اردو ویکیپیڈیا کے سب سے زیادہ ملاحظہ کردہ مضامین کی فہرست۔ مزید معلومات کے لیے ۔ ۔ ۔
سانحۂ کربلا یا واقعہ کربلا یا کربلا کی جنگ 10 محرم 61ھ (بمطابق 9 یا 10 اکتوبر، 680ء) کو، موجودہ عراق میں کربلا کے مقام پر پیش آیا۔ یہ جنگ نواسہ رسول حضرت امام حسین ابن علی، ان کے حامیوں اور رشتہ داروں کے ایک چھوٹے سے گروہ، حسین ابن علیؓ کے ساتھ 72 ساتھی، کچھ غلام، 22 اہل بیت کے جوان اور خاندان نبوی کی کچھ خواتین و بچے شامل تھے، اور اموی ظالم حکمران یزید اول کی ایک بڑی فوج کے مابین ہوئی۔جس کو حسین نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔جس میں اموی خلیفہ یزید اول کی فوج نے پیغمبر اسلام محمد کے نواسے حسین ابن علی اور ان کے رفقا کو لڑائی میں شہید کیا، حرم حسین کے خیموں کو لوٹ لیا گیا اور بالآخر آگ لگا دی گئی۔ عمر بن سعد کی فوج نے کربلا کے صحرا میں مقتولین کی لاشیں چھوڑ دیں۔ بنی اسد کے لوگوں نے لاشوں کو تین دن بعد دفن کیا۔ واقعہ کربلا کے بعد، حسین ابن علی کی فوج سے وابستہ متعدد خواتین اور بچوں کو گرفتار کر کے قید کر دیا گیا، بازار اور ہجوم والے مقامات سے گزر کر ان کی توہین کی گئی اور انہیں یزید ابن معاویہ کے دربار شام بھیج دیا گیا تھا۔ جنگ میں شہادت کے بعد حضرت امام حسین کو سید الشہدا کے لقب سے پکارا جاتا ہے۔
حسین بن علی بن ابی طالب ( عربی: ٱلْحُسَيْن ٱبْن عَلِيّ 10 جنوری 623 - 10 اکتوبر 680) محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نواسے اور علی ابن ابی طالب اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی فاطمہ زہرا کے بیٹے تھے۔ وہ اسلام میں ایک اہم شخصیت ہیں کیوںکہ وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ( اہل بیت ) اور اہل کسا کے علاوہ تیسرے شیعہ امام بھی ہیں۔
ابوحفص عمر فاروق بن خطاب عدوی قرشی (586ء/590ء، مکہ - 6 نومبر 644ء، مدینہ) ابوبکر صدیق کے بعد مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ راشد، محمد مصطفی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سسر اور تاریخ اسلام کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک ہیں۔ عمر بن خطاب عشرہ مبشرہ میں سے ہیں، ان کا شمار علما و زاہدین صحابہ میں ہوتا تھا۔ ابوبکر صدیق کی وفات کے بعد 23 اگست سنہ 634ء مطابق 22 جمادی الثانی سنہ 13ھ کو مسند خلافت سنبھالی۔ عمر بن خطاب ایک باعظمت، انصاف پسند اور عادل حکمران مشہور ہیں، ان کی عدالت میں مسلم و غیر مسلم دونوں کو یکساں انصاف ملا کرتا تھا، عمر بن خطاب کا یہ عدل و انصاف انتہائی مشہور ہوا اور ان کے لقب فاروق کی دیگر وجوہ تسمیہ میں ایک وجہ یہ بھی بنی۔ آپ رضی اللہ عنہ کا نسب نویں پشت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے جا ملتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نویں پشت میں کعب کے دو بیٹے ہیں مرہ اور عدی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مرہ کی اولاد میں سے ہیں، جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ عدی کی اولاد میں سے ہیں۔
یزید بن معاویہ (مکمل نام: یزید بن معاویہ بن ابوسفیان بن حرب بن امیہ الاموی الدمشقی) خلافت امویہ کا دوسرا خلیفہ تھا۔ اس کی ولادت 23 جولائی 645ء کو عثمان بن عفان کی خلافت میں ہوئی۔ اس کی ماں کا نام میسون تھا اور وہ شام کی کلبیہ قبیلہ کی مسیحی خاتون تھی، اس نے معاویہ کے بعد 680ء سے 683ء تک مسند خلافت سنبھالا۔ اس کے دور میں اس کے حکم سےسانحۂ کربلا میں نواسہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، حسین ابن علی شہید کیے گئے۔ حسین بن علی کا سر یزید کے دربار میں لے جایا گیا۔ جبکہ روایات کے مطابق، اسی نے ان کی شہادت کا حکم دیا اور عبید اللہ ابن زیاد کو خصوصی طور پر یہ ذمہ داری دی اور جب حسین بن علی کا سر اس کے سامنے آیا تو اس نے خوشی کا اظہار کیا اور ان کے اہل خانہ کو قید میں رکھا۔اسی دور میں عبد اللہ ابن حنظلہ کی تحریک کو کچلنے کے لیے مدینہ میں قتل عام ہوا اور عبد اللہ ابن زبیر کے خلاف لڑائی میں خانہ کعبہ پر سنگ باری اور آتشی گولہ باری کی گئی۔یزید نے معاویہ کی وفات کے بعد 30 برس کی عمر میں رجب 60ھ میں مسند خلافت سنبھالی۔ اس کے عہد حکومت میں عقبہ بن نافع کے ہاتھوں مغربی اقصی فتح ہوا اور مسلم بن زیاد نے بخارا اور خوارزم فتح کیا، دمشق میں ایک چھوٹی سی نہر تھی جس کی توسیع یزید نے کی تھی اس لیے اس نہر کو اس کی طرف منسوب کر
ابو القاسم محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب (12 ربیع الاول عام الفیل / 8 جون 570ء یا 571ء – 12 ربیع الاول 10ھ / 8 جون 632ء) مسلمانوں کے آخری نبی ہیں۔ اہل اسلام کے نزدیک محمد تمام مذاہب کے پیشواؤں سے کامیاب ترین پیشوا تھے۔ آپ کی کنیت ابوالقاسم تھی۔ مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ کی طرف سے انسانیت کی جانب بھیجے جانے والے انبیا اکرام کے سلسلے کے آخری نبی ہیں جن کو اللہ نے اپنے دین کی درست شکل انسانوں کی جانب آخری بار پہنچانے کیلئے دنیا میں بھیجا۔ انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دنیا کی تمام مذہبی شخصیات میں سب سے کامیاب شخصیت تھے۔ 570ء (بعض روایات میں 571ء) مکہ میں پیدا ہونے والے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر قرآن کی پہلی آیت چالیس برس کی عمرمیں نازل ہوئی۔ ان کا وصال تریسٹھ (63) سال کی عمر میں 632ء میں مدینہ میں ہوا، مکہ اور مدینہ دونوں شہر آج کے سعودی عرب میں حجاز کا حصہ ہیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف کے والد کا انتقال ان کی دنیا میں آمد سے قریبا چھ ماہ قبل ہو گیا تھا اور جب ان کی عمر چھ سال تھی تو ان کی والدہ حضرت آمنہ بھی اس دنیا سے رحلت فرما گئیں۔ عربی زبان میں لفظ "محمد" کے معنی ہیں 'جس کی تعریف کی گئی'۔ یہ لفظ اپنی اصل حمد سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے تعریف کرنا۔ یہ نام ان کے دادا حضرت عبدالمطلب نے رکھا تھا۔ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو رسول، خاتم النبیین، حضور اکرم، رحمت للعالمین اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے القابات سے بھی پکارا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی آپ کے بہت نام و القاب ہیں۔ نبوت کے اظہار سے قبل حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے چچا حضرت ابوطالب کے ساتھ تجارت میں ہاتھ بٹانا شروع کر دیا۔ اپنی سچائی، دیانت داری اور شفاف کردار کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عرب قبائل میں صادق اور امین کے القاب سے پہچانے جانے لگے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنا کثیر وقت مکہ سے باہر واقع ایک غار میں جا کر عبادت میں صرف کرتے تھے اس غار کو غار حرا کہا جاتا ہے۔ یہاں پر 610ء میں ایک روز حضرت جبرائیل علیہ السلام (فرشتہ) ظاہر ہوئے اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اللہ کا پیغام دیا۔ جبرائیل علیہ السلام نے اللہ کی جانب سے جو پہلا پیغام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پہنچایا وہ یہ ہے۔
ابو عبد اللہ عثمان بن عفان اموی قرشی (47 ق ھ - 35 ھ / 576ء – 656ء) اسلام کے تیسرے خلیفہ، داماد رسول اور جامع قرآن تھے۔ عثمان غنی سابقین اسلام میں شامل اور عشرہ مبشرہ میں سے تھے، ان کی کنیت ذو النورین ہے کیونکہ انھوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دو صاحبزادیوں سے نکاح کیا تھا، پہلے رقیہ بنت محمد سے کیا، پھر ان کی وفات کے بعد ام کلثوم بنت محمد سے نکاح کیا۔ عثمان غنی پہلے صحابی ہیں جنھوں نے سرزمین حبشہ کی ہجرت کی، بعد میں دیگر صحابہ بھی آپ کے پیچھے حبشہ پہنچے۔ بعد ازاں دوسری ہجرت مدینہ منورہ کی جانب کی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عثمان غنی پر مکمل اعتماد اور ان کی فطری حیاء و شرافت اور جو انھوں نے اپنے مال کے ذریعہ اہل ایمان کی نصرت کی تھی، اس کی انتہائی قدر کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیگر صحابہ کے ساتھ ان کو بھی جنت اور شہادت کی موت کی خوش خبری دی۔
انا لله و انا الیہ راجعون (عربی: إِنَّا لِلَّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ) قرآن میں سورۃ البقرہ کی آیت 156 کے ایک حصے سے لیا گیا ہے۔، کا مطلب ہے "ہم خدا کے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔" جب مسلمان کسی کی موت یا مصیبت کا سنتے ہیں تو یہ آیت پڑھتے ہیں۔ وہ اس آیت کو تعزیت کہنے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں اور مصیبت کے وقت صبر کا مطالبہ کرتے ہیں۔
ابوبکر صدیق عبد اللہ بن ابو قحافہ عثمان تیمی قرشی (573ء—634ء) اسلام کے پہلے خلیفہ راشد، عشرہ مبشرہ میں شامل، خاتم النبین محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اولین جانشین، صحابی، خسر اور ہجرت مدینہ کے وقت رفیق سفر تھے۔ اہل سنت و الجماعت کے یہاں ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ انبیا اور رسولوں کے بعد انسانوں میں سب سے بہتر، صحابہ میں ایمان و زہد کے لحاظ سے سب سے برتر اور ام المومنین عائشہ بنت ابوبکر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے محبوب تر تھے۔ عموماً ان کے نام کے ساتھ صدیق کا لقب لگایا جاتا ہے جسے حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی تصدیق و تائید کی بنا پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دیا تھا۔
واقعہ کربلا، جس میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نواسے حسین ابن علی اور ان کے رشتہ دار اور غلاموں کو 10 محرم الحرام، 61ھ میں عراق کے شہر کربلا میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ بے دردی سے شہید کیا گيا۔ اس واقعہ نے آنے والی صدیوں میں اسلامی تاریخ پر دور رس اثرات مرتب کیے؛ جو ہنوز جاری ہیں۔ واقعہ کربلا کے پس منظر، عوامل اور تفصیلات میں تاریخی بنیادوں پر اہل سنت و جماعت اور اہل تشیع کے درمیان میں کئی باتوں میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ لیکن اس بات پر سبھی متفق ہیں کہ یہ واقعہ 10 محرم 61ھ کو کربلا میں پیش آیا اور اس میں حسین ابن علی اور ان کے اصحاب کو قتل کیا گیا۔ اس واقعہ میں تاریخی اعداد و شمار درج ذیل ہیں۔
حسن بن علی بن ابی طالب (621ء–670ء) علی بن ابی طالب اور محمد کی دختر فاطمہ زہرا کے سب سے بڑے بیٹے اور حسین بن علی کے بڑے بھائی تھے۔ اہل اسلام ان کا پیغمبر اسلام کے پوتے کے طور پر احترام کرتے ہیں۔ سنی مسلمان ان کو پانچواں خلیفہ راشد جبکہ شیعہ مسلمان حسن کو دوسرا امام مانتے ہیں۔ ان کے والد کی وفات کے بعد انہیں خلافت کے لیے منتخب کیا گیا لیکن چھ یا سات ماہ کے بعد معاویہ کے سپرد کر دی اور معاویہ کے دور میں خلافت ملوکیت میں بدل گئی اور وہ دولت امویہ کے بانی قرار پائے، یوں پہلے فتنے کا خاتمہ ہوا۔ حسن غریبوں کو عطیہ کرنے، غریبوں اور غلاموں پر اپنی شفقت اور اپنے علم، تاب آوری اور بہادری کے لیے جانے جاتے تھے۔ اپنی باقی زندگی حسن نے مدینہ منورہ میں ہی گزاری، یہاں تک کہ 48 سال کی عمر میں ان کا انتقال ہو گیا اور مدینہ منورہ کے جنت البقیع قبرستان میں سپرد خاک ہو گئے۔ عموماً ان کی زوجہ جعدہ بنت اشعث پر انہیں زہر دینے کا الزام لگایا جاتا ہے۔
پاکستان (رسمی نام: اسلامی جمہوریۂ پاکستان) جنوبی ایشیا کے شمال مغرب وسطی ایشیا اور مغربی ایشیا کے لیے دفاعی طور پر اہم حصے میں واقع ایک خود مختار اسلامی ملک ہے۔ یہ دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے، جس کی آبادی تقریباً 242 ملین ہے اور دنیا کی دوسری سب سے بڑی مسلم آبادی والا ملک ہے۔ 881,913 مربع کلومیٹر (340,509 مربع میل) کے ساتھ یہ دنیا کا تینتیسواں بڑے رقبے والا ملک ہے۔ اس کے جنوب میں 1046 کلومیٹر (650 میل) کی ساحلی پٹی ہے جو بحیرہ عرب سے ملتی ہے۔پاکستان کے مشرق ميں بھارت، شمال مشرق ميں چین اور مغرب ميں افغانستان اور ايران واقع ہيں۔ پاکستان کو شمال میں ایک تنگ واخان راہداری تاجکستان سے جدا کرتی ہے جبکہ اس ملک کی سمندری سرحدی حدود اومان کے سمندری حدود سے بھی ملتی ہیں۔ موجودہ پاکستان کے علاقے قدیم ترین دنیا میں وہ علاقے تھے جن میں موہنجوداڑو اور انڈس سولائیزیشن مہر گڑھ ٹیکسلا پراچین سنسکرت دور اور دیگر زیرتحقیق آرک لوجیکل سائٹسٹ جیسے قندھارا تہذیب و تمدن تھی۔ اس علاقے پر پراچین راجپوت ایرانی یونانیعرب، بدھ مت، سکھ، مغل، ہن سفید اور ترک حملہ آوروں کی حکومت بھی رہی ہے۔ یہ علاقہ مختلف سلطنتوں جیسے چندر گپت موریا، ہخامنشی سلطنت عربوں کی خلافت امویہ، مغل سلطنت، مغلیہ سلطنت، درانی سلطنت، سکھ سلطنت اور برطانوی راج کا اہم حصہ رہا ہے۔ اس کے بعد محمد علی جناح کی قیادت میں تحریک پاکستان کامیاب ہوئی اور 14 اگست 1947ء کو ہندوستان کے مشرق اور مغرب میں دو حصوں میں ایک آزاد اور خودمختار اسلامی ریاست قائم ہوئی۔ پاکستان نے اپنا پہلا آئین 1956ء میں بنایا جو 1958 میں منسوخ کردیا گیا اس کے بعد 1962 میں پاکستان کا دوسرا آئین پیش کیا گیا جو 1969 میں جزل یحیی خان نے منسوح کر دیا.
شہدائے کربلا وہ مظلوم افراد ہیں جو واقعہ کربلا میں ایک غیر منصفانہ جنگ میں شہید کر دیئے گئے۔ جن کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ اس وقت کے مسلم دنیا کے حاکم یزید بن معاویہ کو ایک خلیفہ کے طور پر تسلیم نہیں کرتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یزید کے کردار میں بہت سی خرابیاں پائی جاتی تھیں۔ اور ان لوگوں کا خیال تھا کہ جس شخص کی شخصیت میں ایسی خرابیاں یا برائیاں پائی جائیں وہ امت مسلمہ کا خلیفہ بننے کا اہل نہیں ہے۔ شہدائے کربلا کے سالار نواسہ رسول حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ تھے۔
فاطمہ بنت محمد بن عبد اللہ جن کا معروف نام فاطمۃ الزہراء ہے حضرت محمد بن عبد اللہ اور خدیجہ بنت خویلد کی بیٹی تھیں۔ تمام مسلمانوں کے نزدیک آپ ایک برگزیدہ ہستی ہیں۔۔ آپ کی ولادت 20 جمادی الثانی بروز جمعہ بعثت کے پانچویں سال میں مکہ میں ہوئی۔ آپ کی شادی علی ابن ابی طالب سے ہوئی جن سے آپ کے دو بیٹے حسن اور حسین اور دو بیٹیاں زینب اور ام کلثوم پیدا ہوئیں۔ آپ کی وفات اپنے والد حضرت محمد بن عبد اللہ کی وفات کے کچھ ماہ بعد 632ء میں ہوئی۔ آپ کے بہت سے القابات مشہور ہیں۔
امیر معاویہ یا معاویہ اول (عربی: معاوية بن أبي سفيان، 597ء، 603ء یا 605ء – اپریل 680ء) خلافت امویہ کے بانی تھے اور 661ء سے اپنی وفات 680ء تک خلیفہ رہے۔ وہ نبی محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے 30 سال بعد خلیفہ بن گئے، ان سے قبل خلفائے راشدین اور حسن ابن علی خلیفہ رہے۔ اگرچہ ان کے دور میں انفاص و تقوی کو دور خلفائے راشدین کے مقابلے میں کمتر سمجھا جاتا ہے، لیکن نمو پزیر اسلام میں امیر معاویہ پہلے مسلمان خلیفہ ہیں جن کا نام سرکاری دستاویزات، سکوں اور کتبوں پر کندہ ہوا۔ امیر معاویہ کاتبین وحی میں سے تھے۔
احمد خان متقی بن محمد متقی (17 اکتوبر 1817ء – 27 مارچ 1898ء) المعروف سر سید، سر سید احمد خان انیسویں صدی کے ایک ہندوستانی مسلم نظریۂ عملیت کے حامل ، مصلح اور فلسفی تھے۔ ان کو برصغیر میں مسلم قوم پرستی کا سرخیل مانا جاتا ہے اور دو قومی نظریہ کا خالق تصور کیا جاتا ہے، جو آگے چل کر تحریک پاکستان کی بنیاد بنا۔
قرآن کریم، قرآن مجید یا قرآن شریف (عربی: القرآن الكريم) دین اسلام کی مقدس و مرکزی کتاب ہے جس کے متعلق ہم اسلام کے پیروکاروں کا اعتقاد ہے کہ یہ کلام الہی ہے اور اسی بنا پر یہ انتہائی محترم و قابل عظمت کتاب ہے۔ اسے ہمارے پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی کے ذریعے اتارا گیا۔ یہ وحی اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتے حضرت جبرائیل علیہ السلام لاتے تھے جیسے جیسے قرآن مجید کی آیات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوتیں آپ صلی علیہ وآلہ وسلم اسے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو سناتے اور ان آیات کے مطالب و معانی سمجھا دیتے۔ کچھ صحابہ کرام تو ان آیات کو وہیں یاد کر لیتے اور کچھ لکھ کر محفوظ کر لیتے۔ ہم مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن ہر قسم کی تاریف بیان کرتا ہے پاک ہے محفوظ ہے، قرآن میں آج تک کوئی کمی بیشی نہیں ہو سکی اور اسے دنیا کی واحد محفوظ افضل کتاب ہونے کی حیثیت حاصل ہے، جس کا حقیقی مفہوم تبدیل نہیں ہو سکا اور تمام دنیا میں کروڑوں کی تعداد میں چھپنے کے باوجود اس کا متن ایک جیسا ہے اور اس کی تلاوت عبادت ہے۔ اور صحف ابراہیم، زبور اور تورات و انجیل کے بعد آسمانی کتابوں میں یہ سب سے آخری اور افضل کتاب ہے اور سابقہ آسمانی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اب اس کے بعد کوئی آسمانی کتاب نازل نہیں ہوگی۔ قرآن کی فصاحت و بلاغت کے پیش نظر اسے لغوی و مذہبی لحاظ سے تمام عربی کتابوں میں اعلیٰ ترین مقام حاصل ہے۔ نیز عربی زبان و ادب اور اس کے نحوی و صرفی قواعد کی وحدت و ارتقا میں بھی قرآن کا خاصا اہم کردار دکھائی دیتا ہے۔ چنانچہ قرآن کے وضع کردہ عربی زبان کے قواعد بلند پایہ عرب محققین اور علمائے لغت مثلاً سیبویہ، ابو الاسود الدؤلی اور خلیل بن احمد فراہیدی وغیرہ کے یہاں بنیادی ماخذ سمجھے گئے ہیں۔
جنگ صفین 37ھ جولائی 657ء میں خلیفہ چہارم علی بن ابی طالب اور شام کے گورنر معاویہ بن ابی سفیان کے درمیان میں ہوئی۔ یہ جنگ دریائے فرات کے کنارے اس علاقے میں ہوئی جو اب ملک شام میں شامل ہے اور الرقہ (اردو میں رقہ) کہلاتا ہے۔ اس جنگ میں شامی افوج کے 45000 اور خلیفہ کی افواج کے 25000 افراد مارے گئے۔ جن میں سے بیشتر اصحاب رسول تھے۔ اس جنگ کی پیشینگوئی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کی تھی اور عمار بن یاسر کو بتایا تھا کہ اے عمار تجھ کو ایک باغی گروہ شہید کرے گا۔ ابوموسیٰ اور ابومسعود دونوں عمار بن یاسر کے پاس گئے جب انہیں علی نے اہل کوفہ کے پاس اس لیے بھیجا تھا کہ لوگوں کو لڑنے کے لیے تیار کریں۔ ابوموسیٰ اور ابومسعود دونوں عمار سے کہنے لگے جب سے تم مسلمانوں ہوئے ہو ہم نے کوئی بات اس سے زیادہ بری نہیں دیکھی جو تم اس کام میں جلدی کر رہے ہو۔ عمار نے جواب دیا میں نے بھی جب سے تم دونوں مسلمان ہوئے ہو تمہاری کوئی بات اس سے بری نہیں دیکھی جو تم اس کام میں دیر کر رہے ہو۔ ابومسعود نے عمار اور ابوموسیٰ دونوں کو ایک ایک کپڑے کا نیا جوڑا پہنایا پھر تینوں مل کر مسجد میں تشریف لے گئے۔ ابومریم عبد اللہ بن زیاد الاسدی نے بیان کیا کہ جب طلحہ، زبیر اور عائشہ بصرہ کی طرف روانہ ہوئے تو علی نے عمار بن یاسر اور حسن بن علی کو بھیجا۔ یہ دونوں بزرگ ہمارے پاس کوفہ آئے اور منبر پر چڑھے۔ حسن بن علی منبر کے اوپر سب سے اونچی جگہ تھے اور عمار بن یاسر ان سے نیچے تھے۔ پھر ہم ان کے پاس جمع ہو گئے اور میں نے عمار کو یہ کہتے سنا کہ عائشہ بصرہ گئی ہیں اور اللہ کی قسم وہ دنیا و آخرت میں تمہارے نبی کریم ﷺ کی پاک بیوی ہیں لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ نے تمہیں آزمایا ہے تاکہ جان لے کہ تم اس اللہ کی اطاعت کرتے ہو یا عائشہ کی۔خزیمہ بن ثابت انصاری بھی اسی جنگ میں شہید ہوئے۔ یہ دونوں اصحاب علی کی فوج میں شامل تھے۔ اسی جنگ میں اویس قرنی بھی علی کرم اللہ وجہہ کی حمایت میں لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔ علی کی فوج کے امیر مالک اشتر اور دوسری طرف عمرو ابن العاص تھے۔
اللہ کے ذاتی نام 'اللہ' کے علاوہ اللہ کے ننانوے صفاتی نام مشہور ہیں۔ انہیں کہا جاتا ہے۔ ان میں سے بیشتر قرآن میں موجود ہیں اگرچہ قرآن میں ننانوے کی تعداد مذکور نہیں مگر یہ ارشاد ہے کہ اللہ کو اچھے اچھے ناموں سے پکارا جائے۔ روایات میں بکثرت نیچے دیے گئے ننانوے صفاتی نام ملتے ہیں جن کے ساتھ ان کا اردو ترجمہ بھی درج کیا جا رہا ہے۔
ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال (ولادت: 9 نومبر 1877ء – وفات: 21 اپریل 1938ء) بیسویں صدی کے ایک معروف شاعر، مصنف، قانون دان، سیاستدان اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھے۔ اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے اور یہی ان کی بنیادی وجہ شہرت ہے۔ شاعری میں بنیادی رجحان تصوف اور احیائے امت اسلام کی طرف تھا۔ علامہ اقبال کو دور جدید کا صوفی سمجھا جاتا ہے۔ بحیثیت سیاست دان ان کا سب سے نمایاں کارنامہ نظریۂ پاکستان کی تشکیل ہے، جو انہوں نے 1930ء میں الہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پیش کیا تھا۔ یہی نظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا۔ اسی وجہ سے علامہ اقبال کو پاکستان کا نظریاتی باپ سمجھا جاتا ہے۔ گو کہ انہوں نے اس نئے ملک کے قیام کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن انہیں پاکستان کے قومی شاعر کی حیثیت حاصل ہے۔
موسیٰ علیہ السلام اللہ کے برگزیدہ پیغمبروں میں سے ایک ہیں۔ آپ کے بھائی ہارون علیہ السلام بھی اللہ کے برگزیدہ نبیوں میں سے ایک ہیں۔یہ 1520 قبلِ مسیح کی بات ہے۔ مِصر پر فرعون بادشاہ’’مرنفتاح ثانی‘‘ کی حکومت تھی۔بعض نے اُس کا نام’’ منفتاح‘‘ بھی لکھا ہے اور وہ والد، رعمسیس کے بڑھاپے کی وجہ سے عملاً حکم ران بنا ہوا تھا۔ خدائی کا دعوے دار یہ بادشاہ بڑا ظالم و جابر تھا۔ اُس نے’’ بنی اسرائیل‘‘ کو اپنا غلام بنا رکھا تھا، حالاں کہ وہ حضرت یوسف کے زمانے سے وہاں رہائش پزیر تھے۔ حضرت یوسفؑ نے اپنے والد، حضرت یعقوبؑ اور اپنے بھائیوں کے لیے ایک قطعۂ زمین اُس وقت کے فرعون بادشاہ ’’ریان بن ولید‘‘ سے حاصل کیا تھا۔ حضرت یعقوبؑ کی یہی نسل’’بنی اسرائیل‘‘ کہلائی، جو مِصر میں خُوب پَھلی پُھولی۔ یہ لوگ حضرت یعقوبؑ کے دین کے پیروکار تھے، چناں چہ اُس وقت اللہ کے نزدیک یہ سب سے بہتر جماعت تھی۔ اُنہوں نے فرعون کو سجدہ کرنے اور اُسے اپنا ربّ ماننے سے انکار کردیا تھا۔ اسی وجہ سے بادشاہ اور اُس کے حواری ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھاتے اور اُن سے گھٹیا کام کرواتے۔ یاد رہے، فرعون کسی خاص شخص کا نام نہیں، بلکہ مِصر کے بادشاہوں کا لقب تھا۔ تاریخی حقائق کے مطابق، 31فراعنہ خاندانوں نے مِصر پر یکے بعد دیگرے حکومت کی۔ سب سے آخری خاندان نے 332قبلِ مسیح میں سکندرِ اعظم کے ہاتھوں شکست کھائی۔
اردو زبان میں سینتیس حروفِ تہجی اور سینتالیس آوازیں ہیں جن میں سے بیشتر عربی سے لیے گئے ہیں اور دیگر انہی کی مختلف شکلیں ہیں۔ کچھ حروف کئی طریقوں سے استعمال ہوتے ہیں اور کچھ مخلوط حروف بھی استعمال ہوتے ہیں جو دو حروف سے مل کر بنتے ہیں۔ بعض لوگ 'ء' کو الگ حرف نہیں مانتے مگر پرانی اردو کتب اور لغات میں اسے الگ حرف کے طور پر لکھا جاتا ہے۔ مختلف الفاظ میں یہ الگ حرف کے طور پر ہی استعمال ہوتا ہے مثلاً 'دائرہ'۔ یہ بات مدِنظر رکھنا ضروری ہے کہ اردو تختی اور اردو حروف دو مختلف چیزیں ہیں کیونکہ اردو تختی میں اردو حروفِ تہجی کی کئی اشکال ہو سکتی ہیں جن کو الگ حرف کا درجہ نہیں دیا جا سکتا بلکہ وہ ایک ہی حرف کی مختلف شکلیں ہیں۔ مثلاً نون غنہ نون کی شکل ہے اور 'ھ' اور 'ہ' ایک ہی حرف کی مختلف اشکال ہیں۔ ایک اور مثال الف ممدودہ (آ) اور الف مقصورہ (ا) کی ہے جو اردو تختی میں الگ ہیں مگر اردو کا ایک ہی حرف شمار ہوتے ہیں۔
علی بن حسین (پیدائش: 4 جنوری 656ء — وفات: 20 اکتوبر 713ء) جو زین العابدین (عابدوں کی زینت) اور امام الساجدین (سجدہ کرنے والوں کا امام) کے نام سے مشہور ہیں، اپنے والد حسین ابن علی، تایا حسن ابن علی اور دادا علی بن ابی طالب کے بعد اثنا عشری میں چوتھے امام اور اسماعیلی شیعیت میں تیسرے امام مانے جاتے ہیں۔ علی بن حسین سانحۂ کربلا میں موجود تھے، اس وقت ان کی عمر 23 یا 25 سال تھی، لیکن بیماری کی وجہ سے لڑائی میں شریک نہ ہو سکے۔ یہ اس سانحے میں بچ جانے والے واحد مرد تھے۔ ان کو دمشق میں یزید کے سامنے لے جایا گیا، کچھ دن بعد ان کو دیگر خواتین کے ساتھ واپس مدینہ جانے دیا گیا، جہاں انھوں نے چند اصحاب کے ساتھ خاموشی سے زندگی بسر کی۔ ان کی زندگی اور بیانات مکمل طور پر طہارت اور مذہبی تعلیمات کے لیے وقف تھے، جو زیادہ تر دعاؤں اور التجاؤں کی شکل میں ہوتے۔ ان کی مشہور مناجات صحیفہ سجادیہ کے نام سے معروف ہے۔علی بن حسین بن علی بن ابیطالب (38-95ھ) جو امام سجاد اور زین العابدین کے نام سے مشہور ہیں، اہل تشیع کے چوتھے اماماسماعیلی شیعیت کے تیسرے امام اور امام حسین علیہ السلام کے فرزند ہیں۔ آپ 35 سال امامت کے عہدے پر فائز رہے۔ امام سجادؑ واقعہ کربلا میں حاضر تھے لیکن بیماری کی وجہ سے جنگ میں حصہ نہیں لیا۔ امام حسینؑ کی شہادت کے بعد عمر بن سعد کے سپاہیوں نے آپ کو اسیران کربلا کے ساتھ کوفہ اور شام لے گیا۔ کوفہ اور شام میں آپ کے دئے گئے خطبات کے باعث لوگ اہل بیت کے مقام و منزلت سے زیادہ آگاہ ہوئے۔
سیدہ عائشہ بنت ابی بکر (رضی اللہ عنہا) (پیدائش: 614ء– وفات: 13 جولائی 678ء) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ ہیں۔ آپ کو اُم المومنین کے خطاب سے یاد کیا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد عہد خلفائے راشدین میں آپ کی شخصیت بہت نمایاں نظر آتی ہے۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد 47 سال بقید حیات رہیں اور یہ تمام وہ عرصہ ہے جس میں ابتدائی مسلم فتوحات ہوئیں، مختلف ممالک مملکت اسلامیہ میں داخل ہوئے۔ علم الحدیث میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایات کے بعد سب سے زیادہ روایاتِ حدیث کا ذخیرہ آپ سے ہی روایت کیا گیا ہے۔ آپ عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور عہد خلفائے راشدین کی عینی شاہد بھی تھیں اور مزید برآں آپ نے خلافت امویہ کے ابتدائی 17 سال بھی ملاحظہ فرمائے۔ آپ کا انتقال مدینہ منورہ میں سنہ 678 ء میں ہوا۔ آپ کے مناقب و فضائل کثیر ہیں جس سے آپ کی عظمت و شان جلالت مسلم خواتین پر نمایاں ہے۔جنگ جمل کے حوالے سے یہ بات معلوم ہونا بھی مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ کچھ احادیث اور تاریخی کتابوں کے واقعات میں راویوں پر علما اسلام کی طرف سے جرح بھی کی گئی ہے اور بہت سے راویوں کے حالات معلوم نہیں ہیں ۔مسلمان امت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اہل بیت اطھار کے بارے میں صحیح عقائد قرآن وسنت اور مستند و صحیح احادیث نبوی سے لیتے
مسلم ابن عقیل (شہادت: 9 ذوالحجۃ 60ھ) علی ابن ابی طالب کے بھائی عقیل ابن ابوطالب کے بیٹے تھے یعنی حسین ابن علی کے چچا زاد بھائی تھے۔ ان کا لقب سفیر حسین اور غریبِ کوفہ (کوفہ کے مسافر) تھا۔ واقعۂ کربلا سے کچھ عرصہ پہلے جب کوفہ کے لوگوں نے حسین ابن علی کو خطوط بھیج کر کوفہ آنے کی دعوت دی تو انہوں نے مسلم ابن عقیل کو صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے کوفہ روانہ کیا۔ وہاں پہنچ کر انہیں صورت حال مناسب لگی اور انہوں نے امام حسین کو خط بھیج دیا کہ کوفہ آنے میں کوئی قباحت نہیں۔ مگر بعد میں یزید بن معاویہ نے عبید اللہ ابن زیاد کو کوفہ کا حکمران بنا کر بھیجا جس نے مسلم بن عقیل اور ان کے دو کم سن فرزندوں کو شہید کروا دیا۔
محمد علی جناح پیدائشی نام، محمد علی جناح بھائی، 25 دسمبر 1876ء – 11 ستمبر 1948ء) کے نامور وکیل، سیاست دان اور بانی پاکستان تھے۔ محمد علی جناح 1913ء سے لے کر پاکستان کی آزادی 14 اگست 1947ء تک آل انڈیا مسلم لیگ کے سربراہ رہے، پھر قیام پاکستان کے بعد اپنی وفات تک، وہ ملک کے پہلے گورنر جنرل رہے۔ سرکاری طور پر پاکستان میں آپ کو قائدِ اعظم یعنی سب سے عظیم رہبر اور بابائے قوم یعنی قوم کا باپ بھی کہا جاتا ہے۔ جناح کا یومِ پیدائش پاکستان میں قومی تعطیل کے طور پر منایا جاتا ہے۔کراچی کے پیدائشی اور لنکن ان سے بیرسٹری کی تربیت حاصل کرنے والے جناح، بیسویں صدی کے ابتدائی دو عشروں میں آل انڈیا کانگریس کے اہم رہنما کے طور پر ابھرے۔ اپنی سیاست کے ابتدائی ادوار میں انہوں نے ہندو مسلم اتحاد کے لیے کام کیا۔ 1916ء میں آل انڈیا مسلم لیگ اور آل انڈیا کانگریس کے مابین ہونے والے میثاق لکھنؤ کو مرتب کرنے میں بھی انہوں نے اہم کردار ادا کیا۔ جناح آل انڈیا ہوم رول لیگ کے اہم رہنماوں میں سے تھے، انہوں نے چودہ نکات بھی پیش کیے، جن کا مقصد ہندوستان کے مسلمانوں کے سیاسی حقوق کا تحفظ کرنا تھا۔ بہر کیف جناح 1920ء میں آل انڈیا کانگریس سے مستعفی ہو گئے، جس کی وجہ آل انڈیا کانگریس کے موہن داس گاندھی کی قیادت میں ستیاگرا کی مہم چلانے کا فیصلہ تھا۔1940ء تک جناح کو یہ یقین ہو چلا تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک علاحدہ وطن کی جدوجہد کرنی چاہیے۔ اسی سال، مسلم لیگ نے جناح کی قیادت میں قرارداد پاکستان منظور کی جس کا مقصد نئی مملکت کی قیام کا مطالبہ تھا۔دوسری جنگ عظیم کے دوران، آل انڈیا مسلم لیگ نے مضبوطی پکڑلی جبکہ ان ادوار میں کانگریس کے کئی رہنما قید کاٹ رہے تھے اور جنگ کے ختم ہونے کے مختصر عرصے میں ہی انتخابات کا انعقاد ہوا، جس میں جناح کی جماعت نے مسلمانوں کے لیے مختص نشستوں میں سے بڑی تعداد جیت لی۔ اس کے بعد آل انڈیا کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ متحدہ ہندوستان میں اختیارات کے توازن کے لیے کسی صیغے پر متفق نا ہو سکے نتیجتاً تمام جماعتیں اس امر پر متفق ہوگئیں کہ ہندوستان کے دو حصے کیے جائیں جن میں ایک مسلم اکثریتی علاقوں میں پاکستان جبکہ باقی ماندہ علاقوں میں بھارت کا قیام ہو۔پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کے طور پر جناح نے اپنی حکومتی پالیسیوں کے قیام کے لیے کام کیا نیز انہوں نے ان لاکھوں لوگوں کے بہبود اور آباد کاری کے لیے بھی کام کیا جو تقسیم ہند کے بعد پاکستان کی جانب ہجرت کر چلے تھے، انہوں نے ان مہاجر کیمپوں کی ذاتی طور پر دیکھ بھال کی۔ جناح 71 سال کے عمر میں انتقال کر گئے جبکہ ان کے نوزائیدہ ملک کو سلطنت برطانیہ سے آزاد ہوئے محض ایک سال کا عرصہ ہوا تھا۔ ان کی سوانح عمری لکھنے والے لکھاری،اسٹینلی وولپرٹ لکھتے ہیں کہ، وہ (یعنی جناح) پاکستان کے عظیم ترین رہنما رہیں گے۔
ابراہیم علیہ السلام وہ پہلے پیغمبر تھے جن کو اللہ نے مُسلمان نبی پیغمبر ابو الانبیاء، خلیل اللہ امام الناس اور حنیف کہہ کر پُکارا۔اللہ تعالی نے اپنے اس دوست برگزیدہ اور پیارے نبی کو قرآن مجید میں امتہ (النحل : 120) امام الناس (البقرہ: 124) حنیف اور مسلم (آل عمران: 67) کے ناموں سے بار بار بار کیا ہے۔ اکثر انبیائے کرام انہی کی اولاد سے ہیں۔ابراہیم علیہ السلام کے نام کی وجہ تسمیہ کے بارے میں بائبل کا بیان ہے کہ خدا تعالی ان سے مخاطب ہو کر کہتا ہے۔ دیکھ میرا عہد تیرے ساتھ ہے اور تو بہت قوموں کا باپ ہو گا۔ اور تیرا نام ابرام نہیں بلکہ ابراہام ہو گا۔ کیونکہ میں نے تجھے قوموں کا باپ بنایا ہے۔ (پیدائش 170:5)اکثر ماہرین کے نزدیک ابراہام یا ابراہیم ؑ بھی لفظ ہے۔ ہو سکتا ہے کہ پہلے آپ کا نام ابراہم ہو اور پھر ابراہام یا ابو رہام ہو گیا ہو۔مُسلمان اُن کو خلیل اللہ (اللہ کا دوست) کہتے ہیں۔ ابراہیم کی نسل سے کئی پیغمبر پیدا ہوئے، جن کا تذکرہ عہدنامہ قدیم میں ہے۔ اسلام کی کتاب قرآن مجید میں بھی بہت سارے ایسے انبیا کا ذکر ہے جو ابراہیم کی نسل میں سے تھے۔ اسلام کے آخری نبی مُحمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی ابراہیم کی نسل میں سے ہیں۔شرک، ستارہ پرستی اور بت سازی کے خلاف اپنی قوم اور اوروں کے ساتھ ان کا مجادلہ و محاجہ بڑے زور سے پیش کیا گیا ہے۔ ابراہیم کا بچپن میں ہی رشد عطا کیا گیا اور قلب سلیم بھی عنایت فرمایا گیا۔ تکوینی عجائبات اور ملکوت السمٰوت والارض ان کے سامنے تھے۔ انہیں کے مشاہدے سے اُن کو یقین کامل حاصل ہوا۔ بت پرستی کے خلاف ابراہیم کے جہاد کا ذکر بھی قران کریم میں کئی بار آیا ہے۔قرآن حکیم میں حضرت ابراہیم ؑ اور آذر کے اختلاف عقائد کو جس طرح نمایاں کیا گیا ہے اور جس طرح آپ اپنی قوم کے شرک سے متنفر اور متصادم ہوئے۔ اس سے ہم آپ کی عظمت و جلالت کی حقیقت کو بھی پاسکتے ہیں۔ اور اپنے لیے شمع ہدایت بھی روشن کر سکتے ہیں۔ اس وجہ سے مسلمانوں کو ملت براہیمی ہونے پر فخر ہے۔ ان کے بارے میں یہ توکہیں وضاحت نہیں ہوئی کہ کیا وحی ان پر نازل ہوئی تھی یا ان کی بعثت محض روحانی تھی؟ البتہ قرآن مجید میں ایک جگہ اس امر کی تصدیق ہوئی ہے کہ اللہ تعالی آپ سے ہمکلام تھا۔ اہل تاریخ کے نزدیک متعدد صحیفے تھے جو ابراہیم پر نازل ہوئے۔ ایک صحیفہ جو ان کی طرف سے منسوب ہے یونانی سے انگریزی میں ترجمہ ہو کر شائع ہو چکا ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ کے دین کے بارے میں قرآن مجید میں کئی جگہ پر ارشار ہوتا ہے کہ آپ موحد مسلم اورراست رو تھے۔ ارشاد ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے: ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ”پھر ہم نے تیری طرف (حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی طرف) وحی کی کہ ابراہیم ؑ راست رو (مسلم) کے دین پر چل اور وہ مشرکوں میں سے نہیں تھا “ اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے: يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تُحَآجُّونَ فِي إِبْرَاهِيمَ وَمَا أُنزِلَتِ التَّورَاةُ وَالإنجِيلُ إِلاَّ مِن بَعْدِهِ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ هَاأَنتُمْ هَؤُلاء حَاجَجْتُمْ فِيمَا لَكُم بِهِ عِلمٌ فَلِمَ تُحَآجُّونَ فِيمَا لَيْسَ لَكُم بِهِ عِلْمٌ وَاللّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ مَا كَانَ إِبْرَاهِيمُ يَهُودِيًّا وَلاَ نَصْرَانِيًّا وَلَكِن كَانَ حَنِيفًا مُّسْلِمًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْرَاهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ وَهَـذَا النَّبِيُّ وَالَّذِينَ آمَنُواْ وَاللّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ ”اے اہل کتاب! تم ابراہیم ؑ کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو۔ حالانکہ توریت اور انجیل اس کے بعد ہی اتاری گئیں۔ پھر کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے۔ سنو! تم وہ ہو جو اس میں جھگڑ چکے، جس کا تمہیں علم تھا پھر اس میں کیوں جھگڑتے ہو جس کا میں علم نہیں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ ابراہیم ؑ نہ یہودی تھا اور نہ عیسائی، لیکن وہ راست رو اور فرماں بردار (مسلم اور حنیف) تھا اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھا۔ يقينا ابراہیم ؑ کے بہت نزدیک وہ لوگ ہیں جنھوں نے اس کی پیروی کی اور یہ نبی اور وہ جو اس پہ ایمان لائے اورالله مومنوں کا ولی ہے۔ قرآن مجید کی تقریباً بائیس سورتوں میں حضرت ابراہیم ؑ کا ذکر آتا ہے۔ آپ مسلمانوں کے رسول مقبول حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے جد امجد ہیں۔ گویا مسلمان نہ صرف امت محمدیہ سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ امت براہیمیہ سے بھی متعلق ہیں۔ مسلمان حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ حضرت ابراہیم ؑ اور ان کی اولاد پر بھی درود بھیجتے ہیں- Book Name: Sahih Muslim, Hadees # 6138 حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، وَابْنُ فُضَيْلٍ، عَنِ الْمُخْتَارِ، ح وحَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ السَّعْدِيُّ - وَاللَّفْظُ لَهُ -، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، أَخْبَرَنَا الْمُخْتَارُ بْنُ فُلْفُلٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا خَيْرَ الْبَرِيَّةِ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «ذَاكَ إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلَامُ» علی بن مسہر اور ابن فضیل نے مختار بن فلفل سے روایت کی ، انھوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور کہا : يا خَيرَ البرِيّۃِ اے مخلوقات میں سے بہترین انسان !
اہل تشیع یا شیعیت (عربی: شيعة) اسلام کا دوسرا بڑا فرقہ ہے۔ اہل تشیع رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد فقط حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کی امامت و خلافت کے قائل ہیں اور صرف انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا جانشین اور پہلا معصوم امام مانتے ہیں۔ شیعہ یا اہل تشیع نظریہ خلافت کو تسلیم نہیں کرتے۔
جنگ جمل یا جنگ بصرہ 13 جمادی الاولیٰ 36ھ (7 نومبر 656ء) کو بصرہ، عراق میں لڑی گئی۔ جنگ رسول اللہ ﷺ کے چچا زاد بھائی و داماد اور چوتھے خلیفہ راشد علی اور زوجہ رسول عائشہ، طلحہ اور زبیر کے درمیان میں لڑی گئی۔ اس جنگ میں علی کے مخالفین چاہتے تھے کہ عثمان کے خون کا بدلہ لیں جو حال ہی میں بغاوت کے نتیجے میں مخالفین کے ہاتھوں شہید کر دیے گئے تھے۔ ناگزیر جنگ کا اختتام علی کی فتح اور عائشہ کی شکست کے ساتھ ہوا، یوں پہلے فتنہ کا دوسرا باب شروع ہوا۔
بنو امیہ قریش کا ایک ممتاز اور دولت مند قبیلہ تھا۔ اسی خاندان نے خلافت راشدہ کے بعد تقریباً ایک صدی تک ملوکیت سنبھالی اور اسلامی فتوحات کو بام عروج پر پہنچایا۔ جس کی سرحدیں ایک طرف چین اور دوسری طرف اسپین تک پھیلی ہوئی تھیں۔ البتہ مرکزی خلافت کے خاتمے کے باوجود اس خاندان کا ایک شہزادہ عبدالرحمن الداخل اسپین میں حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوا۔ جہاں 1492ء تک اموی سلطنت قائم رہی۔
محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصال کے بعد ابوبکر صدیق، عمر فاروق، عثمان غنی اور علی المرتضی، حسن المجتبی کا عہد خلافت خلافت راشدہ کہلاتا ہے۔ اس عہد کی مجموعی مدت تیس سال ہے جس میں ابوبکر صدیق اولین اور علی آخری خلیفہ ہیں، حسن کی خلافت کے چھ ماہ خلافت علی میں شمار ہوتے ہیں جیسا کہ جمہور اسلاف کی رائے ہے۔ اس عہد کی نمایاں ترین خصوصیت یہ تھی کہ یہ قرآن و سنت کی بنیاد پر قائم نظام حکومت تھا۔
متضاد مخالف؛ اُلٹ؛ اُلٹی طرف؛ دوسری جانب؛ ضِد؛ مُقابل؛ بِالمقابل؛ متقابل؛ متضاد؛ ایک لفظ جو مفہوم کے لحاظ سے دوسرے کی ضد ہو؛ متضاد المعنی۔ ایسے الفاظ جو مماثل وضع میں لیکن ایک دوسرے کے مخالف، برعکس یا یکسر مختلف ہوں۔ اسے 'بائنری' تعلق سے تعبیر کیا جاتا ہے کیوں کہ متضاد جوڑوں میں دو رکن ہوتے ہیں۔ باہم مخالف تعلق کو متضاد کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ایک جوڑے میں مخالف لفظ کو عام طور پر اس سوال کے ذریعہ طے کیا جا سکتا ہے کہ الف کے برعکس کیا ہے؟ جیسے:
یوم آزادی بھارت میں ہر سال 15 اگست کو قومی تعطیل کے طور پر منایا جاتا ہے۔ سنہ 1947 میں اسی تاریخ کو ہندوستان نے ایک طویل جدوجہد کے بعد مملکت متحدہ کے استعمار سے آزادی حاصل کی تھی۔ برطانیہ نے قانون آزادی ہند 1947ء کا بل منظور کر کے قانون سازی کا اختیار مجلس دستور ساز کو سونپ دیا تھا۔ یہ آزادی تحریک آزادی ہند کا نتیجہ تھی جس کے تحت انڈین نیشنل کانگریس کی قیادت میں پورے ہندوستان میں تحریک عدم تشدد اور سول نافرمانی میں عوام نے حصہ لیا اور اس جدوجہد میں ہر کس و ناکس نے اپنا تعاون پیش کیا۔ ہندوستان کی آزادی کے ساتھ ساتھ تقسیم ہند کا واقعہ بھی پیش آیا اور برطانوی ہند کو مذہبی بنیادوں پر دو ڈومینین میں تقسیم کر دیا گیا؛ بھارت ڈومینین اور پاکستان ڈومنین۔ اس تقسیم کے نتیجہ میں دونوں طرف خطرناک مذہبی فسادات ہوئے جن میں تقریباً 1.5 کروڑ لوگ مارے گئے اور بے گھر ہوئے۔ 15 اگست سنہ 1947ی کو بھارت کے وزیر اعظم بھارت جواہر لعل نہرو نے دہلی میں واقع لال قلعہ کے لاہوری دروازہ پر بھارت کا نیا پرچم لہرایا۔ اسی دن ہر سال بھارت کا وزیر اعظم بھارتی پرچم لہراتا ہے اور ملک کو خطاب کرتا ہے۔
گورنر کوفہ، پورا نام عبیداللہ بن زیاد بن ابیہ جسے ابن مرجانہ یا ابن زیاد کے نام سے پہچانا جاتا ہے (28 ہجری - 67 ہجری) بنو امیہ کا ایک مشہور فوجی کمانڈر تھا اور امام حسین بن علی علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کے قتل کے اہم عوامل میں سے ایک تھا۔ وہ مرجانہ نامی لونڈی سے پیدا ہوا۔ بعض نے طنزیہ انداز میں ابن زیاد کو اس کی والدہ سے منسوب کیا ہے اور اسے "ابن مرجانہ" کہا جانے لگا، جس سے مراد عبید اللہ کی پیدائشی ناپاکی ہے۔ مسلم بن عقیل نے کوفے میں امام حسین علیہ السلام کے حق میں زمین ہموار کرنا شروع کی تو یزید بن معاویہ نے ابن زیاد کو بصرے سے تبدیل کرکے کوفے کا گورنر مقرر کر دیا۔ اس نے پہلے مسلم بن عقیل اور ان کے دو کم سن فرزندوں کو شہید کرادیا۔ پھر حضرت حُر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک ہزار سوار دے کر حضرت امام حسین علیہ السلام کا راستہ روکنے کے لیے بھیجا۔ امام حسین علیہ السلام میدان کربلا میں خیمہ زن ہوئے۔ ابن زیاد نے پہلے عمر بن سعد اور پھر شمر بن ذی الجوشن کو فوج دے کر ان کے مقابلے کے لیے بھیجا۔ جس کے نتیجے میں المناک حادثہ کربلا(محرم 61ھ) رونما ہوا۔ امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد پہلے شہداء کے سر کاٹ کر ابن زیاد کو پیش کیے گئے۔ اس نے امام حسین علیہ السلام کے سر کی بے ادبی کی اور تمام سر یزید کو روانہ کر دیے۔ محرم 67ھ میں ابن زیاد کا مختار ثقفی کے جرنیل ابراہیم سے مقابلہ ہوا۔ جس میں ابن زیاد کو شکست ہوئی اور وہ میدان جنگ میں مارا گیا۔ قتل کے بعد اس کے سر کو کوفے میں اسی مقام پر لا کر رکھا گیا جہاں چھ سال قبل اس نے امام حسین علیہ السلام کا سر رکھوایا تھا۔
مروان بن حکم کا تعلق بنو امیہ کی دوسری شاخ بنی عاص سے تھا۔ حکم نے فتح مکہ کے بعد اسلام قبول کیا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اس کو اور اس کے بیٹے مروان کو اس وجہ سے شہر بدر کر دیا تھا کہ وہ اپنی محفلوں میں ان کی نقلیں اتارتے تھے۔ (اس وجہ سے اور مروان کی بد زبانی کی وجہ سے مروان کا لقب طارد بن طارد مشہور ہے۔) حضرت عثمان نے اسے اور مروان کو واپس بلا لیا تھا۔ حضرت عثمان نے حکم کے بیٹے مروان کو اپنا سیکرٹری مقرر کیا تھا۔ حضرت عثمان کو اس پر بے حد اعتماد تھا۔ اس لیے مہر خلافت بھی اس کے سپرد کر رکھی تھی۔ جب آپ کے خلاف فسادیوں نے شورش پیدا کی تو حاکم مصر کے نام منسوب خط وغیرہ کی جعلسازی کی ذمہ داری بھی اس پر عائد کی جاتی ہے۔ شہادت عثمان کے بعد مدینہ چھوڑ کر بھاگ نکلا اور معاویہ بن ابو سفیان کے ساتھ جنگ جمل اور جنگ صفین میں حضرت علی کے خلاف لڑا۔ حضرت طلحہ کی شہادت بھی اس کے ہاتھوں ہوئی جو اسی کی فوج کے سربراہ تھے۔ امیر معاویہ کے بر سر اقتدار آنے کے بعد اسے مدینہ کا گورنر مقرر کیا گیا۔ یزید کی موت کے وقت یہ مدینہ ہی میں مقیم تھا۔ جبیر ابن مطعم سے روایت ہے کہ ہم لوگ پیغمبرِ اسلام کی خدمت میں حاضر تھے کہ ادھر سے حکم (مروان کا باپ) گذرا۔ اسے دیکھ کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ اس کے صلب میں جو بچہ ہے اس سے میری امت عذاب اور پریشانی میں مبتلا ہوگی۔ اس روایت بارے ابن ابی حاتم کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے اس کےمتعلق سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ یہ روایت منکر ہے۔حضرت عبد الرحمان بن عوف سے روایت ہے کہ جب مروان پیدا ہوا تو مدینہ کے اس وقت کے رواج کے مطابق اسے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں لایا گیا۔ انہوں نے اسے دیکھ کر فرمایا یہ ملعون ابن ملعون ہے۔
نوح علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے پیغمبر تھے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کے بعد یہ پہلے نبی ہیں جن کو رسالت “(جس انسان پر اللہ تعالیٰ کی وحی نازل ہوتی ہے وہ ” نبی “ ہے اور جس کو جدید شریعت بھی عطا کی گئی ہو وہ ” رسول “ ہے) سے نوازا گیا۔صحیح مسلم ” باب شفاعت “ میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے ایک طویل روایت ہے اس میں یہ تصریح ہے :
شوال۔ ذی القعدہ 5ھ (مارچ 627ء) میں مشرکینِ مکہ نے مسلمانوں سے جنگ کی ٹھانی۔ ابوسفیان نے قریش اور دیگر قبائل حتیٰ کہ یہودیوں سے بھی لوگوں کو جنگ پر راضی کیا اور اس سلسلے میں کئی معاہدے کیے اور ایک بہت بڑی فوج اکٹھی کر لی مگر مسلمانوں نے سلمان فارسی کے مشورہ سے مدینہ کے ارد گرد ایک خندق کھود لی۔ مشرکینِ مکہ ان کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ خندق کھودنے کی عرب میں یہ پہلی مثال تھی کیونکہ اصل میں یہ ایرانیوں کا طریقہ تھا۔ ایک ماہ کے محاصرے اور اپنے بے شمار افراد کے قتل کے بعد مشرکین مایوس ہو کر واپس چلے گئے۔ اسے غزوہ خندق یا جنگِ احزاب کہا جاتا ہے۔ احزاب کا نام اس لیے دیا جاتا ہے کہ اصل میں یہ کئی قبائل کا مجموعہ تھی۔ جیسے آج کل امریکا، برطانیہ وغیرہ کی اتحادی افواج کہلاتی ہیں۔ اس جنگ کا ذکر قرآن میں سورۃ الاحزاب میں ہے۔
جنگ آزادی ہند 1857ء جو کہ ہندوستانیوں کی انگریز کے خلاف پہلی آزادی کی مسلح جنگ تھی اسے انگریزوں نے "جنگ غدر" کا نام دیا۔ عموماً اس کے دو سبب بیان کیے جاتے ہیں۔ اولاً یہ کہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان کے تمام صوبے اور کئی ریاستیں یکے بعد دیگرے اپنی حکومت میں شامل کر لی تھیں۔ جس کی وجہ سے ہندوستانیوں کے دل میں کمپنی کے متعلق شکوک پیدا ہو گئے۔ دوم یہ کہ ان دنوں جو کارتوس فوجیوں کو دیے جاتے تھے۔ وہ عام خیال کے مطابق سور اور گائے کی چربی سے آلودہ تھے اور انھیں بندوقوں میں ڈالنے سے بیشتر دانتوں سے کاٹنا پڑتا تھا۔ ہندو اور مسلمان فوجی سپاہیوں نے اسے مذہب کے منافی سمجھا اور ان میں کھلبلی مچ گئی۔ جن سپاہیوں نے ان کارتوسوں کو استعمال کرنے سے انکار کر دیا ان کی فوجی وردیاں اتار کر انھیں بیڑیاں پہنا دی گئیں۔ ان قیدیوں میں بہت سے ایسے تھے جنھوں نے انگریزوں کی خاطر بڑی بڑی قربانیاں دی تھیں۔
اسلامیہ یونیورسٹی پنجاب کے شہر بہاولپور میں واقع ہے۔ 1928ء میں بہاولپور میں مصر کی جامعہ الازہر کی طرز پر جامعہ عباسیہ بنائی گئی۔ 1975ء میں اسی جامعہ عباسیہ کو یونیورسٹی قرار دے کر اس کا نام اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور رکھ دیا گیا۔ عام طور پر اسے آئی یو بی کے مخفف سے پکارا جاتا ہے۔ شروع میں اس میں عباسیہ اور خواجہ فرید کیمپس بنا کر دس شعبوں میں کام شروع کیا گیا۔ اب اس یونیورسٹی کا جدید تقاضوں کے مطابق بنانے کے لیے 1250 ایکڑ زمین حاصل پور روڈ پر بہاولپور سے 8 کلومیٹر کے فاصلے پر مختص کی گئی ہے۔ صحرا کے ٹیلوں کو سرسبز قطعوں میں بدل دیا گیا ہے۔
جنگ احد 17 شوال 3ھ (23 مارچ 625ء) میں مسلمانوں اور مشرکینِ مکہ کے درمیان احد کے پہاڑ کے دامن میں ہوئی۔ مشرکین کے لشکر کی قیادت ابوسفیان کے پاس تھی اور اس نے 3000 سے زائد افراد کے ساتھ مسلمانوں پر حملہ کی ٹھانی تھی جس کی باقاعدہ تیاری کی گئی تھی۔ مسلمانوں کی قیادت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کی۔ اس جنگ کے نتیجہ کو کسی کی فتح یا شکست نہیں کہا جا سکتا کیونکہ دونوں طرف شدید نقصان ہوا اور کبھی مسلمان غالب آئے اور کبھی مشرکین لیکن آخر میں مشرکین کا لشکر لڑائی ترک کر کے مکہ واپس چلا گیا۔
نجم الدولہ، دبیر الملک، مرزا نوشہ اسد اللہ خان غالب بہادر نظام جنگ (1797ء- 1869ء) اردو زبان کے سب سے بڑے شاعروں میں ایک سمجھے جاتے ہیں۔ یہ تسلیم شدہ بات ہے کہ 19 ویں صدی غالب کی صدی ہے۔ جبکہ 18 ویں میر تقی میر کی تھی اور 20 ویں علامہ اقبال کی۔ غالب کی عظمت کا راز صرف ان کی شاعری کے حسن اور بیان کی خوبی ہی میں نہیں ہے۔ ان کا اصل کمال یہ ہے کہ وہ زندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کو گہرائی میں جا کر سمجھتے تھے اور بڑی سادگی سے عام لوگوں کے لیے بیان کر دیتے تھے۔ غالب جس پر آشوب دور میں پیدا ہوئے اس میں انہوں نے مسلمانوں کی ایک عظیم سلطنت کو برباد ہوتے ہوئے اور باہر سے آئی ہوئی انگریز قوم کو ملک کے اقتدار پر چھاتے ہوئے دیکھا۔ غالباً یہی وہ پس منظر ہے جس نے ان کی نظر میں گہرائی اور فکر میں وسعت پیدا کی۔
کربلا (عربی میں كربلاء ) عراق کا ایک مشہور شہر ہے جو بغداد سے 100 کلومیٹر جنوب مغرب میں صوبہ کربلا میں واقع ہے۔ یہ واقعۂ کربلا اور حسین ابن علی کے روضہ کی وجہ سے مشہور ہے۔ اس کے پرانے ناموں میں نینوا اور الغادریہ شامل ہیں۔ اس کی آبادی دس لاکھ کے قریب ہے جو محرم اور صفر کے مہینوں میں زائرین کی وجہ سے بہت بڑھ جاتی ہے۔ زیادہ تر زائرین ایران، کوردستان، آذربائیجان، بحرین، ہندوستان اور پاکستان سے آتے ہیں.
خدیجہ بنت خویلد (پیدائش: 556ء – وفات: 30 اپریل 619ء) مکہ کی ایک معزز، مالدار، عالی نسب خاتون جن کا تعلق عرب کے قبیلے قریش سے تھا۔ جو حسن صورت و سیرت کے لحاظ سے "طاہرہ" کے لقب سے مشہور تھیں۔ انہوں نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تجارتی کاروبار میں شریک کیا اور کئی مرتبہ اپنا سامانِ تجارت دے کر بیرون ملک بھیجا۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تاجرانہ حکمت، دیانت، صداقت، محنت اور اعلیٰ اخلاق سے اتنی متاثر ہوئیں کہ آپ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو شادی کا پیغام بھجوایا۔ جس کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے بڑوں کے مشورے سے قبول فرمایا۔ اس وقت ان کی عمر چاليس سال تھی جبکہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم صرف پچیس سال کے تھے۔ خدیجہ نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور پہلی ام المومنین ہونے کی سعادت حاصل کی۔ اور 25 سال نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اکلوتی زوجہ اور غمگسار شدید ترین مشکلات میں ساتھی تھیں۔ بقیہ تمام ازواج النبی ان کی وفات کے بعد زوجہ بنیں۔
میر تقی میر (پیدائش: 28 مئی 1723ء— وفات: 22 ستمبر 1810ء) اصل نام میر محمد تقى اردو كے عظیم شاعر تھے۔ میر ان کا تخلص تھا۔ اردو شاعرى ميں مير تقى مير كا مقام بہت اونچا ہے ـ انہیں ناقدین و شعرائے متاخرین نے خدائے سخن کے خطاب سے نوازا۔ وہ اپنے زمانے كے ايك منفرد شاعر تھےـ۔ آپ كے متعلق اردو كے عظیم الشان شاعرمرزا غالب نے لکھا ہے۔
رموز اوقاف (انگریزی: Punctuation) وہ علامتیں اور نشانیاں ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ عبارت میں کس جگہ اور کس طرح وقف کرنا ہے۔ رموز، رمز کی جمع ہے جس کا مطلب ہے علامت یا اشارہ جبکہ اوقاف، وقف کی جمع ہے جس کے معنی ٹھہرنے یا رکنے کے ہیں، یعنی رموز اقاف یا علامات وقف اُن اشاروں یا علامتوں کو کہتے ہیں جو کسی عبارت کے ایک جملے کے ایک حصے کو اس کے باقی حصوں سے علاحدہ کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ اردو، انگریزی یا دوسری زبانوں کے قواعد میں ان اوقاف اور علامات کو بہت اہمیت حاصل ہے اگر ان کا خیال نہ رکھا جائے تو مفہوم کچھ سے کچھ بلکہ بعض اوقات تو اس کے بالکل اُلٹ ہو جاتا ہے جہاں ٹھہرنا یا وقفہ کرنا ہو ان کے لیے اردو میں درج ذیل رموز اوقاف استعمال ہوتے ہیں۔ ختمہ (۔)، سوالیہ (؟)، سکتہ (،) تفصیلہ (:_)، قوسین () واوین (” “) ندائیہ یا فجائیہ (!) علامت شعر(؎) علامت مصرع (؏) علامت وغیرہ۔
عمر بن سعد (ولادت-620ء وفات 65ھ یا 66ھ یا 67ھ/684ء یا 685ء یا 686ء) مشہور صحابی رسول سعد بن ابی وقاص کے فرزند جنہیں واقعہ کربلا کی ایک سرکردہ شخصیت کے طور پر جانا جاتا ہے۔ واقعہ كربلا کے وقت یہ ابن زیاد کی فوج میں سپہ سالار تھے اکثر روایت میں انہیں واقعہ کربلا کے مجرمین میں شمار کیا جاتا ہے جبکہ متعدد اس کے برخلاف ہیں جیسا کہ عمر بن سعد نے حتی المقدور کوشش کی کہ یہ معاملہ خوش اسلوبی سے طے ہوجائے۔
صحیح بخاری کا اصل نام «الجامع المسند الصحیح المختصر من امور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وسننہ و ایامہ» ہے جو «صحیح البخاری» کے نام سے مشہور ہے، یہ اہل سنت وجماعت کے مسلمانوں کی سب سے مشہور حدیث کی کتاب ہے، اس کو امام محمد بن اسماعیل بخاری نے سولہ سال کی مدت میں بڑی جانفشانی اور محنت کے ساتھ تدوین کیا ہے، اس کتاب کو انھوں نے چھ لاکھ احادیث سے منتخب کر کے جمع کیا ہے۔ اہل سنت کے یہاں اس کتاب کو ایک خاص مرتبہ و حیثیت حاصل ہے اور ان کی حدیث میں چھ امہات الکتب (صحاح ستہ) میں اول مقام حاصل ہے، خالص صحیح احادیث میں لکھی جانی والی پہلی کتاب شمار ہوتی ہے، اسی طرح اہل سنت میں قرآن مجید کے بعد سب سے صحیح کتاب مانی جاتی ہے۔ اسی طرح صحیح بخاری کا شمار کتب الجوامع میں بھی ہوتا ہے، یعنی ایسی کتاب جو اپنے فن حدیث میں تمام ابواب عقائد، احکام، تفسیر، تاریخ، زہد اور آداب وغیرہ پر مشتمل اور جامع ہو۔
اسلام ایک توحیدی مذہب ہے جو اللہ کی طرف سے، حضرت محمد ﷺ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ذریعے انسانوں تک پہنچائی گئی آخری الہامی کتاب (قرآن مجيد) کی تعلیمات پر قائم ہے۔ یعنی دنیاوی اعتبار سے بھی اور دینی اعتبار سے بھی اسلام (اور مسلم نظریے کے مطابق گذشتہ ادیان کی اصلاح) کا آغاز، 610ء تا 632ء تک 23 سال پر محیط عرصے میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اللہ کی طرف سے اترنے والے الہام (قرآن) سے ہوتا ہے۔ قرآن عربی زبان میں نازل ہوا (برائے وجہ : اللسان القرآن) اور اسی زبان میں دنیا کی کل آبادی کا کوئی 24% حصہ یعنی لگ بھگ 1.6 تا 1.8 ارب افراد اس کو پڑھتے ہیں ؛ ان میں (مختلف ذرائع کے مطابق) قریباً 20 تا 30 کروڑ ہی وہ ہیں جن کی مادری زبان عربی ہے جبکہ 70 تا 80 کروڑ، غیر عرب یا عجمی ہیں جن کی مادری زبان عربی کے سوا کوئی اور ہوتی ہے۔ متعدد شخصی ماخذ سے اپنی موجودہ شکل میں آنے والی دیگر الہامی کتابوں کے برعکس، بوسیلۂ وحی، فردِ واحد (محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے منہ سے ادا ہوکر لکھی جانے والی کتاب اور اس کتاب پر عمل پیرا ہونے کی راہنمائی فراہم کرنے والی شریعت ہی دو ایسے وسائل ہیں جن کو اسلام کی معلومات کا منبع قرار دیا جاتا ہے۔
خلافت راشدہ کے خاتمے کے بعد عربوں کی قائم کردہ دو عظیم ترین سلطنتوں میں سے دوسری سلطنت خلافت عباسیہ ہے۔ خاندان عباسیہ کے دو بھائیوں السفاح اور ابو جعفر المنصور نے 750ء (132ھ) خلافت عباسیہ کو قائم کیا اور 1258ء (656ھ) میں اس کا خاتمہ ہو گیا۔ یہ خلافت بنو امیہ کے خلاف ایک تحریک کے ذریعے قائم ہوئی۔ تحریک نے ایک عرصے تک اپنے مقاصد کے حصول کے لیے جدوجہد کی اور بالآخر بنو امیہ کو شکست دینے کے بعد بر سر اقتدار آگئی۔
مختار ثقفی تاریخِ اسلامی کے ان چند حکمرانوں میں سے ایک ہیں، انھوں نے بنو امیہ کے خلاف تلوار اٹھائی اور کربلا میں حسین ابن علی کی شہادت کا بدلہ لیا اور سینکڑوں قاتلانِ حسین کو قتل کیا۔ جس میں شمر بھی شامل تھا جس نے امام حسین کا سر جسم سے علٰیحدہ کر کے نیزے پر دمشق بھجوایا تھا اور حرملہ بھی جس نے امام حسین کے چھ ماہ کے بیٹے علی اصغر کو تیر سے شہید کیا تھا۔ اوہ محبان اہلِ بیت سے تھے۔ مثلاً جب امیر مختار نے عمر سعد اور ابنِ زیاد کے سر امام زین العابدین علیہ السلام کو بھیجے تو انہوں نے امیر مختار کے حق میں دعائے خیر کی۔ اسی طرح امام محمد باقر علیہ السلام نے بعض نکتہ چینوں کو کہا کہ مختار کو گالی نہ دو کیونکہ اس نے ہمارے قاتلوں کو قتل کیا اور ہمارے خون کا قصاص لیا۔
فتح مکہ (جسے فتح عظیم بھی کہا جاتا ہے) عہد نبوی کا ایک غزوہ ہے جو 20 رمضان سنہ 8 ہجری بمطابق 10 جنوری سنہ 630 عیسوی کو پیش آیا، اس غزوے کی بدولت مسلمانوں کو شہر مکہ پر فتح نصیب ہوئی اور اس کو اسلامی قلمرو میں شامل کر لیا گیا۔ اس غزوہ کا سبب قریش مکہ کی جانب سے اس معاہدہ کی خلاف ورزی تھی جو ان کے اور مسلمانوں کے درمیان میں ہوا تھا، یعنی قریش مکہ نے اپنے حلیف قبیلہ بنو دئل بن بکر بن عبد منات بن کنانہ (اس کی ایک خاص شاخ جسے بنو نفاثہ کہا جاتا ہے) نے بنو خزاعہ کے خلاف قتل و غارت میں مدد کی تھی اور چونکہ بنو خزاعہ مسلمانوں کا حلیف قبیلہ تھا اس لیے اس حملے کو قریش مکہ کی جانب سے اس معاہدہ کی خلاف ورزی سمجھا گیا جو مسلمانوں اور قریش کے درمیان میں ہوا تھا، یہ معاہدہ "صلح حدیبیہ" کے نام سے معروف ہے۔ اسی معاہدہ کی خلاف ورزی کے جواب میں حضرت محمدﷺ بن عبد اللہ نے ایک عظیم الشان لشکر تیار کیا جو دس ہزار مجاہدین پر مشتمل تھا؛ لشکر آگے بڑھتا رہا یہاں تک کہ مکہ پہنچ گیا اور بغیر کسی مزاحمت کے مکہ میں پر امن طریقے سے داخل ہو گیا سوائے ایک معمولی سی جھڑپ کے جس کے سپہ سالار خالد بن ولید کو اس وقت سامنا ہوا جب قریش کی ایک ٹولی نے عکرمہ بن ابی جہل کی قیادت میں مسلمانوں سے مزاحمت کی اور پھر خالد بن ولید کو ان سے قتال کرنا پڑا جس کے نتیجے میں بارہ کفار مارے گئے اور باقی بھاگ گئے، جبکہ دو مسلمان بھی شہید ہوئے۔
غزوہ خیبر محرم 7ھ (مئی 628ء) میں مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان یہ جنگ ہوئی جس میں مسلمان فتح یاب ہوئے۔ خیبر یہودیوں کا مرکز تھا جو مدینہ سے 150 کلومیٹر عرب کے شمال مغرب میں تھا جہاں سے وہ دوسرے یہودی قبائل کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے رہتے تھے۔ چنانچہ مسلمانوں نے اس مسئلہ کو ختم کرنے کے لیے یہ جنگ شروع کی۔
ذیل میں اردو کے ان محاوروں کی فہرست بلحاظ حروف تہجی درج ہے جو کثیر الاستعمال ہیں۔ محاورے دوسرے الفاظ میں کسی بھی زبان میں سینہ بسینہ منتقل ہونے والے وہ جملے یا کہاوتیں ہوتی ہیں جو ضرب المثل بن جاتی ہیں ی بھی صورت حال کو چند الفاظ میں بیان کر دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں اس لیے بسا اوقات طویل جملوں اور نصائح سے زیادہ موثر ثابت ہوتے ہیں۔ اردو زبان کے محاورے اس کا سب سے دلچسپ حصہ سمجھے جاتے ہیں۔
ناول اطالوی زبان کے لفظ ناولا (Novella) سے نکلا ہے۔ ناولا کے معنیٰ ہے نیا۔ لغت کے اعتبار سے ناول کے معانی نادر اور نئی بات کے ہیں۔ لیکن صنفِ ادب میں اس کی تعریف بنیادی زندگی کے حقائق بیان کرنا ہے۔ ناول کی اگر جامع تعریف کی جائے تو وہ کچھ یوں ہوگی کہ “ناول ایک نثری قصہ ہے جس میں پوری ایک زندگی بیان کی جاتی ہے”۔ ناول کے عناصر ِ ترکیبی میں کہانی، پلاٹ، کردار، مکالمے ،زماں و مکاں، اسلوب ،نکتہ نظر اور موضوع وغیرہ شامل ہیں۔
مردانگی (انگریزی: Masculinity)، جسے مردانہ وجاہت یا مردانہ پن بھی کہا جاتا ہے، ان صفات، برتاؤ اورکرداروں کا مجموعہ ہے، جو لڑکوں اور آدمیوں سے متعلق ہیں۔ ایک سماجی نظام کے طور پر یہ ممتاز ہے اس تعریف سے جو حیاتیات کی رو سے جنس سے متعلق ہے۔ مردانگی کے معیارات ثقافتوں اور تاریخی ادوار میں مختلف رہے ہیں۔ یہ بھی بعض اقوال سے ثابت ہے کہ مرد و زن دونوں مردانہ صفات اور برتاؤ کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔مغربی دنیا میں مردانگی سے جڑی صفات میں طاقت، ہمت، آزادی، قیادت، اور بار آوری شامل ہیں۔
مسئلۂ فیثا غورث کے مطابق ،ایسی مثلث جس کا ایک زاویہ عین 90 درجے کا ہو (یعنی زاویہ قائمہ ہو) اس ميں قاعدہ اور ارتفاع (یعنی اونچائی) کے مربع کا حاصل جمع اسكے وتر کے مربع کے برابر ہو گا۔ آسان الفاظ میں یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ کسی قائمۃ الزاویہ مثلث کے سب سے بڑے ضلع (یعنی وتر) کا مربع باقی دونوں ضلعوں کے مربعے کے حاصل جمع کے برابر ہوتا ہے۔ (انگریزی میں مربع اسکوائر کہلاتا ہے۔)
واقعہ حرہ یزید بن معاویہ کے دور میں سانحۂ کربلا کے بعد دوسرا بڑا شرمناک سانحہ تھا۔ مدینہ پر شامی افواج نے چڑھائی کی تھی جس میں انہوں ظلم و بربریت کی داستانیں رقم کیں اور مدینہ میں قتل عام کیا گیا۔ یہ افسوسناک واقعہ 63ھ میں پیش آیا اور واقعۂ حرہ کہلاتا ہے۔ یزید کی بھیجی ہوئی افواج نے دس ہزار سے زائد افراد کو شہید کیا جس میں بہت سے صحابی، صحابیوں کی اولاد، تابعین اور حفاظ قرآن و حدیث کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ خواتین کی بے حرمتی کی گئی اور تین دن تک مسجد نبوی میں نماز نہ ہو سکی۔"حرہ" پتھریلی زمین کو کہتے ہیں؛ چونکہ مدینہ کا ایک حصہ پتھریلا اور آتش فشانی پتھروں سے ڈھکا ہوا ہے، اسی لیے "حرہ" کہلاتا ہے "حرہ واقم" کے راستے افواج یزید کی آمد پر یہ واقعہ "واقعۂ حرہ" کہلایا۔
الناصر صلاح الدین بن یوسف بن ایوب (عربی: الناصر صلاح الدين يوسف بن أيوب؛ (کردی: سەلاحەدینی ئەییووبی)) جنہیں عام طور پر صلاح الدین ایوبی کے نام سے جانا جاتا ہے ایوبی سلطنت کے بانی تھے۔ وہ نہ صرف تاریخ اسلام بلکہ تاریخ عالم کے مشہور ترین فاتحین و حکمرانوں میں سے ایک ہیں۔ وہ 1138ء میں موجودہ عراق کے شہر تکریت میں پیدا ہوئے۔ ان کی زیر قیادت ایوبی سلطنت نے مصر، شام، یمن، عراق، حجاز اور دیار باکر پر حکومت کی۔ صلاح الدین ایوبی کو بہادری، فیاضی، حسن و خلق، سخاوت اور بردباری کے باعث نہ صرف مسلمان بلکہ مسیحی بھی عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ صلاح الدین ایوبی اپنے کارناموں میں نور الدین زنگی پر بھی بازی لے گئے۔ ان میں جہاد کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا اور بیت المقدس کی فتح ان کی سب سے بڑی خواہش تھی۔ صلاح الدین کو فاتح بیت المقدس کہا جاتا ہے جنھوں نے 1187ء میں یورپ کی متحدہ افواج کو عبرتناک شکست دے کر بیت المقدس ان سے آزاد کروا لیا تھا۔ صلاح الدین ایوبی 1193ء میں دمشق میں انتقال کر گئے ، انہوں نے اپنی ذاتی دولت کا زیادہ تر حصہ اپنی رعایا کو دے دیا۔ وہ مسجد بنو امیہ سے متصل مقبرے میں مدفون ہیں۔ مسلم ثقافت کے لئے اپنی اہمیت کے ساتھ ساتھ ، صلاح الدین کا کرد ، ترک اور عرب ثقافت میں نمایاں طور پر احترام کیا جاتا ہے۔ انہیں اکثر تاریخ کی سب سے مشہور کرد شخصیت کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔
نعمان ابن ثابت بن زوطا بن مرزبان (پیدائش: 5 ستمبر 699ء– وفات: 14 جون 767ء) (فارسی: ابوحنیفه،عربی: نعمان بن ثابت بن زوطا بن مرزبان)، عام طور پر آپکو امام ابو حنیفہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ آپ سنی حنفی فقہ (اسلامی فقہ) کے بانی تھے۔ آپ ایک تابعی، مسلمان عالم دین، مجتہد، فقیہ اور اسلامی قانون کے اولین تدوین کرنے والوں میں شامل تھے۔ آپ کے ماننے والوں کو حنفی کہا جاتا ہے۔ زیدی شیعہ مسلمانوں کی طرف سے بھی آ پ کو ایک معروف اسلامی عالم دین اور شخصیت تصور کیا جا تا ہے۔ انہیں عام طور پر "امام اعظم" کہا جاتا ہے۔
عیسیٰ ابن مریم ( عربی: عِيسَى ٱبْنُ مَرْيَمَ) ' تورات کے مطابق عیسیٰ ابن مریم ' کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ خدا کے آخری نبی اور رسول ہیں اور بنی اسرائیل ( Banī Isra'īl ) کی رہنمائی کے لیے انجیل نامی کتاب کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث کیے گئے مسیحا ہیں ۔ قرآن میں، یسوع کو المسیح ( al-Masīḥ ) کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ جو معجزانہ طور پر ایک کنواری سے پیدا ہوئے، اپنے شاگردوں کے ساتھ معجزات دیکھاتے تھے،اور اللہ نے معجزانہ طور پر ان کو بچایا زندہ آسمان پر اٹھا لیا۔ یہودی مذہبی اسٹیبلشمنٹ نے مسترد کر دیا ہے، لیکن صلیب پر مرنے کے طور پر نہیں (اور نہ ہی دوبارہ زندہ کیے جانے پر) ، بلکہ جیسا کہ خدا نے ان کو معجزانہ طور پر بچایا اور آسمان پر زندہ اٹھا لیا۔ قرآن واضح طور پر اور بار بار اس خیال کو مسترد کرتا ہے کہ عیسیٰ کو ( یہودی یا رومی ) حکام نے نہ قتل کیا تھا اور نہ ہی وہ مصلوب کیے گے تھے۔ قرآن نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو عظیم ترین نبیوں میں شمار کیا ہے اور ان کا ذکر مختلف القابات سے کیا ہے۔ عیسیٰ کی نبوت سے پہلے یحییٰ کی نبوت ہے اور محمد کی جانشینی ہے، جن کے بعد کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ عیسیٰ نے احمد کا نام استعمال کرکے پیشین گوئی کی تھی۔ یسوع مسیح کے بارے میں اسلام میں مختلف قسم کی متغیر تشریحات موجود ہیں۔ قرآن کی مرکزی دھارے کی تشریحات میں آرتھوڈوکس عیسائی فلسفہ الہی ہائپوسٹاسس کے بارے میں کرسٹولوجی کے نظریاتی تصورات کا فقدان ہے، اس لیے بہت سے لوگوں کے لیے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن مسیح کو مسترد کرتا ہے کیونکہ یسوع مسیح کی الوہیت کے نظریے کے مسیحی نقطہ نظر میں ایک یہودی مسیحی خدا کے اوتار ہونے کے ناطے انسان، یا انسانی جسم میں خدا کے لفظی بیٹے کے طور پر، جیسا کہ یہ ظاہری طور پر متعدد آیات میں یسوع کے خدا کے طور پر الہامی انسانیت کے نظریے کی تردید کرتا ہے، اور اس بات پر بھی تاکید کرتا ہے کہ یسوع مسیح نے ذاتی طور پر خدا ( خدا باپ ) ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اصل پیغام ( taḥrīf ) میں ان کے زندہ ہونے کے بعد تبدیلی کی گئی تھی۔ قرآن مجید میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توحید پر زور دیا گیا ہے۔ اسلام میں تمام انبیاء کی طرح، عیسیٰ کو بھی رسول کہا جاتا ہے، جیسا کہ انہوں نے تبلیغ کی کہ ان کے پیروکاروں کو ' صراط المستقیم ' اختیار کرنا چاہیے۔ اسلامی روایت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بہت سارے معجزات سے منسوب کیا گیا ہے۔ روایتی اسلامی تعلیمات میں، یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ عیسیٰ مسیح امام مہدی کے ساتھ دوسری آمد میں مسیح الدجال ('جھوٹا مسیح') کو قتل کرنے کے لیے واپس آئیں گے، جس کے بعد قدیم قبائل یاجوج ماجوج ( Yaʾjūj Maʾjūj ) کے ساتھ۔ منتشر ہو جائیں گے.
ائمہ اثنا عشریہ یا بارہ امام شیعہ فرقوں بارہ امامی، علوی اور اہل تشیع کے نزدیک پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سیاسی اور روحانی جانشین ہیں۔ بارہ امامی الہیات کے مطابق یہ بارہ امام بنی نوع انسان کے لیے ناصرف مثالی، عدل و انصاف کے ساتھ حکومت کرنے کا حق و اہلیت رکھتے ہیں بل کہ یہ شریعت قرآن کریم سے صحیح حدیث کے مطابق نظام تاویل کر سکتے ہیں۔ نبی اور ان ائمہ کی سنت کی پیروی ان کے پیروکاروں کو ضرور کرنی چاہیے تاکہ وہ غلطیوں اور گناہوں سے بچ سکیں، امام ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ معصوم رحم دل ہو اور خطا سے پاک ہو اور ان کی پیغمبر کو سے جانشینی گذشتہ امام کی نص (وصیت) سے ثابت ہو۔ a
8ھ / 630ء حنین مکہ اور طائف کے درمیان ایک وادی کا نام ہے۔ تاریخ اسلام میں اس جنگ کا دوسرا نام غزوہ ہوازن بھی ہے۔ اس لیے کہ اس لڑائی میں بنی ہوازن سے مقابلہ تھا۔ مکہ اور طائف کی درمیان وادی میں بنو ہوازن اور بنو ثقیف دو قبیلے آباد تھے۔ یہ بڑے بہادر، جنگجو اور فنون جنگ سے واقف سمجھے جاتے تھے۔ فتح مکہ کے بعد بھی انہوں نے اسلام قبول نہ کیا ان لوگوں نے یہ خیال قائم کر لیا کہ فتح مکہ کے بعد ہماری باری ہے اس لیے ان لوگوں نے یہ طے کر لیا کہ مسلمانوں پر جو اس وقت مکہ میں جمع ہیں ایک زبردست حملہ کر دیا جائے۔ چنانچہ حضور ﷺنے عبد اللہ بن ابی حدرد کو تحقیقات کے لیے بھیجا۔ جب انہوں نے وہاں سے واپس آکر ان قبائل کی جنگی تیاریوں کا حال بیان کیااور بتایا کہ قبیلہ بنو ہوازن اور بنو ثقیف نے اپنے تمام قبائل کو جمع کر لیا ہے اور قبیلہ ہوازن کا رئیس اعظم مالک بن عوف ان تمام افواج کا سپہ سالار ہے اور سو برس سے زائد عمر کا بوڑھا۔ درید بن الصمہ جو عرب کا مشہور شاعر اور مانا ہوا بہادر تھا بطور مشیر کے میدانِ جنگ میں لایا گیا ہے اور یہ لوگ اپنی عورتوں بچوں بلکہ جانوروں تک کو میدانِ جنگ میں لائے ہیں تاکہ کوئی سپاہی میدان سے بھاگنے کا خیال بھی نہ کرسکے۔۔ نبی کریم 8 ہجری میں بارہ ہزار مجاہدین کے ساتھ ان کے مقابلے کو نکلے۔ ان میں دو ہزار سے زائد نو مسلم اور چند غیر مسلم بھی شامل تھے۔ دشمنوں نے اسلامی لشکر کے قریب پہنچنے کی خبر سنی تو وادی حنین کے دونوں جانب کمین گاہوں سے اس زور کی تیر اندازی کی کہ مسلمان سراسیمہ ہو گئے۔ مکہ کے نو مسلم افراد سب سے پہلے ہراساں ہو کر بھاگے۔ ان کو دیکھ کر مسلمان بھی منتشر ہونا شروع ہو گئے۔ حضور کے ساتھ چند جاں نثار صحابہ میدان میں رہ گئے اور بہادری سے لڑتے رہے۔ خود رسول اللہ تلوار ہاتھ میں لے کر رجز پڑھ رہے تھے۔ ’’انا النبی لاکذب انا ابن عبد المطلب‘‘ آپ کی ثابت قدمی اور شجاعت نے مسلمانوں کے حوصلے بلند کیے اور یہ مٹھی بھر آدمی دشمن کے سامنے ڈٹے رہے۔ حضور کے حکم سے حضرت عباس نے نام لے کے مہاجرین و انصار کو بلایا۔ اس آواز پر مسلمان حضور کے گرد اکھٹے ہو گئے اور اس شدت سے جنگ شروع ہوئی کہ لڑائی کا رنگ بدل گیا۔ کفار مقابلے کی تاب نہ لاسکے اور بھاگ نکلے۔ بنو ثقیف نے طائف کا رخ کیا۔ بنو ہوازن اوطاس میں جمع ہوئے لیکن مسلمانوں نے اوطاس میں انہیں شکست دی۔ مسلمانوں کو شاندار کامیابی ہوئی اور دشمن کے ہزاروں آدمی گرفتار ہوئے۔ دس ہزار تو مہاجرین و انصار وغیرہ کا وہ لشکر تھا جو مدینہ سے آپ کے ساتھ آیا تھا اور دو ہزار نومسلم تھے جو فتح مکہ میں مسلمان ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس لشکر کو ساتھ لے کر اس شان و شوکت کے ساتھ حنین کا رُخ کیا کہ اسلامی افواج کی کثرت اور اس کے جاہ و جلال کو دیکھ کر بے اختیار بعض صحابہ کی زبان سے یہ لفظ نکل گیا کہآج بھلا ہم پر کون غالب آ سکتا ہے۔ لیکن خداو ند عالم کو کچھ لوگوں کا اپنی فوجوں کی کثرت پر ناز کرنا پسند نہیں آیا۔ چنانچہ اس فخر و نازش کا یہ انجام ہوا کہ پہلے ہی حملہ میں قبیلہ ہوازن و ثقیف کے تیر اندازوں نے جو تیروں کی بارش کی اورہزاروں کی تعداد میں تلواریں لے کر مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے تو وہ دو ہزار نو مسلم اور کفار مکہ جو لشکر اسلام میں شامل ہو کر مکہ سے آئے تھے ایک دم سرپر پیر رکھ کر بھاگ نکلے۔ ان لوگوں کی بھگدڑ دیکھ کر انصار و مہاجرین بھی پریشان ہو گئے۔ حضور تاجدار دوعالم ﷺ کے پائے استقامت میں بال برابر بھی لغزش نہیں ہوئی۔ بلکہ آپ ﷺ اکیلے ایک لشکر بلکہ ایک عالم کائنات کا مجموعہ بنے ہوئے نہ صرف پہاڑ کی طرح ڈٹے رہے بلکہ اپنے سفید خچر پر سوار برابر آگے ہی بڑھتے رہے اور آپ ﷺ کی زَبانِ مبارک پر یہ الفاظ جاری تھے کہ میں نبی ہوں یہ جھوٹ نہیں ہے میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں۔ اسی حالت میں آپﷺ نے دا ہنی طرف دیکھ کر بلند آواز سے پکارا کہ یَا مَعْشَرَ الْاَنْصَارِ فورًا آواز آئی کہ ہم حاضر ہیں،یا رسول اﷲ! ﷺ پھر بائیں جانب رخ کرکے فرمایا کہ یَا لَلْمُھَاجِرِیْنَ فوراً آواز آئی کہ ہم حاضر ہیں،یا رسول اﷲ!
اللہ عربی زبان میں خالق کے لیے استعمال ہونے والا لفظ ہے۔، خالق تخلیق کرنے والے کو کہا جاتا ہے اور فارسی اور اردو زبانوں میں اللہ کے لیے خدا اور پروردگار کے الفاظ بھی ادا کیے جاتے ہیں۔ کھوار زبان میں اللہ کے لیے خدای کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ اللہ کا لفظ انگریزی زبان کے لفظ God کا عربی متبادل ہے۔ یہ لفظ مسلمانوں کی زبانوں تک محدود نہیں بلکہ مشرق وسطی اور دیگر اسلامی ممالک میں رہنے والے مسیحی، یہودی اور بعض اوقات دیگر مذاہب کے ماننے والے بھی خدا واحد کے لیے اللہ کا لفظ ہی استعمال کرتے ہیں اور بائبل کے عربی تراجم میں God کے لیے اللہ کا لفظ ہی استعمال کیا جاتا ہے
باغ و بہار میر امن دہلوی کی تصنیف کردہ ایک داستان ہے جو اُنھوں نے فورٹ ولیم کالج میں جان گلکرسٹ کی فرمائش پر لکھی۔ عام خیال ہے کہ باغ و بہار کو میر امن نے امیر خسرو کی فارسی داستان قصہ چہار درویش سے اردو میں ترجمہ کیا ہے لیکن یہ خیال پایہ استناد کو نہیں پہنچتا۔ حافظ محمود شیرانی نے تحقیق سے یہ ثابت کیا ہے کہ اس قصے کا امیر خسرو سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں ان کے مطابق یہ قصہ محمد علی معصوم کی تصنیف ہےباغ و بہار فورٹ ولیم کالج کی دین ہے جو انگریزوں کو مقامی زبانوں سے آشنا کرنے کے لیے قائم کیا گیا تھا اور یہیں میر امن نے باغ و بہار کو جان گل کرائسٹ کی فرمائش پر میر حسین عطا تحسین کی نو طرز مرصع سے استفادہ کرکے تصنیف کیا۔ اس طرح یہ داستان اردو نثر میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے اور اسے بجا طور پر جدید اردو نثر کا پہلا صحیفہ قرار دیا گیا ہے۔ اس داستان کی اشاعت کے بعد اردو نثر میں پہلی مرتبہ سلیس زبان اور آسان عبارت آرائی کا رواج ہوا اور آگے چل کر غالب کی نثر نے اسے کمال تک پہنچا دیا۔ اسی بنا پر مولوی عبدالحق کا کہنا ہے کہ اردو نثر کی ان چند کتابوں میں باغ و بہار کو شمار کیا جاتا ہے جو ہمیشہ زندہ رہنے والی ہیں اور شوق سے پڑھی جائیں گی۔ بقول سید محمد، "میر امن نے باغ و بہار میں ایسی سحر کاری کی ہے کہ جب تک اردو زبان زندہ ہے مقبول رہے گی اور اس کی قدر و قیمت میں مرورِ ایام کے ساتھ کوئی کمی نہ ہوگی۔" نیز سید وقار عظیم کے الفاظ میں "داستانوں میں جو قبول عام باغ و بہار کے حصے میں آیا ہے وہ اردو کی کسی اور داستان کو نصیب نہیں ہوا"۔
مذکر: نر اسم ہوتا ہے جیسےمرد، باپ، بیل، بیٹا جبکہ مونث: مادہ اسم ہوتا ہے جیسے عورت، ماں، گائے، بیٹی بے جان اسماء میں نر اور مادہ کا کوئی فرق نہیں ہوتا اس لیے ان کی تذکیر و تانیث کا تمام تر درارومدار اہل زبان پر ہوتا ہے جیسے قلم کو اہل زبان مذکر بولتے ہیں اور گیند کو مونث اسی لیے ایسے اسماء کی تذکیر و تانیث کو غیر حقیقی تذکیر و تانیث کہا جاتا ہے۔ جبکہ حقیقی تذکیر و تانیث وہ ہوتی ہے جس میں نر کے مقابلے میں مادہ اور مادہ کے مقابلے میں نر ہو جانداروں میں کیوں کہ قدرتی طور پر نر اور مادہ کا فرق موجود ہوتا ہے اس لیے اس لیے ان کی تذکیرو تانیث حقیقی ہوتی ہے جیسے مرد، عورت۔ بیل، گائے وغیرہ