا مکان دو منزلہ تھا۔ نبی اکرم نے نیچے قیام فرمایا اور سات ماہ تک یہاں رہے۔
اہل تشیع یا شیعیت (عربی: شيعة) اسلام کا دوسرا بڑا فرقہ ہے۔ اہل تشیع رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد فقط حضرت علی بن ابی طالب کی امامت کے قائل ہیں اور صرف انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا جانشین اور پہلا معصوم امام مانتے ہیں۔ شیعہ یا اہل تشیع نظریہ خلافت کو تسلیم نہیں کرتے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دعوت ذوالعشیرہ جو حدیث یوم الدار یا حدیث العشیرہ والدار کے نام سے مشہور ہے اور خطبہ حجتہ الوداع کے موقع پر علی بن ابی طالب کو اپنا جانشین مقرر کر دیا تھا۔ دعوت ذوالعشیرہ کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ
علی بن حسین (پیدائش: 4 جنوری 659ء — وفات: 20 اکتوبر 713ء) جو زین العابدین (عابدوں کی زینت) اور امام الساجدین (سجدہ کرنے والوں کا امام) کے نام سے مشہور ہیں، اپنے والد حسین ابن علی، تایا حسن ابن علی اور دادا علی بن ابی طالب کے بعد اثنا عشری میں چوتھے امام اور اسماعیلی شیعیت میں تیسرے امام مانے جاتے ہیں۔ علی بن حسین سانحۂ کربلا میں موجود تھے، اس وقت ان کی عمر 23 یا 25 سال تھی، لیکن بیماری کی وجہ سے لڑائی میں شریک نہ ہو سکے۔ یہ اس سانحے میں بچ جانے والے واحد مرد تھے۔ ان کو دمشق میں یزید کے سامنے لے جایا گیا، کچد دن بعد ان کو دیگر خواتین کے ساتھ واپس مدینہ جانے دیا گیا، جہاں انھوں نے چند اصحاب کے ساتھ خاموشی سے زندگی بسر کی۔ ان کی زندگی اور بیانات مکمل طور پر طہارت اور مذہبی تعلیمات کے لیے وقف تھے، جو زیادہ تر دعاؤں اور التجاؤں کی شکل میں ہوتے۔ ان کی مشہور مناجات صحیفہ سجادیہ کے نام سے معروف ہے۔علی بن حسین بن علی بن ابیطالب (38-95ھ) جو امام سجاد اور زین العابدین کے نام سے مشہور ہیں، اہل تشیع کے چوتھے اماماسماعیلی شیعیت کے تیسرے امام اور امام حسین علیہ السلام کے فرزند ہیں۔ آپ 35 سال امامت کے عہدے پر فائز رہے۔ امام سجادؑ واقعہ کربلا میں حاضر تھے لیکن بیماری کی وجہ سے جنگ میں حصہ نہیں لیا۔ امام حسینؑ کی شہادت کے بعد عمر بن سعد کے سپاہیوں نے آپ کو اسیران کربلا کے ساتھ کوفہ اور شام لے گیا۔ کوفہ اور شام میں آپ کے دئے گئے خطبات کے باعث لوگ اہل بیت کے مقام و منزلت سے زیادہ آگاہ ہوئے۔
فاطمہ بنت محمد بن عبد اللہ جن کا معروف نام فاطمۃ الزہراء ہے حضرت محمد بن عبد اللہ اور خدیجہ بنت خویلد کی بیٹی تھیں۔ تمام مسلمانوں کے نزدیک آپ ایک برگزیدہ ہستی ہیں۔۔ آپ کی ولادت 20 جمادی الثانی بروز جمعہ بعثت کے پانچویں سال میں مکہ میں ہوئی۔ آپ کی شادی علی ابن ابی طالب سے ہوئی جن سے آپ کے دو بیٹے حسن اور حسین اور دو بیٹیاں زینب اور ام کلثوم پیدا ہوئیں۔ آپ کی وفات اپنے والد حضرت محمد بن عبد اللہ کی وفات کے کچھ ماہ بعد 632ء میں ہوئی۔ آپ کے کثیر الالقابات مشہور ہیں۔
صحابی۔ جُنْدُب بن جُنَادَة نام، ابوذر کنیت، شیخ الاسلام لقب۔ قبیلہ بنو غفار سے تھے جس کا پیشہ رہزنی تھا۔ ابتدا میں آپ نے بھی آبائی پیشہ اختیار کیا لیکن جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت کی خبر سنی تو مکے آکر اسلام قبول کر لیا۔ عظیم المرتبت محدثین میں شمار ہوتے ہیں۔ آپ سے بے شمار احادیث مروی ہیں۔ بڑے قناعت پسند اور سادہ مزاج تھے۔ مال و زر کے معاملے میں قلندرانہ مسلک رکھتے تھے۔
یہ ایک نامکمل فہرست ہے۔ اس میں اضافہ کر کے ویکیپیڈیا کی مدد کریںغیر عرب صحابہ سے مراد وہ لوگ ہیں جو پیدائشی طور پر عرب سے نہیں تھے، مختلف وجوہات سے وہ عرب میں آباد تھے یا تجارتی قافلوں کی وجہ سے وہ عرب جاتے رہے۔ جنہوں نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اللہ کا آخری نبی مانا۔ ان میں ہند، سندھ، فارس، حبشہ اور موجودہ افغانستان کے بھی افراد ہیں جن کے متعلق روایات ہیں کہ انہوں نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ان کی حیات دنیوی میں ہی نبی مانا اور صحابی قرار پائے۔
ابو العلا الحضرمی کا نام زید بن عبد اللہ اور کنیت ابوالعلا ہے، عبد اللہ بن عماد بن اکبر بن ربیعہ بن مالک بن عویف حضرمی کا بیٹا ہے ان كا والد مکہ کا باشندہ تھے اور حرب بن امیہ کے ہم پیمان تھے، حضر موت کے باشندے تھے، حضور انور صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے بحرین کے گورنر تھے، حضرت صدیق اکبر اور فاروق اعظم نے ان کا عہدہ بحال رکھا، چنانچہ آپ تا وفات اسی عہدے پر رہے، بعض نے فرمایا کہ آپ کی وفات عہدِ صدیقی میں ہے،مرقات نے فرمایا کہ 14ھ یا 21ھ میں آپ نے وفات پائی اور مشکوۃ شریف کے بعض نسخوں میں ابن العلا ہے۔
محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصال کے بعد ابوبکر صدیق، عمر فاروق، عثمان غنی اور علی المرتضی، حسن المجتبی کا عہد خلافت خلافت راشدہ کہلاتا ہے۔ اس عہد کی مجموعی مدت تیس سال ہے جس میں ابوبکر صدیق اولین اور علی آخری خلیفہ ہیں، حسن کی خلافت کے چھ ماہ خلافت علی میں شمار ہوتے ہیں جیسا کہ جمہور اسلاف کی رائے ہے۔ اس عہد کی نمایاں ترین خصوصیت یہ تھی کہ یہ قرآن و سنت کی بنیاد پر قائم نظام حکومت تھا۔
جنگ جمل یا جنگ بصرہ 13 جمادی الاولیٰ 36ھ (7 نومبر 656ء) کو بصرہ، عراق میں لڑی گئی۔ جنگ رسول اللہ ﷺ کے چچا زاد بھائی و داماد اور چوتھے خلیفہ راشد علی اور زوجہ رسول عائشہ، طلحہ اور زبیر کے درمیان میں لڑی گئی۔ اس جنگ میں علی کے مخالفین چاہتے تھے کہ عثمان کے خون کا بدلہ لیں جو حال ہی میں بغاوت کے نتیجے میں مخالفین کے ہاتھوں قتل کر دیے گئے تھے۔ ناگزیر جنگ کا اختتام علی کی فتح اور عائشہ کی شکست کے ساتھ ہوا، یوں پہلے فتنہ کا دوسرا باب شروع ہوا۔
قمری ہجری تقویم (ماہ و سال) کو بعض ممالک میں اسلامی تقویم بھی کہا جاتا ہے۔ ہجری تقویم سے مراد تواریخ کا حساب حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مدینہ کی طرف ہجرت سے لگانا ہے۔ اس میں جو مہینے استعمال ہوتے ہیں ان کا استعمال اسلام سے پہلے بھی تھا۔ جس میں سے محرم پہلا مہینہ ہے۔ چونکہ ایک قمری تقویم ہے لہذا اس کا ہر مہینہ چاند کو دیکھ کر شروع ہوتا ہے۔ سال کا کل دورانیہ 354.367056 دن اور ایک ماہ کا کل دورانیہ 29.530588 دن ہے۔
بنو امیہ قریش کا ایک ممتاز اور دولت مند قبیلہ تھا۔ اسی خاندان نے خلافت راشدہ کے بعد تقریباً ایک صدی تک ملوکیت سنبھالی اور اسلامی فتوحات کو بام عروج پر پہنچایا۔ جس کی سرحدیں ایک طرف چین اور دوسری طرف اسپین تک پھیلی ہوئی تھیں۔ البتہ مرکزی خلافت کے خاتمے کے باوجود اس خاندان کا ایک شہزادہ عبدالرحمن الداخل اسپین میں حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوا۔ جہاں 1492ء تک اموی سلطنت قائم رہی۔
واحد کا مفہوم (انگریزی: Meaning of Singular) ایک شخص یا ایک چیز کو واحد کہا جاتا ہے۔ یا واحد وہ اسم ہوتا ہے جو ایک شخص یا چیز کو ظاہر کرے۔ مثلاﹰ کتاب، لڑکا، مسجد، استاد، فوج، بلی، شجر، میز، کرسی، وغیرہ۔ جبکہ جمع ایک سے زیادہ شخصوں یا چیزوں کو جمع کہتے ہیں۔ یا جمع وہ اسم ہوتا ہے جو ایک سے زیادہ اشخاص ا اسماء کو ظاہر کرے۔ مثلاً کُتب، لڑکے، مساجد، اساتذہ، افواج، بلیاں، اشجار، میزیں، کرسیاں وغیرہ
متضاد مخالف؛ اُلٹ؛ اُلٹی طرف؛ دوسری جانب؛ ضِد؛ مُقابل؛ بِالمقابل؛ متقابل؛ متضاد؛ ایک لفظ جو مفہوم کے لحاظ سے دوسرے کی ضد ہو؛ متضاد المعنی۔ ایسے الفاظ جو مماثل وضع میں لیکن ایک دوسرے کے مخالف، برعکس یا یکسر مختلف ہوں۔ اسے 'بائنری' تعلق سے تعبیر کیا جاتا ہے کیوں کہ متضاد جوڑوں میں دو رکن ہوتے ہیں۔ باہم مخالف تعلق کو متضاد کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ایک جوڑے میں مخالف لفظ کو عام طور پر اس سوال کے ذریعہ طے کیا جا سکتا ہے کہ الف کے برعکس کیا ہے؟ جیسے:
ابراہیم بن محمد (عربی:ابراہیم بن محمد) حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ماریہ القبطیہ کے بیٹے تھے۔ اُن کا نام حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جد امجد حضرت ابراہیم کے نام پر رکھا گیا تھا۔ عرب کی روایات کے مطابق بچپن میں آپ پرورش و نگہداشت کے لیے اُم سیف نامی دائی کے سپرد کر دیا گیا، جن کو حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کچھ بکریاں بھی دیں۔
جنگ صفین 37ھ جولائی 657ء میں خلیفہ چہارم علی بن ابی طالب اور شام کے گورنر معاویہ بن ابی سفیان کے درمیان ہوئی۔ یہ جنگ دریائے فرات کے کنارے اس علاقے میں ہوئی جو اب ملک شام میں شامل ہے اور الرقہ (اردو میں رقہ) کہلاتا ہے۔ اس جنگ میں شامی افوج کے 45000 اور خلیفہ کی افواج کے 25000 افراد مارے گئے[حوالہ درکار]۔ جن میں سے بیشتر اصحاب رسول تھے۔ اس جنگ کی پیشینگوئی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کی تھی اور عمار بن یاسر کو بتایا تھا کہ اے عمار تجھ کو ایک باغی گروہ شہید کرے گا۔ ابوموسیٰ اور ابومسعود دونوں عمار بن یاسر کے پاس گئے جب انہیں علی نے اہل کوفہ کے پاس اس لیے بھیجا تھا کہ لوگوں کو لڑنے کے لیے تیار کریں۔ ابوموسیٰ اور ابومسعود دونوں عمار سے کہنے لگے جب سے تم مسلمانوں ہوئے ہو ہم نے کوئی بات اس سے زیادہ بری نہیں دیکھی جو تم اس کام میں جلدی کر رہے ہو۔ عمار نے جواب دیا میں نے بھی جب سے تم دونوں مسلمان ہوئے ہو تمہاری کوئی بات اس سے بری نہیں دیکھی جو تم اس کام میں دیر کر رہے ہو۔ ابومسعود نے عمار اور ابوموسیٰ دونوں کو ایک ایک کپڑے کا نیا جوڑا پہنایا پھر تینوں مل کر مسجد میں تشریف لے گئے ۔ ابومریم عبد اللہ بن زیاد الاسدی نے بیان کیا کہ جب طلحہ، زبیر اور عائشہ بصرہ کی طرف روانہ ہوئے تو علی نے عمار بن یاسر اور حسن بن علی کو بھیجا۔ یہ دونوں بزرگ ہمارے پاس کوفہ آئے اور منبر پر چڑھے۔ حسن بن علی منبر کے اوپر سب سے اونچی جگہ تھے اور عمار بن یاسر ان سے نیچے تھے۔ پھر ہم ان کے پاس جمع ہو گئے اور میں نے عمار کو یہ کہتے سنا کہ عائشہ بصرہ گئی ہیں اور اللہ کی قسم وہ دنیا و آخرت میں تمہارے نبی کریم ﷺ کی پاک بیوی ہیں لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ نے تمہیں آزمایا ہے تاکہ جان لے کہ تم اس اللہ کی اطاعت کرتے ہو یا عائشہ کی۔خزیمہ بن ثابت انصاری بھی اسی جنگ میں شہید ہوئے۔ یہ دونوں اصحاب علی کی فوج میں شامل تھے۔ اسی جنگ میں اویس قرنی بھی علی کرم اللہ وجہہ کی حمایت میں لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔ علی کی فوج کے امیر مالک اشتر اور دوسری طرف عمرو ابن العاص تھے۔
پاکستان کے قومی پرچم کا ڈیزائن سید امیر الدین قدوائی نے قائد اعظم کی ہدایت پر مرتب کیا تھا۔ یہ گہرے سبز اور سفید رنگ پر مشتمل ہے جس میں تین حصے سبز اور ایک حصہ سفید رنگ کا ہوتا ہے۔سبز رنگ مسلمانوں اور سفید رنگ پاکستان میں رہنے والی اقلیتوں کو ظاہر کرتا ہے، جبکہ سبز حصے کے بالکل درمیان میں چاند (ہلال) اور پانچ کونوں والا ستارہ ہوتاہے، سفید رنگ کے چاند کا مطلب ترقی اور ستارے کا مطلب روشنی اور علم کو ظاہر کرتا ہے۔کسی سرکاری تدفین کے موقع پر’ 21′+14′، 18′+12′، 10′+6-2/3′، 9′+6-1/4سائز کا قومی پرچم استعمال کیا جاتا ہے اور عمارتوں پر لگائے جانے کے لیے 6′+4′ یا3′+2′کا سائز مقرر ہے۔ پاکستانی پرچم کو پاکستانی آئین ساز اسمبلی نے 11 اگست 1947ء کو آزادی سے 3 دن قبل اپنایا تھا۔ تقسیم ہند کے بعد جب پاکستان ایک آزاد ریاست بنا تب ہی اسے ڈومنین پاکستان کا قومی پرچم تسلیم کر لیا گیا۔سرکاری گاڑیوں اور کاروں پر12″+8″کے سائز کا پرچم لگایا جاتا ہے جبکہ میزوں پر رکھنے کے لیے پرچم کا سائز 6-1/4″+4-1.4″ مقرر ہے۔ پاکستان کے قومی پرچم کے لہرانے کی تقاریب یوم پاکستان (23 مارچ)، یوم آزادی (14 اگست)، یوم قائد اعظم (25 دسمبر) منائی جاتی ہیں یا پھر حکومت کسی اور موقع پر لہرانے کا اعلان کرے۔ اسی طرح قائد اعظم کے یوم وفات (11 ستمبر)، علامہ اقبال کے یوم وفات (21 اپریل) اور لیاقت علی خان کے یوم وفات (16 اکتوبر) پر قومی پرچم سرنگوں رہتاہے یا پھر کسی اور موقع پر کہ جس کا حکومت اعلان کرے، پرچم کے سرنگوں ہونے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ایسی حالت میں پرچم ڈنڈے کی بلندی سے قدرے نیچے باندھا جاتاہے۔ اس سلسلے میں بعض افراد ایک فٹ اور بعض دو فٹ نیچے بتاتے ہے۔سرکاری دفاتر کے علاوہ قومی پرچم جن رہائشی مکانات پر لگایا جا سکتاہے ان میں صدر پاکستان، وزیراعظم پاکستان، چیئرمین سینٹ، سپیکر قومی اسمبلی، صوبوں کے گورنر، وفاقی وزارا یا وہ لوگ جنہیں وفاقی وزیر کا درجہ حاصل ہو، صوبوں کے وزارءاعلیٰ اور صوبائی وزیر، چیف الیکشن کمشنر، ڈپٹی چیئرمین آف سینٹ، ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلیوں کے سپیکر، دوسرے ممالک میں پاکستانی سفیروں کی رہائش گاہیں شامل ہے۔ پہلے ڈویژن کے کمشنر اور ضلع کے ڈپٹی کمشنرکو بھی اپنی رہائش گاہوں پر قومی پرچم لگانے کی اجازت تھی۔ قبائلی علاقوں کے پولیٹیکل ایجنٹ بھی اپنے گھر پر قومی پرچم لگا سکتے ہے۔ جبکہ اس ہوائی جہاز، بحری جہاز اور موٹر کار پر بھی قومی پرچم لہرایا جاتا ہے کہ جس میں صدر پاکستان، وزیر اعظم پاکستان، چیئرمین سینٹ، سپیکر قومی اسمبلی، چیف جسٹس آف پاکستان، صوبوں کے گورنر، صوبوں کے وزارءاعلیٰ اور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سفر کر رہے ہوں۔
اسلامی امارت افغانستان (Islamic Emirate of Afghanistan) (پشتو: د افغانستان امارات اسلامي) طالبان کے افغانستان پر بر سر اقتدار آنے پر 1996 میں قائم ہوئی 2001 میں ختم ہوئی۔ یہ حکومت افغان طالبان نے قائم کیا تھا اور ملا عمر مجاھد اس کی سربراہی کر رہے تھے۔ یہ ریاست ایک طویل جنگ کے بعد طالبان نے قائم کیا تھا جس سعودی عرب نے اس تسلیم کر لیا تھا۔
پاکستان کا قومی ترانہ، جو "پاک سرزمین" بھی کہلاتا ہے، سرکاری طور پر 1954ء میں پاکستان کا قومی ترانہ قرار پایا۔ اس کی دھن احمد جی چھاگلہ نے1949 میں ترتیب دی جبکہ ترانے کے بول حفیظ جالندھری نے 1952 میں تخلیق کیے۔۔ اس ترانے کو اس وقت کے گیارہ معروف سنگیت کاروں نے گایا جن میں احمد رشدی، کوکب جہاں، رشیدہ بیگم، نجم آرا، نسیمہ شاہین، زوار حسین، اختر عبّاس، غلام دستگیر، انور ظہیر اور اختر وارث علی شامل ہیں۔قومی ترانے سے قبل پاکستان زندہ باد بطور قومی ترانہ استعمال ہوا کرتا تھا۔
حليمہ بنت ابی ذؤيب (وفات: 8ھ/ 629ء)محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رضاعی والدہ ہیں، بی بی ثویبہ کے بعد محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو آپ نے ہی آخر تک دودھ پلایا، اس وقت آپ کے ساتھ عبد اللہ ابن حارث کو بھی دودھ پلایا، آپ کی بڑی بیٹی شیما حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو گود میں کھلاتی لوریاں دیتی تھیں۔ چار پانچ سال حلیمہ کے پاس بادیہ بنو سعد میں مقیم رہے۔ پھر آپ کی والدہ آمنہ کے پاس پہنچا گئیں۔ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ آپ کی تربیت بنو سعد میں ہوئی تھی اس لیے آپ کی زبان بالکل بے عیب ہے ۔
محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم
صفحہ منتقل ہونے کے بعد: یہ ایک رجوع مکرر صفحہ ہے۔ صفحے کو نئے عنوان کی جانب منتقل کرنے کے بعد اس صفحے کو رجوع مکرر کے طور پر باقی رکھا گیا ہے تاکہ پرانے عنوان کے داخلی یا خارجی روابط جہاں موجود ہوں وہ غیر مربوط نہ ہو جائیں۔
غزوہ خیبر محرم 7ھ (مئی 628ء) میں مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان یہ جنگ ہوئی جس میں مسلمان فتح یاب ہوئے۔ خیبر یہودیوں کا مرکز تھا جو مدینہ سے 150 کلومیٹر عرب کے شمال مغرب میں تھا جہاں سے وہ دوسرے یہودی قبائل کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے رہتے تھے۔ چنانچہ مسلمانوں نے اس مسئلہ کو ختم کرنے کے لیے یہ جنگ شروع کی۔
سعد بن ابی وقاص فاتح ایران کے تعلق قریش کے قبیلہ بنو زہرہ سے تھا جو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ننھیالی خاندان ہے اس لیے آپ رشتے میں حضور کے ماموں زاد بھائی تھے۔ حمزہ بن عبدالمطلب کی والدہ آپ کی سگی پھوپھی تھیں۔ ہجرت مدینہ سے تیس برس پہلے پیدا ہوئے۔ نزول وحی کے ساتویں روز ابوبکرصدیق کے ترغیب دلانے پر مشرف با اسلام ہوئے۔ اور عمر بھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے محافظ خصوصی کے فرائض انجام دیے۔
سلمان فارسی (فارسی : سلمان پارسی، عربی : سلمان الفارسی ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مشہور اصحاب میں سے تھے۔ ابتدائی طور پر ان کا تعلق زرتشتی مذ ہب سے تھا مگر حق کی تلاش ان کو اسلام کے دامن تک لے آئی۔ آپ کئی زبانیں جانتے تھے اور مختلف مذاہب کا علم رکھتے تھے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بارے میں مختلف مذاہب کی پیشینگوئیوں کی وجہ سے وہ اس انتظار میں تھے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ظہور ہو اور وہ حق کو اختیار کر سکیں۔
مغلیہ سلطنت 1526ء سے 1857ء تک برصغیر پر حکومت کرنے والی ایک مسلم سلطنت تھی جس کی بنیاد ظہیر الدین بابر نے 1526ء میں پہلی جنگ پانی پت میں دہلی سلطنت کے آخری سلطان ابراہیم لودھی کو شکست دے کر رکھی تھی۔ مغلیہ سلطنت اپنے عروج میں تقریباً پورے برصغیر پر حکومت کرتی تھی، یعنی موجودہ دور کے افغانستان، پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے ممالک پر مشتمل خطے پر انکا دور دورہ تھا۔-
میر تقی میر (پیدائش: 28 مئی 1723ء— وفات: 22 ستمبر 1810ء) اصل نام میر محمد تقى اردو كے عظیم شاعر تھے۔ میر ان کا تخلص تھا۔ اردو شاعرى ميں مير تقى مير كا مقام بہت اونچا ہے ـ انہیں ناقدین و شعرائے متاخرین نے خدائے سخن کے خطاب سے نوازا۔ وہ اپنے زمانے كے ايك منفرد شاعر تھےـ۔ آپ كے متعلق اردو كے عظیم الشان شاعرمرزا غالب نے لکھا ہے۔
ثقافت () ایک اصطلاح ہے جو انسانی معاشروں میں پائے جانے والے سماجی رویے اور اصولوں کے ساتھ ساتھ ان گروہوں کے افراد کے علم ، عقائد ، فنون ، قوانین ، رسم و رواج ، صلاحیتوں اور عادات پر مشتمل ہے۔عربی لفظ جس سے مراد کسی قوم یا طبقے کی تہذیب ہے۔ علما نے اس کی یہ تعریف مقرر کی ہے، ’’ثقافت اکتسابی یا ارادی یا شعوری طرز عمل کا نام ہے‘‘۔ اکتسابی طرز عمل میں ہماری وہ تمام عادات، افعال، خیالات اور رسوم اور اقدار شامل ہیں جن کو ہم ایک منظم معاشرے یا خاندان کے رکن کی حیثیت سے عزیز رکھتے ہیں یا ان پرعمل کرتے ہیں یا ان پر عمل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ تاہم ثقافت یا کلچر کی کوئی جامع و مانع تعریف آج تک نہیں ہو سکی۔
خلافت راشدہ کے خاتمے کے بعد عربوں کی قائم کردہ دو عظیم ترین سلطنتوں میں سے دوسری سلطنت خلافت عباسیہ ہے۔خاندان عباسیہ کے دو بھائیوں السفاح اور ابو جعفر المنصور نے خلافت قائم کی جس کا قیام 750ء (132ھ) میں عمل میں آیا اور 1258ء (656ھ) میں اس کا خاتمہ ہو گیا۔ یہ خلافت ایک تحریک کے ذریعے قائم ہوئی جو بنو امیہ کے خلاف تھی۔ تحریک نے ایک عرصے تک اپنے مقاصد کے حصول کے لیے جدوجہد کی اور بالآخر بنو امیہ کو شکست دینے کے بعد بر سر اقتدار آگئی۔
اردو ادب کی دو اصناف ہیں، اردو نثر اور اردو نظم یعنی اردو شاعری۔ پھر اردو شاعری کی کئی قسمیں ہیں جن میں نظم، غزل، مثنوی، قصیدہ، مرثیہ، رباعی، مخمس، مسدس، مثمن، قطعہ، نعت وغیرہ شامل ہیں۔ ان میں سب سے مشہور صنف غزل ہے جسے ہر خاص و عام نے قبول کیا اور سراہا ہے مگر اردو شاعری کی سب سے وسیع قسم اردو نظم ہے۔ اردو نظم میں بہت زیادہ تجربے کیے گئے ہیں اور یہی اس کی وسعت کی دلیل ہے۔ نظیر اکبر آبادی، الطاف حسین حالی، اکبر الہ آبادی اور اقبال، جوش ملیح آبادی، ساحر لدھیانوی، فیض احمد فیض، علی سردار جعفری، ن م راشد، اسماعیل میرٹھی، نظم طباطبائی نظم کے بڑے شاعروں میں سے ہیں۔ اردو میں نظم کی صنف انیسویں صدی کی آخری دہائیوں کے دوران میں انگریزی کے اثر سے پیدا ہوئی جو دھیرے دھیرے پوری طرح قائم ہو گئی۔ نظم بحر اور قافیے میں بھی ہوتی ہے اور اس کے بغیر بھی۔ اب نثری نظم بھی اردو میں مستحکم ہو گئی ہے۔نثری نظم کے حوالے سے میراں جی.ن م راشد . ہوتے ہوئے احمد ہمیش سے ہوتے ہوئےجواز جعفری تک سلسلہ آتا ہے۔لیکن ایک اور بات ...! اس سارے سلسلے میں ڈاکٹر وحید احمد آج بھی نمایا ہیں..