اردو ویکیپیڈیا کے سب سے زیادہ ملاحظہ کردہ مضامین کی فہرست۔ مزید معلومات کے لیے ۔ ۔ ۔
محمد رفیع عثمانی 21 جولائی 1936ء – 18 نومبر 2022ء) ایک پاکستانی مسلمان عالم، فقیہ اور مصنف تھے، جنھوں نے دار العلوم کراچی کے صدر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ وہ دارالعلوم دیوبند، جامعہ پنجاب اور دارالعلوم کراچی کے فاضل تھے۔ احکامِ زکوٰۃ، التعلیقات النافعۃ علی فتح الملہم، اسلام میں عورت کی حکمرانی اور نوادر الفقہ جیسی کتابیں ان کی تصانیف میں شامل ہیں۔ وہ جامعہ کراچی کے سنڈیکیٹ ممبر، نائب صدر اور وفاق المدارس العربیہ کی مجلس انتظامیہ کے رکن تھے۔ وہ محمد تقی عثمانی کے بڑے بھائی تھے۔
انا لله و انا الیہ راجعون ((عربی: إِنَّا لِلَّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ)) قرآن میں سورۃ البقرہ کی آیت 156 کے ایک حصے سے لیا گیا ہے۔، کا مطلب ہے "ہم خدا کے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔" جب مسلمان کسی کی موت یا مصیبت کا سنتے ہیں تو یہ آیت پڑھتے ہیں۔ وہ اس آیت کو تعزیت کہنے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں اور مصیبت کے وقت صبر کا مطالبہ کرتے ہیں۔
ابوحفص عمر فاروق بن خطاب عدوی قرشی (586ء/590ء، مکہ - 6 نومبر 644ء، مدینہ) ابوبکر صدیق کے بعد مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ راشد، محمد مصطفی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سسر اور تاریخ اسلام کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک ہیں۔ عمر بن خطاب عشرہ مبشرہ میں سے ہیں، ان کا شمار علما و زاہدین صحابہ میں ہوتا تھا۔ ابوبکر صدیق کی وفات کے بعد 23 اگست سنہ 634ء مطابق 22 جمادی الثانی سنہ 13ھ کو مسند خلافت سنبھالی۔ عمر بن خطاب ایک باعظمت، انصاف پسند اور عادل حکمران مشہور ہیں، ان کی عدالت میں مسلم و غیر مسلم دونوں کو یکساں انصاف ملا کرتا تھا، عمر بن خطاب کا یہ عدل و انصاف انتہائی مشہور ہوا اور ان کے لقب فاروق کی دیگر وجوہ تسمیہ میں ایک وجہ یہ بھی بنی۔ آپ رضی اللہ عنہ کا نسب نویں پشت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے جا ملتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نویں پشت میں کعب کے دو بیٹے ہیں مرہ اور عدی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مرہ کی اولاد میں سے ہیں، جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ عدی کی اولاد میں سے ہیں۔
ابوبکر صدیق عبد اللہ بن ابو قحافہ عثمان تیمی قرشی (573ء—634ء) اسلام کے پہلے خلیفہ راشد، عشرہ مبشرہ میں شامل، خاتم النبین محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اولین جانشین، صحابی، خسر اور ہجرت مدینہ کے وقت رفیق سفر تھے۔ اہل سنت و الجماعت کے یہاں ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ انبیا اور رسولوں کے بعد انسانوں میں سب سے بہتر، صحابہ میں ایمان و زہد کے لحاظ سے سب سے برتر اور ام المومنین عائشہ بنت ابوبکر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے محبوب تر تھے۔ عموماً ان کے نام کے ساتھ صدیق کا لقب لگایا جاتا ہے جسے حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی تصدیق و تائید کی بنا پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دیا تھا۔
ابو القاسم محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب (12 ربیع الاول عام الفیل / 8 جون 570ء یا 571ء – 12 ربیع الاول 10ھ / 8 جون 632ء) مسلمانوں کے آخری نبی ہیں۔ اہل اسلام کے نزدیک محمد تمام مذاہب کے پیشواؤں سے کامیاب ترین پیشوا تھے۔ آپ کی کنیت ابوالقاسم تھی۔ مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ کی طرف سے انسانیت کی جانب بھیجے جانے والے انبیا اکرام کے سلسلے کے آخری نبی ہیں جن کو اللہ نے اپنے دین کی درست شکل انسانوں کی جانب آخری بار پہنچانے کیلئے دنیا میں بھیجا۔ انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دنیا کی تمام مذہبی شخصیات میں سب سے کامیاب شخصیت تھے۔ 570ء (بعض روایات میں 571ء) مکہ میں پیدا ہونے والے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر قرآن کی پہلی آیت چالیس برس کی عمرمیں نازل ہوئی۔ ان کا وصال تریسٹھ (63) سال کی عمر میں 632ء میں مدینہ میں ہوا، مکہ اور مدینہ دونوں شہر آج کے سعودی عرب میں حجاز کا حصہ ہیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف کے والد کا انتقال ان کی دنیا میں آمد سے قریبا چھ ماہ قبل ہو گیا تھا اور جب ان کی عمر چھ سال تھی تو ان کی والدہ حضرت آمنہ بھی اس دنیا سے رحلت فرما گئیں۔ عربی زبان میں لفظ "محمد" کے معنی ہیں 'جس کی تعریف کی گئی'۔ یہ لفظ اپنی اصل حمد سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے تعریف کرنا۔ یہ نام ان کے دادا حضرت عبدالمطلب نے رکھا تھا۔ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو رسول، خاتم النبیین، حضور اکرم، رحمت للعالمین اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے القابات سے بھی پکارا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی آپ کے بہت نام و القاب ہیں۔ نبوت کے اظہار سے قبل حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے چچا حضرت ابوطالب کے ساتھ تجارت میں ہاتھ بٹانا شروع کر دیا۔ اپنی سچائی، دیانت داری اور شفاف کردار کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عرب قبائل میں صادق اور امین کے القاب سے پہچانے جانے لگے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنا کثیر وقت مکہ سے باہر واقع ایک غار میں جا کر عبادت میں صرف کرتے تھے اس غار کو غار حرا کہا جاتا ہے۔ یہاں پر 610ء میں ایک روز حضرت جبرائیل علیہ السلام (فرشتہ) ظاہر ہوئے اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اللہ کا پیغام دیا۔ جبرائیل علیہ السلام نے اللہ کی جانب سے جو پہلا پیغام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پہنچایا وہ یہ ہے۔
ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال (ولادت: 9 نومبر 1877ء – وفات: 21 اپریل 1938ء) بیسویں صدی کے ایک معروف شاعر، مصنف، قانون دان، سیاستدان اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھے۔ اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے اور یہی ان کی بنیادی وجہ شہرت ہے۔ شاعری میں بنیادی رجحان تصوف اور احیائے امت اسلام کی طرف تھا۔ "دا ریکنسٹرکشن آف ریلیجس تھاٹ ان اسلام" کے نام سے انگریزی میں ایک نثری کتاب بھی تحریر کی۔ علامہ اقبال کو دور جدید کا صوفی سمجھا جاتا ہے۔ بحیثیت سیاست دان ان کا سب سے نمایاں کارنامہ نظریۂ پاکستان کی تشکیل ہے، جو انہوں نے 1930ء میں الہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پیش کیا تھا۔ یہی نظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا۔ اسی وجہ سے علامہ اقبال کو پاکستان کا نظریاتی باپ سمجھا جاتا ہے۔ گو کہ انہوں نے اس نئے ملک کے قیام کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن انہیں پاکستان کے قومی شاعر کی حیثیت حاصل ہے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان جنوبی ایشیا کے شمال مغرب وسطی ایشیا اور مغربی ایشیا کے لیے دفاعی طور پر اہم حصے میں واقع ایک خود مختار اسلامی ملک ہے۔ یہ دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے، جس کی آبادی تقریباً 242 ملین ہے اور دنیا کی دوسری سب سے بڑی مسلم آبادی والا ملک ہے۔ 881,913 مربع کلومیٹر (340,509 مربع میل) کے ساتھ یہ دنیا کا تینتیسواں بڑے رقبے والا ملک ہے۔ اس کے جنوب میں 1046 کلومیٹر (650 میل) کی ساحلی پٹی ہے جو بحیرہ عرب سے ملتی ہے۔پاکستان کے مشرق ميں بھارت، شمال مشرق ميں چین اور مغرب ميں افغانستان اور ايران واقع ہيں۔ پاکستان کو شمال میں ایک تنگ واخان راہداری تاجکستان سے جدا کرتی ہے جبکہ اس ملک کی سمندری سرحدی حدود عمان کے سمندری حدود سے بھی ملتی ہیں۔
قرآن، قرآن مجید یا قرآن شریف (عربی: القرآن الكريم) دین اسلام کی مقدس و مرکزی کتاب ہے جس کے متعلق اسلام کے پیروکاروں کا اعتقاد ہے کہ وہ کلام الہی ہے اور اسی بنا پر یہ انتہائی محترم و قابل عظمت کتاب ہے۔ اسے پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی کے ذریعے اتارا گیا۔ یہ وحی اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتے حضرت جبرائیل علیہ السلام لاتے تھے جیسے جیسے قرآن مجید کی آیات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوتیں آپ صلی علیہ وآلہ وسلم اسے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو سنا اور ان آیات کے مطالب و معانی سمجھا دیتے۔ کچھ صحابہ کرام تو ان آیات کو وہیں یاد کر لیتے اور کچھ لکھ کر محفوظ کر لیتے۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن ہر قسم کی تحریف سے پاک سے محفوظ ہے، قرآن میں آج تک کوئی کمی بیشی نہیں ہو سکی اور اسے دنیا کی واحد محفوظ کتاب ہونے کی حیثیت حاصل ہے، جس کا حقیقی مفہوم تبدیل نہیں ہو سکا اور تمام دنیا میں کروڑوں کی تعداد میں چھپنے کے باوجود اس کا متن ایک جیسا ہے اور اس کی تلاوت عبادت ہے۔ نیز صحف ابراہیم، زبور اور تورات و انجیل کے بعد آسمانی کتابوں میں یہ سب سے آخری کتاب ہے اور سابقہ آسمانی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اب اس کے بعد کوئی آسمانی کتاب نازل نہیں ہوگی۔ قرآن کی فصاحت و بلاغت کے پیش نظر اسے لغوی و مذہبی لحاظ سے تمام عربی کتابوں میں اعلیٰ ترین مقام دیا گیا ہے۔ نیز عربی زبان و ادب اور اس کے نحوی و صرفی قواعد کی وحدت و ارتقا میں بھی قرآن کا خاصا اہم کردار دکھائی دیتا ہے۔ چنانچہ قرآن کے وضع کردہ عربی زبان کے قواعد بلند پایہ عرب محققین اور علمائے لغت مثلاً سیبویہ، ابو الاسود الدؤلی اور خلیل بن احمد فراہیدی وغیرہ کے یہاں بنیادی ماخذ سمجھے گئے ہیں۔
احمد خان متقی بن محمد متقی (17 اکتوبر 1817ء – 27 مارچ 1898ء) المعروف سر سید، سر سید احمد خان انیسویں صدی کے ایک ہندوستانی مسلم نظریۂ عملیت کے حامل ، مصلح اور فلسفی تھے۔ ان کو برصغیر میں مسلم قوم پرستی کا سرخیل مانا جاتا ہے اور دو قومی نظریہ کا خالق تصور کیا جاتا ہے، جو آگے چل کر تحریک پاکستان کی بنیاد بنا۔
مفتی محمد تقی عثمانی (پیدائش: 27 اکتوبر 1943ء) عالم اسلام کے مشہور عالم اور جید فقیہ ہیں۔ ان کا شمار عالم اسلام کی مشہور علمی شخصیات میں ہوتا ہے۔ 1980ء سے 1982ء تک وفاقی شرعی عدالت اور 1982ء سے 2002ء تک عدالت عظمی پاکستان کے شریعت ایپلیٹ بینچ کے جج رہے ہیں۔ وفاق المدارس العربیہ کےحالیہ صدر، بین الاقوامی اسلامی فقہ اکادمی، جدہ کے نائب صدر اور دارالعلوم کراچی کے نائب مہتمم ہیں۔ اس کے علاوہ آپ آٹھ اسلامی بینکوں میں بحیثت شرعی مشیر کام کر رہے ہیں اور البلاغ جریدے کے مدیر اعلیٰ بھی ہیں۔
جنگ احد 17 شوال 3ھ (23 مارچ 625ء) میں مسلمانوں اور مشرکینِ مکہ کے درمیان احد کے پہاڑ کے دامن میں ہوئی۔ مشرکین کے لشکر کی قیادت ابوسفیان کے پاس تھی اور اس نے 3000 سے زائد افراد کے ساتھ مسلمانوں پر حملہ کی ٹھانی تھی جس کی باقاعدہ تیاری کی گئی تھی۔ مسلمانوں کی قیادت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کی۔ اس جنگ کے نتیجہ کو کسی کی فتح یا شکست نہیں کہا جا سکتا کیونکہ دونوں طرف شدید نقصان ہوا اور کبھی مسلمان غالب آئے اور کبھی مشرکین لیکن آخر میں مشرکین کا لشکر لڑائی ترک کر کے مکہ واپس چلا گیا۔
نعمان ابن ثابت بن زوطا بن مرزبان (پیدائش: 5 ستمبر 699ء– وفات: 14 جون 767ء) (فارسی: ابوحنیفه،عربی: نعمان بن ثابت بن زوطا بن مرزبان)، عام طور پر آپکو امام ابو حنیفہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ آپ سنی حنفی فقہ (اسلامی فقہ) کے بانی تھے۔ آپ ایک تابعی، مسلمان عالم دین، مجتہد، فقیہ اور اسلامی قانون کے اولین تدوین کرنے والوں میں شامل تھے۔ آپ کے ماننے والوں کو حنفی کہا جاتا ہے۔ زیدی شیعہ مسلمانوں کی طرف سے بھی آ پ کو ایک معروف اسلامی عالم دین اور شخصیت تصور کیا جا تا ہے۔ انہیں عام طور پر "امام اعظم" کہا جاتا ہے۔
علامہ شبلی نعمانی کی پیدائش اعظم گڑھ ضلع کے ایک گاؤں بندول جیراج پور میں4 /جون 1857ء کو ہوئی تھی- ابتدائی تعلیم گھر ہی پر مولوی فاروق چریاکوٹی سے حاصل کی- 1876ء میں حج کے لیے تشریف لے گئے۔ وکالت کا امتحان بھی پاس کیا اور وکالت بھی کی مگر اس پیشہ سے دلچسپی نہ ہونے کے سبب ترک کر دی۔ علی گڑھ گئے تو سرسید احمد خان سے ملاقات ہوئی، چنانچہ فارسی کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ یہیں سے شبلی نے علمی و تحقیقی زندگی کا آغاز کیا۔ پروفیسر آرنلڈ سے فرانسیسی سیکھی۔ 1892ء میں روم اور شام کا سفر کیا۔ 1898ء میں ملازمت ترک کرکے اعظم گڑھ آ گئے۔ 1913ء میں دار المصنفین کی بنیاد ڈالی۔ 1914ء میں انتقال ہوا۔
جمعہ کی نماز فرضِ عین ہے اور اس کی فرضیت ظہر سے زیادہ موکد ہے۔ یعنی ظہر کی نماز سے اس کی تاکید زیادہ ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ جو تین جمعے سستی کی وجہ سے چھوڑے اللہ تعالٰیٰ اس کے دل پر مہر کر دے گا اور ایک روایت میں ہے وہ منافق ہے اور اللہ سے بے علاقہ۔ اور چونکہ اس کی فرضیت کا ثبوت دلیل قطعی سے ہے لہٰذا اس کا منکر کافر ہے ۔
مفتی محمد شفیع عثمانی تحریک پاکستان کے ایک اہم رہنما اور مفتی اعظم پاکستان تھے۔ آپ نے مولانا شبیر آحمد عثمانی کی دعوت پر اپنا آبائی وطن دیوبند چھوڑ کر پاکستان ہجرت کی۔ آپ کا شمار دارالعلوم دیوبند کے اہم اساتذہ میں ہوتا تھا۔ پاکستان آکر سب سے سے پہلے پاکستان میں دستور سازی کے عمل میں شریک ہوئے اور قائد اعظم کے وعدوں کے مطابق پاکستان میں نفاذ شریعت کے لیے راہ ہموار کیں۔ آپ نے کراچی کے علاقے کورنگی میں ایک وسیع و عریض مدرسہ جامع دارالعلوم کراچی قائم کیا جو آج پاکستان کا سب سے بڑا دینی مدرسہ ہے۔ آپ کے تلامذہ میں مولانا محمد صدیق شاہ قابل ذکر ہیں
اردو ادب کی دو اصناف ہیں: اردو نثر اور اردو نظم یعنی اردو شاعری۔ پھر اردو شاعری کی کئی قسمیں ہیں جن میں نظم، غزل، مثنوی، قصیدہ، مرثیہ، رباعی، مخمس، مسدس، مثمن، قطعہ، نعت وغیرہ شامل ہیں۔ ان میں سب سے مشہور صنف غزل ہے، جسے ہر خاص و عام نے قبول کیا اور سراہا ہے مگر اردو شاعری کی سب سے وسیع قسم اردو نظم ہے۔ اردو نظم میں بہت زیادہ تجربے کیے گئے ہیں اور یہی اس کی وسعت کی دلیل ہے۔ نظیر اکبر آبادی، الطاف حسین حالی، اکبر الہ آبادی اور اقبال، جوش ملیح آبادی، ساحر لدھیانوی، فیض احمد فیض، علی سردار جعفری، ن م راشد، اسماعیل میرٹھی، نظم طباطبائی نظم کے بڑے شاعروں میں سے ہیں۔ اردو میں نظم کی صنف انیسویں صدی کی آخری دہائیوں کے دوران میں انگریزی کے اثر سے پیدا ہوئی، جو دھیرے دھیرے پوری طرح قائم ہو گئی۔ نظم بحر اور قافیے میں بھی ہوتی ہے اور اس کے بغیر بھی۔ اب نثری نظم بھی اردو میں مستحکم ہو گئی ہے۔ نثری نظم کے حوالے سے میراجی، ن م راشد سے ہوتے ہوئے احمد ہمیش سے ہوتے ہوئے جواز جعفری تک سلسلہ آتا ہے؛ لیکن ایک اور بات ...! اس سارے سلسلے میں ڈاکٹر وحید احمد آج بھی نمایاں ہیں۔ موجودہ دور میں بھی نثری نظم کے بہت سے شاعر موجود ہیں۔جن میں ایک نام منصف ہاشمی کا بھی ہے۔ اس کی اس حوالے سے پہلی کتاب کا نام "مٹھی میں ستارے لیے" اور دوسری کتاب "عشق" کے نام سے منظر عام پر آئیں.
نجم الدولہ، دبیر الملک، مرزا نوشہ اسد اللہ خان غالب بہادر نظام جنگ (1797ء- 1869ء) اردو زبان کے سب سے بڑے شاعروں میں ایک سمجھے جاتے ہیں۔ یہ تسلیم شدہ بات ہے کہ 19 ویں صدی غالب کی صدی ہے۔ جبکہ 18 ویں میر تقی میر کی تھی اور 20 ویں علامہ اقبال کی۔ غالب کی عظمت کا راز صرف ان کی شاعری کے حسن اور بیان کی خوبی ہی میں نہیں ہے۔ ان کا اصل کمال یہ ہے کہ وہ زندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کو گہرائی میں جا کر سمجھتے تھے اور بڑی سادگی سے عام لوگوں کے لیے بیان کر دیتے تھے۔ غالب جس پر آشوب دور میں پیدا ہوئے اس میں انہوں نے مسلمانوں کی ایک عظیم سلطنت کو برباد ہوتے ہوئے اور باہر سے آئی ہوئی انگریز قوم کو ملک کے اقتدار پر چھاتے ہوئے دیکھا۔ غالباً یہی وہ پس منظر ہے جس نے ان کی نظر میں گہرائی اور فکر میں وسعت پیدا کی۔
اردو زبان میں سینتیس حروفِ تہجی اور سینتالیس آوازیں ہیں جن میں سے بیشتر عربی سے لیے گئے ہیں اور دیگر انہی کی مختلف شکلیں ہیں۔ کچھ حروف کئی طریقوں سے استعمال ہوتے ہیں اور کچھ مخلوط حروف بھی استعمال ہوتے ہیں جو دو حروف سے مل کر بنتے ہیں۔ بعض لوگ 'ء' کو الگ حرف نہیں مانتے مگر پرانی اردو کتب اور لغات میں اسے الگ حرف کے طور پر لکھا جاتا ہے۔ مختلف الفاظ میں یہ الگ حرف کے طور پر ہی استعمال ہوتا ہے مثلاً 'دائرہ'۔ یہ بات مدِنظر رکھنا ضروری ہے کہ اردو تختی اور اردو حروف دو مختلف چیزیں ہیں کیونکہ اردو تختی میں اردو حروفِ تہجی کی کئی اشکال ہو سکتی ہیں جن کو الگ حرف کا درجہ نہیں دیا جا سکتا بلکہ وہ ایک ہی حرف کی مختلف شکلیں ہیں۔ مثلاً نون غنہ نون کی شکل ہے اور 'ھ' اور 'ہ' ایک ہی حرف کی مختلف اشکال ہیں۔ ایک اور مثال الف ممدودہ (آ) اور الف مقصورہ (ا) کی ہے جو اردو تختی میں الگ ہیں مگر اردو کا ایک ہی حرف شمار ہوتے ہیں۔
عیسیٰ ابن مریم ایک قرآنی نبی ہیں۔ مسلمان ان کو اللہ کا برگزیدہ نبی مانتے ہیں۔ جو مخلوق خدا کی ہدایت اور رہبری کے لیے مبعوث ہوئے۔ ایک مدت تک زمین پر رہے پھر زندہ آسمان پر اٹھا لیے گئے۔ قرب قیامت آپ پھر نزول فرمائیں گےآرکائیو شدہ بذریعہ salahuddins.com اور شریعت محمدیہ پہ عامل ہوں گے۔ ایک مدت تک قیام کریں گے اور پھر وصال فرما کر مدینہ منورہ میں مدفون ہوں گے۔
اللہ کے ذاتی نام 'اللہ' کے علاوہ اللہ کے ننانوے صفاتی نام مشہور ہیں۔ انہیں کہا جاتا ہے۔ ان میں سے بیشتر قرآن میں موجود ہیں اگرچہ قرآن میں ننانوے کی تعداد مذکور نہیں مگر یہ ارشاد ہے کہ اللہ کو اچھے اچھے ناموں سے پکارا جائے۔ روایات میں بکثرت نیچے دیے گئے ننانوے صفاتی نام ملتے ہیں جن کے ساتھ ان کا اردو ترجمہ بھی درج کیا جا رہا ہے۔
رومانوی تحریک کو عموماً سرسید احمد خان کی علی گڑھ تحریک کا رد عمل قرار دیا جاتا ہے۔ کیونکہ سرسید احمد خان کی تحریک ایک اصلاحی تحریک تھی۔ یہ دور تہذیب الاخلاق کا دور تھا اور تہذیب الاخلاق کی نثر عقلیت، منطقیت، استدلال اور معنویت کی حامل تھی۔ مزید برآں تہذیب الاخلاق کا ادب مذہبی، اخلاقی، تہذیبی اور تمدنی قدروں کو وقعت کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ اس جذبے اور احساس کے خلاف رومانی نوعیت کا رد عمل شروع ہوا اور جذبے اور تخیل کی وہ رو جسے علی گڑھ تحریک نے روکنے کی کوشش کی تھی ابھرے بغیر نہ رہ سکی۔ لیکن اس سے قبل کہ رومانیت یا رومانوی تحریک کے بارے میں پڑھیں، ہم یہ دیکھ لیں کہ رومانیت سے کیا مراد ہے۔
صلوٰۃ " (نماز) کے لغوی معنی "دعا" کے ہیں۔ قرآن میں فرمانِ اللہ ہے: خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌاے پیغمبر! ان لوگوں کے اموال میں سے صدقہ وصول کرلو جس کے ذریعے تم انہیں پاک کردو گے اور ان کے لیے باعثِ برکت بنو گے، اور اُن کے لیے دعا کرو۔ یقینا! تمہاری دعا ان کے لیے سراپا تسکین ہے، اور اللہ ہر بات سنتا اور سب کچھ جانتا ہے جبکہ فرمانِ نبوی ہے: اور اللہ کی جانب سے "صلوٰۃ" کے معنی بہترین ذکر کے ہیں جبکہ ملائکہ کی طرف سے "صلوٰۃ" کے معنی دعا ہی کے لیے جائیں گے۔ قرآن میں لکھا ہے: إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًابے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو!
محمد علی جناح پیدائشی نام، محمد علی جناح بھائی، 25 دسمبر 1876ء – 11 ستمبر 1948ء) کے نامور وکیل، سیاست دان اور بانی پاکستان تھے۔ محمد علی جناح 1913ء سے لے کر پاکستان کی آزادی 14 اگست 1947ء تک آل انڈیا مسلم لیگ کے سربراہ رہے، پھر قیام پاکستان کے بعد اپنی وفات تک، وہ ملک کے پہلے گورنر جنرل رہے۔ سرکاری طور پر پاکستان میں آپ کو قائدِ اعظم یعنی سب سے عظیم رہبر اور بابائے قوم یعنی قوم کا باپ بھی کہا جاتا ہے۔ جناح کا یومِ پیدائش پاکستان میں قومی تعطیل کے طور پر منایا جاتا ہے۔کراچی کے پیدائشی اور لنکن ان سے بیرسٹری کی تربیت حاصل کرنے والے جناح، بیسویں صدی کے ابتدائی دو عشروں میں آل انڈیا کانگریس کے اہم رہنما کے طور پر ابھرے۔ اپنی سیاست کے ابتدائی ادوار میں انہوں نے ہندو مسلم اتحاد کے لیے کام کیا۔ 1916ء میں آل انڈیا مسلم لیگ اور آل انڈیا کانگریس کے مابین ہونے والے میثاق لکھنؤ کو مرتب کرنے میں بھی انہوں نے اہم کردار ادا کیا۔ جناح آل انڈیا ہوم رول لیگ کے اہم رہنماوں میں سے تھے، انہوں نے چودہ نکات بھی پیش کیے، جن کا مقصد ہندوستان کے مسلمانوں کے سیاسی حقوق کا تحفظ کرنا تھا۔ بہر کیف جناح 1920ء میں آل انڈیا کانگریس سے مستعفی ہو گئے، جس کی وجہ آل انڈیا کانگریس کے موہن داس گاندھی کی قیادت میں ستیاگرا کی مہم چلانے کا فیصلہ تھا۔1940ء تک جناح کو یہ یقین ہو چلا تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک علاحدہ وطن کی جدوجہد کرنی چاہیے۔ اسی سال، مسلم لیگ نے جناح کی قیادت میں قرارداد پاکستان منظور کی جس کا مقصد نئی مملکت کی قیام کا مطالبہ تھا۔دوسری جنگ عظیم کے دوران، آل انڈیا مسلم لیگ نے مضبوطی پکڑلی جبکہ ان ادوار میں کانگریس کے کئی رہنما قید کاٹ رہے تھے اور جنگ کے ختم ہونے کے مختصر عرصے میں ہی انتخابات کا انعقاد ہوا، جس میں جناح کی جماعت نے مسلمانوں کے لیے مختص نشستوں میں سے بڑی تعداد جیت لی۔ اس کے بعد آل انڈیا کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ متحدہ ہندوستان میں اختیارات کے توازن کے لیے کسی صیغے پر متفق نا ہو سکے نتیجتاً تمام جماعتیں اس امر پر متفق ہوگئیں کہ ہندوستان کے دو حصے کیے جائیں جن میں ایک مسلم اکثریتی علاقوں میں پاکستان جبکہ باقی ماندہ علاقوں میں بھارت کا قیام ہو۔پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کے طور پر جناح نے اپنی حکومتی پالیسیوں کے قیام کے لیے کام کیا نیز انہوں نے ان لاکھوں لوگوں کے بہبود اور آباد کاری کے لیے بھی کام کیا جو تقسیم ہند کے بعد پاکستان کی جانب ہجرت کر چلے تھے، انہوں نے ان مہاجر کیمپوں کی ذاتی طور پر دیکھ بھال کی۔ جناح 71 سال کے عمر میں انتقال کر گئے جبکہ ان کے نوزائیدہ ملک کو سلطنت برطانیہ سے آزاد ہوئے محض ایک سال کا عرصہ ہوا تھا۔ ان کی سوانح عمری لکھنے والے لکھاری،اسٹینلی وولپرٹ لکھتے ہیں کہ، وہ (یعنی جناح) پاکستان کے عظیم ترین رہنما رہیں گے۔
ہندو کتابوں کے مطابق شیوجی یگیوں اور راگوں کے مالک، درخشان، تاباں، فیاض، انسانوں، حیوانوں، گھوڑوں اور گایوں کو تندرستی دینے والے پرورش کنندہ، مرضوں کو دور کرنے والے اور گناہوں کو معافی دینے والے ہیں۔ وجر، کمان اور تیر رکھنے والے، خوفناک اور مہلک شکل جنگلی جانور کی طرح ہیں۔ انہیں ایشان، مہشیور اور مہادیو کہاجاتا ہے۔ کیوں کہ اس کی ابتدا ،انتہا اور انجام نہیں ہے۔ متبرک اما کے خاوند مثل نیل کنٹھ تین آنکھو والے اور سب سے اعلیٰ مالک ہیں۔ یہی برہما جی، یہ ہی اندر، یہی وشنوجی اور غیرفانی ہیں۔
سیدہ عائشہ بنت ابی بکر (رضی اللہ عنہا) (پیدائش: 614ء– وفات: 13 جولائی 678ء) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ ہیں۔ آپ کو اُم المومنین کے خطاب سے یاد کیا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد عہد خلفائے راشدین میں آپ کی شخصیت بہت نمایاں نظر آتی ہے۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد 47 سال بقید حیات رہیں اور یہ تمام وہ عرصہ ہے جس میں ابتدائی مسلم فتوحات ہوئیں، مختلف ممالک مملکت اسلامیہ میں داخل ہوئے۔ علم الحدیث میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایات کے بعد سب سے زیادہ روایاتِ حدیث کا ذخیرہ آپ سے ہی روایت کیا گیا ہے۔ آپ عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور عہد خلفائے راشدین کی عینی شاہد بھی تھیں اور مزید برآں آپ نے خلافت امویہ کے ابتدائی 17 سال بھی ملاحظہ فرمائے۔ آپ کا انتقال مدینہ منورہ میں سنہ 678 ء میں ہوا۔ آپ کے مناقب و فضائل کثیر ہیں جس سے آپ کی عظمت و شان جلالت مسلم خواتین پر نمایاں ہے۔جنگ جمل کے حوالے سے یہ بات معلوم ہونا بھی مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ کچھ احادیث اور تاریخی کتابوں کے واقعات میں راویوں پر علما اسلام کی طرف سے جرح بھی کی گئی ہے اور بہت سے راویوں کے حالات معلوم نہیں ہیں ۔مسلمان امت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اہل بیت اطھار کے بارے میں صحیح عقائد قرآن وسنت اور مستند و صحیح احادیث نبوی سے لیتے
تقویم کے لغوی معنی کیلنڈر کے ہیں، مگر اصطلاح میں کواکب کی حرکات اور دائرۃ البروج میں مقام کی جدولیں پر مشتمل رسالے کو تقوم (Ephemeris) کہتے ہیں۔ کواکب کی بروج میں پوزیشن کے علاوہ تقویم میں نیرین (شمس و قمر) کے اوقات طلوع و غروب، منازل قمر، کوکبی وقت (سڈرل ٹائم) اور نظرات کی تفصیل بھی دی ہوتی ہے۔ امریکہ اور یورپ میں تقویم کی ترتیب و طباعت کا کام نہایت سائنسی بنیادوں ہوتا ہے۔ ہندوستان میں بھی تقویم سازی کے کئی تحقیقی مراکز قائم ہیں۔ پاکستان میں چونکہ نجوم نہ تو سائنسی بنیادوں پر استوار ہے اور نہ اس کے معلمین اور قاریئن تعلیم یافتہ ہیں، لہذا یہ تاحال ’’جنتری‘‘ کا ہی ضعیف حصہ ہے۔
سانحۂ کربلا یا واقعہ کربلا یا کربلا کی جنگ 10 محرم 61ھ (بمطابق 9 یا 10 اکتوبر، 680ء) کو موجودہ عراق میں کربلا کے مقام پر پیش آیا۔ یہ جنگ نواسہ رسول حضرت امام حسین ابن علی، ان کے حامیوں اور رشتہ داروں کے ایک چھوٹے سے گروہ، حسین ابن علیؓ کے ساتھ 72 ساتھی، کچھ غلام، 22 اہل بیت کے جوان اور خاندان نبوی کی کچھ خواتین و بچے شامل تھے اور اموی ظالم حکمران یزید اول کی ایک بڑی فوج کے مابین ہوئی۔جس کو حسین نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔جس میں اموی خلیفہ یزید اول کی فوج نے پیغمبر اسلام محمد کے نواسے حسین ابن علی اور ان کے رفقا کو لڑائی میں شہید کیا، حرم حسین کے خیموں کو لوٹ لیا گیا اور بالآخر آگ لگا دی گئی۔ عمر بن سعد کی فوج نے کربلا کے صحرا میں مقتولین کی لاشیں چھوڑ دیں۔ بنی اسد کے لوگوں نے لاشوں کو تین دن بعد دفن کیا۔ واقعہ کربلا کے بعد، حسین ابن علی کی فوج سے وابستہ متعدد خواتین اور بچوں کو گرفتار کر کے قید کر دیا گیا، بازار اور ہجوم والے مقامات سے گزر کر ان کی توہین کی گئی اور انہیں یزید ابن معاویہ کے دربار شام بھیج دیا گیا تھا۔ جنگ میں شہادت کے بعد حضرت امام حسین کو سید الشہدا کے لقب سے پکارا جاتا ہے۔
فرانسیسی ((فرانسیسی: français) - فغان٘سے) ہند یورپی زبانوں کے خاندان کی ایک زبان ہے جس کا تعلق رومنی زبانوں سے ہے۔ یہ رومنی سلطنت کی عامیانہ لاطینی زبان سے بنی ہے جیسا کہ تمام رومنی زبانوں کے ساتھ ہوا ہے۔ فرانسیسی زبان گولو رومنی زبان سے ترقی کرتی ہوئی اپنی نئی شکل میں وجود پزیر ہوئی ہے۔ گول رومنی گول علاقہ کی لاطینی زبان ہے۔ بالخصوص شمالی گول میں یہ رائج ہے۔ فرانسیسی ایک سے زیادہ براعظموں میں 29 ممالک میں ایک سرکاری زبان ہے، جن میں سے اکثرفرانسیسی بین الاقوامی تنظیم (او آئی ایف) کے ارکان ہیں، 84 ممالک کی کمیونٹی جو فرانسیسی کے سرکاری استعمال یا تدریس کا حصہ ہے. فرانسیسی اقوام متحدہ میں استعمال ہونے والے چھ سرکاری زبانوں میں سے ایک ہے. یہ فرانس میں، پہلی زبان (اسپیکر کی تعداد میں کمی کے تحت)، کیوبیک صوبوں، اونٹاریو اور نیو برنوک کے ساتھ ساتھ دیگر فرانکوفون کے علاقوں، بیلجیم (والونیا اور برسلز - دارالحکومت خطے)، مغربی سوئٹزرلینڈ (برن، کینبرٹ، جیووا، جرا، نیوچنٹ، وڈ، وایلس)، موناکو، جزوی طور پر لیگزیانہ، لوئیسیا، ریاست، نیویارک، نیو ہاسپھائر اور ورمونٹ میں ریاستہائے متحدہ امریکہ میں، اور آستین وادی کے علاقے میں، اور آستین وادی کے علاقے میں، اور آستین وادی میں.2015 میں، فرانسسکون آبادی کا تقریبا 40 فیصد (ایل 2 اور جزوی اسپیکرز سمیت) یورپ میں، 35 فیصد ذیلی سہارا افریقہ میں، شمالی افریقہ میں مشرق وسطی اور مشرق وسطی میں 15 فیصد، اور ایشیا اور اوقیانوسیہ میں 1٪.
فلم (film)، جسے مووی (movie) یا متحرک تصویر (motion picture) بھی کہا جاتا ہے، ساکت تصاویر کا ایسا سلسلہ ہوتا ہے جو پردے (اسکرین) پر یوں دکھایا جاتا ہے کہ اس پر متحرک ہونے کا دھوکا ہوتا ہے۔ مختلف اشیا کو تسلسل کے ساتھ تیز رفتاری سے دکھائے جانے کے باعث یہ بصری دھوکا ناظرین کو احساس دلاتا ہے کہ وہ مسلسل متحرک اشیا دیکھ رہے ہیں۔ ایک موشن پکچر کیمرے کے ذریعے اصل مناظر کی عکس بندی کرکے فلم تخلیق کی جاتی ہے۔ موشن پکچرے کیمرے کے ذریعے اصل مناظر کی عکس بندی؛ تصاویر یا روایتی اینیمیشن تکنیکیں استعمال کرتے ہوئے چھوٹی شبیہوں کی عکس بندی؛ سی جی آئی اور کمپیوٹر اینیمیشن کے ذریعے؛ یا ان میں سے بعض یا تمام تر تکنیکیوں اور دیگر بصری اثرات (visual effects) استعمال کرتے ہوئے فلم تخلیق کی جاتی ہے۔ لفظ ’’سینما‘‘ (cinema) عمومماً فلم اور فلم سازی یا فنِ فلم سازی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ سینما کی رائج تعریف کے مطابق یہ خیالات، کہانیاں، احساسات، جذبات، خوب صورتی یا ماحول کے ابلاغ کے تجربات کی نقل پیش کرنے کا فن ہے۔فلم سازی کا عمل فن بھی ہے اور صنعت بھی۔ ابتدا میں فلمیں پلاسٹک جھلی پر نقش کی جاتی تھیں جنھیں مووی پروجیکٹر کے ذریعے بڑے پردے پر دکھایا جاتا تھا (بہ الفاظِ دیگر، اینالوگ ریکارڈنگ عمل)۔ سی جی آئی پر مبنی خصوصی اثرات کے استعمال سے فلم تخلیق کیے جانے کے ڈیجیٹل ذرائع کے استعمال کی طرف پیش رفت ہوئی۔ اب عصرِ حاضر کی زیادہ تر فلمیں پروڈکشن، تقسیم اور نمائش، گویا آغاز سے لے کر انجام تک، مکمل طور پر ڈیجیٹل ہوتی ہیں۔
غے یونیوں (فرانسیسی: Réunion، پرانا نام: La Réunionِ Île Bourbon) فرانس کے قبضہ میں ایک سمندر پار جزیرہ ہے جو بحر ہند میں مڈغاسکر کے مشرق میں اور موریشس کے جنوب مشرق میں ہے۔ یہ موریشس سے 200 کلومیٹر کی مسافت پر ہے۔ اس کا دار الحکومت سینٹ ڈینس ہے۔ اس جزیرے میں 273,254 ہندو لوگ آباد ہیں جو مجموعی آبادی کے 31 فیصد حصہ بناتے ہیں۔
جرمن زبان یا آلمانی زبان یا آلمانوی زبان (تلفظ:آلمانی، [ˈdɔʏtʃ] ( سنیے)) وسطی یورپ کے ملکوں جرمنی، آسٹریا، سوئٹزرلینڈ اور لختنشٹائن(لیخٹِن شٹائن) کے لوگوں کی زبان ہے۔ جرمن زبان کا شمار دنیا کی اہم زبانوں میں ہوتا ہے۔ اس کے بولنے والوں کی تعداد 12 کروڑ 20 لاکھ کے قریب ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ ترجمے جرمن زبان میں ہوتے ہیں اور یہ رومن رسم الخط میں اِرقام کی جاتی ہے۔ اس کے کئی لہجے ہیں۔ جرمن صوبے زیریں سیکسنی (ساکسونی)کے شہر ہینور (ھانوفر)کی زبان مستند سمجھی جاتی ہے۔ دوسری جنگ عظیم تک سائنس کی زبان جرمن تھی۔
تاریخ جامع انسانی کے انفرادی و اجتماعی عمال و افعال اور کردار کا آئینہ دار ہے۔ تاریخ انسانی زندگی کے مختلف شعبوں میں گزشتہ نسلوں کے بیش بہا تجربات آئندہ نسلوں تک پہنچاتی ہے، تاکہ تمذن انسانی کا کارواں رواں دواں رہے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہی ہے کہ اس کے توسط سے افراد و قوم ماضی کے دریچے سے اپنے کردہ اور نا کردہ اعمال و افعال پر تنقیدی نظر ڈال کر اپنے حال و استقبال کو اپنے منشا و مرضی کے مطابق ڈھال سکے۔ (ڈاکٹر آفتاب اصغر، مقدمہ تاریخ مبارک شاہی۔ 21)
سیاحت تفریحی، فرحت بخشانہ،صحت افزائی، اطمینان بخشی یا قدرتی نظاروں کو دیکھنے کے مقاصد کے لیے سفر ہے۔2011 میں سیاحت ایک مقبول عالمی تفریحی سرگرمی بن چکی ہے۔ ورلڈ ٹورازم آرگنائزیشن یہ پیشگوئی کرتا ہے کہ ایک سے دوسرے مُلک سفر کرنے والے لوگوں کی تعداد1997ء میں 631 ملین سے سنہ 2020ء تک 1 اعشاریہ 6 بلین تک بڑھ جائیگی۔ جس میں تاحال کوئی کمی نظر نہیں آتی۔ طلب کی اس افزائش کی وجہ سے کاروبار، تفریحگاہوں اور سیاحوں کے لیے خدمات فراہم کرنے والے ممالک کی تعداد میں افزائش کی گئی تھی۔ سیاحت نہ صرف سیر و تفریح اور صحت افزائی کے لیے مفید ہے بلکہ سیاحت سے مقامی آبادی اور اس ملک کے اقتصاد کو تقویت ملتی ہے۔ لوگوں کو کام کے مواقع فراہم ہوتے ہیں۔ سیاحت سے مختلف ثقافتوں اور خطے سے تعلق رکھنے والے لوگوں ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے اور مختلف اچھی چیزیں ایک معاشرے سے دوسرے میں رائج ہوجاتی ہیں۔ سیاحت کے مختلف اقسام ہیں جیسے قدرتی نظاروں کو دیکھنے والا سیاحت، مذہبی سیاحت جس میں لوگ مختلف مذہبی جگہوں کو دیکھنے جاتے ہیں،تاریخی سیاحت جس میں لوگ آثار قدیمہ وغیرہ دیکھتے ہیں۔
دانت (جمع دانتوں) فقاری جانداروں کے منہ میں پائے جانے والے چھوٹے چھوٹے سخت اور نوکیلے سفید رنگ کے ہوتے ہیں جو غذا کو توڑنے، چبانے یا چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کے کام آتے ہیں۔ خاص طور پر گوشت خور جاندار دانتوں کی مدد سے شکار بھی کرتے ہیں اور اپنے بچاؤ یا دفاع کے لیے بھی دانتوں کو استعمال کرتے ہیں۔ دانتوں کی جڑیں منہ میں موجود مسوڑوں میں ہوتی ہیں، جہاں یہ نہایت مضبوطی سے جڑے ہوتے ہیں۔ یہ نوکیلے اور سخت دانت ہڈی کے نہیں بلکہ ٹھوس نسیج کے بنے ہوتے ہیں۔ دانت پستانیہ جانداروں میں پائے جانے والی امتیازی (اور طویل عرصے تک رہنے والی) صفات میں سے ایک ہے۔
نوٹرے ڈیم پیرس کیتھیڈرل (فرانسیسی: Cathédrale Notre Dame de Paris) فرانس کے شہر پیرس میں گیارہویں صدی عیسوی کا ایک تاریخی چرچ جو فرانس کی قومی اور ثقافتی یادگار کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ یہ چرچ دریائے سین کے جزیرے سیتہ کے بیچ پیرس کے چوتھے ضلعے میں واقع ہے۔ ہر سال 13 ملین افراد اس کی زیارت کو آتے ہیں۔ اس کو نوٹرے ڈیم ڈی پیرس بھی کہا جاتا ہے، جس کا لفظی معنی ”خاتونِ پیرس“ (آئور لیڈی آف پیرس) ہے۔
کراٹے (جاپانی: 空手) (جاپانی تلفظ : [kaɽate] ایک مارشل آرٹ کا کھیل ہے جو جزائر ریوکیو میں شروع کیا گیا جو آج کے دور میں اوکیناوا، جاپان کے نام سے جانا جاتا ہے۔ کراٹے کا کھیل کشتی کے دیسی طریقے سے اخذ کیا گیا ہے جسے "ٹی" (جاپانی: 手) کا نام دیا جاتا ہے جس کا لفظی مطلب ہے ہاتھ۔کراٹے کی تربیت حاصل کرنے والے/والی کھلاڑی کو کراٹیکا کہا جاتا ہے۔
خدا فارسی زبان کا لفظ ہے جو خود اور آ کا مرکب ہے جس کا معنی وہ پیدا کرنے والا کہ جو خود بخود ہو اور اس کو کسی نے پیدا نہ کیا ہو۔ خدا اور اللہ دونوں مترادف لفظ ہیں جس کا معنی ہے قادر مطلق، خالق ومالک کل، اور بغیر ماہیت کے غیبی وجود کہ جس کو درک نہ کیا جاسکے۔ انگریزی میں اس کو حرفِ کبیر سے شروع کر کے God لکھا جاتا ہے اور واحد، یکتا اور ناقابلِ شریک قادرِ مطلق کا تصور توحیدیت پر قائم ادیان میں پایا جاتا ہے جن کو مشترکہ طور پر ابراہیمی ادیان کہتے ہیں؛ قابل ذکر بات یہ ہے کہ کثرت پرستی میں بھی بعض اوقات متعدد خداؤں میں سب سے عظیم یا ایک بڑے خدا کے لیے اس کا استعمال دیکھنے میں آتا ہے۔ گو کہ اس مضمون کی خاطر، رب، کا عنوان بھی اختیار کیا جاسکتا تھا لیکن اول تو یہ کہ اردو میں عموماً God کے لیے خدا کا متبادل ہی سب سے اول تسلیم کیا جاتا ہے اور دوم یہ کہ رب کا لفظ اختیار کرتے وقت بھی رب کا اسلامی تصور اللہ ہی کے بارے میں ہوتا ہے اور یوں رب کے عنوان کی صورت میں بھی وہی تمام احتیاط لازم آتی ہیں جو موجودہ عنوان کی صورت لازم ہیں۔
کھوج بینی (انگریزی: Discovery) کسی نئی چیز کو ڈھونڈ کر نکالنے یا کسی سابقًا غیر تسلیم شدہ شے کو معنی خیز بتانے کے عمل کو کہا جاتا ہے۔ سائنس اور تعلیمی شعبوں میں کھوج بینی نئے مظاہروں، عملوں یا واقعات کا مشاہدہ ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ نئی توجیہ کی فراہمی ہے تاکہ ان مشاہدات میں ماخوذ معلومات کو سابق میں حاصل کردہ معلومات کی روشنی میں سمجھانے کی کوشش ہے جو مجرد خیالات اور روز آنہ کے تجربوں پر مشتمل ہو سکتی ہے۔ تازہ کھوج بینی کبھی کبھار سابقہ کھوج بینی، مشارکتوں یا ترکیبوں پر مبنی ہو سکتی ہے۔ کچھ کھوج بینیاں معلومات یا ٹیکنالوجی کے شعبے میں انقلابی تبدیلیاں لا سکتی ہیں۔
پونہ (با ابجدیہ: [puɳe] English: ؛)پونے (انگریزی: Punetranslate) (با ابجدیہ: [puɳe]; English: )، بھارت کی ریاست مہاراشٹر کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ ریاست کا سب سے بڑا شہر ممبئی ہے۔ اسے پونہ\پونا بھی کہا جاتا ہے اور یہی اس کا قدیم نام ہے جو 1978ء تک رائج تھا۔ آبادی کے لحاظ سے یہ بھارت کا نواں بڑا شہر ہے۔ اس کی مجموعی آبادی تقریباً 3.13 ملین ہے۔ پونے شہر آئے دن بڑھتا اور پھیلتا رہا ہے اور اس کا پھیلاو پمپری-چنچواڑ اور تین چھاونی شہر جیسے کھڑکی اور دیہو روڈ کو ملا کر پونے کا ایک نیا شہری علاقہ بنتا ہے جسے پونے میٹروپولیٹن علاقہ (پی ایم آر) کہا جاتا ہے۔ مردم شماری، 2011ء کے مطابق پونے شہری علاقوں کی کل آبادی ہے 5.05 ملین ہے جبکہ پونے میٹروپولیٹن علاقہ کی آبادی 7.27 ملین ہے۔ ممبئی میٹروپولیٹن اور ناسک میٹروپولیٹن کے ساتھ مل کر پونے میٹروپولیٹن علاقہ ایک بڑا علاقہ بناتا ہے جسے میگاپولس کہتے ہیں اور اس کا دوسرا نام ممبئی میگاریجن ہے۔ اسے مہاراشٹر کا سنہری مثلث بھی کہا جاتا ہے اور میگاپولس کی کل آبادی 50 ملین ہے اور یہ دنیا کا سب سے بڑا آباد شہری علاقہ ہے۔ پونے سطح مرتفع دکن پر 560 میٹر (1,837 فٹ) سطح سمندر سے میٹر بلند ہے اور دریائے موتھا کے کنارے آباد ہے۔ یہ ضلع پونہ کا انتظامی دفتر بھی ہے۔ 18ویں صدی میں یہ شہر مرہٹہ سلطنت کی وزارتِ عظمیٰ پیشوا راج کا پایہ تخت تھا اور اس طرح یہ بر صغیر کے اہم سیاسی مراکز میں سے ایک تھا۔ خوشحال زندگی کے پیمانہ پر پونے بھارت کا اول نمبر شہر ہے۔پونے مہاراشٹر کی ثقافتی راجدھانی بھی ہے۔ متعدد نامور تعلیمی اداروں کے جائے قیام ہونے کی وجہ سے پونے کو مشرق کا آکسفرڈ بھی کہا جاتا ہے۔گزشتہ دہائیوں میں شہر ایک بڑا تعلیم گاہ بن کر سامنے آیا ہے اور ملک بھر میں موجود غیر ملکی طالبعلموں کی نصف آبادی پونے میں ہی مقیم ہے۔ اطلاعاتی ٹیکنالوجی کے تحقیقی ادارے، تعلیم، انتظام اور تربیتی اداروں کی کثرت کی وجہ سے ملک و بیرون ملک سے اکثر طالبعلم یہاں کا رخ کرتے ہیں۔ پونے کے کئی کالج یورپ کے کالجوں کے ساتھ تبادلہ طلاب کا پروگرام چلاتے ہیں۔
باغ و بہار میر امن دہلوی کی تصنیف کردہ ایک داستان ہے جو اُنھوں نے فورٹ ولیم کالج میں جان گلکرسٹ کی فرمائش پر لکھی۔ عام خیال ہے کہ باغ و بہار کو میر امن نے امیر خسرو کی فارسی داستان قصہ چہار درویش سے اردو میں ترجمہ کیا ہے لیکن یہ خیال پایہ استناد کو نہیں پہنچتا۔ حافظ محمود شیرانی نے تحقیق سے یہ ثابت کیا ہے کہ اس قصے کا امیر خسرو سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں ان کے مطابق یہ قصہ محمد علی معصوم کی تصنیف ہےباغ و بہار فورٹ ولیم کالج کی دین ہے جو انگریزوں کو مقامی زبانوں سے آشنا کرنے کے لیے قائم کیا گیا تھا اور یہیں میر امن نے باغ و بہار کو جان گل کرائسٹ کی فرمائش پر میر حسین عطا تحسین کی نو طرز مرصع سے استفادہ کرکے تصنیف کیا۔ اس طرح یہ داستان اردو نثر میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے اور اسے بجا طور پر جدید اردو نثر کا پہلا صحیفہ قرار دیا گیا ہے۔ اس داستان کی اشاعت کے بعد اردو نثر میں پہلی مرتبہ سلیس زبان اور آسان عبارت آرائی کا رواج ہوا اور آگے چل کر غالب کی نثر نے اسے کمال تک پہنچا دیا۔ اسی بنا پر مولوی عبدالحق کا کہنا ہے کہ اردو نثر کی ان چند کتابوں میں باغ و بہار کو شمار کیا جاتا ہے جو ہمیشہ زندہ رہنے والی ہیں اور شوق سے پڑھی جائیں گی۔ بقول سید محمد، "میر امن نے باغ و بہار میں ایسی سحر کاری کی ہے کہ جب تک اردو زبان زندہ ہے مقبول رہے گی اور اس کی قدر و قیمت میں مرورِ ایام کے ساتھ کوئی کمی نہ ہوگی۔" نیز سید وقار عظیم کے الفاظ میں "داستانوں میں جو قبول عام باغ و بہار کے حصے میں آیا ہے وہ اردو کی کسی اور داستان کو نصیب نہیں ہوا"۔
توکیو (جاپانی: 東京 تلفظ: توکیو) جسے رسماً (یا باضابطہ) طور پر، میٹروپولس توکیو (جاپانی: 東京都 تلفظ: توکیو تُو) کہا جاتا ہے، جاپان کے 47 پریفیکچر میں سے ایک اور دارالخلافہ کی حیثیت کا حامل شہر ہے۔ اپنے وقوع کے لحاظ سے یہ شہر جاپان کے رئیسی جزیرے ہونشوُ پر مشرق کی جانب واقع ہے۔ آج کے توکیو کو 23 تحصیلوں (wards) میں تقسیم کیا گیا ہے جس میں سے ہر ایک کا انتظام ایک الگ شہر کے طور پر چلایا جاتا ہے اور اس اقلیمِ توکیو میں مشرق کی جانب وہ تمام علاقہ بھی شامل ہو جاتا ہے جسے تاریخی طور پر شہرِ توکیو کہا جاتا تھا۔ توکیو شہر کی آبادی ایک کروڑ بیس لاکھ سے تجاوز (12,790,000) کر چکی ہے، جو جاپان کی کل آبادی (12 کروڑ) کا 10% بنتی ہے۔ اس اقلیمِ توکیو کو اپنے گرد و نواح کے شہری علاقے یعنی چیبا، کاناگاوا اور سائتاما کے اقالیم کے ساتھ ملا کر 3 کروڑ 50 لاکھ کی آبادی والا دنیا کا گنجان ترین ام البلاد اور 2005ء کی تعادل قوت خرید (purchasing power parity) کے مطابق دس کھرب سے زیادہ (US$1.191 trillion) GDP والی دنیا کی سب سے بڑی ام البلاد معیشت بنانے کا اعزاز حاصل ہے۔
زرتشتی مذہب کی رو سے دنیا میں دو طاقتیں کارفرما ہیں۔ ایک نیکی کی، جس کا نام اہورامزد یا ارمزد (انگریزی: Ahura Mazda) ہے اور دوسری برائی کی، جس کا نام اہرمن ہے۔ اول الذکر طاقت، سورج، چاند، ستارے، ہوا، بارش اور کائنات کی ہر چیز کے پیچھے سرگرم عمل ہے اور بقائے حیات کے لیے ضروری ہے۔ برخلاف اس کے اہرمن جھوٹ اور فریب کی علم بردار طاقت ہے اور نسل انسانی کو ہلاکت کے گڑھے میں دھکیلنے کے درپے رہتی ہے۔
برصغیر پاک و ہند میں 1857ء کی ناکام جنگ آزادی اور سقوطِ دہلی کے بعد مسلمانان برصغیر کی فلاح و بہبودگی ترقی کے لیے جو کوششیں کی گئیں، عرف عام میں وہ ”علی گڑھ تحریک “ کے نام سے مشہور ہوئیں۔ سر سید نے اس تحریک کا آغاز جنگ آزادی سے ایک طرح سے پہلے سے ہی کر دیا تھا۔ غازی پور میں سائنٹفک سوسائٹی کا قیام اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ لیکن جنگ آزادی نے سرسید کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کیے اور ان ہی واقعات نے علی گڑھ تحریک کو بارآور کرنے میں بڑی مدد دی۔ لیکن یہ پیش قدمی اضطراری نہ تھی بلکہ اس کے پس پشت بہت سے عوامل کارفرما تھے۔ مثلاً راجا رام موہن رائے کی تحریک نے بھی ان پر گہرا اثر چھوڑا۔
غصہ، غیظ یا غضب (انگریزی: Anger) ایک شدید جذبہ ہے۔ اس میں ایک سخت اضطراب آمیز اور غیر دوستانہ رد عمل شامل ہوتا ہے جو کسی شخص کی جانب سے محسوس کردہ اشتعال انگیزی، جذباتی مجروحیت یا دھمکی پر مرکوز ہوتا ہے۔ غصہ اس وقت ہو سکتا ہے جب ایک شخص یہ محسوس کرے کسی کی شخصی حد بندی کو پامال کیا جا رہا ہے یا جانے والا ہے۔ کچھ لوگوں کے پاس ایک آموختہ رجحان ہوتا ہے کہ وہ غصے کو جھیلنے کے کے لیے انتقام سے کام لیتے ہیں۔ ریمنڈ نوواکو جو یونیورسٹی آف کیلی فورنیا اروین میں 1975ء سے اس موضوع پر اچھا خاصا مواد تیار کر چکے ہیں، غصے کو تین زمروں میں بند کرتے ہیں:
نقل حرفی (انگریزی: Transliteration) دراصل کسی کلمے یا لفظ کو اس کی ادائیگی یا آواز کے مطابق ایک رسم الخط سے دوسرے رسم الخط میں لکھنے کو کہا جاتا ہے۔ مثلاً اگر کسی بھی زبان کے لفظ کو اردو میں اس کی ادائیگی کے لحاظ سے لکھا جائے جیسے Big Bang کو بگ بینگ تو یہ عمل نقل حرفی کہلائے گا، اس کو تلفظ نویسی بھی کہتے ہیں۔
نریندر دامودر داس مودی (گجراتی: નરેન્દ્ર મોદી) بھارتی سیاست دان اور موجودہ وزیر اعظم ہیں۔ اس سے قبل مودی گجرات (بھارت) کے وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں۔ ان کی پیدائش 17 ستمبر 1950ء کو شمالی گجرات کے مہسانہ ضلع میں ہوئی۔ مودی کا سیاسی سفر 1984ء میں شروع ہوا۔ جب آر ایس ایس نے اپنے چند ارکان کو بھارتیہ جنتا پارٹی میں بھیجا، ان میں مودی بھی شامل تھے۔ انہوں نے لال کرشن اڈوانی کی سومناتھ – ایودھیا یاترا اور مرلی منوہر جوشی کی کنیاکماری – کشمیر یاترا میں حصہ لیا۔ سنہ 1995ء میں انہوں نے گجرات میں انتخابات کے پرچار کی ذمہ داری نبھائی۔