اردو ویکیپیڈیا کے سب سے زیادہ ملاحظہ کردہ مضامین کی فہرست۔ مزید معلومات کے لیے ۔ ۔ ۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان جنوبی ایشیا کے شمال مغرب وسطی ایشیا اور مغربی ایشیا کے لیے دفاعی طور پر اہم حصے میں واقع ایک خود مختار اسلامی ملک ہے۔ یہ دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے، جس کی آبادی تقریباً 242 ملین ہے اور دنیا کی دوسری سب سے بڑی مسلم آبادی والا ملک ہے۔ 881,913 مربع کلومیٹر (340,509 مربع میل) کے ساتھ یہ دنیا کا تینتیسواں بڑے رقبے والا ملک ہے۔ اس کے جنوب میں 1046 کلومیٹر (650 میل) کی ساحلی پٹی ہے جو بحیرہ عرب سے ملتی ہے۔پاکستان کے مشرق ميں بھارت، شمال مشرق ميں چین اور مغرب ميں افغانستان اور ايران واقع ہيں۔ پاکستان کو شمال میں ایک تنگ واخان راہداری تاجکستان سے جدا کرتی ہے جبکہ اس ملک کی سمندری سرحدی حدود عمان کے سمندری حدود سے بھی ملتی ہیں۔
ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال (ولادت: 9 نومبر 1877ء – وفات: 21 اپریل 1938ء) بیسویں صدی کے ایک معروف شاعر، مصنف، قانون دان، سیاستدان اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھے۔ اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے اور یہی ان کی بنیادی وجہ شہرت ہے۔ شاعری میں بنیادی رجحان تصوف اور احیائے امت اسلام کی طرف تھا۔ "دا ریکنسٹرکشن آف ریلیجس تھاٹ ان اسلام" کے نام سے انگریزی میں ایک نثری کتاب بھی تحریر کی۔ علامہ اقبال کو دور جدید کا صوفی سمجھا جاتا ہے۔ بحیثیت سیاست دان ان کا سب سے نمایاں کارنامہ نظریۂ پاکستان کی تشکیل ہے، جو انہوں نے 1930ء میں الہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پیش کیا تھا۔ یہی نظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا۔ اسی وجہ سے علامہ اقبال کو پاکستان کا نظریاتی باپ سمجھا جاتا ہے۔ گو کہ انہوں نے اس نئے ملک کے قیام کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن انہیں پاکستان کے قومی شاعر کی حیثیت حاصل ہے۔
انا لله و انا الیہ راجعون ((عربی: إِنَّا لِلَّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ)) قرآن میں سورۃ البقرہ کی آیت 156 کے ایک حصے سے لیا گیا ہے۔، کا مطلب ہے "ہم خدا کے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔" جب مسلمان کسی کی موت یا مصیبت کا سنتے ہیں تو یہ آیت پڑھتے ہیں۔ وہ اس آیت کو تعزیت کہنے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں اور مصیبت کے وقت صبر کا مطالبہ کرتے ہیں۔
ابو القاسم محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب (12 ربیع الاول عام الفیل / 8 جون 570ء یا 571ء – 12 ربیع الاول 10ھ / 8 جون 632ء) مسلمانوں کے آخری نبی ہیں۔ اہل اسلام کے نزدیک محمد تمام مذاہب کے پیشواؤں سے کامیاب ترین پیشوا تھے۔ آپ کی کنیت ابوالقاسم تھی۔ مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ کی طرف سے انسانیت کی جانب بھیجے جانے والے انبیا اکرام کے سلسلے کے آخری نبی ہیں جن کو اللہ نے اپنے دین کی درست شکل انسانوں کی جانب آخری بار پہنچانے کیلئے دنیا میں بھیجا۔ انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دنیا کی تمام مذہبی شخصیات میں سب سے کامیاب شخصیت تھے۔ 570ء (بعض روایات میں 571ء) مکہ میں پیدا ہونے والے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر قرآن کی پہلی آیت چالیس برس کی عمرمیں نازل ہوئی۔ ان کا وصال تریسٹھ (63) سال کی عمر میں 632ء میں مدینہ میں ہوا، مکہ اور مدینہ دونوں شہر آج کے سعودی عرب میں حجاز کا حصہ ہیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف کے والد کا انتقال ان کی دنیا میں آمد سے قریبا چھ ماہ قبل ہو گیا تھا اور جب ان کی عمر چھ سال تھی تو ان کی والدہ حضرت آمنہ بھی اس دنیا سے رحلت فرما گئیں۔ عربی زبان میں لفظ "محمد" کے معنی ہیں 'جس کی تعریف کی گئی'۔ یہ لفظ اپنی اصل حمد سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے تعریف کرنا۔ یہ نام ان کے دادا حضرت عبدالمطلب نے رکھا تھا۔ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو رسول، خاتم النبیین، حضور اکرم، رحمت للعالمین اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے القابات سے بھی پکارا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی آپ کے بہت نام و القاب ہیں۔ نبوت کے اظہار سے قبل حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے چچا حضرت ابوطالب کے ساتھ تجارت میں ہاتھ بٹانا شروع کر دیا۔ اپنی سچائی، دیانت داری اور شفاف کردار کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عرب قبائل میں صادق اور امین کے القاب سے پہچانے جانے لگے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنا کثیر وقت مکہ سے باہر واقع ایک غار میں جا کر عبادت میں صرف کرتے تھے اس غار کو غار حرا کہا جاتا ہے۔ یہاں پر 610ء میں ایک روز حضرت جبرائیل علیہ السلام (فرشتہ) ظاہر ہوئے اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اللہ کا پیغام دیا۔ جبرائیل علیہ السلام نے اللہ کی جانب سے جو پہلا پیغام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پہنچایا وہ یہ ہے۔
قرآن، قرآن مجید یا قرآن شریف (عربی: القرآن الكريم) دین اسلام کی مقدس و مرکزی کتاب ہے جس کے متعلق اسلام کے پیروکاروں کا اعتقاد ہے کہ وہ کلام الہی ہے اور اسی بنا پر یہ انتہائی محترم و قابل عظمت کتاب ہے۔ اسے پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی کے ذریعے اتارا گیا۔ یہ وحی اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتے حضرت جبرائیل علیہ السلام لاتے تھے جیسے جیسے قرآن مجید کی آیات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوتیں آپ صلی علیہ وآلہ وسلم اسے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو سنا اور ان آیات کے مطالب و معانی سمجھا دیتے۔ کچھ صحابہ کرام تو ان آیات کو وہیں یاد کر لیتے اور کچھ لکھ کر محفوظ کر لیتے۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن ہر قسم کی تحریف سے پاک سے محفوظ ہے، قرآن میں آج تک کوئی کمی بیشی نہیں ہو سکی اور اسے دنیا کی واحد محفوظ کتاب ہونے کی حیثیت حاصل ہے، جس کا حقیقی مفہوم تبدیل نہیں ہو سکا اور تمام دنیا میں کروڑوں کی تعداد میں چھپنے کے باوجود اس کا متن ایک جیسا ہے اور اس کی تلاوت عبادت ہے۔ نیز صحف ابراہیم، زبور اور تورات و انجیل کے بعد آسمانی کتابوں میں یہ سب سے آخری کتاب ہے اور سابقہ آسمانی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اب اس کے بعد کوئی آسمانی کتاب نازل نہیں ہوگی۔ قرآن کی فصاحت و بلاغت کے پیش نظر اسے لغوی و مذہبی لحاظ سے تمام عربی کتابوں میں اعلیٰ ترین مقام دیا گیا ہے۔ نیز عربی زبان و ادب اور اس کے نحوی و صرفی قواعد کی وحدت و ارتقا میں بھی قرآن کا خاصا اہم کردار دکھائی دیتا ہے۔ چنانچہ قرآن کے وضع کردہ عربی زبان کے قواعد بلند پایہ عرب محققین اور علمائے لغت مثلاً سیبویہ، ابو الاسود الدؤلی اور خلیل بن احمد فراہیدی وغیرہ کے یہاں بنیادی ماخذ سمجھے گئے ہیں۔
اردو زبان میں سینتیس حروفِ تہجی اور سینتالیس آوازیں ہیں جن میں سے بیشتر عربی سے لیے گئے ہیں اور دیگر انہی کی مختلف شکلیں ہیں۔ کچھ حروف کئی طریقوں سے استعمال ہوتے ہیں اور کچھ مخلوط حروف بھی استعمال ہوتے ہیں جو دو حروف سے مل کر بنتے ہیں۔ بعض لوگ 'ء' کو الگ حرف نہیں مانتے مگر پرانی اردو کتب اور لغات میں اسے الگ حرف کے طور پر لکھا جاتا ہے۔ مختلف الفاظ میں یہ الگ حرف کے طور پر ہی استعمال ہوتا ہے مثلاً 'دائرہ'۔ یہ بات مدِنظر رکھنا ضروری ہے کہ اردو تختی اور اردو حروف دو مختلف چیزیں ہیں کیونکہ اردو تختی میں اردو حروفِ تہجی کی کئی اشکال ہو سکتی ہیں جن کو الگ حرف کا درجہ نہیں دیا جا سکتا بلکہ وہ ایک ہی حرف کی مختلف شکلیں ہیں۔ مثلاً نون غنہ نون کی شکل ہے اور 'ھ' اور 'ہ' ایک ہی حرف کی مختلف اشکال ہیں۔ ایک اور مثال الف ممدودہ (آ) اور الف مقصورہ (ا) کی ہے جو اردو تختی میں الگ ہیں مگر اردو کا ایک ہی حرف شمار ہوتے ہیں۔
عربی شاعری ((عربی: الشعر العربي)) عربی ادب کی سب سے پہلی شکل ہے۔ عربی شاعری کا سب سے پہلا نمونہ چھٹی صدی میں ملتا ہے مگر زبانی شاعری اس سے بھی قدیم ہے۔ عربی شاعری، اس کی صحیح تعریف اور اس کے اجزا میں محققین کا خاصا اختلاف رہا ہے۔ ابن منظور کے مطابق شعر وہ منظوم کلام ہے جو وزن اور قافیہ میں مقید ہو، وہ آگے لکھتے ہیں کہ شعر منظوم اور موزوں کلام کا نام ہے جس کی ترکیب مضبوط ہو اور شعر کہنے کا قصد بھی پایا جاتا ہو۔ اگر ایک بھی شرط فوت ہوئی تو شعر نہیں کہلائے گا اور اس کے کہنے والے کو شاعر نہیں کہا جائے گا۔ اسی لیے قرآن و حدیث میں جو موزوں کلام ملتا ہے وہ قصد و ارادہ کے فقدان کی وجہ سے شعر نہیں کہلاتا۔ ابن منظور اس کی وجہ بتاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ شعر میں شعری احساس کا ہونا ضروری ہے اور یہ احساس بالارادہ اور دانستہ ہو تب ہی اس کلام کو شعر سمجھا جائے گا۔ اسی بنا پر شعر کے چار ارکان ہیں: معنی، وزن، قافیہ اور قصد۔ جرجانی کے مطابق شعر عرب کا ایک علم ہے جو فطرت، روایت اور احساس پر مشتمل ہے۔ شریف جرجانی نے شعر کو یوں متعارف کرایا ہے، لغوی طور پر شعر ایک علم ہے اور اصطلاحاً شعر موزوں اور مقفی ہو اور انہیں شاعری جے ارادے سے کہا گیا ہو۔ چنانچہ اس آخری شرط کی بنا پر قرآن کی یہ آیت شاعری نہیں ہے: "الذي أنقض ظهرك، ورفعنا لك ذكرك"۔ یہ موزوں اور مقفی کلام تو ہے مگر شعر نہیں ہے کیونکہ اس کلام کو شعر کے ارادے سے نہیں کہا گیا۔ قدیم شاعری میں وزن اور قافیہ لازمی اجزا تصور کیے جاتے ہیں۔ قافیہ بیت کا آخری حرف یا کلمہ ہوتا ہے۔ لیکن جدید شاعری کو قافیہ کی پابندی سے آزد کر دیا گیا اور "شعر مرسل" وجود میں آیا۔ شعر مرسل اس شاعری کو کہا جاتا ہے جس میں خارجی قافیہ کی پابندی نہیں ہوتی مگر داخلی قافیہ موجود رہتا ہے۔ شعر کی کسی بھی قسم میں یا کسی بھی زمانے میں قافیہ سے بیزاری نہیں برتی گئی۔
ابوحفص عمر فاروق بن خطاب عدوی قرشی (586ء/590ء، مکہ - 6 نومبر 644ء، مدینہ) ابوبکر صدیق کے بعد مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ راشد، محمد مصطفی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سسر اور تاریخ اسلام کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک ہیں۔ عمر بن خطاب عشرہ مبشرہ میں سے ہیں، ان کا شمار علما و زاہدین صحابہ میں ہوتا تھا۔ ابوبکر صدیق کی وفات کے بعد 23 اگست سنہ 634ء مطابق 22 جمادی الثانی سنہ 13ھ کو مسند خلافت سنبھالی۔ عمر بن خطاب ایک باعظمت، انصاف پسند اور عادل حکمران مشہور ہیں، ان کی عدالت میں مسلم و غیر مسلم دونوں کو یکساں انصاف ملا کرتا تھا، عمر بن خطاب کا یہ عدل و انصاف انتہائی مشہور ہوا اور ان کے لقب فاروق کی دیگر وجوہ تسمیہ میں ایک وجہ یہ بھی بنی۔ آپ رضی اللہ عنہ کا نسب نویں پشت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے جا ملتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نویں پشت میں کعب کے دو بیٹے ہیں مرہ اور عدی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مرہ کی اولاد میں سے ہیں، جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ عدی کی اولاد میں سے ہیں۔
ابوبکر صدیق عبد اللہ بن ابو قحافہ عثمان تیمی قرشی (573ء—634ء) اسلام کے پہلے خلیفہ راشد، عشرہ مبشرہ میں شامل، خاتم النبین محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اولین جانشین، صحابی، خسر اور ہجرت مدینہ کے وقت رفیق سفر تھے۔ اہل سنت و الجماعت کے یہاں ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ انبیا اور رسولوں کے بعد انسانوں میں سب سے بہتر، صحابہ میں ایمان و زہد کے لحاظ سے سب سے برتر اور ام المومنین عائشہ بنت ابوبکر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے محبوب تر تھے۔ عموماً ان کے نام کے ساتھ صدیق کا لقب لگایا جاتا ہے جسے حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی تصدیق و تائید کی بنا پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دیا تھا۔
محمد علی جناح پیدائشی نام، محمد علی جناح بھائی، 25 دسمبر 1876ء – 11 ستمبر 1948ء) کے نامور وکیل، سیاست دان اور بانی پاکستان تھے۔ محمد علی جناح 1913ء سے لے کر پاکستان کی آزادی 14 اگست 1947ء تک آل انڈیا مسلم لیگ کے سربراہ رہے، پھر قیام پاکستان کے بعد اپنی وفات تک، وہ ملک کے پہلے گورنر جنرل رہے۔ سرکاری طور پر پاکستان میں آپ کو قائدِ اعظم یعنی سب سے عظیم رہبر اور بابائے قوم یعنی قوم کا باپ بھی کہا جاتا ہے۔ جناح کا یومِ پیدائش پاکستان میں قومی تعطیل کے طور پر منایا جاتا ہے۔کراچی کے پیدائشی اور لنکن ان سے بیرسٹری کی تربیت حاصل کرنے والے جناح، بیسویں صدی کے ابتدائی دو عشروں میں آل انڈیا کانگریس کے اہم رہنما کے طور پر ابھرے۔ اپنی سیاست کے ابتدائی ادوار میں انہوں نے ہندو مسلم اتحاد کے لیے کام کیا۔ 1916ء میں آل انڈیا مسلم لیگ اور آل انڈیا کانگریس کے مابین ہونے والے میثاق لکھنؤ کو مرتب کرنے میں بھی انہوں نے اہم کردار ادا کیا۔ جناح آل انڈیا ہوم رول لیگ کے اہم رہنماوں میں سے تھے، انہوں نے چودہ نکات بھی پیش کیے، جن کا مقصد ہندوستان کے مسلمانوں کے سیاسی حقوق کا تحفظ کرنا تھا۔ بہر کیف جناح 1920ء میں آل انڈیا کانگریس سے مستعفی ہو گئے، جس کی وجہ آل انڈیا کانگریس کے موہن داس گاندھی کی قیادت میں ستیاگرا کی مہم چلانے کا فیصلہ تھا۔1940ء تک جناح کو یہ یقین ہو چلا تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک علاحدہ وطن کی جدوجہد کرنی چاہیے۔ اسی سال، مسلم لیگ نے جناح کی قیادت میں قرارداد پاکستان منظور کی جس کا مقصد نئی مملکت کی قیام کا مطالبہ تھا۔دوسری جنگ عظیم کے دوران، آل انڈیا مسلم لیگ نے مضبوطی پکڑلی جبکہ ان ادوار میں کانگریس کے کئی رہنما قید کاٹ رہے تھے اور جنگ کے ختم ہونے کے مختصر عرصے میں ہی انتخابات کا انعقاد ہوا، جس میں جناح کی جماعت نے مسلمانوں کے لیے مختص نشستوں میں سے بڑی تعداد جیت لی۔ اس کے بعد آل انڈیا کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ متحدہ ہندوستان میں اختیارات کے توازن کے لیے کسی صیغے پر متفق نا ہو سکے نتیجتاً تمام جماعتیں اس امر پر متفق ہوگئیں کہ ہندوستان کے دو حصے کیے جائیں جن میں ایک مسلم اکثریتی علاقوں میں پاکستان جبکہ باقی ماندہ علاقوں میں بھارت کا قیام ہو۔پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کے طور پر جناح نے اپنی حکومتی پالیسیوں کے قیام کے لیے کام کیا نیز انہوں نے ان لاکھوں لوگوں کے بہبود اور آباد کاری کے لیے بھی کام کیا جو تقسیم ہند کے بعد پاکستان کی جانب ہجرت کر چلے تھے، انہوں نے ان مہاجر کیمپوں کی ذاتی طور پر دیکھ بھال کی۔ جناح 71 سال کے عمر میں انتقال کر گئے جبکہ ان کے نوزائیدہ ملک کو سلطنت برطانیہ سے آزاد ہوئے محض ایک سال کا عرصہ ہوا تھا۔ ان کی سوانح عمری لکھنے والے لکھاری،اسٹینلی وولپرٹ لکھتے ہیں کہ، وہ (یعنی جناح) پاکستان کے عظیم ترین رہنما رہیں گے۔
احمد خان متقی بن محمد متقی (17 اکتوبر 1817ء – 27 مارچ 1898ء) المعروف سر سید، سر سید احمد خان انیسویں صدی کے ایک ہندوستانی مسلم نظریۂ عملیت کے حامل ، مصلح اور فلسفی تھے۔ ان کو برصغیر میں مسلم قوم پرستی کا سرخیل مانا جاتا ہے اور دو قومی نظریہ کا خالق تصور کیا جاتا ہے، جو آگے چل کر تحریک پاکستان کی بنیاد بنا۔
متضاد مخالف؛ اُلٹ؛ اُلٹی طرف؛ دوسری جانب؛ ضِد؛ مُقابل؛ بِالمقابل؛ متقابل؛ متضاد؛ ایک لفظ جو مفہوم کے لحاظ سے دوسرے کی ضد ہو؛ متضاد المعنی۔ ایسے الفاظ جو مماثل وضع میں لیکن ایک دوسرے کے مخالف، برعکس یا یکسر مختلف ہوں۔ اسے 'بائنری' تعلق سے تعبیر کیا جاتا ہے کیوں کہ متضاد جوڑوں میں دو رکن ہوتے ہیں۔ باہم مخالف تعلق کو متضاد کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ایک جوڑے میں مخالف لفظ کو عام طور پر اس سوال کے ذریعہ طے کیا جا سکتا ہے کہ الف کے برعکس کیا ہے؟ جیسے:
غزل اردو شاعری کی مقبول ترین "صنف" سخن ہے۔ غزل اوزان میں لکھی جاتی ہے اور یہ ہم قافیہ و بحر اور ہم ردیف مصرعوں سے بنے اشعار کا مجموعہ ہوتی ہے۔ مطلع کے علاوہ غزل کے باقی تمام اشعار کے پہلے مصرع میں قافیہ اور ردیف کی قید نہیں ہوتی ہے، جبکہ مصرع ثانی میں غزل کا ہم آواز قافیہ و ہم ردیف کا استعمال کرنا لازمی ہوتا ہے۔ غزل کا پہلا شعر مطلع کہلاتا ہے، جس کے دونوں مصرعے ہم بحر اور ہم قافیہ و ہم ردیف ہوتے ہیں۔ غزل کا آخری شعر مقطع کہلاتا ہے، بشرطیکہ اس میں شاعر اپنا تخلص استعمال کرے ورنہ وہ بھی عام شعر ہی کہلاتا ہے۔
اردو زبان کی ابتدا کے متعلق نظریات
اردو کی ابتدا و آغاز کے بارے میں کئی مختلف نظریات ملتے ہیں یہ نظریات آپس میں اس حد تک متضاد ہیں کہ انسان چکرا کر رہ جاتا ہے۔ ان مشہور نظریات میں ایک بات مشترک ہے کہ ان میں اردو کی ابتدا کی بنیاد برصغیر پاک و ہند میں مسلمان فاتحین کی آمد پر رکھی گئی ہے۔ اور بنیادی استدلال یہ ہے کہ اردو زبان کا آغاز مسلمان فاتحین کی ہند میں آمد اور مقامی لوگوں سے میل جول اور مقامی زبان پر اثرات و تاثر سے ہوا۔ اور ایک نئی زبان معرض وجود میں آئی جو بعد میں اردو کہلائی۔ کچھ ماہرین لسانیات نے اردو کی ابتدا کا سراغ قدیم آریاؤں کے زمانے میں لگانے کی کوشش کی ہے۔ بہر طور اردو زبان کی ابتدا کے بارے میں کوئی حتمی بات کہنا مشکل ہے۔ اردو زبان کے محققین اگرچہ اس بات پر متفق ہیں کہ اردو کی ابتدا مسلمانوں کی آمد کے بعد ہوئی لیکن مقام اور نوعیت کے تعین اور نتائج کے استخراج میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس انداز سے اگر اردو کے متعلق نظریات کو دیکھا جائے تو وہ نمایاں طور پر چار مختلف نظریات کی شکل میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔
اللہ کے ذاتی نام 'اللہ' کے علاوہ اللہ کے ننانوے صفاتی نام مشہور ہیں۔ انہیں کہا جاتا ہے۔ ان میں سے بیشتر قرآن میں موجود ہیں اگرچہ قرآن میں ننانوے کی تعداد مذکور نہیں مگر یہ ارشاد ہے کہ اللہ کو اچھے اچھے ناموں سے پکارا جائے۔ روایات میں بکثرت نیچے دیے گئے ننانوے صفاتی نام ملتے ہیں جن کے ساتھ ان کا اردو ترجمہ بھی درج کیا جا رہا ہے۔
میری لوئیس "میرل" اسٹریپ (Mary Louise "Meryl" Streep) ایک امریکی اداکارہ ہے جو تین بار اکیڈمی ایوارڈز جیت چکی ہے۔ اسے "اپنی نسل کی بہترین اداکارہ" کے طور پر جانا جاتا ہے۔ میرل اسٹریپ22 جون 1949ء کو ریاستہائے متحدہ امریکامیں پیدا ہوئیں۔وہ پہلی بار Trelawny of the Wells نامی تھیٹر میں جلوہ گر ہوئیں۔ 1977ء میں ایک ٹیلی وژن فلم دی ڈیڈلیئسٹ سیزن سے چھوٹی سکرین پر ڈیبیو کیا جبکہ بڑے پردے پر اداکاری کا آغاز فلم جولیا سے کیا۔ 1978ء میں انہوں اپنی زندگی کا پہلا ایمی ایوارڈز منی سیریز ہولوکاسٹ کے ذریعے حاصل کیا اور اس سال فلم ڈیئرہنٹر سے آسکر ایوارڈز کے لیے پہلی نامزدگی حاصل کی۔ آسکر ایوارڈ کے لیے میرل کو زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا اور اگلے ہی سال کریمر ورسز کریمر سے بہترین معاون اداکارہ کا آسکر ایوارڈ بھی اپنے نام کر لیا۔ میرل اسٹریپ اداکاری کے اس مرتبے پر فائز ہیں کہ اب ان کے نام سے بھی شوبز کی دنیا میں مریل اسٹریپ ایوارڈ دیا جاتا ہے۔
رموز اوقاف (انگریزی: Punctuation) وہ علامتیں اور نشانیاں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ عبارت میں کس جگہ اور کس طرح وقف کرنا ہے۔ رموز، رمز کی جمع ہے جس کا مطلب ہے علامت یا اشارہ جبکہ اوقاف، وقف کی جمع ہے جس کے معنی ٹھہرنے یا رکنے کے ہیں، یعنی رموز اقاف یا علامات وقف اُن اشاروں یا علامتوں کو کہتے ہیں جو کسی عبارت کے ایک جملے کے ایک حصے کو اس کے باقی حصوں سے علاحدہ کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ اردو، انگریزی یا دوسری زبانوں کے قواعد میں ان اوقاف اور علامات کو بہت اہمیت حاصل ہے اگر ان کا خیال نہ رکھا جائے تو مفہوم کچھ سے کچھ بلکہ بعض اوقات تو اس کے بالکل اُلٹ ہو جاتا ہے جہاں ٹھہرنا یا وقفہ کرنا ہو ان کے لیے اردو میں درج ذیل رموز اوقاف استعمال ہوتے ہیں۔ ختمہ (۔)، سوالیہ (؟)، سکتہ (،) تفصیلہ (:_)، قوسین () واوین (” “) ندائیہ یا فجائیہ (!) علامت شعر(؎) علامت مصرع (؏) علامت وغیرہ۔
ابو عبد اللہ عثمان بن عفان اموی قرشی (47 ق ھ - 35 ھ / 576ء – 656ء) اسلام کے تیسرے خلیفہ، داماد رسول اور جامع قرآن تھے۔ عثمان غنی سابقین اسلام میں شامل اور عشرہ مبشرہ میں سے تھے، ان کی کنیت ذو النورین ہے کیونکہ انھوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دو صاحبزادیوں سے نکاح کیا تھا، پہلے رقیہ بنت محمد سے کیا، پھر ان کی وفات کے بعد ام کلثوم بنت محمد سے نکاح کیا۔ عثمان غنی پہلے صحابی ہیں جنھوں نے سرزمین حبشہ کی ہجرت کی، بعد میں دیگر صحابہ بھی آپ کے پیچھے حبشہ پہنچے۔ بعد ازاں دوسری ہجرت مدینہ منورہ کی جانب کی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عثمان غنی پر مکمل اعتماد اور ان کی فطری حیاء و شرافت اور جو انھوں نے اپنے مال کے ذریعہ اہل ایمان کی نصرت کی تھی، اس کی انتہائی قدر کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیگر صحابہ کے ساتھ ان کو بھی جنت اور شہادت کی موت کی خوش خبری دی۔
حرف (Letter) سے مراد قواعد میں ابجدیہ (Alphabets) کے کسی ایک رکن کی ہوتی ہے۔ وہ لفظ ہے جو تنہا اپنے پورے معانی نہ دے بلکہ اسموں، فعلوں یا دو جملوں کے ساتھ مل کر اپنے پورے معنی ظاہر کرے۔ حرف کے کام دو اسموں کو ملانا دو فعلوں کو ملانا، دو چھوٹے جملوں کو ملا کر ایک جملہ بنانا، اسموں اور فعلوں کا ایک دوسرے سے تعلق ظاہر کرنا ہے۔ استعمال کے لحاظ سے حروف کو چار بڑے گروہوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ 1۔ وہ حروف جو اسموں اور فعلوں کے باہمی تعلق کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ مثلاً کا، کے، کی، کو وغیرہ 2۔ وہ حروف جو تخصیص کا کام دیتے ہیں۔ مثلاً ہی، ہر، ایک، صرف، فقط، بس وغیرہ 3۔ وہ حرف جو دو اسموں، دو فعلوں اور جملوں کو ملاتے ہیں۔ مثلاً اور، پھر کہ وغیرہ۔ 4۔ وہ حروف جو جملوں کو ملاتے ہیں مثلاً ارے، ہاں اور ہائے، اف، اخاہ، تف، الامان وغیرہ۔ یا حرف اس کلمہ کو کہتے ہیں جو نہ کسی چیز کا نام ہو، نہ کسی شخص کا نام ہو، نہ کسی جگہ کا نام ہو، نہ اس سے کوئی کام ظاہرہو اور نہ ہی یہ الگ سے اپنا کوئی معنی رکھتا ہو بلکہ یہ مختلف اسموں اور فعلوں کو آاپس میں ملانے کا کام دیتا ہو۔ جیسے اسلم اور تنویر آئے میں ”اور“ حرف ہے جو دو اسموں کو آپس میں ملا رہا ہے۔ اسی طرح منیر مسجد تک گیا کے جملے میں ”تک“ حرف ہے جو ایک اسم کو فعل سے ملا رہا ہے۔ حروف کی اقسام حروف کی درج ذیل اقسام ہیں 1۔ حروف جار 2۔ حروف عطف 3۔ حروف شرط 4۔ حروف ندا 5۔ حروف تاسف 6۔ حروف تشبیہ 7۔ حروف اضافت 8۔ حروف استفہام 9۔ حروف تحسین 10۔ حروف نفرین 11۔ حروف علت 12۔ حروف بیان 1۔ حروف جار حروف جار وہ حروف ہوتے ہیں جو کسی اسم کو فعل کے ساتھ ملاتے ہیں۔ جیسے کاغذ اور پنسل میز پر رکھ دو اس جملے میں ”پر“ حرف جار ہے، اردو کے حروف جار اردو کے مشہور حروف جار مندرجہ ذیل ہیں۔ کا، کے، کی، کو، تک، پر، سے، تلک، اوپر، نیچے، پہ، درمیان میں ساتھ، اندر باہر وغیرہ 2۔ حروف عطف حروف عطف وہ حروف ہوتے ہیں جو دو اسموں یا دو جملوں کو آپس میں ملانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ جیسے قلم اور دوات میز پر رکھ دو، حنا کھانا کھا کر اسکول گئی۔ ان جملوں میں ”اور“ اور ”کر“ حروف عطف ہیں۔ اردو کے حروف عطف اور، و، نیز، پھر، بھی وغیرہ حروف عطف ہیں۔ 3۔ حروف شرط حروف شرط وہ حروف ہوتے ہیں جو شرط کے موقع پر بولے جاتے ہیں۔ مثلا اگر وہ تیز چلتا تو وقت پر پہنچ جاتا اس جملے میں ”اگر“ حرف شرط ہے۔ اردوکے حروف شرط اردو کے حروف شرط مندرجہ ذیل ہیں۔ اگرچہ، اگر، گر۔ جوں جوں، جوں ہی، جب، جب تک، تاوقتیکہ وغیرہ 4۔ حروف ندا ایسے حروف جو کسی اسم کو پکارنے کے لیے استعمال ہوں ن حروف ندا کہلاتے ہیں۔ جیسے ارے بھائی! جب تک محنت نہیں کرو گے کامیاب نہیں ہوسکو گے۔ اس جملے میں ”ارے“ حرف ندا ہے۔ اردو کے حروف ندا اردو کے حروف ندا مندرجہ ذیل ہیں۔ ارے، ابے، او، اچی وغیرہ 5۔ حروف تاسف حروف تاسف وہ حروف ہوتے ہیں جو افسوس اور تاسف کے موقع پر بولے جاتے ہیں۔ مثلاً افسوس انسان غفلت کا شکار ہو گیاہے اس جملے میں افسوس حرف تاسف ہے۔ اردو کے حروف تاسف افسوس، صد افسوس، ہائے، ہائے، ہائے، وائے، اُف، افوہ، حسرتا، واحسراتا وغیرہ 6۔ حروف تشبیہ ایسے حروف جو ایک چیز کو دوسری چیز کی مانند قرار دینے کے لیے استعمال ہوں حروف تشبیہ کہلاتے ہیں جیسے شیر کی مانند بہادر، موتی جیسے دانت، برف کی طرح ٹھنڈا اِن جملوں میں مانند، جیسے، طرح حروف تشبیہ ہیں۔ اردو کے حروف تشبیہ مثل، مانند، طرح، جیسا، سا، جوں، ہوبہو، عین بین، بعینہ وغیرہ 7۔ حروف اضافت حروف اضافت وہ حروف ہوتے ہیں جو صرف اسموں کے باہمی تعلق یا لگائو کو ظاہر کرتے ہیں۔ مضاف، مضاف الیہ اور حرف اضافت کے ملنے سے مرکب اضافی بنتا ہے۔ مثلاً اسلم کا بھائی، حنا کی کتاب، باغ کے پھول وغیرہ اِن جملوں میں کا، کیی، کے حروف اضافت ہیں۔ 8۔ حروف استفہام حروف استفہام اُن حروف کو کہتے ہیں جو کچھ پوچھنے یا سوال کرنے کے موقع پر بولے جاتے ہیں۔ مثلاً احمد تم کب بازار جائو گے؟ اس جملے میں کب حرف استفہام ہے۔ اس جملے میں کب حرف استفہام ہے۔ اردو کے حروف استفہام کیا، کب، کون، کیوں، کہاں، کس کا، کس کو، کس کے، کیسا، کیسے، کیسی، کتنا، کتنی، کتنے، کیونکہ، کس لیے، وغیرہ۔ 9۔ حروف تحسین حروف تحسین وہ حروف ہوتے ہیں جو کسی چیز کی تعریف کے موقع پر بولے جاتے ہیں جیسے سبحان اللہ! کتنا پیارا موسم ہے۔ اس جملے میں سبحان اللہ حرف تحسین ہے۔ اردو کے حروف تحسین مرحبا، سبحان اللہ، شاباش، آفرین، خوب، بہت خوب، بہت اچھا، واہ واہ، اللہ اللہ، ماشاءاللہ، جزاک اللہ، آہا، وغیرہ حروف تحسین ہیں۔ اِن حروف کو حروف انبساط بھی کہتے ہیں انبساط کے معنی خوشی یا مسرت کے ہیں۔ 10۔ حروف نفرین حروف نفرین ایسے حروف ہوتے ہیں جو نفرت یا ملامت کے لیے بولے جاتے ہیں جیسے جھوٹوں پر اللہ کی ہزار لعنت اس جملے میں ہزار لعنت حرف نفرین ہے۔ اردو کے حروف نفرین لعنت، ہزار لعنت، تف، پھٹکار ہے، اخ تھو، چھی چھی وغیرہ حروف نفرین ہیں۔ 11۔ حروف علت یہ حروف ہیں جو کسی وجہ یا سبب کو ظاہر کریں جیسے کیونکہ، اس لیے، بریں سبب، بنا بریں، لہذا، پس، تاکہ، بایں وجہ، چونکہ، چنانچہ وغیرہ 12۔ حروف بیان ایسے حروف جو کسی وضاحت کے لیے استعمال کیے جائیں حروف بیان کہلاتے ہیں جیسے استاد نے شاگرد سے کہا کہ سبق پڑھو اس جملے میں کہ حرف بیان ہے۔ اضافہ: حرف: وہ کلمہ جو نہ فعل ہو نہ اسم اور نہ کسی مصدر سے مُشتق ہو بلکہ دو لفظوں کو آپس میں ملاتا ہو گویا الفاظ میں ربط اور تعلق پیدا کرتا ہو۔ جس سے مطلب سمجھنا آسان ہو جاتا ہے۔ جیسے کا۔ کی۔ کو۔ سے ۔ میں۔نے۔ پر .وغیرہ۔ یا حروف (حرف) وہ خاص حروف(الفاظ) ہیں جو جملے کے اجزاء کو باہم ملاتے اور جملے کے مطلب کا سمجھنا آسان کرتے ہیں، ان حروف کے استعمال کےبغیر جملوں یا الفاظ کا مطلب سمجھ نہیں آسکتا۔ جیسے کھانا میز لگا دو۔ کتاب بستہ ہے۔ میز نیچے جوتے پڑے ہیں۔ مجھے آپ مل خوشی ہوئی۔ ان جملوں میں پر، میں، کے ، سے ، کر لگانے سے جملے بامعنی اور آسان فہم ہو جاتے ہیں۔ کھانا میز پر لگا دو۔ کتاب بستے میں ہے۔ میز کے نیچے جوتے پڑے ہیں۔ مجھے آپ سے مل کر خوشی ہوئی۔ پر، میں، کے ، سے ، کر حروف کہلاتے ہیں ۔ حروف کی درج ذیل اقسام ہیں؛ 1۔ حروفِ ربط: یہ حروف ایک لفظ(اسم) کا تعلق دوسرے لفظ(فاعل یا مفعول ) سے ظاہر کرتے ہیں۔ جیسے کا، کی، کو، نے۔سے اسلم کو کھانا دے دو۔ وہ علی کی کتاب ہے۔ بابر نے علی کو سلام کیا۔ ان جملوں میں ”کو، کی اور نے“ حروف ربط ہیں۔ حروف ربط کی 4 معروف صورتیں یہ ہیں؛ 1۔ حالت فاعلی: ”نے“ فاعل کے ساتھ استعمال ہوتا ہے۔ جیسے علی نے پانی پیا۔ اکبر نے کتاب پڑھی۔ (نے کا استعمال صرف فعل ماضی میں ہوتا ہے۔) 2۔ حالتِ مفعولی: ”کو“ مفعول کے ساتھ استعمال ہوتا ہے۔ جیسے نوکر کو بلاؤ۔ علی کو کتاب دو۔ (بعض اوقات کو کی جگہ ”کے“ کا حرف استعمال ہوتا ہے۔ جیسے ماں نے بچے کے کاجل لگایا۔) 3۔حالتِ اضافی: ”کا، کی، کے“ دو اسموں کے تعلق کو ظاہر کرتے ہیں۔ جیسے علی کی کتاب، آپ کا کمرہ، درخت کی جڑ۔ (ان کا استعمال فعل سے ماوراء ہوتا ہے۔) 4۔ حالتِ طوری: ”سے“ اسم کے ساتھ استعمال ہوتا ہے۔ جیسے آپ کہاں سے آئے؟ تم علی سے بات کر لو۔ وہ مجھ سے کیا چاہتے ہیں؟ وہ کل سے بیمار ہے۔ (بعض اوقات بطور علامت مفعول بھی استعمال ہوتا ہے) 2۔ حروفِ جار: وہ حرف جو کسی اسم کو فعل سے ملاتے ہوں۔ جیسے کھانا میز پر لگا دو۔ کتاب بستے میں ہے۔ ان جملوں میں "پر" اور "میں" حروف جار ہیں۔ (کا۔ کی ۔ کے۔ کو۔ پر ۔ سے۔ تک۔ میں۔ تلک۔ سے۔اوپر۔ پہ۔ نیچے۔ درمیان۔ ساتھ۔ اندر۔ باہر حروف جارہیں) 3۔حروف ِعطف: یہ حروف 2 اسموں یا جملوں کو ملانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ مثلاً کھانا کھا کر مجھے خط سنا دو۔ کتاب اور اخبار لے آؤ۔ ان جملوں میں"کر" اور "اور" حروف عطف ہیں۔ (اور۔ و۔ نیز۔ بھی۔ کر۔ پھر حروف عطف ہیں) 4۔ حروف ِشرط: یہ حروف کسی شرط کے لیے بولے جاتے ہیں۔ جیسے اگرتم محنت کرتے تو پاس ہو جاتے۔ اس جملے میں "اگر" حرفِ شرط ہے۔ (اگر۔ گر۔ اگرچہ۔ جب۔ جب تک۔ تاوقتیکہ۔ جو ں جوں۔ جونہی حروفِ شرط ہیں) 5۔ حروف ِندا: یہ حروف کسی کو پکارنے یا آواز دینے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ جیسے اجی!
نجم الدولہ، دبیر الملک، مرزا نوشہ اسد اللہ خان غالب بہادر نظام جنگ (1797ء- 1869ء) اردو زبان کے سب سے بڑے شاعروں میں ایک سمجھے جاتے ہیں۔ یہ تسلیم شدہ بات ہے کہ 19 ویں صدی غالب کی صدی ہے۔ جبکہ 18 ویں میر تقی میر کی تھی اور 20 ویں علامہ اقبال کی۔ غالب کی عظمت کا راز صرف ان کی شاعری کے حسن اور بیان کی خوبی ہی میں نہیں ہے۔ ان کا اصل کمال یہ ہے کہ وہ زندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کو گہرائی میں جا کر سمجھتے تھے اور بڑی سادگی سے عام لوگوں کے لیے بیان کر دیتے تھے۔ غالب جس پر آشوب دور میں پیدا ہوئے اس میں انہوں نے مسلمانوں کی ایک عظیم سلطنت کو برباد ہوتے ہوئے اور باہر سے آئی ہوئی انگریز قوم کو ملک کے اقتدار پر چھاتے ہوئے دیکھا۔ غالباً یہی وہ پس منظر ہے جس نے ان کی نظر میں گہرائی اور فکر میں وسعت پیدا کی۔
میر تقی میر (پیدائش: 28 مئی 1723ء— وفات: 22 ستمبر 1810ء) اصل نام میر محمد تقى اردو كے عظیم شاعر تھے۔ میر ان کا تخلص تھا۔ اردو شاعرى ميں مير تقى مير كا مقام بہت اونچا ہے ـ انہیں ناقدین و شعرائے متاخرین نے خدائے سخن کے خطاب سے نوازا۔ وہ اپنے زمانے كے ايك منفرد شاعر تھےـ۔ آپ كے متعلق اردو كے عظیم الشان شاعرمرزا غالب نے لکھا ہے۔
مشرق اور مغرب کی کائنات میں سپر کلسٹروں میں سے ایک کلسٹر کی ذیلی کہکشاں ملکی وے اور نظام شمسی کا ایک روشن ستارہ سورج، شمس یا خورشید ہے۔جبکہ ملکی وے میں ایسے بے شمار سورج موجود ہے میں یہ کہکشاں ایک لاکھ نوری سال پر محیط ہے ۔سورج نظام شمسی کے مرکز میں واقع ستارہ ہے۔ زمین، دیگر سیارے، سیارچے اور دوسرے اجسام سورج ہی کے گرد گردش کرتے ہیں۔ سورج کی حجم نظام شمسی کی کل کمیت کا تقریباً 99.86% ہے۔
محمد بن قاسم (عربی: محمد بن القاسم الثقفي) کا پورا نام عماد الدین محمد بن قاسم تھا، جو بنو امیہ کے ایک مشہور سپہ سالار حجاج بن یوسف کے بھتیجے تھے۔ محمد بن قاسم نے 17 سال کی عمر میں سندھ فتح کرکے ہندوستان میں اسلام کو متعارف کرایا۔ ان کو اس عظیم فتح کے باعث ہندوستان و پاکستان کے مسلمانوں میں ایک مسیحا کا اعزاز حاصل ہے اور اسی لیے سندھ کو "باب الاسلام" کہا جاتا ہے، کیونکہ ہندوستان پر اسلام کا دروازہ یہیں سے کھلا۔
ریاضی دراصل اعداد کے استعمال کے ذریعے مقداروں کے خواص اور ان کے درمیان تعلقات کی تحقیق اور مطالعہ کو کہا جاتا ہے، اس کے علاوہ اس میں ساختوں، اشکال اور تبدلات سے متعلق بحث بھی کی جاتی ہے۔ اس علم کے بارے میں گمان غالب ہے کہ اس کی ابتدا یا ارتقا دراصل گننے، شمار کرنے، پیمائش کرنے اور اشیاء کے اشکال و حرکات کا مطالعہ کرنے جیسے بنیادی عوامل کی تجرید اور منطقی استدلال (logical reasoning) کے ذریعہ ہوا۔
جنرل عاصم منیر پاکستان فوج کے سربراہ ہیں ۔ جنرل عاصم منیر سابق ڈی جی آئی ایس آئی، کور کمانڈر گوجرانوالہ اور ڈی جی ایم آئی سمیت کئی اہم عہدوں پر فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔ پاک فوج کا سینئرترین جنرل ہونے کی وجہ سے جنرل عاصم منیر کو پاک فوج کا نیا سربراہ تعینات کر دیا گیا ہے۔ جنرل عاصم منیر راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم راولپنڈی سے حاصل کی۔
برصغیر پاک و ہند میں 1857ء کی ناکام جنگ آزادی اور سقوطِ دہلی کے بعد مسلمانان برصغیر کی فلاح و بہبودگی ترقی کے لیے جو کوششیں کی گئیں، عرف عام میں وہ ”علی گڑھ تحریک “ کے نام سے مشہور ہوئیں۔ سر سید نے اس تحریک کا آغاز جنگ آزادی سے ایک طرح سے پہلے سے ہی کر دیا تھا۔ غازی پور میں سائنٹفک سوسائٹی کا قیام اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ لیکن جنگ آزادی نے سرسید کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کیے اور ان ہی واقعات نے علی گڑھ تحریک کو بارآور کرنے میں بڑی مدد دی۔ لیکن یہ پیش قدمی اضطراری نہ تھی بلکہ اس کے پس پشت بہت سے عوامل کارفرما تھے۔ مثلاً راجا رام موہن رائے کی تحریک نے بھی ان پر گہرا اثر چھوڑا۔
سانحۂ کربلا یا واقعہ کربلا یا کربلا کی جنگ 10 محرم 61ھ (بمطابق 9 یا 10 اکتوبر، 680ء) کو موجودہ عراق میں کربلا کے مقام پر پیش آیا۔ یہ جنگ نواسہ رسول حضرت امام حسین ابن علی، ان کے حامیوں اور رشتہ داروں کے ایک چھوٹے سے گروہ، حسین ابن علیؓ کے ساتھ 72 ساتھی، کچھ غلام، 22 اہل بیت کے جوان اور خاندان نبوی کی کچھ خواتین و بچے شامل تھے اور اموی ظالم حکمران یزید اول کی ایک بڑی فوج کے مابین ہوئی۔جس کو حسین نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔جس میں اموی خلیفہ یزید اول کی فوج نے پیغمبر اسلام محمد کے نواسے حسین ابن علی اور ان کے رفقا کو لڑائی میں شہید کیا، حرم حسین کے خیموں کو لوٹ لیا گیا اور بالآخر آگ لگا دی گئی۔ عمر بن سعد کی فوج نے کربلا کے صحرا میں مقتولین کی لاشیں چھوڑ دیں۔ بنی اسد کے لوگوں نے لاشوں کو تین دن بعد دفن کیا۔ واقعہ کربلا کے بعد، حسین ابن علی کی فوج سے وابستہ متعدد خواتین اور بچوں کو گرفتار کر کے قید کر دیا گیا، بازار اور ہجوم والے مقامات سے گزر کر ان کی توہین کی گئی اور انہیں یزید ابن معاویہ کے دربار شام بھیج دیا گیا تھا۔ جنگ میں شہادت کے بعد حضرت امام حسین کو سید الشہدا کے لقب سے پکارا جاتا ہے۔
فاطمہ بنت محمد بن عبد اللہ جن کا معروف نام فاطمۃ الزہراء ہے حضرت محمد بن عبد اللہ اور خدیجہ بنت خویلد کی بیٹی تھیں۔ تمام مسلمانوں کے نزدیک آپ ایک برگزیدہ ہستی ہیں۔۔ آپ کی ولادت 20 جمادی الثانی بروز جمعہ بعثت کے پانچویں سال میں مکہ میں ہوئی۔ آپ کی شادی علی ابن ابی طالب سے ہوئی جن سے آپ کے دو بیٹے حسن اور حسین اور دو بیٹیاں زینب اور ام کلثوم پیدا ہوئیں۔ آپ کی وفات اپنے والد حضرت محمد بن عبد اللہ کی وفات کے کچھ ماہ بعد 632ء میں ہوئی۔ آپ کے بہت سے القابات مشہور ہیں۔
حروفِ تہجی سے مراد وہ علامتیں ہیں جنہیں لکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اکثر زبانوں میں یہ مختلف آوازوں کی علامات ہیں مگر کچھ زبانوں میں یہ مختلف تصاویر کی صورت میں بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔ بعض ماہرینِ لسانیات کے خیال میں سب سے پہلے سامی النسل یا فونیقی لوگوں نے حروف کو استعمال کیا۔ بعد میں عربی کی شکل میں حروف نے وہ شکل پائی جو اردو میں استعمال ہوتے ہیں۔ بعض ماہرین ان کی ابتدا کو قدیم مصر سے جوڑتے ہیں۔ اردو میں جو حروف استعمال ہوتے ہیں وہ عربی سے لیے گئے ہیں۔ جنہیں حروف ابجد بھی کہا جاتا ہے۔ ان کی پرانی عربی ترتیب کچھ یوں ہے۔ ابجد ہوز حطی کلمن سعفص قرشت ثخذ ضظغ۔ انہیں حروفِ ابجد بھی کہتے ہیں۔ علمِ جفر میں ان کے ساتھ کچھ اعداد کو بھی منسلک کیا جاتا ہے۔ جو کچھ یوں ہیں۔
ایل پی جی (LPG) یعنی مائع پٹرولیم گیس (liquid petroleum gas) سے مراد وہ گیس ہے جو معدنی تیل (پٹرولیئم) سے حاصل ہوتی ہے اور بطور ایندھن گاڑیوں اور چولہوں میں استعمال ہوتی ہے۔ یہ بنیادی طور پر پروپین ہوتی ہے جسے کیمیاء میں C3H8 سے ظاہر کرتے ہیں۔ اس میں کچھ بیوٹین C4H10 بھی موجود ہوتی ہے۔ سلنڈر کے اندر دباؤ کے تحت یہ گیس مائع میں تبدیل ہو جاتی ہے اس لیے اس کا نام LPG ہے اور اس کا سلنڈر سیدھا رکھا جاتا ہے تا کہ مائع کے اوپر کی گیس استعمال ہو سکے۔ یہ مائع جب گیس بنتا ہے تو اس کے حجم میں لگ بھگ ڈھائی سو گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس سی این جی اپنے سلنڈر کے اندر بھی گیس ہی کی شکل میں رہتی ہے اور مائع میں تبدیل نہیں ہوتی۔ اسی وجہ سے سی این جی کے سلنڈر کو استعمال کے وقت سیدھا رکھنا ضروری نہیں ہوتا۔
اجرام فلکی (Astronomical object)، ایسی نمایاں جسمانی موجودات یا ساختوں کو کہا جاتا ہے کہ جن کی موجودگی یا ان کے وجود کو اب تک کی سائنس کی مدد سے فضائے بسیط میں ثابت کیا جا چکا ہو، یعنی ہو سکتا ہے کہ آئندہ سائنسی ترقی کی بدولت کچھ ایسے شواہد سامنے آ جائیں کہ جن کی وجہ سے موجودہ اجرام فلکی میں سے کسی ایک (یا کئی) کے وجود سے انکار کرنا پڑے۔ اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ آئندہ ہونے والے سائنسی اکتشافات کے ذریعے کسی مختلف قسم کے اجرام فلکی دریافت کئے جا سکیں، جن سے آج کی نسل انسانی ناآشنا ہے.
سانچہ:Use list-defined references مارول سنیماٹک کائنات ( MCU ) ایک امریکی میڈیا فرنچائز ہے اور مشترکہ کائنات ہے جو ایک سپر ہیرو فلموں کی ایک سیریز پر مبنی ہے ، جو مارول اسٹوڈیوز نے آزادانہ طور پر تیار کیا ہے اور ان کرداروں پر مبنی ہے جو مارول کامکس کے ذریعہ شائع ہونے والی امریکی کامکس میں نظر آتے ہیں۔ فرنچائز میں کامکس ، مختصر فلمیں ، ٹیلی ویژن سیریز اور ڈیجیٹل سیریز بھی شامل ہیں۔ مشترکہ کائنات ، جیسے کامک کتابوں میں اصل مارول کائنات کی طرح ، ،مشترکہ پلاٹ ، ترتیبات ، کاسٹ اور کرداروں کو عبور کرکے قائم کیا گیا ہے۔ پہلی ایم سی یو فلم آئرن مین (2008) تھی ، جس نے فلموں کے پہلے مرحلے کا آغاز کراس اوور فلم دی ایونجرز (2012) میں کیا تھا۔ فیز ٹو کی شروعات آئرن مین 3 (2013) سے ہوئی تھی اور اینٹ مین (2015) کے ساتھ اختتام پزیر ہوئی۔ فیز تھری کا آغاز کیپٹن امریکا: خانہ جنگی (2016) سے ہوا اور اس کا اختتام مکڑی انسان کے ساتھ ہوا : گھر سے دور (2019)۔ فرنچائز میں پہلے تین مراحل اجتماعی طور پر "دی انفینٹی ساگا" کے نام سے مشہور ہیں۔ فیز فور کا آغاز بلیک بیوہ (2020) سے ہوگا اور اس کا اختتام تھور: محبت اور تھنڈر (2021) کے ساتھ ہوگا۔ مارول ٹیلی ویژن نے 2013– ٹیلی ویژن سیزن میں ABC پر مارول کے شیلڈ کے ایجنٹ کے ساتھ ٹیلی ویژن میں بھی کائنات کو بڑھایا ، اس کے بعد 2015 میں نیٹ فلکس پر مارول کے ڈیئر ڈیول کے ساتھ آن لائن سٹریمنگ اور 2017 میں ہولو پر مارول رن اویز اور پھر مارول کلاک & ڈیگر اور 2018 میں فریفارم پر کے ساتھ کیبل ٹیلی ویژن تک وسعت دی۔ مارول ٹیلی ویژن نے شیلڈ کے ایجنٹ:سلنگشاٹ ڈیجیٹل سلسلے کو بھی تخلیق کیا۔ مارول اسٹوڈیوز نے 2020 میں فالکن اور ونٹر سولجر کے ساتھ شروع ہونے والے ٹائی ان شوز کے لیے ڈزنی + کے ساتھ آن لائن اسٹریمنگ میں بھی توسیع کی ، اس کے ساتھ ہی ہولو پر ہالوسٹرم بھی شامل تھا ، جو مارول ٹیلی ویژن سے وراثت میں ملا تھا اور اس کے بند ہونے اور مارول اسٹوڈیوز میں شامل ہونے کے بعد۔ ساؤنڈ ٹریک البمز تمام فلموں اور ٹیلی ویژن سیریز کے بہت سارے سلسلوں کے لیے جاری کردی گئی ہیں ، نیز فلموں میں سننے والی موجودہ موسیقی پر مشتمل تالیف البمز بھی ۔ MCU بھی شامل ٹائی میں مارول سنیمیٹک یونیورس بھی کا ایک سلسلہ تخلیق کیا ہے، جبکہ سنیمیٹک یونیورس کی طرف سے شائع براہ راست ٹو ویڈیو مختصر فلموں اور ایک وائرل مارکیٹنگ اس کی فلموں کے لیے مہم اور فاکس نیوز پروگرام WHIH Newsfront کے ساتھ کائنات میں اضافہ کیا .
مخطوطہ پرانی قلمی کتاب یا روایتی طور پر ہاتھ سے لکھی گئی کوئی بھی دستاویز - یا ایک بار جب عملی ٹائپ رائٹرز دستیاب ہو جاتے ہیں، ٹائپ رائٹر پر لکھا ہوا - جیسا کہ میکانکی طور پر مطبوعہ یا کچھ بالواسطہ یا خودکار طریقے سے دوبارہ تیار کیا گیا۔ ابھی حال ہی میں اس اصطلاح کو مزید سمجھنے کے لیے سمجھا گیا ہے کہ کسی مصنف کے کام کی تحریری، ٹائپ شدہ، یا لفظی پروسیس شدہ کاپی کو شامل کیا جائے، جیسا کہ اس کے پرنٹ ورژن کے طور پر اس کی پیشکش سے ممتاز ہے۔ پرنٹنگ کی آمد سے پہلے تمام دستاویزات اور کتابیں مخطوطات تھیں۔ مخطوطات کی وضاحت ان کے مندرجات سے نہیں کی جاتی، جو تحریر کو ریاضیاتی حسابات، نقشوں، موسیقی کے اشارات، وضاحتی اعداد و شمار یا عکاسی کے ساتھ جوڑ سکتے ہیں۔
اردو ادب کی دو اصناف ہیں: اردو نثر اور اردو نظم یعنی اردو شاعری۔ پھر اردو شاعری کی کئی قسمیں ہیں جن میں نظم، غزل، مثنوی، قصیدہ، مرثیہ، رباعی، مخمس، مسدس، مثمن، قطعہ، نعت وغیرہ شامل ہیں۔ ان میں سب سے مشہور صنف غزل ہے، جسے ہر خاص و عام نے قبول کیا اور سراہا ہے مگر اردو شاعری کی سب سے وسیع قسم اردو نظم ہے۔ اردو نظم میں بہت زیادہ تجربے کیے گئے ہیں اور یہی اس کی وسعت کی دلیل ہے۔ نظیر اکبر آبادی، الطاف حسین حالی، اکبر الہ آبادی اور اقبال، جوش ملیح آبادی، ساحر لدھیانوی، فیض احمد فیض، علی سردار جعفری، ن م راشد، اسماعیل میرٹھی، نظم طباطبائی نظم کے بڑے شاعروں میں سے ہیں۔ اردو میں نظم کی صنف انیسویں صدی کی آخری دہائیوں کے دوران میں انگریزی کے اثر سے پیدا ہوئی، جو دھیرے دھیرے پوری طرح قائم ہو گئی۔ نظم بحر اور قافیے میں بھی ہوتی ہے اور اس کے بغیر بھی۔ اب نثری نظم بھی اردو میں مستحکم ہو گئی ہے۔ نثری نظم کے حوالے سے میراجی، ن م راشد سے ہوتے ہوئے احمد ہمیش سے ہوتے ہوئے جواز جعفری تک سلسلہ آتا ہے؛ لیکن ایک اور بات ...! اس سارے سلسلے میں ڈاکٹر وحید احمد آج بھی نمایاں ہیں۔ موجودہ دور میں بھی نثری نظم کے بہت سے شاعر موجود ہیں۔جن میں ایک نام منصف ہاشمی کا بھی ہے۔ اس کی اس حوالے سے پہلی کتاب کا نام "مٹھی میں ستارے لیے" اور دوسری کتاب "عشق" کے نام سے منظر عام پر آئیں.
اوینجرز: اینڈگیم مارول کامکس کی فکشن سپر ہیرو ٹیم اوینجرز پر مبنی انگریزی زبان میں ہالی وڈ کی ایک امریکی سپر ہیرو فلم ہے، جسے مارول اسٹوڈیوز نے تخلیق کیا اور والٹ ڈزنی اسٹوڈیو موشن پکچرز نے تقسیم کیا۔ یہ 2012ء کی فلم دی اوینجرز اور 2015ء کی اوینجرز : ایج آف الٹران کے ساتھ ساتھ 2018ء کی فلم اوینجرز: انفنیٹی وار کے سلسلہ کی اگلی کڑی ہے اور مارول سینماٹک یونیورس (ایم سی یو) سپر ہیرو فرنچائز کی 22ویں پیش کش ہے۔ فلم کے ہدایتکار اینتھونی اور جو روسو ہیں اور اس فلم کے مصنفین کرسٹوفر مارکس اور اسٹیفن میکفیلی ہیں۔ اور پچھلی ایم سی یو فلموں سے رابرٹ ڈاؤنی جونیئر(آئرن مین)، کرس ہیمس ورتھ (تھور)، جیئرمی رینر (ہاک آئی)، مارک روفالو(ہلک)، کرس ایونز (کیپٹن امریکا) اور اسکارلیٹ جوہانسن (بلیک وڈو) سمیت کئی اداکاروں نے اس فلم میں مرکزی کردار نبھائے ہیں۔
جنگ احد 17 شوال 3ھ (23 مارچ 625ء) میں مسلمانوں اور مشرکینِ مکہ کے درمیان احد کے پہاڑ کے دامن میں ہوئی۔ مشرکین کے لشکر کی قیادت ابوسفیان کے پاس تھی اور اس نے 3000 سے زائد افراد کے ساتھ مسلمانوں پر حملہ کی ٹھانی تھی جس کی باقاعدہ تیاری کی گئی تھی۔ مسلمانوں کی قیادت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کی۔ اس جنگ کے نتیجہ کو کسی کی فتح یا شکست نہیں کہا جا سکتا کیونکہ دونوں طرف شدید نقصان ہوا اور کبھی مسلمان غالب آئے اور کبھی مشرکین لیکن آخر میں مشرکین کا لشکر لڑائی ترک کر کے مکہ واپس چلا گیا۔
دیپک چوپڑا امریکا کے ایک بھارتی نژاد ڈاکٹر اور مصنف ہیں۔ انہوں نے روحانیت کے موضوع پر کئی کتابیں لکھی ہیں جنہیں لوگوں نے کافی پسند کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ ہندوستانی فلسفی و مفکر کرشن مورتی سے کافی متاثر ہیں۔ ان کے نظریات ویدانت اور بھگوت گيتا سے بھی متاثر ہیں۔ دیپک چوپڑا نے نیویارک ٹائمز کی 19 کتابوں کے ساتھ 65 سے زائد کتابیں لکھی ہیں۔ ان کی کتابوں 35 زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے اور دنیا بھر میں 20 ملین سے زائد کاپیاں فروخت ہوئی ہیں۔ دیپک چوپڑا کو اوشنیہ Oceana ایوارڈ (2009)، دی سنے کوئسٹ لائف آف ماوریک ایوارڈ (2010)، ہیومنٹیرین اسٹار لائٹ ایوارڈ (2010) اور جی او آئی پیس ایوارڈ (2010) سمیت کئی اعزازات مل چکے ہیں۔
ریڈیو ڈراما یا نشری ڈراما (انگریزی: Radio drama) سے مراد وہ ڈراما ہے جو ریڈیو اسٹیشن سے نشر کیے جانے کے لیے لکھا جائے۔ چوں کہ ریڈیو کا دائرہ خطاب ناظرین کے بجائےسامعین پر مشتمل ہوتا ہے، ریڈیو سننے والے لوگ اداکاروں کی حرکات و سکنات اور عمل کو دیکھنے سے محروم ہوتے ہیں اس لیے ریڈیو ڈراما لکھنے والے کے لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ پورے ڈرامے میں اس امر کو ملحوظ رکھے کہ اس کامیدان آنکھ نہیں کان ہے اور اس کا ڈراما اسٹیج پر نہیں بلکہ سامعین کے تخیل کے اسٹیج پر کھیلا جائے گا، جہاں تک پہنچنے کے لیے اسے صرف سامع کا راستہ دیا گیا ہے۔
یوٹیوب شخصیات، یوٹیوب ستارے یا مختصرًا صرف یوٹیوبر ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو کسی فن، ہنر، عوامی موضوع، خبریں، گلوکاری وغیرہ کے بارے میں یوٹیوب پر ویڈیو اپلوڈ کرتے ہیں۔ ان یوٹیوبروں کے مداح جو ان اپلوڈ کردہ ویڈیوجات سے متاثر ہوتے ہیں اور تازہ تازہ اپلوڈ کے مشتاق رہتے ہیں، سبسکرائب کرنے والے بنتے ہیں۔ سبسکرائب کرنے والوں اور لائک (پسند) کرنے والوں کی تعداد اپلوڈ کنندوں کی آمدنی کا ایک اہم ذریعہ ہے۔
ابراہیم علیہ السلام وہ پہلے پیغمبر تھے جن کو اللہ نے مُسلمان نبی پیغمبر ابو الانبیاء، خلیل اللہ امام الناس اور حنیف کہہ کر پُکارا۔اللہ تعالی نے اپنے اس دوست برگزیدہ اور پیارے نبی کو قرآن مجید میں امتہ (النحل : 120) امام الناس (البقرہ: 124) حنیف اور مسلم (آل عمران: 67) کے ناموں سے بار بار بار کیا ہے۔ اکثر انبیائے کرام انہی کی اولاد سے ہیں۔ابراہیم علیہ السلام کے نام کی وجہ تسمیہ کے بارے میں بائبل کا بیان ہے کہ خدا تعالی ان سے مخاطب ہو کر کہتا ہے۔ دیکھ میرا عہد تیرے ساتھ ہے اور تو بہت قوموں کا باپ ہو گا۔ اور تیرا نام ابرام نہیں بلکہ ابراہام ہو گا۔ کیونکہ میں نے تجھے قوموں کا باپ بنایا ہے۔ (پیدائش 170:5)اکثر ماہرین کے نزدیک ابراہام یا ابراہیم ؑ بھی لفظ ہے۔ ہو سکتا ہے کہ پہلے آپ کا نام ابراہم ہو اور پھر ابراہام یا ابو رہام ہو گیا ہو۔مُسلمان اُن کو خلیل اللہ (اللہ کا دوست) کہتے ہیں۔ ابراہیم کی نسل سے کئی پیغمبر پیدا ہوئے، جن کا تذکرہ عہدنامہ قدیم میں ہے۔ اسلام کی کتاب قرآن مجید میں بھی بہت سارے ایسے انبیا کا ذکر ہے جو ابراہیم کی نسل میں سے تھے۔ اسلام کے آخری نبی مُحمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی ابراہیم کی نسل میں سے ہیں۔شرک، ستارہ پرستی اور بت سازی کے خلاف اپنی قوم اور اوروں کے ساتھ ان کا مجادلہ و محاجہ بڑے زور سے پیش کیا گیا ہے۔ ابراہیم کا بچپن میں ہی رشد عطا کیا گیا اور قلب سلیم بھی عنایت فرمایا گیا۔ تکوینی عجائبات اور ملکوت السمٰوت والارض ان کے سامنے تھے۔ انہیں کے مشاہدے سے اُن کو یقین کامل حاصل ہوا۔ بت پرستی کے خلاف ابراہیم کے جہاد کا ذکر بھی قران کریم میں کئی بار آیا ہے۔قرآن حکیم میں حضرت ابراہیم ؑ اور آذر کے اختلاف عقائد کو جس طرح نمایاں کیا گیا ہے اور جس طرح آپ اپنی قوم کے شرک سے متنفر اور متصادم ہوئے۔ اس سے ہم آپ کی عظمت و جلالت کی حقیقت کو بھی پاسکتے ہیں۔ اور اپنے لیے شمع ہدایت بھی روشن کر سکتے ہیں۔ اس وجہ سے مسلمانوں کو ملت براہیمی ہونے پر فخر ہے۔ ان کے بارے میں یہ توکہیں وضاحت نہیں ہوئی کہ کیا وحی ان پر نازل ہوئی تھی یا ان کی بعثت محض روحانی تھی؟ البتہ قرآن مجید میں ایک جگہ اس امر کی تصدیق ہوئی ہے کہ اللہ تعالی آپ سے ہمکلام تھا۔ اہل تاریخ کے نزدیک متعدد صحیفے تھے جو ابراہیم پر نازل ہوئے۔ ایک صحیفہ جو ان کی طرف سے منسوب ہے یونانی سے انگریزی میں ترجمہ ہو کر شائع ہو چکا ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ کے دین کے بارے میں قرآن مجید میں کئی جگہ پر ارشار ہوتا ہے کہ آپ موحد مسلم اورراست رو تھے۔ ارشاد ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے: ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ”پھر ہم نے تیری طرف (حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی طرف) وحی کی کہ ابراہیم ؑ راست رو (مسلم) کے دین پر چل اور وہ مشرکوں میں سے نہیں تھا “ اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے: يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تُحَآجُّونَ فِي إِبْرَاهِيمَ وَمَا أُنزِلَتِ التَّورَاةُ وَالإنجِيلُ إِلاَّ مِن بَعْدِهِ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ هَاأَنتُمْ هَؤُلاء حَاجَجْتُمْ فِيمَا لَكُم بِهِ عِلمٌ فَلِمَ تُحَآجُّونَ فِيمَا لَيْسَ لَكُم بِهِ عِلْمٌ وَاللّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ مَا كَانَ إِبْرَاهِيمُ يَهُودِيًّا وَلاَ نَصْرَانِيًّا وَلَكِن كَانَ حَنِيفًا مُّسْلِمًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْرَاهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ وَهَـذَا النَّبِيُّ وَالَّذِينَ آمَنُواْ وَاللّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ ”اے اہل کتاب! تم ابراہیم ؑ کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو۔ حالانکہ توریت اور انجیل اس کے بعد ہی اتاری گئیں۔ پھر کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے۔ سنو!
وینس ڈی میلو ایک ہے قدیم یونانی مجسمہ اور کے سب سے زیادہ مشہور کاموں میں سے ایک قدیم یونانی مجسمہ۔ ابتدا میں اس کا مجسمہ پراکسیٹلس سے منسوب کیا گیا تھا، لیکن ایک نوشتہ کی بنیاد پر جو اس کی چوٹی پر تھا، اب یہ مجسمہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ اینٹیوچ کے الیگزینڈروس کا کام ہے۔ رومن دیوتا وینس کے نام پر یونانی مجسمہ کا نام دینے کی غلط فہمی کی وجہ سے اس مجسمے کو بعض اوقات افروڈائٹ ڈی میلوس بھی کہا جاتا ہے۔
پریوں کی کہانی (انگریزی: Fairy tale) وہ کہانی ہوتی ہے جس میں بچوں کی نفسیات سے لے کر بڑوں تک کی نفسیات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ اگر چیکہ مرکوزیت بچوں اور خاص طور پر دس سال سے کم عمر کے بچوں پر ہوتی ہے۔ کہانیوں کے شائقین کے لیے نئے موضوع اور نئے اسلوب نگارش یہ کہانیاں پیش کی جاتی رہتی ہیں۔ ان کہانیوں میں عام انسانوں کے ساتھ ساتھ پریوں، جِنوں، بھوتوں، مافوق الفطرت عجیب و غریب جان دار، فرشتے، شیاطین اور جانور شامل ہوتے ہیں۔ کئی بار ایک ایسی دنیا کی منظر کشی کی جاتی ہے جو حقیقی دنیا سے کوسوں دور ہوتی ہے۔ اس میں تخیل کا بڑا دخل ہے۔ کہانیوں میں معجزات اور عام حالات سے عجیب واقعات دکھائے جاتے ہیں۔ کہانیوں میں لوگوں کی فطرت اور عجیب و غریب سرشت کی عکاسی کی جاتی ہے۔ یہ کہانیوں کا بنیادی مصدر اور ماخذ زبانی روایات ہوتی ہیں۔ اس وجہ سے کئی تحریری کتابوں میں ایک ہی مشہور کہانی دو یا کئی اور طریقوں سے بیان کی جاتی ہے۔ یہ صورت حال عمومًا مشہور کہانیوں کے لیے ہوتی ہے جو عنوان اور کرداروں کی وجہ سے زبان زد عام ہو چکے ہیں۔ کئی بار لوگ خود سے بھی کوئی سوچی سمجھی کہانیاں لکھ کر بھی پریوں کی کہانی کے طور پر پیش کر دیتے ہیں۔ ہر پری کی کہانی کا کوئی منفرد پہلو اور ایک منفرد پس منظری منظر کشی ہوتی ہے۔ اکثر پریوں کی کہانیوں میں کوئی سبق آموز پہلو بھی ہوتا ہے۔ یہ سکھانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ حق کی جیت ہوتی اور جو باطل ہے اس کی ہار ہوتی ہے۔ روایتی طور پر مشہور پریوں کی کہانیوں میں الف لیلہ و لیلہ اور اللہ دین کا چراغ رہے ہیں۔ جب کہ ایلس ان ونڈر لینڈ جیسی نسبتًا جدید ادبی تخلیقات بھی بازار میں دست یاب ہیں اور خاص طور بچوں کی دل چسپی کا سبب ہیں۔ یہ کہانی ایک لڑکی کی خوابوں کی دنیا کی سیر اور ان میں کئی عجیب و غریب واقعات اور مافوق الفطرت جان داروں کا ہونا بچوں میں دل چسپی کا باعث رہا ہے۔
ہارڈویئر یا (بانگریزی: hardware) دراصل کسی کمپیوٹر سے تعلق رکھنے والے وہ تمام آلات، پرزے اور تار ہوتے ہیں جنکو ہاتھ سے چھوا جاسکتا ہے مثلا: ڈسک، کی بورڈ، ڈسپلے، ماؤس اور پرنٹر وغیرہ۔ گویا بالفاظ دیگر یوں کہہ سکتے ہیں کہ یہ کمپیوٹر کا جسم بنانے والے حصے ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس سافٹ ویئر کمپیوٹر کے وہ اجزاء ہوتے ہیں جو ان ہارڈویئرز پر (یا ان کے ذریعہ) عمل پیرا ہوکر کمپیوٹرکے تجزیاتی کام انجام دیتے ہیں۔
چارلس ببیج (انگریزی: Charles Babbag، پیدائش: 26 دسمبر 1791ء، وفات: 18 اکتوبر 1871ء) ایک انگریز ہر فن مولا شخصیت تھےـ آپ ریاضی دان، فلسفی، موجد اور میکانی مہندس تھےـ چارلس ببیج ڈیجیٹل پروگرام ایبل کمپیوٹر (programmable computer) كے تصور کے خالق تھے۔ بعض لوگ انہیں کمپیوٹر کا باپ کہتے ہیں۔انہوں نے ہی پہلا میکانی کمپیوٹر ایجاد کیا جو الیکٹرونک کمپیوٹر کی بنیاد بنا۔ جدید کمپیوٹر کا تصور ببیج کے اینالیٹکل انجن (analytical engine) ہی کے مطابق ہے۔
ہنگامہ خیز فلم یا ایکشن فلم (انگریزی: Action Film) ایک صنف فلم ہے جس میں مرکزی کردار کو کئی چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان چیلنجوں میں مار دھاڑ، گھمسان کی جنگ، جسمانی کارنامے اور ہیجان خیز تعاقب شامل ہو سکتا ہے۔ ہنگامہ خیز فلموں کا ہیرو ایسا شخص ہوتا ہے جو ہر مسئلے سے نمٹ سکتا ہے اور اسے کئی سنگین حالات کا سامنا ہوتا ہے، جن کا نتیجہ بالآخر اُس کی کامیابی کی صورت میں نکلتا ہے۔
امریکا آزادی کا اعلان سیکینڈ کانٹینینٹل کانگریس کی طرف سے اپنایا گیا بیان ہے ۔ جس میں کیا گیا برطانیہ کی بادشاہت کے ساتھ حالت جنگ میں موجود تیرہ کالونیاں اب تیرہ آزاد خود مختار ریاستوں کے طور پر خود کو شمار کریں گے. اعلامیہ کے ساتھ، ان نئے ریاستوں نے ریاستہائے متحدہ امریکا کی تشکیل کی طرف ایک اجتماعی پہلا قدم لیا.
گوگل بکس یا گوگل کتب (Google Books) (جسے پہلے گوگل بک سرچ اور گوگل پرنٹ کے طور پر جانا جاتا ہے) گوگل انکارپوریٹڈ کی جانب سے ایک خدمت ہے جو کتب اور رسالوں کے مکمل متن کی تلاش کرتا ہے جو جنہیں گوگل نے سکین کیا کو بصری حرفی پہچان (optical character recognition) کے ذریعہ متن میں تبدیل کیا اور انہیں ڈیجیٹل ڈیٹا بیس میں محفوظ کیا۔
دُور رہیّت یا دُو رہیّت (teleportation)، مافوق الفطرت ذرائع یا تکنیکی مہارت کے ذریعے، کم یا زیادہ فی الفور (instantaneously)، مادے کی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی۔ سائنس فکشن میں، کسی چیز کے معاملے کو پوائنٹ الف سے پوائنٹ ب میں منتقل ہونے کے طور پر بتایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر، اسٹار ٹریک اور دی فلائی میں، شخص کو پوائنٹ الف سے بے میٹریل سازی کیا جاتا ہے اور پوائنٹ ب پر دوبارہ مواد بنایا گیا۔ دوررہیت کے تحقیق میں، 1947 تک، کسی چیز کا معاملہ منتقل نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ حرکت کرتا ہے۔ شے ساکن رہتی ہے تاکہ روشنی کی رفتار کے قانون کو نہ توڑ سکے۔ جیسا کہ شے ساکن رہتی ہے، لوکی سورج کے گرد سیارہ زمین کی گردش اور انقلاب میں حرکت کرتی ہے۔ جب لوکی گھومنے والے راستے کی پیروی کر رہی ہے، تو شے کو نظریہ اضافیت کے خلاء میں رکھا جاتا ہے جہاں اس خلا میں کوئی بھی طبعی چیز (کپڑے، ایک شخص، ایک بلی) کشش ثقل کی غیر موجودگی میں حالت یا میدان میں ہوتی ہے۔ کیونکہ زمین کا انقلاب اور گردش صرف ایک سمت میں ہوتی ہے، اور کبھی پلٹتی نہیں، اس لیے شے وقت کے ساتھ پیچھے کی طرف سفر نہیں کر سکتی۔ لیکن خیالی معنوں میں، شے صرف وقت کے ساتھ "آگے بڑھنے" کے لیے ظاہر ہو سکتی ہے۔ تکنیکی طور پر شے کسی ایک سمت میں حرکت نہیں کر رہی ہے۔ یہ سورج کے "ابھرنے اور غروب ہونے" کے خیالی احساس کو شیئر کرتا ہے، جہاں حقیقت میں سورج ایک مقررہ پوزیشن میں ہے۔ اگر حساب بالکل درست نہیں ہے تو ایک بار جب شے کو نظریہ اضافیت میدان (SRF) سے چھوڑ دیا جاتا ہے، تو شے نئے لوکس میں ضم ہو سکتا ہے۔ یہ اطلاع دی گئی ہے کہ بعض اہلکار یو ایس ایس ایلڈریج کے فریم ورک میں ضم ہوتے پائے گئے۔ اس واقعے کی اس وقت گواہوں کے ذریعے وضاحت نہیں کی جا سکی تھی، اس لیے اسے سب سے زیادہ خفیہ رکھا گیا تھا اور اسے "فلاڈیلفیا تجربہ" کے طور پر درج کیا گیا تھا۔ اس کا ریڈار کلوکنگ ٹیکنالوجی کے نفاذ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اگر نظریہ اضافیت میدان کو پکڑنے کے لیے وہاں کچھ نہیں ہے، جیسے کہ کوئی خلائی مقام یا زمین واپس لوکس پر آگئی ہے، تو SRF خلا میں گم ہو جاتا ہے۔ اگر حساب غلط ہے تو، جب شخص کو SRF سے رہا کیا جاتا ہے، تو وہ زمین میں پھنس بھی سکتا ہے، اس بات پر منحصر ہے کہ زمین کا مدار لوکس کے ساتھ کہاں ملتا ہے۔ نظریہ اضافیت میدان اپنے اندر موجود ہر چیز کو معطل کر دیتی ہے، روشنی کی رفتار جتنی تیزی سے گھومتی ہے (لیکن اس سے زیادہ نہیں) تاکہ کشش ثقل کا کوئی اثر نہ ہو۔ زمین اور کائنات اپنے مداری سفر کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ثانیوں یا دقیقوں کے اندر، جب SRF جاری کیا جائے گا، اندر موجود افراد نئے مقام پر ظاہر ہوں گے۔ اگرچہ حقیقت میں ایس آر ایف کبھی بھی اس جگہ سے نہیں ہٹا۔ اگر SRF گھنٹوں بعد جاری کرتا ہے، تو پورا نظام شمسی اپنے مداری راستے پر چل سکتا ہے۔ اس طرح ایس آر ایف کے اندر موجود مواد کو ایک اور الگ نظام ستارہ میں اتارا جاتا ہے۔ ایس آر ایف میں شامل افراد کی حفاظت کے لیے خصوصی ڈیزائن کا ایک کاک پٹ بنانا ہوگا، تاکہ ان کی لاشیں کسی اور ڈھانچے میں نہ لگ جائیں۔ SRF کے اندر موجود افراد جسمانی طور پر بوڑھے ہوں گے، صرف اس وقت تک جب تک وہ SRF میں ہیں۔ SRF میں ایک گھنٹہ تک جانے کے لیے کافی توانائی درکار ہوگی۔ SRF جتنی دیر تک فعال رہتا ہے اس سے بھی ناپسندیدہ اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ SRF کا استحکام تین دقیقے سے زیادہ معطل رہنے سے SRF کی پوزیشن پر سمجھوتہ ہو سکتا ہے۔ کیونکہ اگرچہ SRF کشش ثقل سے خالی ہے؛ لمبے عرصے تک اس پوزیشن کو برقرار رکھنے کی صلاحیت نا ممکن ہو سکتی ہے۔ ایک اور خطرہ، یہ ہے کہ ایک بار جب SRF اپنے مواد کو جاری کرتا ہے تو آپ اپنی دنیا میں واپس نہیں آسکیں گے، جب تک کہ آپ کے پاس دوسری طرف ایک SRF نظام نہ ہو جو آپ کے لوکس کو چھوڑنے والے اثرات کی نقل بنا سکتا ہے، کیونکہ SRF ایک ٹرمینل کے ساتھ تیار کیا جاتا ہے۔ جہاں بھی آپ کو چھوڑا جاتا ہے وہاں ایک SRF ٹرمینل کی خواہش ہوتی ہے، تاکہ آپ اپنی دنیا میں واپس جا سکیں۔ تاہم، یہ ایک ہی مدت میں نہیں ہوگا۔ آپ برسوں بعد اپنی دنیا میں واپس آسکتے ہیں (ان کا وقت)۔ لیکن آپ کے لیے یہ ثانیے ہوں گے۔ اگر آپ کا مشن کسی دوسرے نظام کا دورہ کرنے کے لیے صرف 1 ہفتے کے لیے تھا، جب تک آپ اپنی دنیا میں واپس لوٹیں گے، باقی سب کے لیے 10 سال (یا اس سے زیادہ) گزر چکے ہوں گے۔ اس طرح کی چھلانگ لگانے کی نفسیات یہ طے کرنا ہے کہ آیا کوئی شخص زمین پر 10 سال تک کا خاندانی وقت ضائع کرنا چاہتا ہے، ایک ایسا مشن انجام دینا چاہتا ہے جو نسبتاً صرف ایک ہفتہ طویل ہو، چھلانگ لگانے والے شخص کو عمر رسیدہ واقعات کے بغیر۔ لیکن اس سے آپ کو دھوکہ نہ دیں! کبھی کبھی یہ غلط ہو سکتا ہے!
مذکر: نر اسم ہوتا ہے جیسےمرد، باپ، بیل، بیٹا جبکہ مونث: مادہ اسم ہوتا ہے جیسے عورت، ماں، گائے، بیٹی بے جان اسماء میں نر اور مادہ کا کوئی فرق نہیں ہوتا اس لیے ان کی تذکیر و تانیث کا تمام تر درارومدار اہل زبان پر ہوتا ہے جیسے قلم کو اہل زبان مذکر بولتے ہیں اور گیند کو مونث اسی لیے ایسے اسماء کی تذکیر و تانیث کو غیر حقیقی تذکیر و تانیث کہا جاتا ہے۔ جبکہ حقیقی تذکیر و تانیث وہ ہوتی ہے جس میں نر کے مقابلے میں مادہ اور مادہ کے مقابلے میں نر ہو جانداروں میں کیوں کہ قدرتی طور پر نر اور مادہ کا فرق موجود ہوتا ہے اس لیے اس لیے ان کی تذکیرو تانیث حقیقی ہوتی ہے جیسے مرد، عورت۔ بیل، گائے وغیرہ
'ہنری ڈیوڈ تھورو (12 جولائی 1817 – مئی 6، 1862) ایک امریکی ماہر فطرت، مضمون نگار ، شاعر، اور فلسفی تھے ۔ وہ ماورائیت کے بھ ماہر تھے۔ ان کی کتاب 'والڈن ایک مشہور و معروف کتاب ہے۔ والڈن قدرتی ماحول میں سادہ زندگی کی عکاس ہے۔ تھورو کا مقالہ ' سول نافرمانی ' بھی قدر ومنزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اس میں ظالم حکومت کے خلاف آواز اٹھانے پر زور دیا گیا ہے۔
بنیادی طور پر تو یوں کہ سکتے ہیں کے عصبی یا دماغی نظام کے خلیات کو عصبون کہا جاتا ہے مگر طبی لحاظ سے بات اتنی سادہ نہیں کیونکہ دماغ میں صرف عصبون خلیات ہی نہیں پائے جاتے مزید اقسام کے خلیات بھی ہوتے ہیں۔ اس لیے عصبون کی طبی تعریف یوں کی جاتی ہے کہ ؛ عصبون دراصل عصبی نظام میں پائے جانے والے ایسے خلیات کو کہا جاتا جو ھجان پیدا کرنے کے قابل یعنی excitable ہوتے ہیں۔ انکو انکو انگریزی میں neuron یا neurone بھی کہا جاتا ہے۔
ایکھارت ٹولی یا ایکارٹ ٹول (جرمن : Eckhart Tolle؛ پیدائشی نام : الرچ ٹولی Ulrich Tolle؛ 16 فروری 1948 ء تا حال ) کینیڈا میں رہنے والے جرمن نژاد ایک روحانی اسکال رہیں۔ وہ اپنی بیسٹ سیلر کتب ’’سنّاٹا بولتا ہے ‘‘ (Stillness Speaks)، ’’اب کی طاقت‘‘ (The Power of Now) اور ’’ایک نئی زمین ‘‘ (A New Earth) کی وجہ سے مشہور ہیں۔
اصطباغی/بپتسماوی کلیسیا یا باپٹسٹ چرچ ان مسیحیوں کا فرقہ جو یہ مانتے ہیں کہ بپتسمہ ان کو دینا چاہیے جو خدا اور یسوع مسیح پر کامل ایمان رکھتے ہوں اور ان کی نظر میں بچوں کا بپتسمہ نہیں ہوتا۔ مسیحیوں کا یہ فرقہ بپتسمہ کے بارے میں خاص نقطہ نظر رکھتا ہے۔ 1644ء سے یہ لفظ ان لوگوں کے لیے استعمال ہونے لگا جن کا عقیدہ تھا کہ بپتسمہ صرف ان لوگوں کا ہونا چاہیے جو مسیحیت پر ایسا اعتقاد رکھتے ہوں، جیسا کہ نئے عہد نامے میں بتایا گیا ہے۔ اس تقریب کے وقت بپتسمہ لینے والے کو پوری طرح پانی میں ڈبونا چاہیے۔ اس قسم کے عقیدہ رکھنے والی جماعتیں اس سے پہلے بھی تھیں۔ 1609ء میں ایک انگریز جان اسمیتھ (John Smyth) اس عقیدے والوں کو ایمسٹرڈیم میں جمع کیا۔ یہ باپٹسٹوں کا پہلا اجتماع تھا۔ 1611ء میں باپٹسٹوں کے ایک فرقہ نے اپنا پہلا چرچ قائم کیا جو بعد میں جنرل باپٹسٹ چرچ (General Baptist Church) کے نام سے جانا گیا۔ یہ چرچ اس آرمینی عقیدے پر انحصار کرتا تھا کہ مسیح کی برکت کچھ خواص تک محدود نہیں ہے بلکہ سب کے لیے ہے۔ 1633ء میں خاص اصطباغی (Particular Baptists) کا احیا ہوا جن کا فلسفہ یہ تھا کہ مسیح کی برکت خصوصی اور انفرادی ہوتی ہے۔ اس تعلق سے مختلف قسم کے کچھ اور چرچ قائم ہوئے۔ ان سب کا اجتماع 1644ء میں ہوا اور عام و خواص کے مشترکہ عقاید پر اسے باپٹسٹ چرچ کا نام دیا گیا۔ 1891ء میں ایک اور اجتماع ہوا جس میں بپتسمہ کو ماننے والے مختلف گروہوں کو متحد کیا گیا۔ انگلستان کے علاوہ اس چرچ کے پیرو امریکا میں بھی کافی ہیں مگر اس عقیدے کے لوگ مختلف فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ 1638ء میں روج ولیمز نامی شخص نے بپتسمہ کے ابتدائی نظریہ کو رد کر کے ذاتی عقیدے کی اساس پر ایک نئے چرچ کی بنیاد رکھی تھی اور نیو انگلینڈ میں اس نظریہ نے بہت زور پکڑا تھا لیکن جنوب مشرق میں جنرل باپٹسٹ نظریہ نے قبول عام پایا تھا۔ 1905ء میں عالمی سطح پر باپٹسٹوں کا اتحاد ہوا اور اب اس فرقہ کے 144 چرچ ہیں اور اس عقیدے کے ماننے والوں کی مشترکہ تعداد ساڑھے تین کروڑ سے زیادہ ہے۔
والٹ ڈزنی فلمی کارٹونوں کا موجد تھا۔ وہ شکاگو میں پیدا ہوا۔ اسکول سے فارغ ہونے کے بعد شکاگو میں فنون لطیفہ کی اکادمی میں تعلیم حاصل کی۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران میں فرانس میں ریڈکراس کا ایمبولنس ڈرائیور تھا۔ 1918ء میں شہر کینساس میں کمرشل آرٹس کی دکان کھول لی۔ بعد ازاں ایک فرم نے اسے سینما ہاوس میں دکھانے کے لیے اشتہاری سلائڈ بنانے کے کام پر ملازم رکھ لیا۔ 1922ء میں ہالی وڈ میں مزاحیہ فلمیں بنانی شروع کیں اور سرمایہ اکھٹا کرنے کے لیے نیویارک گیا لیکن ناکام رہا۔ مگر اس نے ہمت نہ ہاری اور Mickey Mouse کارٹون فلمیں بنانے کا سلسلہ شروع کیا جو دنیا بھر میں بہت مقبول ہوا۔ آج والٹ ڈزنی کارٹون کمپنی دنیا کی بڑی کارٹون فلمیں بنانے والی کمپنی ہے۔
محمد اقبال کا پیغام یا فلسفہ حیات کیا ہے اگر چاہیں تو اس کے جواب میں صرف ایک لفظ ”خودی“ کہہ سکتے ہیں اس لیے کہ یہی ان کی فکر و نظر کے جملہ مباحث کا محور ہے اور انہوں نے اپنے پیغام یا فلسفہ حیات کو اسی نام سے موسوم کیا ہے۔ اس محور تک اقبال کی رسائی ذات و کائنات کے بارے میں بعض سوالوں کے جوابات کی تلاش میں ہوئی ہے۔ انسان کیا ہے؟ کائنات اور اس کی اصل کیا ہے؟ آیا یہ فی الواقع کوئی وجود رکھتی ہے یا محض فریب نظر ہے؟ اگر فریب نظر ہے تو اس کے پس پردہ کیاہے؟ اس طرح کے اور جانے کتنے سوالات ہیں جن کے جوابات کی جستجو میں انسان شروع سے سرگرداں رہا ہے۔ اس طرح کے سوالات جن سے انسان کے وجود کا اثبات ہوتا ہے۔ اردو شاعری میں اقبال سے پہلے غالب نے بھی اُٹھائے تھے۔
حاضرین کی پیمائش اس بات کی گنتی ہے کہ حاضرین میں کتنے لوگ شامل ہیں۔ یہ عمومًا ریڈیو سامعین کی تعداد اور ٹیلی ویژن ناظرین کی تعداد کا مطالعہ ہے۔ اخبارات اور رسائل کے معاملے میں قارئین کی تعداد دیکھی جاتی ہے۔ انٹرنیٹ کے اس دور میں ویب سائٹوں پر پر ویب ٹریفک دیکھی جاتی ہے۔ کبھی کبھی یہ اصطلاح ان روزمرہ کی کارروائیوں کے لیے مستعمل ہے کو نشریات سے وابستہ اشخاص اور مشتہروں کے لیے معاون ہیں۔ یہ ان دونوں زمرے کے لوگوں کو یہ طے کرنے میں مدد کرتے ہیں کون سن رہا ہے نہ صرف یہ کہ کتنے لوگ سن رہے ہیں۔ دنیا کے کچھ حصوں میں اس کے نتیجے سے ماخوذ اعداد کو حاضرین کی حصے داری کہا جاتا ہے، جب کہ دیگر جگہوں پر وسیع تر اصطلاح بازار کی حصے داری مستعمل ہے۔ اس وسیع تر معنے کو حاضرین کی تحقیق بھی کہا جاتا ہے۔
خلافت راشدہ کے خاتمے کے بعد عربوں کی قائم کردہ دو عظیم ترین سلطنتوں میں سے دوسری سلطنت خلافت عباسیہ ہے۔ خاندان عباسیہ کے دو بھائیوں السفاح اور ابو جعفر المنصور نے 750ء (132ھ) خلافت عباسیہ کو قائم کیا اور 1258ء (656ھ) میں اس کا خاتمہ ہو گیا۔ یہ خلافت بنو امیہ کے خلاف ایک تحریک کے ذریعے قائم ہوئی۔ تحریک نے ایک عرصے تک اپنے مقاصد کے حصول کے لیے جدوجہد کی اور بالآخر بنو امیہ کو شکست دینے کے بعد بر سر اقتدار آگئی۔
نعمان ابن ثابت بن زوطا بن مرزبان (پیدائش: 5 ستمبر 699ء– وفات: 14 جون 767ء) (فارسی: ابوحنیفه،عربی: نعمان بن ثابت بن زوطا بن مرزبان)، عام طور پر آپکو امام ابو حنیفہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ آپ سنی حنفی فقہ (اسلامی فقہ) کے بانی تھے۔ آپ ایک تابعی، مسلمان عالم دین، مجتہد، فقیہ اور اسلامی قانون کے اولین تدوین کرنے والوں میں شامل تھے۔ آپ کے ماننے والوں کو حنفی کہا جاتا ہے۔ زیدی شیعہ مسلمانوں کی طرف سے بھی آ پ کو ایک معروف اسلامی عالم دین اور شخصیت تصور کیا جا تا ہے۔ انہیں عام طور پر "امام اعظم" کہا جاتا ہے۔
فعل (انگریزی: Adverb) وہ کلمہ جس کے معانی میں کسی کام کا کرنا یا ہونا پایا جائے اور جس میں تینوں زمانوں ماضی، حال، مستقبل میں سے کوئی ایک زمانہ موجود ہو۔ فعل کی زمانے کے لحاظ سے تین اقسام ہیں۔ فعل ماضی وہ فعل جس میں کسی کام کا کرنا، ہونا یا سہنا گذرے ہوئے زمانے میں پایا جائے۔ فعل حال وہ فعل جس میں کسی کام کا کرنا، ہونا یا سہنا موجودہ زمانے میں پایا جائے۔ فعل مستقبل ایسا فعل جس میں کسی کام کا کرنا، ہونا یا سہنا آنے والے زمانے میں پایا جائے۔