اردو ویکیپیڈیا کے سب سے زیادہ ملاحظہ کردہ مضامین کی فہرست۔ مزید معلومات کے لیے ۔ ۔ ۔
انا لله و انا الیہ راجعون (عربی: إِنَّا لِلَّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ) قرآن میں سورۃ البقرہ کی آیت 156 کے ایک حصے سے لیا گیا ہے۔، اس کا مطلب ہے "ہم خدا کے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔" جب مسلمان کسی کی موت یا مصیبت کا سنتے ہیں تو یہ آیت پڑھتے ہیں۔ وہ اس آیت کو تعزیت کے لئے بھی استعمال کرتے ہیں اور مصیبت کے وقت صبر کا مطالبہ کرتے ہیں۔
یومِ دفاع ہر سال 6 ستمبر کو پاکستان میں بطور ایک قومی دن منایا جاتا ہے۔ یہ دن پاک بھارت جنگ 1965ء میں افواج کی دفاعی کارکردگی اور قربانیوں کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ اس کا مقصد پاکستان کے دفاع اور عسکری طاقت کو مضبوط کرنے کی یاددہانی ہے تا کہ ہر آنے والے دن میں کسی بھی حملے سے بطریق احسن نمٹا جا سکے۔
ابو الحسن علی بن عثمان(پیدائش: نومبر 1009ء– وفات: 25 ستمبر 1072ء) جنہیں علی الحجویری یا داتا گنج بخش کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جو امام حسن ابن علی کی براہ راست اولاد تھے۔ ان کا شجرہ نسب آٹھ نسلوں پر حضرت علی تک جاتا ہے۔ 11ویں صدی کے سنی مسلمان، غزنوی سلطنت کے صوفی، عالم دین اور مبلغ تھے، جو کشف المحجوب کی تالیف کے لیے مشہور ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ علی ہجویری نے اپنی تبلیغ کے ذریعے جنوبی ایشیا میں اسلام کے پھیلاؤ میں "نمایاں" کردار ادا کیا، ایک مورخ نے انہیں "برصغیر پاک و ہند میں اسلام کو پھیلانے والی اہم ترین شخصیات میں سے ایک" کے طور پر بیان کیا۔
سید علی شاہ گیلانی(29 ستمبر 1929ء – 1 ستمبر 2021ء)، جموں و کشمیر کے سیاسی رہنما تھے، کا تعلق ضلع بارہ مولہ کے قصبے سوپور سے تھا۔ وہ کشمیر کے پاکستان سے الحاق کے حامی تھے۔بزرگ حریت رہنما سید علی گیلانی جماعت اسلامی جموں و کشمیر کے رکن رہے ہیں جبکہ انہوں نے جدوجہد آزادی کے لیے ایک الگ جماعت "تحریک حریت" بھی بنائی تھی جو کل جماعتی حریت کانفرنس کا حصہ ہے۔ بزرگ حریت رہنما سید علی گیلانی معروف عالمی مسلم فورم "رابطہ عالم اسلامی" کے بھی رکن تھے۔ حریت رہنما یہ رکنیت حاصل کرنے والے پہلے کشمیری حریت رہنما ہیں۔ ان سے قبل سید ابو الاعلیٰ مودودی اور سید ابو الحسن علی ندوی جیسی شخصیات برصغیر سے "رابطہ عالم اسلامی" فورم کی رکن رہ چکی ہیں۔ مجاہد آزادی ہونے کے ساتھ ساتھ وہ علم و ادب سے شغف رکھنے والی شخصیت بھی تھے اور علامہ اقبال کے بہت بڑے مداح تھے۔ انھوں نے اپنے دور اسیری کی یادداشتیں ایک کتاب کی صورت میں تحریر کیں جس کا نام "روداد قفس" ہے۔ اسی وجہ سے انہوں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ بھارتی جیلوں میں گزارا۔
ابوحفص عمر فاروق بن خطاب عدوی قرشی (586ء/590ء، مکہ - 6 نومبر 644ء، مدینہ) ابوبکر صدیق کے بعد مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ راشد، محمد مصطفی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سسر اور تاریخ اسلام کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک ہیں۔ عمر بن خطاب عشرہ مبشرہ میں سے ہیں، ان کا شمار علما و زاہدین صحابہ میں ہوتا تھا۔ ابوبکر صدیق کی وفات کے بعد 23 اگست سنہ 634ء مطابق 22 جمادی الثانی سنہ 13ھ کو مسند خلافت سنبھالی۔ عمر بن خطاب ایک باعظمت، انصاف پسند اور عادل حکمران مشہور ہیں، ان کی عدالت میں مسلم و غیر مسلم دونوں کو یکساں انصاف ملا کرتا تھا، عمر بن خطاب کا یہ عدل و انصاف انتہائی مشہور ہوا اور ان کے لقب فاروق کی دیگر وجوہ تسمیہ میں ایک وجہ یہ بھی بنی۔ آپ رضی اللہ عنہ کا نسب نویں پشت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے جا ملتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نویں پشت میں کعب کے دو بیٹے ہیں مرہ اور عدی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مرہ کی اولاد میں سے ہیں، جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ عدی کی اولاد میں سے ہیں۔
امام احمد رضا خان (14 جون 1856ء – 28 اکتوبر 1921ء) بیسویں صدی عیسوی کے مجدد، نامور حنفی فقہیہ، محدث، اصولی، نعت گو شاعر، علوم نقلیہ وعقلیہ کے ماہر، سلسلہ قادریہ کے شیخ، عربی، فارسی اور اردو کی کثیر کتابوں کے مصنف جن میں مشہور ترجمہ قرآن کنزالایمان، فتاوی کا مجموعہ فتاویٰ رضویہ اور نعتیہ دیوان حدائق بخشش مشہور ہیں۔ احمد رضا خان نے شدت سے تقلید اور حنفیت کا دفاع کیا سلسلۂ حدیث میں شاہ ولی اللہ اور عبد الحق محدث دہلوی سے استفادہ کیا اور فقہ میں سند اجازت شیخ عبد الرحمن حنقی مکی سے حاصل کی، جن کا سلسلہ عبد اللہ بن مسعود تک پہنچتا ہے۔ احمد رضا خان نے دو قومی نظریہ کا پرچار کیا اور کسی بھی سطح پر ہندو مسلم اتحاد کو رد کیا، تحریک ترک موالات اور تحریک خلافت میں مسلمانوں کو متنبہ کیا کہ ان تحریکوں میں مسلم ہندو اتحاد کا نعرہ لگایا جا رہا ہے جو شرع حیثیت سے ناجائز ہے۔ عورتوں کی ضروری دینی تعلیم کی سختی سے تلقین کی، عورتوں کے زیارت قبور کے لیے گھر سے نکلنے کے مسئلے پر ممانعت کا فتوی دیا۔کثرت سے فقہی مسائل پر رسائل اور عقائد و اعمال کی اصلاح کے لیے کتابیں تصنیف کیں، ریاضی اور فلکیات کے علاوہ سائنس کے دیگر کئی موضوعات پر علمی اور مذہبی نکتہ نظر سے اپنی آرا پیش کیں۔ بریلی میں منظر اسلام کے نام سے اسلامی جامعہ قائم کی، بریلوی مکتب فکر کو متعارف کروایا، جس کی وجہ شہرت عشق رسول میں شدت اور تصوف کی طرف مائل ہونا ہے۔ احمد رضا خان کو اعلیٰ حضرت، امام اہلسنت اور حسان الہند جیسے القابات سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں ہر سال 25 صفر کو یوم رضا کے نام سے احمد رضا خان کا عرس کیا جاتا ہے۔
پاکستان (رسمی نام: اسلامی جمہوریۂ پاکستان) جنوبی ایشیا کے شمال مغرب وسطی ایشیا اور مغربی ایشیا کے لیے دفاعی طور پر اہم حصے میں واقع ایک خود مختار اسلامی ملک ہے۔ یہ دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے، جس کی آبادی تقریباً 242 ملین ہے اور دنیا کی دوسری سب سے بڑی مسلم آبادی والا ملک ہے۔ 881,913 مربع کلومیٹر (340,509 مربع میل) کے ساتھ یہ دنیا کا تینتیسواں بڑے رقبے والا ملک ہے۔ اس کے جنوب میں 1046 کلومیٹر (650 میل) کی ساحلی پٹی ہے جو بحیرہ عرب سے ملتی ہے۔پاکستان کے مشرق ميں بھارت، شمال مشرق ميں چین اور مغرب ميں افغانستان اور ايران واقع ہيں۔ پاکستان کو شمال میں ایک تنگ واخان راہداری تاجکستان سے جدا کرتی ہے جبکہ اس ملک کی سمندری سرحدی حدود اومان کے سمندری حدود سے بھی ملتی ہیں۔ موجودہ پاکستان کے علاقے قدیم ترین دنیا میں وہ علاقے تھے جن میں موہنجوداڑو اور انڈس سولائیزیشن مہر گڑھ ٹیکسلا پراچین سنسکرت دور اور دیگر زیرتحقیق آرک لوجیکل سائٹسٹ جیسے قندھارا تہذیب و تمدن تھی۔ اس علاقے پر پراچین راجپوت ایرانی یونانیعرب، بدھ مت، سکھ، مغل، ہن سفید اور ترک حملہ آوروں کی حکومت بھی رہی ہے۔ یہ علاقہ مختلف سلطنتوں جیسے چندر گپت موریا، ہخامنشی سلطنت عربوں کی خلافت امویہ، مغل سلطنت، مغلیہ سلطنت، درانی سلطنت، سکھ سلطنت اور برطانوی راج کا اہم حصہ رہا ہے۔ اس کے بعد محمد علی جناح کی قیادت میں تحریک پاکستان کامیاب ہوئی اور 14 اگست 1947ء کو ہندوستان کے مشرق اور مغرب میں دو حصوں میں ایک آزاد اور خودمختار اسلامی ریاست قائم ہوئی۔ پاکستان نے اپنا پہلا آئین 1956ء میں بنایا جو 1958 میں منسوخ کردیا گیا اس کے بعد 1962 میں پاکستان کا دوسرا آئین پیش کیا گیا جو 1969 میں جزل یحیی خان نے منسوح کر دیا.
ابوبکر صدیق عبد اللہ بن ابو قحافہ عثمان تیمی قرشی (573ء—634ء) اسلام کے پہلے خلیفہ راشد، عشرہ مبشرہ میں شامل، خاتم النبین محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اولین جانشین، صحابی، خسر اور ہجرت مدینہ کے وقت رفیق سفر تھے۔ اہل سنت و الجماعت کے یہاں ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ انبیا اور رسولوں کے بعد انسانوں میں سب سے بہتر، صحابہ میں ایمان و زہد کے لحاظ سے سب سے برتر اور ام المومنین عائشہ بنت ابوبکر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے محبوب تر تھے۔ عموماً ان کے نام کے ساتھ صدیق کا لقب لگایا جاتا ہے جسے حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی تصدیق و تائید کی بنا پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دیا تھا۔
ابو الحسن علی بن ابی طالب ہاشمی قُرشی (15 ستمبر 601ء – 29 جنوری 661ء) پیغمبر اسلام محمد کے چچا زاد اور داماد تھے۔ ام المومنین خدیجہ کے بعد دوسرے شخص تھے جو اسلام لائے۔ اور ان سے قبل ایک خاتون کے علاوہ کوئی مرد و زن مسلمان نہیں ہوا۔ یوں سابقین اسلام میں شامل اور عشرہ مبشرہ، بیعت رضوان، اصحاب بدر و احد، میں سے بھی تھے بلکہ تمام جنگوں میں ان کا کردار سب سے نمایاں تھا اور فاتح خیبر تھے، ان کی ساری ابتدائی زندگی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ساتھ گزری۔ وہ تنہا صحابی ہیں جنھوں نے کسی جنگ میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تنہا نہیں چھوڑا ان کی فضیلت میں صحاح ستہ میں درجنوں احادیث ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انھیں دنیا اور آخرت میں اپنا بھائی قرار دیا اور دیگر صحابہ کے ساتھ ان کو بھی جنت اور شہادت کی موت کی خوش خبری دی۔
قرآن کریم، قرآن مجید یا قرآن شریف (عربی: القرآن الكريم) دین اسلام کی مقدس و مرکزی کتاب ہے جس کے متعلق ہم اسلام کے پیروکاروں کا اعتقاد ہے کہ یہ کلام الہی ہے اور اسی بنا پر یہ انتہائی محترم و قابل عظمت کتاب ہے۔ اسے ہمارے پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی کے ذریعے اتارا گیا۔ یہ وحی اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتے حضرت جبرائیل علیہ السلام لاتے تھے جیسے جیسے قرآن مجید کی آیات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوتیں آپ صلی علیہ وآلہ وسلم اسے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو سناتے اور ان آیات کے مطالب و معانی سمجھا دیتے۔ کچھ صحابہ کرام تو ان آیات کو وہیں یاد کر لیتے اور کچھ لکھ کر محفوظ کر لیتے۔ ہم مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن ہر قسم کی تاریف بیان کرتا ہے پاک ہے محفوظ ہے، قرآن میں آج تک کوئی کمی بیشی نہیں ہو سکی اور اسے دنیا کی واحد محفوظ افضل کتاب ہونے کی حیثیت حاصل ہے، جس کا حقیقی مفہوم تبدیل نہیں ہو سکا اور تمام دنیا میں کروڑوں کی تعداد میں چھپنے کے باوجود اس کا متن ایک جیسا ہے اور اس کی تلاوت عبادت ہے۔ اور صحف ابراہیم، زبور اور تورات و انجیل کے بعد آسمانی کتابوں میں یہ سب سے آخری اور افضل کتاب ہے اور سابقہ آسمانی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اب اس کے بعد کوئی آسمانی کتاب نازل نہیں ہوگی۔ قرآن کی فصاحت و بلاغت کے پیش نظر اسے لغوی و مذہبی لحاظ سے تمام عربی کتابوں میں اعلیٰ ترین مقام حاصل ہے۔ نیز عربی زبان و ادب اور اس کے نحوی و صرفی قواعد کی وحدت و ارتقا میں بھی قرآن کا خاصا اہم کردار دکھائی دیتا ہے۔ چنانچہ قرآن کے وضع کردہ عربی زبان کے قواعد بلند پایہ عرب محققین اور علمائے لغت مثلاً سیبویہ، ابو الاسود الدؤلی اور خلیل بن احمد فراہیدی وغیرہ کے یہاں بنیادی ماخذ سمجھے گئے ہیں۔
اردو زبان میں سینتیس حروفِ تہجی اور سینتالیس آوازیں ہیں جن میں سے بیشتر عربی سے لیے گئے ہیں اور دیگر انہی کی مختلف شکلیں ہیں۔ کچھ حروف کئی طریقوں سے استعمال ہوتے ہیں اور کچھ مخلوط حروف بھی استعمال ہوتے ہیں جو دو حروف سے مل کر بنتے ہیں۔ بعض لوگ 'ء' کو الگ حرف نہیں مانتے مگر پرانی اردو کتب اور لغات میں اسے الگ حرف کے طور پر لکھا جاتا ہے۔ مختلف الفاظ میں یہ الگ حرف کے طور پر ہی استعمال ہوتا ہے مثلاً 'دائرہ'۔ یہ بات مدِنظر رکھنا ضروری ہے کہ اردو تختی اور اردو حروف دو مختلف چیزیں ہیں کیونکہ اردو تختی میں اردو حروفِ تہجی کی کئی اشکال ہو سکتی ہیں جن کو الگ حرف کا درجہ نہیں دیا جا سکتا بلکہ وہ ایک ہی حرف کی مختلف شکلیں ہیں۔ مثلاً نون غنہ نون کی شکل ہے اور 'ھ' اور 'ہ' ایک ہی حرف کی مختلف اشکال ہیں۔ ایک اور مثال الف ممدودہ (آ) اور الف مقصورہ (ا) کی ہے جو اردو تختی میں الگ ہیں مگر اردو کا ایک ہی حرف شمار ہوتے ہیں۔
ہجرت مدینہ پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ان کے صحابہ کی طرف سے مکہ مکرمہ سے یثرب (جسے اس ہجرت کے بعد مدینۃ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نام دیا گیا) منتقل ہوجانے کے عمل کو کہتے ہیں جو 12ربیع الاول 13نبوی (جو بعد میں پہلا ہجری سال کہلایا)، بمطابق 24 ستمبر 622ء عیسوی بروز جمعہ کو ہوئی، بعد میں اسی دن کی نسبت سے ہجری تقویم کا آغاز ہوا۔ مسلمانوں نے قمری ہجری تقویم اور شمسی ہجری تقویم دونوں کا آغاز اسی واقعہ کی بنیاد پر کیا۔
ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال (ولادت: 9 نومبر 1877ء – وفات: 21 اپریل 1938ء) بیسویں صدی کے ایک معروف شاعر، مصنف، قانون دان، سیاستدان اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھے۔ اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے اور یہی ان کی بنیادی وجہ شہرت ہے۔ شاعری میں بنیادی رجحان تصوف اور احیائے امت اسلام کی طرف تھا۔ علامہ اقبال کو دور جدید کا صوفی سمجھا جاتا ہے۔ بحیثیت سیاست دان ان کا سب سے نمایاں کارنامہ نظریۂ پاکستان کی تشکیل ہے، جو انہوں نے 1930ء میں الہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پیش کیا تھا۔ یہی نظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا۔ اسی وجہ سے علامہ اقبال کو پاکستان کا نظریاتی باپ سمجھا جاتا ہے۔ گو کہ انہوں نے اس نئے ملک کے قیام کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن انہیں پاکستان کے قومی شاعر کی حیثیت حاصل ہے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو، تین یا چار رکعت والی نماز کے قعدہ اخیرہ میں ہمیشہ درودِ ابراہیمی پڑھتے جو درج ذیل ہے : اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلٰی اِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاهِيْمَ اِنَّكَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ اَللّٰهُمّ بَارِكْ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلٰی اِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاهِيْمَ اِنَّكَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ بخاری، الصحيح، کتاب الانبياء، باب النسلان فی المشی، ۳ : ۱۲۳۳، رقم : ۳۱۹۰ ترجمہ: اے اللہ ! محمد ( ﷺ ) پر اپنی رحمت نازل کر اور آل محمد ﷺ پر ، جیسا کہ تو نے ابراہیم اور آل ابراہیم پر رحمت نازل کی ، بلاشبہ تو تعریف کیا ہوا اور پاک ہے ۔ اے اللہ !
بنگلہ دیش(سابق مشرقی پاکستان) ((بنگالی: বাংলাদেশ)) جنوبی ایشیا کا ایک ملک ہے۔ میانمار کے ساتھ مختصر سی سرحد کے علاوہ یہ تین اطراف سے بھارت سے ملا ہوا ہے۔14 اگست 1947ء سے لے کر 1971ء تک یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا حصہ رہا ہے اب جنوب میں اس کی سرحدیں خلیج بنگال سے ملتی ہیں۔ بھارت کی ریاست کو ملاکر بنگالی اسے اپنا نسلی وطن کہتے ہیں۔ بنگلہ دیش کا مطلب ہے "بنگال کا ملک"۔
موسیٰ علیہ السلام اللہ کے برگزیدہ پیغمبروں میں سے ایک ہیں۔ آپ کے بھائی ہارون علیہ السلام بھی اللہ کے برگزیدہ نبیوں میں سے ایک ہیں۔یہ 1520 قبلِ مسیح کی بات ہے۔ مِصر پر فرعون بادشاہ’’مرنفتاح ثانی‘‘ کی حکومت تھی۔بعض نے اُس کا نام’’ منفتاح‘‘ بھی لکھا ہے اور وہ والد، رعمسیس کے بڑھاپے کی وجہ سے عملاً حکم ران بنا ہوا تھا۔ خدائی کا دعوے دار یہ بادشاہ بڑا ظالم و جابر تھا۔ اُس نے’’ بنی اسرائیل‘‘ کو اپنا غلام بنا رکھا تھا، حالاں کہ وہ حضرت یوسف کے زمانے سے وہاں رہائش پزیر تھے۔ حضرت یوسفؑ نے اپنے والد، حضرت یعقوبؑ اور اپنے بھائیوں کے لیے ایک قطعۂ زمین اُس وقت کے فرعون بادشاہ ’’ریان بن ولید‘‘ سے حاصل کیا تھا۔ حضرت یعقوبؑ کی یہی نسل’’بنی اسرائیل‘‘ کہلائی، جو مِصر میں خُوب پَھلی پُھولی۔ یہ لوگ حضرت یعقوبؑ کے دین کے پیروکار تھے، چناں چہ اُس وقت اللہ کے نزدیک یہ سب سے بہتر جماعت تھی۔ اُنہوں نے فرعون کو سجدہ کرنے اور اُسے اپنا ربّ ماننے سے انکار کردیا تھا۔ اسی وجہ سے بادشاہ اور اُس کے حواری ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھاتے اور اُن سے گھٹیا کام کرواتے۔ یاد رہے، فرعون کسی خاص شخص کا نام نہیں، بلکہ مِصر کے بادشاہوں کا لقب تھا۔ تاریخی حقائق کے مطابق، 31فراعنہ خاندانوں نے مِصر پر یکے بعد دیگرے حکومت کی۔ سب سے آخری خاندان نے 332قبلِ مسیح میں سکندرِ اعظم کے ہاتھوں شکست کھائی۔
سانحۂ کربلا یا واقعہ کربلا یا کربلا کی جنگ 10 محرم 61ھ (بمطابق 9 یا 10 اکتوبر، 680ء) کو، موجودہ عراق میں کربلا کے مقام پر پیش آیا۔ یہ جنگ نواسہ رسول حضرت امام حسین ابن علی، ان کے حامیوں اور رشتہ داروں کے ایک چھوٹے سے گروہ، حسین ابن علیؓ کے ساتھ 72 ساتھی، کچھ غلام، 22 اہل بیت کے جوان اور خاندان نبوی کی کچھ خواتین و بچے شامل تھے، اور اموی ظالم حکمران یزید اول کی ایک بڑی فوج کے مابین ہوئی۔جس کو حسین نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔جس میں اموی خلیفہ یزید اول کی فوج نے پیغمبر اسلام محمد کے نواسے حسین ابن علی اور ان کے رفقا کو لڑائی میں شہید کیا، حرم حسین کے خیموں کو لوٹ لیا گیا اور بالآخر آگ لگا دی گئی۔ عمر بن سعد کی فوج نے کربلا کے صحرا میں مقتولین کی لاشیں چھوڑ دیں۔ بنی اسد کے لوگوں نے لاشوں کو تین دن بعد دفن کیا۔ واقعہ کربلا کے بعد، حسین ابن علی کی فوج سے وابستہ متعدد خواتین اور بچوں کو گرفتار کر کے قید کر دیا گیا، بازار اور ہجوم والے مقامات سے گزر کر ان کی توہین کی گئی اور انہیں یزید ابن معاویہ کے دربار شام بھیج دیا گیا تھا۔ جنگ میں شہادت کے بعد حضرت امام حسین کو سید الشہدا کے لقب سے پکارا جاتا ہے۔
ایشیا کپ 2023ء ایشیا کپ کا 16 واں ایڈیشن ہو گا جس کے میچز پاکستان میں ایک روزہ بین الاقوامی میچز کے طور پر کھیلے جائیں گے۔ ٹورنامنٹ میں 6 ٹیمیں شرکت کریں گی۔اور کل 13 میچز کھیلے جائیں گے۔ یہ کرکٹ عالمی کپ 2023ء سے قبل تیاری کی سیریز کے طور پر ستمبر 2023ء میں منعقد ہونا ہے۔ سری لنکا اس ٹورنامنٹ کا دفاعی چیمپئن ہے۔ایشیائی کرکٹ کونسل کے پانچ مکمل اراکین (پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا، بھارت اور افغانستان) ٹورنامنٹ میں حصہ لیں گے۔ ان کے ساتھ کوالیفکیشن ٹورنامنٹ کی چیمپئن ٹیم شامل ہو گی۔ جنوری 2023ء میں ایشیائی کرکٹ کونسل (ACC) نے 2023ء اور 2024ء کے ٹورنامنٹ کے لیے راستے کے ڈھانچے اور کیلنڈر کا اعلان کیا جس میں انہوں نے ٹورنامنٹ کی تاریخوں اور فارمیٹ کی تصدیق کی۔ دراصل یہ ٹورنامنٹ 2021 میں ہونا تھا لیکن پاکستان کے بحثیت میزبان پیک شیڈول کی وجہ سے اسے 2023ء تک ملتوی کر دیا گیا۔
اللہ کے ذاتی نام 'اللہ' کے علاوہ اللہ کے ننانوے صفاتی نام مشہور ہیں۔ انہیں کہا جاتا ہے۔ ان میں سے بیشتر قرآن میں موجود ہیں اگرچہ قرآن میں ننانوے کی تعداد مذکور نہیں مگر یہ ارشاد ہے کہ اللہ کو اچھے اچھے ناموں سے پکارا جائے۔ روایات میں بکثرت نیچے دیے گئے ننانوے صفاتی نام ملتے ہیں جن کے ساتھ ان کا اردو ترجمہ بھی درج کیا جا رہا ہے۔
1974ء ميں وزیر اعظم پاکستان جناب ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں احمدیوں جن کوقادیانی بھی کہا جاتا ہے، کوغیر مسلم اقلیت قرار دے دیا گیا، 30 جون 1974 کو مولانا شاہ احمد نورانی نے بل پیش کیا اور مولانا مفتی محمود قادیانیوں کو کافر قرار دینے والی کمیٹی کے سربراہ بنے قومی اسمبلی میں چھ بل پیش ہوئے ان میں سے ایک بل مولانا غوث ہزاروی نے پیش کیا اور آخری اور ختمی بل مولانا شاہ احمد نورانی نے پیش کیا جس پر قومی اسمبلی کی کاروائی ہوئی 6 ستمبر 1974ء تک بحث و تمحیص کے بعد اسے ایک قانونی شق کی حیثیت دے دی گئی۔ دوسری آئینی ترمیم کے اس حصے جس میں احمدیوں کو واضح طور پر آئین پاکستان نے غیر مسلم قرار دیا ہے، کو آرڈیننس 20 کہا جاتا ہے۔
احمد خان متقی بن محمد متقی (17 اکتوبر 1817ء – 27 مارچ 1898ء) المعروف سر سید، سر سید احمد خان انیسویں صدی کے ایک ہندوستانی مسلم نظریۂ عملیت کے حامل ، مصلح اور فلسفی تھے۔ ان کو برصغیر میں مسلم قوم پرستی کا سرخیل مانا جاتا ہے اور دو قومی نظریہ کا خالق تصور کیا جاتا ہے، جو آگے چل کر تحریک پاکستان کی بنیاد بنا۔
ولادیمیرالیچ لینن (روسی زبان: Влади́мир Ильи́ч Ле́нин)، پیدائشی نام ولادیمیر الیچ الیانوف (روسی زبان: Влади́мир Ильи́ч Улья́нов) اور فرضی نام وی آئی لینن اور ایں لینن (پیدائش: 22 اپریل 1870ء - وفات: 21 جنوری 1924ء) سمبرسک میں پیدا ہوئے جو دریائے وولگا کے کنارے آباد ہے۔ لینن روسی انقلابی، اشتراکی سیاست دان، اکتوبر کے انقلاب کے رہ نما اور 1922ء روسی سوویت سوشلسٹ جمہوریہ کے پہلے رہنما تھے۔ ٹائم میگزین نامی جریدے نے انہیں بیسویں صدی کے 100 بااثر افراد میں سے ایک قرار دیا۔ نظریہ مارکس میں ان کے حصہ کو نظریہ لینن کہا جاتا ہے۔
یہ مختصر ترین دعا ہے جو مسلمانوں کے نبی حضرت سیدنا محمّد صَلَّىٰ اللَّٰهُ عَلَيْہِ وَآلِہِ وَسَلَّمَ پر ان کے نام کے ساتھ ان کے اعلیٰ ترین درجے پر پہنچنے کے لیے الله تبارک و تعالیٰ سے کی جاتی ہے۔ اس دعا کو درودپاک کہا جاتا ہے اور اس کو لازمی طور پر نام سیدنا محمّد صَلَّىٰ للَّٰهُ عَلَيْہِ وَآلِہِ وَسَلَّمَ کے ساتھ لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔
نجم الدولہ، دبیر الملک، مرزا نوشہ اسد اللہ خان غالب بہادر نظام جنگ (1797ء- 1869ء) اردو زبان کے سب سے بڑے شاعروں میں ایک سمجھے جاتے ہیں۔ یہ تسلیم شدہ بات ہے کہ 19 ویں صدی غالب کی صدی ہے۔ جبکہ 18 ویں میر تقی میر کی تھی اور 20 ویں علامہ اقبال کی۔ غالب کی عظمت کا راز صرف ان کی شاعری کے حسن اور بیان کی خوبی ہی میں نہیں ہے۔ ان کا اصل کمال یہ ہے کہ وہ زندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کو گہرائی میں جا کر سمجھتے تھے اور بڑی سادگی سے عام لوگوں کے لیے بیان کر دیتے تھے۔ غالب جس پر آشوب دور میں پیدا ہوئے اس میں انہوں نے مسلمانوں کی ایک عظیم سلطنت کو برباد ہوتے ہوئے اور باہر سے آئی ہوئی انگریز قوم کو ملک کے اقتدار پر چھاتے ہوئے دیکھا۔ غالباً یہی وہ پس منظر ہے جس نے ان کی نظر میں گہرائی اور فکر میں وسعت پیدا کی۔
سعد بن معاذ رضی اللّٰہ عنہ(32ق.ھ/ 5ھ) قبیلہ بنو اشہل کے سردار اورمعزز صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔سعد بن معاذ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینہ کے رہنے والے تھے ۔آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے مدینہ منورہ تشریف لے جانے سے پہلے ہی حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مدینہ منورہ بھیج دیا تھا تاکہ وہ مسلمانوں کو اسلام کی تعلیم دیں اور غیر مسلموں میں اسلام کی تبلیغ کرتے رہیں۔ چنانچہ حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تبلیغ سے حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ دامن اسلام میں آگئے اور خود اسلام قبول کرتے ہی یہ اعلان فرما دیا کہ میرے قبیلہ بنو عبدالاشہل کا جو مرد یا عورت اسلام سے منہ موڑے گا میرے لئے حرام ہے کہ میں اس سے کلام کروں ۔آپ کا یہ اعلان سنتے ہی قبیلہ عبدالاشہل کا ایک ایک بچہ دولت اسلام سے مالا مال ہوگیا۔ اس طرح آپ کا مسلمان ہو جانا مدینہ منورہ میں اشاعت اسلام کے لیے بہت ہی بابرکت ثابت ہوا۔ آپ رضی اللہ عنہ بہت بہادر اور انتہائی نشانہ باز تیر انداز بھی تھے ۔ غزوہ بدر اور غزوۂ احد میں خوب خوب دادِ شجاعت دی،مگرغزوہ خندق میں زخمی ہوگئے اور اسی زخم میں شہادت سے سر فراز ہو گئے ۔آپ کی شہادت کا واقعہ یہ ہے کہ آپ ایک چھوٹی سی زرہ پہنے ہوئے نیزہ لیکر جوش جہاد میں لڑنے کے لئے میدان جنگ میں جا رہے تھے کہ ابن العرقہ نامی کافر نے ایسا نشانہ باندھ کر تیر مارا کہ جس سے آپ کی ایک رگ جس کا نام ”اکحل”ہے کٹ گئی ۔آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے آپ کے ليے مسجد نبوی شریف میں ایک خیمہ گاڑا اور آپ کا علاج شروع کیا۔ خود اپنے دست مبارک سے دو مرتبہ ان کے زخم کو داغا اور ان کا زخم بھرنے لگ گیا تھا لیکن آپ نے شوق شہادت میں خداوند تعالیٰ سے یہ دعا مانگی : ”یا اللہ! تو جانتا ہے کہ کسی قوم سے مجھے جنگ کرنے کی اتنی تمنا نہیں ہے جتنی کفار قریش سے لڑنے کی تمنا ہے جنہوں نے تیرے رسول کو جھٹلایا اور ان کو ان کے وطن سے نکالا، اے اللہ ! عزوجل میرا تو یہی خیال ہے کہ اب تو نے ہمارے اور کفار قریش کے درمیان جنگ کا خاتمہ کر دیا ہے لیکن اگر ابھی کفار قریش سے کوئی جنگ باقی رہ گئی ہو جب تو مجھے زندہ رکھنا تاکہ میں تیری راہ میں ان کافروں سے جنگ کروں اور اگر اب ان لوگوں سے کوئی جنگ باقی نہ رہ گئی ہو تو میرے اس زخم کو پھاڑ دے اور اسی زخم میں تو مجھے شہادت عطا فرما دے ۔ ” خدا کی شان کہ آپ کی یہ دعا ختم ہوتے ہی بالکل اچانک آپ کا زخم پھٹ گیا اور خون بہہ کر مسجد نبوی میں بنی غفار کے خیمے کے اندر پہنچ گیا۔ ان لوگوں نے چونک کر کہا کہ اے خیمہ والو!یہ کیسا خون ہے جو تمہاری طرف سے بہ کر ہماری طرف آرہا ہے؟ جب لوگوں نے دیکھا تو سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زخم سے خون جاری تھا اسی زخم میں آپ کی شہادت ہو گئی ۔ عین وفات کے وقت ان کے سرہانے حضور انور صلی اللہ علیہ والہ وسلم تشریف فرما ہیں۔ جان کنی کے عالم میں انہوں نے آخری بار جمال نبوت کا دیدار کیا اور کہا : السلام علیک یا رسول اللہ!
آدم، اللہ کے اولین پیغمبر ہیں۔ ابوالبشر (انسان کا باپ) اور صفی اللہ (خدا کا برگزیدہ) لقب۔ آپ کے زمانے کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔تمام آسمانی کتابوں کے ماننے والوں کاعقیدہ ہے کہ اس رُوئے زمین پر اللہ جل شانہ‘نے حضرت آدم علیہ السلام کو تخلیق کیا۔حضرت آدم ؑ کی پیدائش کا احوال کچھ یوں ہے :اللہ تعالی نے تمام زمین سے ایک مٹھی مٹی لے کر آدم علیہ السلام کو بنایا۔اس لئے زمین کے لحاظ سے لوگ سرخ ،سفید ، سیاہ اور درمیانے درجے میں ،اسی طرح اچھے ،برے ، نرم اور سخت طبیعت والے اور کچھ درمیانے درجے کے پیدا ہوئے(روایت : حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ )۔ اللہ تعالی نے جبریل علیہ السلام کو زمین میں مٹی لانے کیلئے بھیجا تو زمین نے عرض کی کہ میں تجھ سے اللہ کی پناہ میں آتی ہوں کہ تو مجھ سے کوئی کمی کرے یا مجھے عیب ناک کر دے تو وہ مٹی لئے بغیر ہی واپس چلے گئے اور عرض کی :اے اللہ!اس نے تیری پناہ میں آنے کی درخواست کی تو میں نے اس کو پناہ دے دی۔ اللہ تعالیٰ نے پھر حضرت میکائل کو بھیجا ،زمین نے اس سے بھی پناہ مانگی تو اس نے بھی پناہ دے دی اور حضرت جبریل کی طرح واقعہ بتا دیا پھر اللہ نے موت کے فرشتوں کو بھیجا۔زمین نے اس سے بھی پناہ مانگی تو اس نے کہا میں اس سے اللہ کی پناہ میں آتا ہوں کہ میں اللہ کے حکم کی تعمیل کئے بغیر واپس چلا جاؤں اور اس سے مختلف جگہوں سے سرخ ،سیاہ اور سفید مٹی اکٹھی کی جس کی بنا پر آدم علیہ السلام کی اولاد بھی مختلف رنگوں والی ہے ۔( روایت سدی رحمتہ اللہ بحوالہ ابن عباسؓ وابن مسعودؓ )وہ مٹی لے کرعرش پر چلے گئے اور اس کو پانی کے ساتھ تر کیا ۔پانی سے تر کرنے سے وہ چپکنے والی لیس دار مٹی بن گئی۔ اس پر باری تعالیٰ نے فرشتوں کو فرمایا :میں مٹی سے انسان بنانے والا ہوں ۔جب میں اس کو اچھی طرح بنا لوں اور اس میں اپنی پیدا کردہ روح ڈال دوں تو اس کیلئے سجدہ کرتے ہوئے گر جانا۔اللہ تعالی ٰنے علم کے ساتھ آدم علیہ السلام کا ان پر شرف اور مرتبہ واضح کیا ۔حضرت ابن عباسؓ نے کہا ان سے مراد وہی نام ہیں جو لوگوں کے ہاں مشہور و معروف ہیں۔انسان ، جانور ، زمین ، سمندر ، پہاڑ ، اونٹ ، گدھا وغیرہ۔مجاہد نے کہا :پیالہ اور ہنڈیا وغیرہ کے نا م سکھائے،حتی کہ پھسکی اور گوز کا نام بھی بتا یا۔ مجاہد نے مزید کہا:ہر جانور ،پرند ، چرند اور ہر ضرورت کی ہر چیز کے نام سکھائے۔سعید بن جبیر ، قتادہ وغیرہ نے بھی اسی طرح کہا ہے۔الربیع نے کہا:فرشتوں کے نام سکھائے۔عبدالرحمن بن زید نے کہا :ان کی اولاد کے نام سکھائے۔اللہ نے آدم علیہ السلام کو ہر چھوٹی اور بڑی چیز اور ان کے افعال کے نام سکھائے ۔ حضرت انس بن مالکؓ نے رسول اللہﷺ سے روایت کرتے ہوئے فرمایا :قیامت کے دن ایمان والے اکٹھے ہوں گے اور کہیں گے کاش ہم اپنے رب کے پاس سفارش کرنے والا طلب کریں ،پھر وہ آدم کے پاس آئیں گے اور کہیں گے اے آدم!
صلوٰۃ " (نماز) کے لغوی معنی "دعا" کے ہیں۔ قرآن میں فرمانِ اللہ ہے: خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌاے پیغمبر! ان لوگوں کے اموال میں سے صدقہ وصول کرلو جس کے ذریعے تم انہیں پاک کردو گے اور ان کے لیے باعثِ برکت بنو گے، اور اُن کے لیے دعا کرو۔ یقینا! تمہاری دعا ان کے لیے سراپا تسکین ہے، اور اللہ ہر بات سنتا اور سب کچھ جانتا ہے جبکہ فرمانِ نبوی ہے: اور اللہ کی جانب سے "صلوٰۃ" کے معنی بہترین ذکر کے ہیں جبکہ ملائکہ کی طرف سے "صلوٰۃ" کے معنی دعا ہی کے لیے جائیں گے۔ قرآن میں لکھا ہے: إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًابے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو!
محمد علی جناح پیدائشی نام، محمد علی جناح بھائی، 25 دسمبر 1876ء – 11 ستمبر 1948ء) کے نامور وکیل، سیاست دان اور بانی پاکستان تھے۔ محمد علی جناح 1913ء سے لے کر پاکستان کی آزادی 14 اگست 1947ء تک آل انڈیا مسلم لیگ کے سربراہ رہے، پھر قیام پاکستان کے بعد اپنی وفات تک، وہ ملک کے پہلے گورنر جنرل رہے۔ سرکاری طور پر پاکستان میں آپ کو قائدِ اعظم یعنی سب سے عظیم رہبر اور بابائے قوم یعنی قوم کا باپ بھی کہا جاتا ہے۔ جناح کا یومِ پیدائش پاکستان میں قومی تعطیل کے طور پر منایا جاتا ہے۔کراچی کے پیدائشی اور لنکن ان سے بیرسٹری کی تربیت حاصل کرنے والے جناح، بیسویں صدی کے ابتدائی دو عشروں میں آل انڈیا کانگریس کے اہم رہنما کے طور پر ابھرے۔ اپنی سیاست کے ابتدائی ادوار میں انہوں نے ہندو مسلم اتحاد کے لیے کام کیا۔ 1916ء میں آل انڈیا مسلم لیگ اور آل انڈیا کانگریس کے مابین ہونے والے میثاق لکھنؤ کو مرتب کرنے میں بھی انہوں نے اہم کردار ادا کیا۔ جناح آل انڈیا ہوم رول لیگ کے اہم رہنماوں میں سے تھے، انہوں نے چودہ نکات بھی پیش کیے، جن کا مقصد ہندوستان کے مسلمانوں کے سیاسی حقوق کا تحفظ کرنا تھا۔ بہر کیف جناح 1920ء میں آل انڈیا کانگریس سے مستعفی ہو گئے، جس کی وجہ آل انڈیا کانگریس کے موہن داس گاندھی کی قیادت میں ستیاگرا کی مہم چلانے کا فیصلہ تھا۔1940ء تک جناح کو یہ یقین ہو چلا تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک علاحدہ وطن کی جدوجہد کرنی چاہیے۔ اسی سال، مسلم لیگ نے جناح کی قیادت میں قرارداد پاکستان منظور کی جس کا مقصد نئی مملکت کی قیام کا مطالبہ تھا۔دوسری جنگ عظیم کے دوران، آل انڈیا مسلم لیگ نے مضبوطی پکڑلی جبکہ ان ادوار میں کانگریس کے کئی رہنما قید کاٹ رہے تھے اور جنگ کے ختم ہونے کے مختصر عرصے میں ہی انتخابات کا انعقاد ہوا، جس میں جناح کی جماعت نے مسلمانوں کے لیے مختص نشستوں میں سے بڑی تعداد جیت لی۔ اس کے بعد آل انڈیا کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ متحدہ ہندوستان میں اختیارات کے توازن کے لیے کسی صیغے پر متفق نا ہو سکے نتیجتاً تمام جماعتیں اس امر پر متفق ہوگئیں کہ ہندوستان کے دو حصے کیے جائیں جن میں ایک مسلم اکثریتی علاقوں میں پاکستان جبکہ باقی ماندہ علاقوں میں بھارت کا قیام ہو۔پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کے طور پر جناح نے اپنی حکومتی پالیسیوں کے قیام کے لیے کام کیا نیز انہوں نے ان لاکھوں لوگوں کے بہبود اور آباد کاری کے لیے بھی کام کیا جو تقسیم ہند کے بعد پاکستان کی جانب ہجرت کر چلے تھے، انہوں نے ان مہاجر کیمپوں کی ذاتی طور پر دیکھ بھال کی۔ جناح 71 سال کے عمر میں انتقال کر گئے جبکہ ان کے نوزائیدہ ملک کو سلطنت برطانیہ سے آزاد ہوئے محض ایک سال کا عرصہ ہوا تھا۔ ان کی سوانح عمری لکھنے والے لکھاری،اسٹینلی وولپرٹ لکھتے ہیں کہ، وہ (یعنی جناح) پاکستان کے عظیم ترین رہنما رہیں گے۔
اسلام ایک توحیدی مذہب ہے جو اللہ کی طرف سے، حضرت محمد ﷺ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ذریعے انسانوں تک پہنچائی گئی آخری الہامی کتاب (قرآن مجيد) کی تعلیمات پر قائم ہے۔ یعنی دنیاوی اعتبار سے بھی اور دینی اعتبار سے بھی اسلام (اور مسلم نظریے کے مطابق گذشتہ ادیان کی اصلاح) کا آغاز، 610ء تا 632ء تک 23 سال پر محیط عرصے میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اللہ کی طرف سے اترنے والے الہام (قرآن) سے ہوتا ہے۔ قرآن عربی زبان میں نازل ہوا (برائے وجہ : اللسان القرآن) اور اسی زبان میں دنیا کی کل آبادی کا کوئی 24% حصہ یعنی لگ بھگ 1.6 تا 1.8 ارب افراد اس کو پڑھتے ہیں ؛ ان میں (مختلف ذرائع کے مطابق) قریباً 20 تا 30 کروڑ ہی وہ ہیں جن کی مادری زبان عربی ہے جبکہ 70 تا 80 کروڑ، غیر عرب یا عجمی ہیں جن کی مادری زبان عربی کے سوا کوئی اور ہوتی ہے۔ متعدد شخصی ماخذ سے اپنی موجودہ شکل میں آنے والی دیگر الہامی کتابوں کے برعکس، بوسیلۂ وحی، فردِ واحد (محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے منہ سے ادا ہوکر لکھی جانے والی کتاب اور اس کتاب پر عمل پیرا ہونے کی راہنمائی فراہم کرنے والی شریعت ہی دو ایسے وسائل ہیں جن کو اسلام کی معلومات کا منبع قرار دیا جاتا ہے۔
فاطمہ بنت محمد بن عبد اللہ جن کا معروف نام فاطمۃ الزہراء ہے حضرت محمد بن عبد اللہ اور خدیجہ بنت خویلد کی بیٹی تھیں۔ تمام مسلمانوں کے نزدیک آپ ایک برگزیدہ ہستی ہیں۔۔ آپ کی ولادت 20 جمادی الثانی بروز جمعہ بعثت کے پانچویں سال میں مکہ میں ہوئی۔ آپ کی شادی علی ابن ابی طالب سے ہوئی جن سے آپ کے دو بیٹے حسن اور حسین اور دو بیٹیاں زینب اور ام کلثوم پیدا ہوئیں۔ آپ کی وفات اپنے والد حضرت محمد بن عبد اللہ کی وفات کے کچھ ماہ بعد 632ء میں ہوئی۔ آپ کے بہت سے القابات مشہور ہیں۔
استسقاء کے معنی ہیں بارش یا سیرابی مانگنا۔ شریعت میں دعائے بارش کو استسقاء کہتے ہیں جوضرورت کے وقت کی جائے۔ استسقاءکی تین صورتیں ہیں:صرف دعائے بارش کرنا، نوافل پڑھ کر دعاکرنا،باقاعدہ جنگل میں جاکرنماز باجماعت پڑھنا بعد نماز خطبہ اور بعدخطبہ دعا مانگنا،چادر الٹی کرنا یہ تینوں طریقے حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں،یہ نماز تین دن تک پڑھی جائے۔ خیال رہے کہ امام اعظم ابو حنیفہ نے نماز استسقاء کا انکارنہیں کیابلکہ حصر کا انکار کیا ہے کہ استسقاءصرف نماز سے ہی نہیں ہوتا اور دوسرے طریقے سے بھی ہوتاہے۔
جنگ یمامہ حضرت ابوبکر صدیق کے دور خلافت جمادی الاخری سن 12 ہجری میں یمامہ کے مقام پر پیش آئی یہ جنگ مسیلمہ کذاب کے خلاف کی گئی تھی کیونکہ اس ملعون نے نبوت کا جھوٹا دعوی کیا تھا۔ قاتل امیر حمزہ حضرت وحشی رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نام کے صحابی نے اس کو قتل کیا تھا اور ایک انصاری نے بھی قتل کرنے میں شرکت کی تھی۔ مسیلمہ جس دن قتل ہو ا اس کی عمر ڈیڑھ سو سال تھی اس کی پیدائش آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے والد عبد اللہ سے بھی پہلے کی تھی۔
پلوٹو (علامتیں: یا ) ایک بونا سیارہ ہے جو 1930ء میں دریافت ہوا تھا۔ پلوٹو 1930ء سے 2006ء تک نظامِ شمسی کے نویں سیارے کے طور پر جانا جاتا رہا ہے۔ لیکن 2006ء میں اس کی ایک شمسی سیارے سے تنزلی کرکے ایک بونے سیارے کا درجہ دیا گیا ہے۔ یہ نظامِ شمسی کا ایک بہت اہم فیصلہ سمجھا جاتا ہے کیونکہ تقریباً پچھتر سال تک درسی کتابیں سورج کو نو سیاروں والے ستارے کے طور پر روشناس کرواتی رہی ہیں۔ پلوٹو 2 ہزار 370 کلومیٹر چوڑا ہے۔
قیامت انسان کے مرنے کا نام ہے کیوں کے جب انسان موت کی نیند سوجاتا ہے تو اس کی روح قیامت کا منظر دیکھ رہی ہوتی ہے اور یہ ہی سچ ہے قرآن مجید سے بی اور صحیح بخاری حدیث سے بی اسلامی عقیدہ کے مطابق جس دن ﷲ تعالیٰ تمام مردوں کو زندہ کرے گا وہ میٹر اور ہے کیوں کے قیامت آنے سے پہلے جو انسان فوت ہوجاے ہیں وہ دوزخ والے دوزخ اور جنت والے جنت میں اپنے اپنے عمال ناموں کے حساب سے نتایج حاصل کر کے جاچکے ہوتے ہیں کیوں کے ہمارا اللہ ہمارا خدا کبھی فیصلہ کرنے میں دیر نہی کرتا اور پھر قیامت والے دن ان سے ان کے تمام نیک و بد اعمال کا حساب لے گا اورجس کے اعمال اچھے ہونگے اس کو جنت ملے گی اور وہ جنتیوں کے ساتھ اور جس کے اعمال برے ہونگے اس کو دوزخ ملے گی دوزخیوں کے ساتھ، اس دن کا نام یومِ قیامت یا یومِ آخرت ہے۔
انسان (انگریزی: Human) (سائنسی نام: Homo sapiens) کا لفظ زمین پر پائی جانے والی اس نوعِ حیات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جو جنس انس (homo) سے تعلق رکھتی ہے اور دنیا میں پائی جانے والی دیگر تمام تر انواع حیات سے برتر دماغ رکھتی ہے۔انسان کہلائی جانے والی مخلوق کی شناخت اس کی سیدھی قامت اور دو ٹانگوں سے چلنے والی مخلوق کے طور پر باآسانی کی جاسکتی ہے مزید یہ کے نوعِ حیاتِ انسان ایک معاشرتی مخلوق ہونے کے ساتھ ساتھ شعور (consciousness) و ادراک (cognition) میں دیگر تمام مخلوقات کی نسبت اعلٰی معیار تک پہنچی ہوئی مخلوق ہے۔ انسان کو آدم کی مناسبت سے اردو، عربی، اور فارسی میں آدمی بھی کہا جاتا ہے، اور اس کے لیے بشر کا لفظ بھی مستعمل ہے۔ آدمی اور بشر کی طرح انسان کا لفظ بھی اردو میں عربی زبان سے آیا ہے اور اپنی اساس انس سے ماخوذ ہے اور انسان ہی کے معنوں میں انس بھی استعمال ہوتا ہے، اسی لفظ انس سے ناس اور مرکب الفاظ عوام الناس وغیرہ بھی تخلیق کیے جاتے ہیں۔ قرآن میں بھی اس نوع حیات کے لیے انسان کے ساتھ ساتھ متعدد الفاظ استعمال ہوئے ہیں ؛ جن میں ایک انس (سورۃ الرحمٰن آیت 39) بھی ہے۔ انسان کے لیے اساس بننے والا لفظ انس اپنے الف کے نیچے زیر ہمزہ کا حامل ہے جس کو الف پر پیش کے ساتھ والے انس سے مبہم نا کرنا چاہیے جس کے معنی محبت کے ہوتے ہیں۔
غزوہ خیبر محرم 7ھ (مئی 628ء) میں مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان یہ جنگ ہوئی جس میں مسلمان فتح یاب ہوئے۔ خیبر یہودیوں کا مرکز تھا جو مدینہ سے 150 کلومیٹر عرب کے شمال مغرب میں تھا جہاں سے وہ دوسرے یہودی قبائل کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے رہتے تھے۔ چنانچہ مسلمانوں نے اس مسئلہ کو ختم کرنے کے لیے یہ جنگ شروع کی۔
سیدہ عائشہ بنت ابی بکر (رضی اللہ عنہا) (پیدائش: 614ء– وفات: 13 جولائی 678ء) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زوجہ ہیں۔ آپ کو اُم المومنین کے خطاب سے یاد کیا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد عہد خلفائے راشدین میں آپ کی شخصیت بہت نمایاں نظر آتی ہے۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد 47 سال بقید حیات رہیں اور یہ تمام وہ عرصہ ہے جس میں ابتدائی مسلم فتوحات ہوئیں، مختلف ممالک مملکت اسلامیہ میں داخل ہوئے۔ علم الحدیث میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایات کے بعد سب سے زیادہ روایاتِ حدیث کا ذخیرہ آپ سے ہی روایت کیا گیا ہے۔ آپ عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور عہد خلفائے راشدین کی عینی شاہد بھی تھیں اور مزید برآں آپ نے خلافت امویہ کے ابتدائی 17 سال بھی ملاحظہ فرمائے۔ آپ کا انتقال مدینہ منورہ میں سنہ 678 ء میں ہوا۔ آپ کے مناقب و فضائل کثیر ہیں جس سے آپ کی عظمت و شان جلالت مسلم خواتین پر نمایاں ہے۔جنگ جمل کے حوالے سے یہ بات معلوم ہونا بھی مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ کچھ احادیث اور تاریخی کتابوں کے واقعات میں راویوں پر علما اسلام کی طرف سے جرح بھی کی گئی ہے اور بہت سے راویوں کے حالات معلوم نہیں ہیں ۔مسلمان امت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اہل بیت اطھار کے بارے میں صحیح عقائد قرآن وسنت اور مستند و صحیح احادیث نبوی سے لیتے
لیما ( LEE-mə؛ ہسپانوی تلفظ: [ˈlima]) پیرو کا دارالحکومت اور سب سے بڑا شہر ہے۔ یہ بحرالکاہل کا نظارہ کرتے ہوئے ملک کے وسطی ساحلی حصے کے صحرائی علاقے میں، (Chillón)، (Rímac) اور (Lurín) دریاؤں کی وادیوں میں واقع ہے۔ کایاو کی بندرگاہ کے ساتھ مل کر یہ ایک متصل شہری علاقہ بناتا ہے جسے لیما میٹروپولیٹن علاقہ کہا جاتا ہے۔ اس کے میٹروپولیٹن علاقے میں 9.7 ملین سے زیادہ اور 10.7 ملین سے زیادہ آبادی کے ساتھ، لیما امریکہ کے بڑے شہروں میں سے ایک ہے۔
آسٹریلوی کرکٹ ٹیم کا دورہ جنوبی افریقہ 2023ء
آسٹریلوی کرکٹ ٹیم اگست اور ستمبر 2023ء میں جنوبی افریقی کرکٹ ٹیم کے خلاف 5 ایک روزہ بین الاقوامی اور 3 ٹوئنٹی 20 میچز کھیلنے کے لیے جنوبی افریقہ کا دورہ کرے گی۔ ایک روزہ میچز کرکٹ عالمی کپ 2023ء کے لیے دونوں ٹیموں کی تیاریوں کا حصہ بنیں گے۔دراصل یہ دورہ مارچ 2021ء میں ہونا تھاجس میں 3 ٹیسٹ میچز کھیلے جانے تھےجو پہلی عالمی ٹیسٹ چیمپئن شپ کا حصہ بننا تھے۔ تاہم کورونا وائرس (COVID-19) وبا کی وجہ سے یہ دورہ فروری 2021ء میں ملتوی کردیا گیا تھا۔
جمعہ کی نماز فرضِ عین ہے اور اس کی فرضیت ظہر سے زیادہ موکد ہے۔ یعنی ظہر کی نماز سے اس کی تاکید زیادہ ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ جو تین جمعے سستی کی وجہ سے چھوڑے اللہ تعالٰیٰ اس کے دل پر مہر کر دے گا اور ایک روایت میں ہے وہ منافق ہے اور اللہ سے بے علاقہ۔ اور چونکہ اس کی فرضیت کا ثبوت دلیل قطعی سے ہے لہٰذا اس کا منکر کافر ہے ۔
نعمان ابن ثابت بن زوطا بن مرزبان (پیدائش: 5 ستمبر 699ء– وفات: 14 جون 767ء) (فارسی: ابوحنیفه،عربی: نعمان بن ثابت بن زوطا بن مرزبان)، عام طور پر آپکو امام ابو حنیفہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ آپ سنی حنفی فقہ (اسلامی فقہ) کے بانی تھے۔ آپ ایک تابعی، مسلمان عالم دین، مجتہد، فقیہ اور اسلامی قانون کے اولین تدوین کرنے والوں میں شامل تھے۔ آپ کے ماننے والوں کو حنفی کہا جاتا ہے۔ زیدی شیعہ مسلمانوں کی طرف سے بھی آ پ کو ایک معروف اسلامی عالم دین اور شخصیت تصور کیا جا تا ہے۔ انہیں عام طور پر "امام اعظم" کہا جاتا ہے۔
حسن بن علی بن ابی طالب (621ء–670ء) علی بن ابی طالب اور محمد کی دختر فاطمہ زہرا کے سب سے بڑے بیٹے اور حسین بن علی کے بڑے بھائی تھے۔ اہل اسلام ان کا پیغمبر اسلام کے پوتے کے طور پر احترام کرتے ہیں۔ سنی مسلمان ان کو پانچواں خلیفہ راشد جبکہ شیعہ مسلمان حسن کو دوسرا امام مانتے ہیں۔ ان کے والد کی وفات کے بعد انہیں خلافت کے لیے منتخب کیا گیا لیکن چھ یا سات ماہ کے بعد معاویہ کے سپرد کر دی اور معاویہ کے دور میں خلافت ملوکیت میں بدل گئی اور وہ دولت امویہ کے بانی قرار پائے، یوں پہلے فتنے کا خاتمہ ہوا۔ حسن غریبوں کو عطیہ کرنے، غریبوں اور غلاموں پر اپنی شفقت اور اپنے علم، تاب آوری اور بہادری کے لیے جانے جاتے تھے۔ اپنی باقی زندگی حسن نے مدینہ منورہ میں ہی گزاری، یہاں تک کہ 48 سال کی عمر میں ان کا انتقال ہو گیا اور مدینہ منورہ کے جنت البقیع قبرستان میں سپرد خاک ہو گئے۔ عموماً ان کی زوجہ جعدہ بنت اشعث پر انہیں زہر دینے کا الزام لگایا جاتا ہے۔
بلجئیم یا بلژیک (فرانسیسی زبان: Belgique، ولندیزی زبان: België) شمال مغربی یورپ میں واقع ایک آزاد ملک آزاد ہے۔ اس کا سرکاری نام مملکت بلجئیم ہے۔ یورپی یونین کی یورپی پارلیمان اور نیٹو کے مرکزی دفاتر بلجئیم کے دارالحکومت برسلز میں قائم ہیں۔ بلجئیم کی شمالی سرحد نیدرلینڈز سے، مشرقی سرحد جرمنی سے، جنوب مشرقی سرحد لکسمبرگ سے اور جنوب مشرقی سرحد فرانس سے ملتی ہے۔ جب کہ بلجئیم کے شمال مغرب میں بحیرہ شمال واقع ہے۔ بلجئیم ایک خود مختار ریاست ہے جس میں آئینی بادشاہت قائم ہے اور اس ریاست کا طرز حکومت پارلیمانی نظام پر مشتمل ہے۔
حسین بن علی بن ابی طالب ( عربی: ٱلْحُسَيْن ٱبْن عَلِيّ 10 جنوری 623 - 10 اکتوبر 680) محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نواسے اور علی ابن ابی طالب اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی فاطمہ زہرا کے بیٹے تھے۔ وہ اسلام میں ایک اہم شخصیت ہیں کیوںکہ وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ( اہل بیت ) اور اہل کسا کے علاوہ تیسرے شیعہ امام بھی ہیں۔
محی الدین محمد (معروف بہ اورنگزیب عالمگیر) (پیدائش: 3 نومبر 1618ء— وفات: 3 مارچ 1707ء) جنہیں عام طور پر اورنگ زیب کے نام سے جانا جاتا ہے مغلیہ سلطنت کا چھٹا شہنشاہ تھا جس نے 1658ء سے 1707ء تک حکومت کی۔ ان کی شہنشاہی کے تحت ، مغل وں نے اپنی سب سے بڑی حد تک رسائی حاصل کی اور ان کا علاقہ تقریبا پورے برصغیر میں پھیلا ہوا تھا۔ وہ مغلیہ سلطنت کا آخری عظیم الشان شہنشاہ تھا۔ اُس کی وفات سے مغل سلطنت زوال کا شکار ہو گئی۔آخری موثر مغل حکمران سمجھے جانے والے اورنگ زیب نے فتاوی عالمگیری کو مرتب کیا اور برصغیر پاک و ہند میں شریعت اور اسلامی معاشیات کو مکمل طور پر قائم کرنے والے چند بادشاہوں میں سے تھے۔اورنگ زیب کا تعلق امیر تیموری خاندان سے تھا ، اس نے اپنے والد شاہ جہاں کے تحت انتظامی اور فوجی عہدوں پر فائز رہا اور ایک قابل فوجی کمانڈر کے طور پر پہچان حاصل کی۔ اورنگ زیب نے 1636-1637 میں دکن کے وائسرائے اور 1645-1647 میں گجرات کے گورنر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ اس نے 1648–1652 میں ملتان اور سندھ کے صوبوں کا مشترکہ طور پر انتظام کیا اور ہمسایہ صفوی علاقوں میں مہمات جاری رکھیں۔ ستمبر 1657 میں ، شاہ جہاں نے اپنے سب سے بڑے دارا شکوہ کو اپنا جانشین نامزد کیا ، اس اقدام کو اورنگ زیب نے مسترد کردیا ، جس نے فروری 1658ء میں خود کو شہنشاہ قرار دیا۔ اپریل 1658ء میں ، اورنگ زیب نے دھرمات کی لڑائی میں شکوہ اور مارواڑ کی اتحادی فوج کو شکست دی۔ مئی 1658ء میں سموگڑھ کی جنگ میں اورنگ زیب کی فیصلہ کن فتح نے اس کی خودمختاری کو مضبوط کیا اور اس کی بالادستی کو پوری سلطنت میں تسلیم کیا گیا۔ جولائی 1658 میں شاہ جہاں کی بیماری سے صحت یابی کے بعد اورنگ زیب نے اسے حکومت کرنے کے لئے نااہل قرار دیا اور اپنے والد کو آگرہ قلعہ میں قید کر دیا۔اورنگ زیب کی بادشاہت کے تحت ، مغلوں نے اپنی سب سے بڑی حد تک رسائی حاصل کی اور ان کا علاقہ تقریبا پورے برصغیر پاک و ہند میں پھیلا ہوا تھا۔ ان کے دور حکومت میں تیزی سے فوجی توسیع کا دور تھا ، جس میں مغلوں نے متعدد خاندانوں اور ریاستوں کا تختہ الٹ دیا تھا۔ ان کی فتوحات نے انہیں عالمگیر (فاتح) کا لقب دیا۔ مغلوں نے چنگ چین کو بھی پیچھے چھوڑ تے ہوئے دنیا کی سب سے بڑی معیشی طاقت کا اعزاز حاصل کیا۔ مغل فوج آہستہ آہستہ بہتر ہوئی اور دنیا کی سب سے مضبوط فوجوں میں سے ایک بن گئی۔ اورنگ زیب کو متعدد مساجد کی تعمیر اور عربی خطاطی کے کاموں کی سرپرستی کا سہرا دیا جاتا ہے۔ انہوں نے کامیابی کے ساتھ فتاوی عالمگیری کو سلطنت کا مرکزی ادارہ قرار دیا اور اسلام میں مذہبی طور پر ممنوع سرگرمیوں پر پابندی عائد کردی۔ اگرچہ اورنگ زیب نے متعدد مقامی بغاوتوں کو دبایا ، لیکن اس نے غیر ملکی حکومتوں کے ساتھ خوشگوار تعلقات برقرار رکھے۔ اورنگ زیب کو عام طور پر مورخین ہندوستانی تاریخ کے عظیم ترین شہنشاہوں میں سے ایک مانتے ہیں۔ اورنگ زیب عالمگیر کے دور میں ہندوستان دنیا کا امیر ترین ملک تھا اور دنیا کی کل جی ڈی پی کا ایک چوتھائی حصہ پیدا کرتا تھا۔ جب کہ اسی دوران انگلستان کا حصہ صرف دو فیصد تھا۔
متوشلح (عربی: مَتُّوشَلَخَ، فارسی: متوشالح، انگریزی: Methuselah، عبرانی: מְתֿוּשֶלַח یا מְתֿוּשָלַח، طبری تلفظ صوتی: Məṯûšélaḥ یا Məṯûšālaḥ،عصر حاضر:Mətušélaḥ یا Mətušálaḥ) حضرت نوح کے دادا اور حضرت ادریس عہ کے بیٹے تھے۔ اس نام کا معنی نیزے یا بھالے کا بیٹا ہے اس سے مراد جنگی فن و حرب کا ماہر ہونا بھی سمجھاجاسکتاہے۔ جبکہ اس نام کاایک متبادل معنی "کہ اس کی موت پر حتمی انصاف کا دن آئے گا" بھی ہے۔عبرانی بائبل میں مذکور ہے کہ اس نام کا شخص طویل عمر جیا۔ مزید بائبلی روایات بتاتی ہیں کہ متوشلح حشوان مہینے کے گیارہویں دن اور یوم العالم کے سال 1656 میں فوت ہوا۔ اس وقت اس کی عمر 969 سال تھی۔ یہ دن طوفان نوح کے ٹھیک 7 دن پہلے قرارپاتاہے۔ یہ لفظ کسی بھی زندہ شے/جاندار کی طرف حوالے کے طور پر استعمال کیاجاتاہے کہ جب اس کی عمر غیر معمولی طویل ہو جائے۔
ورائے حقیقت پسندی (Surrealism) ایک 1920 کی دہائی کی ایک فنکارانہ اور ادبی رویہ اور تحریک۔۔۔۔ دو عالمی جنگوں کے درمیاں جب فرد شدید زہنی انتشار کا شکار ھوا۔ تو یورپی معاشروں تو سریلسٹ تحریک کا آغاز ھوا۔ عموما کہا جاتا ہے کہ سریلیسٹ تحریک پر سگمنڈ فرائڈ کے نفسی نظریات کے سبب پروان چڑھی۔ حالانکہ اصل میں اس کا ماخذ ہیگل کے فلسفیانہ نظریات میں بہت پہلے نظر آ گئے تھے۔ سرئیلزم کے معنی" حقیقت سے ماورا ایک اور حقیقت" کے ہیں۔ اس کے علاوہ اظہاری اور فنکارانہ طور پر یہ تحریک" تحت الشعور میں ڈوب کر فن کو تخلیق" کرنے کا دوسرا نام ہے۔ جو ڈاڈا ازم کا فکری اور فنکارانہ رد عمل بھی تھا۔ مگر اس میں سرئیلرازم کی خاصی مماثلث بھی ہے۔ اس تحریک کے بانی اندرے برئیتوں تھے۔ جس کو وہ خالص نفسی خود کاریت (PURE PSYEHIE AUTOMATISM) کہتے تھے۔ یہ تحریری، زبان اور دیگر مفاہیم میں استعمال ھوتی ہے۔ سرئیلرازم میں فکر تصورات اور اظہار کی سچائی کو اہمیت دی جاتی ہے۔ یہ تمام ان زہنی مشقوں سے متعلق ہے جو جمالیاتی، اخلاقی قدروں اور معاشرتی تحریمات سے انحراف کرتی ہے۔ مگر یہ تحریک زیادہ عرصے چل نہ سکی اور اس کے بہت سے اراکین اس تحریک سے علحیدہ ھو گئے۔ مثال کے طور پر لوئی آرگن اور فلپ سوپول نے اس تحریک سے الگ ھوکر یسساریت پسند (LEFTISM) تحریک میں شمولت اختیار کی۔۔۔ یہ تحریک ایک انتشاری اور نفی دانش کی تحریک تھی۔ جو خواب اور حقیقت کو ایک نکتے پر دیکھنا چاھتی تھی۔ ھربرٹ ریڈ کے بقول " جو تخلیق کا زاریہ مشاہدہ کی بجائے وجدان، تجزیے کی بجائے ادغام اور حقیقت کی بجائے تمثال کے طرف موڈ دیتے ہیں۔ اس تحریک کے اثرات مصوری، ڈراما، فلم، ادب، مجسمہ سازی اور آرکیٹیکچر پر ھوئے۔ اردو مین ساٹھویں کی دہائی کی شاعری میں ورائے حقیقت پسندی کے خاصے اثرات دکھائی دیتے ہیں۔
کمپیوٹر فونٹ یا فقط فانٹ (انگریزی: Computer font) ایک ایسی ڈیجیٹل فائل یا مسل ہوتا ہے جس میں تصویری شکل میں حروف کی مختلف صورتیں محفوظ کی گئی ہوتی ہیں۔ اصولی طور پر انگریزی کا لفظ فانٹ (font) دھاتی ٹکڑوں پر مشتمل حروف اور الفاظ کی اشکال کے لیے استعمال ہوتا تھا مگر 90 کی دہائی سے یہ لفظ ڈیجیٹل شکل میں موجود ایک خط کی اشکال کے لیے استعمال ہوتا ہے جنہیں مختلف حجم میں ظاہر کیا جا سکتا ہے۔ فانٹ کا خاندان درحقیقت ایک دوسرے سے متعلق خطوط کا مجموعہ ہوتا ہے۔
بطریق اعظم یا پاپائے اعظم یا پوپ یا بطریق، (انگریزی زبان میں : Pope) کے لغوی معنی باپ کے ہیں۔ رومن کیتھولک کلیسیا کا سب سے بڑا پادری جسے یسوع مسیح کے رسول مقدس پطرس کا سلسلہ وار جانشین سمجھا جاتا ہے۔ اس کی رہائش روم کے وسط میں واقع ایک خود مختار ریاست میں ہے۔ جس کا نام ویٹیکن سٹی ہے۔ شروع میں میں پوپ مسیحیوں کا نہ صرف مذہبی رہنما بلکہ ان کا سیاسی حاکم اعلیٰ تصور کیا جاتا تھا۔ اور یوں پاپائیت کا ایک دور یورپ کے اندر چلا۔ پوپ کی وفات کے بعد گرجاؤں کے صدور یا کردنال 18 دن کے اندر اندر خفیہ رائے شماری کے ذریعے اس کا جانشین منتخب کرتے ہیں۔
صحیح بخاری کا اصل نام «الجامع المسند الصحیح المختصر من امور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وسننہ و ایامہ» ہے جو «صحیح البخاری» کے نام سے مشہور ہے، یہ اہل سنت وجماعت کے مسلمانوں کی سب سے مشہور حدیث کی کتاب ہے، اس کو امام محمد بن اسماعیل بخاری نے سولہ سال کی مدت میں بڑی جانفشانی اور محنت کے ساتھ تدوین کیا ہے، اس کتاب کو انھوں نے چھ لاکھ احادیث سے منتخب کر کے جمع کیا ہے۔ اہل سنت کے یہاں اس کتاب کو ایک خاص مرتبہ و حیثیت حاصل ہے اور ان کی حدیث میں چھ امہات الکتب (صحاح ستہ) میں اول مقام حاصل ہے، خالص صحیح احادیث میں لکھی جانی والی پہلی کتاب شمار ہوتی ہے، اسی طرح اہل سنت میں قرآن مجید کے بعد سب سے صحیح کتاب مانی جاتی ہے۔ اسی طرح صحیح بخاری کا شمار کتب الجوامع میں بھی ہوتا ہے، یعنی ایسی کتاب جو اپنے فن حدیث میں تمام ابواب عقائد، احکام، تفسیر، تاریخ، زہد اور آداب وغیرہ پر مشتمل اور جامع ہو۔
امیر معاویہ یا معاویہ اول (عربی: معاوية بن أبي سفيان، 597ء، 603ء یا 605ء – اپریل 680ء) خلافت امویہ کے بانی تھے اور 661ء سے اپنی وفات 680ء تک خلیفہ رہے۔ وہ نبی محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے 30 سال بعد خلیفہ بن گئے، ان سے قبل خلفائے راشدین اور حسن ابن علی خلیفہ رہے۔ اگرچہ ان کے دور میں انفاص و تقوی کو دور خلفائے راشدین کے مقابلے میں کمتر سمجھا جاتا ہے، لیکن نمو پزیر اسلام میں امیر معاویہ پہلے مسلمان خلیفہ ہیں جن کا نام سرکاری دستاویزات، سکوں اور کتبوں پر کندہ ہوا۔ امیر معاویہ کاتبین وحی میں سے تھے۔
اللہ عربی زبان میں خالق کے لیے استعمال ہونے والا لفظ ہے۔، خالق تخلیق کرنے والے کو کہا جاتا ہے اور فارسی اور اردو زبانوں میں اللہ کے لیے خدا اور پروردگار کے الفاظ بھی ادا کیے جاتے ہیں۔ کھوار زبان میں اللہ کے لیے خدای کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ اللہ کا لفظ انگریزی زبان کے لفظ God کا عربی متبادل ہے۔ یہ لفظ مسلمانوں کی زبانوں تک محدود نہیں بلکہ مشرق وسطی اور دیگر اسلامی ممالک میں رہنے والے مسیحی، یہودی اور بعض اوقات دیگر مذاہب کے ماننے والے بھی خدا واحد کے لیے اللہ کا لفظ ہی استعمال کرتے ہیں اور بائبل کے عربی تراجم میں God کے لیے اللہ کا لفظ ہی استعمال کیا جاتا ہے
عیسیٰ ابن مریم ( عربی: عِيسَى ٱبْنُ مَرْيَمَ) ' تورات کے مطابق عیسیٰ ابن مریم ' کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ خدا کے آخری نبی اور رسول ہیں اور بنی اسرائیل ( Banī Isra'īl ) کی رہنمائی کے لیے انجیل نامی کتاب کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث کیے گئے مسیحا ہیں ۔ قرآن میں، یسوع کو المسیح ( al-Masīḥ ) کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ جو معجزانہ طور پر ایک کنواری سے پیدا ہوئے، اپنے شاگردوں کے ساتھ معجزات دیکھاتے تھے،اور اللہ نے معجزانہ طور پر ان کو بچایا زندہ آسمان پر اٹھا لیا۔ یہودی مذہبی اسٹیبلشمنٹ نے مسترد کر دیا ہے، لیکن صلیب پر مرنے کے طور پر نہیں (اور نہ ہی دوبارہ زندہ کیے جانے پر) ، بلکہ جیسا کہ خدا نے ان کو معجزانہ طور پر بچایا اور آسمان پر زندہ اٹھا لیا۔ قرآن واضح طور پر اور بار بار اس خیال کو مسترد کرتا ہے کہ عیسیٰ کو ( یہودی یا رومی ) حکام نے نہ قتل کیا تھا اور نہ ہی وہ مصلوب کیے گے تھے۔ قرآن نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو عظیم ترین نبیوں میں شمار کیا ہے اور ان کا ذکر مختلف القابات سے کیا ہے۔ عیسیٰ کی نبوت سے پہلے یحییٰ کی نبوت ہے اور محمد کی جانشینی ہے، جن کے بعد کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ عیسیٰ نے احمد کا نام استعمال کرکے پیشین گوئی کی تھی۔ یسوع مسیح کے بارے میں اسلام میں مختلف قسم کی متغیر تشریحات موجود ہیں۔ قرآن کی مرکزی دھارے کی تشریحات میں آرتھوڈوکس عیسائی فلسفہ الہی ہائپوسٹاسس کے بارے میں کرسٹولوجی کے نظریاتی تصورات کا فقدان ہے، اس لیے بہت سے لوگوں کے لیے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن مسیح کو مسترد کرتا ہے کیونکہ یسوع مسیح کی الوہیت کے نظریے کے مسیحی نقطہ نظر میں ایک یہودی مسیحی خدا کے اوتار ہونے کے ناطے انسان، یا انسانی جسم میں خدا کے لفظی بیٹے کے طور پر، جیسا کہ یہ ظاہری طور پر متعدد آیات میں یسوع کے خدا کے طور پر الہامی انسانیت کے نظریے کی تردید کرتا ہے، اور اس بات پر بھی تاکید کرتا ہے کہ یسوع مسیح نے ذاتی طور پر خدا ( خدا باپ ) ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اصل پیغام ( taḥrīf ) میں ان کے زندہ ہونے کے بعد تبدیلی کی گئی تھی۔ قرآن مجید میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توحید پر زور دیا گیا ہے۔ اسلام میں تمام انبیاء کی طرح، عیسیٰ کو بھی رسول کہا جاتا ہے، جیسا کہ انہوں نے تبلیغ کی کہ ان کے پیروکاروں کو ' صراط المستقیم ' اختیار کرنا چاہیے۔ اسلامی روایت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بہت سارے معجزات سے منسوب کیا گیا ہے۔ روایتی اسلامی تعلیمات میں، یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ عیسیٰ مسیح امام مہدی کے ساتھ دوسری آمد میں مسیح الدجال ('جھوٹا مسیح') کو قتل کرنے کے لیے واپس آئیں گے، جس کے بعد قدیم قبائل یاجوج ماجوج ( Yaʾjūj Maʾjūj ) کے ساتھ۔ منتشر ہو جائیں گے.
محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصال کے بعد ابوبکر صدیق، عمر فاروق، عثمان غنی اور علی المرتضی، حسن المجتبی کا عہد خلافت خلافت راشدہ کہلاتا ہے۔ اس عہد کی مجموعی مدت تیس سال ہے جس میں ابوبکر صدیق اولین اور علی آخری خلیفہ ہیں، حسن کی خلافت کے چھ ماہ خلافت علی میں شمار ہوتے ہیں جیسا کہ جمہور اسلاف کی رائے ہے۔ اس عہد کی نمایاں ترین خصوصیت یہ تھی کہ یہ قرآن و سنت کی بنیاد پر قائم نظام حکومت تھا۔
مسیلمہ (حقیقی نام مسیلمہ بن حبیب) عرب میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی میں ہی نبوت کے مدعی کے طور پر سامنے آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی میں یہ معاملہ جیسے تیسے چلتا رہا، مسیلمہ نے آپ کو مکتوب بھی لکھا اور اپنی نبوت میں شریک کرنے کو کہا جسے آپ نے یکسر مسترد کیا اور اس کا علمی رد کر کے اسے کذاب ثابت کیا۔ آپ کے وصال کے بعد خلیفہ اول ابوبکر صدیق کے دور میں جب مسلمان دیگر مرتدین کے خاتمے میں مصروف تھے اس دوران مسیلمہ اپنا دعویٰ نبوت عام کرنے میں مصروف رہا اور اس نے اتنی طاقت حاصل کر لی کہ اس کا چالیس ہزار کا لشکر یمامہ کی وادیوں میں پھیل گیا۔ اس نے باقاعدہ خلافت کی عملداری کو چیلنج کیا اور بغاوت پر اتر آیا اور اپنی نبوت نہ ماننے والوں کو قتل کرنا شروع کر دیا۔ چنانچہ اس کی سرکوبی ناگزیر ہو گئی تھی۔ ابوبکر صدیق نے مسیلمہ کے مقابلے لیے عکرمہ بن ابی جہل کو یمامہ کی طرف روانہ کیا اور عکرمہ کی مدد کے لیے شرجیل کو بھی روانہ کیا۔ شرجیل کے پہنچنے سے قبل ہی عکرمہ نے لڑائی کا آغاز کر دیا لیکن انہیں شکست ہوئی۔ اس عرصے میں شرجیل بھی مدد کو آ پہنچے لیکن دشمن کی قوت بہت بڑھ چکی تھی۔ مسیلمہ کی نبوت کی تائید بنی حنیفہ نے بھی کی اس وقت ان کا بہت زور تھا۔ شرجیل نے بھی پہنچتے ہی دشمن سے مقابلہ شروع کر دیا لیکن کامیابی نہ ہوئی۔ اس عرصے میں حضرت خالد بن ولید دیگر مرتدین سے نمٹ چکے تھے۔ حضرت ابو بکر نے انہیں عکرمہ اور شرجیل کی مدد کے لیے یمامہ کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا۔خالد بن ولید اپنا لشکر لے کر یمامہ کی طرف روانہ ہوئے۔ مسیلمہ بھی خالد کی روانگی کی اطلاع سن کر مقابلے کی تیاریوں میں مصروف ہوا اور یمامہ سے باہر صف آرائی کی۔ مسلمانوں کے لشکر کی تعداد تیرہ ہزار تھی۔ ۔ فریقین میں نہایت سخت مقابلہ ہوا۔ پہلا مقابلہ بنو حنیفہ سے ہوا۔ اسلامی لشکر نے اس دلیری سے مقابلہ کیا کہ بنو حنیفہ بد حواس ہو کر بھاگ نکلے اور مسیلمہ کے باقی آدمی ایک ایک کر کے خالد کی فوجوں کا نشانہ بنتے رہے۔ جب مسیلمہ نے لڑائی کی یہ صورت حال دیکھی تو وہ اپنے فوجیوں کے ساتھ جان بچا کر بھاگ نکلا اور میدان جنگ سے کچھ دور ایک باغ میں پناہ لی لیکن مسلمانوں کو تو اس فتنے کو جڑ سے اکھاڑنا تھا اس لیے خالد بن ولید نے باغ کا محاصرہ کر لیا۔ باغ کی دیوار اتنی اونچی تھی کے اس کو کوئی بھی پار نہیں کر سکتا تھا۔ اس وقت ایک صحابی حضرت زید بن قیس نے حضرت خالد بن ولید کو فرمایا میں یہ دیوار پار کر کے تمہارے لیے دروازے کو کھول دوں گا گر تم میرے لیے ایک اونچی سیڑھی بنا دو حضرت خالد بن ولید راضی ہو گئے۔ اگلے دن حضرت زید بن قیس سیڑھی کے ساتھ باغ میں اتر گئے۔ تب مسیلمہ کذاب نے اپنے فوجیوں کو حکم دیا کہ اس کو قتل کر دو۔ تب اس کے فوجیوں نے حضرت زید بن قیس کے ساتھ لڑائی شروع کردی۔ لڑائی میں حضرت زید بن قیس کا کندھا کٹ گیا۔ پھر بھی انہوں نے دروازے کو کھول دیا۔ ادھر مسلمان صف بندی کرچکے تھے۔ مسلمان اندر داخل ہونا شروع ہو گئے اور ایک دفعہ پھر گھمسان کی جنگ شروع ہو گئی۔ اچانک حضرت خالد بن ولید نیزہ لے کر مسیلمہ کو پکارنے لگے،یا عدو الله!اور مسیلمہ پر پھینک دیا، مگر اس کے محافظوں نے ڈھال بن کر اس کو بچالیا۔ اس وقت اس کے محافظ غیر حتمی طور پر اسے چھوڑ کے چلے گئے۔ پھر اسے حضرت حمزہ کے قاتل وحشی بن حرب(جو مسلمان ہوچکے تھے) نے ایسا نیزہ مارا کہ مسیلمہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔ اس طرح اس نے حضرت حمزہ کو شہید کرنے کا کفارہ ادا کیا۔ اس کے لشکر کے نصف آدمی مارے گئے۔ تقریباً یمامہ کے ہر گھر میں صف ماتم بچھ گئی۔ جنگ کے خاتمے کے بعد خالد بن ولید نے اہل یمامہ سے صلح کرلی۔ یہ جنگ جنگ یمامہ کے نام سے جانی جاتی ہے۔ مسیلمہ اور دیگر مدعیان نبوت کے خاتمے سے اسلامی سلطنت کے لیے ایک بہت بڑا خطرے کا خاتمہ ہو گیا جس میں اہم کردار حضرت ابوبکر کی دینی و سیاسی بصیرت کا تھا۔ اسلام کو انتشار سے بچانے کے لیے یہ آپ کا نہایت اہم کارنامہ ہے.اسلامی تاریخ کے یہ جہادی واقعات سبق دیتے ہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دئیے گئے دین اور پیغام کی ان کے ساتھیوں یعنی صحابہ کرام نے کتنی کاوشوں سے حفاظت کر کے اگلی نسلوں تک پہنچایا اور دنیا اور آخرت میں اپنے لئے سرمایہ بنایا.
مکمل ابراہیم علیہ السلام وہ پہلے پیغمبر تھے جن کو اللہ نے مُسلمان نبی پیغمبر ابو الانبیاء، خلیل اللہ امام الناس اور حنیف کہہ کر پُکارا۔اللہ تعالی نے اپنے اس دوست برگزیدہ اور پیارے نبی کو قرآن مجید میں امتہ (النحل : 120) امام الناس (البقرہ: 124) حنیف اور مسلم (آل عمران: 67) کے ناموں سے بار بار بار کیا ہے۔ اکثر انبیائے کرام انہی کی اولاد سے ہیں۔ابراہیم علیہ السلام کے نام کی وجہ تسمیہ کے بارے میں بائبل کا بیان ہے کہ خدا تعالی ان سے مخاطب ہو کر کہتا ہے۔ دیکھ میرا عہد تیرے ساتھ ہے اور تو بہت قوموں کا باپ ہو گا۔ اور تیرا نام ابرام نہیں بلکہ ابراہام ہو گا۔ کیونکہ میں نے تجھے قوموں کا باپ بنایا ہے۔ (پیدائش 170:5)اکثر ماہرین کے نزدیک ابراہام یا ابراہیم ؑ بھی لفظ ہے۔ ہو سکتا ہے کہ پہلے آپ کا نام ابراہم ہو اور پھر ابراہام یا ابو رہام ہو گیا ہو۔مُسلمان اُن کو خلیل اللہ (اللہ کا دوست) کہتے ہیں۔ ابراہیم کی نسل سے کئی پیغمبر پیدا ہوئے، جن کا تذکرہ عہدنامہ قدیم میں ہے۔ اسلام کی کتاب قرآن مجید میں بھی بہت سارے ایسے انبیا کا ذکر ہے جو ابراہیم کی نسل میں سے تھے۔ اسلام کے آخری نبی مُحمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی ابراہیم کی نسل میں سے ہیں۔شرک، ستارہ پرستی اور بت سازی کے خلاف اپنی قوم اور اوروں کے ساتھ ان کا مجادلہ و محاجہ بڑے زور سے پیش کیا گیا ہے۔ ابراہیم کا بچپن میں ہی رشد عطا کیا گیا اور قلب سلیم بھی عنایت فرمایا گیا۔ تکوینی عجائبات اور ملکوت السمٰوت والارض ان کے سامنے تھے۔ انہیں کے مشاہدے سے اُن کو یقین کامل حاصل ہوا۔ بت پرستی کے خلاف ابراہیم کے جہاد کا ذکر بھی قران کریم میں کئی بار آیا ہے۔قرآن حکیم میں حضرت ابراہیم ؑ اور آذر کے اختلاف عقائد کو جس طرح نمایاں کیا گیا ہے اور جس طرح آپ اپنی قوم کے شرک سے متنفر اور متصادم ہوئے۔ اس سے ہم آپ کی عظمت و جلالت کی حقیقت کو بھی پاسکتے ہیں۔ اور اپنے لیے شمع ہدایت بھی روشن کر سکتے ہیں۔ اس وجہ سے مسلمانوں کو ملت براہیمی ہونے پر فخر ہے۔ ان کے بارے میں یہ توکہیں وضاحت نہیں ہوئی کہ کیا وحی ان پر نازل ہوئی تھی یا ان کی بعثت محض روحانی تھی؟ البتہ قرآن مجید میں ایک جگہ اس امر کی تصدیق ہوئی ہے کہ اللہ تعالی آپ سے ہمکلام تھا۔ اہل تاریخ کے نزدیک متعدد صحیفے تھے جو ابراہیم پر نازل ہوئے۔ ایک صحیفہ جو ان کی طرف سے منسوب ہے یونانی سے انگریزی میں ترجمہ ہو کر شائع ہو چکا ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ کے دین کے بارے میں قرآن مجید میں کئی جگہ پر ارشار ہوتا ہے کہ آپ موحد مسلم اورراست رو تھے۔ ارشاد ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے: ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ”پھر ہم نے تیری طرف (حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی طرف) وحی کی کہ ابراہیم ؑ راست رو (مسلم) کے دین پر چل اور وہ مشرکوں میں سے نہیں تھا “ اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے: يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تُحَآجُّونَ فِي إِبْرَاهِيمَ وَمَا أُنزِلَتِ التَّورَاةُ وَالإنجِيلُ إِلاَّ مِن بَعْدِهِ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ هَاأَنتُمْ هَؤُلاء حَاجَجْتُمْ فِيمَا لَكُم بِهِ عِلمٌ فَلِمَ تُحَآجُّونَ فِيمَا لَيْسَ لَكُم بِهِ عِلْمٌ وَاللّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ مَا كَانَ إِبْرَاهِيمُ يَهُودِيًّا وَلاَ نَصْرَانِيًّا وَلَكِن كَانَ حَنِيفًا مُّسْلِمًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْرَاهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ وَهَـذَا النَّبِيُّ وَالَّذِينَ آمَنُواْ وَاللّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ ”اے اہل کتاب! تم ابراہیم ؑ کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو۔ حالانکہ توریت اور انجیل اس کے بعد ہی اتاری گئیں۔ پھر کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے۔ سنو! تم وہ ہو جو اس میں جھگڑ چکے، جس کا تمہیں علم تھا پھر اس میں کیوں جھگڑتے ہو جس کا میں علم نہیں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ ابراہیم ؑ نہ یہودی تھا اور نہ عیسائی، لیکن وہ راست رو اور فرماں بردار (مسلم اور حنیف) تھا اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھا۔ يقينا ابراہیم ؑ کے بہت نزدیک وہ لوگ ہیں جنھوں نے اس کی پیروی کی اور یہ نبی اور وہ جو اس پہ ایمان لائے اورالله مومنوں کا ولی ہے۔ قرآن مجید کی تقریباً بائیس سورتوں میں حضرت ابراہیم ؑ کا ذکر آتا ہے۔ آپ مسلمانوں کے رسول مقبول حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے جد امجد ہیں۔ گویا مسلمان نہ صرف امت محمدیہ سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ امت براہیمیہ سے بھی متعلق ہیں۔ مسلمان حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ حضرت ابراہیم ؑ اور ان کی اولاد پر بھی درود بھیجتے ہیں- Book Name: Sahih Muslim, Hadees # 6138 حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، وَابْنُ فُضَيْلٍ، عَنِ الْمُخْتَارِ، ح وحَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ السَّعْدِيُّ - وَاللَّفْظُ لَهُ -، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، أَخْبَرَنَا الْمُخْتَارُ بْنُ فُلْفُلٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا خَيْرَ الْبَرِيَّةِ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «ذَاكَ إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلَامُ» علی بن مسہر اور ابن فضیل نے مختار بن فلفل سے روایت کی ، انھوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور کہا : يا خَيرَ البرِيّۃِ اے مخلوقات میں سے بہترین انسان !
ابو عبد اللہ عثمان بن عفان اموی قرشی (47 ق ھ - 35 ھ / 576ء – 656ء) اسلام کے تیسرے خلیفہ، داماد رسول اور جامع قرآن تھے۔ عثمان غنی سابقین اسلام میں شامل اور عشرہ مبشرہ میں سے تھے، ان کی کنیت ذو النورین ہے کیونکہ انھوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دو صاحبزادیوں سے نکاح کیا تھا، پہلے رقیہ بنت محمد سے کیا، پھر ان کی وفات کے بعد ام کلثوم بنت محمد سے نکاح کیا۔ عثمان غنی پہلے صحابی ہیں جنھوں نے سرزمین حبشہ کی ہجرت کی، بعد میں دیگر صحابہ بھی آپ کے پیچھے حبشہ پہنچے۔ بعد ازاں دوسری ہجرت مدینہ منورہ کی جانب کی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عثمان غنی پر مکمل اعتماد اور ان کی فطری حیاء و شرافت اور جو انھوں نے اپنے مال کے ذریعہ اہل ایمان کی نصرت کی تھی، اس کی انتہائی قدر کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیگر صحابہ کے ساتھ ان کو بھی جنت اور شہادت کی موت کی خوش خبری دی۔
محمد بن اسماعيل بخاری (پیدائش: 19 جولائی 810ء، بخارا - وفات: 1 ستمبر 870ء) مشہور ترین محدث اور حدیث کی سب سے معروف کتاب صحیح بخاری کے مولف تھے۔ ان کے والد بھی ایک محدث تھے اور امام مالک کے شاگرد تھے۔ امام بخاری کا درجہ احادیث کو چھان پھٹک کر ترتیب دینے میں اتنا اونچا ہے کہ بلا اختلاف الجامع الصحیح یعنی صحیح بخاری شریف کا درجہ صحت میں قرآن پاک کے بعد پہلا ہے۔
چندریان-3 انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائیزیشن (ISRO) کے چندریان پروگرام کے تحت تیسرا بھارتی چاند کی تلاش کا مشن ہے۔ یہ وکرم نامی لینڈر اور پرگیان نامی روور پر مشتمل ہے، جو چندریان-2 مشن کی طرح ہے۔ پروپلشن ماڈیول نے لینڈر اور روور کنفیگریشن کو چاند کے مدار تک پہنچایا تاکہ لینڈر کے ذریعے طاقتور نزول کی تیاری کی جا سکے۔چندریان-3 کو 14 جولائی 2023ء کو لانچ کیا گیا تھا۔ لینڈر اور روور 23 اگست 2023ء کو 18:02 IST پر قمری جنوبی قطب کے علاقے پر اترے، جس سے بھارت قمری جنوبی قطب کے قریب خلائی جہاز کو کامیابی کے ساتھ چاند پر لینڈ کرنے والا پہلا ملک اور نرم زمین پر چوتھا ملک بنا۔
کلوگرام فی مکعب میٹر کثافت کی بین الاقوامی اکائی ہے۔ اسے انگریزی میں عموماً kg/m3 یا kg·m−3 لکھا جاتا ہے اور اردو میں اس کے لیے اختصار کلوگرام/میٹر3 استعمال ہوتا ہے۔ چونکہ کلوگرام کا پیمانہ ابتدائی طور پر ایک لیٹر پانی کی کمیت کے طور پر متعارف کروایا گیا تھا اس لیے پانی کی کثافت 1000 کلوگرام/میٹر3 ہوتی ہے۔
رموز اوقاف (انگریزی: Punctuation) وہ علامتیں اور نشانیاں ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ عبارت میں کس جگہ اور کس طرح وقف کرنا ہے۔ رموز، رمز کی جمع ہے جس کا مطلب ہے علامت یا اشارہ جبکہ اوقاف، وقف کی جمع ہے جس کے معنی ٹھہرنے یا رکنے کے ہیں، یعنی رموز اقاف یا علامات وقف اُن اشاروں یا علامتوں کو کہتے ہیں جو کسی عبارت کے ایک جملے کے ایک حصے کو اس کے باقی حصوں سے علاحدہ کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ اردو، انگریزی یا دوسری زبانوں کے قواعد میں ان اوقاف اور علامات کو بہت اہمیت حاصل ہے اگر ان کا خیال نہ رکھا جائے تو مفہوم کچھ سے کچھ بلکہ بعض اوقات تو اس کے بالکل اُلٹ ہو جاتا ہے جہاں ٹھہرنا یا وقفہ کرنا ہو ان کے لیے اردو میں درج ذیل رموز اوقاف استعمال ہوتے ہیں۔ ختمہ (۔)، سوالیہ (؟)، سکتہ (،) تفصیلہ (:_)، قوسین () واوین (” “) ندائیہ یا فجائیہ (!) علامت شعر(؎) علامت مصرع (؏) علامت وغیرہ۔
شوال۔ ذی القعدہ 5ھ (مارچ 627ء) میں مشرکینِ مکہ نے مسلمانوں سے جنگ کی ٹھانی۔ ابوسفیان نے قریش اور دیگر قبائل حتیٰ کہ یہودیوں سے بھی لوگوں کو جنگ پر راضی کیا اور اس سلسلے میں کئی معاہدے کیے اور ایک بہت بڑی فوج اکٹھی کر لی مگر مسلمانوں نے سلمان فارسی کے مشورہ سے مدینہ کے ارد گرد ایک خندق کھود لی۔ مشرکینِ مکہ ان کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ خندق کھودنے کی عرب میں یہ پہلی مثال تھی کیونکہ اصل میں یہ ایرانیوں کا طریقہ تھا۔ ایک ماہ کے محاصرے اور اپنے بے شمار افراد کے قتل کے بعد مشرکین مایوس ہو کر واپس چلے گئے۔ اسے غزوہ خندق یا جنگِ احزاب کہا جاتا ہے۔ احزاب کا نام اس لیے دیا جاتا ہے کہ اصل میں یہ کئی قبائل کا مجموعہ تھی۔ جیسے آج کل امریکا، برطانیہ وغیرہ کی اتحادی افواج کہلاتی ہیں۔ اس جنگ کا ذکر قرآن میں سورۃ الاحزاب میں ہے۔