اردو ویکیپیڈیا کے سب سے زیادہ ملاحظہ کردہ مضامین کی فہرست۔ مزید معلومات کے لیے ۔ ۔ ۔
فاطمہ بنت محمد بن عبد اللہ جن کا معروف نام فاطمۃ الزہراء ہے حضرت محمد بن عبد اللہ اور خدیجہ بنت خویلد کی بیٹی تھیں۔ تمام مسلمانوں کے نزدیک آپ ایک برگزیدہ ہستی ہیں۔۔ آپ کی ولادت 20 جمادی الثانی بروز جمعہ بعثت کے پانچویں سال میں مکہ میں ہوئی۔ آپ کی شادی علی ابن ابی طالب سے ہوئی جن سے آپ کے دو بیٹے حسن اور حسین اور دو بیٹیاں زینب اور ام کلثوم پیدا ہوئیں۔ آپ کی وفات اپنے والد حضرت محمد بن عبد اللہ کی وفات کے کچھ ماہ بعد 632ء میں ہوئی۔ آپ کے بہت سے القابات مشہور ہیں۔
انا لله و انا الیہ راجعون (عربی: إِنَّا لِلَّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ) قرآن میں سورۃ البقرہ کی آیت 156 کے ایک حصے سے لیا گیا ہے۔، اس کا مطلب ہے "ہم خدا کے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔" جب مسلمان کسی کی موت یا مصیبت کا سنتے ہیں تو یہ آیت پڑھتے ہیں۔ وہ اس آیت کو تعزیت کے لئے بھی استعمال کرتے ہیں اور مصیبت کے وقت صبر کا مطالبہ کرتے ہیں۔
ابوبکر صدیق عبد اللہ بن ابو قحافہ عثمان تیمی قرشی (573ء—634ء) اسلام کے پہلے خلیفہ راشد، عشرہ مبشرہ میں شامل، خاتم النبین محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اولین جانشین، صحابی، خسر اور ہجرت مدینہ کے وقت رفیق سفر تھے۔ اہل سنت و الجماعت کے یہاں ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ انبیا اور رسولوں کے بعد انسانوں میں سب سے بہتر، صحابہ میں ایمان و زہد کے لحاظ سے سب سے برتر اور ام المومنین عائشہ بنت ابوبکر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے محبوب تر تھے۔ عموماً ان کے نام کے ساتھ صدیق کا لقب لگایا جاتا ہے جسے حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی تصدیق و تائید کی بنا پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دیا تھا۔
پاکستان (رسمی نام: اسلامی جمہوریۂ پاکستان) جنوبی ایشیا کے شمال مغرب وسطی ایشیا اور مغربی ایشیا کے لیے دفاعی طور پر اہم حصے میں واقع ایک خود مختار اسلامی ملک ہے۔ یہ دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے، جس کی آبادی تقریباً 242 ملین ہے اور دنیا کی دوسری سب سے بڑی مسلم آبادی والا ملک ہے۔ 881,913 مربع کلومیٹر (340,509 مربع میل) کے ساتھ یہ دنیا کا تینتیسواں بڑے رقبے والا ملک ہے۔ اس کے جنوب میں 1046 کلومیٹر (650 میل) کی ساحلی پٹی ہے جو بحیرہ عرب سے ملتی ہے۔پاکستان کے مشرق ميں بھارت، شمال مشرق ميں چین اور مغرب ميں افغانستان اور ايران واقع ہيں۔ پاکستان کو شمال میں ایک تنگ واخان راہداری تاجکستان سے جدا کرتی ہے جبکہ اس ملک کی سمندری سرحدی حدود اومان کے سمندری حدود سے بھی ملتی ہیں۔ موجودہ پاکستان کے علاقے قدیم ترین دنیا میں وہ علاقے تھے جن میں موہنجوداڑو اور انڈس سولائیزیشن مہر گڑھ ٹیکسلا پراچین سنسکرت دور اور دیگر زیرتحقیق آرک لوجیکل سائٹس جیسے قندھارا تہذیب و تمدن تھی۔ اس علاقے پر پراچین راجپوت ایرانی یونانی عرب، بدھ مت، سکھ، مغل، ہن سفید اور ترک حملہ آوروں کی حکومت بھی رہی ہے۔ یہ علاقہ مختلف سلطنتوں جیسے چندر گپت موریا، ہخامنشی سلطنت عربوں کی خلافت امویہ، مغلیہ سلطنت، درانی سلطنت، سکھ سلطنت اور برطانوی راج کا اہم حصہ رہا ہے۔ اس کے بعد محمد علی جناح کی قیادت میں تحریک پاکستان کامیاب ہوئی اور 14 اگست 1947ء کو ہندوستان کے مشرق اور مغرب میں دو حصوں میں ایک آزاد اور خودمختار اسلامی ریاست قائم ہوئی۔ پاکستان نے اپنا پہلا آئین 1956ء میں بنایا جو 1958 میں منسوخ کردیا گیا اس کے بعد 1962 میں پاکستان کا دوسرا آئین پیش کیا گیا جو 1969 میں جزل یحیی خان نے منسوخ کر دیا.
ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال (ولادت: 9 نومبر 1877ء – وفات: 21 اپریل 1938ء) بیسویں صدی کے ایک معروف شاعر، مصنف، قانون دان، سیاستدان اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھے۔ اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے اور یہی ان کی بنیادی وجہ شہرت ہے۔ شاعری میں بنیادی رجحان تصوف اور احیائے امت اسلام کی طرف تھا۔ علامہ اقبال کو دور جدید کا صوفی سمجھا جاتا ہے۔ بحیثیت سیاست دان ان کا سب سے نمایاں کارنامہ نظریۂ پاکستان کی تشکیل ہے، جو انہوں نے 1930ء میں الہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پیش کیا تھا۔ یہی نظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا۔ اسی وجہ سے علامہ اقبال کو پاکستان کا نظریاتی باپ سمجھا جاتا ہے۔ گو کہ انہوں نے اس نئے ملک کے قیام کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن انہیں پاکستان کے قومی شاعر کی حیثیت حاصل ہے۔
قرآن کریم، قرآن مجید یا قرآن شریف (عربی: القرآن الكريم) دین اسلام کی مقدس و مرکزی کتاب ہے جس کے متعلق ہم اسلام کے پیروکاروں کا اعتقاد ہے کہ یہ کلام الہی ہے اور اسی بنا پر یہ انتہائی محترم و قابل عظمت کتاب ہے۔ اسے ہمارے پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی کے ذریعے اتارا گیا۔ یہ وحی اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتے حضرت جبرائیل علیہ السلام لاتے تھے جیسے جیسے قرآن مجید کی آیات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوتیں آپ صلی علیہ وآلہ وسلم اسے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو سناتے اور ان آیات کے مطالب و معانی سمجھا دیتے۔ کچھ صحابہ کرام تو ان آیات کو وہیں یاد کر لیتے اور کچھ لکھ کر محفوظ کر لیتے۔ ہم مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن ہر قسم کی تاریف بیان کرتا ہے پاک ہے محفوظ ہے، قرآن میں آج تک کوئی کمی بیشی نہیں ہو سکی اور اسے دنیا کی واحد محفوظ افضل کتاب ہونے کی حیثیت حاصل ہے، جس کا حقیقی مفہوم تبدیل نہیں ہو سکا اور تمام دنیا میں کروڑوں کی تعداد میں چھپنے کے باوجود اس کا متن ایک جیسا ہے اور اس کی تلاوت عبادت ہے۔ اور صحف ابراہیم، زبور اور تورات و انجیل کے بعد آسمانی کتابوں میں یہ سب سے آخری اور افضل کتاب ہے اور سابقہ آسمانی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اب اس کے بعد کوئی آسمانی کتاب نازل نہیں ہوگی۔ قرآن کی فصاحت و بلاغت کے پیش نظر اسے لغوی و مذہبی لحاظ سے تمام عربی کتابوں میں اعلیٰ ترین مقام حاصل ہے۔ نیز عربی زبان و ادب اور اس کے نحوی و صرفی قواعد کی وحدت و ارتقا میں بھی قرآن کا خاصا اہم کردار دکھائی دیتا ہے۔ چنانچہ قرآن کے وضع کردہ عربی زبان کے قواعد بلند پایہ عرب محققین اور علمائے لغت مثلاً سیبویہ، ابو الاسود الدؤلی اور خلیل بن احمد فراہیدی وغیرہ کے یہاں بنیادی ماخذ سمجھے گئے ہیں۔
نجم الدولہ، دبیر الملک، مرزا نوشہ اسد اللہ خان غالب بہادر نظام جنگ (1797ء- 1869ء) اردو زبان کے سب سے بڑے شاعروں میں ایک سمجھے جاتے ہیں۔ یہ تسلیم شدہ بات ہے کہ 19 ویں صدی غالب کی صدی ہے۔ جبکہ 18 ویں میر تقی میر کی تھی اور 20 ویں علامہ اقبال کی۔ غالب کی عظمت کا راز صرف ان کی شاعری کے حسن اور بیان کی خوبی ہی میں نہیں ہے۔ ان کا اصل کمال یہ ہے کہ وہ زندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کو گہرائی میں جا کر سمجھتے تھے اور بڑی سادگی سے عام لوگوں کے لیے بیان کر دیتے تھے۔ غالب جس پر آشوب دور میں پیدا ہوئے اس میں انہوں نے مسلمانوں کی ایک عظیم سلطنت کو برباد ہوتے ہوئے اور باہر سے آئی ہوئی انگریز قوم کو ملک کے اقتدار پر چھاتے ہوئے دیکھا۔ غالباً یہی وہ پس منظر ہے جس نے ان کی نظر میں گہرائی اور فکر میں وسعت پیدا کی۔
ابراہیم علیہ السلام وہ پہلے پیغمبر تھے جن کو اللہ نے مُسلمان نبی پیغمبر ابو الانبیاء، خلیل اللہ امام الناس اور حنیف کہہ کر پُکارا۔اللہ تعالی نے اپنے اس دوست برگزیدہ اور پیارے نبی کو قرآن مجید میں امتہ (النحل : 120) امام الناس (البقرہ: 124) حنیف اور مسلم (آل عمران: 67) کے ناموں سے بار بار بار کیا ہے۔ اکثر انبیائے کرام انہی کی اولاد سے ہیں۔ابراہیم علیہ السلام کے نام کی وجہ تسمیہ کے بارے میں بائبل کا بیان ہے کہ خدا تعالی ان سے مخاطب ہو کر کہتا ہے۔ دیکھ میرا عہد تیرے ساتھ ہے اور تو بہت قوموں کا باپ ہو گا۔ اور تیرا نام ابرام نہیں بلکہ ابراہام ہو گا۔ کیونکہ میں نے تجھے قوموں کا باپ بنایا ہے۔ (پیدائش 170:5)اکثر ماہرین کے نزدیک ابراہام یا ابراہیم ؑ بھی لفظ ہے۔ ہو سکتا ہے کہ پہلے آپ کا نام ابراہم ہو اور پھر ابراہام یا ابو رہام ہو گیا ہو۔مُسلمان اُن کو خلیل اللہ (اللہ کا دوست) کہتے ہیں۔ ابراہیم کی نسل سے کئی پیغمبر پیدا ہوئے، جن کا تذکرہ عہدنامہ قدیم میں ہے۔ اسلام کی کتاب قرآن مجید میں بھی بہت سارے ایسے انبیا کا ذکر ہے جو ابراہیم کی نسل میں سے تھے۔ اسلام کے آخری نبی مُحمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی ابراہیم کی نسل میں سے ہیں۔شرک، ستارہ پرستی اور بت سازی کے خلاف اپنی قوم اور اوروں کے ساتھ ان کا مجادلہ و محاجہ بڑے زور سے پیش کیا گیا ہے۔ ابراہیم کا بچپن میں ہی رشد عطا کیا گیا اور قلب سلیم بھی عنایت فرمایا گیا۔ تکوینی عجائبات اور ملکوت السمٰوت والارض ان کے سامنے تھے۔ انہیں کے مشاہدے سے اُن کو یقین کامل حاصل ہوا۔ بت پرستی کے خلاف ابراہیم کے جہاد کا ذکر بھی قران کریم میں کئی بار آیا ہے۔قرآن حکیم میں حضرت ابراہیم ؑ اور آذر کے اختلاف عقائد کو جس طرح نمایاں کیا گیا ہے اور جس طرح آپ اپنی قوم کے شرک سے متنفر اور متصادم ہوئے۔ اس سے ہم آپ کی عظمت و جلالت کی حقیقت کو بھی پاسکتے ہیں۔ اور اپنے لیے شمع ہدایت بھی روشن کر سکتے ہیں۔ اس وجہ سے مسلمانوں کو ملت براہیمی ہونے پر فخر ہے۔ ان کے بارے میں یہ توکہیں وضاحت نہیں ہوئی کہ کیا وحی ان پر نازل ہوئی تھی یا ان کی بعثت محض روحانی تھی؟ البتہ قرآن مجید میں ایک جگہ اس امر کی تصدیق ہوئی ہے کہ اللہ تعالی آپ سے ہمکلام تھا۔ اہل تاریخ کے نزدیک متعدد صحیفے تھے جو ابراہیم پر نازل ہوئے۔ ایک صحیفہ جو ان کی طرف سے منسوب ہے یونانی سے انگریزی میں ترجمہ ہو کر شائع ہو چکا ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ کے دین کے بارے میں قرآن مجید میں کئی جگہ پر ارشار ہوتا ہے کہ آپ موحد مسلم اورراست رو تھے۔ ارشاد ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے: ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ”پھر ہم نے تیری طرف (حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی طرف) وحی کی کہ ابراہیم ؑ راست رو (مسلم) کے دین پر چل اور وہ مشرکوں میں سے نہیں تھا “ اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے: يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تُحَآجُّونَ فِي إِبْرَاهِيمَ وَمَا أُنزِلَتِ التَّورَاةُ وَالإنجِيلُ إِلاَّ مِن بَعْدِهِ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ هَاأَنتُمْ هَؤُلاء حَاجَجْتُمْ فِيمَا لَكُم بِهِ عِلمٌ فَلِمَ تُحَآجُّونَ فِيمَا لَيْسَ لَكُم بِهِ عِلْمٌ وَاللّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ مَا كَانَ إِبْرَاهِيمُ يَهُودِيًّا وَلاَ نَصْرَانِيًّا وَلَكِن كَانَ حَنِيفًا مُّسْلِمًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْرَاهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ وَهَـذَا النَّبِيُّ وَالَّذِينَ آمَنُواْ وَاللّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ ”اے اہل کتاب! تم ابراہیم ؑ کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو۔ حالانکہ توریت اور انجیل اس کے بعد ہی اتاری گئیں۔ پھر کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے۔ سنو! تم وہ ہو جو اس میں جھگڑ چکے، جس کا تمہیں علم تھا پھر اس میں کیوں جھگڑتے ہو جس کا میں علم نہیں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ ابراہیم ؑ نہ یہودی تھا اور نہ عیسائی، لیکن وہ راست رو اور فرماں بردار (مسلم اور حنیف) تھا اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھا۔ يقينا ابراہیم ؑ کے بہت نزدیک وہ لوگ ہیں جنھوں نے اس کی پیروی کی اور یہ نبی اور وہ جو اس پہ ایمان لائے اورالله مومنوں کا ولی ہے۔ قرآن مجید کی تقریباً بائیس سورتوں میں حضرت ابراہیم ؑ کا ذکر آتا ہے۔ آپ مسلمانوں کے رسول مقبول حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے جد امجد ہیں۔ گویا مسلمان نہ صرف امت محمدیہ سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ امت براہیمیہ سے بھی متعلق ہیں۔ مسلمان حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ حضرت ابراہیم ؑ اور ان کی اولاد پر بھی درود بھیجتے ہیں- Book Name: Sahih Muslim, Hadees # 6138 حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، وَابْنُ فُضَيْلٍ، عَنِ الْمُخْتَارِ، ح وحَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ السَّعْدِيُّ - وَاللَّفْظُ لَهُ -، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، أَخْبَرَنَا الْمُخْتَارُ بْنُ فُلْفُلٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا خَيْرَ الْبَرِيَّةِ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «ذَاكَ إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلَامُ» علی بن مسہر اور ابن فضیل نے مختار بن فلفل سے روایت کی ، انھوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور کہا : يا خَيرَ البرِيّۃِ اے مخلوقات میں سے بہترین انسان !
احمد خان متقی بن محمد متقی (17 اکتوبر 1817ء – 27 مارچ 1898ء) المعروف سر سید، سر سید احمد خان انیسویں صدی کے ایک ہندوستانی مسلم نظریۂ عملیت کے حامل ، مصلح اور فلسفی تھے۔ ان کو برصغیر میں مسلم قوم پرستی کا سرخیل مانا جاتا ہے اور دو قومی نظریہ کا خالق تصور کیا جاتا ہے، جو آگے چل کر تحریک پاکستان کی بنیاد بنا۔
موسیٰ علیہ السلام اللہ کے برگزیدہ پیغمبروں میں سے ایک ہیں۔ آپ کے بھائی ہارون علیہ السلام بھی اللہ کے برگزیدہ نبیوں میں سے ایک ہیں۔یہ 1520 قبلِ مسیح کی بات ہے۔ مِصر پر فرعون بادشاہ’’مرنفتاح ثانی‘‘ کی حکومت تھی۔بعض نے اُس کا نام’’ منفتاح‘‘ بھی لکھا ہے اور وہ والد، رعمسیس کے بڑھاپے کی وجہ سے عملاً حکم ران بنا ہوا تھا۔ خدائی کا دعوے دار یہ بادشاہ بڑا ظالم و جابر تھا۔ اُس نے’’ بنی اسرائیل‘‘ کو اپنا غلام بنا رکھا تھا، حالاں کہ وہ حضرت یوسف کے زمانے سے وہاں رہائش پزیر تھے۔ حضرت یوسفؑ نے اپنے والد، حضرت یعقوبؑ اور اپنے بھائیوں کے لیے ایک قطعۂ زمین اُس وقت کے فرعون بادشاہ ’’ریان بن ولید‘‘ سے حاصل کیا تھا۔ حضرت یعقوبؑ کی یہی نسل’’بنی اسرائیل‘‘ کہلائی، جو مِصر میں خُوب پَھلی پُھولی۔ یہ لوگ حضرت یعقوبؑ کے دین کے پیروکار تھے، چناں چہ اُس وقت اللہ کے نزدیک یہ سب سے بہتر جماعت تھی۔ اُنہوں نے فرعون کو سجدہ کرنے اور اُسے اپنا ربّ ماننے سے انکار کردیا تھا۔ اسی وجہ سے بادشاہ اور اُس کے حواری ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھاتے اور اُن سے گھٹیا کام کرواتے۔ یاد رہے، فرعون کسی خاص شخص کا نام نہیں، بلکہ مِصر کے بادشاہوں کا لقب تھا۔ تاریخی حقائق کے مطابق، 31فراعنہ خاندانوں نے مِصر پر یکے بعد دیگرے حکومت کی۔ سب سے آخری خاندان نے 332قبلِ مسیح میں سکندرِ اعظم کے ہاتھوں شکست کھائی۔
جمشید احمد خان دستی پاکستانی سیاست دان ہے جنہوں نے 2013 کے الیکشن میں قومی اسمبلی میں مظفرگڑھ کے قومی حلقہ 178 کی نمائندگی کی۔ سیاست کا آغاز پیپلز پارٹی میں کیا۔ مارچ 2013ء میں پیپلز جماعت اور پارلیمان سے استعفی دے کر اگلے عام انتخابات میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخابات میں کامیابی حاصل کی، جس میں حنا ربانی کھر کے والد کو شکست دی۔
حضرت آدم علیہ السلام ، اللہ کے اولین پیغمبر ہیں۔ ابوالبشر (انسان کا باپ) اور صفی اللہ (خدا کا برگزیدہ) لقب۔ آپ کے زمانے کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔تمام آسمانی کتابوں کے ماننے والوں کاعقیدہ ہے کہ اس رُوئے زمین پر اللہ جل شانہ‘نے حضرت آدم علیہ السلام کو تخلیق کیا۔حضرت آدم ؑ کی پیدائش کا احوال کچھ یوں ہے :اللہ تعالی نے تمام زمین سے ایک مٹھی مٹی لے کر آدم علیہ السلام کو بنایا۔اس لئے زمین کے لحاظ سے لوگ سرخ ،سفید ، سیاہ اور درمیانے درجے میں ،اسی طرح اچھے ،برے ، نرم اور سخت طبیعت والے اور کچھ درمیانے درجے کے پیدا ہوئے(روایت : حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ )۔ اللہ تعالی نے جبریل علیہ السلام کو زمین میں مٹی لانے کیلئے بھیجا تو زمین نے عرض کی کہ میں تجھ سے اللہ کی پناہ میں آتی ہوں کہ تو مجھ سے کوئی کمی کرے یا مجھے عیب ناک کر دے تو وہ مٹی لئے بغیر ہی واپس چلے گئے اور عرض کی :اے اللہ!اس نے تیری پناہ میں آنے کی درخواست کی تو میں نے اس کو پناہ دے دی۔ اللہ تعالیٰ نے پھر حضرت میکائل کو بھیجا ،زمین نے اس سے بھی پناہ مانگی تو اس نے بھی پناہ دے دی اور حضرت جبریل کی طرح واقعہ بتا دیا پھر اللہ نے موت کے فرشتوں کو بھیجا۔زمین نے اس سے بھی پناہ مانگی تو اس نے کہا میں اس سے اللہ کی پناہ میں آتا ہوں کہ میں اللہ کے حکم کی تعمیل کئے بغیر واپس چلا جاؤں اور اس سے مختلف جگہوں سے سرخ ،سیاہ اور سفید مٹی اکٹھی کی جس کی بنا پر آدم علیہ السلام کی اولاد بھی مختلف رنگوں والی ہے ۔( روایت سدی رحمتہ اللہ بحوالہ ابن عباسؓ وابن مسعودؓ )وہ مٹی لے کرعرش پر چلے گئے اور اس کو پانی کے ساتھ تر کیا ۔پانی سے تر کرنے سے وہ چپکنے والی لیس دار مٹی بن گئی۔ اس پر باری تعالیٰ نے فرشتوں کو فرمایا :میں مٹی سے انسان بنانے والا ہوں ۔جب میں اس کو اچھی طرح بنا لوں اور اس میں اپنی پیدا کردہ روح ڈال دوں تو اس کیلئے سجدہ کرتے ہوئے گر جانا۔اللہ تعالی ٰنے علم کے ساتھ آدم علیہ السلام کا ان پر شرف اور مرتبہ واضح کیا ۔حضرت ابن عباسؓ نے کہا ان سے مراد وہی نام ہیں جو لوگوں کے ہاں مشہور و معروف ہیں۔انسان ، جانور ، زمین ، سمندر ، پہاڑ ، اونٹ ، گدھا وغیرہ۔مجاہد نے کہا :پیالہ اور ہنڈیا وغیرہ کے نا م سکھائے،حتی کہ پھسکی اور گوز کا نام بھی بتا یا۔ مجاہد نے مزید کہا:ہر جانور ،پرند ، چرند اور ہر ضرورت کی ہر چیز کے نام سکھائے۔سعید بن جبیر ، قتادہ وغیرہ نے بھی اسی طرح کہا ہے۔الربیع نے کہا:فرشتوں کے نام سکھائے۔عبدالرحمن بن زید نے کہا :ان کی اولاد کے نام سکھائے۔اللہ نے آدم علیہ السلام کو ہر چھوٹی اور بڑی چیز اور ان کے افعال کے نام سکھائے ۔ حضرت انس بن مالکؓ نے رسول اللہﷺ سے روایت کرتے ہوئے فرمایا :قیامت کے دن ایمان والے اکٹھے ہوں گے اور کہیں گے کاش ہم اپنے رب کے پاس سفارش کرنے والا طلب کریں ،پھر وہ آدم کے پاس آئیں گے اور کہیں گے اے آدم!
شوال۔ ذی القعدہ 5ھ (مارچ 627ء) میں مشرکینِ مکہ نے مسلمانوں سے جنگ کی ٹھانی۔ ابوسفیان نے قریش اور دیگر قبائل حتیٰ کہ یہودیوں سے بھی لوگوں کو جنگ پر راضی کیا اور اس سلسلے میں کئی معاہدے کیے اور ایک بہت بڑی فوج اکٹھی کر لی مگر مسلمانوں نے سلمان فارسی کے مشورہ سے مدینہ کے ارد گرد ایک خندق کھود لی۔ مشرکینِ مکہ ان کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ خندق کھودنے کی عرب میں یہ پہلی مثال تھی کیونکہ اصل میں یہ ایرانیوں کا طریقہ تھا۔ ایک ماہ کے محاصرے اور اپنے بے شمار افراد کے قتل کے بعد مشرکین مایوس ہو کر واپس چلے گئے۔ اسے غزوہ خندق یا جنگِ احزاب کہا جاتا ہے۔ احزاب کا نام اس لیے دیا جاتا ہے کہ اصل میں یہ کئی قبائل کا مجموعہ تھی۔ جیسے آج کل امریکا، برطانیہ وغیرہ کی اتحادی افواج کہلاتی ہیں۔ اس جنگ کا ذکر قرآن میں سورۃ الاحزاب میں ہے۔
محمد علی جناح پیدائشی نام، محمد علی جناح بھائی، 25 دسمبر 1876ء – 11 ستمبر 1948ء) کے نامور وکیل، سیاست دان اور بانی پاکستان تھے۔ محمد علی جناح 1913ء سے لے کر پاکستان کی آزادی 14 اگست 1947ء تک آل انڈیا مسلم لیگ کے سربراہ رہے، پھر قیام پاکستان کے بعد اپنی وفات تک، وہ ملک کے پہلے گورنر جنرل رہے۔ سرکاری طور پر پاکستان میں آپ کو قائدِ اعظم یعنی سب سے عظیم رہبر اور بابائے قوم یعنی قوم کا باپ بھی کہا جاتا ہے۔ جناح کا یومِ پیدائش پاکستان میں قومی تعطیل کے طور پر منایا جاتا ہے۔کراچی کے پیدائشی اور لنکن ان سے بیرسٹری کی تربیت حاصل کرنے والے جناح، بیسویں صدی کے ابتدائی دو عشروں میں آل انڈیا کانگریس کے اہم رہنما کے طور پر ابھرے۔ اپنی سیاست کے ابتدائی ادوار میں انہوں نے ہندو مسلم اتحاد کے لیے کام کیا۔ 1916ء میں آل انڈیا مسلم لیگ اور آل انڈیا کانگریس کے مابین ہونے والے میثاق لکھنؤ کو مرتب کرنے میں بھی انہوں نے اہم کردار ادا کیا۔ جناح آل انڈیا ہوم رول لیگ کے اہم رہنماوں میں سے تھے، انہوں نے چودہ نکات بھی پیش کیے، جن کا مقصد ہندوستان کے مسلمانوں کے سیاسی حقوق کا تحفظ کرنا تھا۔ بہر کیف جناح 1920ء میں آل انڈیا کانگریس سے مستعفی ہو گئے، جس کی وجہ آل انڈیا کانگریس کے موہن داس گاندھی کی قیادت میں ستیاگرا کی مہم چلانے کا فیصلہ تھا۔1940ء تک جناح کو یہ یقین ہو چلا تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک علاحدہ وطن کی جدوجہد کرنی چاہیے۔ اسی سال، مسلم لیگ نے جناح کی قیادت میں قرارداد پاکستان منظور کی جس کا مقصد نئی مملکت کی قیام کا مطالبہ تھا۔دوسری جنگ عظیم کے دوران، آل انڈیا مسلم لیگ نے مضبوطی پکڑلی جبکہ ان ادوار میں کانگریس کے کئی رہنما قید کاٹ رہے تھے اور جنگ کے ختم ہونے کے مختصر عرصے میں ہی انتخابات کا انعقاد ہوا، جس میں جناح کی جماعت نے مسلمانوں کے لیے مختص نشستوں میں سے بڑی تعداد جیت لی۔ اس کے بعد آل انڈیا کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ متحدہ ہندوستان میں اختیارات کے توازن کے لیے کسی صیغے پر متفق نا ہو سکے نتیجتاً تمام جماعتیں اس امر پر متفق ہوگئیں کہ ہندوستان کے دو حصے کیے جائیں جن میں ایک مسلم اکثریتی علاقوں میں پاکستان جبکہ باقی ماندہ علاقوں میں بھارت کا قیام ہو۔پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کے طور پر جناح نے اپنی حکومتی پالیسیوں کے قیام کے لیے کام کیا نیز انہوں نے ان لاکھوں لوگوں کے بہبود اور آباد کاری کے لیے بھی کام کیا جو تقسیم ہند کے بعد پاکستان کی جانب ہجرت کر چلے تھے، انہوں نے ان مہاجر کیمپوں کی ذاتی طور پر دیکھ بھال کی۔ جناح 71 سال کے عمر میں انتقال کر گئے جبکہ ان کے نوزائیدہ ملک کو سلطنت برطانیہ سے آزاد ہوئے محض ایک سال کا عرصہ ہوا تھا۔ ان کی سوانح عمری لکھنے والے لکھاری،اسٹینلی وولپرٹ لکھتے ہیں کہ، وہ (یعنی جناح) پاکستان کے عظیم ترین رہنما رہیں گے۔
مکمل ابو عبد اللہ عثمان بن عفان اموی قرشی (47 ق ھ - 35 ھ / 576ء – 656ء) اسلام کے تیسرے خلیفہ، داماد رسول اور جامع قرآن تھے۔ عثمان غنی سابقین اسلام میں شامل اور عشرہ مبشرہ میں سے تھے، ان کی کنیت ذو النورین ہے کیونکہ انھوں نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دو صاحبزادیوں سے نکاح کیا تھا، پہلے رقیہ بنت محمد رضی اللہ عنہا سے کیا، پھر ان کی وفات کے بعد ام کلثوم بنت محمد سے نکاح کیا۔ عثمان غنی پہلے صحابی ہیں جنھوں نے سرزمین حبشہ کی ہجرت کی، بعد میں دیگر صحابہ بھی آپ کے پیچھے حبشہ پہنچے۔ بعد ازاں دوسری ہجرت مدینہ منورہ کی جانب کی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عثمان غنی پر مکمل اعتماد اور ان کی فطری حیاء و شرافت اور جو انھوں نے اپنے مال کے ذریعہ اہل ایمان کی نصرت کی تھی، اس کی انتہائی قدر کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیگر صحابہ کے ساتھ ان کو بھی جنت اور شہادت کی موت کی خوش خبری دی۔ سنہ 23ھ (644ء) میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد مشورہ سے آپ کو خلافت کی ذمہ داری سونپی گئی، جسے انھوں نے 644ء سے 656ء تک انجام دی۔ ان کے عہد خلافت میں جمع قرآن مکمل ہوا، مسجد حرام اور مسجد نبوی کی توسیع ہوئی اور قفقاز، خراسان، کرمان، سیستان، افریقیہ اور قبرص وغیرہ فتح ہو کر سلطنت اسلامی میں شامل ہوئے۔ نیز انھوں نے اسلامی ممالک کے ساحلوں کو بازنطینیوں کے حملوں سے محفوظ رکھنے کے لیے اولین مسلم بحری فوج بھی بنائی۔آپ کا زمانہ خلافت بارہ سال کے عرصہ پر محیط ہے، جس میں آخری کے چھ سالوں میں کچھ ناخوشگوار حادثات پیش آئے، جو بالآخر ان کی شہادت پر منتج ہوئے۔ سنہ 35ھ ، 12 ذی الحجہ، بروز جمعہ بیاسی سال کی عمر میں انھیں ان کے گھر میں قرآن کریم کی تلاوت کے دوران میں شہید کر دیا گیا اور مدینہ منورہ کے قبرستان جنت البقیع میں دفن ہوئے۔ خلیفۂ سوم سیدنا عثمان غنی کا تعلق قریش کے معزز قبیلے سے تھا۔ سلسلہ نسب عبد المناف پر رسول اللہ ﷺ سے جا ملتا ہے ۔ سیدنا عثمان ذوالنورین کی نانی نبی ﷺ کی پھوپھی تھیں۔ آپ کا نام عثمان اور لقب ” ذوالنورین “ ہے۔ اسلام قبول کرنے والوں میں آپ ” السابقون الاولون “ کی فہرست میں شامل تھے، آپ نے خلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیق کی دعوت پر اسلام قبول کیا تھا۔ ۔ حضور ﷺ پر ایمان لانے اور کلمہ حق پڑھنے کے جرم میں سیدنا عثمان غنی کو ان کے چچا حکم بن ابی العاص نے لوہے کی زنجیروں سے باندھ کر دھوپ میں ڈال دیا، کئی روز تک علیحدہ مکان میں بند رکھا گیا، چچا نے آپ سے کہا کہ جب تک تم نئے مذہب (اسلام ) کو نہیں چھوڑو گے آزاد نہیں کروں گا۔ یہ سن کر آپ نے جواب میں فرمایا کہ چچا ! اللہ کی قسم میں مذہب اسلام کو کبھی نہیں چھوڑ سکتا اور اس ایمان کی دولت سے کبھی دستبردار نہیں ہوں گا۔ سیدنا عثمان غنی اعلیٰ سیرت و کردار کے ساتھ ثروت و سخاوت میں بھی مشہور تھے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جنت میں ہر نبی کا ساتھی و رفیق ہوتا ہے میرا ساتھی ”عثمان “ ہوگا۔ سیدنا عثمان کے دائرہ اسلام میں آنے کے بعد نبی اکرم نے کچھ عرصہ بعد اپنی بیٹی سیدہ رقیہ رضى الله عنها کا نکاح آپ سے کردیا۔ جب کفار مکہ کی اذیتوں سے تنگ آکر مسلمانوں نے نبی کریم ﷺ کی اجازت اور حکم الٰہی کے مطابق ہجرت حبشہ کی تو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ بھی مع اپنی اہلیہ حضرت رقیہ رضى اللہ عنہا حبشہ ہجرت فرما گئے، جب حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا تو نبی ﷺ نے دوسری بیٹی حضرت ام کلثوم رضى اللہ عنہا کوآپ کی زوجیت میں دے دی۔ اس طرح آپ کا لقب ” ذوالنورین“ معروف ہوا۔مدینہ منورہ میں پانی کی قلت تھی جس پر سیدنا عثمان نے نبی پاک ا کی اجازت سے پانی کا کنواں خرید کر مسلمانوں کے ليے وقف فرمایا ۔اور اسی طرح غزوئہ تبوک میں جب رسول اللہ ﷺ نے مالی اعانت کی اپیل فرمائی تو سیدنا عثمان غنی نے تیس ہزار فوج کے ایک تہائی اخراجات کی ذمہ داری لے لی ۔جب رسول اکرم ﷺ نے زیارت خانہ کعبہ کا ارادہ فرمایا تو حدیبیہ کے مقام پر یہ علم ہوا کہ قریش مکہ آمادہ جنگ ہیں ۔ اس پر آپ ﷺ نے سیدنا عثمان غنی کو سفیر بنا کر مکہ بھیجا۔ قریش مکہ نے آپ کو روکے رکھا تو افواہ پھیل گئی کہ سیدنا عثمان کو شہید کردیا گیا ہے ۔ اس موقع پر چودہ سو صحابہ سے نبی ﷺ نے بیعت لی کہ سیدنا عثمان غنی کا قصاص لیا جائے گا ۔ یہ بیعت تاریخ اسلام میں ” بیعت رضوان “ کے نام سے معروف ہے ۔ قریش مکہ کو جب صحیح صورت حال کا علم ہوا تو آمادۂ صلح ہوگئے اور سیدنا عثمان غنی واپس آگئے۔خلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیق کی مجلس مشاورت کے آپ اہم رکن تھے ۔ امیر المومنین سیدنا عمر کی خلافت کا وصیت نامہ آپ نے ہی تحریر فرمایا ۔ دینی معاملات پر آپ کی رہنمائی کو پوری اہمیت دی جاتی ۔ سیدنا عثمان غنی صرف کاتب وحی ہی نہیں تھے بلکہ قرآن مجید آپ کے سینے میں محفوظ تھا۔ آیات قرآنی کے شان نزول سے خوب واقف تھے ۔ بطور تاجر دیانت و امانت آپ کا طرۂ امتیاز تھا۔ نرم خو تھے اور فکر آخرت ہر دم پیش نظر رکھتے تھے ۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے عثمان کی حیا سے فرشتے بھی شرماتے ہیں ، تبلیغ و اشاعت اسلام کے ليے فراخ دلی سے دولت صرف فرماتے۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اے عثمان اللہ تعالٰی تجھے خلافت کی قمیص پہنائیں گے ، جب منافق اسے اتارنے کی کوشش کریں تو اسے مت اتارنا یہاں تک کہ تم مجھے آملو۔ چنانچہ جس روز آپ کا محاصرہ کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ مجھ سے حضور نے عہد لیا تھا ( کہ منافق خلافت کی قمیص اتارنے کی کوشش کریں گے تم نہ اتارنا ) اس ليے میں اس پر قائم ہوں اور صبر کر رہا ہوں ۔ 35ھ میں ذی قعدہ کے پہلے عشرہ میں باغیوں نے سیدنا عثمان ذوالنورین کے گھر کا محاصرہ کیا اور آپ نے صبر اور استقامت کا دامن نہیں چھوڑا، محاصرہ کے دوران آپ کا کھانا اور پانی بند کردیا گیا تقریبا چالیس روز بھوکے پیاسے 82 سالہ مظلوم مدینہ سیدنا عثمان کو جمعة المبارک 18ذو الحجہ کو انتہائی بے دردی کے ساتھ روزہ کی حالت میں قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہوے شہید کر دیا گیا۔ ، .
اردو زبان میں سینتیس حروفِ تہجی اور سینتالیس آوازیں ہیں جن میں سے بیشتر عربی سے لیے گئے ہیں اور دیگر انہی کی مختلف شکلیں ہیں۔ کچھ حروف کئی طریقوں سے استعمال ہوتے ہیں اور کچھ مخلوط حروف بھی استعمال ہوتے ہیں جو دو حروف سے مل کر بنتے ہیں۔ بعض لوگ 'ء' کو الگ حرف نہیں مانتے مگر پرانی اردو کتب اور لغات میں اسے الگ حرف کے طور پر لکھا جاتا ہے۔ مختلف الفاظ میں یہ الگ حرف کے طور پر ہی استعمال ہوتا ہے مثلاً 'دائرہ'۔ یہ بات مدِنظر رکھنا ضروری ہے کہ اردو تختی اور اردو حروف دو مختلف چیزیں ہیں کیونکہ اردو تختی میں اردو حروفِ تہجی کی کئی اشکال ہو سکتی ہیں جن کو الگ حرف کا درجہ نہیں دیا جا سکتا بلکہ وہ ایک ہی حرف کی مختلف شکلیں ہیں۔ مثلاً نون غنہ نون کی شکل ہے اور 'ھ' اور 'ہ' ایک ہی حرف کی مختلف اشکال ہیں۔ ایک اور مثال الف ممدودہ (آ) اور الف مقصورہ (ا) کی ہے جو اردو تختی میں الگ ہیں مگر اردو کا ایک ہی حرف شمار ہوتے ہیں۔
اسلام ایک توحیدی مذہب ہے جو اللہ کی طرف سے، حضرت محمد ﷺ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ذریعے انسانوں تک پہنچائی گئی آخری الہامی کتاب (قرآن مجيد) کی تعلیمات پر قائم ہے۔ یعنی دنیاوی اعتبار سے بھی اور دینی اعتبار سے بھی اسلام (اور مسلم نظریے کے مطابق گذشتہ ادیان کی اصلاح) کا آغاز، 610ء تا 632ء تک 23 سال پر محیط عرصے میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اللہ کی طرف سے اترنے والے الہام (قرآن) سے ہوتا ہے۔ قرآن عربی زبان میں نازل ہوا (برائے وجہ : اللسان القرآن) اور اسی زبان میں دنیا کی کل آبادی کا کوئی 24% حصہ یعنی لگ بھگ 1.6 تا 1.8 ارب افراد اس کو پڑھتے ہیں ؛ ان میں (مختلف ذرائع کے مطابق) قریباً 20 تا 30 کروڑ ہی وہ ہیں جن کی مادری زبان عربی ہے جبکہ 70 تا 80 کروڑ، غیر عرب یا عجمی ہیں جن کی مادری زبان عربی کے سوا کوئی اور ہوتی ہے۔ متعدد شخصی ماخذ سے اپنی موجودہ شکل میں آنے والی دیگر الہامی کتابوں کے برعکس، بوسیلۂ وحی، فردِ واحد (محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے منہ سے ادا ہوکر لکھی جانے والی کتاب اور اس کتاب پر عمل پیرا ہونے کی راہنمائی فراہم کرنے والی شریعت ہی دو ایسے وسائل ہیں جن کو اسلام کی معلومات کا منبع قرار دیا جاتا ہے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مختلف روایات میں اکثر گیارہ سے تیرہ ازواج کے نام ملتے ہیں۔ جنہیں امہات المؤمنین کہا جاتا ہے یعنی مؤمنین کی مائیں۔ اس کے علاوہ انہیں ازواج مطہرات بھی کہا جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ازواج میں حضرت عائشہ کے علاوہ تمام بیوہ و مطلقہ (طلاق شدہ) تھیں اور زیادہ شادیوں کا عرب میں عام رواج تھا۔
سانحۂ کربلا یا واقعہ کربلا یا کربلا کی جنگ 10 محرم 61ھ (بمطابق 9 یا 10 اکتوبر، 680ء) کو، موجودہ عراق میں کربلا کے مقام پر پیش آیا۔ یہ جنگ نواسہ رسول حضرت امام حسین ابن علی، ان کے حامیوں اور رشتہ داروں کے ایک چھوٹے سے گروہ، حسین ابن علیؓ کے ساتھ 72 ساتھی، کچھ غلام، 22 اہل بیت کے جوان اور خاندان نبوی کی کچھ خواتین و بچے شامل تھے، اور اموی ظالم حکمران یزید اول کی ایک بڑی فوج کے مابین ہوئی۔جس کو حسین ابنِ علی نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔جس میں اموی خلیفہ یزید اول کی فوج نے پیغمبر اسلام محمد کے نواسے حسین ابن علی اور ان کے رفقا کو لڑائی میں شہید کیا، حرم حسین کے خیموں کو لوٹ لیا گیا اور بالآخر آگ لگا دی گئی۔ عمر بن سعد کی فوج نے کربلا کے صحرا میں مقتولین کی لاشیں چھوڑ دیں۔ بنی اسد کے لوگوں نے لاشوں کو تین دن بعد دفن کیا۔ واقعہ کربلا کے بعد، حسین ابن علی کی فوج سے وابستہ متعدد خواتین اور بچوں کو گرفتار کر کے قید کر دیا گیا، بازار اور ہجوم والے مقامات سے گزر کر ان کی توہین کی گئی اور انہیں یزید ابن معاویہ کے دربار شام بھیج دیا گیا تھا۔ جنگ میں شہادت کے بعد حضرت امام حسین کو سید الشہدا کے لقب سے پکارا جاتا ہے۔
جمعیۃ علماء ہند بھارتی مسلمانوں کی ایک متحرک و فعال تنظیم ہے، جس میں بالعموم دیوبندی مکتب فکر سے تعلق رکھنے علماء زیادہ فعال ہیں۔ نومبر 1919ء میں اس کی بنیاد عبد الباری فرنگی محلی، ابو المحاسن محمد سجاد، کفایت اللہ دہلوی، عبد القادر بدایونی، سلامت اللہ فرنگی محلی، انیس نگرامی، احمد سعید دہلوی، ابراہیم دربھنگوی، محمد اکرام خان کلکتوی، محمد ابراہیم میر سیالکوٹی اور ثناء اللہ امرتسری سمیت علمائے کرام کی ایک جماعت نے رکھی تھی۔ جمعیۃ نے انڈین نیشنل کانگریس کے ساتھ مل کر تحریک خلافت میں نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ اس نے متحدہ قومیت کا موقف اختیار کرتے ہوئے تقسیم ہند کی مخالفت کی اور یہ موقف اپنایا کہ ہندوستان کے مسلمان اور غیر مسلم ایک ہی قوم کی تشکیل کرتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں جمعیۃ کے ایک مختصر حصے نے جمعیۃ علماء اسلام کے نام سے علاحدہ ہو کر تحریک پاکستان کی حمایت کرنے کا فیصلہ کیا۔ جمعیۃ کے آئین کا مسودہ کفایت اللہ دہلوی نے تیار کیا تھا۔
اللہ کے ذاتی نام 'اللہ' کے علاوہ اللہ کے ننانوے صفاتی نام مشہور ہیں۔ انہیں کہا جاتا ہے۔ ان میں سے بیشتر قرآن میں موجود ہیں اگرچہ قرآن میں ننانوے کی تعداد مذکور نہیں مگر یہ ارشاد ہے کہ اللہ کو اچھے اچھے ناموں سے پکارا جائے۔ روایات میں بکثرت نیچے دیے گئے ننانوے صفاتی نام ملتے ہیں جن کے ساتھ ان کا اردو ترجمہ بھی درج کیا جا رہا ہے۔
میر تقی میر (پیدائش: 28 مئی 1723ء— وفات: 22 ستمبر 1810ء) اصل نام میر محمد تقى اردو كے عظیم شاعر تھے۔ میر ان کا تخلص تھا۔ اردو شاعرى ميں مير تقى مير كا مقام بہت اونچا ہے ـ انہیں ناقدین و شعرائے متاخرین نے خدائے سخن کے خطاب سے نوازا۔ وہ اپنے زمانے كے ايك منفرد شاعر تھےـ۔ آپ كے متعلق اردو كے عظیم الشان شاعرمرزا غالب نے لکھا ہے۔
جنگ احد 17 شوال 3ھ (23 مارچ 625ء) میں مسلمانوں اور مشرکینِ مکہ کے درمیان احد کے پہاڑ کے دامن میں ہوئی۔ مشرکین کے لشکر کی قیادت ابوسفیان کے پاس تھی اور اس نے 3000 سے زائد افراد کے ساتھ مسلمانوں پر حملہ کی ٹھانی تھی جس کی باقاعدہ تیاری کی گئی تھی۔ مسلمانوں کی قیادت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کی۔ اس جنگ کے نتیجہ کو کسی کی فتح یا شکست نہیں کہا جا سکتا کیونکہ دونوں طرف شدید نقصان ہوا اور کبھی مسلمان غالب آئے اور کبھی مشرکین لیکن آخر میں مشرکین کا لشکر لڑائی ترک کر کے مکہ واپس چلا گیا۔
الناصر صلاح الدین یوسف بن ایوب (عربی: الناصر صلاح الدين يوسف بن أيوب؛ (کردی: سەلاحەدینی ئەییووبی)) جنہیں عام طور پر صلاح الدین ایوبی کے نام سے جانا جاتا ہے ایوبی سلطنت کے بانی تھے۔ وہ نہ صرف تاریخ اسلام بلکہ تاریخ عالم کے مشہور ترین فاتحین و حکمرانوں میں سے ایک ہیں۔ وہ 1138ء میں موجودہ عراق کے شہر تکریت میں پیدا ہوئے۔ ان کی زیر قیادت ایوبی سلطنت نے مصر، شام، یمن، عراق، حجاز اور دیار بکر پر حکومت کی۔ صلاح الدین ایوبی کو بہادری، فیاضی، حسن و خلق، سخاوت اور بردباری کے باعث نہ صرف مسلمان بلکہ مسیحی بھی عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ صلاح الدین ایوبی اپنے کارناموں میں نور الدین زنگی پر بھی بازی لے گئے۔ ان میں جہاد کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا اور بیت المقدس کی فتح ان کی سب سے بڑی خواہش تھی۔ صلاح الدین کو فاتح بیت المقدس کہا جاتا ہے جنھوں نے 1187ء میں یورپ کی متحدہ افواج کو عبرتناک شکست دے کر بیت المقدس ان سے آزاد کروا لیا تھا۔ صلاح الدین ایوبی 1193ء میں دمشق میں انتقال کر گئے ، انہوں نے اپنی ذاتی دولت کا زیادہ تر حصہ اپنی رعایا کو دے دیا۔ وہ مسجد بنو امیہ سے متصل مقبرے میں مدفون ہیں۔ مسلم ثقافت کے لئے اپنی اہمیت کے ساتھ ساتھ ، صلاح الدین کا کرد ، ترک اور عرب ثقافت میں نمایاں طور پر احترام کیا جاتا ہے۔ انہیں اکثر تاریخ کی سب سے مشہور کرد شخصیت کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔
نعمان ابن ثابت بن زوطا بن مرزبان (پیدائش: 5 ستمبر 699ء– وفات: 14 جون 767ء) (فارسی: ابوحنیفه،عربی: نعمان بن ثابت بن زوطا بن مرزبان)، عام طور پر آپکو امام ابو حنیفہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ آپ سنی حنفی فقہ (اسلامی فقہ) کے بانی تھے۔ آپ ایک تابعی، مسلمان عالم دین، مجتہد، فقیہ اور اسلامی قانون کے اولین تدوین کرنے والوں میں شامل تھے۔ آپ کے ماننے والوں کو حنفی کہا جاتا ہے۔ زیدی شیعہ مسلمانوں کی طرف سے بھی آ پ کو ایک معروف اسلامی عالم دین اور شخصیت تصور کیا جا تا ہے۔ انہیں عام طور پر "امام اعظم" کہا جاتا ہے۔
عیسیٰ ابن مریم ( عربی: عِيسَى ٱبْنُ مَرْيَمَ) ' تورات کے مطابق عیسیٰ ابن مریم ' کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ بنی اسرائیل سے خدا کے آخری نبی اور رسول ہیں اور بنی اسرائیل ( Banī Isra'īl ) کی رہنمائی کے لیے انجیل نامی کتاب کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث کیے گئے مسیحا ہیں ۔ قرآن میں، یسوع کو المسیح ( al-Masīḥ ) کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ جو معجزانہ طور پر ایک کنواری سے پیدا ہوئے، اپنے شاگردوں کے ساتھ معجزات دیکھاتے تھے،اور اللہ نے معجزانہ طور پر ان کو بچایا زندہ آسمان پر اٹھا لیا۔ یہودی مذہبی اسٹیبلشمنٹ نے مسترد کر دیا ہے، لیکن صلیب پر مرنے کے طور پر نہیں (اور نہ ہی دوبارہ زندہ کیے جانے پر) ، بلکہ جیسا کہ خدا نے ان کو معجزانہ طور پر بچایا اور آسمان پر زندہ اٹھا لیا۔ قرآن واضح طور پر اور بار بار اس خیال کو مسترد کرتا ہے کہ عیسیٰ کو ( یہودی یا رومی ) حکام نے نہ قتل کیا تھا اور نہ ہی وہ مصلوب کیے گے تھے۔ قرآن نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو عظیم ترین نبیوں میں شمار کیا ہے اور ان کا ذکر مختلف القابات سے کیا ہے۔ عیسیٰ کی نبوت سے پہلے یحییٰ کی نبوت ہے اور محمد کی جانشینی ہے، جن کے بعد کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ عیسیٰ نے احمد کا نام استعمال کرکے پیشین گوئی کی تھی۔ یسوع مسیح کے بارے میں اسلام میں مختلف قسم کی متغیر تشریحات موجود ہیں۔ قرآن کی مرکزی دھارے کی تشریحات میں آرتھوڈوکس عیسائی فلسفہ الہی ہائپوسٹاسس کے بارے میں کرسٹولوجی کے نظریاتی تصورات کا فقدان ہے، اس لیے بہت سے لوگوں کے لیے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن مسیح کو مسترد کرتا ہے کیونکہ یسوع مسیح کی الوہیت کے نظریے کے مسیحی نقطہ نظر میں ایک یہودی مسیحی خدا کے اوتار ہونے کے ناطے انسان، یا انسانی جسم میں خدا کے لفظی بیٹے کے طور پر، جیسا کہ یہ ظاہری طور پر متعدد آیات میں یسوع کے خدا کے طور پر الہامی انسانیت کے نظریے کی تردید کرتا ہے، اور اس بات پر بھی تاکید کرتا ہے کہ یسوع مسیح نے ذاتی طور پر خدا ( خدا باپ ) ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اصل پیغام ( taḥrīf ) میں ان کے زندہ ہونے کے بعد تبدیلی کی گئی تھی۔ قرآن مجید میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توحید پر زور دیا گیا ہے۔ اسلام میں تمام انبیاء کی طرح، عیسیٰ کو بھی رسول کہا جاتا ہے، جیسا کہ انہوں نے تبلیغ کی کہ ان کے پیروکاروں کو ' صراط المستقیم ' اختیار کرنا چاہیے۔ اسلامی روایت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بہت سارے معجزات سے منسوب کیا گیا ہے۔ روایتی اسلامی تعلیمات میں، یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ عیسیٰ مسیح امام مہدی کے ساتھ دوسری آمد میں مسیح الدجال ('جھوٹا مسیح') کو قتل کرنے کے لیے واپس آئیں گے، جس کے بعد قدیم قبائل یاجوج ماجوج ( Yaʾjūj Maʾjūj ) کے ساتھ۔ منتشر ہو جائیں گے.
فتح مکہ (جسے فتح عظیم بھی کہا جاتا ہے) عہد نبوی کا ایک غزوہ ہے جو 20 رمضان سنہ 8 ہجری بمطابق 10 جنوری سنہ 630 عیسوی کو پیش آیا، اس غزوے کی بدولت مسلمانوں کو شہر مکہ پر فتح نصیب ہوئی اور اس کو اسلامی قلمرو میں شامل کر لیا گیا۔ اس غزوہ کا سبب قریش مکہ کی جانب سے اس معاہدہ کی خلاف ورزی تھی جو ان کے اور مسلمانوں کے درمیان میں ہوا تھا، یعنی قریش مکہ نے اپنے حلیف قبیلہ بنو دئل بن بکر بن عبد منات بن کنانہ (اس کی ایک خاص شاخ جسے بنو نفاثہ کہا جاتا ہے) نے بنو خزاعہ کے خلاف قتل و غارت میں مدد کی تھی اور چونکہ بنو خزاعہ مسلمانوں کا حلیف قبیلہ تھا اس لیے اس حملے کو قریش مکہ کی جانب سے اس معاہدہ کی خلاف ورزی سمجھا گیا جو مسلمانوں اور قریش کے درمیان میں ہوا تھا، یہ معاہدہ "صلح حدیبیہ" کے نام سے معروف ہے۔ اسی معاہدہ کی خلاف ورزی کے جواب میں حضرت محمدﷺ بن عبد اللہ نے ایک عظیم الشان لشکر تیار کیا جو دس ہزار مجاہدین پر مشتمل تھا؛ لشکر آگے بڑھتا رہا یہاں تک کہ مکہ پہنچ گیا اور بغیر کسی مزاحمت کے مکہ میں پر امن طریقے سے داخل ہو گیا سوائے ایک معمولی سی جھڑپ کے جس کے سپہ سالار خالد بن ولید کو اس وقت سامنا ہوا جب قریش کی ایک ٹولی نے عکرمہ بن ابی جہل کی قیادت میں مسلمانوں سے مزاحمت کی اور پھر خالد بن ولید کو ان سے قتال کرنا پڑا جس کے نتیجے میں بارہ کفار مارے گئے اور باقی بھاگ گئے، جبکہ دو مسلمان بھی شہید ہوئے۔
یوم جمہوریہ بھارت بھارت کی ایک قومی تعطیل ہے جسے ملک بھر میں منایا جاتا ہے۔ اس دن کی اہمیت یہ ہے کہ حکومت ہند ایکٹ جو 1935ء سے نافذ تھا منسوخ کر کے آئین ہند کا نفاذ عمل میں آیا اور آئین ہند کی عمل آوری ہوئی۔دستور ساز اسمبلی نے آئین ہند کو 26 نومبر 1949ء کو اخذ کیا اور 26 جنوری 1950ء کو تنفیذ کی اجازت دے دی۔ آئین ہند کی تنفیذ سے بھارت میں جمہوری طرز حکومت کا آغاز ہوا۔
محمد اقبال کا پیغام یا فلسفہ حیات کیا ہے اگر چاہیں تو اس کے جواب میں صرف ایک لفظ ”خودی“ کہہ سکتے ہیں اس لیے کہ یہی ان کی فکر و نظر کے جملہ مباحث کا محور ہے اور انہوں نے اپنے پیغام یا فلسفہ حیات کو اسی نام سے موسوم کیا ہے۔ اس محور تک اقبال کی رسائی ذات و کائنات کے بارے میں بعض سوالوں کے جوابات کی تلاش میں ہوئی ہے۔ انسان کیا ہے؟ کائنات اور اس کی اصل کیا ہے؟ آیا یہ فی الواقع کوئی وجود رکھتی ہے یا محض فریب نظر ہے؟ اگر فریب نظر ہے تو اس کے پس پردہ کیاہے؟ اس طرح کے اور جانے کتنے سوالات ہیں جن کے جوابات کی جستجو میں انسان شروع سے سرگرداں رہا ہے۔ اس طرح کے سوالات جن سے انسان کے وجود کا اثبات ہوتا ہے۔ اردو شاعری میں اقبال سے پہلے غالب نے بھی اُٹھائے تھے۔
محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصال کے بعد ابوبکر صدیق، عمر فاروق، عثمان غنی اور علی المرتضی، حسن المجتبی کا عہد خلافت خلافت راشدہ کہلاتا ہے۔ اس عہد کی مجموعی مدت تیس سال ہے جس میں ابوبکر صدیق اولین اور علی آخری خلیفہ ہیں، حسن کی خلافت کے چھ ماہ خلافت علی میں شمار ہوتے ہیں جیسا کہ جمہور اسلاف کی رائے ہے۔ اس عہد کی نمایاں ترین خصوصیت یہ تھی کہ یہ قرآن و سنت کی بنیاد پر قائم نظام حکومت تھا۔
رموز اوقاف (انگریزی: Punctuation) وہ علامتیں اور نشانیاں ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ عبارت میں کس جگہ اور کس طرح وقف کرنا ہے۔ رموز، رمز کی جمع ہے جس کا مطلب ہے علامت یا اشارہ جبکہ اوقاف، وقف کی جمع ہے جس کے معنی ٹھہرنے یا رکنے کے ہیں، یعنی رموز اقاف یا علامات وقف اُن اشاروں یا علامتوں کو کہتے ہیں جو کسی عبارت کے ایک جملے کے ایک حصے کو اس کے باقی حصوں سے علاحدہ کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ اردو، انگریزی یا دوسری زبانوں کے قواعد میں ان اوقاف اور علامات کو بہت اہمیت حاصل ہے اگر ان کا خیال نہ رکھا جائے تو مفہوم کچھ سے کچھ بلکہ بعض اوقات تو اس کے بالکل اُلٹ ہو جاتا ہے جہاں ٹھہرنا یا وقفہ کرنا ہو ان کے لیے اردو میں درج ذیل رموز اوقاف استعمال ہوتے ہیں۔ ختمہ (۔)، سوالیہ (؟)، سکتہ (،) تفصیلہ (:_)، قوسین () واوین (” “) ندائیہ یا فجائیہ (!) علامت شعر(؎) علامت مصرع (؏) علامت وغیرہ۔
پاکستان کرکٹ ٹیم بمقابلہ افغانستان بمقام متحدہ عرب امارات 2022–23ء
پاکستان کرکٹ ٹیم نے مارچ 2023ء میں افغانستان کرکٹ ٹیم کے خلاف تین ٹوئنٹی20 بین الاقوامی (T20I) میچ کھیلنے کے لیے متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کا دورہ کیا تھا۔ یہ دونوں ٹیموں کے درمیان بین الاقوامی کرکٹ کے کسی بھی فارمیٹ میں پہلی دو طرفہ سیریز تھی۔نومبر 2022ء میں افغانستان کرکٹ بورڈ (ACB) نے امارات کرکٹ بورڈ (ECB) کے ساتھ اپنے گھریلو میچ متحدہ عرب امارات میں کھیلنے کے لیے پانچ سالہ معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ 7 مارچ 2023ء کو افغانستان کرکٹ بورڈ نے دورے کی تاریخوں کی تصدیق کی جس کے مطابق میچ 25، 27 اور 29 مارچ 2023ء کو کھیلے جانے تھے۔ تاہم دو دن بعد ہاک آئی ٹیکنالوجی کی دستیابی کی وجہ سے شیڈول میں تبدیلیاں کی گئیں۔افغانستان نے پہلا ٹی/20 بین الاقوامی 6 وکٹوں سے جیتا تھا۔ یہ پاکستان کے خلاف بین الاقوامی کرکٹ میں افغانستان کی پہلی جیت تھی۔ انھوں نے دوسرا ٹی/20 بین الاقوامی بھی 7 وکٹوں سے جیتا اور سیریز میں ناقابل تسخیر برتری حاصل کی۔ یہ افغانستان کی پاکستان کے خلاف پہلی دوطرفہ سیریز جیت تھی اور ٹاپ چھ ٹیموں میں سے کسی کے خلاف ان کی پہلی دو طرفہ ٹی/20 بین الاقوامی سیریز میں فتح تھی۔ پاکستان نے تیسرا ٹی ٹوئنٹی 66 رنز سے جیت کر واپسی کی۔ تاہم افغانستان نے سیریز 2–1 سے جیت لی۔
سورۃ، سورت یا سورہ عربی زبان کا لفظ ہے، قرآن مجید میں 114 سورتیں ہیں۔ ہر سورۃ آیات پر مشتمل ہوتی ہے۔ سورتوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے مکی اور مدنی۔ مکی سورتیں وہ ہیں جو مدینہ کی طرف ہجرت سے پہلے مکہ شہر میں نازل ہوئیں ان کی تعداد 86 ہے۔ مکی دور کی سورتوں کا تعلق قیامت، جزا، یہودیت اور عیسائیت کی کہانیوں جیسے موضوعات سے ہے۔ مدنی سورتیں وہ ہیں جو ہجرت کے بعد نازل ہوئیں ان سورتوں کی تعداد 28 ہے۔ مدنی دور کی سورتیں ذاتی معاملات، معاشرے اور ریاست کے قوانین پر زیادہ توجہ دیتی ہیں۔ قرآن مجید کی نویں سورت سورہ توبہ کے علاوہ ہر سورت بسم اللہ الرحمن الرحیم (" اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے " ) سے شروع ہوتی ہے۔ انتیس سورتیں حروف مقطعات ، انوکھے حروف کے مجموعے جن کے معانی نامعلوم ہیں سے شروع ہوتی ہیں۔ قرآن مجید کی پہلی سورت سورہ فاتحہ ہے۔ علمائے شرعی نے قرآن کی سورتوں کو ان کی لمبائی کے لحاظ سے تین حصوں میں تقسیم کیا ہے، یعنی سات لمبی سورتیں البقرہ ، آل عمران، النساء ، المائدۃ ، الانعام ، الاعراف ، اور التوبہ ۔ المعون جو کہ سات لمبے دن ہیں اس کو اس لیے کہا گیا کہ اس کی ہر سورت سو آیات سے زیادہ یا اس کے قریب ہے۔ پہلے دور کے مسلمانوں نے قرآن کی سورتوں کے نام استعمال کی تعدد کے مطابق رکھے تھے، یہ بات مشہور ہے کہ عربوں نے بہت سے ناموں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے نام کسی نادر یا عجیب چیز سے لیے ہیں جس کی کوئی خصوصیت یا اہمیت ہو۔ جیساکہ اسی مناسبت سے قرآن کی سورتوں کے نام دیے گئے جیسے سورۃ البقرہ میں گائے کے قصے کے ذکر کی وجہ سے یہ نام رکھا گیا اور سورۃ النساء کو عورتوں کے متعلق بہت سے احکام مذکور ہونے کی وجہ سے یہ نام دیا گیا ہے۔ سورۃ الانعام کو اس کے حالات کی تفصیل کی وجہ سے کہا گیا ہے، اور سورۃ اخلاص بھی خالص توحید وجہ سے کہی گئی ہے ۔ قرآن کی پہلی سورت سورہ فاتحہ ہے، لمبی سورتیں قرآن کے شروع میں اور چھوٹی سورتیں آخر میں جمع کی گئی ہیں، اس لیے سورتوں کی ترتیب ان کی تاریخ کے مطابق نہیں ہے۔ تمام سورتیں بسم اللہ سے شروع ہوتی ہیں۔ سورۃ التوبہ جو کہ جنگ کے دوران میں نازل ہوئی تھی اس لیے اس سورت میں بسم اللہ شروع میں نہیں پڑھی جاتی۔ یہ سورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور مشرکین کے درمیان عہد کو توڑنے کے لیے نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے علی بن ابی طالب کے پاس بھیجا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پڑھ کر سنایا اور اس پر بسم اللہ نہیں کہی جیسا کہ عربوں کا رواج تھا۔ .
متضاد مخالف؛ اُلٹ؛ اُلٹی طرف؛ دوسری جانب؛ ضِد؛ مُقابل؛ بِالمقابل؛ متقابل؛ متضاد؛ ایک لفظ جو مفہوم کے لحاظ سے دوسرے کی ضد ہو؛ متضاد المعنی۔ ایسے الفاظ جو مماثل وضع میں لیکن ایک دوسرے کے مخالف، برعکس یا یکسر مختلف ہوں۔ اسے 'بائنری' تعلق سے تعبیر کیا جاتا ہے کیوں کہ متضاد جوڑوں میں دو رکن ہوتے ہیں۔ باہم مخالف تعلق کو متضاد کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ایک جوڑے میں مخالف لفظ کو عام طور پر اس سوال کے ذریعہ طے کیا جا سکتا ہے کہ الف کے برعکس کیا ہے؟ جیسے:
لفظ تفسیر عربی زبان کا لفظ ہے جس کا [مادہ معینی] فسر ہے۔ یہ باب تفصیل کا مصدر ہے اس کے معنی ہیں واضح کرنا، کھول کر بیان کرنا، وضاحت کرنا، مراد بتانا اور بے حجاب کرنا ہے۔ قرآن کی تشریح و وضاحت کے علم کو تفسیر کہتے ہیں اور تفسیر کرنے والے کو مفسر۔ اسی عربی لفظ فسر سے، اردو زبان میں، تفسیر کے ساتھ ساتھ ديگر متعلقہ الفاظ بھی بنائے جاتے ہیں جیسے؛ مُفسَر، مُفَسِّر اور مُفَسّر وغیرہ ایک اردو لغت میں [ مُفسَر]، [ مُفَسِّر] اور [ مُفَسّــَر] کا اندراج۔ تفسیر کی جمع تفاسیر کی جاتی ہے اور مفسر کی جمع مفسرین آتی ہے۔
گیم آف تھرونز (انگریزی: Game of Thrones) ٹیلی وژن سیریز جارج مارٹن کی ناول سیریز اے سونگ آف آئس اینڈ فائر پر مبنی ہے۔ اس کے سات سیزن اور سڑسٹھ قسطیں نشر کی جاچکی ہیں۔ آٹھواں سیزن اس سال اپریل میں نشر کیا جائے گا۔اے سونگ آف آئس اینڈ فائر ایک افسانوی سیریز ہے جس میں قدیم دور کی مکمل دنیا پیش کی گئی ہے۔ یہ بنیادی طور پر جادوئی دنیا نہیں ہے، اگرچہ کچھ ان ہونیاں اور جادوئی کردار دکھائے گئے ہیں۔ گالیاں، تشدد اور سیکس کے مناظر کی وجہ سے یہ بچوں کے لیے مناسب نہیں ہے۔یہ سات ناولوں کی سیریز ہے جس میں سے ابھی پانچ ناول شائع ہوئے ہیں۔ مزید دو ناول ابھی شائع ہونے ہیں۔ ٹی وی سیریز چھپے ہوئے ناولوں سے آگے بڑھ چکی ہے۔ جارج مارٹن نے ٹی وی سیریز کے لیے غیر مطبوعہ مواد پروڈیوسرز کو دے دیا تھا۔
سیدہ عائشہ بنت ابی بکر (رضی اللہ عنہا) (پیدائش: 614ء– وفات: 13 جولائی 678ء) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زوجہ ہیں۔ آپ کو اُم المومنین کے خطاب سے یاد کیا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد عہد خلفائے راشدین میں آپ کی شخصیت بہت نمایاں نظر آتی ہے۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد 47 سال بقید حیات رہیں اور یہ تمام وہ عرصہ ہے جس میں ابتدائی مسلم فتوحات ہوئیں، مختلف ممالک مملکت اسلامیہ میں داخل ہوئے۔ علم الحدیث میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایات کے بعد سب سے زیادہ روایاتِ حدیث کا ذخیرہ آپ سے ہی روایت کیا گیا ہے۔ آپ عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور عہد خلفائے راشدین کی عینی شاہد بھی تھیں اور مزید برآں آپ نے خلافت امویہ کے ابتدائی 17 سال بھی ملاحظہ فرمائے۔ آپ کا انتقال مدینہ منورہ میں سنہ 678 ء میں ہوا۔ آپ کے مناقب و فضائل کثیر ہیں جس سے آپ کی عظمت و شان جلالت مسلم خواتین پر نمایاں ہے۔جنگ جمل کے حوالے سے یہ بات معلوم ہونا بھی مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ کچھ احادیث اور تاریخی کتابوں کے واقعات میں راویوں پر علما اسلام کی طرف سے جرح بھی کی گئی ہے اور بہت سے راویوں کے حالات معلوم نہیں ہیں ۔مسلمان امت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اہل بیت اطھار کے بارے میں صحیح عقائد قرآن وسنت اور مستند و صحیح احادیث نبوی سے لیتے
'مرزا اسد اللہ خان غالب' کی شخصیت کو کون نہیں جانتا۔ ہمارے ملک میں تو یہ عالم ہے کہ اگر کسی کو تھوڑی بہت اردو کی سوجھ بوجھ ہے تو غالب کے نام کو تو ضرور جانتا ہوگا۔ بحیثیتِ شاعر وہ اتنے مقبول ہیں کہ اُن کے اشعار زبان زدِ خلائق ہیں۔ اور بحیثیتِ نثر نگار بھی وہ کسی سے کم نہیں۔ بلکہ اس لحاظ سے ان کا پایہ سب سے بلند ہے کہ ایسے زمانے میں جب رنگینی و قافیہ پیمائی، انشا پردازی کا اصل سرمایہ سمجھی جاتی تھی ، انہوں نے نثر میں بھی ایک نئی راہ نکالی ۔ سادہ و پرکار، حسین و رنگین۔ یہی نمونۂ نثر آنے والوں کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوئے۔
شرلینڈ ٹاؤن شپ، وینیباگو کاؤنٹی، الینوائے
شرلینڈ ٹاؤن شپ، وینیباگو کاؤنٹی، الینوائے (انگریزی: Shirland Township, Winnebago County, Illinois) ریاستہائے متحدہ امریکا کا ایک ٹاؤن شپ جو Winnebago میں واقع ہے۔
انسپشن ایک 2010ء کی سائنس فکشن فلم ہے جس کا لکھاری، شریک پیداکار اور ہدایتکار کرسٹوفر نولن ہے۔ فلم کے ستاروں میں شامل ہیں لیونارڈو ڈی کیپریو، کین واتانابے، جوسف گارڈن لیوِٹ، مَیریئن کوٹِلرڈ، ایلن پیج، ٹام ہارڈی، دلیپ راؤ، سِلیئن مرفی، ٹام برنگر اور مائکل کین۔ ڈیکاپریو ایک چور کا کردار ادا کرتا ہے، جو کمپنیوں کی جاسوسی کرتا ہے، اپنے زیر عملوں کے خوابوں میں اور چنانچہ ان کی ماتحت شعور میں، راز میں داخل ہونے کے ذریعے۔ وہ اپنے وطن سے بسبب الزام فرار ہوا ہے اور ایک کروڑپتی تاجر اسے پیشکش کرتا ہے کہ وہ اس کے خلاف الزام مٹا کر اسے اپنی پرانی زندگی بخشے گا، اگر وہ ایک اسمبھو سمجھا کام کرے : "انسپشن"، کسی دیگر کا تصور ایک شخص کے ماتحت شعور میں راز میں داخل کرنا۔
نیشنل کاؤنٹیز جو 2020ء سے پہلے مائنر کاؤنٹیز کے نام سے جانی جاتی ہیں، انگلینڈ اور ویلز کی کرکٹنگ کاؤنٹی ہیں جن کو فرسٹ کلاس کا درجہ حاصل نہیں ہے۔ یہ کھیل نیشنل کاؤنٹی کرکٹ ایسوسی ایشن کے زیر انتظام ہے جو انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ کے تحت آتا ہے۔ نیشنل کاؤنٹی کرکٹ میں اس وقت بیس ٹیمیں ہیں: 19انگلینڈ کی تاریخی کاؤنٹیوں کے علاوہ ویلز نیشنل کاؤنٹی کرکٹ کلب کی نمائندگی کرتی ہیں۔
رونالڈ ولسن ریگن امریکہ کے سابق صدر اور ہالی ووڈ کے مشہور اداکار تھے۔ امریکی ریاست الینوائے میں پیدا ہوئے۔ کامیاب زندگی کے سفر کا آغاز 1937ء میں ہالی ووڈ سے ایک فلمی اداکار کے طور پر کیا۔ اس دوران انہوں نے کوئی بیس سے زیادہ فلموں میں کام کیا۔ 74-1966 کیلی فورنیا کے گورنر بنے۔ وہ 1981ء سے 1989ء تک امریکا کے 40 ویں صدر بنے جس دور میں سرد جنگ عروج پر رہی اور سابق سوویت ریاست کے خاتمے کا آغاز ہوا۔ سرد جنگ کے دوران میں افغان جہاد کو کامیاب بنانے اور کمیونزم کے خاتمے کے لیے بہت زیادہ کوششیں کیں جو بارآور ثابت ہوئیں۔ وہ اب تک امریکا کے صدور میں سے وہ سب سے طویل عمر پانے والے صدر ہیں۔ لاس اینجلس میں انتقال ہوا۔
صحیح بخاری کا اصل نام «الجامع المسند الصحیح المختصر من امور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وسننہ و ایامہ» ہے جو «صحیح البخاری» کے نام سے مشہور ہے، یہ اہل سنت وجماعت کے مسلمانوں کی سب سے مشہور حدیث کی کتاب ہے، اس کو امام محمد بن اسماعیل بخاری نے سولہ سال کی مدت میں بڑی جانفشانی اور محنت کے ساتھ تدوین کیا ہے، اس کتاب کو انھوں نے چھ لاکھ احادیث سے منتخب کر کے جمع کیا ہے۔ اہل سنت کے یہاں اس کتاب کو ایک خاص مرتبہ و حیثیت حاصل ہے اور ان کی حدیث میں چھ امہات الکتب (صحاح ستہ) میں اول مقام حاصل ہے، خالص صحیح احادیث میں لکھی جانی والی پہلی کتاب شمار ہوتی ہے، اسی طرح اہل سنت میں قرآن مجید کے بعد سب سے صحیح کتاب مانی جاتی ہے۔ اسی طرح صحیح بخاری کا شمار کتب الجوامع میں بھی ہوتا ہے، یعنی ایسی کتاب جو اپنے فن حدیث میں تمام ابواب عقائد، احکام، تفسیر، تاریخ، زہد اور آداب وغیرہ پر مشتمل اور جامع ہو۔
اردو زبان کی ابتدا کے متعلق نظریات
اردو کی ابتدا و آغاز کے بارے میں کئی مختلف نظریات ملتے ہیں یہ نظریات آپس میں اس حد تک متضاد ہیں کہ انسان چکرا کر رہ جاتا ہے۔ ان مشہور نظریات میں ایک بات مشترک ہے کہ ان میں اردو کی ابتدا کی بنیاد برصغیر پاک و ہند میں مسلمان فاتحین کی آمد پر رکھی گئی ہے۔ اور بنیادی استدلال یہ ہے کہ اردو زبان کا آغاز مسلمان فاتحین کی ہند میں آمد اور مقامی لوگوں سے میل جول اور مقامی زبان پر اثرات و تاثر سے ہوا۔ اور ایک نئی زبان معرض وجود میں آئی جو بعد میں اردو کہلائی۔ کچھ ماہرین لسانیات نے اردو کی ابتدا کا سراغ قدیم آریاؤں کے زمانے میں لگانے کی کوشش کی ہے۔ بہر طور اردو زبان کی ابتدا کے بارے میں کوئی حتمی بات کہنا مشکل ہے۔ اردو زبان کے محققین اگرچہ اس بات پر متفق ہیں کہ اردو کی ابتدا مسلمانوں کی آمد کے بعد ہوئی لیکن مقام اور نوعیت کے تعین اور نتائج کے استخراج میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس انداز سے اگر اردو کے متعلق نظریات کو دیکھا جائے تو وہ نمایاں طور پر چار مختلف نظریات کی شکل میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔
یوسف علیہ السلام اللہ تعالٰی کے نبی تھے۔ آپ کا ذکر بائبل میں بھی ملتاہے۔ آپ یعقوب علیہ السلام کے بیٹے تھے۔ آپ کا تعلق انبیا اللہ کے خاندان سے تھا۔ گیارہ سال کی عمر سے ہی نبی ہونے کے آثار واضح ہونے لگے۔ آپ نے خواب میں دیکھا کہ گیارہ ستارے، سورج اور چاند آپ کو سجدہ کر رہے ہیں۔ آپ کے والد یعقوب علیہ السلام نے آپ کو اپنا خواب کسی اور کو سنانے سے منع کیا۔ قرآن مجید کی ایک سورت ان کے نام پہ ہے۔ قران نے یوسف علیہ السلام کے قصے کو احسن القصص کہا ہے۔ سورہ انعام اور سورہ غافر میں بھی ان کا ذکر آیا ہے۔
سونگ خاندان کے دور حکومت میں اسلام
تانگ خاندان کے زوال کے بعد 907ء میں سونگ خاندان برسر اِقتدار آیا اور اِس خاندان کے عہدہائے حکمرانی میں چین میں مسلمان بڑے عہدوں پر فائز ہوئے اور مسلم آبادیاں چینی مقبوضات اور چینی صوبوں میں مستقل آباد ہوئیں۔
عربی میل (عربی: المِیلْ، انگریزی: al-mīl) تاریخی طور پر قدیم عربی اکائیوں میں طول کی اکائی ہے جسے موجودہ زمانے میں 1.8 سے 2.0 کلومیٹر کے درمیان تصور کیا جاتا ہے۔ طول کی یہ اِکائی قرونِ وسطیٰ میں قرونِ وسطیٰ کے عرب جغرافیہ دان اور ماہرین فلکیات استعمال کیا کرتے تھے۔ اب اِس اکائی کی بجائے ناٹیکل میل استعمال ہوتا ہے۔
پندرہ روزہ (انگریزی: Fortnight) وقت کی ایک اکائی ہے جو 14 دنوں یا دو ہفتوں پر محیط ہوتی ہے۔ اس لفظ کا عمومًا اطلاق اخبارات، رسائل اور جرائد پر ہوتا ہے جس کے چھپنے اور قارئین کے رو بہ رو آنے کا دورانیہ دو ہفتے ہوتا ہے۔ کچھ کام لوگ اور ادارہ جات پندرہ روزہ توقف کے بعد ہی تکمیل کرتے ہیں۔ مثلًا کچھ اسکولوں میں مہینے میں دو بار یا پندرہ روزہ دورانیے سے اسمبلی کا انعقاد ہوتا ہے جس میں طلبہ و طالبات جمع ہوتے ہیں اور اپنی صلاحیتوں کا ایک دوسرے کے رو بہ رو اظہار کرتے ہیں۔ کچھ ادارہ جات میں ہفتہ کے کسی مخصوس دن کو اسی دن کے متبادل انداز میں اجلاس کا انعقاد ہوتا ہے۔ مثلًا، اگر اس ادارے میں سنیچر، 9 نومبر، 2019ء کو اگر کوئی بیٹھک یا میٹنگ ہوتی ہے، تو اگلی میٹنگ اور بیٹھک اِسی سال کی 25 نومبر کی تاریخ ہو ہوتی ہے۔ کچھ چگہوں پر لوگوں کو اجرت ہر مہینے کے ختم پر نہیں بلکہ ہر ہفتہ یا ہر پندرہ روزہ دورانیے سے دی جاتی ہے۔ اسی طرح سے کرایہ جات کہیں ماہانہ کے حساب سے تو کبھی ہفتہ در ہفتہ اور کہیں پندرہ روزہ دورانیے کے حساب سے مطالبہ کیے جاتے ہیں اور ایضًا ادا بھی ہوتے ہیں۔
صالح العاروری ( عربی: صالح العاروري ، جنہیں صلاح العاروری یا صالح العروری کے طور پر بھی نقل کیا گیا ہے؛ پیدائش 19 اگست 1966ء ) حماس کے سینئر رہنما اور اس کے عسکری بازو عزالدین القسام بریگیڈز کے بانی کمانڈر ہیں۔ سن 2023ء تک، وہ حماس کے سیاسی بیورو کے نائب چیئرمین اور مغربی کنارے کے حماس کے فوجی کمانڈر بھی کہے جاتے ہیں، حالانکہ وہ فی الحال لبنان میں رہتے ہیں۔ انہیں "ایک قابل، کرشماتی، ہوشیار اور بہترین روابط کے ساتھ ایک زیرک رہنما کے طور پر جانا جاتا ہے۔" ریاستہائے متحدہ کی حکومت العاروری کو "حماس کے ایک اعلیٰ فوجی رہنما اور 1990ء کی دہائی کے اوائل میں الخلیل یونیورسٹی میں حماس کی طلباء تنظیم کے رہنما" کے طور پر دیکھتی ہے۔" آپ نے ایک بھرتی کرنے والے کے طور پر بھی کام کیا، اور حماس کی جانب سے فنڈز اکٹھا کرنے اور منتقل کرنے میں بھی سرگرم عمل رہے۔ صیہونی دہشت گردوں نے ان کے سر کی قیمت 5,000,000 امریکی ڈالر مقرر کی ہے۔
پہلی جنگ عظیم میں ترکی نے برطانیہ کے خلاف جرمنی کا ساتھ دیا۔ ترکی کی جنگ میں شمولیت سے ہندوستان کے مسلمان پریشان ہوئے کہ اگر انگریز کامیاب ہو گیا تو ترکی کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جائے گا۔ ہندوستان کے مسلمانوں نے انگریزوں کا ساتھ دینے کے لیے وزیر اعظم برطانیہ لائیڈ جارج سے وعدہ لیا کہ جنگ کے دوران میں مسلمانوں کے مقامات مقدسہ کی بے حرمتی نہیں ہو گی اور جنگ کے بعد مسلمانوں کی خلافت محفوظ رہے گی
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مدینہ ہجرت کے بعد یہاں کی آبادی (خصوصاً یہود) کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جو میثاق مدینہ کے نام سے موسوم ہے۔ یہ پہلا بین الاقوامی تحریری معاہدہ ہے۔ بعض مورخین میگنا کارٹا کو پہلا بین الاقوامی معاہدہ قرار دیتے ہیں حالانکہ میثاق مدینہ 622ء میں ہوا جبکہ میگنا کارٹا 600 سالوں بعد 1215ء میں انگلستان کے شاہ جان اول کے زمانے میں ہوا۔