اردو ویکیپیڈیا کے سب سے زیادہ ملاحظہ کردہ مضامین کی فہرست۔ مزید معلومات کے لیے ۔ ۔ ۔
انا لله و انا الیہ راجعون (عربی: إِنَّا لِلَّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ) قرآن میں سورۃ البقرہ کی آیت 156 کے ایک حصے سے لیا گیا ہے۔، کا مطلب ہے "ہم خدا کے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔" جب مسلمان کسی کی موت یا مصیبت کا سنتے ہیں تو یہ آیت پڑھتے ہیں۔ وہ اس آیت کو تعزیت کہنے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں اور مصیبت کے وقت صبر کا مطالبہ کرتے ہیں۔
عمران احمد خان نیازی پاکستانی سیاست دان اور سابقہ کرکٹ کھلاڑی اور پاکستان کے سابق وزیر اعظم ہیں اور پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ بھی ہیں۔ اس سے پہلے وہ 2002ء تا 2007ء اور2013ء تا2018ء تک پاکستان قومی اسمبلی کے رکن بھی رہ چکے ہیں۔ سیاست میں قدم رکھنے سے قبل عمران خان ایک کرکٹر اور مخیر تھے۔ انہوں نے دو دہائیوں تک بین الاقوامی کرکٹ کھیلی اور بعد میں خدمت خلق کے منصوبے بنائے جیسے کہ شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال اور ریسرچ سینٹر اور نمل کالج وغیرہ۔
ابو القاسم محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب (12 ربیع الاول عام الفیل / 8 جون 570ء یا 571ء – 12 ربیع الاول 10ھ / 8 جون 632ء) مسلمانوں کے آخری نبی ہیں۔ اہل اسلام کے نزدیک محمد تمام مذاہب کے پیشواؤں سے کامیاب ترین پیشوا تھے۔ آپ کی کنیت ابوالقاسم تھی۔ مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ کی طرف سے انسانیت کی جانب بھیجے جانے والے انبیا اکرام کے سلسلے کے آخری نبی ہیں جن کو اللہ نے اپنے دین کی درست شکل انسانوں کی جانب آخری بار پہنچانے کیلئے دنیا میں بھیجا۔ انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دنیا کی تمام مذہبی شخصیات میں سب سے کامیاب شخصیت تھے۔ 570ء (بعض روایات میں 571ء) مکہ میں پیدا ہونے والے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر قرآن کی پہلی آیت چالیس برس کی عمرمیں نازل ہوئی۔ ان کا وصال تریسٹھ (63) سال کی عمر میں 632ء میں مدینہ میں ہوا، مکہ اور مدینہ دونوں شہر آج کے سعودی عرب میں حجاز کا حصہ ہیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف کے والد کا انتقال ان کی دنیا میں آمد سے قریبا چھ ماہ قبل ہو گیا تھا اور جب ان کی عمر چھ سال تھی تو ان کی والدہ حضرت آمنہ بھی اس دنیا سے رحلت فرما گئیں۔ عربی زبان میں لفظ "محمد" کے معنی ہیں 'جس کی تعریف کی گئی'۔ یہ لفظ اپنی اصل حمد سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے تعریف کرنا۔ یہ نام ان کے دادا حضرت عبدالمطلب نے رکھا تھا۔ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو رسول، خاتم النبیین، حضور اکرم، رحمت للعالمین اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے القابات سے بھی پکارا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی آپ کے بہت نام و القاب ہیں۔ نبوت کے اظہار سے قبل حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے چچا حضرت ابوطالب کے ساتھ تجارت میں ہاتھ بٹانا شروع کر دیا۔ اپنی سچائی، دیانت داری اور شفاف کردار کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عرب قبائل میں صادق اور امین کے القاب سے پہچانے جانے لگے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنا کثیر وقت مکہ سے باہر واقع ایک غار میں جا کر عبادت میں صرف کرتے تھے اس غار کو غار حرا کہا جاتا ہے۔ یہاں پر 610ء میں ایک روز حضرت جبرائیل علیہ السلام (فرشتہ) ظاہر ہوئے اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اللہ کا پیغام دیا۔ جبرائیل علیہ السلام نے اللہ کی جانب سے جو پہلا پیغام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پہنچایا وہ یہ ہے۔
جمہوریہ پاکستان جنوبی ایشیا کے شمال مغرب وسطی ایشیا اور مغربی ایشیا کے لیے دفاعی طور پر اہم حصے میں واقع ایک خود مختار اسلامی ملک ہے۔ یہ دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے، جس کی آبادی تقریباً 242 ملین ہے اور دنیا کی دوسری سب سے بڑی مسلم آبادی والا ملک ہے۔ 881,913 مربع کلومیٹر (340,509 مربع میل) کے ساتھ یہ دنیا کا تینتیسواں بڑے رقبے والا ملک ہے۔ اس کے جنوب میں 1046 کلومیٹر (650 میل) کی ساحلی پٹی ہے جو بحیرہ عرب سے ملتی ہے۔پاکستان کے مشرق ميں بھارت، شمال مشرق ميں چین اور مغرب ميں افغانستان اور ايران واقع ہيں۔ پاکستان کو شمال میں ایک تنگ واخان راہداری تاجکستان سے جدا کرتی ہے جبکہ اس ملک کی سمندری سرحدی حدود اومان کے سمندری حدود سے بھی ملتی ہیں۔ موجودہ پاکستان کے علاقے قدیم ترین دنیا میں وہ علاقے تھے جن میں موہنجوداڑو اور انڈس سولائیزیشن مہر گڑھ ٹیکسلا پراچین سنسکرت دور اور دیگر زیرتحقیق آرک لوجیکل سائٹسٹ جیسے قندھارا تہذیب و تمدن تھی۔ اس علاقے پر پراچین راجپوت ایرانی یونانیعرب، بدھ مت، سکھ، مغل، ہن سفید اور ترک حملہ آوروں کی حکومت بھی رہی ہے۔ یہ علاقہ مختلف سلطنتوں جیسے چندر گپت موریا، ہخامنشی سلطنت عربوں کی خلافت امویہ، مغل سلطنت، مغلیہ سلطنت، درانی سلطنت، سکھ سلطنت اور برطانوی راج کا اہم حصہ رہا ہے۔ اس کے بعد محمد علی جناح کی قیادت میں تحریک پاکستان کامیاب ہوئی اور 14 اگست 1947ء کو ہندوستان کے مشرق اور مغرب میں دو حصوں میں ایک آزاد اور خودمختار اسلامی ریاست قائم ہوئی۔ پاکستان نے اپنا پہلا آئین 1956ء میں بنایا جو 1958 میں منسوخ کردیا گیا اس کے بعد 1962 میں پاکستان کا دوسرا آئین پیش کیا گیا جو 1969 میں جزل یحیی خان نے منسوح کر دیا.
ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال (ولادت: 9 نومبر 1877ء – وفات: 21 اپریل 1938ء) بیسویں صدی کے ایک معروف شاعر، مصنف، قانون دان، سیاستدان اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھے۔ اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے اور یہی ان کی بنیادی وجہ شہرت ہے۔ شاعری میں بنیادی رجحان تصوف اور احیائے امت اسلام کی طرف تھا۔ "دا ریکنسٹرکشن آف ریلیجس تھاٹ ان اسلام" کے نام سے انگریزی میں ایک نثری کتاب بھی تحریر کی۔ علامہ اقبال کو دور جدید کا صوفی سمجھا جاتا ہے۔ بحیثیت سیاست دان ان کا سب سے نمایاں کارنامہ نظریۂ پاکستان کی تشکیل ہے، جو انہوں نے 1930ء میں الہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پیش کیا تھا۔ یہی نظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا۔ اسی وجہ سے علامہ اقبال کو پاکستان کا نظریاتی باپ سمجھا جاتا ہے۔ گو کہ انہوں نے اس نئے ملک کے قیام کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن انہیں پاکستان کے قومی شاعر کی حیثیت حاصل ہے۔
قرآن، قرآن مجید یا قرآن شریف (عربی: القرآن الكريم) دین اسلام کی مقدس و مرکزی کتاب ہے جس کے متعلق اسلام کے پیروکاروں کا اعتقاد ہے کہ وہ کلام الہی ہے اور اسی بنا پر یہ انتہائی محترم و قابل عظمت کتاب ہے۔ اسے پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی کے ذریعے اتارا گیا۔ یہ وحی اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتے حضرت جبرائیل علیہ السلام لاتے تھے جیسے جیسے قرآن مجید کی آیات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوتیں آپ صلی علیہ وآلہ وسلم اسے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو سنا اور ان آیات کے مطالب و معانی سمجھا دیتے۔ کچھ صحابہ کرام تو ان آیات کو وہیں یاد کر لیتے اور کچھ لکھ کر محفوظ کر لیتے۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن ہر قسم کی تحریف سے پاک سے محفوظ ہے، قرآن میں آج تک کوئی کمی بیشی نہیں ہو سکی اور اسے دنیا کی واحد محفوظ کتاب ہونے کی حیثیت حاصل ہے، جس کا حقیقی مفہوم تبدیل نہیں ہو سکا اور تمام دنیا میں کروڑوں کی تعداد میں چھپنے کے باوجود اس کا متن ایک جیسا ہے اور اس کی تلاوت عبادت ہے۔ نیز صحف ابراہیم، زبور اور تورات و انجیل کے بعد آسمانی کتابوں میں یہ سب سے آخری کتاب ہے اور سابقہ آسمانی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اب اس کے بعد کوئی آسمانی کتاب نازل نہیں ہوگی۔ قرآن کی فصاحت و بلاغت کے پیش نظر اسے لغوی و مذہبی لحاظ سے تمام عربی کتابوں میں اعلیٰ ترین مقام دیا گیا ہے۔ نیز عربی زبان و ادب اور اس کے نحوی و صرفی قواعد کی وحدت و ارتقا میں بھی قرآن کا خاصا اہم کردار دکھائی دیتا ہے۔ چنانچہ قرآن کے وضع کردہ عربی زبان کے قواعد بلند پایہ عرب محققین اور علمائے لغت مثلاً سیبویہ، ابو الاسود الدؤلی اور خلیل بن احمد فراہیدی وغیرہ کے یہاں بنیادی ماخذ سمجھے گئے ہیں۔
ابوحفص عمر فاروق بن خطاب عدوی قرشی (586ء/590ء، مکہ - 6 نومبر 644ء، مدینہ) ابوبکر صدیق کے بعد مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ راشد، محمد مصطفی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سسر اور تاریخ اسلام کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک ہیں۔ عمر بن خطاب عشرہ مبشرہ میں سے ہیں، ان کا شمار علما و زاہدین صحابہ میں ہوتا تھا۔ ابوبکر صدیق کی وفات کے بعد 23 اگست سنہ 634ء مطابق 22 جمادی الثانی سنہ 13ھ کو مسند خلافت سنبھالی۔ عمر بن خطاب ایک باعظمت، انصاف پسند اور عادل حکمران مشہور ہیں، ان کی عدالت میں مسلم و غیر مسلم دونوں کو یکساں انصاف ملا کرتا تھا، عمر بن خطاب کا یہ عدل و انصاف انتہائی مشہور ہوا اور ان کے لقب فاروق کی دیگر وجوہ تسمیہ میں ایک وجہ یہ بھی بنی۔ آپ رضی اللہ عنہ کا نسب نویں پشت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے جا ملتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نویں پشت میں کعب کے دو بیٹے ہیں مرہ اور عدی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مرہ کی اولاد میں سے ہیں، جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ عدی کی اولاد میں سے ہیں۔
ابوبکر صدیق عبد اللہ بن ابو قحافہ عثمان تیمی قرشی (573ء—634ء) اسلام کے پہلے خلیفہ راشد، عشرہ مبشرہ میں شامل، خاتم النبین محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اولین جانشین، صحابی، خسر اور ہجرت مدینہ کے وقت رفیق سفر تھے۔ اہل سنت و الجماعت کے یہاں ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ انبیا اور رسولوں کے بعد انسانوں میں سب سے بہتر، صحابہ میں ایمان و زہد کے لحاظ سے سب سے برتر اور ام المومنین عائشہ بنت ابوبکر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے محبوب تر تھے۔ عموماً ان کے نام کے ساتھ صدیق کا لقب لگایا جاتا ہے جسے حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی تصدیق و تائید کی بنا پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دیا تھا۔
نجم الدولہ، دبیر الملک، مرزا نوشہ اسد اللہ خان غالب بہادر نظام جنگ (1797ء- 1869ء) اردو زبان کے سب سے بڑے شاعروں میں ایک سمجھے جاتے ہیں۔ یہ تسلیم شدہ بات ہے کہ 19 ویں صدی غالب کی صدی ہے۔ جبکہ 18 ویں میر تقی میر کی تھی اور 20 ویں علامہ اقبال کی۔ غالب کی عظمت کا راز صرف ان کی شاعری کے حسن اور بیان کی خوبی ہی میں نہیں ہے۔ ان کا اصل کمال یہ ہے کہ وہ زندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کو گہرائی میں جا کر سمجھتے تھے اور بڑی سادگی سے عام لوگوں کے لیے بیان کر دیتے تھے۔ غالب جس پر آشوب دور میں پیدا ہوئے اس میں انہوں نے مسلمانوں کی ایک عظیم سلطنت کو برباد ہوتے ہوئے اور باہر سے آئی ہوئی انگریز قوم کو ملک کے اقتدار پر چھاتے ہوئے دیکھا۔ غالباً یہی وہ پس منظر ہے جس نے ان کی نظر میں گہرائی اور فکر میں وسعت پیدا کی۔
احمد خان متقی بن محمد متقی (17 اکتوبر 1817ء – 27 مارچ 1898ء) المعروف سر سید، سر سید احمد خان انیسویں صدی کے ایک ہندوستانی مسلم نظریۂ عملیت کے حامل ، مصلح اور فلسفی تھے۔ ان کو برصغیر میں مسلم قوم پرستی کا سرخیل مانا جاتا ہے اور دو قومی نظریہ کا خالق تصور کیا جاتا ہے، جو آگے چل کر تحریک پاکستان کی بنیاد بنا۔
اردو زبان میں سینتیس حروفِ تہجی اور سینتالیس آوازیں ہیں جن میں سے بیشتر عربی سے لیے گئے ہیں اور دیگر انہی کی مختلف شکلیں ہیں۔ کچھ حروف کئی طریقوں سے استعمال ہوتے ہیں اور کچھ مخلوط حروف بھی استعمال ہوتے ہیں جو دو حروف سے مل کر بنتے ہیں۔ بعض لوگ 'ء' کو الگ حرف نہیں مانتے مگر پرانی اردو کتب اور لغات میں اسے الگ حرف کے طور پر لکھا جاتا ہے۔ مختلف الفاظ میں یہ الگ حرف کے طور پر ہی استعمال ہوتا ہے مثلاً 'دائرہ'۔ یہ بات مدِنظر رکھنا ضروری ہے کہ اردو تختی اور اردو حروف دو مختلف چیزیں ہیں کیونکہ اردو تختی میں اردو حروفِ تہجی کی کئی اشکال ہو سکتی ہیں جن کو الگ حرف کا درجہ نہیں دیا جا سکتا بلکہ وہ ایک ہی حرف کی مختلف شکلیں ہیں۔ مثلاً نون غنہ نون کی شکل ہے اور 'ھ' اور 'ہ' ایک ہی حرف کی مختلف اشکال ہیں۔ ایک اور مثال الف ممدودہ (آ) اور الف مقصورہ (ا) کی ہے جو اردو تختی میں الگ ہیں مگر اردو کا ایک ہی حرف شمار ہوتے ہیں۔
سیکس ایجوکیشن ایک برطانوی طربیہ ڈراما ویب ٹیلی ویژن سیریل ہے جو لوری نان نے تخلیق کیا ہے۔ آسا بٹرفیلڈ ایک عدم تحفظ کے شکار نوجوان کے طور پر اور گیلین اینڈرسن اس کی ماں ہے، جو ایک نفسیاتی جنسی مسائل کی معالجہ ہے، پریمئیر 11 جنوری 2019 کو نیٹ فلکس پر نشر ہوا۔ شوتی گٹوا، ایما میکی، کانر سوینڈلز، ایمی لو ووڈ اور کیدار ولیم اسٹرلنگ معاون اداکار ہیں۔ نشر ہونے کے بعد ہی فلمی نقادوں نے اسے سراہا جس سے یہ جلد ہی یہ سیزن نیٹ فلکس کے لئے تجارتی کامیابی کے طور پر
صحیح بخاری کا اصل نام «الجامع المسند الصحیح المختصر من امور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وسننہ و ایامہ» ہے جو «صحیح البخاری» کے نام سے مشہور ہے، یہ اہل سنت وجماعت کے مسلمانوں کی سب سے مشہور حدیث کی کتاب ہے، اس کو امام محمد بن اسماعیل بخاری نے سولہ سال کی مدت میں بڑی جانفشانی اور محنت کے ساتھ تدوین کیا ہے، اس کتاب کو انھوں نے چھ لاکھ احادیث سے منتخب کر کے جمع کیا ہے۔ اہل سنت کے یہاں اس کتاب کو ایک خاص مرتبہ و حیثیت حاصل ہے اور ان کی حدیث میں چھ امہات الکتب (صحاح ستہ) میں اول مقام حاصل ہے، خالص صحیح احادیث میں لکھی جانی والی پہلی کتاب شمار ہوتی ہے، اسی طرح اہل سنت میں قرآن مجید کے بعد سب سے صحیح کتاب مانی جاتی ہے۔ اسی طرح صحیح بخاری کا شمار کتب الجوامع میں بھی ہوتا ہے، یعنی ایسی کتاب جو اپنے فن حدیث میں تمام ابواب عقائد، احکام، تفسیر، تاریخ، زہد اور آداب وغیرہ پر مشتمل اور جامع ہو۔
موسیٰ علیہ السلام اللہ کے برگزیدہ پیغمبروں میں سے ایک ہیں۔ آپ کے بھائی ہارون علیہ السلام بھی اللہ کے برگزیدہ نبیوں میں سے ایک ہیں۔یہ 1520 قبلِ مسیح کی بات ہے۔ مِصر پر فرعون بادشاہ’’مرنفتاح ثانی‘‘ کی حکومت تھی۔بعض نے اُس کا نام’’ منفتاح‘‘ بھی لکھا ہے اور وہ والد، رعمسیس کے بڑھاپے کی وجہ سے عملاً حکم ران بنا ہوا تھا۔ خدائی کا دعوے دار یہ بادشاہ بڑا ظالم و جابر تھا۔ اُس نے’’ بنی اسرائیل‘‘ کو اپنا غلام بنا رکھا تھا، حالاں کہ وہ حضرت یوسف کے زمانے سے وہاں رہائش پزیر تھے۔ حضرت یوسفؑ نے اپنے والد، حضرت یعقوبؑ اور اپنے بھائیوں کے لیے ایک قطعۂ زمین اُس وقت کے فرعون بادشاہ ’’ریان بن ولید‘‘ سے حاصل کیا تھا۔ حضرت یعقوبؑ کی یہی نسل’’بنی اسرائیل‘‘ کہلائی، جو مِصر میں خُوب پَھلی پُھولی۔ یہ لوگ حضرت یعقوبؑ کے دین کے پیروکار تھے، چناں چہ اُس وقت اللہ کے نزدیک یہ سب سے بہتر جماعت تھی۔ اُنہوں نے فرعون کو سجدہ کرنے اور اُسے اپنا ربّ ماننے سے انکار کردیا تھا۔ اسی وجہ سے بادشاہ اور اُس کے حواری ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھاتے اور اُن سے گھٹیا کام کرواتے۔ یاد رہے، فرعون کسی خاص شخص کا نام نہیں، بلکہ مِصر کے بادشاہوں کا لقب تھا۔ تاریخی حقائق کے مطابق، 31فراعنہ خاندانوں نے مِصر پر یکے بعد دیگرے حکومت کی۔ سب سے آخری خاندان نے 332قبلِ مسیح میں سکندرِ اعظم کے ہاتھوں شکست کھائی۔
اللہ کے ذاتی نام 'اللہ' کے علاوہ اللہ کے ننانوے صفاتی نام مشہور ہیں۔ انہیں کہا جاتا ہے۔ ان میں سے بیشتر قرآن میں موجود ہیں اگرچہ قرآن میں ننانوے کی تعداد مذکور نہیں مگر یہ ارشاد ہے کہ اللہ کو اچھے اچھے ناموں سے پکارا جائے۔ روایات میں بکثرت نیچے دیے گئے ننانوے صفاتی نام ملتے ہیں جن کے ساتھ ان کا اردو ترجمہ بھی درج کیا جا رہا ہے۔
پنجاب پاکستان کا ایک صوبہ ہے جو آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ پنجاب میں رہنے والے لوگ پنجابی کہلاتے ہیں۔ پنجاب جنوب کی طرف سندھ، مغرب کی طرف خیبرپختونخوا اور بلوچستان، شمال کی طرف کشمیر اور اسلام آباد اور مشرق کی طرف ہندوستانی پنجاب اور راجستھان سے ملتا ہے۔ پنجاب میں بولی جانے والی زبان بھی پنجابی کہلاتی ہے۔ پنجابی کے علاوہ وہاں کردستانی ،بلوچوں اور عربی نژادوں کی کافی تعداد ہے۔ پنجاب کا دار الحکومت لاہور ہے۔ پنجاب سب سے بڑا بارہ کروڑ آبادی والا صوبہ ہے۔
جنگ احد 17 شوال 3ھ (23 مارچ 625ء) میں مسلمانوں اور مشرکینِ مکہ کے درمیان احد کے پہاڑ کے دامن میں ہوئی۔ مشرکین کے لشکر کی قیادت ابوسفیان کے پاس تھی اور اس نے 3000 سے زائد افراد کے ساتھ مسلمانوں پر حملہ کی ٹھانی تھی جس کی باقاعدہ تیاری کی گئی تھی۔ مسلمانوں کی قیادت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کی۔ اس جنگ کے نتیجہ کو کسی کی فتح یا شکست نہیں کہا جا سکتا کیونکہ دونوں طرف شدید نقصان ہوا اور کبھی مسلمان غالب آئے اور کبھی مشرکین لیکن آخر میں مشرکین کا لشکر لڑائی ترک کر کے مکہ واپس چلا گیا۔
محمد بن اسماعيل بخاری (پیدائش: 19 جولائی 810ء، بخارا - وفات: 1 ستمبر 870ء) مشہور ترین محدث اور حدیث کی سب سے معروف کتاب صحیح بخاری کے مولف تھے۔ ان کے والد بھی ایک محدث تھے اور امام مالک کے شاگرد تھے۔ امام بخاری کا درجہ احادیث کو چھان پھٹک کر ترتیب دینے میں اتنا اونچا ہے کہ بلا اختلاف الجامع الصحیح یعنی صحیح بخاری شریف کا درجہ صحت میں قرآن پاک کے بعد پہلا ہے۔
غزل اردو شاعری کی مقبول ترین "صنف" سخن ہے۔ غزل اوزان میں لکھی جاتی ہے اور یہ ہم قافیہ و بحر اور ہم ردیف مصرعوں سے بنے اشعار کا مجموعہ ہوتی ہے۔ مطلع کے علاوہ غزل کے باقی تمام اشعار کے پہلے مصرع میں قافیہ اور ردیف کی قید نہیں ہوتی ہے، جبکہ مصرع ثانی میں غزل کا ہم آواز قافیہ و ہم ردیف کا استعمال کرنا لازمی ہوتا ہے۔ غزل کا پہلا شعر مطلع کہلاتا ہے، جس کے دونوں مصرعے ہم بحر اور ہم قافیہ و ہم ردیف ہوتے ہیں۔ غزل کا آخری شعر مقطع کہلاتا ہے، بشرطیکہ اس میں شاعر اپنا تخلص استعمال کرے ورنہ وہ بھی عام شعر ہی کہلاتا ہے۔
القادر یونیورسٹی اس وقت اسلام آباد کے قریب سوہاوہ ، پاکستان میں زیر تعمیر یونیورسٹی ہے۔ یہ منصوبہ القادر یونیورسٹی پروجیکٹ ٹرسٹ کا حصہ ہے۔ امانت کا نام خدا کے اسماء القادر میں سے ایک نام سے الہام ہوا ہے جس کا مطلب ہے تمام قابل اور طاقت والا۔ یہ امت مسلمہ کے اخلاقی طور پر راست باز اور فکری طور پر متحرک رہنما پیدا کرنا چاہتا ہے۔ القادر یونیورسٹی کے لیے سنگ بنیاد کی تقریب 5 مئی 2019ء کو سوہاوہ میں ہوئی، جس میں پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھا۔ڈاکٹر ذیشان احمد ا القادر یونیورسٹی پروجیکٹ ٹرسٹ میں بطور ڈین خدمات انجام دے رہے ہیں۔
سانحۂ کربلا یا واقعہ کربلا یا کربلا کی جنگ 10 محرم 61ھ (بمطابق 9 یا 10 اکتوبر، 680ء) کو، موجودہ عراق میں کربلا کے مقام پر پیش آیا۔ یہ جنگ نواسہ رسول حضرت امام حسین ابن علی، ان کے حامیوں اور رشتہ داروں کے ایک چھوٹے سے گروہ، حسین ابن علیؓ کے ساتھ 72 ساتھی، کچھ غلام، 22 اہل بیت کے جوان اور خاندان نبوی کی کچھ خواتین و بچے شامل تھے، اور اموی ظالم حکمران یزید اول کی ایک بڑی فوج کے مابین ہوئی۔جس کو حسین نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔جس میں اموی خلیفہ یزید اول کی فوج نے پیغمبر اسلام محمد کے نواسے حسین ابن علی اور ان کے رفقا کو لڑائی میں شہید کیا، حرم حسین کے خیموں کو لوٹ لیا گیا اور بالآخر آگ لگا دی گئی۔ عمر بن سعد کی فوج نے کربلا کے صحرا میں مقتولین کی لاشیں چھوڑ دیں۔ بنی اسد کے لوگوں نے لاشوں کو تین دن بعد دفن کیا۔ واقعہ کربلا کے بعد، حسین ابن علی کی فوج سے وابستہ متعدد خواتین اور بچوں کو گرفتار کر کے قید کر دیا گیا، بازار اور ہجوم والے مقامات سے گزر کر ان کی توہین کی گئی اور انہیں یزید ابن معاویہ کے دربار شام بھیج دیا گیا تھا۔ جنگ میں شہادت کے بعد حضرت امام حسین کو سید الشہدا کے لقب سے پکارا جاتا ہے۔
تفسیر جلالین عربی زبان میں نہایت مختصرتفسیر قرآن ہے جسے دو مشہور مفسرین امام جلال الدین محلی (791ھ–864ھ) اور جلال الدین سیوطی (849ھ– 911ھ) نے تصنیف کیا ہے۔ تقریباً پانچ صدیوں سے تفسیر جلالین متداول و مقبول ہے۔ امام جلال الدین سیوطی کی شاہکار تصانیف میں تفسیر جلالین کو نمایاں اور خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ یہ تفسیر اِختصار و جامعیت، صحت و مفہوم اور توضیح مطالب کی وجہ سے علما و طلبہ کی مرکزِ توجہ رہی ہے۔ علما اور اہل علم کو استحضارِ مضامین کی خاطر اِس سے خاص اعتناء ہے اور کثرت سے اِس کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ دیگر تفاسیر کی نسبت یہ قرآن کریم کی مختصر تفسیر اور مختصر ترجمہ ہے۔تفسیرِجلالین وہ عظیم الشان عربی تفسیر ہےجو عرصۂ دراز سے درسِ نظامی(عالم کورس)کے نِصاب (Syllabus) میں شامل ہے۔اس تفسیر میں صحیح ترین قول ذِکْر کرنے کااہتمام کیا گیاہے جیساکہ اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتےہیں:مطلبِ اَصَح جس کے مطالَعَہ کوجلالین کہ اَصَحُّ الْاَقْوال پر اِقْتِصار کا جن کو اِلْتِزام ہے سرِدَسْت بس ہے، ہاتھ سے نہ جائے۔(فتاویٰ رضویہ،ج26،ص457)تفسیرِ جلالین کس نے لکھی؟ تفسیرِ جلالین دوبزرگوں کی کاوش کانتیجہ ہے۔جمہور(یعنی اکثر علما) کے قول کے مطابق سورۂ بَقَرَہ سے لیکر سورہ اِسْراء (یعنی سورۂ بنی اسرائیل)کے آخر تک حضرت سیِّدُناامام جلال الدین عبدالرحمن سیوطی شافعی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی (متوفی 911ھ) نے جبکہ سورۂ کہف سےلیکرسورۂ ناس تک بَشمول سورہ ٔفاتحہ کی تفسیرحضرت سیدنا امام جلال الدّین محمد محلی شافعی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی (متوفی864ھ) نے تحریر فرمائی۔اس قول کی تائید میں تین عبارات پیشِ خدمت ہیں:(1)تفسیرِ جلالین پرتحریرکردہ حاشیۂ جَمل میں ہے:واَمّا الفاتِحةُ ففَسَّرَهاالمَحَلّي فجَعَلَهاالسُّيوطِي في آخِرِ تفسيرِ المَحَلّي لِتَكُونَ مُنضَمّةً لِتفسيرِهِ وابتَدَاَ هو مِن اَوّلِ الْبَقَرة یعنی سورۂ فاتحہ کی تفسیر امام جلال الدین محلی نے تحریر فرمائی۔ امام جلال الدین سیوطی نے اِسے امام محلی کی تفسیر کے آخر میں رکھا تاکہ ان کی تحریر کردہ تفسیر ایک ساتھ رہے اور خود امام سیوطی نے سورۂ بقرہ کی ابتدا سے تفسیر کا آغاز فرمایا۔(حاشیہ جمل،ج1،ص10) (2)اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں: جلال سیوطی(رَحْمَۃُاللّٰہِ عَلَیْہ) سجدۂ آدم میں فرماتے ہیں: وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ سُجُوْدَ تَحِیّۃٍ بِالْاِنْحِنَاءِ (فتاویٰ رضویہ،ج22،ص522) مذکورہ عبارت تفسیرِ جلالین میں دوجگہ یعنی سورۂ بقرہ (پارہ 1)اور سورۂ اسراء (پارہ15) میں ہے، معلوم ہوا کہ ان دونوں سورتوں کی تفسیر حضرت سیدنا امام جلال الدین سیوطی شافعی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی نے تحریر فرمائی ہے۔ (3)اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:جلال محلی (رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ) سورۂ کہف میں فرماتے ہیں: وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ سُجُوْدَ انحناءٍ لا وضع جَبھۃٍ (فتاویٰ رضویہ،ج22،ص522) اس عبارت سے معلوم ہوا کہ سورۂ کہف (پارہ15) کی تفسیرحضرت سیدنا امام جلال الدین محلی شافعی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِ ی نے تحریر فرمائی ہے۔مذکورہ تینوں عبارات اور ان کے علاوہ دیگر کثیر دلائل سے تفسیرِ جلالین کی تصنیف سے متعلق جمہور علما کے قول کی تائید ہوتی ہے۔ذکرِ جلالین:٭حضرت سیدنا امام جلال الدین محمدبن احمد محلی شافعی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی 791ھ میں مصر میں پیداہوئے اور864ھ میں وِصال فرمایا۔آ پ حق بات کرنے میں کسی کی رعایت نہیں فرماتے تھے،آپ کو قَاضِی الۡقُضَاۃ (چیف جسٹس)کے عہدے کی پیشکش بھی ہوئی لیکن اسے قبول نہ فرمایا۔کثیر کتابیں تصنیف فرمائیں جن میں سے تفسیرِ جلالین زیادہ مشہور ہے ٭حضرت سیدنا امام جلال الدین عبدالرحمن سیوطی شافعی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی کی ولادت849ھ جبکہ وصال911ھ میں ہوا۔آپ نے تقریباً بائیس(22)سال کی عمر میں فقط چالیس دن یعنی یکم رَمَضان المبارک سے لیکر دس شوال المکرم (870ھ) تک کی مدت میں لگ بھگ پندرہ(15) پاروں کی یہ عظیم الشان تفسیر مکمل فرمائی۔(حاشیہ جمل،ج4،ص380)تفسیرِ جلالین پر حواشی: کثیر علمائے کرام نے اس پر تعْلِیقات اور حواشی تحریر فرمائے جن میں سے حاشیہ جَمَل، حاشیہ صاوی اورحضرت علامہ علی بن سلطان محمد قاری عَلَیْہِ رَحمَۃ اللّٰہ ِالْبَارِی کاحاشیہ جَمَالَیْن بالخصوص قابلِ ذکر ہیں۔
ریشم(انگریزی میں:silk) پروٹین کے قدرتی ریشوں سے مل کر بنتا ہے، جس کی کچھ اقسام کو بُن کر کپڑا بنایا جا سکتا ہے۔ سب سے اعلْی قسم کاریشم شھتوت کے پتوں پر رہنے والے لارواbombyx mori کا ہوتا جنہیں تجارتی مقاصد کے لیے پالا جاتا ہے۔ ریشم کی خوبصورتی اور چمک اس کے ریشوں کی تکون مخروطِ مستوی (پرزم) نما ساخت کی وجہ سے ہوتی ہے جو روشنی کو مختلف زاویوں پر منتشر کر دیتی ہیں۔
پاکستان کے سابق وزیر اعظم اور پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان عمران خان کا خاندان جس کے پاس پاکستان کا پہلا خاندان ہونے کا اعزاز تھا ۔ عمران خان 5 اکتوبر 1952 کو لاہور میں والد اکرام اللہ خان نیازی، ایک سول انجینئر اور والدہ شوکت خانم کے ہاں پیدا ہوئے۔ وہ چار بہنوں کے ساتھ خاندان میں اکلوتے بیٹے کے طور پر پلے بڑھے۔ یہ خاندان نسلی طور پر پشتون ہے۔ آبائی طور پر، خان کا تعلق نیازی پشتون قبیلے سے ہے جو طویل عرصے سے شمال مغربی پنجاب کے میانوالی میں آباد ہے۔ خان کی والدہ کا تعلق برکی پشتون قبیلے سے تھا جو جالندھر ، پنجاب میں آباد تھے، جو چند صدیاں قبل شمال مغربی پاکستان کے قبائلی علاقوں میں جنوبی وزیرستان سے ہجرت کر کے آئے تھے۔ خان کے ننہیالی خاندان نے کئی عظیم کرکٹرز پیدا کیے ہیں، جن میں سب سے نمایاں جاوید برکی اور ماجد خان ہیں۔
خلافت راشدہ کے خاتمے کے بعد عربوں کی قائم کردہ دو عظیم ترین سلطنتوں میں سے دوسری سلطنت خلافت عباسیہ ہے۔ خاندان عباسیہ کے دو بھائیوں السفاح اور ابو جعفر المنصور نے 750ء (132ھ) خلافت عباسیہ کو قائم کیا اور 1258ء (656ھ) میں اس کا خاتمہ ہو گیا۔ یہ خلافت بنو امیہ کے خلاف ایک تحریک کے ذریعے قائم ہوئی۔ تحریک نے ایک عرصے تک اپنے مقاصد کے حصول کے لیے جدوجہد کی اور بالآخر بنو امیہ کو شکست دینے کے بعد بر سر اقتدار آگئی۔
سلطنت عثمانیہ (یا خلافت عثمانیہ 1517ء سے 1924ء تک) (عثمانی ترکی زبان: "دولت عالیہ عثمانیہ"، ترکی زبان: Osmanlı Devleti) سنہ 1299ء سے 1922ء تک قائم رہنے والی ایک مسلم سلطنت تھی جس کے حکمران ترک تھے۔ اپنے عروج کے زمانے میں (16 ویں – 17 ویں صدی) یہ سلطنت تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی اور جنوب مشرقی یورپ، مشرق وسطٰی اور شمالی افریقہ کا بیشتر حصہ اس کے زیر نگیں تھا۔ اس عظیم سلطنت کی سرحدیں مغرب میں آبنائے جبرالٹر، مشرق میں بحیرۂ قزوین اور خلیج فارس اور شمال میں آسٹریا کی سرحدوں، سلوواکیہ اور کریمیا (موجودہ یوکرین) سے جنوب میں سوڈان، صومالیہ اور یمن تک پھیلی ہوئی تھی۔ مالدووا، ٹرانسلوانیا اور ولاچیا کے باجگذار علاقوں کے علاوہ اس کے 29 صوبے تھے۔
روسی سوویت وفاقی اشتراکی جمہوریہ
روسی سوویت وفاقی اشتراکی جمہوریہ (Russian Soviet Federative Socialist Republic) (روسی :Российская Советская Федеративная Социалистическая Республика) سابق سوویت اتحاد کا سب سے بڑا، سب سے زیادہ آبادی والا جمہوریہ تھا۔
متحدہ مملکت برطانیہ عظمی و آئر لینڈ
متحدہ مملکت برطانیہ عظمی و آئر لینڈ (United Kingdom of Great Britain and Ireland) برطانیہ کا 1801ء اور 1927ء کے درمیان رسمی نام تھا۔ 1922ء میں آئر لینڈ کی اکثریت آئرش آزار ریاست بنانے کے کیے تگ و دو میں جت گئی۔
نعمان ابن ثابت بن زوطا بن مرزبان (پیدائش: 5 ستمبر 699ء– وفات: 14 جون 767ء) (فارسی: ابوحنیفه،عربی: نعمان بن ثابت بن زوطا بن مرزبان)، عام طور پر آپکو امام ابو حنیفہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ آپ سنی حنفی فقہ (اسلامی فقہ) کے بانی تھے۔ آپ ایک تابعی، مسلمان عالم دین، مجتہد، فقیہ اور اسلامی قانون کے اولین تدوین کرنے والوں میں شامل تھے۔ آپ کے ماننے والوں کو حنفی کہا جاتا ہے۔ زیدی شیعہ مسلمانوں کی طرف سے بھی آ پ کو ایک معروف اسلامی عالم دین اور شخصیت تصور کیا جا تا ہے۔ انہیں عام طور پر "امام اعظم" کہا جاتا ہے۔
کوسٹ گارڈ ایئراسٹیشن لاس اینجلس
کوسٹ گارڈ ایئراسٹیشن لاس اینجلس (انگریزی: Coast Guard Air Station Los Angeles) ریاستہائے متحدہ امریکا کا ایک تعمیر جو کیلیفورنیا میں واقع ہے۔
ابو عیسیٰ محمد ترمذی ایک مشہور محدث گذرے ہیں جن کا پورا نام ابو عیسیٰ محمد بن سورہ بن شداد ہے۔ آپ کے حالات کے متعلق بہت کم علم ہے۔ کہتے ہیں کہ پیدائشی نابینا تھے۔ بعض کے بقول آخری عمر میں نابینا ہو گئے تھے۔ آپ نے امام احمد ابن حنبل، امام بخاری اور امام ابو داؤد سے حدیث کا درس لیا اور پھر احادیث جمع کرنے کے لیے خراسان عراق اور حجاز گئے۔ شہر ترمذ میں، جو بلخ سے کچھ فاصلے پر دریائے آمو کے کنارے واقع ہے، انتقال کیا، آپ کی دو تصانیف ہم تک پہنچی ہیں۔ ایک آنحضرت کی سیرت، جس کا نام شمائل ترمذی ہے۔ اور دوسری احادیث کا مجموعہ جو جامع ترمذی کے نام سے مشہور ہے۔ دونوں کتابیں بہت وقیع اور مستند ہیں۔ ان کے علاوہ انساب، کنیت اور اسماء الرجال پر بھی آپ نے کچھ کام کیا تھا مگر یہ کتابیں اب نہیں ملتیں۔
عمر عطا بندیال (پیدائش:17 ستمبر 1958ء) ایک پاکستانی قانون دان ہیں جو 17 جون 2014ء سے سپریم کورٹ آف پاکستان کے جسٹس ہیں۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے 13 جنوری 2022ء کو جسٹس عمر عطا بندیال کی بطور چیف جسٹس پاکستان تقرری کی منظوری دی۔ جسٹس بندیال 2 فروری 2022ء سے 16 ستمبر 2023ء تک ایک سال چھ ماہ اور 25 دن کے لیے چیف جسٹس بنیں گے۔انہوں نے 1979 میں کولمبیا یونیورسٹی سے معاشیات میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی اور 1981 میں کیمبرج یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔1983 میں لاہور ہائی کورٹ کے ایڈووکیٹ کے طور پر اور کچھ سال بعد سپریم کورٹ کے ایڈووکیٹ کے طور پر داخلہ لیا گیا۔ جسٹس عمر عطا بندیال 4 دسمبر 2004 کو لاہور ہائی کورٹ کے جج کے عہدے پر فائز ہوئے۔
اردو زبان کی ابتدا کے متعلق نظریات
اردو کی ابتدا و آغاز کے بارے میں کئی مختلف نظریات ملتے ہیں یہ نظریات آپس میں اس حد تک متضاد ہیں کہ انسان چکرا کر رہ جاتا ہے۔ ان مشہور نظریات میں ایک بات مشترک ہے کہ ان میں اردو کی ابتدا کی بنیاد برصغیر پاک و ہند میں مسلمان فاتحین کی آمد پر رکھی گئی ہے۔ اور بنیادی استدلال یہ ہے کہ اردو زبان کا آغاز مسلمان فاتحین کی ہند میں آمد اور مقامی لوگوں سے میل جول اور مقامی زبان پر اثرات و تاثر سے ہوا۔ اور ایک نئی زبان معرض وجود میں آئی جو بعد میں اردو کہلائی۔ کچھ ماہرین لسانیات نے اردو کی ابتدا کا سراغ قدیم آریاؤں کے زمانے میں لگانے کی کوشش کی ہے۔ بہر طور اردو زبان کی ابتدا کے بارے میں کوئی حتمی بات کہنا مشکل ہے۔ اردو زبان کے محققین اگرچہ اس بات پر متفق ہیں کہ اردو کی ابتدا مسلمانوں کی آمد کے بعد ہوئی لیکن مقام اور نوعیت کے تعین اور نتائج کے استخراج میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس انداز سے اگر اردو کے متعلق نظریات کو دیکھا جائے تو وہ نمایاں طور پر چار مختلف نظریات کی شکل میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔
پاکستان کی جماعت انتخاب کنندگان
پاکستان کی جماعت انتخاب کنندگان، (انگریزی: Electoral College of Pakistan) صدر پاکستان کے انتخاب کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ آئین پاکستان کی شق (3)41 کے مطابق یہ جماعت سینیٹ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان پر مشتمل ہو گی۔ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کا انتخاب براہ راست عام انتخابات کے ذریعے ہوتا ہے، جبکہ سینیٹ یا ایوان بالا کے ارکان کا انتخاب صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کرتے ہیں۔
گیریبالڈی(گاری بالدی) (1807-1882) (Garibaldi) ایک اطالوی حریت پسند اور سپاہی تھا۔ اٹلی 19 ویں صدی کے نصف اول ميں چھوٹی چھوٹی ریاستوں ميں منقسم تھا۔ اسے متحد کرنا گیریبالڈی/گاری بالدی کا خواب تھا۔ اس کی خاطر وہ پہلے شمال میں آسٹریا سے لڑا، جنوب میں اسنے نیپلز /ناپولی اور سسلی کو اپنے چھوٹے سے جتھے کے ساتھ فتح کیا۔ وہ اطالوی پارلیمنٹ کا رکن بھی بنا۔
علم بیان کی اصطلاح میں حقیقی اور مجازی معنوں کے درمیان تشبیہ کا علاقہ ہونا۔ یعنی حقیقی معنی کا لباس عاریۃَ َ لے کر مجازی معنوں کو پہنانا۔ مثلا نرگس کہہ کر آنکھ مراد لینا۔ استعارہ اور تشبیہ میں یہ فرق ہے کہ استعارہ تشبیہ سے زیادہ بلیغ ہوتا ہے۔ تشبیہ میں ایک چیز کو دوسری جیسا قرار دیا جاتا ہے جب ان میں کوئی صفت یا خوبی مشترک ہو لیکن استعارے میں ایک چیزکوہوبہودوسری چیزمان لیا جاتاہے۔ تشبیہ میں مشبہ اور مشبہ بہ دونوں کا ذکر کیاجاتا ہے جب کہ استعارہ میں مستعار لہ ( جسے تشبیہ میں مشبہ کہتے ہیں) نہیں لکھا جاتا صرف مستعار منہ ( جسے تشبیہ میں مشبہ بہ کہتے ہیں ) کا ذکر ہوتا ہے۔ گویا استعارہ میں صرف اس چیز کا ذکر ہوتا ہے جسکواستعارہ بنایا جائے جب کہ تشبیہ میں دونوں کا ذکر کیا جاتا ہے کبھی حرفِ تشبیہ کے ساتھ اور کبھی حرفِ تشبیہ کے بغیر۔
میر تقی میر (پیدائش: 28 مئی 1723ء— وفات: 22 ستمبر 1810ء) اصل نام میر محمد تقى اردو كے عظیم شاعر تھے۔ میر ان کا تخلص تھا۔ اردو شاعرى ميں مير تقى مير كا مقام بہت اونچا ہے ـ انہیں ناقدین و شعرائے متاخرین نے خدائے سخن کے خطاب سے نوازا۔ وہ اپنے زمانے كے ايك منفرد شاعر تھےـ۔ آپ كے متعلق اردو كے عظیم الشان شاعرمرزا غالب نے لکھا ہے۔
بنو امیہ قریش کا ایک ممتاز اور دولت مند قبیلہ تھا۔ اسی خاندان نے خلافت راشدہ کے بعد تقریباً ایک صدی تک ملوکیت سنبھالی اور اسلامی فتوحات کو بام عروج پر پہنچایا۔ جس کی سرحدیں ایک طرف چین اور دوسری طرف اسپین تک پھیلی ہوئی تھیں۔ البتہ مرکزی خلافت کے خاتمے کے باوجود اس خاندان کا ایک شہزادہ عبدالرحمن الداخل اسپین میں حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوا۔ جہاں 1492ء تک اموی سلطنت قائم رہی۔
ابو عبد اللہ عثمان بن عفان اموی قرشی (47 ق ھ - 35 ھ / 576ء – 656ء) اسلام کے تیسرے خلیفہ، داماد رسول اور جامع قرآن تھے۔ عثمان غنی سابقین اسلام میں شامل اور عشرہ مبشرہ میں سے تھے، ان کی کنیت ذو النورین ہے کیونکہ انھوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دو صاحبزادیوں سے نکاح کیا تھا، پہلے رقیہ بنت محمد سے کیا، پھر ان کی وفات کے بعد ام کلثوم بنت محمد سے نکاح کیا۔ عثمان غنی پہلے صحابی ہیں جنھوں نے سرزمین حبشہ کی ہجرت کی، بعد میں دیگر صحابہ بھی آپ کے پیچھے حبشہ پہنچے۔ بعد ازاں دوسری ہجرت مدینہ منورہ کی جانب کی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عثمان غنی پر مکمل اعتماد اور ان کی فطری حیاء و شرافت اور جو انھوں نے اپنے مال کے ذریعہ اہل ایمان کی نصرت کی تھی، اس کی انتہائی قدر کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیگر صحابہ کے ساتھ ان کو بھی جنت اور شہادت کی موت کی خوش خبری دی۔
غرور اپنی طاقت، دولت اور عہدے، کی وجہ سے خود کو دوسروں سے بڑا سمجھنا اور دوسرے لوگوں کو خود سے کم تر اور حقیر سمجھنا یا خود کو خدا سمجھنا کہ وہ اپنی طاقت اور دولت سے کچھ بھی کر سکتے ہیں اور کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا غرور کہلاتا ہے۔ یا آپ اس بات کو اس طرح بھی بیان کر سکتے ہیں کہ غرور ایک ایسی انسانی حالت کا نام ہے جس میں انسان خود کو دوسروں سے فوقیت اور فضیلت دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ غرور اور تکبر کو ناپسند فرماتا ہے۔ غرور کا گناہ سب سے پہلے شیطان نے کیا تھا۔ جب حضرت آدم علیہ السلام کو تمام فرشتوں کو اور شیطان (ابلیس) کو اللہ تعالیٰ نے سجدہ کرنے کا حکم دیا تو شیطان نے یہ کہہ کر سجدہ کرنے سے انکار کر دیا کہ حضرت آدم علیہ السلام کو مٹی سے بنایا گیا ہے اور میں آگ سے بنا ہوں تو اللہ تعالیٰ نے شیطان کے اس غرور کو سخت ناپسند فرمایا اور شیطان کو قیامت تک مہلت دے کر اپنی بارگاہ سے نکال دیا۔ اس دنیا میں لوگ اپنی طاقت دولت اور عہدے کے نشے میں اپنے اندر اس قدر غرور اور تکبر پیدا کرلیتے ہیں کہ خود کو خدا سمجھنے لگتے ہیں دنیا میں اس کی مثالیں نمرود، شداد اور فرعون کی ہیں جو اپنی دولت اور طاقت کی وجہ سے اس قدر غرور میں مبتلا ہو گئے کہ خود کو خدا کہلوانے لگے اور وہ لوگوں پر اپنے غرور کی وجہ سے ظلم کے پہاڑ تورٹے تھے لیکن اللہ نے ان کے نام نشان بھی دنیا سے مٹا دیے اور انہیں دنیا کے لوگوں کے لیے عبرت بنا دیا۔ بڑائی صرف اللہ کے لیے ہے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں عاجزی کو پسند فرماتا ہے وہ انسان میں غرور جیسے کبیرہ گناہ کی بالکل اجازت نہیں دیتا لیکن لوگ ایسے بھی ہیں جو ذرا سی دولت، طاقت اور عہدہ حاصل کرتے ہیں تو ان میں غرور جیسا کبیرہ گناہ پیدا ہو جاتا ہے۔ اور وہ دوسرے لوگوں کو کم تر اور اپنے سے حقیر سمجھنا شروع کردیتے ہیں اور عاجزی چھوڑ دیتے ہیں ان کے لہجے، چال ڈھال، رہن سہن میں غرور نمایاں نظر آنا شروع ہوجاتا ہے اور وہ اپنی طاقت، دولت اور عہدے کو استعمال کرتے ہوئے کمزوروں کو ظلم و ستم کا نشانہ بناتے ہیں۔
کونکنی ایک ہند-آریائی زبان ہے، جو بھارت کے مغربی ساحلی علاقے میں بولی جاتی ہے۔ یہ بھارت کی سرکاری زبانوں میں سے ایک ہے۔ اور ریاست گووا کی سرکاری زبان ہے۔ ریاست مہاراشٹرا میں بھی ایک اقلیتی زبان کی حیثیت سے جانی اور پہچانی جاتی ہے۔ اسی طرح کرناٹک اور کیرلا ریاستوں میں بھی ایک اقلیتی زبان ہے۔ دادرا اور ناگر حویلی علاقوں میں بھی بولی جاتی ہے۔ کونکی بولی بھارت کے مغربی ساحلی علاقوں میں بولی جانے والی زبان ہے۔ خاص طور پر اس زبان کے بولے جانے والے علاقے کو کونکن علاقہ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ علاقہ ریاست مہاراشٹر کے مغربی ساحلی علاقے اور ریاست گووا کے جملہ علاقے کو ملا کر کہا جاسکتا ہے۔
برصغیر پاک و ہند میں 1857ء کی ناکام جنگ آزادی اور سقوطِ دہلی کے بعد مسلمانان برصغیر کی فلاح و بہبودگی ترقی کے لیے جو کوششیں کی گئیں، عرف عام میں وہ ”علی گڑھ تحریک “ کے نام سے مشہور ہوئیں۔ سر سید نے اس تحریک کا آغاز جنگ آزادی سے ایک طرح سے پہلے سے ہی کر دیا تھا۔ غازی پور میں سائنٹفک سوسائٹی کا قیام اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ لیکن جنگ آزادی نے سرسید کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کیے اور ان ہی واقعات نے علی گڑھ تحریک کو بارآور کرنے میں بڑی مدد دی۔ لیکن یہ پیش قدمی اضطراری نہ تھی بلکہ اس کے پس پشت بہت سے عوامل کارفرما تھے۔ مثلاً راجا رام موہن رائے کی تحریک نے بھی ان پر گہرا اثر چھوڑا۔
محمد علی جناح پیدائشی نام، محمد علی جناح بھائی، 25 دسمبر 1876ء – 11 ستمبر 1948ء) کے نامور وکیل، سیاست دان اور بانی پاکستان تھے۔ محمد علی جناح 1913ء سے لے کر پاکستان کی آزادی 14 اگست 1947ء تک آل انڈیا مسلم لیگ کے سربراہ رہے، پھر قیام پاکستان کے بعد اپنی وفات تک، وہ ملک کے پہلے گورنر جنرل رہے۔ سرکاری طور پر پاکستان میں آپ کو قائدِ اعظم یعنی سب سے عظیم رہبر اور بابائے قوم یعنی قوم کا باپ بھی کہا جاتا ہے۔ جناح کا یومِ پیدائش پاکستان میں قومی تعطیل کے طور پر منایا جاتا ہے۔کراچی کے پیدائشی اور لنکن ان سے بیرسٹری کی تربیت حاصل کرنے والے جناح، بیسویں صدی کے ابتدائی دو عشروں میں آل انڈیا کانگریس کے اہم رہنما کے طور پر ابھرے۔ اپنی سیاست کے ابتدائی ادوار میں انہوں نے ہندو مسلم اتحاد کے لیے کام کیا۔ 1916ء میں آل انڈیا مسلم لیگ اور آل انڈیا کانگریس کے مابین ہونے والے میثاق لکھنؤ کو مرتب کرنے میں بھی انہوں نے اہم کردار ادا کیا۔ جناح آل انڈیا ہوم رول لیگ کے اہم رہنماوں میں سے تھے، انہوں نے چودہ نکات بھی پیش کیے، جن کا مقصد ہندوستان کے مسلمانوں کے سیاسی حقوق کا تحفظ کرنا تھا۔ بہر کیف جناح 1920ء میں آل انڈیا کانگریس سے مستعفی ہو گئے، جس کی وجہ آل انڈیا کانگریس کے موہن داس گاندھی کی قیادت میں ستیاگرا کی مہم چلانے کا فیصلہ تھا۔1940ء تک جناح کو یہ یقین ہو چلا تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک علاحدہ وطن کی جدوجہد کرنی چاہیے۔ اسی سال، مسلم لیگ نے جناح کی قیادت میں قرارداد پاکستان منظور کی جس کا مقصد نئی مملکت کی قیام کا مطالبہ تھا۔دوسری جنگ عظیم کے دوران، آل انڈیا مسلم لیگ نے مضبوطی پکڑلی جبکہ ان ادوار میں کانگریس کے کئی رہنما قید کاٹ رہے تھے اور جنگ کے ختم ہونے کے مختصر عرصے میں ہی انتخابات کا انعقاد ہوا، جس میں جناح کی جماعت نے مسلمانوں کے لیے مختص نشستوں میں سے بڑی تعداد جیت لی۔ اس کے بعد آل انڈیا کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ متحدہ ہندوستان میں اختیارات کے توازن کے لیے کسی صیغے پر متفق نا ہو سکے نتیجتاً تمام جماعتیں اس امر پر متفق ہوگئیں کہ ہندوستان کے دو حصے کیے جائیں جن میں ایک مسلم اکثریتی علاقوں میں پاکستان جبکہ باقی ماندہ علاقوں میں بھارت کا قیام ہو۔پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کے طور پر جناح نے اپنی حکومتی پالیسیوں کے قیام کے لیے کام کیا نیز انہوں نے ان لاکھوں لوگوں کے بہبود اور آباد کاری کے لیے بھی کام کیا جو تقسیم ہند کے بعد پاکستان کی جانب ہجرت کر چلے تھے، انہوں نے ان مہاجر کیمپوں کی ذاتی طور پر دیکھ بھال کی۔ جناح 71 سال کے عمر میں انتقال کر گئے جبکہ ان کے نوزائیدہ ملک کو سلطنت برطانیہ سے آزاد ہوئے محض ایک سال کا عرصہ ہوا تھا۔ ان کی سوانح عمری لکھنے والے لکھاری،اسٹینلی وولپرٹ لکھتے ہیں کہ، وہ (یعنی جناح) پاکستان کے عظیم ترین رہنما رہیں گے۔
پروگرام یا برنامہ (program / programme) کی جاتی ہے۔ بنیادی طور پر پروگرام سے مراد کسی بھی کام یا ہدایات کو ترتیب سے جاری کرنے کی ہوتی ہے۔ کمپیوٹر پروگرام (computer program) ایک ایسے پروگرام یا برنامہ کو کہا جاتا ہے جو کمپیوٹر کو کام کرنے کے لیے ہدایات کی شکل میں فراہم کیا جاتا ہے۔ یہ ہدایات ایک ترتیب وار شکل میں ہوتی ہیں جن پر یکے بعد دیگرے عمل پیرا ہوکر ایک کمپیوٹر وہ کام انجام دیتا ہے جو اس سے مطلوب ہو، اسی مرحلہ بہ مرحلہ خصوصیات کی وجہ سے کمپیوٹر پروگرام کو ایک الخوارزمیہ (algorithm) بھی تصور کیا جاسکتا ہے۔
دبستان دہلی اردو ادب کا اولین اور مخصوص دبستان ہے جو دہلی شہر اور خصوصاً قلعہ معلی کی زبان و ادب کا نمائندہ سمجھا جاتا ہے۔ اورنگزیب کی وفات کے بعد اُس کا بیٹا معظم تخت نشین ہوا لیکن اس کے بعد معظم کے بیٹے معز الدین نے اپنے بھائی کو شکست دے کر حکومت بنائی۔ معز الدین کے بھتیجے ”فرخ سیر“ نے سید بردران کی مدد سے حکومت حاصل کی لیکن سید بردران نے فرخ سیر کو بھی ٹھکانے لگا دیا۔ اس طرح 1707ء سے لے کر 1719ء تک دہلی کی تخت پر کئی بادشاہ تبدیل ہوئے۔ محمد شاہ رنگیلا کی عیاشی کے دور میں نادرشاہ درانی نے دہلی پر حملہ کر دیا اور دہلی کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ پھر احمد شاہ ابدالی کے حملے نے مزید کسر بھی پوری کر دی۔ دوسری طرف مرہٹے، جاٹ اور روہیلے آئے دن دہلی پر حملہ آور ہوتے اور قتل عام کرتے اس دور میں کئی بادشاہ بدلے اور مغل سلطنت محدود ہوتے ہوتے صرف دہلی تک محدود ہو کر رہ گئی۔ اور آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر کو انگریزوں نے معزول کر کے رنگوں بھیج دیا۔ یہ تھی دہلی کی مختصر تاریخ جس میں دبستان دہلی کا ادب پروان چڑھا۔ یہ ایک ایسا پرآشوب دور تھا جس میں ہر طرف بدنظمی، انتشاراور پستی کا دور دورہ تھا۔ ملک میں ہر طرف بے چینی تھی۔ اس حالت کی وجہ سے جس قسم کی شاعری پروان چڑھی۔ دبستان دہلی کے چند شعرا کا ذکر درج زیل ہے۔
کاروبار سے مراد منافع حاصل کرنے کے لیے کسی تنظیم کی قدر سازی (value-creating) سرگرمیاں ہوتی ہیں، جبکہ تجاریات سے مراد معیشت کا وہ پُورا نظام ہے جو کاروبار کے لیے ایک ماحول تشکیل دیتا ہے۔ اِس نظام میں، ملک میں فعال، قانونی، معاشی، سیاسی، معاشرتی، ثقافتی اور تکنیکی نظامات شامل ہیں۔ یوں، تجاریات ایک ایسا نظام یا ماحول ہے جو معیشت یا ملک کے کاروباری تناظر پر اثر انداز ہوتا ہے۔
سافٹ کور فحش نگاری یا سافٹ کور ایسی ساکت تصاویر یا فلمیں جن میں فحاشی یا شہوانی عنصر ہو لیکن ہارڈکور فحش نگاری سے جنسی طور پر کم واضح اور شدید ہو۔ ایسی فحش نگاری جنسی تحریک کے لیے تخلیق کی جاتی ہے اور اس میں عموماً عریاں اور نیم عریاں اداکار اور جنسی مناظر ہوتے ہیں۔ جنسی اعضاء کی منظر کشی ساکت تصاویر میں زیادہ عام ہے اور یہ فلم اور ٹیوی میں بھی بڑھ رہی ہے۔ جنسی اعمال جیسے جماع اور مشت زنی کو صرف جسمانی حرکات سے ظاہر کیا جاتا ہے لیکن واضح طور سے نہیں دکھایا جاتا۔ سافٹکور میں جنسی اعمال جیسے فرجی اور دبری دخول، دہنی جماع اور انزال واضح طور پر نہیں دکھائے جاتے۔ مردانہ عضو تناسل کو سخت حالت میں دکھانا بھی ممنوع ہے۔
فتح مکہ (جسے فتح عظیم بھی کہا جاتا ہے) عہد نبوی کا ایک غزوہ ہے جو 20 رمضان سنہ 8 ہجری بمطابق 10 جنوری سنہ 630 عیسوی کو پیش آیا، اس غزوے کی بدولت مسلمانوں کو شہر مکہ پر فتح نصیب ہوئی اور اس کو اسلامی قلمرو میں شامل کر لیا گیا۔ اس غزوہ کا سبب قریش مکہ کی جانب سے اس معاہدہ کی خلاف ورزی تھی جو ان کے اور مسلمانوں کے درمیان میں ہوا تھا، یعنی قریش مکہ نے اپنے حلیف قبیلہ بنو دئل بن بکر بن عبد منات بن کنانہ (اس کی ایک خاص شاخ جسے بنو نفاثہ کہا جاتا ہے) نے بنو خزاعہ کے خلاف قتل و غارت میں مدد کی تھی اور چونکہ بنو خزاعہ مسلمانوں کا حلیف قبیلہ تھا اس لیے اس حملے کو قریش مکہ کی جانب سے اس معاہدہ کی خلاف ورزی سمجھا گیا جو مسلمانوں اور قریش کے درمیان میں ہوا تھا، یہ معاہدہ "صلح حدیبیہ" کے نام سے معروف ہے۔ اسی معاہدہ کی خلاف ورزی کے جواب میں حضرت محمدﷺ بن عبد اللہ نے ایک عظیم الشان لشکر تیار کیا جو دس ہزار مجاہدین پر مشتمل تھا؛ لشکر آگے بڑھتا رہا یہاں تک کہ مکہ پہنچ گیا اور بغیر کسی مزاحمت کے مکہ میں پر امن طریقے سے داخل ہو گیا سوائے ایک معمولی سی جھڑپ کے جس کے سپہ سالار خالد بن ولید کو اس وقت سامنا ہوا جب قریش کی ایک ٹولی نے عکرمہ بن ابی جہل کی قیادت میں مسلمانوں سے مزاحمت کی اور پھر خالد بن ولید کو ان سے قتال کرنا پڑا جس کے نتیجے میں بارہ کفار مارے گئے اور باقی بھاگ گئے، جبکہ دو مسلمان بھی شہید ہوئے۔
عربی (عربی: العربية) سامی زبانوں میں سب سے بڑی زبان ہے اور عبرانی اور آرامی زبانوں سے بہت ملتی ہے۔ جدید عربی کلاسیکی یا فصیح عربی کی تھوڑی سی بدلی ہوئی شکل ہے۔ فصیح عربی قدیم زمانے سے ہی بہت ترقی یافتہ شکل میں تھی اور قرآن کی زبان ہونے کی وجہ سے زندہ ہے۔ فصیح عربی اور بولے جانے والی عربی میں بہت فرق نہیں بلکہ ایسے ہی ہے جیسے بولے جانے والی اردو اور ادبی اردو میں فرق ہے۔ عربی زبان نے اسلام کی ترقی کی وجہ سے مسلمانوں کی دوسری زبانوں مثلاً اردو، فارسی، ترکی وغیرہ پر بڑا اثر ڈالا ہے اور ان زبانوں میں عربی کے بے شمار الفاظ موجود ہیں۔ عربی کو مسلمانوں کی مذہبی زبان کی حیثیت حاصل ہے اور تمام دنیا کے مسلمان قرآن پڑھنے کی وجہ سے عربی حروف اور الفاظ سے مانوس ہیں۔ تاریخ میں عربی زبان کی اہمیّت کے سبب بہت سے مغربی زبانوں میں بھی اِس کے الفاظ وارد ہوئے ہیں۔
حیاتیات میں، جنس ایک عمل کا نام ہے جو جینیاتی خصوصیات کے ملنے سے تعبیر کیا جاتا ہے، اس جینیاتی عمل کے نتیجے میں نئے بننے والے نامیے (organism) کی جنس کا تعین نر یا مادہ کے طور پر ہو جاتا ہے اور اس نر و مادہ کی کیفیت کو بھی عرف عام میں اس نامیے کی جنس ہی کہا جاتا ہے۔ جنسی نوپیداوار میں خصوصی خلیات، جن کو عِرس (gamete) کہا جاتا ہے، کے ملنے سے نسل بنتی ہے جو والدین یعنی کہ ماں اور باپ دونوں کی جانب سے آنے والی جینیاتی خصوصیات کی حامل ہوتی ہے۔ انہی جینیاتی خصوصیات میں سے ایک کسی بھی نامیے کی جنس بھی ہے جو عام طور پر نر یا مادہ ہوتی ہے۔ تولیدی نظام کے خصوصی خلیات، یعنی کہ نر اور مادہ اعراس ایک ہی طرح کی خصوصیات (شکل، جسامت اور حرکت وغیرہ) کے حامل بھی ہو سکتے ہیں اور ایسی صورت میں ان کو عرس مماثل (isogamete) کہا جاتا ہے لیکن کئی مواقع یا جانداروں میں ان (نر اور مادہ اعراس) کی عملی خصوصیات مختلف ہو سکتی ہیں، ایسی صورت میں پائے جانے والے اعراس کو عرس مغایر (heterogametes) کہا جاتا ہے؛ مثال کے طور پر جب نر اعراس چھوٹے، متحرک اور جینیاتی معلومات کو کچھ فاصلے تک ترسیل کرنے کے حامل ہوتے ہیں جبکہ دوسری جانب مادہ اعراس بڑے اور غیر متحرک ہوتے ہیں اور غذائی اجزاء سے لیس ہوتے ہیں۔ یہ غذائی اجزاء نئے جنم لینے والے نامیہ کی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد دیتے ہیں؛ تو ایسی صورت میں ان کو عرس مغایر کہا جائے گا۔
فورٹ ولیم کالج کا قیام اردو ادب کی تاریخ میں ایک اہم واقعہ ہے۔ اردو نثر کی تاریخ میں خصوصاً یہ کالج سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگرچہ کالج انگریزوں کی سیاسی مصلحتوں کے تحت عمل میں آیا تھا۔ تاہم اس کالج نے اردو زبان کے نثری ادب کی ترقی کے لیے نئی راہیں کھول دیں تھیں۔ سر زمین پاک و ہند میں فورٹ ولیم کالج مغربی طرز کا پہلا تعلیمی ادارہ تھا جو لارڈ ولزلی کے حکم پر 1800ءمیں قائم کیا گیاتھا۔
متضاد مخالف؛ اُلٹ؛ اُلٹی طرف؛ دوسری جانب؛ ضِد؛ مُقابل؛ بِالمقابل؛ متقابل؛ متضاد؛ ایک لفظ جو مفہوم کے لحاظ سے دوسرے کی ضد ہو؛ متضاد المعنی۔ ایسے الفاظ جو مماثل وضع میں لیکن ایک دوسرے کے مخالف، برعکس یا یکسر مختلف ہوں۔ اسے 'بائنری' تعلق سے تعبیر کیا جاتا ہے کیوں کہ متضاد جوڑوں میں دو رکن ہوتے ہیں۔ باہم مخالف تعلق کو متضاد کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ایک جوڑے میں مخالف لفظ کو عام طور پر اس سوال کے ذریعہ طے کیا جا سکتا ہے کہ الف کے برعکس کیا ہے؟ جیسے:
منشی پریم چند اردو کے مشہور ناول نگار اور افسانہ نگار ہیں۔ ان کا اصلی نام دھنپت رائے ہے، لیکن ادبی دنیا میں پریم چند کے نام سے مشہور ہیں۔ وہ 1880ء میں منشی عجائب لال کے وہاں ضلع وارانسی مرٹھوا کے گاؤں لمہی میں پیدا ہوئے۔ان کے دادا گاوں کے پٹواری اور والد ایک ڈاک خانے میں کلرک تھے۔ پریم چند ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ نے تقریباً سات آٹھ برس فارسی پڑھنے کے بعد انگریزی تعلیم شروع کی۔ پندرہ سال کی عمر میں شادی ہو گئی۔ ایک سال بعد والد کا انتقال ہو گیا۔ اس وقت آٹھویں جماعت میں پڑھتے تھے۔ پورے گھر بار کا بوجھ آپ پر ہی پڑ گیا۔ فکر معاش نے زیادہ پریشان کیا تو لڑکوں کو بطور استاد پڑھانے لگے اور میٹرک پاس کرنے کے بعد محکمہ تعلیم میں ملازم ہو گئے۔ اسی دوران میں بی۔ اے کی ڈگری حاصل کی۔
برطانوی سیاست دان۔ لارڈ رنڈولف چرچل کا بڑا لڑکا۔ چرچل کی ماں جینی امریکی یہودی تھی۔ ہیرو اور سنڈھرسٹ میں تعلیم پائی۔ ہندوستان کی شمال مغربی سرحد اور پھر جنوبی افریقا میں سپاہی اور اخباری نمائندہ رہا۔ بوئروں کی جنگ میں گرفتار ہوا۔ مگر بچ نکلا۔ 1901ء میں پہلی بار پارلیمنٹ کا رکن منتخب ہوا۔ اور مختلف عہدوں پرفائز رہا۔ نو آبادیوں کا نائب سیکرٹری۔1905ء تا 1908ء صدر بورڈ آف ٹریڈ۔ 1908ء تا 1910ء ہوم سیکرٹری۔1910ء تا 1911ء ناظم اعلٰی امارت بحری۔ 1911ء تا 1915ء دوبارہ۔ 1939ء تا 1940ء وزیر اسلحہ۔ 1917ء وزیر جنگ۔ 1918ء تا 1921ء وزیر فضائیہ۔1919ء تا 1921ء وزیر خزانہ۔ 1924ء تا 1929ءدرہ دانیال کی مہم کی ناکامی کے بعد سیاست سے کنارہ کش ہو گیا۔ 1936ءتا 1938ء وزیر اعظم چیمبرلین کی ہٹلر کو خوش کرنے کی پالیسی کی بڑی شدومد سے مخالفت کی جس کے سبب دوبارہ سیاست کے افق پر ابھرا۔ دوسری جنگ عظیم کے شروع ہونے پر ناطم امارات بحری کی حیثیت سے کابینہ میں شامل ہوا۔ اور مئی 1940ء میں وزیر اعظم بنا۔ جنگ کے بعد 1945ء لیبر پارٹی بر سر اقتدار آئی تو قائد حزب اختلاف منتخب ہوا۔ اور اس دوران میں سوویت یونین اور اس کے مغربی اتحادیوں کے مابین مناقشت کے بیج بوئے۔ سوویت یونین کے بارے میں "آہنی پردہ" کی اصطلاح اسی کی ایجاد ہے۔ اکتوبر 1951ء کے انتخابات میں قدامت پسند پارٹی کو دوبارہ منظم کیا۔ اکتوبر 1951ء کے انتخابات میں قدامت پسند پارٹی کی جیت ہوئی۔ تو دوبارہ وزیر اعظم بنا اور 1955ء میں پیرانہ سالی کے سبب ریٹائر ہو گیا۔ ونسٹن چرچل اعلٰی درجے کا مدبر لیکن انتہائی قدامت پرست سیاست دان تھا۔ دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کے شکست میں اس کی مدبرانہ سوچ نے اہم کردار ادا کیا۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اگر چرچل نہ ہوتا تو شاید آج دنیا کی تاریخ کچھ اور ہوتی۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد اس نے مغربی طاقتوں کو سوویت یونین کو ختم کرنے پر اکسایا لیکن امریکی صدر روزویلٹ نے، عالمی رائے عامہ کے خوف سے اس کی سخی سے مخالفت کی۔ آخر دم تک برطانوی نوآبادیوں کی آزادی کی مخالفت کرتا رہا۔ مصوری سے خاص شغف تھا۔ کئی کتابوں کا مصنف ہے۔ جن میں تاریخ جنگ عظیم دوم دو جلدوں کی صورت میں شائع ہو چکی ہے۔ 1953ء میں اسے ادب کا نوبیل انعام دیا گیا۔ ’’V‘‘یعنی وکڑی کا نشان بھی چرچل ہی کی دین ہے۔ چرچل سخت متعصب شخص تھا، فلسطینی قوم کو اپنے ملک فلسطین سے بے دخل کرنے اور امریکی مقامی باشندوں کے مغربی استحصال پر چرچل کا بیان: "میں یہ تسلیم نہیں کرتا کہ کتا اپنے ڈربہ کا مالک ہوتا ہے خواہ وہ اس ڈربے میں کافی عرصے سے رہ رہا ہو۔ مثال کے طور پر میں یہ تسلیم نہیں کرتا کہ امریکا میں قدیم باسیوں (ریڈ انڈین) یا آسٹریلیا کے کالے قدیم باسیوں کے ساتھ کوئی بڑی زیادتی ہوئی ہے۔ میں یہ تسلیم نہیں کرتا کہ ایک طاقتور نسل، ایک بہتر نسل یا ایک عقل مند نسل نے آ کران کی زمین پر قبضہ کر لیا تو کوئی ظلم ہوا۔" "I don't admit that the dog in the manger has the final right to the manger, even though he may have lain there for a very long time. I don't admit, for instance, that a great wrong has been done to the Red Indians of America, or the black people of Australia. I don't admit that a wrong has been done to those people by the fact that a stronger race, a higher grade race, or, at any rate, a more worldly-wise race, to put it that way, has come in and taken their place." 1943کے بنگال کے قحط کے بارے میں ونسٹن چرچل نے کہا تھا "مجھے ہندوستانیوں سے نفرت ہے۔ یہ جنگلی لوگ ہیں اور ان کا مذہب بھی جنگلی ہے۔ قحط ان کی اپنی غلطی ہے کیونکہ وہ خرگوشوں کی طرح آبادی بڑھاتے ہیں"۔ (حالانکہ بنگال کا قحط برطانیہ کا سوچا سمجھا منصوبہ تھا۔) Talking about the Bengal famine in 1943, Churchill said: “I hate Indians.
سیدہ عائشہ بنت ابی بکر (رضی اللہ عنہا) (پیدائش: 614ء– وفات: 13 جولائی 678ء) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ ہیں۔ آپ کو اُم المومنین کے خطاب سے یاد کیا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد عہد خلفائے راشدین میں آپ کی شخصیت بہت نمایاں نظر آتی ہے۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد 47 سال بقید حیات رہیں اور یہ تمام وہ عرصہ ہے جس میں ابتدائی مسلم فتوحات ہوئیں، مختلف ممالک مملکت اسلامیہ میں داخل ہوئے۔ علم الحدیث میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایات کے بعد سب سے زیادہ روایاتِ حدیث کا ذخیرہ آپ سے ہی روایت کیا گیا ہے۔ آپ عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور عہد خلفائے راشدین کی عینی شاہد بھی تھیں اور مزید برآں آپ نے خلافت امویہ کے ابتدائی 17 سال بھی ملاحظہ فرمائے۔ آپ کا انتقال مدینہ منورہ میں سنہ 678 ء میں ہوا۔ آپ کے مناقب و فضائل کثیر ہیں جس سے آپ کی عظمت و شان جلالت مسلم خواتین پر نمایاں ہے۔جنگ جمل کے حوالے سے یہ بات معلوم ہونا بھی مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ کچھ احادیث اور تاریخی کتابوں کے واقعات میں راویوں پر علما اسلام کی طرف سے جرح بھی کی گئی ہے اور بہت سے راویوں کے حالات معلوم نہیں ہیں ۔مسلمان امت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اہل بیت اطھار کے بارے میں صحیح عقائد قرآن وسنت اور مستند و صحیح احادیث نبوی سے لیتے
'مرزا اسد اللہ خان غالب' کی شخصیت کو کون نہیں جانتا۔ ہمارے ملک میں تو یہ عالم ہے کہ اگر کسی کو تھوڑی بہت اردو کی سوجھ بوجھ ہے تو غالب کے نام کو تو ضرور جانتا ہوگا۔ بحیثیتِ شاعر وہ اتنے مقبول ہیں کہ اُن کے اشعار زبان زدِ خلائق ہیں۔ اور بحیثیتِ نثر نگار بھی وہ کسی سے کم نہیں۔ بلکہ اس لحاظ سے ان کا پایہ سب سے بلند ہے کہ ایسے زمانے میں جب رنگینی و قافیہ پیمائی، انشا پردازی کا اصل سرمایہ سمجھی جاتی تھی ، انہوں نے نثر میں بھی ایک نئی راہ نکالی ۔ سادہ و پرکار، حسین و رنگین۔ یہی نمونۂ نثر آنے والوں کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوئے۔
حسین بن علی بن ابی طالب ( عربی: ٱلْحُسَيْن ٱبْن عَلِيّ 10 جنوری 623 - 10 اکتوبر 680) محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نواسے اور علی ابن ابی طالب اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی فاطمہ زہرا کے بیٹے تھے۔ وہ اسلام میں ایک اہم شخصیت ہیں کیوںکہ وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ( اہل بیت ) اور اہل کسا کے علاوہ تیسرے شیعہ امام بھی ہیں۔
جناح ہاؤس ممبئی، بھارت میں واقع بانی ء پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح کی رہائشگاہ ہے جس پر اُس وقت کے سکہء رائج الوقت کے مطابق دولاکھ روپے کی لاگت آئی تھی۔ جب جناح برطانیہ سے واپس مسلم لیگ کی قیادت کے لیے انڈیا آئے۔ اس کی موجودہ مالیت تقریباً چالیس لاکھ امریکی ڈالر ہے اور یہ جائداد انڈیا، حکومتِ پاکستان اور جناح کی بیٹی دینا واڈیا کے درمیان تنازع کا سبب ہے۔
شاعری (Poetry) کا مادہ "شعر" ہے، اس کے معانی کسی چیز کے جاننے پہچاننے اور واقفیت کے ہیں لیکن اصطلاحاً شعر اس کلامِ موزوں کو کہتے ہیں جو قصداً کہا جائے۔ یہ کلام موزوں جذبات اور احساسات کے تابع ہوتا ہے اور کسی واقعہ کی طرف جاننے کا اشارہ کرتا ہے۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ آپ نے کوئی حادثہ دیکھا ہو اور وہ آپ کے دل پر اثر کر گیا ہو اور آپ کے اندر سے خود بہ خود الفاظ کی صورت میں ادا ہو جائے، اس اثر کے بیان کو شعر کہتے ہیں اور انہیں شعروں کو شاعری کے نام سے جانا جاتا ہے۔دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ شاعری الفاظ کا وہ استعمال ہے، جس میں ایک طرف معانی کی وسعت ذہن کو تسخیر کرے تو دوسری جانب نغمگی کی تاثیر دل کو جکڑ لے۔ گویا ایک اچھا شعر بشر کے پورے وجود کا تجربہ ہے۔