اردو ویکیپیڈیا کے سب سے زیادہ ملاحظہ کردہ مضامین کی فہرست۔ مزید معلومات کے لیے ۔ ۔ ۔
ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال (ولادت: 9 نومبر 1877ء – وفات: 21 اپریل 1938ء) بیسویں صدی کے ایک معروف شاعر، مصنف، قانون دان، سیاستدان اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھے۔ اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے اور یہی ان کی بنیادی وجہ شہرت ہے۔ شاعری میں بنیادی رجحان تصوف اور احیائے امت اسلام کی طرف تھا۔ "دا ریکنسٹرکشن آف ریلیجس تھاٹ ان اسلام" کے نام سے انگریزی میں ایک نثری کتاب بھی تحریر کی۔ علامہ اقبال کو دور جدید کا صوفی سمجھا جاتا ہے۔ بحیثیت سیاست دان ان کا سب سے نمایاں کارنامہ نظریۂ پاکستان کی تشکیل ہے، جو انہوں نے 1930ء میں الہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پیش کیا تھا۔ یہی نظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا۔ اسی وجہ سے علامہ اقبال کو پاکستان کا نظریاتی باپ سمجھا جاتا ہے۔ گو کہ انہوں نے اس نئے ملک کے قیام کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن انہیں پاکستان کے قومی شاعر کی حیثیت حاصل ہے۔
ابو القاسم محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب (12 ربیع الاول عام الفیل / 8 جون 570ء یا 571ء – 12 ربیع الاول 10ھ / 8 جون 632ء) مسلمانوں کے آخری نبی ہیں۔ اہل اسلام کے نزدیک محمد تمام مذاہب کے پیشواؤں سے کامیاب ترین پیشوا تھے۔ آپ کی کنیت ابوالقاسم تھی۔ مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ کی طرف سے انسانیت کی جانب بھیجے جانے والے انبیا اکرام کے سلسلے کے آخری نبی ہیں جن کو اللہ نے اپنے دین کی درست شکل انسانوں کی جانب آخری بار پہنچانے کیلئے دنیا میں بھیجا۔ انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دنیا کی تمام مذہبی شخصیات میں سب سے کامیاب شخصیت تھے۔ 570ء (بعض روایات میں 571ء) مکہ میں پیدا ہونے والے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر قرآن کی پہلی آیت چالیس برس کی عمرمیں نازل ہوئی۔ ان کا وصال تریسٹھ (63) سال کی عمر میں 632ء میں مدینہ میں ہوا، مکہ اور مدینہ دونوں شہر آج کے سعودی عرب میں حجاز کا حصہ ہیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف کے والد کا انتقال ان کی دنیا میں آمد سے قریبا چھ ماہ قبل ہو گیا تھا اور جب ان کی عمر چھ سال تھی تو ان کی والدہ حضرت آمنہ بھی اس دنیا سے رحلت فرما گئیں۔ عربی زبان میں لفظ "محمد" کے معنی ہیں 'جس کی تعریف کی گئی'۔ یہ لفظ اپنی اصل حمد سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے تعریف کرنا۔ یہ نام ان کے دادا حضرت عبدالمطلب نے رکھا تھا۔ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو رسول، خاتم النبیین، حضور اکرم، رحمت للعالمین اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے القابات سے بھی پکارا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی آپ کے بہت نام و القاب ہیں۔ نبوت کے اظہار سے قبل حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے چچا حضرت ابوطالب کے ساتھ تجارت میں ہاتھ بٹانا شروع کر دیا۔ اپنی سچائی، دیانت داری اور شفاف کردار کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عرب قبائل میں صادق اور امین کے القاب سے پہچانے جانے لگے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنا کثیر وقت مکہ سے باہر واقع ایک غار میں جا کر عبادت میں صرف کرتے تھے اس غار کو غار حرا کہا جاتا ہے۔ یہاں پر 610ء میں ایک روز حضرت جبرائیل علیہ السلام (فرشتہ) ظاہر ہوئے اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اللہ کا پیغام دیا۔ جبرائیل علیہ السلام نے اللہ کی جانب سے جو پہلا پیغام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پہنچایا وہ یہ ہے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان جنوبی ایشیا کے شمال مغرب وسطی ایشیا اور مغربی ایشیا کے لیے دفاعی طور پر اہم حصے میں واقع ایک خود مختار اسلامی ملک ہے۔ یہ دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے، جس کی آبادی تقریباً ٢٤٢ ملین ہے اور دنیا کی دوسری سب سے بڑی مسلم آبادی والا ملک ہے۔ ٨٨١,٩١٣ مربع کلومیٹر (٣٤٠,۵٠٩ مربع میل) کے ساتھ یہ دنیا کا تینتیسواں بڑے رقبے والا ملک ہے۔ اس کے جنوب میں ١٠٤٦ کلومیٹر (٦۵٠ میل) کی ساحلی پٹی ہے جو بحیرہ عرب سے ملتی ہے۔پاکستان کے مشرق ميں بھارت، شمال مشرق ميں چین اور مغرب ميں افغانستان اور ايران واقع ہيں۔ پاکستان کو شمال میں ایک تنگ واخان راہداری تاجکستان سے جدا کرتی ہے جبکہ اس ملک کی سمندری سرحدی حدود اومان کے سمندری حدود سے بھی ملتی ہیں۔
انا لله و انا الیہ راجعون (عربی: إِنَّا لِلَّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ) قرآن میں سورۃ البقرہ کی آیت 156 کے ایک حصے سے لیا گیا ہے۔، کا مطلب ہے "ہم خدا کے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔" جب مسلمان کسی کی موت یا مصیبت کا سنتے ہیں تو یہ آیت پڑھتے ہیں۔ وہ اس آیت کو تعزیت کہنے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں اور مصیبت کے وقت صبر کا مطالبہ کرتے ہیں۔
خلافت راشدہ کے خاتمے کے بعد عربوں کی قائم کردہ دو عظیم ترین سلطنتوں میں سے دوسری سلطنت خلافت عباسیہ ہے۔ خاندان عباسیہ کے دو بھائیوں السفاح اور ابو جعفر المنصور نے 750ء (132ھ) خلافت عباسیہ کو قائم کیا اور 1258ء (656ھ) میں اس کا خاتمہ ہو گیا۔ یہ خلافت بنو امیہ کے خلاف ایک تحریک کے ذریعے قائم ہوئی۔ تحریک نے ایک عرصے تک اپنے مقاصد کے حصول کے لیے جدوجہد کی اور بالآخر بنو امیہ کو شکست دینے کے بعد بر سر اقتدار آگئی۔
تناسخ یا آواگون (روح کا ایک قالب سے دوسرے قالب میں جانا)، تناسخ کا لفظ اردو میں عربی زبان سے آیا ہے اور نسخ سے ماخوذ ہے، تناسخ سے بنیادی طور پرمراد دوبارہ پیدا ہونے کی ہوتی ہے اور اسی تصور کی وجہ سے نسخ (نقل کرنے) سے تناسخ کا لفظ اس مفہوم میں استعمال ہوتا ہے یعنی ایک بار موت کے بعد وہ مرنے والی شخصیت (انسان یا کوئی اور جاندار) ایک مرتبہ پھر تجسیم حاصل کرلیتی ہے۔ متعدد اوقات اس مفہوم کو ادا کرنے کے لیے اہتجار کا لفظ بھی اختیار کیا جاتا ہے؛ انگریزی میں اسے reincarnation کہتے ہیں۔ تناسخ کا لفظ حیات بعد الموت سے ایک الگ تصور ہے جو عام طور پر ابراہیمی ادیان میں پایا جاتا ہے۔
قرآن، قرآن مجید یا قرآن شریف (عربی: القرآن الكريم) دین اسلام کی مقدس و مرکزی کتاب ہے جس کے متعلق اسلام کے پیروکاروں کا اعتقاد ہے کہ وہ کلام الہی ہے اور اسی بنا پر یہ انتہائی محترم و قابل عظمت کتاب ہے۔ اسے پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی کے ذریعے اتارا گیا۔ یہ وحی اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتے حضرت جبرائیل علیہ السلام لاتے تھے جیسے جیسے قرآن مجید کی آیات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوتیں آپ صلی علیہ وآلہ وسلم اسے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو سنا اور ان آیات کے مطالب و معانی سمجھا دیتے۔ کچھ صحابہ کرام تو ان آیات کو وہیں یاد کر لیتے اور کچھ لکھ کر محفوظ کر لیتے۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن ہر قسم کی تحریف سے پاک سے محفوظ ہے، قرآن میں آج تک کوئی کمی بیشی نہیں ہو سکی اور اسے دنیا کی واحد محفوظ کتاب ہونے کی حیثیت حاصل ہے، جس کا حقیقی مفہوم تبدیل نہیں ہو سکا اور تمام دنیا میں کروڑوں کی تعداد میں چھپنے کے باوجود اس کا متن ایک جیسا ہے اور اس کی تلاوت عبادت ہے۔ نیز صحف ابراہیم، زبور اور تورات و انجیل کے بعد آسمانی کتابوں میں یہ سب سے آخری کتاب ہے اور سابقہ آسمانی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اب اس کے بعد کوئی آسمانی کتاب نازل نہیں ہوگی۔ قرآن کی فصاحت و بلاغت کے پیش نظر اسے لغوی و مذہبی لحاظ سے تمام عربی کتابوں میں اعلیٰ ترین مقام دیا گیا ہے۔ نیز عربی زبان و ادب اور اس کے نحوی و صرفی قواعد کی وحدت و ارتقا میں بھی قرآن کا خاصا اہم کردار دکھائی دیتا ہے۔ چنانچہ قرآن کے وضع کردہ عربی زبان کے قواعد بلند پایہ عرب محققین اور علمائے لغت مثلاً سیبویہ، ابو الاسود الدؤلی اور خلیل بن احمد فراہیدی وغیرہ کے یہاں بنیادی ماخذ سمجھے گئے ہیں۔
نوروز (لغوی معنی: ’’نیا دن‘‘) ایرانی سال نو کا نام ہے، جسے فارسیوں کا نیا سال بھی کہا جاتا ہے۔ اپنی بنیاد میں ایرانی اور زرتشتیتی تہوار ہونے کے باوجود، نوروز کا تہوار دنیا بھر میں متنوع نسلی و لسانی گروہ مناتے ہیں۔ مغربی ایشیا، وسط ایشیا، قفقاز، بحیرہ اسود اور بلقان میں یہ تہوار 3000 سالوں سے منایا جا رہا ہے۔ بیشتر تہوار منانے والوں کے لیے یہ ایک سیکولر تعطیل ہے جو مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ مناتے ہیں، لیکن زرتشتی، بہائی اور بعض مسلم گروہوں کے لیے یہ مذہبی دن ہے۔ نوروز بہاری اعتدالین کا دن ہے اور شمالی نصف کرہ میں بہار کے آغاز کی علامت ہے۔ یہ ایرانی تقویم کے پہلے مہینے فروردین کا پہلا دن ہوتا ہے۔ یہ عموماً 21 مارچ یا اس سے پچھلے یا اگلے دن منایا جاتا ہے۔ سورج کے خط استوا سماوی کو عبور کرنے اور دن اور رات برابر ہونے کے لمحے کو ہر سال شمار کیا جاتا ہے اور خاندان رسومات ادا کرنے کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں۔ نوروز کو ایرانی قوم کی مختلف نسلی گروہوں کے مابین اتحاد کی علامت سمجھا جاتا ہے: ایران نسلی گروہوں جیسے فارس ، آذربائیجانی، کورد، بلوچی، سمنانی، تالش، لور ، بختیاری ، گیلکی ، مازندرانی ، خوزستانی عرب اور گورگانی ترکمنوں سب مل کر یہ جشن مناتے ہیں.
ابوحفص عمر فاروق بن خطاب عدوی قرشی (586ء/590ء، مکہ - 6 نومبر 644ء، مدینہ) ابوبکر صدیق کے بعد مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ راشد، محمد مصطفی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سسر اور تاریخ اسلام کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک ہیں۔ عمر بن خطاب عشرہ مبشرہ میں سے ہیں، ان کا شمار علما و زاہدین صحابہ میں ہوتا تھا۔ ابوبکر صدیق کی وفات کے بعد 23 اگست سنہ 634ء مطابق 22 جمادی الثانی سنہ 13ھ کو مسند خلافت سنبھالی۔ عمر بن خطاب ایک باعظمت، انصاف پسند اور عادل حکمران مشہور ہیں، ان کی عدالت میں مسلم و غیر مسلم دونوں کو یکساں انصاف ملا کرتا تھا، عمر بن خطاب کا یہ عدل و انصاف انتہائی مشہور ہوا اور ان کے لقب فاروق کی دیگر وجوہ تسمیہ میں ایک وجہ یہ بھی بنی۔ آپ رضی اللہ عنہ کا نسب نویں پشت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے جا ملتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نویں پشت میں کعب کے دو بیٹے ہیں مرہ اور عدی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مرہ کی اولاد میں سے ہیں، جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ عدی کی اولاد میں سے ہیں۔
احمد خان متقی بن محمد متقی (17 اکتوبر 1817ء – 27 مارچ 1898ء) المعروف سر سید، سر سید احمد خان انیسویں صدی کے ایک ہندوستانی مسلم نظریۂ عملیت کے حامل ، مصلح اور فلسفی تھے۔ ان کو برصغیر میں مسلم قوم پرستی کا سرخیل مانا جاتا ہے اور دو قومی نظریہ کا خالق تصور کیا جاتا ہے، جو آگے چل کر تحریک پاکستان کی بنیاد بنا۔
ابوبکر صدیق عبد اللہ بن ابو قحافہ عثمان تیمی قرشی (573ء—634ء) اسلام کے پہلے خلیفہ راشد، عشرہ مبشرہ میں شامل، خاتم النبین محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اولین جانشین، صحابی، خسر اور ہجرت مدینہ کے وقت رفیق سفر تھے۔ اہل سنت و الجماعت کے یہاں ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ انبیا اور رسولوں کے بعد انسانوں میں سب سے بہتر، صحابہ میں ایمان و زہد کے لحاظ سے سب سے برتر اور ام المومنین عائشہ بنت ابوبکر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے محبوب تر تھے۔ عموماً ان کے نام کے ساتھ صدیق کا لقب لگایا جاتا ہے جسے حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی تصدیق و تائید کی بنا پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دیا تھا۔
نعمان ابن ثابت بن زوطا بن مرزبان (پیدائش: 5 ستمبر 699ء– وفات: 14 جون 767ء) (فارسی: ابوحنیفه،عربی: نعمان بن ثابت بن زوطا بن مرزبان)، عام طور پر آپکو امام ابو حنیفہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ آپ سنی حنفی فقہ (اسلامی فقہ) کے بانی تھے۔ آپ ایک تابعی، مسلمان عالم دین، مجتہد، فقیہ اور اسلامی قانون کے اولین تدوین کرنے والوں میں شامل تھے۔ آپ کے ماننے والوں کو حنفی کہا جاتا ہے۔ زیدی شیعہ مسلمانوں کی طرف سے بھی آ پ کو ایک معروف اسلامی عالم دین اور شخصیت تصور کیا جا تا ہے۔ انہیں عام طور پر "امام اعظم" کہا جاتا ہے۔
قرآنی تخلیق سے مراد وہ نظریاتی حیثیت ہے کہ قرآن ہمیشہ سے موجود رہنے اور اس طرح "غیر تخلیق" ہونے کے بجائے تخلیق کیا گیا تھا۔ مسلم دنیا میں اس کے برعکس نقطہ نظر - کہ قرآن غیر تخلیق شدہ ہے - اکثریت مسلمانوں میں قبول شدہ موقف ہے۔ دوسری طرف شیعہ مسلمان قرآن کی تخلیق پر بحث کرتے ہیں۔ جس پر جھگڑا سچ تھا وہ ابتدائی اسلام میں ایک اہم تنازعہ بن گیا۔ معتزلہ کے نام سے مشہور اسلامی عقلیت پسند فلسفی مکتب کا خیال ہے کہ اگر قرآن خدا کا کلام ہے تو منطقی طور پر خدا کو "اپنی تقریر سے پہلے ہونا چاہئے"۔ خیال کیا جاتا ہے کہ قرآن خدا کی ابدی مرضی کا اظہار کرتا ہے، لیکن یہ کام خود اس نے کسی وقت تخلیق کیا ہوگا۔ قرآن مخلوق ہے یا قدیم۔ اس بحث کا آغاز عباسی دور میں ہوا۔ معتزلہ کا عقیدہ ہے کہ قرآن مخلوق ہے، قدیم نہیں، رسول اللہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر معانی کا القاء ہوتا تھا اور آپ انہیں الفاظ کا جامہ پہنا دیتے تھے۔ مامون الرشید کے دور میں حکومت کا مسلک اعتزال تھا۔ لہذا یہ مسئلہ 827ء میں شدت اختیار کر گیا۔ اور علمائے اسلام سے جبراً یہ اقرار لیا گیا کہ قرآن کلام قدیم نہیں بلکہ مخلوق ہے بہت سے علما نے انکار کر دیا اور قید وبند کی مصیبتوں میں گرفتار ہوئے۔ امام احمد بن حنبل پر بھی اس سلسلے میں بڑے ظلم ڈھائے گئے لیکن وہ اپنے نظرئیے پر قائم رہے۔ مسلمانوں کا عام عقیدہ یہی ہے کہ قرآن چونکہ کلام الہی ہے اس لیے قدیم ہے۔ مسئلہ خلق قرآن ہے جو معتزلہ نے پیدا کیا تھا اور وہ قرآن کو غیر مخلوق سمجھنے والوں کو مشرک قرار دیتے تھے۔ خلفائے بنو عباس بالخصوص مامون الرشید معتزلہ کے عقائد سے شدید متاثر تھا۔ اس نے بہت سے علما کو محض اس بنا پر قتل کر دیا تھا کہ وہ قرآن کو غیر مخلوق سمجھتے تھے اور امام احمدبن حنبل نے اسی مسئلہ کی خاطر مدتوں قید و بند اور مارپیٹ کی سختیاں جھیلی تھیں۔ بالآخر خلیفہ واثق باللہ کے عہد میں ایک سفید ریش بزرگ خلیفہ کے پاس آیا اور درباری معتزلی عالم ابن ابی دؤاد سے مناظرہ کی اجازت طلب کی۔ خلیفہ نے اجازت دے دی تو اس بزرگ نے ابن ابی دؤاد سے کہا : میں ایک سادہ سی بات کہتا ہوں جس بات کی طرف نہ اللہ کے رسول نے دعوت دی اور نہ خلفائے راشدین نے، تم اس کی طرف لوگوں کو دعوت دیتے ہو اور اسے منوانے کے لیے زبردستی سے کام لیتے ہو تو اب دو ہی باتیں ہیں۔ ایک یہ کہ ان جلیل القدر ہستیوں کو اس مسئلہ کا علم تھا لیکن انہوں نے سکوت اختیار فرمایا تو تمہیں بھی سکوت اختیار کرنا چاہیے۔ اور اگر تم کہتے ہو کہ ان کو علم نہ تھا تو اے گستاخ ابن گستاخ !
یوم پاکستان پاکستان کی تاریخ کا بہت اہم دن ہے۔ اس دن یعنی 23 مارچ 1940ء کو قرارداد پاکستان ، جسے قرارداد لاہور بھی کہا گیا تھا، پیش کی گئی تھی۔ قرارداد پاکستان جس کی بنیاد پر مسلم لیگ نے برصغیر میں مسلمانوں کے جدا گانہ وطن کے حصول کے لیے تحریک شروع کی تھی اور سات برس کے بعد اپنا مطالبہ منظور کرانے میں کامیاب رہی۔ وہ مطالبہ جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام سے دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ اس دن "23 مارچ" پورے پاکستان میں عام تعطیل ہوتی ہے۔
روزہ اسلام کے 5 ارکان میں سے ایک ہے جسے عربی میں صوم کہتے ہیں۔ مسلمان اسلامی سال کے مقدس مہینے رمضان المبارک میں روزے رکھتے ہیں۔ روزے میں مسلمان صبح صادق سے غروب آفتاب تک کھانے، پینے اور اپنی بیوی سے ہمبستری کرنے سے باز رہتے ہیں۔ روزہ رکھنے کے لیے صبح صادق سے قبل کھانا کھایا جاتا ہے جسے سحری کہتے ہیں جس کے بعد نماز فجر ادا کی جاتی ہے جبکہ غروب آفتاب کے وقت اذان مغرب کے ساتھ کچھ کھا پی کر روزہ کھول لیا جاتا ہے جسے افطار کرنا کہتے ہیں۔
اردو زبان کی ابتدا کے متعلق نظریات
اردو کی ابتدا و آغاز کے بارے میں کئی مختلف نظریات ملتے ہیں یہ نظریات آپس میں اس حد تک متضاد ہیں کہ انسان چکرا کر رہ جاتا ہے۔ ان مشہور نظریات میں ایک بات مشترک ہے کہ ان میں اردو کی ابتدا کی بنیاد برصغیر پاک و ہند میں مسلمان فاتحین کی آمد پر رکھی گئی ہے۔ اور بنیادی استدلال یہ ہے کہ اردو زبان کا آغاز مسلمان فاتحین کی ہند میں آمد اور مقامی لوگوں سے میل جول اور مقامی زبان پر اثرات و تاثر سے ہوا۔ اور ایک نئی زبان معرض وجود میں آئی جو بعد میں اردو کہلائی۔ کچھ ماہرین لسانیات نے اردو کی ابتدا کا سراغ قدیم آریاؤں کے زمانے میں لگانے کی کوشش کی ہے۔ بہر طور اردو زبان کی ابتدا کے بارے میں کوئی حتمی بات کہنا مشکل ہے۔ اردو زبان کے محققین اگرچہ اس بات پر متفق ہیں کہ اردو کی ابتدا مسلمانوں کی آمد کے بعد ہوئی لیکن مقام اور نوعیت کے تعین اور نتائج کے استخراج میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس انداز سے اگر اردو کے متعلق نظریات کو دیکھا جائے تو وہ نمایاں طور پر چار مختلف نظریات کی شکل میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔
اردو زبان میں سینتیس حروفِ تہجی اور سینتالیس آوازیں ہیں جن میں سے بیشتر عربی سے لیے گئے ہیں اور دیگر انہی کی مختلف شکلیں ہیں۔ کچھ حروف کئی طریقوں سے استعمال ہوتے ہیں اور کچھ مخلوط حروف بھی استعمال ہوتے ہیں جو دو حروف سے مل کر بنتے ہیں۔ بعض لوگ 'ء' کو الگ حرف نہیں مانتے مگر پرانی اردو کتب اور لغات میں اسے الگ حرف کے طور پر لکھا جاتا ہے۔ مختلف الفاظ میں یہ الگ حرف کے طور پر ہی استعمال ہوتا ہے مثلاً 'دائرہ'۔ یہ بات مدِنظر رکھنا ضروری ہے کہ اردو تختی اور اردو حروف دو مختلف چیزیں ہیں کیونکہ اردو تختی میں اردو حروفِ تہجی کی کئی اشکال ہو سکتی ہیں جن کو الگ حرف کا درجہ نہیں دیا جا سکتا بلکہ وہ ایک ہی حرف کی مختلف شکلیں ہیں۔ مثلاً نون غنہ نون کی شکل ہے اور 'ھ' اور 'ہ' ایک ہی حرف کی مختلف اشکال ہیں۔ ایک اور مثال الف ممدودہ (آ) اور الف مقصورہ (ا) کی ہے جو اردو تختی میں الگ ہیں مگر اردو کا ایک ہی حرف شمار ہوتے ہیں۔
مسلمانوں کی عبادت گاہ کو مسجد کہتے ہیں۔ عموماً اسے نماز کے لیے استعمال کیا جاتا ہے مگر تاریخی طور پر یہ کئی حوالوں سے اہم ہیں مثلاً عبادت کرنے کے لیے، مسلمانوں کے اجتماع کے لیے، تعلیمی مقاصد کے لیے حتیٰ کہ مسلمانوں کے ابتدائی زمانے میں مسجدِ نبوی کو غیر ممالک سے آنے والے وفود سے ملاقات اور تبادلۂ خیال کے لیے بھی استعمال کیا گیا ہے۔ مساجد (مسجد کی جمع) سے مسلمانوں کی اولین جامعات (یونیورسٹیوں) نے بھی جنم لیا ہے۔ اس کے علاوہ اسلامی طرزِ تعمیر بھی بنیادی طور پر مساجد سے فروغ پایا ہے۔ مسجد الخیر گیلےوال
سانحۂ کربلا یا واقعہ کربلا یا کربلا کی جنگ 10 محرم 61ھ (بمطابق 9 یا 10 اکتوبر، 680ء) کو، موجودہ عراق میں کربلا کے مقام پر پیش آیا۔ یہ جنگ نواسہ رسول حضرت امام حسین ابن علی، ان کے حامیوں اور رشتہ داروں کے ایک چھوٹے سے گروہ، حسین ابن علیؓ کے ساتھ 72 ساتھی، کچھ غلام، 22 اہل بیت کے جوان اور خاندان نبوی کی کچھ خواتین و بچے شامل تھے، اور اموی ظالم حکمران یزید اول کی ایک بڑی فوج کے مابین ہوئی۔جس کو حسین نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔جس میں اموی خلیفہ یزید اول کی فوج نے پیغمبر اسلام محمد کے نواسے حسین ابن علی اور ان کے رفقا کو لڑائی میں شہید کیا، حرم حسین کے خیموں کو لوٹ لیا گیا اور بالآخر آگ لگا دی گئی۔ عمر بن سعد کی فوج نے کربلا کے صحرا میں مقتولین کی لاشیں چھوڑ دیں۔ بنی اسد کے لوگوں نے لاشوں کو تین دن بعد دفن کیا۔ واقعہ کربلا کے بعد، حسین ابن علی کی فوج سے وابستہ متعدد خواتین اور بچوں کو گرفتار کر کے قید کر دیا گیا، بازار اور ہجوم والے مقامات سے گزر کر ان کی توہین کی گئی اور انہیں یزید ابن معاویہ کے دربار شام بھیج دیا گیا تھا۔ جنگ میں شہادت کے بعد حضرت امام حسین کو سید الشہدا کے لقب سے پکارا جاتا ہے۔
نجم الدولہ، دبیر الملک، مرزا نوشہ اسد اللہ خان غالب بہادر نظام جنگ (1797ء- 1869ء) اردو زبان کے سب سے بڑے شاعروں میں ایک سمجھے جاتے ہیں۔ یہ تسلیم شدہ بات ہے کہ 19 ویں صدی غالب کی صدی ہے۔ جبکہ 18 ویں میر تقی میر کی تھی اور 20 ویں علامہ اقبال کی۔ غالب کی عظمت کا راز صرف ان کی شاعری کے حسن اور بیان کی خوبی ہی میں نہیں ہے۔ ان کا اصل کمال یہ ہے کہ وہ زندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کو گہرائی میں جا کر سمجھتے تھے اور بڑی سادگی سے عام لوگوں کے لیے بیان کر دیتے تھے۔ غالب جس پر آشوب دور میں پیدا ہوئے اس میں انہوں نے مسلمانوں کی ایک عظیم سلطنت کو برباد ہوتے ہوئے اور باہر سے آئی ہوئی انگریز قوم کو ملک کے اقتدار پر چھاتے ہوئے دیکھا۔ غالباً یہی وہ پس منظر ہے جس نے ان کی نظر میں گہرائی اور فکر میں وسعت پیدا کی۔
برصغیر پاک و ہند میں 1857ء کی ناکام جنگ آزادی اور سقوطِ دہلی کے بعد مسلمانان برصغیر کی فلاح و بہبودگی ترقی کے لیے جو کوششیں کی گئیں، عرف عام میں وہ ”علی گڑھ تحریک “ کے نام سے مشہور ہوئیں۔ سر سید نے اس تحریک کا آغاز جنگ آزادی سے ایک طرح سے پہلے سے ہی کر دیا تھا۔ غازی پور میں سائنٹفک سوسائٹی کا قیام اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ لیکن جنگ آزادی نے سرسید کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کیے اور ان ہی واقعات نے علی گڑھ تحریک کو بارآور کرنے میں بڑی مدد دی۔ لیکن یہ پیش قدمی اضطراری نہ تھی بلکہ اس کے پس پشت بہت سے عوامل کارفرما تھے۔ مثلاً راجا رام موہن رائے کی تحریک نے بھی ان پر گہرا اثر چھوڑا۔
رینے ڈیکارٹ فرانسیسی ریاضی دان اور جدید فلسفے کا بانی تھا۔ تورین میں پیدا ہوا۔ پیرس میں ریاضی، طبعیات اور الہیات کی تعلیم حاصل کی۔ کم سنی ہی میں تمام ممتاز فلسفیوں کی کتابیں پڑھ لی تھیں۔ فلسفے کے ساتھ ریاضی سے بھی خاص شغف تھا۔ اس نے الجبرا اور جیومیٹری کے امتزاج کا ایک خاص طریقہ ایجاد کیا جسے اب تحلیلی ہندسہ Analytic Geomentry کہتے ہیں۔ فلسفے پر متعدد کتابیں تصنیف کی جن میں مراقیات اور اصول فلسفہ جدید فلسفے پر اعلی درجے کی تصانیف شمار کی جاتی ہیں۔ اس نے علم کے تمام شعبوں میں ریاضی کے اصولوں اور قاعدوں کا اطلاق کرنے کا طریقہ وضع کیا اور یہ اس کے فلسفے کا بنیادی پہلو ہے۔ وہ خیالی مظاہر کو بھی طبیعی اور کیمیاوی اصول کے ماتحت سمجھتا ہے۔ سائنس میں اس نے روایت کا ساتھ نہ دیا بلکہ فرانسس بیکن کے استقرائی طریق کی پیروی کی۔ تاہم مشاہدے اور تجربے سے زیادہ منطق اور عقل پر انحصار کیا۔ فلسفے پر اس کا اثر گہرا ہے۔ بعض نقاد اسے بابائے فلسفۂ جدید کہتے ہیں۔
یہ مضمون جانداروں کی نشط یا قوت حیات کے بارے میں ہے، لفظ روح کے دیگر استعمالات کے لیے دیکھیے روح (ضد ابہام)سادہ سے الفاظ میں تو یوں کہ سکتے ہیں کہ؛ ایک جاندار کی روح سے مراد اس کی وہ قوت حیات ہوتی ہے جو اس کو غیر جاندراوں اور بےجان شدہ جانداروں سے منفرد بناتی ہے اس کے لیے انگریزی میں لفظ Spirit آتا ہے۔ اس مضمون میں روح کی طبی اور سائنسی تشریح پر انحصار کیا گیا ہے اور اس کے مختلف ایسے پہلوؤں پر جن کے بارے میں مختلف طبقہ فکر اور علما مختلف اندازفکر رکھتے ہیں تعدیلی رہتے ہوئے صرف معلومات کو درج کیا گیا ہے۔
خوارزمیہ یا الگورتھم (algorithm) مسلمان ریاضی دان محمد بن موسی الخوارزمی کی خدمات کے اعتراف میں وضع کی گئی اصطلاح ہے۔ ریاضی اور کمپیوٹر سائنس میں ایک الگورتھم کسی بھی مسئلے کو حل کرنے کے لیے مرحلہ وار انداز میں ترتیب دیا گيا کوئی منظم طریقہ ہے۔ ریاضی میں کسی ریاضیاتی مسئلے کے حل یا تخمینی حل تک رسائی کے لیے وضع/غیر مبہم ریاضی عملیات پر مشتمل، ریاضیاتی عملیات پر مشتمل ہدایات کا منظم اور ترتیب وار مجموعہ الگورتھم ہی کہلاتا ہے۔ کمپیوٹر سائنس میں الگورتھم کی وضاحت سے مراد بذریعہ کمپوٹر کسی عمل کو انجام دینے یا کوئی مسئلہ حل کرنے کے لیے واضع/غیر مبہم ہدایات اور اصولوں کا منظم مجموعہ، جنہیں محدود یعنی متناہی تعداد والے ترتیب وار مراحل کا صورت میں روبہ عمل کیا جائے۔ الگورتھم ایک مخصوص قسم کی علامتی زبان میں لکھا جاتا ہے اور یہی علامتی زبان استعمال کرتے ہوئے (کمپیوٹر پروگرامنگ کی کوئی سی زبان کی مد سے ) مطلوبہ کام کو سر انجام دینے یا متعلقہ مسئلہ حل کرنے کے لیے کمپیوٹر پروگرام (سافٹ ویئر) لکھا جاتا۔ کسی بھی کمپیوٹر پروگرام کی بنیاد یہی الگورتھم ہوتا ہے۔
ماہِ رمضان (رمضان عربی زبان کا لفظ ہے، اس کی جمع رمضانات، ارمضاء، ارمضۃ یا رماضین آتی ہے) یہ ہجری تقویم کا نواں مہینہ ہے جو شعبان کے بعد آتا ہے۔ مسلمانوں کے نزدیک یہ مہینہ دیگر ہجری مہینوں کی بہ نسبت بہت خصوصیت اور مقام ومرتبہ والا سمجھا جاتا ہے۔ اس مہینے میں اسلام کا ایک اہم رکن روزہ رکھا جاتا ہے، روزہ کے دنوں میں فجر سے لے کر غروب آفتاب تک کھانا پینا منع ہوتا ہے۔
عمران احمد خان نیازی پاکستانی سیاست دان اور سابقہ کرکٹ کھلاڑی اور پاکستان کے سابق وزیر اعظم ہیں اور پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ بھی ہیں۔ اس سے پہلے وہ 2002ء تا 2007ء اور2013ء تا2018ء تک پاکستان قومی اسمبلی کے رکن بھی رہ چکے ہیں۔ سیاست میں قدم رکھنے سے قبل عمران خان ایک کرکٹر اور مخیر تھے۔ انہوں نے دو دہائیوں تک بین الاقوامی کرکٹ کھیلی اور بعد میں خدمت خلق کے منصوبے بنائے جیسے کہ شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال اور ریسرچ سینٹر اور نمل کالج وغیرہ۔
اللہ کے ذاتی نام 'اللہ' کے علاوہ اللہ کے ننانوے صفاتی نام مشہور ہیں۔ انہیں کہا جاتا ہے۔ ان میں سے بیشتر قرآن میں موجود ہیں اگرچہ قرآن میں ننانوے کی تعداد مذکور نہیں مگر یہ ارشاد ہے کہ اللہ کو اچھے اچھے ناموں سے پکارا جائے۔ روایات میں بکثرت نیچے دیے گئے ننانوے صفاتی نام ملتے ہیں جن کے ساتھ ان کا اردو ترجمہ بھی درج کیا جا رہا ہے۔
ٹام ہینکس (انگریزی: Tom Hanks) ایک امریکی اداکار اور فلمساز ہے جو اپنے مزاحیہ اور ڈرامائی کردار دونوں کے لیے جانا جاتا ہے۔ ہینکس دنیا بھر میں ایک مشہور ترین اور پہچانے جانے والے فلمی ستاروں میں سے ایک ہے اور اسے امریکی ثقافتی آئیکن کے طور پر بڑے پیمانے پر دیکھا جاتا ہے۔ ہینکس کی فلموں نے شمالی امریکا میں 4.9 بلین ڈالر سے زیادہ اور دنیا بھر میں 9.96 بلین ڈالر سے زیادہ کی کمائی کی ہے
ٹرانس سائیبرین ریلوے(TSR, (روسی: Транссиби́рская магистра́ль), نقل حرفی Transsibirskaya magistral; روسی تلفظ: [trənsʲsʲɪˈbʲirskəjə məgʲɪˈstralʲ])ماسکو سے روسی مشرق بعیدکے درمیان ریلوے نیٹ ورک ہے۔ یہ ریلوے نیٹ ورک پٹری نقل و حمل کے ذریعے بحیرہ جاپان سے ملا ہوا ہے۔ نیٹ ورک کے روٹ کی لمبائی 9,289 km (5,772 mi), ہے۔ یہ دنیا کی طویل ترین ریلوے لائن ہے۔ اس ریلوے لائن سے منگولیا، چین اور شمالی کوریا کی ریلوے لائنیں بھی ملتی ہیں۔ یہ ماسکو کو ولادیوستوک سے ملاتا ہے اور 1916 کے بعد سے اب تک پھیل رہا ہے۔
ابو عبد اللہ عثمان بن عفان اموی قرشی (47 ق ھ - 35 ھ / 576ء – 656ء) اسلام کے تیسرے خلیفہ، داماد رسول اور جامع قرآن تھے۔ عثمان غنی سابقین اسلام میں شامل اور عشرہ مبشرہ میں سے تھے، ان کی کنیت ذو النورین ہے کیونکہ انھوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دو صاحبزادیوں سے نکاح کیا تھا، پہلے رقیہ بنت محمد سے کیا، پھر ان کی وفات کے بعد ام کلثوم بنت محمد سے نکاح کیا۔ عثمان غنی پہلے صحابی ہیں جنھوں نے سرزمین حبشہ کی ہجرت کی، بعد میں دیگر صحابہ بھی آپ کے پیچھے حبشہ پہنچے۔ بعد ازاں دوسری ہجرت مدینہ منورہ کی جانب کی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عثمان غنی پر مکمل اعتماد اور ان کی فطری حیاء و شرافت اور جو انھوں نے اپنے مال کے ذریعہ اہل ایمان کی نصرت کی تھی، اس کی انتہائی قدر کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیگر صحابہ کے ساتھ ان کو بھی جنت اور شہادت کی موت کی خوش خبری دی۔
وفاق المدارس العربیہ پاکستان، پاکستان کے اکثر دیوبندی مکتب فکر کے دینی مدارس کی نمائندہ تنظیم یا وفاق ہے۔اس کی بنیادی ذمہ داریوں میں دینی مدارس کی حفاظت، رجسٹریشن، ترقی ، نصاب سازی، امتحانات اور ڈگری سے منسلک معاملات ہیں۔تنظیم کے صدر مولانا محمد تقی عثمانی اور سیکٹری جرنل قاری محمد حنیف جا لندھری ہیں۔
فاطمہ بنت محمد بن عبد اللہ جن کا معروف نام فاطمۃ الزہراء ہے حضرت محمد بن عبد اللہ اور خدیجہ بنت خویلد کی بیٹی تھیں۔ تمام مسلمانوں کے نزدیک آپ ایک پاک، مقدس اور برگزیدہ ہستی ہیں۔۔ آپ کی ولادت 20 جمادی الثانی بروز جمعہ بعثت کے پانچویں سال میں مکہ میں ہوئی۔ آپ کی شادی علی ابن ابی طالب سے ہوئی جن سے آپ کے دو بیٹے حسن اور حسین اور دو بیٹیاں زینب اور ام کلثوم پیدا ہوئیں۔ انکے علاوہ آپ کے ایک اور صاحبزادے محسن بھی تھے جو پیدا ہونے سے پہلے ہی آپ کے شکم میں شہید ہوگئے تھے.
محمد علی جناح پیدائشی نام، محمد علی جناح بھائی، 25 دسمبر 1876ء – 11 ستمبر 1948ء) کے نامور وکیل، سیاست دان اور بانی پاکستان تھے۔ محمد علی جناح 1913ء سے لے کر پاکستان کی آزادی 14 اگست 1947ء تک آل انڈیا مسلم لیگ کے سربراہ رہے، پھر قیام پاکستان کے بعد اپنی وفات تک، وہ ملک کے پہلے گورنر جنرل رہے۔ سرکاری طور پر پاکستان میں آپ کو قائدِ اعظم یعنی سب سے عظیم رہبر اور بابائے قوم یعنی قوم کا باپ بھی کہا جاتا ہے۔ جناح کا یومِ پیدائش پاکستان میں قومی تعطیل کے طور پر منایا جاتا ہے۔کراچی کے پیدائشی اور لنکن ان سے بیرسٹری کی تربیت حاصل کرنے والے جناح، بیسویں صدی کے ابتدائی دو عشروں میں آل انڈیا کانگریس کے اہم رہنما کے طور پر ابھرے۔ اپنی سیاست کے ابتدائی ادوار میں انہوں نے ہندو مسلم اتحاد کے لیے کام کیا۔ 1916ء میں آل انڈیا مسلم لیگ اور آل انڈیا کانگریس کے مابین ہونے والے میثاق لکھنؤ کو مرتب کرنے میں بھی انہوں نے اہم کردار ادا کیا۔ جناح آل انڈیا ہوم رول لیگ کے اہم رہنماوں میں سے تھے، انہوں نے چودہ نکات بھی پیش کیے، جن کا مقصد ہندوستان کے مسلمانوں کے سیاسی حقوق کا تحفظ کرنا تھا۔ بہر کیف جناح 1920ء میں آل انڈیا کانگریس سے مستعفی ہو گئے، جس کی وجہ آل انڈیا کانگریس کے موہن داس گاندھی کی قیادت میں ستیاگرا کی مہم چلانے کا فیصلہ تھا۔1940ء تک جناح کو یہ یقین ہو چلا تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک علاحدہ وطن کی جدوجہد کرنی چاہیے۔ اسی سال، مسلم لیگ نے جناح کی قیادت میں قرارداد پاکستان منظور کی جس کا مقصد نئی مملکت کی قیام کا مطالبہ تھا۔دوسری جنگ عظیم کے دوران، آل انڈیا مسلم لیگ نے مضبوطی پکڑلی جبکہ ان ادوار میں کانگریس کے کئی رہنما قید کاٹ رہے تھے اور جنگ کے ختم ہونے کے مختصر عرصے میں ہی انتخابات کا انعقاد ہوا، جس میں جناح کی جماعت نے مسلمانوں کے لیے مختص نشستوں میں سے بڑی تعداد جیت لی۔ اس کے بعد آل انڈیا کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ متحدہ ہندوستان میں اختیارات کے توازن کے لیے کسی صیغے پر متفق نا ہو سکے نتیجتاً تمام جماعتیں اس امر پر متفق ہوگئیں کہ ہندوستان کے دو حصے کیے جائیں جن میں ایک مسلم اکثریتی علاقوں میں پاکستان جبکہ باقی ماندہ علاقوں میں بھارت کا قیام ہو۔پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کے طور پر جناح نے اپنی حکومتی پالیسیوں کے قیام کے لیے کام کیا نیز انہوں نے ان لاکھوں لوگوں کے بہبود اور آباد کاری کے لیے بھی کام کیا جو تقسیم ہند کے بعد پاکستان کی جانب ہجرت کر چلے تھے، انہوں نے ان مہاجر کیمپوں کی ذاتی طور پر دیکھ بھال کی۔ جناح 71 سال کے عمر میں انتقال کر گئے جبکہ ان کے نوزائیدہ ملک کو سلطنت برطانیہ سے آزاد ہوئے محض ایک سال کا عرصہ ہوا تھا۔ ان کی سوانح عمری لکھنے والے لکھاری،اسٹینلی وولپرٹ لکھتے ہیں کہ، وہ (یعنی جناح) پاکستان کے عظیم ترین رہنما رہیں گے۔
سیدہ عائشہ بنت ابی بکر (رضی اللہ عنہا) (پیدائش: 614ء– وفات: 13 جولائی 678ء) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ ہیں۔ آپ کو اُم المومنین کے خطاب سے یاد کیا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد عہد خلفائے راشدین میں آپ کی شخصیت بہت نمایاں نظر آتی ہے۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد 47 سال بقید حیات رہیں اور یہ تمام وہ عرصہ ہے جس میں ابتدائی مسلم فتوحات ہوئیں، مختلف ممالک مملکت اسلامیہ میں داخل ہوئے۔ علم الحدیث میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایات کے بعد سب سے زیادہ روایاتِ حدیث کا ذخیرہ آپ سے ہی روایت کیا گیا ہے۔ آپ عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور عہد خلفائے راشدین کی عینی شاہد بھی تھیں اور مزید برآں آپ نے خلافت امویہ کے ابتدائی 17 سال بھی ملاحظہ فرمائے۔ آپ کا انتقال مدینہ منورہ میں سنہ 678 ء میں ہوا۔ آپ کے مناقب و فضائل کثیر ہیں جس سے آپ کی عظمت و شان جلالت مسلم خواتین پر نمایاں ہے۔جنگ جمل کے حوالے سے یہ بات معلوم ہونا بھی مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ کچھ احادیث اور تاریخی کتابوں کے واقعات میں راویوں پر علما اسلام کی طرف سے جرح بھی کی گئی ہے اور بہت سے راویوں کے حالات معلوم نہیں ہیں ۔مسلمان امت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اہل بیت اطھار کے بارے میں صحیح عقائد قرآن وسنت اور مستند و صحیح احادیث نبوی سے لیتے
اللہ عربی زبان میں خالق کے لیے استعمال ہونے والا لفظ ہے۔، خالق تخلیق کرنے والے کو کہا جاتا ہے اور فارسی اور اردو زبانوں میں اللہ کے لیے خدا اور پروردگار کے الفاظ بھی ادا کیے جاتے ہیں۔ کھوار زبان میں اللہ کے لیے خدای کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ اللہ کا لفظ انگریزی زبان کے لفظ God کا عربی متبادل ہے۔ یہ لفظ مسلمانوں کی زبانوں تک محدود نہیں بلکہ مشرق وسطی اور دیگر اسلامی ممالک میں رہنے والے مسیحی، یہودی اور بعض اوقات دیگر مذاہب کے ماننے والے بھی خدا واحد کے لیے اللہ کا لفظ ہی استعمال کرتے ہیں اور بائبل کے عربی تراجم میں God کے لیے اللہ کا لفظ ہی استعمال کیا جاتا ہے
متضاد مخالف؛ اُلٹ؛ اُلٹی طرف؛ دوسری جانب؛ ضِد؛ مُقابل؛ بِالمقابل؛ متقابل؛ متضاد؛ ایک لفظ جو مفہوم کے لحاظ سے دوسرے کی ضد ہو؛ متضاد المعنی۔ ایسے الفاظ جو مماثل وضع میں لیکن ایک دوسرے کے مخالف، برعکس یا یکسر مختلف ہوں۔ اسے 'بائنری' تعلق سے تعبیر کیا جاتا ہے کیوں کہ متضاد جوڑوں میں دو رکن ہوتے ہیں۔ باہم مخالف تعلق کو متضاد کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ایک جوڑے میں مخالف لفظ کو عام طور پر اس سوال کے ذریعہ طے کیا جا سکتا ہے کہ الف کے برعکس کیا ہے؟ جیسے:
خضر راہ اقبال کی ایک نظم ہے جسے انہوں نے انجمن حمایت اسلام کے 37 ویں سالانہ اجلاس میں جو 12 اپریل 1922ء کو اسلامیہ ہائی سکول اندرون شیرانوالہ میں منعقد ہوا تھا میں ترنم سے پڑھ کر سنائی تھی۔ بعض اشعار پر اقبال خود بھی بے اختیار روئے اور مجمع بھی اشک بار ہو گیا۔ عالم اسلام کے لیے وہ وقت بہت نازک تھا۔ قسطنطنیہ پر اتحادی قابض تھے۔ اتحادیوں کے ایماءپر یونانیوں نے اناطولیہ میں فوجیں اتار دی تھیں۔ شریف حسین جیسے لوگ انگریزوں کے ساتھ مل کر اسلام کا بیڑا غرق کرنے میں پیش پیش تھے۔ خود ہندوستان میں تحریک ہجرت جاری ہوئی۔ پھر خلافت اور ترک موالات کا دور شروع ہوا۔ ادھر دنیائے اسلام کے روبرو نئے نئے مسائل آ گئے۔ اقبال نے انہی میں سے بعض اہم مسائل کے متعلق حضرت خضر کی زبان سے مسلمانوں کے سامنے صحیح روشنی پیش کی۔ اور نظم کا نام خضر راہ اسی وجہ سے رکھا۔ ابتداءمیں نظم میں صرف دو عنوان تھے۔ پہلے دو بندوں کا عنوان تھا ”شاعر“ یعنی شاعر کا خضر سے خطاب باقی نو بندوں کا عنوان تھا ”جواب خضر “ نظر ثانی میں اقبال نے مختلف مسائل پر الگ الگ عنوان قائم کر دیے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مدینہ ہجرت کے بعد یہاں کی آبادی (خصوصاً یہود) کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جو میثاق مدینہ کے نام سے موسوم ہے۔ یہ پہلا بین الاقوامی تحریری معاہدہ ہے۔ بعض مورخین میگنا کارٹا کو پہلا بین الاقوامی معاہدہ قرار دیتے ہیں حالانکہ میثاق مدینہ 622ء میں ہوا جبکہ میگنا کارٹا 600 سالوں بعد 1215ء میں انگلستان کے شاہ جان اول کے زمانے میں ہوا۔
سلطنت عثمانیہ (یا خلافت عثمانیہ 1517ء سے 1924ء تک) (عثمانی ترکی زبان: "دولت عالیہ عثمانیہ"، ترکی زبان: Osmanlı Devleti) سنہ 1299ء سے 1922ء تک قائم رہنے والی ایک مسلم سلطنت تھی جس کے حکمران ترک تھے۔ اپنے عروج کے زمانے میں (16 ویں – 17 ویں صدی) یہ سلطنت تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی اور جنوب مشرقی یورپ، مشرق وسطٰی اور شمالی افریقہ کا بیشتر حصہ اس کے زیر نگیں تھا۔ اس عظیم سلطنت کی سرحدیں مغرب میں آبنائے جبرالٹر، مشرق میں بحیرۂ قزوین اور خلیج فارس اور شمال میں آسٹریا کی سرحدوں، سلوواکیہ اور کریمیا (موجودہ یوکرین) سے جنوب میں سوڈان، صومالیہ اور یمن تک پھیلی ہوئی تھی۔ مالدووا، ٹرانسلوانیا اور ولاچیا کے باجگذار علاقوں کے علاوہ اس کے 29 صوبے تھے۔
باغ و بہار میر امن دہلوی کی تصنیف کردہ ایک داستان ہے جو اُنھوں نے فورٹ ولیم کالج میں جان گلکرسٹ کی فرمائش پر لکھی۔ عام خیال ہے کہ باغ و بہار کو میر امن نے امیر خسرو کی فارسی داستان قصہ چہار درویش سے اردو میں ترجمہ کیا ہے لیکن یہ خیال پایہ استناد کو نہیں پہنچتا۔ حافظ محمود شیرانی نے تحقیق سے یہ ثابت کیا ہے کہ اس قصے کا امیر خسرو سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں ان کے مطابق یہ قصہ محمد علی معصوم کی تصنیف ہےباغ و بہار فورٹ ولیم کالج کی دین ہے جو انگریزوں کو مقامی زبانوں سے آشنا کرنے کے لیے قائم کیا گیا تھا اور یہیں میر امن نے باغ و بہار کو جان گل کرائسٹ کی فرمائش پر میر حسین عطا تحسین کی نو طرز مرصع سے استفادہ کرکے تصنیف کیا۔ اس طرح یہ داستان اردو نثر میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے اور اسے بجا طور پر جدید اردو نثر کا پہلا صحیفہ قرار دیا گیا ہے۔ اس داستان کی اشاعت کے بعد اردو نثر میں پہلی مرتبہ سلیس زبان اور آسان عبارت آرائی کا رواج ہوا اور آگے چل کر غالب کی نثر نے اسے کمال تک پہنچا دیا۔ اسی بنا پر مولوی عبدالحق کا کہنا ہے کہ اردو نثر کی ان چند کتابوں میں باغ و بہار کو شمار کیا جاتا ہے جو ہمیشہ زندہ رہنے والی ہیں اور شوق سے پڑھی جائیں گی۔ بقول سید محمد، "میر امن نے باغ و بہار میں ایسی سحر کاری کی ہے کہ جب تک اردو زبان زندہ ہے مقبول رہے گی اور اس کی قدر و قیمت میں مرورِ ایام کے ساتھ کوئی کمی نہ ہوگی۔" نیز سید وقار عظیم کے الفاظ میں "داستانوں میں جو قبول عام باغ و بہار کے حصے میں آیا ہے وہ اردو کی کسی اور داستان کو نصیب نہیں ہوا"۔
محمد اقبال کا پیغام یا فلسفہ حیات کیا ہے اگر چاہیں تو اس کے جواب میں صرف ایک لفظ ”خودی“ کہہ سکتے ہیں اس لیے کہ یہی ان کی فکر و نظر کے جملہ مباحث کا محور ہے اور انہوں نے اپنے پیغام یا فلسفہ حیات کو اسی نام سے موسوم کیا ہے۔ اس محور تک اقبال کی رسائی ذات و کائنات کے بارے میں بعض سوالوں کے جوابات کی تلاش میں ہوئی ہے۔ انسان کیا ہے؟ کائنات اور اس کی اصل کیا ہے؟ آیا یہ فی الواقع کوئی وجود رکھتی ہے یا محض فریب نظر ہے؟ اگر فریب نظر ہے تو اس کے پس پردہ کیاہے؟ اس طرح کے اور جانے کتنے سوالات ہیں جن کے جوابات کی جستجو میں انسان شروع سے سرگرداں رہا ہے۔ اس طرح کے سوالات جن سے انسان کے وجود کا اثبات ہوتا ہے۔ اردو شاعری میں اقبال سے پہلے غالب نے بھی اُٹھائے تھے۔
بنو امیہ قریش کا ایک ممتاز اور دولت مند قبیلہ تھا۔ اسی خاندان نے خلافت راشدہ کے بعد تقریباً ایک صدی تک ملوکیت سنبھالی اور اسلامی فتوحات کو بام عروج پر پہنچایا۔ جس کی سرحدیں ایک طرف چین اور دوسری طرف اسپین تک پھیلی ہوئی تھیں۔ البتہ مرکزی خلافت کے خاتمے کے باوجود اس خاندان کا ایک شہزادہ عبدالرحمن الداخل اسپین میں حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوا۔ جہاں 1492ء تک اموی سلطنت قائم رہی۔
شاعری (Poetry) کا مادہ "شعر" ہے، اس کے معانی کسی چیز کے جاننے پہچاننے اور واقفیت کے ہیں لیکن اصطلاحاً شعر اس کلامِ موزوں کو کہتے ہیں جو قصداً کہا جائے۔ یہ کلام موزوں جذبات اور احساسات کے تابع ہوتا ہے اور کسی واقعہ کی طرف جاننے کا اشارہ کرتا ہے۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ آپ نے کوئی حادثہ دیکھا ہو اور وہ آپ کے دل پر اثر کر گیا ہو اور آپ کے اندر سے خود بہ خود الفاظ کی صورت میں ادا ہو جائے، اس اثر کے بیان کو شعر کہتے ہیں اور انہیں شعروں کو شاعری کے نام سے جانا جاتا ہے۔دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ شاعری الفاظ کا وہ استعمال ہے، جس میں ایک طرف معانی کی وسعت ذہن کو تسخیر کرے تو دوسری جانب نغمگی کی تاثیر دل کو جکڑ لے۔ گویا ایک اچھا شعر بشر کے پورے وجود کا تجربہ ہے۔
اردو زبان پر مشتمل ادب اردو ادب کہلاتا ہے جو نثر اور شاعری پرمشتمل ہے۔ نثری اصناف میں ناول، افسانہ، داستان، انشائیہ، مکتوب نگاری اور سفر نامہ شامل ہیں۔ جب کہ شاعری میں غزل، رباعی، نظم، مرثیہ، قصیدہ اور مثنوی ہیں۔ اردو ادب میں نثری ادب بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ شعری ادب، لیکن غزل اور نظم سے ہی اردو ادب کی شان بڑھی ایسا سمجھا جاتا ہے۔ اردو ادب پاکستان میں مقبول ہے، بھارت میں مشہور ہے اور افغانستان میں بھی سمجھا اور پڑھا جاتا ہے۔
'مرزا اسد اللہ خان غالب' کی شخصیت کو کون نہیں جانتا۔ ہمارے ملک میں تو یہ عالم ہے کہ اگر کسی کو تھوڑی بہت اردو کی سوجھ بوجھ ہے تو غالب کے نام کو تو ضرور جانتا ہوگا۔ بحیثیتِ شاعر وہ اتنے مقبول ہیں کہ اُن کے اشعار زبان زدِ خلائق ہیں۔ اور بحیثیتِ نثر نگار بھی وہ کسی سے کم نہیں۔ بلکہ اس لحاظ سے ان کا پایہ سب سے بلند ہے کہ ایسے زمانے میں جب رنگینی و قافیہ پیمائی، انشا پردازی کا اصل سرمایہ سمجھی جاتی تھی ، انہوں نے نثر میں بھی ایک نئی راہ نکالی ۔ سادہ و پرکار، حسین و رنگین۔ یہی نمونۂ نثر آنے والوں کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوئے۔
میر تقی میر (پیدائش: ٢٨ مئی ١٧٢٣ء— وفات: ٢٢ ستمبر ١٨١٠ء) اصل نام میر محمد تقى اردو كے عظیم شاعر تھے۔ میر ان کا تخلص تھا۔ اردو شاعرى ميں مير تقى مير كا مقام بہت اونچا ہے ـ انہیں ناقدین و شعرائے متاخرین نے خدائے سخن کے خطاب سے نوازا۔ وہ اپنے زمانے كے ايك منفرد شاعر تھےـ۔ آپ كے متعلق اردو كے عظیم الشان شاعرمرزا غالب نے لکھا ہے۔
مغلیہ سلطنت 1526ء سے 1857ء تک برصغیر پر حکومت کرنے والی ایک مسلم سلطنت تھی، جس کی بنیاد ظہیر الدین بابر نے 1526ء میں پہلی جنگ پانی پت میں دہلی سلطنت کے آخری سلطان ابراہیم لودھی کو شکست دے کر رکھی تھی۔ مغلیہ سلطنت اپنے عروج میں تقریباً پورے برصغیر پر حکومت کرتی تھی، یعنی موجودہ دور کے افغانستان، پاکستان، بھارت، اور بنگلہ دیش کے ممالک پر مشتمل خطے پر انکا دور دورہ تھا۔-
اردو ادب کی دو اصناف ہیں: اردو نثر اور اردو نظم یعنی اردو شاعری۔ پھر اردو شاعری کی کئی قسمیں ہیں جن میں نظم، غزل، مثنوی، قصیدہ، مرثیہ، رباعی، مخمس، مسدس، مثمن، قطعہ، نعت وغیرہ شامل ہیں۔ ان میں سب سے مشہور صنف غزل ہے، جسے ہر خاص و عام نے قبول کیا اور سراہا ہے مگر اردو شاعری کی سب سے وسیع قسم اردو نظم ہے۔ اردو نظم میں بہت زیادہ تجربے کیے گئے ہیں اور یہی اس کی وسعت کی دلیل ہے۔ نظیر اکبر آبادی، الطاف حسین حالی، اکبر الہ آبادی اور اقبال، جوش ملیح آبادی، ساحر لدھیانوی، فیض احمد فیض، علی سردار جعفری، ن م راشد، اسماعیل میرٹھی، نظم طباطبائی نظم کے بڑے شاعروں میں سے ہیں۔ اردو میں نظم کی صنف انیسویں صدی کی آخری دہائیوں کے دوران میں انگریزی کے اثر سے پیدا ہوئی، جو دھیرے دھیرے پوری طرح قائم ہو گئی۔ نظم بحر اور قافیے میں بھی ہوتی ہے اور اس کے بغیر بھی۔ اب نثری نظم بھی اردو میں مستحکم ہو گئی ہے۔ نثری نظم کے حوالے سے میراجی، ن م راشد سے ہوتے ہوئے احمد ہمیش سے ہوتے ہوئے جواز جعفری تک سلسلہ آتا ہے؛ لیکن ایک اور بات ...! اس سارے سلسلے میں ڈاکٹر وحید احمد آج بھی نمایاں ہیں۔ موجودہ دور میں بھی نثری نظم کے بہت سے شاعر موجود ہیں۔جن میں ایک نام منصف ہاشمی کا بھی ہے۔ اس کی اس حوالے سے پہلی کتاب کا نام "مٹھی میں ستارے لیے" اور دوسری کتاب "عشق" کے نام سے منظر عام پر آئیں.
اسلام ایک توحیدی مذہب ہے جو اللہ کی طرف سے آخری رسول و نبی، محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ذریعے انسانوں تک پہنچائی گئی آخری الہامی کتاب (قرآن مجيد) کی تعلیمات پر قائم ہے۔ یعنی دنیاوی اعتبار سے بھی اور دینی اعتبار سے بھی اسلام (اور مسلم نظریے کے مطابق گذشتہ ادیان کی اصلاح) کا آغاز، 610ء تا 632ء تک 23 سال پر محیط عرصے میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اللہ کی طرف سے اترنے والے الہام (قرآن) سے ہوتا ہے۔ قرآن عربی زبان میں نازل ہوا (برائے وجہ : اللسان القرآن) اور اسی زبان میں دنیا کی کل آبادی کا کوئی 24% حصہ یعنی لگ بھگ 1.6 تا 1.8 ارب افراد اس کو پڑھتے ہیں ؛ ان میں (مختلف ذرائع کے مطابق) قریباً 20 تا 30 کروڑ ہی وہ ہیں جن کی مادری زبان عربی ہے جبکہ 70 تا 80 کروڑ، غیر عرب یا عجمی ہیں جن کی مادری زبان عربی کے سوا کوئی اور ہوتی ہے۔ متعدد شخصی ماخذ سے اپنی موجودہ شکل میں آنے والی دیگر الہامی کتابوں کے برعکس، بوسیلۂ وحی، فردِ واحد (محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے منہ سے ادا ہوکر لکھی جانے والی کتاب اور اس کتاب پر عمل پیرا ہونے کی راہنمائی فراہم کرنے والی شریعت ہی دو ایسے وسائل ہیں جن کو اسلام کی معلومات کا منبع قرار دیا جاتا ہے۔
محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصال کے بعد ابوبکر صدیق، عمر فاروق، عثمان غنی اور علی المرتضی، حسن المجتبی کا عہد خلافت خلافت راشدہ کہلاتا ہے۔ اس عہد کی مجموعی مدت تیس سال ہے جس میں ابوبکر صدیق اولین اور علی آخری خلیفہ ہیں، حسن کی خلافت کے چھ ماہ خلافت علی میں شمار ہوتے ہیں جیسا کہ جمہور اسلاف کی رائے ہے۔ اس عہد کی نمایاں ترین خصوصیت یہ تھی کہ یہ قرآن و سنت کی بنیاد پر قائم نظام حکومت تھا۔
جنگ احد 17 شوال 3ھ (23 مارچ 625ء) میں مسلمانوں اور مشرکینِ مکہ کے درمیان احد کے پہاڑ کے دامن میں ہوئی۔ مشرکین کے لشکر کی قیادت ابوسفیان کے پاس تھی اور اس نے 3000 سے زائد افراد کے ساتھ مسلمانوں پر حملہ کی ٹھانی تھی جس کی باقاعدہ تیاری کی گئی تھی۔ مسلمانوں کی قیادت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کی۔ اس جنگ کے نتیجہ کو کسی کی فتح یا شکست نہیں کہا جا سکتا کیونکہ دونوں طرف شدید نقصان ہوا اور کبھی مسلمان غالب آئے اور کبھی مشرکین لیکن آخر میں مشرکین کا لشکر لڑائی ترک کر کے مکہ واپس چلا گیا۔
مذکر: نر اسم ہوتا ہے جیسےمرد، باپ، بیل، بیٹا جبکہ مونث: مادہ اسم ہوتا ہے جیسے عورت، ماں، گائے، بیٹی بے جان اسماء میں نر اور مادہ کا کوئی فرق نہیں ہوتا اس لیے ان کی تذکیر و تانیث کا تمام تر درارومدار اہل زبان پر ہوتا ہے جیسے قلم کو اہل زبان مذکر بولتے ہیں اور گیند کو مونث اسی لیے ایسے اسماء کی تذکیر و تانیث کو غیر حقیقی تذکیر و تانیث کہا جاتا ہے۔ جبکہ حقیقی تذکیر و تانیث وہ ہوتی ہے جس میں نر کے مقابلے میں مادہ اور مادہ کے مقابلے میں نر ہو جانداروں میں کیوں کہ قدرتی طور پر نر اور مادہ کا فرق موجود ہوتا ہے اس لیے اس لیے ان کی تذکیرو تانیث حقیقی ہوتی ہے جیسے مرد، عورت۔ بیل، گائے وغیرہ
ہجرت مدینہ پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ان کے صحابہ کی طرف سے مکہ مکرمہ سے یثرب (جسے اس ہجرت کے بعد مدینۃ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نام دیا گیا) منتقل ہوجانے کے عمل کو کہتے ہیں جو 12ربیع الاول 13نبوی (جو بعد میں پہلا ہجری سال کہلایا)، بمطابق 24 ستمبر 622ء عیسوی بروز جمعہ کو ہوئی، بعد میں اسی دن کی نسبت سے ہجری تقویم کا آغاز ہوا۔ مسلمانوں نے قمری ہجری تقویم اور شمسی ہجری تقویم دونوں کا آغاز اسی واقعہ کی بنیاد پر کیا۔
سید احمد شاہ المعروف پطرس بخاری (انگریزی: Patras Bokhari؛ پیدائش: یکم اکتوبر 1898ء - وفات: 5 دسمبر 1958ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے نامور مزاح نگار، افسانہ نگار، مترجم، شاعر، نقاد، معلم، برطانوی ہندوستان کے ماہر نشریات اور پاکستان کے سفارت کار تھے۔ پطرس کے طنزیہ و مزاحیہ مضامین کا مختصر مجموعہ پطرس کے مضامین پاکستان اور ہندوستان میں اسکولوں سے لے کر جامعات تک اردو نصاب کا حصہ ہے۔ ان کا شمار متحدہ ہندوستان میں نشریات کے بانیوں میں ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ پطرس اقوام متحدہ میں پاکستان کے پہلے مستقل مندوب کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ پطرس انگریزی کے پروفیسر تھے اور انگریزی میں اتنی قابلیت تھی کہ انہوں نے امریکا کی جامعات میں انگریزی پڑھائی اور وہیں وفات پائی اور دفن ہوئے۔
صحیح بخاری کا اصل نام «الجامع المسند الصحیح المختصر من امور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وسننہ و ایامہ» ہے جو «صحیح البخاری» کے نام سے مشہور ہے، یہ اہل سنت وجماعت کے مسلمانوں کی سب سے مشہور حدیث کی کتاب ہے، اس کو امام محمد بن اسماعیل بخاری نے سولہ سال کی مدت میں بڑی جانفشانی اور محنت کے ساتھ تدوین کیا ہے، اس کتاب کو انھوں نے چھ لاکھ احادیث سے منتخب کر کے جمع کیا ہے۔ اہل سنت کے یہاں اس کتاب کو ایک خاص مرتبہ و حیثیت حاصل ہے اور ان کی حدیث میں چھ امہات الکتب (صحاح ستہ) میں اول مقام حاصل ہے، خالص صحیح احادیث میں لکھی جانی والی پہلی کتاب شمار ہوتی ہے، اسی طرح اہل سنت میں قرآن مجید کے بعد سب سے صحیح کتاب مانی جاتی ہے۔ اسی طرح صحیح بخاری کا شمار کتب الجوامع میں بھی ہوتا ہے، یعنی ایسی کتاب جو اپنے فن حدیث میں تمام ابواب عقائد، احکام، تفسیر، تاریخ، زہد اور آداب وغیرہ پر مشتمل اور جامع ہو۔
پاکستان سپر لیگ 2023ء (جسے پی ایس ایل 8 بھی کہا جاتا تھا یا سپانسرشپ وجوہات کی بنا پر ایچ بی ایل پی ایس ایل 2023ء ) پاکستان سپر لیگ کا آٹھواں سیزن تھا جسے فرنچائز ٹوئنٹی 20 کرکٹ لیگ کے طور پر پاکستان کرکٹ بورڈ نے 2015ء میں لانچ کیا تھا۔ تب پی سی بی کے چیئرمین رمیز راجہ نے 2023ء کے سیزن کے ڈرافٹ کو تبدیل کر کے نیلامی پر مبنی نظام کا اشارہ دیا تھا لیکن ڈرافٹ برقرار رکھا گیا۔ ٹورنامنٹ کے لیے ڈرافٹ کا انعقاد 15 دسمبر کو کراچی میں ہوا۔ مقامی کھلاڑیوں کے ساتھ مجموعی طور پر 36 غیر ملکی کھلاڑیوں کا انتخاب کیا گیا۔ لاہور قلندرز دفاعی چیمپئن تھے۔
عشق عربی زبان کا لفظ ہے محبت کا بلند تر درجہ عشق کہلاتا ہے اور یہی محبت کسی درجے پر جا کر جنوں کہلاتی ہے۔اس پر اقبال سے بہتر کون بیان کر سکتا ہے عشق کا محرک مجازی یا حقیقی ہو سکتا ہے۔ یہ عشق نا ممکن کو ممکن بنا ڈالتا ہے۔ کہیں فرہاد سے نہر کھد واتا ہے تو کہیں سوہنی کو کچے گھڑے پر تیرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ عشق ہی کی بدولت کوئی صدیق اکبر کہلاتا ہے تو کوئی سیدنا بلال بنتا ہے۔ غرض ہر عشق کے مدارج مختلف ہیں۔ کوئی عشق مجازی میں ہی گھر کر رہ جاتا ہے۔ تو کوئی عشق ِ مجازی سے حقیقی تک رسائی حاصل کرکے حقیقی اعزازو شرف حاصل کرتا ہے۔ اقبال کے یہاں عشق اور ان کے مترادفات و لوازمات یعنی وجدان، خود آگہی، باطنی شعور، جذب، جنون، دل، محبت، شوق، آرزو مندی، درد، سوز، جستجو، مستی اور سرمستی کا ذکر جس تکرار، تواتر، انہماک سے ملتا ہے۔ اُس سے ثابت ہوتا ہے کہ اقبال کے تصورات میں عشق کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اقبال کے نزدیک عشق ایک عطیہ الہٰی اور نعمت ازلی ہے۔ انسانوں میں پیغمبروں کا مرتبہ دوسروں سے اس لیے بلند تر ہے کہ ان کا سینہ محبت کی روشنی سے یکسر معمور اور ان کا دل بادہ عشق سے یکسر سرشار ہے۔ محبت جسے بعض نے فطرت ِ انسانی کے لطیف ترین حسی پہلو کا نام دیا ہے۔ اور بعض نے روح ِ انسانی پر الہام و وجدان کی بارش یا نورِ معرفت سے تعبیر کیا ہے۔ اس کے متعلق اقبال کیا کہتے ہیں اقبال ہی کی زبان سے سنتے چلیے، یہ ان کی نظم ”محبت “ سے ماخوذ ہے۔ تڑپ بجلی سے پائی، حور سے پاکیزگی پائی حرارت لی نفس ہائے مسیح ِ ابن مریم سے ذرا سی پھر ربو بیت سے شانِ بے نیازی لی ملک سے عاجزی، افتادگی تقدیر ِ شبنم سے پھر ان اجزاءکو گھولا چشمہ حیوان کے پانی میں مرکب نے محبت نام پایا عرشِ اعظم سے یہ ہے وہ محبت کا جذبہ عشق جو اقبال کے دائرہ فکر و فن کا مرکزی نقطہ ہے۔ یہی تخلیق کا ئنات سے لے کر ارتقائے کائنات تک رموزِ فطرت کا آشنا اور کارزارِ حیات میں انسان کا رہنما و کار کُشا ہے۔ بقول اقبال کائنات کی ساری رونق اسی کے دم سے ہے۔ ورنہ اس سے پہلے، اس کی فضا بے جان اور بے کیف تھی۔ عشق از فریادِ ما ہنگامہ ہا تعمیر کرد!
جنگ آزادی ہند 1857ء جو کہ ہندوستانیوں کی انگریز کے خلاف پہلی آزادی کی مسلح جنگ تھی اسے انگریزوں نے "جنگ غدر" کا نام دیا۔ عموماً اس کے دو سبب بیان کیے جاتے ہیں۔ اولاً یہ کہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان کے تمام صوبے اور کئی ریاستیں یکے بعد دیگرے اپنی حکومت میں شامل کر لی تھیں۔ جس کی وجہ سے ہندوستانیوں کے دل میں کمپنی کے متعلق شکوک پیدا ہو گئے۔ دوم یہ کہ ان دنوں جو کارتوس فوجیوں کو دیے جاتے تھے۔ وہ عام خیال کے مطابق سور اور گائے کی چربی سے آلودہ تھے اور انھیں بندوقوں میں ڈالنے سے بیشتر دانتوں سے کاٹنا پڑتا تھا۔ ہندو اور مسلمان فوجی سپاہیوں نے اسے مذہب کے منافی سمجھا اور ان میں کھلبلی مچ گئی۔ جن سپاہیوں نے ان کارتوسوں کو استعمال کرنے سے انکار کر دیا ان کی فوجی وردیاں اتار کر انھیں بیڑیاں پہنا دی گئیں۔ ان قیدیوں میں بہت سے ایسے تھے جنھوں نے انگریزوں کی خاطر بڑی بڑی قربانیاں دی تھیں۔
سافٹ کور فحش نگاری یا سافٹ کور ایسی ساکت تصاویر یا فلمیں جن میں فحاشی یا شہوانی عنصر ہو لیکن ہارڈکور فحش نگاری سے جنسی طور پر کم واضح اور شدید ہو۔ ایسی فحش نگاری جنسی تحریک کے لیے تخلیق کی جاتی ہے اور اس میں عموماً عریاں اور نیم عریاں اداکار اور جنسی مناظر ہوتے ہیں۔ جنسی اعضاء کی منظر کشی ساکت تصاویر میں زیادہ عام ہے اور یہ فلم اور ٹیوی میں بھی بڑھ رہی ہے۔ جنسی اعمال جیسے جماع اور مشت زنی کو صرف جسمانی حرکات سے ظاہر کیا جاتا ہے لیکن واضح طور سے نہیں دکھایا جاتا۔ سافٹکور میں جنسی اعمال جیسے فرجی اور دبری دخول، دہنی جماع اور انزال واضح طور پر نہیں دکھائے جاتے۔ مردانہ عضو تناسل کو سخت حالت میں دکھانا بھی ممنوع ہے۔
بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (BISP) پاکستان میں غربت میں کمی کا ایک وفاقی غیر مشروط نقد رقم کی منتقلی کا پروگرام ہے۔ جولائی 2008 میں شروع کیا گیا، یہ تقریباً روپے کے ساتھ ملک کا سب سے بڑا واحد سوشل سیفٹی نیٹ پروگرام تھا۔ 90 بلین ($900 ملین) 2016 میں 5.4 ملین مستحقین میں تقسیم کیے گئے اس پروگرام نے 19,338 روپے (یا تقریباً $195) سالانہ تقسیم کیے جو سال 2016 میں ہر ماہ تقسیم کیے گئے تھے وظیفہ کنزیومر پرائس انڈیکس سے منسلک ہے اور اسے سمارٹ کارڈ کے ذریعے ادا کیا جاتا ہے۔ متحدہ ریاست برطانیہ کا محکمہ برائے بین الاقوامی ترقی اس پروگرام کا سب سے بڑا غیر ملکی حمایتی ہے، جو 2016 میں کل فنڈز کا 244 ملین ڈالر (یا 27%) فراہم کرتا ہے اور باقی رقم پاکستانی حکومت فراہم کرتا ہے۔ 2020 تک، BISP کو پاکستان میں سماجی بہبود کے سب سے بڑے پروگرام کے طور پر احساس پروگرام سے پیچھے چھوڑ دیا گیا۔ ایک علیحدہ وزارت غربت کے خاتمے اور سماجی تحفظ (PASS) قائم کی گئی اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو غربت کے خاتمے اور سماجی تحفظ کے ڈویژن کا حصہ بنایا گیا۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سر،گردن اور بال
آپﷺ کا سر مبارک کمزور اور باریک نہ تھا بلکہ بھاری اور بڑا تھا (زیادہ بڑا نہ تھا بلکہ جسم کے مناسبت سے )۔گردن لمبی تھی (جسم کی مناسبت سے )۔ بال دونوں کانوں کے نصف تک ہوتے تھے،اور کبھی کبھی تو کانوں سے بھی نیچے ہوتے تھے اور کبھی کبھی دونوں کندھوں کو بھی چھوتے تھے۔ چند بال پیشانی کے بھی سفید تھے مگر اتنے کم کہ سر اور داڑھی میں کل بیس بال سفید نہ تھے۔ سر کے بال ذرا ذرا سے گھونگریالے تھے، آپ ﷺ ناغے سے سر اور داڑھی میں کنگھی فرماتے تھے۔ اور سر کے درمیان سے مانگ نکالتے تھے۔
حسین بن علی بن ابی طالب ( عربی: ٱلْحُسَيْن ٱبْن عَلِيّ 10 جنوری 626 - 10 اکتوبر 680) محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نواسے اور علی ابن ابی طالب اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی فاطمہ زہرا کے بیٹے تھے۔ وہ اسلام میں ایک اہم شخصیت ہیں کیوںکہ وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ( اہل بیت ) اور اہل کسا کے علاوہ تیسرے شیعہ امام بھی ہیں۔
جماع کا لفظ عربی اساس جمع سے اخذ کیا جاتا ہے اور اس کے معنی جمع ہو جانا یا باہم ملنا کے ہوتے ہیں جبکہ اس باھم ملنے سے عمومی طور پر مراد جنسی طور پر ملنے کی ہوتی ہے۔، اسی مفہوم کو عام طور پر جنسی روابط، مباشرت، ہم بستری وغیرہ کے ناموں سے بھی اختیار کیا جاتا ہے لیکن چونکہ یہ الفاظ نسبتاً سخت و معیوب ہیں لہذا طبی و دیگر ویکیپیڈیا کے مضامین میں جماع کی اصطلاح کو منتخب کیا گیا ہے جس کو انگریزی میں sexual intercourse اور طب میں coitus یا پھر copulation بھی کہا جاتا ہے۔ اور طبی تعریف کی رو سے مؤنث و مذکر کے مابین ایسا رابطہ کے جس میں مذکر کے جسم سے منی (sperm) کا انتقال، مؤنث کے جسم کی جانب واقع ہو جماع کہلایا جاتا ہے۔ جماع کے برعکس، جنس (sex) ایک ایسا لفظ ہے جو متعدد استعمالات رکھتا ہے؛ طب میں عام طور پر جنس سے مراد مؤنث یا مذکر صنف کی لی جاتی ہے۔ جبکہ جنس کا لفظ، بلا تفریقِ جنسِ مؤنث و مذکر، دو (یا دو سے زائد) افراد کے درمیان اس قسم کے کسی بھی رابطے یا تعلق ظاہر کرتا ہے جس میں دونوں یا کسی ایک کے تولیدی اعضا کو تحریک ملے
سال1857کے ہنگامے کے بعد ملک میں ایک تعطل پیدا ہو گیا تھا۔ اس تعطل کودور کرنے اور زندگی کو ازسر نو متحرک کرنے کے لیے حکومت کے ایماءپر مختلف صوبوں اور شہروں میں علمی و ادبی سوسائٹیاں قائم کی گئیں ہیں۔ سب سے پہلے بمبئی، بنارس ،لکھنؤ، شاہ جہاں پور، بریلی اور کلکتہ میں ادبی انجمنیں قائم ہوئیں۔ ایسی ہی ایک انجمن لاہور میں قائم کی گئی جس کا پور ا نام ”انجمن اشاعت مطالب ِ مفیدہ پنجاب “ تھا جو بعد میں انجمن پنجاب کے نام سے مشہور ہوئی۔
معاشیات یا اقتصادیات (Economics) معاشرتی علوم (Social Sciences) کی ایک اہم شاخ ہے جس میں قلیل مادی وسائل و پیداوار کی تقسیم اور ان کی طلب و رسد کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ عربی اور فارسی میں رائج اصطلاح اقتصادیات اردو میں معاشیات کے مترادف کے طور پر بھی استعمال ہوتی رہی ہے۔ معاشیات کی ایک جامع تعریف جو روبنز (Lionel Robbins) نے دی تھی کچھ یوں ہے کہ 'معاشیات ایک ایسا علم ہے جس میں ہم انسانی رویہ کا مطالعہ کرتے ہیں جب اسے لامحدود خواہشات اور ان کے مقابلے میں محدود ذرائع کا سامنا کرنا پڑے۔ جبکہ ان محدود ذرائع کے متنوع استعمال ہوں'۔ معاشیات آج ایک جدید معاشرتی علم بن چکا ہے جس میں نہ صرف انسانی معاشی رویہ بلکہ مجموعی طور پر معاشرہ اور ممالک کے معاشی رویہ اور انسانی زندگی اور اس کی معاشی ترقی سے متعلق تمام امور کا احاطہ کیا جاتا ہے اور اس میں مستقبل کی منصوبہ بندی اور انسانی فلاح جیسے مضامین بھی شامل ہیں جن کا احاطہ پہلے نہیں کیا جاتا تھا۔ معاشیات سے بہت سے نئے مضامین جنم لے چکے ہیں جنہوں نے اب اپنی علاحدہ حیثیت اختیار کر لی ہے جیسے مالیات، تجارت اور انتظام۔ معاشیات کی بہت سی شاخیں ہیں مگر مجموعی طور پر انہیں جزیاتی معاشیات (Microeconomics) اور کلیاتی معاشیات (Macroeconomics) میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
وزن کی متروک اکائیاں (پاکستان)
وزن ناپنے کی پاکستان میں استعمال ہونے والی اکائیاں، جو اب متروک ہو چکی ہیں۔ ان اکائیوں اور ان کے اعشاریہ نظام میں برابر کا جدول دیا ہے۔پاکستان میں ناپ تول کا اعشاری نظام یکم جولائی 1974ء کو نافذ کیا گیا۔ پاکستان کے علاوہ ان اوزان کا استعمال برصغیر میں بھی ہوتا تھا اور اردو کتب میں ان کا ذکر ملتا ہے۔