اردو ویکیپیڈیا کے سب سے زیادہ ملاحظہ کردہ مضامین کی فہرست۔ مزید معلومات کے لیے ۔ ۔ ۔
یومِ دفاع ہر سال 6 ستمبر کو پاکستان میں بطور ایک قومی دن منایا جاتا ہے۔ یہ دن پاک بھارت جنگ 1965ء میں افواج کی دفاعی کارکردگی اور قربانیوں کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ء اس کا مقصد پاکستان کے دفاع اور عسکری طاقت کو مضبوط کرنے کی یاددہانی ہے تا کہ ہر آنے والے دن میں کسی بھی حملے سے بطریق ءاحسن نمٹا جا سکے اس دن سکول کالجز اور جامعات کے علاوہ سرکاری دفاتر میں6ستمبر 1965کی پاک بھارت جنگ کے شہداء اور غازیوں کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے اور بھارت کے اس حملے کی پسپائی کا تذکرہ کیا جاتا ہے جس میں اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا، ہر پاکستانی اپنی فوج کے دفاع پر فخر کرتا ہے اور یقین رکھتا ہے کہ پاک فوج ہر محاذ پر سرخرو ہے، 6ستمبر 1965ء کا دن عسکری اعتبار سے تاریخ عالم میں کبھی نہ بھولنے والا قابلِ فخردن ہے جب کئی گنا بڑے ملک نے افرادی تعداد میں کئی گنا زیادہ لشکر اور دفاعی وسائل کے ساتھ اپنے چھوٹے سے پڑوسی ملک پر کسی اعلان کے بغیر رات کے اندھیرے میں فوجی حملہ کر دیا۔ اس چھوٹے مگر غیور اور متحد ملک نے اپنے دشمن کے جنگی حملہ کا اس پامردی اور جانثاری سے مقابلہ کیا کہ دشمن کے سارے عزائم خاک میں مل گئے۔ بین الاقوامی سطح پر بھی اسے شرمندگی اٹھانا پڑی۔ جارحیت کرنے والا وہ بڑا ملک ہندوستان اور غیور و متحد چھوٹا ملک پاکستان ہے 1965ء کی ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ہونے والی اس جنگ میں ثابت ہوا کہ جنگیں ریاستی عوام اور فوج متحد ہو کر ہی لڑتی اور جیت سکتی ہیں۔ پاکستانی قوم نے اپنے ملک سے محبت اور مسلح افواج کی پیشہ وارانہ مہارت اورجانثاری کے جرأت مندانہ جذبے نے ملکر نا ممکن کو ممکن بنا کر دکھایا، پاکستان پر1965ء میں ہندوستان کی طرف سے جنگ کا تھوپا جانا پاکستانی قوم کے ریاستی نصب العین دوقومی نظریہ،قومی اتحاد اور حب الوطنی کو بہت بڑا چیلنج تھا۔ جسے جری قوم نے کمال و قار اور بے مثال جذبہ حریت سے قبول کیا اور لازوال قربانیوں کی مثال پیش کر کے زندہ قوم ہونے کاثبوت دیا۔ دوران جنگ ہر پاکستانی کو ایک ہی فکر تھی کہ اُسے دشمن کا سامنا کرنا اور کامیابی پانا ہے۔جنگ کے دوران نہ تو جوانوں کی نظریں دشمن کی نفری اور عسکریت طاقت پر تھی اور نہ پاکستانی عوام کا دشمن کو شکت دینے کے سوا کوئی اورمقصد تھا۔ تمام پاکستانی میدان جنگ میں کود پڑے تھے۔اساتذہ، طلبہ، شاعر، ادیب، فنکار، گلوکار ، ڈاکٹرز، سول ڈیفنس کے رضا کار ،مزدور،کسان اور ذرائع ابلاغ سب کی ایک ہی دھن اور آواز تھی کہ’’ اے مرد مجاہد جاگ ذرا اب وقت شہادت ہے آیا‘‘ستمبر 1965ء کی جنگ کا ہمہ پہلو جائز لینے سے ایک حقیقی اور گہری خوشی محسوس ہوتی ہے کہ وسائل نہ ہونے کے باوجود اتنے بڑے اور ہر لحاظ سے مضبوط ہندوستان کے مقابلے میں چھوٹے سے پاکستان نے وہ کون سا عنصر اورجذبہ تھا، جس نے پوری قوم کو ایک سیسہ پلائی ہوئی نا قابل عبور دیوار میں بدل دیا تھا۔ مثلاً ہندوستان اور پاکستان کی مشترکہ سرحد’’رن آف کچھ‘‘ پر طے شدہ قضیہ کو ہندوستان نے بلا جواز زندہ کیا فوجی تصادم کے نتیجہ میں ہزیمت اٹھائی تو یہ اعلان کر دیا کہ آئندہ ہندوستان پاکستان کے ساتھ جنگ کے لیے اپنی پسند کا محاذ منتخب کرے گا اس کے باوجود پاکستان نے ہندوستان سے ملحقہ سرحدوں پر کوئی جارحانہ اقدام نہ کیے تھے۔ صرف اپنی مسلح افواج کومعمول سے زیادہ الرٹ کررکھا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ چھ ستمبر کی صبح جب ہندوستان نے حملہ کیا تو آناً فاناً ساری قوم، فوجی جوان اور افسر سارے سرکاری ملازمین جاگ کر اپنے اپنے فرائض کی ادائیگی میں مصروف گئے۔ صدر مملکت فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے ایمان فروز اور جذبۂ مرد حجاہد سے لبریزقوم سے خطاب کی وجہ سے ملک اللہ اکبر پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونج اُٹھا۔فیلڈ مارشل ایوب خان کے اس جملے’’پاکستانیو!
ابو بکر صدیق عبد اللہ بن ابو قحافہ تیمی قریشی (پیدائش: 573ء— وفات: 22 اگست 634ء) پہلے خلیفہ راشد، عشرہ مبشرہ میں شامل، حضرت محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ و آلِہٖ وَسَلَّمَ کے وزیر، صحابی و خسر اور ہجرت مدینہ کے وقت رفیق سفر تھے۔ اہل سنت و الجماعت کے یہاں ابوبکر صدیق انبیا اور رسولوں کے بعد انسانوں میں سب سے بہتر، صحابہ میں ایمان و زہد کے لحاظ سے سب سے برتر اور ام المومنین عائشہ بنت ابی بکر کے بعد پیغمبر اسلام کے محبوب تر تھے۔ عموماً ان کی کنیت "ابو بکر" کے ساتھ صدیق کا لقب لگایا جاتا جسے ابو بکر صدیق کی تصدیق و تائید کی بنا پر پیغمبر اسلام نے دیا تھا۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان جنوبی ایشیا کے شمال مغرب وسطی ایشیا اور مغربی ایشیا کے لیے دفاعی طور پر اہم حصے میں واقع ایک خود مختار اسلامی ملک ہے۔ 21 کروڑ کی آبادی کے ساتھ یہ دنیا کا پانچواں بڑی آبادی والا ملک ہے۔ 881,913 مربع کلومیٹر (340,509 مربع میل) کے ساتھ یہ دنیا کا تینتیسواں بڑے رقبے والا ملک ہے۔ اس کے جنوب میں 1046 کلومیٹر (650 میل) کی ساحلی پٹی ہے جو بحیرہ عرب سے ملتی ہے۔پاکستان کے مشرق ميں بھارت، شمال مشرق ميں چین اور مغرب ميں افغانستان اور ايران واقع ہيں۔ پاکستان کو شمال میں ایک تنگ واخان راہداری تاجکستان سے جدا کرتی ہے جبکہ اس ملک کی سمندری سرحدی حدود عمان کے سمندری حدود سے بھی ملتی ہیں۔ موجودہ پاکستان کے علاقے قدیم ترین دنیا میں وہ علاقے تھے جن میں موہنجوداڑو اور انڈس سولائیزیشن مہر گڑھ ٹیکسلا پراچین سنسکرت دور اور دیگر زیرتحقیق آرک لوجیکل سائٹسٹ جیسے قندھارا تہذیب و تمدن تھی۔ اس علاقے پر پراچین راجپوت ایرانی یونانیعرب،بدھ مت، سکھ، مغل، ہن سفید اور ترک حملہ آوروں کی حکومت بھی رہی ہے۔ یہ علاقہ مختلف سلطنتوں جیسے چندر گپت موریا، ہخامنشی سلطنت عربوں کی خلافت امویہ، مغول سلطنت، مغلیہ سلطنت، درانی سلطنت، سکھ سلطنت اور برطانوی راج کا اہم حصہ رہا ہے۔ اس کے بعد محمد علی جناح کی قیادت میں تحریک پاکستان کامیاب ہوئی اور 14 اگست 1947ء کو ہندوستان کے مشرق اور مغرب میں دو حصوں میں ایک آزاد اور خودمختار اسلامی ریاست قائم ہوئی۔ پاکستان نے 1956ء میں اپنا پہلا قانون اپنایا۔ 1971ء میں ایک خانہ جنگی کے دوران میں اس کا مشرقی حصہ الگ ہو کر ایک نیا ملک بنگلہ دیش بن گیا۔ پاکستان وفاقی پارلیمانی جمہوری ریاست کے تحت چلتا ہے۔ اس کے چار صوبے اور کچھ وفاقی حکومت کے زیر انتظام علاقے ہیں۔ یہ ملک لسانی اور قومی طور پر مختلف اقوام کا علاقہ ہے اور اس کا جغرافیہ بھی ہر طرح کے خطے پر مشتمل ہے۔ پاکستان دنیا کا ایک اہم طاقتور ملک ہے، جیسا کہ اس کی فوج دنیا کی چھویں بڑی فوج ہے اور یہ اسلامی دنیا کی واحد اور جنوبی ایشیا کی دوسری ایٹمی طاقت ہے۔ اس کی معیشت دنیا میں 27 ویں نمبر پر ہے۔ پاکستان کی تاریخ فوجی آمریت، سیاسی عدم استحکام اور پڑوسی ملک سےجھگڑوں پر مشتمل ہے۔ یہ ملک مؤتمر عالم اسلامی، اقوام متحدہ، دولت مشترکہ ممالک، سارک، ترقی پذیر 8، اقتصادی تعاون تنظیم جیسی تنظیموں کا اہم رکن ہے۔ ان سرزمین اور ممالک کے ناموں میں، جس میں لاحقہ "ستان" شامل ہے، پاکستان کا لفظ سب سے نیا ہے اور کردستان سب سے پرانا نام ہے۔ پاکستان کے مطلب پاک نفسوں کی سرزمین ہے.
ہر سال 5 ستمبر کا دن بھارت کے لیے خصوصیت کا حامل ہے۔ اسی دن ملک کے دوسرے صدر جمہوریہ اور ماہرِ تعلیم ڈاکٹر سروے پلی رادھا کرشنن کی پیدائش ہوئی تھی۔ اسی کے مد نظر اس دن کو پورے ملک میں ’’یوم اساتذہ‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ پورے ملک میں اس سلسلے میں تقریبات کے انعقاد ہوتے ہیں۔ طلبہ اس دن اساتذہ کو گلدستے اور تحائف پیش کرتے ہیں جبکہ ریاستی اور مرکزی حکومتوں کی جانب سے عمدہ خدمات انجام دینے والے اساتذہ کو خصوصی انعامات دیے جاتے ہیں۔
ابو القاسم محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب (12 ربیع الاول عام الفیل / 8 جون 570ء یا 571ء – 12 ربیع الاول 10ھ / 8 جون 632ء) مسلمانوں کے آخری نبی ہیں۔ اہل اسلام کے نزدیک محمد تمام مذاہب کے پیشواؤں سے کامیاب ترین پیشوا تھے۔ آپ کی کنیت ابوالقاسم تھی۔ مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ کی طرف سے انسانیت کی جانب بھیجے جانے والے انبیا اکرام کے سلسلے کے آخری نبی ہیں جن کو اللہ نے اپنے دین کی درست شکل انسانوں کی جانب آخری بار پہنچانے کیلئے دنیا میں بھیجا۔ انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دنیا کی تمام مذہبی شخصیات میں سب سے کامیاب شخصیت تھے۔ 570ء (بعض روایات میں 571ء) مکہ میں پیدا ہونے والے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر قرآن کی پہلی آیت چالیس برس کی عمرمیں نازل ہوئی۔ ان کا وصال تریسٹھ (63) سال کی عمر میں 632ء میں مدینہ میں ہوا، مکہ اور مدینہ دونوں شہر آج کے سعودی عرب میں حجاز کا حصہ ہیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف کے والد کا انتقال ان کی دنیا میں آمد سے قریبا چھ ماہ قبل ہو گیا تھا اور جب ان کی عمر چھ سال تھی تو ان کی والدہ حضرت آمنہ بھی اس دنیا سے رحلت فرما گئیں۔ عربی زبان میں لفظ "محمد" کے معنی ہیں 'جس کی تعریف کی گئی'۔ یہ لفظ اپنی اصل حمد سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے تعریف کرنا۔ یہ نام ان کے دادا حضرت عبدالمطلب نے رکھا تھا۔ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو رسول، خاتم النبیین، حضور اکرم، رحمت للعالمین اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے القابات سے بھی پکارا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی آپ کے بہت نام و القاب ہیں۔ نبوت کے اظہار سے قبل حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے چچا حضرت ابوطالب کے ساتھ تجارت میں ہاتھ بٹانا شروع کر دیا۔ اپنی سچائی، دیانت داری اور شفاف کردار کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عرب قبائل میں صادق اور امین کے القاب سے پہچانے جانے لگے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنا کثیر وقت مکہ سے باہر واقع ایک غار میں جا کر عبادت میں صرف کرتے تھے اس غار کو غار حرا کہا جاتا ہے۔ یہاں پر 610ء میں ایک روز حضرت جبرائیل علیہ السلام (فرشتہ) ظاہر ہوئے اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اللہ کا پیغام دیا۔ جبرائیل علیہ السلام نے اللہ کی جانب سے جو پہلا پیغام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پہنچایا وہ یہ ہے۔
افغانستان وسط ایشیا اور جنوبی ایشیا میں واقع ایک زمین بند ملک ہے۔ (دری/پشتو: افغانستان[avɣɒnesˈtɒn])،اس کے جنوب اور مشرق میں پاکستان، مغرب میں ایران، شمال مشرق میں چین، شمال میں ترکمانستان، ازبکستان اور تاجکستان ہیں۔ اردگرد کے تمام ممالک سے افغانستان کے تاریخی، مذہبی اور ثقافتی تعلق بہت گہرا ہے۔ اس کے بیشتر لوگ مسلمان ہیں۔ یہ ملک بالترتیب ایرانیوں، یونانیوں، عربوں، ترکوں، منگولوں، انگریزوں، روسیوں اور امریکہ کے قبضے میں رہا ہے۔ مگر اس کے لوگ بیرونی قبضہ کے خلاف ہمیشہ مزاحمت کرتے رہے ہیں۔ ایک ملک کے طور پر اٹھارویں صدی کے وسط میں احمد شاہ ابدالی کے دور میں یہ ابھرا اگرچہ بعد میں درانی سلطنت کے کافی حصے اردگرد کے ممالک کے حصے بن گئے۔ افغانستان 15 اگست 2021 کو نیٹو کی تسلیم شدہ حکومت (اسلامی جمہوریہ افغانستان) کے خاتمے کے بعد اب درحقیقت امارت اسلامیہ افغانستان کے زیر انتظام ہے۔
ابو حفص عمر بن خطاب عدوی قریشی جن کا لقب فاروق ہے۔ (پیدائش: 586ء تا 590ء کے درمیان مکہ میں- وفات: 6 نومبر، 644ء مدینہ میں) ابوبکر صدیق کے بعد مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ راشد، محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سسر اور تاریخ اسلام کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک ہیں۔ عمر بن خطاب عشرہ مبشرہ میں سے ہیں، ان کا شمار علما و زاہدین صحابہ میں ہوتا تھا۔ ابوبکر صدیق کی وفات کے بعد 23 اگست سنہ 634ء مطابق 22 جمادی الثانی سنہ 13ھ کو مسند خلافت سنبھالی۔ عمر بن خطاب ایک باعظمت، انصاف پسند اور عادل حکمران مشہور ہیں، ان کی عدالت میں مسلم و غیر مسلم دونوں کو یکساں انصاف ملا کرتا تھا، عمر بن خطاب کا یہ عدل و انصاف انتہائی مشہور ہوا اور ان کے لقب فاروق کی دیگر وجوہ تسمیہ میں ایک وجہ یہ بھی بنی۔ آپ رضی اللہ عنہ کا نسب نویں پشت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے جا ملتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نویں پشت میں کعب کے دو بیٹے ہیں مرہ اور عدی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مرہ کی اولاد میں سے ہیں، جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ عدی کی اولاد میں سے ہیں۔
ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال (ولادت: 9 نومبر 1877ء - وفات: 21 اپریل 1938ء) بیسویں صدی کے ایک معروف شاعر، مصنف، قانون دان، سیاستدان اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھے۔ اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے اور یہی ان کی بنیادی وجہ شہرت ہے۔ شاعری میں بنیادی رجحان تصوف اور احیائے امت اسلام کی طرف تھا۔ "دا ریکنسٹرکشن آف ریلیجس تھاٹ ان اسلام" کے نام سے انگریزی میں ایک نثری کتاب بھی تحریر کی۔ علامہ اقبال کو دور جدید کا صوفی سمجھا جاتا ہے۔[حوالہ درکار] بحیثیت سیاست دان ان کا سب سے نمایاں کارنامہ نظریۂ پاکستان کی تشکیل ہے، جو انہوں نے 1930ء میں الہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پیش کیا تھا۔ یہی نظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا۔ اسی وجہ سے علامہ اقبال کو پاکستان کا نظریاتی باپ سمجھا جاتا ہے۔ گو کہ انہوں نے اس نئے ملک کے قیام کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن انہیں پاکستان کے قومی شاعر کی حیثیت حاصل ہے۔
قرآن، قرآن مجید یا قرآن شریف (عربی: القرآن الكريم) دین اسلام کی مقدس و مرکزی کتاب ہے جس کے متعلق اسلام کے پیروکاروں کا اعتقاد ہے کہ وہ کلام الہی ہے اور اسی بنا پر یہ انتہائی محترم و قابل عظمت کتاب ہے۔ اسے پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی کے ذریعے اتارا گیا۔ یہ وحی اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتے حضرت جبرائیل علیہ السلام لاتے تھے جیسے جیسے قرآن مجید کی آیات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوتیں آپ صلی علیہ وآلہ وسلم اسے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو سنا اور ان آیات کے مطالب و معانی سمجھا دیتے۔ کچھ صحابہ کرام تو ان آیات کو وہیں یاد کر لیتے اور کچھ لکھ کر محفوظ کر لیتے۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن ہر قسم کی تحریف سے پاک سے محفوظ ہے، قرآن میں آج تک کوئی کمی بیشی نہیں ہو سکی اور اسے دنیا کی واحد محفوظ کتاب ہونے کی حیثیت حاصل ہے، جس کا حقیقی مفہوم تبدیل نہیں ہو سکا اور تمام دنیا میں کروڑوں کی تعداد میں چھپنے کے باوجود اس کا متن ایک جیسا ہے اور اس کی تلاوت عبادت ہے۔ نیز صحف ابراہیم، زبور اور تورات و انجیل کے بعد آسمانی کتابوں میں یہ سب سے آخری کتاب ہے اور سابقہ آسمانی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اب اس کے بعد کوئی آسمانی کتاب نازل نہیں ہوگی۔ قرآن کی فصاحت و بلاغت کے پیش نظر اسے لغوی و مذہبی لحاظ سے تمام عربی کتابوں میں اعلیٰ ترین مقام دیا گیا ہے۔ نیز عربی زبان و ادب اور اس کے نحوی و صرفی قواعد کی وحدت و ارتقا میں بھی قرآن کا خاصا اہم کردار دکھائی دیتا ہے۔ چنانچہ قرآن کے وضع کردہ عربی زبان کے قواعد بلند پایہ عرب محققین اور علمائے لغت مثلاً سیبویہ، ابو الاسود الدؤلی اور خلیل بن احمد فراہیدی وغیرہ کے یہاں بنیادی ماخذ سمجھے گئے ہیں۔
حسین بن علی بن ابی طالب ( عربی: ٱلْحُسَيْن ٱبْن عَلِيّ 10 جنوری 626 - 10 اکتوبر 680) نبی اسلام محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نواسے اور علی ابن ابی طالب اور محمد کی بیٹی فاطمہ زہرا کے بیٹے تھے۔ وہ اسلام میں ایک اہم شخصیت ہیں کیوںکہ وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ( اہل بیت ) اور اہل کسا کے علاوہ تیسرے شیعہ امام بھی تھے۔
عالمی یوم اساتذہ دنیا کے کئی ممالک میں "اساتذہ کا عالمی دن" یا "ورلڈ ٹیچرزڈے" ہرسال 5 اکتوبر کو منایا جاتا ہے۔ یوم اساتذہ منانے کا مقصد معاشرے میں اساتذہ کے اہم کردار کو اجاگرکرنا ہے۔ اس دن کی مناسبت سے دنیا بھرمیں کئی سیمینارز، کانفرنسیں اورتقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ 2009ء میں عالمی یوم اساتذہ کے حوالے سے یہ ہدف مقرر کیا گیا ہے کہ 2015ء تک دنیابھر میں تعلیم کو عام کیا جائے گااور بلند معیار تعلیم کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا۔ اس عظیم مقصد کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ معاشرے میں پیشہ ور اساتذہ کو ان کا جائز مقام ملے اورانہیں دورجدید میں نظام تعلیم میں ہونے والی تبدیلیوں سے وقتًا فوقتًا باخبر کیا جائے۔
امیر معاویہ یا معاویہ اول (عربی: معاوية بن أبي سفيان، 597ء، 603ء یا 605ء – اپریل 680ء) اموی خلافت کے بانی تھے اور 661ء سے اپنی وفات 680ء تک خلیفہ رہے۔ وہ نبی محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے 30 سال بعد خلیفہ بن گئے، ان سے قبل خلفائے راشدین اور حسن ابن علی خلیفہ رہے۔ اگرچہ ان کے دور میں انفاص و تقوی کو دور خلفائے راشدین کے مقابلے میں کمتر سمجھا جاتا ہے، لیکن نمو پزیر اسلام میں امیر معاویہ پہلے مسلمان خلیفہ ہیں جن کا نام سرکاری دستاویزات، سکوں اور کتبوں پر کندہ ہوا۔ امیر معاویہ کاتبین وحی میں سے تھے۔
نعمان ابن ثابت بن زوطا بن مرزبان (پیدائش: 5 ستمبر 699ء– وفات: 14 جون 767ء) (فارسی: ابوحنیفه،عربی: نعمان بن ثابت بن زوطا بن مرزبان)، عام طور پر آپکو امام ابو حنیفہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ آپ سنی حنفی فقہ (اسلامی فقہ) کے بانی تھے۔ آپ ایک تابعی، مسلمان عالم دین، مجتہد، فقیہ اور اسلامی قانون کے اولین تدوین کرنے والوں میں شامل تھے۔ آپ کے ماننے والوں کو حنفی کہا جاتا ہے۔ زیدی شیعہ مسلمانوں کی طرف سے بھی آ پ کو ایک معروف اسلامی عالم دین اور شخصیت تصور کیا جا تا ہے۔ انہیں عام طور پر "امام اعظم" کہا جاتا ہے۔
علی بن حسین (پیدائش: 4 جنوری 659ء — وفات: 20 اکتوبر 713ء) جو زین العابدین (عابدوں کی زینت) اور امام الساجدین (سجدہ کرنے والوں کا امام) کے نام سے مشہور ہیں، اپنے والد حسین ابن علی، تایا حسن ابن علی اور دادا علی بن ابی طالب کے بعد اثنا عشری میں چوتھے امام اور اسماعیلی شیعیت میں تیسرے امام مانے جاتے ہیں۔ علی بن حسین سانحۂ کربلا میں موجود تھے، اس وقت ان کی عمر 23 یا 25 سال تھی، لیکن بیماری کی وجہ سے لڑائی میں شریک نہ ہو سکے۔ یہ اس سانحے میں بچ جانے والے واحد مرد تھے۔ ان کو دمشق میں یزید کے سامنے لے جایا گیا، کچد دن بعد ان کو دیگر خواتین کے ساتھ واپس مدینہ جانے دیا گیا، جہاں انھوں نے چند اصحاب کے ساتھ خاموشی سے زندگی بسر کی۔ ان کی زندگی اور بیانات مکمل طور پر طہارت اور مذہبی تعلیمات کے لیے وقف تھے، جو زیادہ تر دعاؤں اور التجاؤں کی شکل میں ہوتے۔ ان کی مشہور مناجات صحیفہ سجادیہ کے نام سے معروف ہے۔علی بن حسین بن علی بن ابیطالب (38-95ھ) جو امام سجاد اور زین العابدین کے نام سے مشہور ہیں، اہل تشیع کے چوتھے اماماسماعیلی شیعیت کے تیسرے امام اور امام حسین علیہ السلام کے فرزند ہیں۔ آپ 35 سال امامت کے عہدے پر فائز رہے۔ امام سجادؑ واقعہ کربلا میں حاضر تھے لیکن بیماری کی وجہ سے جنگ میں حصہ نہیں لیا۔ امام حسینؑ کی شہادت کے بعد عمر بن سعد کے سپاہیوں نے آپ کو اسیران کربلا کے ساتھ کوفہ اور شام لے گیا۔ کوفہ اور شام میں آپ کے دئے گئے خطبات کے باعث لوگ اہل بیت کے مقام و منزلت سے زیادہ آگاہ ہوئے۔
سید علی شاہ گیلانی(29 ستمبر 1929ء – 1 ستمبر 2021ء)، جموں و کشمیر کے سیاسی رہنما تھے، کا تعلق ضلع بارہ مولہ کے قصبے سوپور سے تھا۔ وہ کشمیر کے پاکستان سے الحاق کے حامی تھے۔بزرگ حریت رہنما سید علی گیلانی جماعت اسلامی جموں و کشمیر کے رکن رہے ہیں جبکہ انہوں نے جدوجہد آزادی کے لیے ایک الگ جماعت "تحریک حریت" بھی بنائی تھی جو کل جماعتی حریت کانفرنس کا حصہ ہے۔ بزرگ حریت رہنما سید علی گیلانی معروف عالمی مسلم فورم "رابطہ عالم اسلامی" کے بھی رکن تھے۔ حریت رہنما یہ رکنیت حاصل کرنے والے پہلے کشمیری حریت رہنما ہیں۔ ان سے قبل سید ابو الاعلیٰ مودودی اور سید ابو الحسن علی ندوی جیسی شخصیات برصغیر سے "رابطہ عالم اسلامی" فورم کی رکن رہ چکی ہیں۔ مجاہد آزادی ہونے کے ساتھ ساتھ وہ علم و ادب سے شغف رکھنے والی شخصیت بھی تھے اور علامہ اقبال کے بہت بڑے مداح تھے۔ انھوں نے اپنے دور اسیری کی یادداشتیں ایک کتاب کی صورت میں تحریر کیں جس کا نام "روداد قفس" ہے۔ اسی وجہ سے انہوں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ بھارتی جیلوں میں گزارا۔
سانحۂ کربلا یا واقعہ کربلا یا کربلا کی جنگ 10 محرم 61ھ (بمطابق 9 یا 10 اکتوبر، 680ء) کو موجودہ عراق میں کربلا کے مقام پر پیش آیا۔ یہ جنگ نواسہ رسول حضرت امام حسین ابن علی، ان کے حامیوں اور رشتہ داروں کے ایک چھوٹے سے گروہ، حسین ابن علیؓ کے ساتھ 72 ساتھی، کچھ غلام، 22 اہل بیت کے جوان اور خاندان نبوی کی کچھ خواتین و بچے شامل تھے اور اموی ظالم حکمران یزید اول کی ایک بڑی فوج کے مابین ہوئی۔جس کو حسین نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔جس میں اموی خلیفہ یزید اول کی فوج نے پیغمبر اسلام محمد کے نواسے حسین ابن علی اور ان کے رفقا کو لڑائی میں شہید کیا، حرم حسین کے خیموں کو لوٹ لیا گیا اور بالآخر آگ لگا دی گئی۔ عمر بن سعد کی فوج نے کربلا کے صحرا میں مقتولین کی لاشیں چھوڑ دیں۔ بنی اسد کے لوگوں نے لاشوں کو تین دن بعد دفن کیا۔ واقعہ کربلا کے بعد، حسین ابن علی کی فوج سے وابستہ متعدد خواتین اور بچوں کو گرفتار کر کے قید کر دیا گیا، بازار اور ہجوم والے مقامات سے گزر کر ان کی توہین کی گئی اور انہیں یزید ابن معاویہ کے دربار شام بھیج دیا گیا تھا۔ جنگ میں شہادت کے بعد حضرت امام حسین کو سید الشہدا کے لقب سے پکارا جاتا ہے۔
اللہ کے ذاتی نام 'اللہ' کے علاوہ اللہ کے ننانوے صفاتی نام مشہور ہیں۔ انہیں کہا جاتا ہے۔ ان میں سے بیشتر قرآن میں موجود ہیں اگرچہ قرآن میں ننانوے کی تعداد مذکور نہیں مگر یہ ارشاد ہے کہ اللہ کو اچھے اچھے ناموں سے پکارا جائے۔ روایات میں بکثرت نیچے دیے گئے ننانوے صفاتی نام ملتے ہیں جن کے ساتھ ان کا اردو ترجمہ بھی درج کیا جا رہا ہے۔
پشاور (پشتو: پېښور; ہندکو: پشور; انگریزی: Peshawar) پاکستان کا ایک قدیم شہر اور صوبہ خیبر پختونخوا کا صدر مقام ہے۔ وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں کا انتظامی مرکز بھی یہیں ہے۔ بڑی وادی میں بنا یہ شہر درہ خیبر کے مشرقی سرے پر واقع ہے۔ پاکستان اور افغانستان کی سرحد اس کے پاس ہی ہے۔ وسط ایشیا اور جنوبی ایشیا کی اہم گذرگاہوں پر واقع یہ شہر علاقے کے بڑے شہروں میں سے ایک اور ثقافتی لحاظ سے متنوع ہے۔ پشاور میں آب پاشی کے لیے دریائے کابل اور دریائے کنڑ سے نکلنے والی نہریں گذرتی ہیں۔
ابو عبد اللہ عثمان بن عفان اموی قرشی (47 ق ھ - 35 ھ / 576ء – 656ء) اسلام کے تیسرے خلیفہ، داماد رسول اور جامع قرآن تھے۔ عثمان غنی سابقین اسلام میں شامل اور عشرہ مبشرہ میں سے تھے، ان کی کنیت ذو النورین ہے کیونکہ انھوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دو صاحبزادیوں سے نکاح کیا تھا، پہلے رقیہ بنت محمد سے کیا، پھر ان کی وفات کے بعد ام کلثوم بنت محمد سے نکاح کیا۔ عثمان غنی پہلے صحابی ہیں جنھوں نے سرزمین حبشہ کی ہجرت کی، بعد میں دیگر صحابہ بھی آپ کے پیچھے حبشہ پہنچے۔ بعد ازاں دوسری ہجرت مدینہ منورہ کی جانب کی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عثمان غنی پر مکمل اعتماد اور ان کی فطری حیاء و شرافت اور جو انھوں نے اپنے مال کے ذریعہ اہل ایمان کی نصرت کی تھی، اس کی انتہائی قدر کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیگر صحابہ کے ساتھ ان کو بھی جنت اور شہادت کی موت کی خوش خبری دی۔
یزید بن معاویہ (مکمل نام: یزید بن معاویہ بن ابوسفیان بن حرب بن امیہ الاموی الدمشقی) خلافت امویہ کا دوسرا خلیفہ تھا۔ اس کی ولادت 23 جولائی 645ء کو عثمان بن عفان کی خلافت میں ہوئی۔ اس کی ماں کا نام میسون تھا اور وہ شام کی کلبیہ قبیلہ کی مسیحی خاتون تھی، اس نے معاویہ کے بعد 680ء سے 683ء تک مسند خلافت سنبھالا۔ اس کے دور میں اس کے حکم سےسانحۂ کربلا میں نواسہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، حسین ابن علی شہید کیے گئے۔ حسین بن علی کا سر یزید کے دربار میں لے جایا گیا۔ جبکہ روایات کے مطابق اسی نے ان کی شہادت کا حکم دیا اور عبد اللہ ابن زیاد کو خصوصی طور پر یہ ذمہ داری دی اور جب حسین بن علی کا سر اس کے سامنے آیا تو اس نے خوشی کا اظہار کیا اور ان کے اہل خانہ کو قید میں رکھا۔ اسی دور میں عبد اللہ ابن حنظلہ کی تحریک کو کچلنے کے لیے مدینہ میں قتل عام ہوا اور عبد اللہ ابن زبیر کے خلاف لڑائی میں خانہ کعبہ پر سنگ باری کی گئی۔ یزید نے معاویہ کی وفات کے بعد 30 برس کی عمر میں رجب 60ھ میں مسند خلافت سنبھالی۔ اس کے عہد حکومت میں عقبہ بن نافع کے ہاتھوں مغربی اقصی فتح ہوا اور مسلم بن زیاد نے بخارا اور خوارزم فتح کیا، دمشق میں ایک چھوٹی سی نہر تھی جس کی توسیع یزید نے کی تھی اس لیے اس نہر کو اس کی طرف منسوب کرکے نہر یزید کہا جاتا ہے، کہا جاتا ہے کہ اسی نے سب سے پہلے کعبۃ اللہ کو ریشمی غلاف پہنایا۔
مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق ختم نبوت سے مراد یہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالٰیٰ کے آخری نبی اور آخری رسول ہیں۔ اللہ رب العزت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس جہاں میں بھیج کر بعثت انبیا کا سلسلہ ختم فرما دیا ہے۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ختم نبوت کا ذکر قرآن حکیم کی 100 سے بھی زیادہ آیات میں نہایت ہی جامع انداز میں صراحت کے ساتھ کیا گیا ہے۔
بنو امیہ قریش کا ایک ممتاز اور دولت مند قبیلہ تھا۔ اسی خاندان نے خلافت راشدہ کے بعد تقریباً ایک صدی تک ملوکیت سنبھالی اور اسلامی فتوحات کو بام عروج پر پہنچایا۔ جس کی سرحدیں ایک طرف چین اور دوسری طرف اسپین تک پھیلی ہوئی تھیں۔ البتہ مرکزی خلافت کے خاتمے کے باوجود اس خاندان کا ایک شہزادہ عبدالرحمن الداخل اسپین میں حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوا۔ جہاں 1492ء تک اموی سلطنت قائم رہی۔
امام احمد رضا خان (14 جون 1856ء – 28 اکتوبر 1921ء) بیسویں صدی عیسوی کے مجدد، نامور حنفی فقہیہ، محدث، اصولی، نعت گو شاعر، علوم نقلیہ وعقلیہ کے ماہر، سلسلہ قادریہ کے شیخ، عربی، فارسی اور اردو کی کثیر کتابوں کے مصنف جن میں مشہور ترجمہ قرآن کنزالایمان، فتاوی کا مجموعہ فتاویٰ رضویہ اور نعتیہ دیوان حدائق بخشش مشہور ہیں۔ احمد رضا خان نے شدت سے تقلید اور حنفیت کا دفاع کیا سلسلۂ حدیث میں شاہ ولی اللہ اور عبد الحق محدث دہلوی سے استفادہ کیا اور فقہ میں سند اجازت شیخ عبد الرحمن حنقی مکی سے حاصل کی، جن کا سلسلہ عبد اللہ بن مسعود تک پہنچتا ہے۔ احمد رضا خان نے دو قومی نظریہ کا پرچار کیا اور کسی بھی سطح پر ہندو مسلم اتحاد کو رد کیا، تحریک ترک موالات اور تحریک خلافت میں مسلمانوں کو متنبہ کیا کہ ان تحریکوں میں مسلم ہندو اتحاد کا نعرہ لگایا جا رہا ہے جو شرع حیثیت سے ناجائز ہے۔ عورتوں کی ضروری دینی تعلیم کی سختی سے تلقین کی، عورتوں کے زیارت قبور کے لیے گھر سے نکلنے کے مسئلے پر ممانعت کا فتوی دیا۔کثرت سے فقہی مسائل پر رسائل اور عقائد و اعمال کی اصلاح کے لیے کتابیں تصنیف کیں، ریاضی اور فلکیات کے علاوہ سائنس کے دیگر کئی موضوعات پر علمی اور مذہبی نکتہ نظر سے اپنی آرا پیش کیں۔ بریلی میں منظر اسلام کے نام سے اسلامی جامعہ قائم کی، بریلوی مکتب فکر کو متعارف کروایا، جس کی وجہ شہرت عشق رسول میں شدت اور تصوف کی طرف مائل ہونا ہے۔ احمد رضا خان کو اعلیٰ حضرت، امام اہلسنت اور حسان الہند جیسے القابات سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں ہر سال 25 صفر کو یوم رضا کے نام سے احمد رضا خان کا عرس کیا جاتا ہے۔
سلطنت عثمانیہ (یا خلافت عثمانیہ 1517ء سے 1924ء تک) (عثمانی ترک زبان: "دولت عالیہ عثمانیہ"، ترک زبان: Osmanlı Devleti) سنہ 1299ء سے 1922ء تک قائم رہنے والی ایک مسلم سلطنت تھی جس کے حکمران ترک تھے۔ اپنے عروج کے زمانے میں (16 ویں – 17 ویں صدی) یہ سلطنت تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی اور جنوب مشرقی یورپ، مشرق وسطٰی اور شمالی افریقہ کا بیشتر حصہ اس کے زیر نگیں تھا۔ اس عظیم سلطنت کی سرحدیں مغرب میں آبنائے جبرالٹر، مشرق میں بحیرۂ قزوین اور خلیج فارس اور شمال میں آسٹریا کی سرحدوں، سلوواکیہ اور کریمیا (موجودہ یوکرین) سے جنوب میں سوڈان، صومالیہ اور یمن تک پھیلی ہوئی تھی۔ مالدووا، ٹرانسلوانیا اور ولاچیا کے باجگذار علاقوں کے علاوہ اس کے 29 صوبے تھے۔
سیدہ عائشہ بنت ابی بکر (رضی اللہ عنہا) (پیدائش: 614ء– وفات: 13 جولائی 678ء) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ ہیں۔ آپ کو اُم المومنین کے خطاب سے یاد کیا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد عہد خلفائے راشدین میں آپ کی شخصیت بہت نمایاں نظر آتی ہے۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد 47 سال بقید حیات رہیں اور یہ تمام وہ عرصہ ہے جس میں ابتدائی مسلم فتوحات ہوئیں، مختلف ممالک مملکت اسلامیہ میں داخل ہوئے۔ علم الحدیث میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایات کے بعد سب سے زیادہ روایاتِ حدیث کا ذخیرہ آپ سے ہی روایت کیا گیا ہے۔ آپ عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور عہد خلفائے راشدین کی عینی شاہد بھی تھیں اور مزید برآں آپ نے خلافت امویہ کے ابتدائی 17 سال بھی ملاحظہ فرمائے۔ سنہ 678ء میں آپ کا اِنتقال مدینہ منورہ میں ہوا۔ آپ کے مناقب و فضائل کثیر ہیں جن سے آپ کی عظمت و شان جلالت مسلم خواتین پر نمایاں ہے۔
اردو ادب کی دو اصناف ہیں، اردو نثر اور اردو نظم یعنی اردو شاعری۔ پھر اردو شاعری کی کئی قسمیں ہیں جن میں نظم، غزل، مثنوی، قصیدہ، مرثیہ، رباعی، مخمس، مسدس، مثمن، قطعہ، نعت وغیرہ شامل ہیں۔ ان میں سب سے مشہور صنف غزل ہے جسے ہر خاص و عام نے قبول کیا اور سراہا ہے مگر اردو شاعری کی سب سے وسیع قسم اردو نظم ہے۔ اردو نظم میں بہت زیادہ تجربے کیے گئے ہیں اور یہی اس کی وسعت کی دلیل ہے۔ نظیر اکبر آبادی، الطاف حسین حالی، اکبر الہ آبادی اور اقبال، جوش ملیح آبادی، ساحر لدھیانوی، فیض احمد فیض، علی سردار جعفری، ن م راشد، اسماعیل میرٹھی، نظم طباطبائی نظم کے بڑے شاعروں میں سے ہیں۔ اردو میں نظم کی صنف انیسویں صدی کی آخری دہائیوں کے دوران میں انگریزی کے اثر سے پیدا ہوئی جو دھیرے دھیرے پوری طرح قائم ہو گئی۔ نظم بحر اور قافیے میں بھی ہوتی ہے اور اس کے بغیر بھی۔ اب نثری نظم بھی اردو میں مستحکم ہو گئی ہے۔نثری نظم کے حوالے سے میراں جی.ن م راشد . ہوتے ہوئے احمد ہمیش سے ہوتے ہوئےجواز جعفری تک سلسلہ آتا ہے۔لیکن ایک اور بات ...! اس سارے سلسلے میں ڈاکٹر وحید احمد آج بھی نمایا ہیں..
محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصال کے بعد ابوبکر صدیق، عمر فاروق، عثمان غنی اور علی المرتضی، حسن المجتبی کا عہد خلافت خلافت راشدہ کہلاتا ہے۔ اس عہد کی مجموعی مدت تیس سال ہے جس میں ابوبکر صدیق اولین اور علی آخری خلیفہ ہیں، حسن کی خلافت کے چھ ماہ خلافت علی میں شمار ہوتے ہیں جیسا کہ جمہور اسلاف کی رائے ہے۔ اس عہد کی نمایاں ترین خصوصیت یہ تھی کہ یہ قرآن و سنت کی بنیاد پر قائم نظام حکومت تھا۔
جنگ احد 17 شوال 3ھ (23 مارچ 625ء) میں مسلمانوں اور مشرکینِ مکہ کے درمیان احد کے پہاڑ کے دامن میں ہوئی۔ مشرکین کے لشکر کی قیادت ابوسفیان کے پاس تھی اور اس نے 3000 سے زائد افراد کے ساتھ مسلمانوں پر حملہ کی ٹھانی تھی جس کی باقاعدہ تیاری کی گئی تھی۔ مسلمانوں کی قیادت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کی۔ اس جنگ کے نتیجہ کو کسی کی فتح یا شکست نہیں کہا جا سکتا کیونکہ دونوں طرف شدید نقصان ہوا اور کبھی مسلمان غالب آئے اور کبھی مشرکین لیکن آخر میں مشرکین کا لشکر لڑائی ترک کر کے مکہ واپس چلا گیا۔
2021ء میں ترکی کے جنوبی صوبوں کے جنگلوں میں آگ لگی۔ جنگل کی آگ 28 جولائی 2021ء کو ماناوگات، انطالیہ میں شروع ہوئی، اس وقت درجہ حرارت 37° سنٹی گریڈ (99° F) تھا۔ 30 جولائی 2021ء تک، 17 صوبے بشمول آدانا، عثمانیہ، مرسین اور قیصری بیک وقت جنگل کی آگ سے متاثر ہوئے۔ماناوگات میں جنگل کی آگ کی وجہ سے تین افراد ہلاک ہوئے۔ انطالیہ کے 18 اور آدانا اور مرسین کے 16 دیہات خالی کرائے گئے۔ بودروم کے 2 ہوٹلوں میں ترک کوسٹ گارڈ کی طرف سے نجی کشتیوں کی مدد سے 4000 سے زائد سیاحوں اور عملے کو سمندر کے ذریعے نکالا گیا۔
خلافت راشدہ کے خاتمے کے بعد عربوں کی قائم کردہ دو عظیم ترین سلطنتوں میں سے دوسری سلطنت خلافت عباسیہ ہے۔خاندان عباسیہ کے دو بھائیوں السفاح اور ابو جعفر المنصور نے خلافت قائم کی جس کا قیام 750ء (132ھ) میں عمل میں آیا اور 1258ء (656ھ) میں اس کا خاتمہ ہو گیا۔ یہ خلافت ایک تحریک کے ذریعے قائم ہوئی جو بنو امیہ کے خلاف تھی۔ تحریک نے ایک عرصے تک اپنے مقاصد کے حصول کے لیے جدوجہد کی اور بالآخر بنو امیہ کو شکست دینے کے بعد بر سر اقتدار آگئی۔
صحابہ (عربی: الصحابۃ، "پیروکار") اسلام میں نبی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، کے ان پیرو کاروں کو کہا جاتا ہے جنہوں نے ان کی اپنی حیات میں اسلام قبول کیا اور ان کو کچھ وقت کی صحبت ملی۔ اور اسی ایمان کی حالت میں وہ دنیا سے گئے۔ بعض صحابہ نابینا بھی تھے اور بعض لوگ جنہوں نے اسلام قبول کیا، مگر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دور یا بعد میں پھر مرتد ہوئے اور پھر اسلام قبول کیا (محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیات کے بعد) تو ان کو صحابی نہیں کہا جاتا۔
متضاد مخالف؛ اُلٹ؛ اُلٹی طرف؛ دوسری جانب؛ ضِد؛ مُقابل؛ بِالمقابل؛ متقابل؛ متضاد؛ ایک لفظ جو مفہوم کے لحاظ سے دوسرے کی ضد ہو؛ متضاد المعنی۔ ایسے الفاظ جو مماثل وضع میں لیکن ایک دوسرے کے مخالف، برعکس یا یکسر مختلف ہوں۔ اسے 'بائنری' تعلق سے تعبیر کیا جاتا ہے کیوں کہ متضاد جوڑوں میں دو رکن ہوتے ہیں۔ باہم مخالف تعلق کو متضاد کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ایک جوڑے میں مخالف لفظ کو عام طور پر اس سوال کے ذریعہ طے کیا جا سکتا ہے کہ الف کے برعکس کیا ہے؟ جیسے:
ہجرت مدینہ پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ان کے صحابہ کی طرف سے مکہ مکرمہ سے یثرب (جسے اس ہجرت کے بعد مدینۃ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نام دیا گیا) منتقل ہوجانے کے عمل کو کہتے ہیں جو 12ربیع الاول 13نبوی (جو بعد میں پہلا ہجری سال کہلایا)، بمطابق 24 ستمبر 622ء عیسوی بروز جمعہ کو ہوئی، بعد میں اسی دن کی نسبت سے ہجری تقویم کا آغاز ہوا۔ مسلمانوں نے قمری ہجری تقویم اور شمسی ہجری تقویم دونوں کا آغاز اسی واقعہ کی بنیاد پر کیا۔
حسن بن علی بن ابی طالب (624ء–670ء) علی بن ابی طالب اور محمد کی دختر فاطمہ زہرا کے سب سے بڑے بیٹے اور حسین بن علی کے بڑے بھائی تھے۔ اہل اسلام ان کا پیغمبر اسلام کے پوتے کے طور پر احترام کرتے ہیں۔ سنی مسلمان ان کو پانچواں خلیفہ راشد جبکہ شیعہ مسلمان حسن کو دوسرا امام مانتے ہیں۔ ان کے والد کی وفات کے بعد انہیں خلافت کے لیے منتخب کیا گیا لیکن چھ یا سات ماہ کے بعد معاویہ کے سپرد کر دی اور معاویہ کے دور میں خلافت ملوکیت میں بدل گئی اور وہ دولت امویہ کے بانی قرار پائے، یوں پہلے فتنے کا خاتمہ ہوا۔ حسن غریبوں کو عطیہ کرنے، غریبوں اور غلاموں پر اپنی شفقت اور اپنے علم، تاب آوری اور بہادری کے لیے جانے جاتے تھے۔ اپنی باقی زندگی حسن نے مدینہ منورہ میں ہی گزاری، یہاں تک کہ 45 سال کی عمر میں ان کا انتقال ہو گیا اور مدینہ منورہ کے جنت البقیع قبرستان میں سپرد خاک ہو گئے۔ عموماً ان کی زوجہ جعدہ بنت اشعث پر انہیں زہر دینے کا الزام لگایا جاتا ہے۔
نجم الدولہ، دبیر الملک، مرزا نوشہ اسد اللہ خان غالب بہادر نظام جنگ (1797ء- 1869ء) اردو زبان کے سب سے بڑے شاعروں میں ایک سمجھے جاتے ہیں۔ یہ تسلیم شدہ بات ہے کہ 19 ویں صدی غالب کی صدی ہے۔ جبکہ 18 ویں میر تقی میر کی تھی اور 20 ویں علامہ اقبال کی۔ غالب کی عظمت کا راز صرف ان کی شاعری کے حسن اور بیان کی خوبی ہی میں نہیں ہے۔ ان کا اصل کمال یہ ہے کہ وہ زندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کو گہرائی میں جا کر سمجھتے تھے اور بڑی سادگی سے عام لوگوں کے لیے بیان کر دیتے تھے۔ غالب جس پر آشوب دور میں پیدا ہوئے اس میں انہوں نے مسلمانوں کی ایک عظیم سلطنت کو برباد ہوتے ہوئے اور باہر سے آئی ہوئی انگریز قوم کو ملک کے اقتدار پر چھاتے ہوئے دیکھا۔ غالباً یہی وہ پس منظر ہے جس نے ان کی نظر میں گہرائی اور فکر میں وسعت پیدا کی۔
واحد کا مفہوم (انگریزی: Meaning of Singular) ایک شخص یا ایک چیز کو واحد کہا جاتا ہے۔ یا واحد وہ اسم ہوتا ہے جو ایک شخص یا چیز کو ظاہر کرے۔ مثلاﹰ کتاب، لڑکا، مسجد، استاد، فوج، بلی، شجر، میز، کرسی، وغیرہ۔ جبکہ جمع ایک سے زیادہ شخصوں یا چیزوں کو جمع کہتے ہیں۔ یا جمع وہ اسم ہوتا ہے جو ایک سے زیادہ اشخاص ا اسماء کو ظاہر کرے۔ مثلاً کُتب، لڑکے، مساجد، اساتذہ، افواج، بلیاں، اشجار، میزیں، کرسیاں وغیرہ
خالد بن ولید (عربی: خالد بن ولید بن المغیرۃ المخزومی) حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سپہ سالار اور ابتدائی عرب تاریخ کے بہترین سپاہی تھے۔ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے انتقال کے بعد انہوں نے ریاست مدینہ کے خلاف ہونے والی بغاوتوں کو کچلنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ اس کے بعد خالد بن ولید نے ساسانی اور بازنطینی سلطنتوں کو شکست دیکر نہ صرف مدینہ کی چھوٹی سی ریاست کو ایک عالمی طاقت میں تبدیل کر دیا۔ بلکہ پہلے درجہ کے عالمی فاتحین میں بھی اپنے آپ کو شامل کرالیا۔
شوال۔ ذی القعدہ 5ھ (مارچ 627ء) میں مشرکینِ مکہ نے مسلمانوں سے جنگ کی ٹھانی۔ ابوسفیان نے قریش اور دیگر قبائل حتیٰ کہ یہودیوں سے بھی لوگوں کو جنگ پر راضی کیا اور اس سلسلے میں کئی معاہدے کیے اور ایک بہت بڑی فوج اکٹھی کر لی مگر مسلمانوں نے سلمان فارسی کے مشورہ سے مدینہ کے ارد گرد ایک خندق کھود لی۔ مشرکینِ مکہ ان کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ خندق کھودنے کی عرب میں یہ پہلی مثال تھی کیونکہ اصل میں یہ ایرانیوں کا طریقہ تھا۔ ایک ماہ کے محاصرے اور اپنے بے شمار افراد کے قتل کے بعد مشرکین مایوس ہو کر واپس چلے گئے۔ اسے غزوہ خندق یا جنگِ احزاب کہا جاتا ہے۔ احزاب کا نام اس لیے دیا جاتا ہے کہ اصل میں یہ کئی قبائل کا مجموعہ تھی۔ جیسے آج کل امریکا، برطانیہ وغیرہ کی اتحادی افواج کہلاتی ہیں۔ اس جنگ کا ذکر قرآن میں سورۃ الاحزاب میں ہے۔
میر تقی میر (پیدائش: 28 مئی 1723ء— وفات: 22 ستمبر 1810ء) اصل نام میر محمد تقى اردو كے عظیم شاعر تھے۔ میر ان کا تخلص تھا۔ اردو شاعرى ميں مير تقى مير كا مقام بہت اونچا ہے ـ انہیں ناقدین و شعرائے متاخرین نے خدائے سخن کے خطاب سے نوازا۔ وہ اپنے زمانے كے ايك منفرد شاعر تھےـ۔ آپ كے متعلق اردو كے عظیم الشان شاعرمرزا غالب نے لکھا ہے۔
ابو ایوب انصاری انصار کے سرکردہ صحابی رسول اور میزبان رسول کہلاتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مدینہ منورہ میں داخل ہوئے تو ہر شخص میزبانی کا شرف حاصل کرنے کا خواہش مند تھا۔ لیکن حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا جس جگہ اونٹنی بیٹھے گی۔ وہیں آپ مقیم ہوں گے۔ اونٹنی ابو ایوب انصاری کے دروازے پر بیٹھی۔ ان کا مکان دو منزلہ تھا۔ نبی اکرم نے نیچے قیام فرمایا اور سات ماہ تک یہاں رہے۔
نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ (NDM، این ڈی ایم؛ پشتو: ملي جمهوري غورځنګ یا غورزنگ؛ انگریزی: National Democratic Movement) یا مِلّی جمہوری تحریک پاکستان میں ایک پشتون قوم پرست، جمہوری سیاسی جماعت ہے۔ این ڈی ایم "بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی" کے خلاف مزاحمت اور ایک فیڈرل جمہوری پارلیمانی نظام کو فروغ دینا چاہتی ہے۔ اس کی بنیاد محسن داوڑ نے 1 ستمبر 2021ء کو پشاور میں رکھی۔محسن داوڑ کو اس کا چیئرمین جبکہ جمیلہ گیلانی کو ترجمان منتخب کیا گیا۔
فاطمہ بنت محمد بن عبد اللہ جن کا معروف نام فاطمۃ الزہراء ہے حضرت محمد بن عبد اللہ اور خدیجہ بنت خویلد کی بیٹی تھیں۔ تمام مسلمانوں کے نزدیک آپ ایک برگزیدہ ہستی ہیں۔۔ آپ کی ولادت 20 جمادی الثانی بروز جمعہ بعثت کے پانچویں سال میں مکہ میں ہوئی۔ آپ کی شادی علی ابن ابی طالب سے ہوئی جن سے آپ کے دو بیٹے حسن اور حسین اور دو بیٹیاں زینب اور ام کلثوم پیدا ہوئیں۔ آپ کی وفات اپنے والد حضرت محمد بن عبد اللہ کی وفات کے کچھ ماہ بعد 632ء میں ہوئی۔ آپ کے کثیر الالقابات مشہور ہیں۔
اہل تشیع یا شیعیت (عربی: شيعة) اسلام کا دوسرا بڑا فرقہ ہے۔ اہل تشیع رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد فقط حضرت علی بن ابی طالب کی امامت کے قائل ہیں اور صرف انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا جانشین اور پہلا معصوم امام مانتے ہیں۔ شیعہ یا اہل تشیع نظریہ خلافت کو تسلیم نہیں کرتے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دعوت ذوالعشیرہ جو حدیث یوم الدار یا حدیث العشیرہ والدار کے نام سے مشہور ہے اور خطبہ حجتہ الوداع کے موقع پر علی بن ابی طالب کو اپنا جانشین مقرر کر دیا تھا۔ دعوت ذوالعشیرہ کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ
محمد علی جناح پیدائشی نام، محمد علی جناح بھائی، 25 دسمبر 1876ء – 11 ستمبر 1948ء) کے نامور وکیل، سیاست دان اور بانی پاکستان تھے۔ محمد علی جناح 1913ء سے لے کر پاکستان کی آزادی 14 اگست 1947ء تک آل انڈیا مسلم لیگ کے سربراہ رہے، پھر قیام پاکستان کے بعد اپنی وفات تک، وہ ملک کے پہلے گورنر جنرل رہے۔ سرکاری طور پر پاکستان میں آپ کو قائدِ اعظم یعنی سب سے عظیم رہبر اور بابائے قوم یعنی قوم کا باپ بھی کہا جاتا ہے۔ جناح کا یومِ پیدائش پاکستان میں قومی تعطیل کے طور پر منایا جاتا ہے۔کراچی کے پیدائشی اور لنکن ان سے بیرسٹری کی تربیت حاصل کرنے والے جناح، بیسویں صدی کے ابتدائی دو عشروں میں آل انڈیا کانگریس کے اہم رہنما کے طور پر ابھرے۔ اپنی سیاست کے ابتدائی ادوار میں انہوں نے ہندو مسلم اتحاد کے لیے کام کیا۔ 1916ء میں آل انڈیا مسلم لیگ اور آل انڈیا کانگریس کے مابین ہونے والے میثاق لکھنؤ کو مرتب کرنے میں بھی انہوں نے اہم کردار ادا کیا۔ جناح آل انڈیا ہوم رول لیگ کے اہم رہنماوں میں سے تھے، انہوں نے چودہ نکات بھی پیش کیے، جن کا مقصد ہندوستان کے مسلمانوں کے سیاسی حقوق کا تحفظ کرنا تھا۔ بہر کیف جناح 1920ء میں آل انڈیا کانگریس سے مستعفی ہو گئے، جس کی وجہ آل انڈیا کانگریس کے موہن داس گاندھی کی قیادت میں ستیاگرا کی مہم چلانے کا فیصلہ تھا۔1940ء تک جناح کو یہ یقین ہو چلا تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک علاحدہ وطن کی جدوجہد کرنی چاہیے۔ اسی سال، مسلم لیگ نے جناح کی قیادت میں قرارداد پاکستان منظور کی جس کا مقصد نئی مملکت کی قیام کا مطالبہ تھا۔دوسری جنگ عظیم کے دوران، آل انڈیا مسلم لیگ نے مضبوطی پکڑلی جبکہ ان ادوار میں کانگریس کے کئی رہنما قید کاٹ رہے تھے اور جنگ کے ختم ہونے کے مختصر عرصے میں ہی انتخابات کا انعقاد ہوا، جس میں جناح کی جماعت نے مسلمانوں کے لیے مختص نشستوں میں سے بڑی تعداد جیت لی۔ اس کے بعد آل انڈیا کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ متحدہ ہندوستان میں اختیارات کے توازن کے لیے کسی صیغے پر متفق نا ہو سکے نتیجتاً تمام جماعتیں اس امر پر متفق ہوگئیں کہ ہندوستان کے دو حصے کیے جائیں جن میں ایک مسلم اکثریتی علاقوں میں پاکستان جبکہ باقی ماندہ علاقوں میں بھارت کا قیام ہو۔پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کے طور پر جناح نے اپنی حکومتی پالیسیوں کے قیام کے لیے کام کیا نیز انہوں نے ان لاکھوں لوگوں کے بہبود اور آباد کاری کے لیے بھی کام کیا جو تقسیم ہند کے بعد پاکستان کی جانب ہجرت کر چلے تھے، انہوں نے ان مہاجر کیمپوں کی ذاتی طور پر دیکھ بھال کی۔ جناح 71 سال کے عمر میں انتقال کر گئے جبکہ ان کے نوزائیدہ ملک کو سلطنت برطانیہ سے آزاد ہوئے محض ایک سال کا عرصہ ہوا تھا۔ ان کی سوانح عمری لکھنے والے لکھاری،اسٹینلی وولپرٹ لکھتے ہیں کہ، وہ (یعنی جناح) پاکستان کے عظیم ترین رہنما رہیں گے۔
نشانِ حیدر پاکستان کا سب سے بڑا فوجی اعزاز ہے۔جو دوران جنگ دشمن سے قبضے میں لیے جانے والے اسلحے کو پگھلا کر تیار کیا جاتا اور اس میں 20 فیصد سونے کا بھی استعمال کیا جاتا ہے۔اور نشانِ حیدر اب تک پاک فوج کے دس جوانوں کو مل چکا ہے۔ پاکستان کی فضائیہ کی تاریخ اور پاکستان کی بری فوج کے مطابق نشانِ حیدر حضرت علی کے نام پر دیا جاتا ہے کیونکہ ان کا لقب حیدر کرار تھا اور ان کی بہادری ضرب المثل ہے۔
غزل اردو شاعری کی مقبول ترین "صنف" سخن ہے۔ غزل توازن میں لکھی جاتی ہے اور یہ ہم قافیہ و بحر اور ہم ردیف مصرعوں سے بنے اشعار کا مجموعہ ہوتی ہے مطلع کے علاوہ غزل کے باقی تمام اشعار کے پہلے مصرع میں قافیہ اور ردیف کی قید نہیں ہوتی ہے جبکہ مصرع ثانی میں غزل کا ہم آواز قافیہ و ہم ردیف کا استعمال کرنا لازمی ہے غزل کا پہلا شعر مطلع کہلاتا ہے جس کے دونوں مصرعے ہم بحر اور ہم قافیہ و ہم ردیف ہوتے ہیں غزل کا آخری شعر مقطع کہلاتا ہے بشرطیکہ اس میں شاعر اپنا تخلص استعمال کرے ورنہ وہ بھی شعر ہی کہلاتا ہے
فتح مکہ (جسے فتح عظیم بھی کہا جاتا ہے) عہد نبوی کا ایک غزوہ ہے جو 20 رمضان سنہ 8 ہجری بمطابق 10 جنوری سنہ 630 عیسوی کو پیش آیا، اس غزوے کی بدولت مسلمانوں کو شہر مکہ پر فتح نصیب ہوئی اور اس کو اسلامی قلمرو میں شامل کر لیا گیا۔ اس غزوہ کا سبب قریش مکہ کی جانب سے اس معاہدہ کی خلاف ورزی تھی جو ان کے اور مسلمانوں کے درمیان میں ہوا تھا، یعنی قریش مکہ نے اپنے حلیف قبیلہ بنو دئل بن بکر بن عبد منات بن کنانہ (اس کی ایک خاص شاخ جسے بنو نفاثہ کہا جاتا ہے) نے بنو خزاعہ کے خلاف قتل و غارت میں مدد کی تھی اور چونکہ بنو خزاعہ مسلمانوں کا حلیف قبیلہ تھا اس لیے اس حملے کو قریش مکہ کی جانب سے اس معاہدہ کی خلاف ورزی سمجھا گیا جو مسلمانوں اور قریش کے درمیان میں ہوا تھا، یہ معاہدہ "صلح حدیبیہ" کے نام سے معروف ہے۔ اسی معاہدہ کی خلاف ورزی کے جواب میں محمد بن عبد اللہ نے ایک عظیم الشان لشکر تیار کیا جو دس ہزار مجاہدین پر مشتمل تھا؛ لشکر آگے بڑھتا رہا یہاں تک کہ مکہ پہنچ گیا اور بغیر کسی مزاحمت کے مکہ میں پر امن طریقے سے داخل ہو گیا سوائے ایک معمولی سی جھڑپ کے جس کا سپہ سالار خالد بن ولید کو اس وقت سامنا ہوا جب قریش کی ایک ٹولی نے عکرمہ بن ابی جہل کی قیادت میں مسلمانوں سے مزاحمت کی اور پھر خالد بن ولید کو ان سے قتال کرنا پڑا جس کے نتیجے میں بارہ کفار مارے گئے اور باقی بھاگ گئے، جبکہ دو مسلمان بھی شہید ہوئے۔
محمد بن قاسم (عربی: محمد بن القاسم الثقفي) کا پورا نام عماد الدین محمد بن قاسم تھا جو بنو امیہ کے ایک مشہور سپہ سالار حجاج بن یوسف کے بھتیجا تھے۔ محمد بن قاسم نے 17 سال کی عمر میں سندھ فتح کرکے ہندوستان میں اسلام کو متعارف کرایا۔ ان کو اس عظیم فتح کے باعث ہندوستان و پاکستان کے مسلمانوں میں ایک مسیحاء کا اعزاز حاصل ہے اور اسی لیے سندھ کو "باب الاسلام" کہا جاتا ہے کیونکہ ہندوستان پر اسلام کا دروازہ یہیں سے کھلا۔
اردو زبان میں چھتیس حروفِ تہجی اور سینتالیس آوازیں ہیں جن میں سے بیشتر عربی سے لیے گئے ہیں اور دیگر انہی کی مختلف شکلیں ہیں۔ کچھ حروف کئی طریقوں سے استعمال ہوتے ہیں اور کچھ مخلوط حروف بھی استعمال ہوتے ہیں جو دو حروف سے مل کر بنتے ہیں۔ بعض لوگ 'ء' کو الگ حرف نہیں مانتے مگر پرانی اردو کتب اور لغات میں اسے الگ حرف کے طور پر لکھا جاتا ہے۔ مختلف الفاظ میں یہ الگ حرف کے طور پر ہی استعمال ہوتا ہے مثلاً 'دائرہ'۔ یہ بات مدِنظر رکھنا ضروری ہے کہ اردو تختی اور اردو حروف دو مختلف چیزیں ہیں کیونکہ اردو تختی میں اردو حروفِ تہجی کی کئی اشکال ہو سکتی ہیں جن کو الگ حرف کا درجہ نہیں دیا جا سکتا بلکہ وہ ایک ہی حرف کی مختلف شکلیں ہیں۔ مثلاً نون غنہ نون کی شکل ہے اور 'ھ' اور 'ہ' ایک ہی حرف کی مختلف اشکال ہیں۔ ایک اور مثال الف ممدودہ (آ) اور الف مقصورہ (ا) کی ہے جو اردو تختی میں الگ ہیں مگر اردو کا ایک ہی حرف شمار ہوتے ہیں۔
1974ء ميں وزیر اعظم پاکستان جناب ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں احمدیوں جن کوقادیانی بھی کہا جاتا ہے، کوغیر مسلم اقلیت قرار دے دیا گیا، اس تحریک کے اصل محرک شاہ احمد نورانی تھے انہوں نے 30 جون کو ایک تاریخی قرارداد جمع کرائی اور 6 ستمبر 1974ء تک بحث و تمحیص کے بعد اسے ایک قانونی شق کی حیثیت دے دی گئی۔ دوسری آئینی ترمیم کے اس حصے جس میں احمدیوں کو واضح طور پر آئین پاکستان نے غیر مسلم قرار دیا ہے، کو آرڈیننس 20 کہا جاتا ہے۔
أبو جعفر محمد بن جرير بن يزيد الطبری (ابن جریر طبری) عہد عباسی کے مشہور مفسر مورخ تھے۔ طبری کا تعلق طبرستان -موجودہ ایران کے علاقہ ماژندران- سے ہے۔ طبری کی تصانیف میں سب سے زیادہ اہم اور مقبول ان کی تفسیر جامع البيان عن تأويل آي القرآن اور تاریخ الرسل و الملوک ہیں۔ اول الذکر تفسیر طبری اور آخر الذکر تاریخ طبری کے نام سے مشہور ہیں۔ طبری فقہ شافعی کے پیروکار تھے، لیکن بعد میں ان کے آراء اور فتاوی کی بنیاد پر ایک مسلک وجود میں آیا جو ان ہی کی نسبت سے جریری کے نام سے مشہور ہوا۔
عمر شریف 19 اپریل، 1955ء کو لیاقت آباد، کراچی میں پیدا ہوئے۔ وہ پاکستان کے مشہور تھیٹر، سٹیج، فلم اور ٹی وی کے اداکار ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ شہرت مزاحیہ سٹیج ڈرامے ہیں۔ اُن کا اصل نام تو محمد عمر ہے مگر میڈیا میں آنے کے بعد انہوں نے اپنا نام عمر شریف رکھ لیا۔ کیرئیر کا آغاز 1974ء میں 14 سال کی عمر میں سٹیج اداکاری سے کیا۔1980ء میں پہلی بار انہوں نے آڈیو کیسٹ سے اپنے ڈرامے ریلیز کیے۔ پاکستان کے ساتھ ساتھ عمر شریف، ہندوستان میں بھی کافی مقبول ہیں۔
اسلام ایک توحیدی مذہب ہے جو اللہ کی طرف سے آخری رسول و نبی، محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ذریعے انسانوں تک پہنچائی گئی آخری الہامی کتاب (قرآن مجيد) کی تعلیمات پر قائم ہے۔ یعنی دنیاوی اعتبار سے بھی اور دینی اعتبار سے بھی اسلام (اور مسلم نظریے کے مطابق گذشتہ ادیان کی اصلاح) کا آغاز، 610ء تا 632ء تک 23 سال پر محیط عرصے میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اللہ کی طرف سے اترنے والے الہام (قرآن) سے ہوتا ہے۔ قرآن عربی زبان میں نازل ہوا (برائے وجہ : اللسان القرآن) اور اسی زبان میں دنیا کی کل آبادی کا کوئی 24% حصہ یعنی لگ بھگ 1.6 تا 1.8 ارب افراد اس کو پڑھتے ہیں ؛ ان میں (مختلف ذرائع کے مطابق) قریباً 20 تا 30 کروڑ ہی وہ ہیں جن کی مادری زبان عربی ہے جبکہ 70 تا 80 کروڑ، غیر عرب یا عجمی ہیں جن کی مادری زبان عربی کے سوا کوئی اور ہوتی ہے۔ متعدد شخصی ماخذ سے اپنی موجودہ شکل میں آنے والی دیگر الہامی کتابوں کے برعکس، بوسیلۂ وحی، فردِ واحد (محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے منہ سے ادا ہوکر لکھی جانے والی کتاب اور اس کتاب پر عمل پیرا ہونے کی راہنمائی فراہم کرنے والی شریعت ہی دو ایسے وسائل ہیں جن کو اسلام کی معلومات کا منبع قرار دیا جاتا ہے۔
افغانستان کی سب سے موثر جنگی و سیاسی قوت ہیں ان کو مختصراً طالبان کہا جاتا ہے۔ نسلی اعتبار سے یہ پشتون ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو روس کی افغانستان میں آمد کے بعد افغان جہاد میں مجاہدین کے ساتھ مل کر لڑتے رہے۔ روس کو شکست دینے کے بعد مجاہدین کی آپس میں شدید چپقلش کے باعث 1994ء میں ظہور پانے والے تحریک اسلامی طالبان کے نام سے چند طلبہ کا گروہ تھا جسے ملا محمد عمر نے قائم کیا اور انہی کی سربراہی میں بزور بازو افغانستان کا مکمل کنٹرول حاصل کر لیا اور اپنی حکومت امارت اسلامیہ افغانستان کے نام سے قائم کرلی جسے وہ اسلامی خلافت قرار دیتے تھے۔
تعارف رشید حسرتؔ ۱۶ جون ۱۹۶۲ کو مِٹھڑی (ضلع کچھّی) بلوچستان میں ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آٹھویں جماعت میں تھے جب سے شعر کہنا شروع کر دیا تھا۔ ۱۹۸۱ میں ملازمت کے سلسلے میں کوئٹہ آئے تو باقاعدہ ان کا کلام مقامی اور قومی سطح کے اخبارات و رسائل میں شائع ہونے لگا۔ ریڈیو اور ٹی وی پروگرامز میں بھی حصّہ لیتے رہے۔ مقامی، صوبائی، قومی اور پاک و ہند سطح کے مشاعرے پڑھتے رہے۔ بلوچستان یونیورسٹی سے اردو ادب میں ایم اے کیا اور سیکریٹریٹ کی ملازمت ترک کر کے اردو ادب کے استاد کے طور فرائض انجام دینے لگے۔ بہت نرم دل، شریف النفس اور انتہائی سادہ مزاج انسان ہیں۔ آج کل ایک مقامی کالج میں ایسوسی ایٹ پروفیسر کے طور خدمات انجام دے رہے ہیں اور صدرِ شعبۂِ اردو ہیں۔
محکمۂ بین الخدماتی استخبارات جسے انگریزی میں ڈائریکٹوریٹ آف انٹر سروسز انٹلیجنس یا مختصراً انٹر سروسز انٹلیجنس (Inter-Services Intelligence) اور آئی ایس آئی (ISI) کہاجاتا ہے۔ پاکستان کا سب سے بڑا مایہ ناز خفیہ ادارہ ہے۔ جو ملکی مفادات کی حفاظت اور دشمن ایجنٹوں کی تخریبی کارروائیوں کا قبل از وقت پتا چلا کر انہیں ختم کرنے کے لیے بنائی گئی ہے۔ اس سے پہلے انٹیلیجنس بیورو (I.B) اور ملٹری انٹیلیجنس (M.I) کا قیام عمل میں آیا تھا۔ لیکن بعد میں اس کا قیام عمل میں آیا۔
رموز اوقاف (انگریزی: Punctuation) وہ علامتیں اور نشانیاں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ عبارت میں کس جگہ اور کس طرح وقف کرنا ہے۔ رموز، رمز کی جمع ہے جس کا مطلب ہے علامت یا اشارہ جبکہ اوقاف، وقف کی جمع ہے جس کے معنی ٹھہرنے یا رکنے کے ہیں، یعنی رموز اقاف یا علامات وقف اُن اشاروں یا علامتوں کو کہتے ہیں جو کسی عبارت کے ایک جملے کے ایک حصے کو اس کے باقی حصوں سے علاحدہ کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ اردو، انگریزی یا دوسری زبانوں کے قواعد میں ان اوقاف اور علامات کو بہت اہمیت حاصل ہے اگر ان کا خیال نہ رکھا جائے تو مفہوم کچھ سے کچھ بلکہ بعض اوقات تو اس کے بالکل اُلٹ ہو جاتا ہے جہاں ٹھہرنا یا وقفہ کرنا ہو ان کے لیے اردو میں درج ذیل رموز اوقاف استعمال ہوتے ہیں۔ ختمہ (۔)، سوالیہ (؟)، سکتہ (،) تفصیلہ (:_)، قوسین () واوین (” “) ندائیہ یا فجائیہ (!) علامت شعر(؎) علامت مصرع (؏) علامت وغیرہ۔
صحیح بخاری کا اصل نام «الجامع المسند الصحیح المختصر من امور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وسننہ و ایامہ» ہے جو «صحیح البخاری» کے نام سے مشہور ہے، یہ اہل سنت وجماعت کے مسلمانوں کی سب سے مشہور حدیث کی کتاب ہے، اس کو امام محمد بن اسماعیل بخاری نے سولہ سال کی مدت میں بڑی جانفشانی اور محنت کے ساتھ لکھا ہے، اس کتاب میں انھوں نے چھ لاکھ احادیث سے منتخب کر کے جمع کیا ہے۔ اہل سنت کے یہاں اس کتاب کو ایک خاص مرتبہ و حیثیت حاصل ہے اور ان کی حدیث میں چھ امہات الکتب (صحاح ستہ) میں اول مقام حاصل ہے، خالص صحیح احادیث میں لکھی جانی والی پہلی کتاب شمار ہوتی ہے، اسی طرح اہل سنت میں قرآن مجید کے بعد سب سے صحیح کتاب مانی جاتی ہے۔ اسی طرح صحیح بخاری کا شمار کتب الجوامع میں بھی ہوتا ہے، یعنی ایسی کتاب جو اپنے فن حدیث میں تمام ابواب عقائد، احکام، تفسیر، تاریخ، زہد اور آداب وغیرہ پر مشتمل اور جامع ہو۔اس کتاب نے امام بخاری کی زندگی ہی میں بڑی شہرت و مقبولیت حاصل کر لی تھی، بیان کیا جاتا ہے کہ اس کتاب کو تقریباً ستر ہزار سے زائد لوگوں نے ان سے پڑھا اور سماعت کی، اس کی شہرت اس زمانہ میں عام ہو گئی تھی، ہر چہار جانب خصوصاً اس زمانے کے علما میں اس کتاب کو توجہ اور مقبولیت حاصل ہو گئی تھی، چنانچہ بے شمار کتابیں اس کی شرح، مختصر، تعلیق، مستدرک، تخریج اور علومِ حدیث وغیرہ پر بھی لکھی گئیں، یہاں تک کہ بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ اس کی شروحات کی تعداد بیاسی (82) سے زیادہ ہو گئی تھی۔
محمد بن اسماعيل بخاری (19 جولائی 810 - 1 ستمبر 870) بخارا میں پیدا ہوئے گو ان کے والد بھی ایک محدث تھے اور امام مالک کے شاگرد تھے مگر احادیث رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جانچ پڑتال، پھر ان کی جمع و ترتیب پر آپ کی مساعی جمیلہ کو آنے والی تمام مسلمان نسلیں خراج تحسین پیش کرتی رہیں گی۔ آپ کا ظہور پر سرور عین اس قرآنی پیش گوئی کے مطابق ہوا جو اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ جمعہ میں فرمائی تھی۔
الناصر صلاح الدین بن یوسف بن ایوب (عربی: الناصر صلاح الدين يوسف بن أيوب؛ کردی: سەلاحەدینی ئەییووبی) جنہیں عام طور پر صلاح الدین ایوبی کے نام سے جانا جاتا ہے ایوبی سلطنت کے بانی تھے۔ وہ نہ صرف تاریخ اسلام بلکہ تاریخ عالم کے مشہور ترین فاتحین و حکمرانوں میں سے ایک ہیں۔ وہ 1138ء میں موجودہ عراق کے شہر تکریت میں پیدا ہوئے۔ ان کی زیر قیادت ایوبی سلطنت نے مصر، شام، یمن، عراق، حجاز اور دیار باکر پر حکومت کی۔ سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللّٰہ علیہ کو بہادری، فیاضی، حسن خلق، سخاوت اور بردباری کے باعث نہ صرف مسلمان بلکہ مسیحی بھی عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ صلاح الدین کو فاتح بیت المقدس کہا جاتا ہے جنھوں نے 1187ء میں یورپ کی متحدہ افواج کو عبرتناک شکست دے کر بیت المقدس ان سے آزاد کروا لیا تھا۔
شاعری (Poetry) کا مادہ "شعر" ہے اس کے معانی کسی چیز کے جاننے پہچاننے اور واقفیت کے ہیں۔ لیکن اصطلاحاً شعر اس کلامِ موزوں کو کہتے ہیں جو قصداً کہا جائے۔ یہ کلام موزوں جذبات اور احساسات کے تابع ہوتا ہے۔ اور کسی واقعہ کی طرف جاننے کا اشارہ کرتا ہے۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ آپ نے کوئی حادثہ دیکھا ہو اور وہ آپ کے دل پر اثر کر گیا ہو اور آپ کے اندر سے خود بخود الفاظ کی صورت میں ادا ہو جائے اس اثر کے بیان کو شعر کہتے ہیں اور انہی شعروں کو شاعری کے نام سے جانا جاتا ہے۔
ابراہیم علیہ السلام وہ پہلے پیغمبر تھے جن کو اللہ نے مُسلمان نبی پیغمبر ابو الانبیاء، خلیل اللہ امام الناس اور حنیف کہہ کر پُکارا۔اللہ تعالی نے اپنے اس دوست برگزیده اور پیارے نبی کو قرآن مجید میں امتہ (النحل : 120) امام الناس (البقره: 124) حنیف اور مسلم (آل عمران: 67) کے ناموں سے بار بار بار کیا ہے۔ اکثر انبیائے کرام انہی کی اولاد سے ہیں۔ابراہیم علیہ السلام کے نام کی وجہ تسمیہ کے بارے میں بائبل کا بیان ہے کہ خدا تعالی ان سے مخاطب ہو کر کہتا ہے۔ دیکھ میرا عہد تیرے ساتھ ہے اور تو بہت قوموں کا باپ ہو گا۔ اور تیرا نام ابرام نہیں بلکہ ابراہام ہو گا۔ کیونکہ میں نے تجھے قوموں کا باپ بنایا ہے۔ (پیدائش 170:5)اکثر ماہرین کے نزدیک ابراہام یا ابراہیم ؑ بھی لفظ ہے۔ ہو سکتا ہے کہ پہلے آپ کا نام ابراہم ہو اور پھر ابراہام یا ابو رہام ہو گیا ہو۔مُسلمان اُن کو خلیل اللہ (اللہ کا دوست) کہتے ہیں۔ ابراہیم کی نسل سے کئی پیغمبر پیدا ہوئے، جن کا تذکرہ عہدنامہ قدیم میں ہے۔ اسلام کی کتاب قرآن مجید میں بھی بہت سارے ایسے انبیا کا ذکر ہے جو ابراہیم کی نسل میں سے تھے۔ اسلام کے آخری نبی مُحمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی ابراہیم کی نسل میں سے ہیں۔شرک، ستارہ پرستی اور بت سازی کے خلاف اپنی قوم اور اوروں کے ساتھ ان کا مجادلہ و محاجہ بڑے زور سے پیش کیا گیا ہے۔ ابراہیم کا بچپن میں ہی رشد عطا کیا گیا اور قلب سلیم بھی عنایت فرمایا گیا۔ تکوینی عجائبات اور ملکوت السمٰوت والارض ان کے سامنے تھے۔ انہیں کے مشاہدے سے اُن کو یقین کامل حاصل ہوا۔ بت پرستی کے خلاف ابراہیم کے جہاد کا ذکر بھی قران کریم میں کئی بار آیا ہے۔قرآن حکیم میں حضرت ابراہیم ؑ اور آذر کے اختلاف عقائد کو جس طرح نمایاں کیا گیا ہے اور جس طرح آپ اپنی قوم کے شرک سے متنفر اور متصادم ہوئے۔ اس سے ہم آپ کی عظمت و جلالت کی حقیقت کو بھی پاسکتے ہیں۔ اور اپنے لیے شمع ہدایت بھی روشن کر سکتے ہیں۔ اس وجہ سے مسلمانوں کو ملت براہیمی ہونے پر فخر ہے۔ ان کے بارے میں یہ توکہیں وضاحت نہیں ہوئی کہ کیا وحی ان پر نازل ہوئی تھی یا ان کی بعثت محض روحانی تھی؟ البتہ قرآن مجید میں ایک جگہ اس امر کی تصدیق ہوئی ہے کہ اللہ تعالی آپ سے ہمکلام تھا۔ اہل تاریخ کے نزدیک متعدد صحیفے تھے جو ابراہیم پر نازل ہوئے۔ ایک صحیفہ جو ان کی طرف سے منسوب ہے یونانی سے انگریزی میں ترجمہ ہو کر شائع ہو چکا ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ کے دین کے بارے میں قرآن مجید میں کئی جگہ پر ارشار ہوتا ہے کہ آپ موحد مسلم اورراست رو تھے۔ ارشاد ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے: ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ”پھر ہم نے تیری طرف (حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی طرف) وحی کی کہ ابراہیم ؑ راست رو (مسلم) کے دین پر چل اور وہ مشرکوں میں سے نہیں تھا “ اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے: يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تُحَآجُّونَ فِي إِبْرَاهِيمَ وَمَا أُنزِلَتِ التَّورَاةُ وَالإنجِيلُ إِلاَّ مِن بَعْدِهِ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ هَاأَنتُمْ هَؤُلاء حَاجَجْتُمْ فِيمَا لَكُم بِهِ عِلمٌ فَلِمَ تُحَآجُّونَ فِيمَا لَيْسَ لَكُم بِهِ عِلْمٌ وَاللّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ مَا كَانَ إِبْرَاهِيمُ يَهُودِيًّا وَلاَ نَصْرَانِيًّا وَلَكِن كَانَ حَنِيفًا مُّسْلِمًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْرَاهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ وَهَـذَا النَّبِيُّ وَالَّذِينَ آمَنُواْ وَاللّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ ”اے اہل کتاب! تم ابراہیم ؑ کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو۔ حالانکہ توریت اور انجیل اس کے بعد ہی اتاری گئیں۔ پھر کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے۔ سنو!
عبد مَناف بْن عَبْدُ الْمُطلب بن ہاشم، ابوطالب کے نام سے مشہور تھے۔ آپ کا ایک اسمِ گرامی عمران بھی تاریخ کی کتابوں میں ملتا ہے، حضرت علیؑ کے والد، پیغمبر اسلامؐ کے چچا اور مکہ میں قبیلہ بنی ہاشم کے سردار تھے۔ کچھ عرصے کے لیے آپ سقایۃ الحاج کے عہدے پر فائز رہے اور اپنے والد عبد المطلب کی وفات کے بعد حضرت محمدؐ کی سرپرستی قبول کی اور آنحضرت (ص) کی جانب سے نبوت کے اعلان کے بعد ان کی مکمل حمایت کی۔ اور جب تک زندہ رہے مشرکین اور کفار کو جرأت نہ ہوئی کہ حضرت رسولؐ خدا پہ کسی قسم کی سختی کر سکیں۔ آپ کے القاب میں سیدالعرب ، شیخ بطحا اور مومنِ قریش زیادہ مشہور ہیں۔
چونڈہ پاکستان کے ضلع سیالکوٹ کا ایک ایسا قصبہ ہے جہاں سن 1965ء کی پاک بھارت جنگ کی سب سے بڑی ٹینکوں کی لڑائی ہوئئ۔یہ جنگ دوسری جنگ عظیم کے بعد ٹینکوں کی سب سے بڑی لڑائی تھی۔یہ جنگ دونوں ملکوں کے درمیان میں راوی اور پنجاب کے درمیانی علاقہ میں لڑی گئی۔8 ستمبر کو صبح چھ بجے بھارتی فوج نے کنڑول لائن عبور کرتے ہوئے تین کالم بناتے ہوئے پاکستانی سر زمین پر حملہ کر دیا ۔باجرہ گڑھی نخنال اور چاروہ کے مقامات سے بھارتی فوج نے ایک آرمڈ اور تین انفنٹری ڈویزن کی مدد سے حملہ شروع کیا اور 12 کلو میٹر تک بغیر کسی مذاحمت کا سامنا کیے آگے بڑھتی رھی۔اس درمیان میں پاکستانی فضائیہ نے ایک حملہ کیا لیکن کوئی خاص نقصان نہ کر سکی ۔ پاکستان کی فوج نے گڈگور کے پاس بھارتی فوج کا راستہ روکا اور 25 کیلوری کے 15 ٹینک پورے بھارتی ڈویزن کا راستہ روک کر کھڑے ہو گئے۔پہلی ہی مڈ بھیڑ میں بھارتی اپنے 3 ٹینک تباہ کرا کے دفاعی پوزیشن پر چلی گئی۔ چونڈہ کنٹرول لائ سے 30 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔14 ستمبر کو بھارت نےچونڈہ پر حملہ کیا لیکن آٹھ دن کی شدید جنگ کے باوجود چونڈہ فتح نہ کر سکی اور جنگ بندی تک اپنے 150 ٹینک تباہ کرا کے واپس لوٹ گئی "چونڈہ" پاکستان کے ضلع سیالکوٹ کا ایک ایسا قصبہ ہے جہاں سن 1965ء کی پاک بھارت جنگ کی سب سے بڑی ٹینکوں کی لڑائی ہوئی۔ یہ جنگ دوسری جنگ عظیم کے بعد ٹینکوں کی سب سے بڑی لڑائی تھی۔ یہ جنگ دونوں ملکوں کے درمیان میں راوی اور پنجاب کے درمیانی علاقے میں لڑی گئی۔۔۔ 8 ستمبر کو صبح چھ بجے بھارتی فوج نے کنڑول لائن عبور کرتے ہوئے اور تین کالم بناتے ہوئے پاکستانی سر زمین پر حملہ کر دیا ۔ باجرہ گڑھی، نخنال اور چاروہ کے مقامات سے بھارتی فوج نے ایک آرمڈ اور تین انفنٹری ڈویژنز کی مدد سے حملہ شروع کیا اور 12 کلو میٹر تک بغیر کسی مذاحمت کا سامنا کیے آگے بڑھتی رھی۔۔۔ اس دوران پاک فضائیہ نے ان پر ایک حملہ کیا لیکن ان کا کوئی خاص نقصان نہ کر سکی۔ پاکستان کی فوج نے گڈگور کے پاس بھارتی فوج کا راستہ روکا اور 25 کیلوری کے 15 ٹینک پورے بھارتی ڈویژن کا راستہ روک کر کھڑے ہو گئے۔پہلی ہی مڈ بھیڑ میں بھارتی اپنے 3 ٹینک تباہ کروا کے دفاعی پوزیشن پر چلے گئے تھے۔۔۔ چونڈہ کنٹرول لائن سے 30 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ 14 ستمبر کو بھارت نےچونڈہ پر حملہ کیا لیکن آٹھ دن کی شدید جنگ کے باوجود چونڈہ فتح نہ کر سکی اور جنگ بندی تک اپنے 150 ٹینک تباہ کروا کر واپس بھارت لوٹ گئی۔ اس جنگ میں پاک فوج کے جوانوں نے عظیم قربانیاں پیش کیں۔۔۔ جنرل ٹکا خان اس وقت چونڈہ محاز پر کمانڈ کر رہے تھے۔ دشمن کے ٹینکوں کی پوری دیوار کے سامنے پاکستان کے پاس محدود تعداد میں موجود ٹینک کچھ معنی نہیں رکھتے تھے۔ جنرل ٹکا خان نے جوانوں سے خطاب کیا اور ایک عجیب و غریب جنگی چال اپنے جوانوں کے سامنے رکھ دی۔ کہ ھم اپنے جسموں کے ساتھ بم باندھ کر دشمن کے آگے بڑھتے ٹینکوں کا راستہ روکیں گے۔۔۔ اس سرفروشی کے لیے جنرل ٹکا خان نے سب سے پہلے خود کو پیش کیا. اس کے بعد جنرل ٹکا خان نے جوانوں سے کہا کہ جو جو جوان اس جان لیوا مشن پر میرے ساتھ دفاع مادر وطن کیلیے خود کو فنا کرنا چاھتا ھے ایک قدم آگے چل کر اپنی رضامندی سے آگاہ کرے۔ اگلے ہی لمحے جنرل ٹکا خان نے دیکھا کہ سارے کے سارے جوان ایک قدم آگے بڑھ کر اس مشن پر جانے کیلیے تیار تھے۔۔۔ پھر جنرل ٹکا خان نے کہا کہ ھمیں کم تعداد میں سرفروش چاھئیں، لہذا جو جوان اپنے گھر کے چھ بھائی ھیان وہ آگے آ جائے، چند جوان آگے بڑھے، پھر انہوں نے کہا جو اپنے گھر کے پقنچ بھائی ھیں وہ جوان آگے بڑھے، ہھر مزید چند جوان آگے بڑھے۔ پھر کہا جو جوان اپنے گھر کے چار بھائی ھیں وہ آگے بڑھیں۔ تب مزید کئی جوان آگے بڑھے۔۔۔ یوں پاک فوج کے ان جانبازوں کا ایک "فنا فی اللہ" دستہ تیار کیا گیا جنھوں نے اپنے سینوں کے ساتھ بم باندھ کر دشمن کے ٹینکوں کے نیچے جا کر لیٹ گئے۔ ھوا کچھ یوں کہ دشمن پاک فوج کی جانب سے اچانک مزاحمت ختم ھو جانے پر بہت زیادہ خوش تھا۔ کہ اب شاید پاک فوج جنگ ہار رہی ھے۔ اور پسپا ھو رہی ھے۔ دشمن اپنی پوری طاقت سے آگے بڑھنے لگا۔۔۔ جیسے ہی دشمن کے ٹینک پاک فوج کے جنگی جال میں پھنس گئے اسی وقت وطم عزیز کے سرفروش بیٹوں نے (جو اپنے جسموں کے ساتھ بم باندھ کر ٹینکوں کے راست میں لیٹے ھوئے تھے) خود کو اڑانا شروع کر دیا اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے پل بھر میں بھارت ٹینکوں کے پرخچے اڑنے لگے. دشمن شدید بوکھلاہٹ کا شکار ھو گیا۔۔۔ خدا کے نام پر کٹنے کی لذت کیا بتاؤں میں!!!!!!!!!!
مغلیہ سلطنت 1526ء سے 1857ء تک برصغیر پر حکومت کرنے والی ایک مسلم سلطنت تھی جس کی بنیاد ظہیر الدین بابر نے 1526ء میں پہلی جنگ پانی پت میں دہلی سلطنت کے آخری سلطان ابراہیم لودھی کو شکست دے کر رکھی تھی۔ مغلیہ سلطنت اپنے عروج میں تقریباً پورے برصغیر پر حکومت کرتی تھی، یعنی موجودہ دور کے افغانستان، پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے ممالک پر مشتمل خطے پر انکا دور دورہ تھا۔-
پنجشیر وادی ( فارسی: درهٔ پنجشير ؛ لفظی طور پر پانچ شیروں کی وادی) شمال وسطی افغانستان کی ایک وادی ہے ، جو 150 کلومیٹر (490,000 فٹ) کابل کے شمال میں ، ہندوکش پہاڑی سلسلے کے قریب واقع ہے۔ اسے دریائے پنجشیر تقسیم کرتا ہے ۔ اس وادی میں ایک لاکھ سے زیادہ افراد آباد ہیں ، جن میں افغانستان میں نسلی تاجک باشندوں کی سب سے بڑی تعداد شامل ہے۔ اپریل 2004 میں ، یہ نئے صوبہ پنجشیر کا مرکز بن گیا ، جو اس سے قبل صوبہ پروان کا حصہ تھا۔ 1980 سے 1985 تک سوویت افغان جنگ کے دوران مجاہدین کے خلاف جمہوری جمہوریہ افغانستان اور سوویتوں کے درمیان لڑی جانے والی پنجشیر کارروائیوں کا یہ مقام تھا ، جب مقامی کمانڈر احمد شاہ مسعود نے کامیابی سے وادی کا قبضہ کرنے سے دفاع کیا۔ مسعود کی کمان میں طالبان اور شمالی اتحاد کے مابین 1996–2001ء کی خانہ جنگی کے دوران اس وادی میں ایک بار پھر نئی لڑائی دیکھنے میں آئی ، جہاں اس نے دوبارہ طالبان کے زیر اقتدار رہنے سے اس کا دفاع کیا۔ سنہ 2016 تک ، وادی پنجشیر کو افغانستان کے محفوظ ترین علاقوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔
اسلامی امارت افغانستان (Islamic Emirate of Afghanistan) (پشتو: د افغانستان امارات اسلامي) ایک اسلامی ریاست ہے جس کی حکومت طالبان کے ہاتھ میں ہے اور موجودہ افغانستان خطہ اس کے زیر انتظام ہے۔اس سے قبل بھی طالبان کے افغانستان پر برسر اقتدار آنے پر 1996ء میں قائم ہوئی تھی جو امریکہ نے 2001ء میں ختم ہ کردی۔ یہ حکومت افغان طالبان نے قائم کیا تھا اور ملا عمر اس کی سربراہی کر رہے تھے۔
بنو امیہ (عربی: بنو أمية؛ انگریزی: Banu Umayya) قریش کا ایک قبیلہ ہے جو امیہ بن عبد شمس کی اولاد ہے۔ ابتدا میں یہ قبیلہ اسلام کے خالف تھا تاہم بعد میں انہوں نے اسلام قبول کر لیا۔ عثمان بن عفان اسی قبیلے سے تھے جو تیسرے خلیفہ بنے۔ اس کے علاوہ معاویہ بن ابو سفیان بھی اسی قبیلے سے تھے جنہوں نے سلطنت بنو امیہ کی بنیاد رکھی۔
خلافت راشدہ کے چوتھے خلیفہ اور اہل تشیع کے پہلے امام علی بن ابی طالب پر خارجی ابن ملجم نے 26 جنوری 661ء بمطابق 19 رمضان، 40ھ کو کوفہ کی مسجد میں زہر آلود تلوار کے ذریعہ نماز کے دوران میں قاتلانہ حملہ کیا۔ اس حملہ کی وجہ سے علی زخمی ہوئے، اگلے دو دن تک آپ زندہ رہے لیکن زخم گہرا تھا، چنانچہ جانبر نہ ہو سکے اور 21 رمضان 40ھ کو وفات پائی۔ آپ تیسرے خلیفہ تھے جن کو خلافت کے دوران میں قتل کیا گیا، آپ سے پہلے عمر بن خطاب اور عثمان بن عفان کو قتل کیا جا چکا تھا۔