اردو ویکیپیڈیا کے سب سے زیادہ ملاحظہ کردہ مضامین کی فہرست۔ مزید معلومات کے لیے ۔ ۔ ۔
انا لله و انا الیہ راجعون (عربی: إِنَّا لِلَّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ) قرآن میں سورۃ البقرہ کی آیت 156 کے ایک حصے سے لیا گیا ہے۔، اس کا مطلب ہے "ہم خدا کے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔" جب مسلمان کسی کی موت یا مصیبت کا سنتے ہیں تو یہ آیت پڑھتے ہیں۔ وہ اس آیت کو تعزیت کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں اور مصیبت کے وقت صبر کا مطالبہ کرتے ہیں۔
غبار خاطر ابو الکلام آزاد کے خطوط کا مجموعہ ہے۔ یہ تمام خطوط نواب صدر یار جنگ مولانا حبیب الرحمن خاں شروانی رئیس بھیکم پور ضلع علی گڑھ کے نام لکھے گئے تھے۔ یہ خطوط قلعہ احمد نگر میں 1942ء تا 1945ء کے درمیان زمانہ اسیری میں لکھے گئے۔ مولانا کی زندگی کا ایک بڑا حصہ قید و بند میں گذرا مگر اس بار قلعہ احمد نگر کی اسیری ہر دفعہ سے زیادہ سخت تھی کیونکہ اس بار نہ کسی سے ملاقات کی اجازت تھی اور نہ کسی سے خط کتابت کرنے کی۔ اس لیے مولانا نے دل کا غبار نکالنے کا ایک راستہ ڈھونڈ نکالا اور خطوط لکھ کر اپنے پاس محفوظ کرنا شروع کر دیے۔ مولانا نے خود اسی مناسبت سے ان خطوط کو غبار خاطر کا نام دیا ہے اور "خط غبار من است این غبار خاطر" سے اسے تعبیر کیا ہے۔ ایک خط میں شروانی صاحب کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں: "جانتا ہوں کہ میری صدائیں آپ تک نہیں پہنچ سکیں گی۔ تاہم طبعِ نالہ سنج کو کیا کروں کہ فریاد و شیون کے بغیر رہ نہیں سکتی۔ آپ سن رہے ہوں یا نہ رہے ہوں میرے ذوق مخاطبت کے لیے یہ خیال بس کرتا ہے کہ روئے سخن آپ کی طرف ہے۔"
“لفظ قصیدہ عربی لفظ قصد سے بنا ہے اس کے لغوی معنی قصد (ارادہ ) کرنے کے ہیں۔ گویا قصیدے میں شاعر کسی خاص موضوع پر اظہار خیال کرنے کا قصد کرتا ہے اس کے دوسرے معانی مغز کے ہیں یعنی قصیدہ اپنے موضوعات و مفاہیم کے اعتبار سے دیگر اصناف ِ شعر کے مقابلے میں وہی نمایاں اور امتیازی حیثیت رکھتا ہے جو انسانی جسم و اعضاءمیں مغز کو حاصل ہوتی ہے فارسی میں قصیدے کو چامہ بھی کہتے ہیں”۔
ابوبکر صدیق عبد اللہ بن ابو قحافہ عثمان تیمی قرشی (573ء—634ء) اسلام کے پہلے خلیفہ راشد، عشرہ مبشرہ میں شامل، خاتم النبین محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اولین جانشین، صحابی، خسر اور ہجرت مدینہ کے وقت رفیق سفر تھے۔ اہل سنت و الجماعت کے یہاں ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ انبیا اور رسولوں کے بعد انسانوں میں سب سے بہتر، صحابہ میں ایمان و زہد کے لحاظ سے سب سے برتر اور ام المومنین عائشہ بنت ابوبکر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے محبوب تر تھے۔ عموماً ان کے نام کے ساتھ صدیق کا لقب لگایا جاتا ہے جسے حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی تصدیق و تائید کی بنا پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دیا تھا۔
قرآن کریم، قرآن مجید یا قرآن شریف (عربی: القرآن الكريم) دین اسلام کی مقدس و مرکزی کتاب ہے جس کے متعلق ہم اسلام کے پیروکاروں کا اعتقاد ہے کہ یہ کلام الہی ہے اور اسی بنا پر یہ انتہائی محترم و قابل عظمت کتاب ہے۔ اسے ہمارے پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی کے ذریعے اتارا گیا۔ یہ وحی اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتے حضرت جبرائیل علیہ السلام لاتے تھے جیسے جیسے قرآن مجید کی آیات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوتیں آپ صلی علیہ وآلہ وسلم اسے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو سناتے اور ان آیات کے مطالب و معانی سمجھا دیتے۔ کچھ صحابہ کرام تو ان آیات کو وہیں یاد کر لیتے اور کچھ لکھ کر محفوظ کر لیتے۔ ہم مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن ہر قسم کی تاریف بیان کرتا ہے پاک ہے محفوظ ہے، قرآن میں آج تک کوئی کمی بیشی نہیں ہو سکی اور اسے دنیا کی واحد محفوظ افضل کتاب ہونے کی حیثیت حاصل ہے، جس کا حقیقی مفہوم تبدیل نہیں ہو سکا اور تمام دنیا میں کروڑوں کی تعداد میں چھپنے کے باوجود اس کا متن ایک جیسا ہے اور اس کی تلاوت عبادت ہے۔ اور صحف ابراہیم، زبور اور تورات و انجیل کے بعد آسمانی کتابوں میں یہ سب سے آخری اور افضل کتاب ہے اور سابقہ آسمانی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اب اس کے بعد کوئی آسمانی کتاب نازل نہیں ہوگی۔ قرآن کی فصاحت و بلاغت کے پیش نظر اسے لغوی و مذہبی لحاظ سے تمام عربی کتابوں میں اعلیٰ ترین مقام حاصل ہے۔ نیز عربی زبان و ادب اور اس کے نحوی و صرفی قواعد کی وحدت و ارتقا میں بھی قرآن کا خاصا اہم کردار دکھائی دیتا ہے۔ چنانچہ قرآن کے وضع کردہ عربی زبان کے قواعد بلند پایہ عرب محققین اور علمائے لغت مثلاً سیبویہ، ابو الاسود الدؤلی اور خلیل بن احمد فراہیدی وغیرہ کے یہاں بنیادی ماخذ سمجھے گئے ہیں۔
معراج کمالِ معجزاتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ یہ وہ عظیم خارقِ عادت واقعہ ہے جس نے تسخیرِ کائنات کے مقفّل دروازوں کو کھولنے کی اِبتداء کی۔ اِنسان نے آگے چل کر تحقیق و جستجو کے بند کواڑوں پر دستک دی اور خلاء میں پیچیدہ راستوں کی تلاش کا فریضہ سر انجام دیا۔ رات کے مختصر سے وقفے میں جب اللہ ربّ العزّت حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مسجدِ حرام سے نہ صرف مسجد اقصیٰ تک بلکہ جملہ سماوِی کائنات کی بے اَنت وُسعتوں کے اُس پار ’’قَابَ قَوْسَيْنِ‘‘ اور ’’أَوْ أَدْنَى‘‘ کے مقاماتِ بلند تک لے گیا اور آپ مدّتوں وہاں قیام کے بعد اُسی قلیل مدّتی زمینی ساعت میں اِس زمین پر دوبارہ جلوہ اَفروز بھی ہو گئے۔ قرآن کریم میں سورہ بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں ارشادِ خداوندی ہے کہ وہ (ذات) پاک ہے جو ایک رات اپنے بندے کو مسجد الحرام یعنی (خانہ کعبہ) سے مسجد اقصیٰ (یعنی بیت المقدس) تک جس کے اردگرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں لے گیا تاکہ ہم اسے اپنی (قدرت کی) نشانیاں دکھائیں۔ بے شک وہ سننے والا (اور) دیکھنے والا ہے۔ رجب کی ستائیسویں شب کو اللہ کے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو معراج کا شرف عطا کیا گیا۔اگرچہ اس واقعہ کے زمان کے بارے میں کئی روایات موجود ہیں لیکن محققین کی تحقیق کے مطابق یہ واقعہ ہجرت سے تین سال قبل پیش آیا،یعنی دسویں سالِ بعثت کو۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ شیعہ سنی علما کا اتفاق ہے کہ نماز جناب ابو طالبؑ کی وفات کے بعد یعنی بعثت کے دسویں سال کو واجب ہوگئ تو پانچ وقت کی نماز اسی معراج کی رات امت پہ واجب ہو گئی تھی۔منقول ہے کہ اس دن کفار نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بہت ستایا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی چچازاد بہن ام ہانی کے گھر تشریف لے گئے اور وہاں آرام فرمانے لگے۔ ادھر اللہ کے حکم سے حضرت جبرئیل پچاس ہزار فرشتوں کی برات اور براق لے کر نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ کا رب آپ سے ملاقات چاہتا ہے۔ چنانچہ سوئے عرش سفر کی تیاریاں ہونے لگیں۔ سفر معراج کا سلسلہ شروع ہونے والا تھا نبی رحمت کی بارگاہ میں براق حاضر کیا گیا جس پر حضور کو سوار ہونا تھا، مگر اللہ کے پیارے محبوب نے کچھ توقف فرمایا۔ جبرئیل امین نے اس پس و پیش کی وجہ دریافت کی تو آپ نے ارشاد فرمایا: مجھ پر تو اللہ رب العزت کی اس قدر نوازشات ہیں، مگر روز قیامت میری امت کا کیا ہو گا؟ میری امت پل صراط سے کیسے گذرے گی؟ اسی وقت اللہ تعالٰی کی طرف سے بشارت دی گئی :اے محبوب!
ایران کے افسانوی بادشاہ گشتاسپ کا بہادر بیٹا۔ جس نے چین اور توران سے جنگ میں نام پیدا کیا۔ باپ نے اسے ایک بار خفا ہو کر قید کر دیا تھا مگر ایرانی فوجوں کو شکست ہونے لگی تو رہا کر دیا۔ اس نے ایران کے کھوئے ہوئے صوبوں کو تورانیوں سے چھین لیا اور ایران کا قومی پرچم بھی جو تورانیوں کے قبضے میں چلا گیا تھا، بھی حاصل کر لیا۔ گشتاسپ نے اسفندیار سے تاج و تخت کا وعدہ کیا تھا۔ فتح کے بعد اس نے گشتاسپ کو اس کا وعدہ یاد دلایا تو اس نے یہ شرط رکھی کہ تم رستم کو جو باغی ہو گیا ہے، گرفتار کر لاؤ تو تخت تمہارے حوالے کر دوں گا۔ اسفند یار جنگ میں رستم کے ہاتھوں مارا گیا۔ اس نے بھی رستم کی انند ہفت خواں فتح کیا تھا۔
حبشہ (ایتھوپیا) کا بادشاہ جس نے 525ء میں یمن فتح کیا۔ مسیحیت کا پر جوش حامی تھا۔ اس نے یمن کے دار الحکومت صنعا میں ایک عالی شان گرجا تعمیر کروا دیا تھا۔ 570ء میں مکہ پر حملہ کیا جس کا مقصد خانہ کعبہ کو منہدم کر کے صنعا کے گرجے کو مرکزی عبادت گاہ کا درجہ دینا تھا۔ ابرہہ کی فوج میں ایک ہاتھی بھی تھا جس کا نام ابن ہشام نے محمود لکھا ہے۔ چونکہ عربوں کے لیے یہ ایک انوکھی چیز تھی اس لیے انھوں نے حملے کے سال کا نام عام الفیل (ہاتھی کا سال) رکھ دیا۔ قرآن مجید کی سورۃ فیل میں ہے کہ جب ابراہہ نے مکے پر حملہ کیا تو خدا نے مکے والوں کی مدد کے لیے ابابیلیں بھیجیں جن کے پنجوں میں کنکریاں تھیں۔ یہ کنکری جس شخص کو لگ جاتی، اس کا بدن پھٹ جاتا اور وہ تڑپ تڑپ کر مرجاتا۔ اس طرح ابراہہ کو بے نیل مرام واپس جانا پڑا۔ یہ واقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت سے پچاس روز پہلے کا ہے۔ اسی سال مکے میں چیچک کی وبا پھیلی جس سے اکثر مستششرقین اور کچھ مسلمان علما نے بھی یہ نتیجہ نکالا ہے کہ ابرہہ کی پسپائی کا سبب دراصل یہی وبا تھی جس کے باعث اس کی فوج کا ایک بڑا حصہ ناکارہ ہو گیا تھا۔
مکتوب نگاری زمانہ قدیم سے جذبات ، واقعات اور حالات کی ترسیل کا ذریعہ ہی ہے ۔ فارسی میں مکاتیب اور واقعات میں انشا پردازی کے اعلیٰ نمونے پیش کیے گئے ۔ لیکن یہ انشا پردازی محض لفظی بازی گری تھی اس میں جذبات اوراحساسات کا دخل بہت کم تھا ۔ مرصع و مسجع عبارت آرائی ہوتی تھی ۔ اردو خطوط میں بھی اسی کی تقلید کی گئی ۔ مرزا غالب نے اس فرسودہ روش کو ترک کر کے اردو خطوط نویسی میں انقلاب لایا ۔ انھوں نے خطوط کو زندگی کی حرارت بخشی ۔ سادہ اور عام فہم زبان کا استعمال کیا جس میں بے تکلف عبارتیں ہوتیں ، مسجع و مرصع عبارتوں سے پاک ۔ غالب خط نہیں لکھتے تھے بلکہ بات چیت کرتے تھے ۔ گرچہ یہ مکالمہ یک طرفہ ہوتا تھا لیکن مکتوب الیہ کو ایسا محسوس ہوتا تھا گویا غالب ان کے سامنے ان سے گفتگو کر رہے ہیں۔ غالب کے خطوط معلومات کا گنجینہ ہیں ۔ ان سے اس دور کی سیاسی سماجی زندگی پر روشنی پڑتی ہے ۔ خاص طور ایام غدر اور اس کے بعد کے چشم دید حالات اس خطوط میں بیان ہوئے ہیں ۔ بہت سے خطوط شاگردوں کے نام ہیں جن میں ان کے کلام پر اصلاح دینے کے ساتھ زبان و بیان کے نکات بتائے گئے ہیں۔ اردو ادب کی اس صنف مکتوب نگاری میں غالب کے خطوط کو نمایہ مقام حاصل ہے۔ غالب کے خطوط کے دو مجموعے عود ہندی اور اردوئے معلیٰ کے نام سے شائع ہو کر مقبول عام ہو چکے ہیں .
ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال (ولادت: 9 نومبر 1877ء – وفات: 21 اپریل 1938ء) بیسویں صدی کے ایک معروف شاعر، مصنف، قانون دان، سیاستدان اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھے۔ اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے اور یہی ان کی بنیادی وجہ شہرت ہے۔ شاعری میں بنیادی رجحان تصوف اور احیائے امت اسلام کی طرف تھا۔ علامہ اقبال کو دور جدید کا صوفی سمجھا جاتا ہے۔ بحیثیت سیاست دان ان کا سب سے نمایاں کارنامہ نظریۂ پاکستان کی تشکیل ہے، جو انھوں نے 1930ء میں الہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پیش کیا تھا۔ یہی نظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا۔ اسی وجہ سے علامہ اقبال کو پاکستان کا نظریاتی باپ سمجھا جاتا ہے۔ گو کہ انھوں نے اس نئے ملک کے قیام کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن انھیں پاکستان کے قومی شاعر کی حیثیت حاصل ہے۔
عمران احمد خان نیازی پاکستانی سیاست دان اور سابقہ کرکٹ کھلاڑی اور پاکستان کے سابق وزیر اعظم ہیں اور پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ بھی ہیں۔ اس سے پہلے وہ 2002ء تا 2007ء اور2013ء تا2018ء تک پاکستان قومی اسمبلی کے رکن بھی رہ چکے ہیں۔ سیاست میں قدم رکھنے سے قبل عمران خان ایک کرکٹر اور مخیر تھے۔ انہوں نے دو دہائیوں تک بین الاقوامی کرکٹ کھیلی اور بعد میں خدمت خلق کے منصوبے بنائے جیسے کہ شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال اور ریسرچ سینٹر اور نمل کالج وغیرہ۔
شب براءت یعنی لیلۃ البراءۃ۔ "اس شب کو ابتدائے اسلام سے عبادت کے ساتھ منایا جارہا ہے"۔ (شب براءت کیا ہے، از سجیل عباس مدنی)۔ لفظ شب فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں رات اور براءت عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں آزادی (اس رات کو شبِ برات اس لیے کہتے ہیں کیونکہ اس رات میں اللہ تعالیٰ بنوں کلب کی بکریوں کے بالوں کے برابر لوگوں کو جہنم سے نجات دیتا ہے "۔ سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے معمولات اُمّ المؤمنین حضرت سیّدتُنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں:میں نے حُضورِ اقدس صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو شعبانُ الْمعظّم سے زیادہ کسی مہینے میں روزہ رکھتے نہ دیکھا۔(ترمذی، ج2،ص182، حدیث: 736) آپ رضی اللہ تعالٰی عنہا مزید فرماتی ہیں: ایک رات میں نے حضور نبیِّ پاک صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو نہ پایا۔ میں آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تلاش میں نکلی تو آپ مجھے جنّتُ البقیع میں مل گئے۔نبیِّ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرھویں(15ویں) رات آسمانِ دنیا پر تجلّی فرماتا ہے، پس قبیلۂ بنی کَلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ لوگوں کو بخش دیتا ہے۔(ترمذی، ج2، ص183، حدیث: 739 ملتقطاً) معلوم ہوا کہ شبِ براءت میں عبادات کرنا، قبرستان جانا سنّت ہے۔لیکن اس کے ساتھ یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ شب برأت یا پندرہ شعبان کی نصف رات میں قبرستان جانے کا التزام کرنا اور ناجانے والوں کو برا سمجھنا بدعت ہے (مراٰۃ المناجیح، ج2،ص290) بزرگانِ دین کے معمولات بزرگانِ دین رحمہم اللہ المبین بھی یہ رات عبادتِ الٰہی میں بسر کیا کرتے تھے حضرت سیّدُنا خالد بن مَعدان، حضرت سیّدُنا لقمان بن عامر اور دیگر بزرگانِ دین رحمہم اللہ المبین شعبانُ المُعَظَّم کی پندرھویں(15ویں) رات اچّھا لباس پہنتے، خوشبو، سُرمہ لگاتے اور رات مسجد میں (جمع ہو کر) عبادت کیا کرتے تھے۔(ماذا فی شعبان، ص75) امیرُالْمُؤمِنِین حضرتِ سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز علیہ رحمۃ اللہ العزیز بھی شبِ براءت میں عبادت میں مصروف رہا کرتے تھے۔(تفسیرروح البیان، پ25، الدخان، تحت الآیۃ:3،ج8،402) اہلِ مکّہ کے معمولات تیسری صدی ہجری کے بزرگ ابو عبد اللہ محمد بن اسحاق فاکِہی علیہ رحمۃ اللہ القَوی فرماتے ہیں: جب شبِ براءت آتی تو اہلِ مکّہ کا آج تک یہ طریقۂ کار چلا آرہا ہےکہ مسجد ِحرام شریف میں آجاتےاور نَماز ادا کرتے ہیں، طواف کرتے اور ساری رات عبادت اور تلاوتِ قراٰن میں مشغول رہتےہیں، ان میں بعض لوگ 100 رکعت (نفل نماز) اس طرح ادا کرتے کہ ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد دس مرتبہ سورۂ اخلاص پڑھتے۔ زم زم شریف پیتے، اس سے غسل کرتے اور اسے اپنے مریضوں کے لیے محفوظ کر لیتے اور اس رات میں ان اعمال کے ذریعے خوب برکتیں سمیٹتے ہیں۔(اخبار مکہ، جز: 3،ج2،84 ملخصاً) دلیل سورۃ الدخان کی ابتدائی آیات کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ حالانکہ ان آیات میں "شب براءت" نہیں بلکہ "شب قدر" کا بیان ہے اور "تقدیر کے فیصلے ھونے" کا بیان نہیں بلکہ فرشتوں میں "تقدیر کے فیصلے تقسیم ھونے" کا بیان ہے۔ تقدیر کے فیصلے تو ازل سے ھوچکے ہیں اور کائنات کی پیدائش سے پچاس ہزار سال پہلے تقدیر لکھی جاچکی ہے۔ چلئیے سورۃ الدخان کی ابتدائی آیات کا مطالعہ کرتے ہیں۔ ان آیات میں تین امور کا بیان ہیں۔ ۔1. قرآن مبارک رات میں نازل ھوا ہے ۔2. اس شب میں تمام پر حکمت احکامات (فرشتوں میں) بانٹ دیے جاتے ہیں۔ ۔3.
عمر خیام کا پورا نام ابوالفتح عمر خیام بن ابراہیم نیشا پوری ہے۔ عمر خیام کے بارے میں متعدد سوانح نگاروں نے اس کا سال پیدائش 408 ھ یا 410 ھ لکھتا ہے اور سال وفات کے متعلق بھی کوئی فیصلہ کن بات نہیں کی گئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس نے 526ھ میں وفات پائی۔ عمر خیام علم ہیت اور علم ریاضی کا بہت بڑا فاضل تھا۔ ان علوم کے علاوہ شعرو سخن میں بھی اس کا پایا بہت بلند ہے اس کے علم وفضل کا اعتراف اہل ایران سے بڑھ کر اہل یورپ نے کیا۔
کونڈے وہ برتن ہیں جن میں کھانے کی پاکیزہ چیزوں کو رکھا جاتا ہے۔ خلافت سے دل برداشتہ ہو گئے اور باگ خلافت حضرت معاویہ کے سپرد کردی۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ انتہائی دانشمند مدبر، معاملہ فہم منتظم، رعیت شناس انسان تھے اور زمانہٴ نبوی سے ہی اپنی انتظامی صلاحیت، مدبرانہ لیاقت اور سیاسی بصیرت میں ممتاز تھے ان کی قائدانہ صلاحیت کو دیکھ کر حضرت عمررضى الله عنه نے انھیں کسرائے عرب کا لقب دیا تھا۔اور زمانہٴ فاروقی سے ہی شام کے عہدئہ گورنری پر فائز تھے اور بیس سال سے وہاں کی کامیاب قیادت کرتے چلے آ رہے تھے۔ حضرت معاویہ جس وقت مسند نشین ہوئے اس وقت ملک کے سیاسی حالات بے حد ناسازگار تھے، طرح طرح کے فتنے جنم لے رہے تھے، فتنہٴ شیعیت کی جڑیں کافی مضبوط ہو گئی تھیں اور وہ طریقے بدل بدل کر اسلام میں رخنہ اندازیاں کر رہے تھے، اگرچہ وہ خود داخلی انتشار کا شکار ہوکر کئی حصوں میں تقسیم ہوچکے تھے، مگر سب کا مطمح نظر اور نصب العین ایک تھا۔ اور سب کے سب ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر اسلام دشمنی میں سرگرم تھے۔ ایسے حالات میں نئی حکومت کے لیے ضروری تھا کہ وہ سب سے پہلے بغاوت کے خاتمہ کے لیے کوئی مثبت اور ٹھوس قدم اٹھائے اور مفسدوں کی بیخ کنی میں سخت موقف اختیار کرے۔ حضرت معاویہ جیسے ہوش مند انسان سے کیسے ممکن تھا کہ وہ اس اقتضاء حکومت کو نظر انداز کردیتے اور فتنہ کے استیصال میں غفلت برتتے، چنانچہ برسرِ اقتدار آتے ہی انھوں نے فتنہ وبغاوت کے سدباب کو ضروری سمجھا اور شرپسند عناصر کی سرکوبی کی ملک گیر مہم چلائی اور باغیوں (شیعوں) کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر قتل کرنا اور سزائیں دینا شروع کر دیا جس سے بہت سے شیعہ قتل ہوکر اپنے کیفرکردار کو پہنچے اور کچھ لوگوں نے سزا کے خوف یا موت کے ڈرسے روپوشی اختیار کی۔ اور کتمان مذہب (تقیہ) کرکے جان بچانے میں عافیت سمجھی۔ ایک شیعہ موٴرخ اس وقت کے حالات بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے۔ ”شیعان علی کے مال ومتاع ضبط کرلیے گئے، وہ قتل کیے گئے اور اس قدر ظلم ان پر کیے گئے کہ کوئی اپنے کو شیعہ نہ کہہ سکتا تھا۔“ (تاریخ اسلام ص 33، ج:1، از ذاکر حسین جعفری شیعہ) مذکورہ بالا روایت سے معلوم ہوا کہ بہت سے شیعہ قتل ہوکر ٹھکانے لگ گئے اورجو کچھ باقی رہے وہ بھی اس قدر دہشت زدہ اور خائف تھے کہ خود شیعہ کہلوانا چھوڑدیا تھا۔اور اپنے انجام بد کے ڈرسے خانہ نشین ہو گئے۔ یہ لوگ بظاہر خاموش ہو گئے، مگر درحقیقت ان کے سینوں میں بغض معاویہ کی آگ بدستور بھڑک رہی تھی۔ اور وہ ان کے خلاف سانپ کی طرح پیچ وبل کھا رہے تھے اور ان کی حکومت سے گلوخلاصی اور چھٹکارے کے شدت سے منتظر تھے۔ چنانچہ بیس سال انتہائی کامیاب حکومت کرنے کے بعد 22/رجب 60ھ کو ملت اسلامیہ کا یہ عظیم مدبر دنیا سے رخصت ہو گیا۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون.
موسیٰ علیہ السلام اللہ کے برگزیدہ پیغمبروں میں سے ایک ہیں۔ آپ کے بھائی ہارون علیہ السلام بھی اللہ کے برگزیدہ نبیوں میں سے ایک ہیں۔یہ 1520 قبلِ مسیح کی بات ہے۔ مِصر پر فرعون بادشاہ’’مرنفتاح ثانی‘‘ کی حکومت تھی۔بعض نے اُس کا نام’’ منفتاح‘‘ بھی لکھا ہے اور وہ والد، رعمسیس کے بڑھاپے کی وجہ سے عملاً حکم ران بنا ہوا تھا۔ خدائی کا دعوے دار یہ بادشاہ بڑا ظالم و جابر تھا۔ اُس نے’’ بنی اسرائیل‘‘ کو اپنا غلام بنا رکھا تھا، حالاں کہ وہ حضرت یوسف کے زمانے سے وہاں رہائش پزیر تھے۔ حضرت یوسفؑ نے اپنے والد، حضرت یعقوبؑ اور اپنے بھائیوں کے لیے ایک قطعۂ زمین اُس وقت کے فرعون بادشاہ ’’ریان بن ولید‘‘ سے حاصل کیا تھا۔ حضرت یعقوبؑ کی یہی نسل’’بنی اسرائیل‘‘ کہلائی، جو مِصر میں خُوب پَھلی پُھولی۔ یہ لوگ حضرت یعقوبؑ کے دین کے پیروکار تھے، چناں چہ اُس وقت اللہ کے نزدیک یہ سب سے بہتر جماعت تھی۔ اُنہوں نے فرعون کو سجدہ کرنے اور اُسے اپنا ربّ ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ اسی وجہ سے بادشاہ اور اُس کے حواری ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھاتے اور اُن سے گھٹیا کام کرواتے۔ یاد رہے، فرعون کسی خاص شخص کا نام نہیں، بلکہ مِصر کے بادشاہوں کا لقب تھا۔ تاریخی حقائق کے مطابق، 31فراعنہ خاندانوں نے مِصر پر یکے بعد دیگرے حکومت کی۔ سب سے آخری خاندان نے 332قبلِ مسیح میں سکندرِ اعظم کے ہاتھوں شکست کھائی۔
اردو زبان میں سینتیس حروفِ تہجی اور سینتالیس آوازیں ہیں جن میں سے بیشتر عربی سے لیے گئے ہیں اور دیگر انہی کی مختلف شکلیں ہیں۔ کچھ حروف کئی طریقوں سے استعمال ہوتے ہیں اور کچھ مخلوط حروف بھی استعمال ہوتے ہیں جو دو حروف سے مل کر بنتے ہیں۔ بعض لوگ 'ء' کو الگ حرف نہیں مانتے مگر پرانی اردو کتب اور لغات میں اسے الگ حرف کے طور پر لکھا جاتا ہے۔ مختلف الفاظ میں یہ الگ حرف کے طور پر ہی استعمال ہوتا ہے مثلاً 'دائرہ'۔ یہ بات مدِنظر رکھنا ضروری ہے کہ اردو تختی اور اردو حروف دو مختلف چیزیں ہیں کیونکہ اردو تختی میں اردو حروفِ تہجی کی کئی اشکال ہو سکتی ہیں جن کو الگ حرف کا درجہ نہیں دیا جا سکتا بلکہ وہ ایک ہی حرف کی مختلف شکلیں ہیں۔ مثلاً نون غنہ نون کی شکل ہے اور 'ھ' اور 'ہ' ایک ہی حرف کی مختلف اشکال ہیں۔ ایک اور مثال الف ممدودہ (آ) اور الف مقصورہ (ا) کی ہے جو اردو تختی میں الگ ہیں مگر اردو کا ایک ہی حرف شمار ہوتے ہیں۔
میر تقی میر (پیدائش: 28 مئی 1723ء— وفات: 22 ستمبر 1810ء) اصل نام میر محمد تقى اردو كے عظیم شاعر تھے۔ میر ان کا تخلص تھا۔ اردو شاعرى ميں مير تقى مير كا مقام بہت اونچا ہے ـ انھیں ناقدین و شعرائے متاخرین نے خدائے سخن کے خطاب سے نوازا۔ وہ اپنے زمانے كے ايك منفرد شاعر تھےـ۔ آپ كے متعلق اردو كے عظیم الشان شاعرمرزا غالب نے لکھا ہے۔
احمد خان متقی بن محمد متقی (17 اکتوبر 1817ء – 27 مارچ 1898ء) المعروف سر سید، سر سید احمد خان انیسویں صدی کے ایک ہندوستانی مسلم نظریۂ عملیت کے حامل ، مصلح اور فلسفی تھے۔ ان کو برصغیر میں مسلم قوم پرستی کا سرخیل مانا جاتا ہے اور دو قومی نظریہ کا خالق تصور کیا جاتا ہے، جو آگے چل کر تحریک پاکستان کی بنیاد بنا۔
نجم الدولہ، دبیر الملک، مرزا نوشہ اسد اللہ خان غالب بہادر نظام جنگ (1797ء- 1869ء) اردو زبان کے سب سے بڑے شاعروں میں ایک سمجھے جاتے ہیں۔ یہ تسلیم شدہ بات ہے کہ 19 ویں صدی غالب کی صدی ہے۔ جبکہ 18 ویں میر تقی میر کی تھی اور 20 ویں علامہ اقبال کی۔ غالب کی عظمت کا راز صرف ان کی شاعری کے حسن اور بیان کی خوبی ہی میں نہیں ہے۔ ان کا اصل کمال یہ ہے کہ وہ زندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کو گہرائی میں جا کر سمجھتے تھے اور بڑی سادگی سے عام لوگوں کے لیے بیان کر دیتے تھے۔ غالب جس پر آشوب دور میں پیدا ہوئے اس میں انھوں نے مسلمانوں کی ایک عظیم سلطنت کو برباد ہوتے ہوئے اور باہر سے آئی ہوئی انگریز قوم کو ملک کے اقتدار پر چھاتے ہوئے دیکھا۔ غالباً یہی وہ پس منظر ہے جس نے ان کی نظر میں گہرائی اور فکر میں وسعت پیدا کی۔
قرآن مجید کا بے مثل ہونا، اسلامی اصطلاح میں اعجاز القرآن کہلاتا ہے۔ قرآن خود اپنے آپ سے متعلق کہتا ہے کہ وہ ہر لحاظ سے بے مثل ہے۔ قرآن میں ہے کہ: کہہ دو کہ اگر انس و جن جمع ہو جائیں اور کوشش کریں کہ اس قرآن کی مثل بنا لائیں تو وہ ہرگز اس کی مثل نا بنا سکیں گے خواہ ایک دوسرے کے مددگار بن جائیں (قرآن: سورۃ الاسرا:17-18)۔ جبکہ سورۃ بقرہ میں صرف ایک سورت کے مانند کلام لانے کا کہا گيا ہے : اگر تمیں اس بات میں شک ہو کہ جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کیا ہے تو اس کی مانند کوئی سورۃ بنا لاؤ اور اپنے گواہوں کو بلاؤ اگر تم سچے ہو۔ پس اگر تم نے اس کی مثل پیش نہ کی اور یاد رکھو کبھی نا کر سکو گے (قرآن: سورۃ البقرہ:23-24)۔
پاکستان (رسمی نام: اسلامی جمہوریۂ پاکستان) جنوبی ایشیا کے شمال مغرب وسطی ایشیا اور مغربی ایشیا کے لیے دفاعی طور پر اہم حصے میں واقع ایک خود مختار اسلامی ملک ہے۔ یہ دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے، جس کی آبادی تقریباً 242 ملین ہے اور دنیا کی دوسری سب سے بڑی مسلم آبادی والا ملک ہے۔ 881,913 مربع کلومیٹر (340,509 مربع میل) کے ساتھ یہ دنیا کا تینتیسواں بڑے رقبے والا ملک ہے۔ اس کے جنوب میں 1046 کلومیٹر (650 میل) کی ساحلی پٹی ہے جو بحیرہ عرب سے ملتی ہے۔پاکستان کے مشرق ميں بھارت، شمال مشرق ميں چین اور مغرب ميں افغانستان اور ايران واقع ہيں۔ پاکستان کو شمال میں ایک تنگ واخان راہداری تاجکستان سے جدا کرتی ہے جبکہ اس ملک کی سمندری سرحدی حدود اومان کے سمندری حدود سے بھی ملتی ہیں۔ موجودہ پاکستان کے علاقے قدیم ترین دنیا میں وہ علاقے تھے جن میں موہنجوداڑو اور انڈس سولائیزیشن مہر گڑھ ٹیکسلا پراچین سنسکرت دور اور دیگر زیرتحقیق آرک لوجیکل سائٹس جیسے قندھارا تہذیب و تمدن تھی۔ اس علاقے پر پراچین راجپوت ایرانی یونانی عرب، بدھ مت، سکھ، مغل، ہن سفید اور ترک حملہ آوروں کی حکومت بھی رہی ہے۔ یہ علاقہ مختلف سلطنتوں جیسے چندر گپت موریا، ہخامنشی سلطنت عربوں کی خلافت امویہ، مغلیہ سلطنت، درانی سلطنت، سکھ سلطنت اور برطانوی راج کا اہم حصہ رہا ہے۔ اس کے بعد محمد علی جناح کی قیادت میں تحریک پاکستان کامیاب ہوئی اور 14 اگست 1947ء کو ہندوستان کے مشرق اور مغرب میں دو حصوں میں ایک آزاد اور خودمختار اسلامی ریاست قائم ہوئی۔ پاکستان نے اپنا پہلا آئین 1956ء میں بنایا جو 1958 میں منسوخ کر دیا گیا اس کے بعد 1962 میں پاکستان کا دوسرا آئین پیش کیا گیا جو 1969 میں جزل یحیی خان نے منسوخ کر دیا.
محدث۔ اصل نام سلیمان بن الاشعث السجستانی تھا۔ ابوداؤد کنیت ہے۔ بغداد میں پیدا ہوئے۔ بصرے میں درس و تدریس اور تالیف میں مصروف رہے۔ اور وہیں وفات پائی۔ احمد بن حنبل کے شاگرد تھے۔ ان کی اہم تالیف کتاب السنن ہے جو سنن ابی داؤد کے نام سے مشہور ہے۔ اس میں انھوں نے معروف احادیث جمع کی ہیں۔ کتاب کا موضوع فقہی مسائل تک محدود ہے۔ البتہ اس میں احادیث کی صحت پرکھنے کے اصولوں سے بھی بحث کی گئی ہے۔ کتاب السنن صحاح ستہ میں شمار ہوتی ہے۔
محمد جلال الدین رومی (پیدائش:1207ء میں پیدا ہوئے، مشہور فارسی شاعر تھے۔ مثنوی، فیہ ما فیہ اور دیوان شمس تبریز(یہ اصل میں مولانا کا ہی دیوان ہے لیکن اشعار میں زیادہ تر شمس تبریز کا نام آتا ہے اس لیے اسے انھی کا دیوان سمجھا جاتا ہے) ان کی معروف کتب ہے، آپ دنیا بھر میں اپنی لازوال تصنیف مثنوی کی بدولت جانے جاتے ہیں، ان کا مکان پیدائش ایران میں ہے اور ان کا مزار ترکی میں واقع ہے۔
انشائیہ : انشائیہ کے لغوی معنی "عبارت" کے ہیں۔ انشائیہ نثری ادب کی وہ صنف ہے جو مضمون کی مانند لگتی ہے مگر مضمون سے الگ انداز رکھتی ہے۔ انشائیہ میں انشائیہ نگار آزادانہ طور پر اپنی تحریر پیش کرتاہے، جس میں اس کی شخصیت کا پہلو نظر آتا ہے۔ کسی خاص نتیجہ کے بغیر بات کو ختم کرتا ہے، یعنی نتیجہ کو قاری پر چھوڑ دیتا ہے۔ مشہور انشاء پروازوں میں محمد حسین آزاد، سرسید احمد خان، ابو الکلام آزاد، مرزا فرحت اللہ بیگ، پطرس بخاری، خواجہ حسن نظامی، رشید احمد صدیقی، ابن انشاء وغیرہ مشہور ہیں۔
سنن ابی داؤد، کتب ستہ اور سنن اربعہ میں ایک اہم کتاب ہے، اہل سنت و جماعت کے اس کتاب کا ایک اہم مقام ہے، امہات احادیث میں مصدر اور مرجع شمار کی جاتی ہے، مرتبہ میں صحیحین کے بعد اسی کا نام آتا ہے۔ سنن ابی داؤد کے مصنف امام ابو داؤد سلیمان بن اشعث بن اسحاق بن بشیر بن شداد بن عمرو ازدی سجستانی ہیں۔ جس میں ابو داؤد نے 5275 احادیثکو پانچ لاکھ احادیث میں سے منتخب کر کے جمع کیا ہے۔ابو داؤد نے اس احادیث پر زیادہ توجہ دی ہے جن سے فقہا استدلال کرتے ہیں اور جن پر فقہی احکام بنتے ہیں۔ انھوں نے اہل مکہ کے نام اپنے ایک رسالہ میں لکھا ہے: «یہ سنن کی احادیث تمام کے تمام احکام سے تعلق رکھتی ہیں، اس میں سے بہت سی احادیث زہد اور فضائل وغیرہ سے بھی متعلق ہیں جن کی میں نے تخریج نہیں کی ہے»۔ انھوں نے اپنی کتاب کو کو 36 کتاب میں تقسیم کیا ہے اور ہر کتاب کو متعدد ابواب میں تقسیم کیا جس میں کل ابواب کی تعداد 1871 ہے۔ ہر حدیث پر علما کے استنباط پر مشتمل ترجمہ باندھا ہے۔ کتاب میں اکثر احادیث مرفوع ہیں، اسی طرح کچھ احادیث موقوف بھی ہیں اور کچھ علمائے تابعین کے آثار بھی ہیں۔جہاں تک بات ہے احادیث کی تخریج کی، تو امام ابو داؤد احادیث پر شدید ضعف کی بھی تصریح و تاکید بھی کرتے ہیں اور صحیح اور حسن احادیث پر خاموش رہتے ہیں (وہاں کوئی تعلیق نہیں کرتے)۔ انھوں نے لکھا ہے: «میں نے اس میں صحیح اور مشابہ صحیح اور قریب الصحیح احادیث کو بیان کیا ہے، جس حدیث میں سخت ضعف ہوتا ہے میں نے اسے بیان کر دیا ہے اور جہاں میں نے کوئی تعلیق نہیں کی ہے تو وہ حدیث قابل قبول ہے، بعض احادیث انتہائی صحیح درجے کی ہیں۔» علمائے حدیث نے اس احادیث کے تعلق سے آرا میں اختلاف کیا جس پر ابو داؤد سکوت اختیار کیا ہے، چنانچہ ابن صلاح، یحیٰی بن شرف نووی اور ابن کثیر دمشقی کی رائے ہے کہ وہ اگر صحیحین میں موجود نہیں ہیں تو حسن ہیں۔ اور دوسرے محدثین کی رائے ہے کہ وہ صحیح اور حسن کی اقسام سے ہیں بعض ضعیف بھی ہیں تو قبول کی حد تک درست ہیں۔
فعل وہ کلمہ جس کے معانی میں کسی کام کا کرنا یا ہونا پایا جائے اور جس میں تینوں زمانوں ماضی، حال، مستقبل میں سے کوئی ایک زمانہ موجود ہو۔ فعل کی زمانے کے لحاظ سے تین اقسام ہیں۔ فعل ماضی وہ فعل جس میں کسی کام کا کرنا، ہونا یا سہنا گذرے ہوئے زمانے میں پایا جائے۔ فعل حال وہ فعل جس میں کسی کام کا کرنا، ہونا یا سہنا موجودہ زمانے میں پایا جائے۔ فعل مستقبل ایسا فعل جس میں کسی کام کا کرنا، ہونا یا سہنا آنے والے زمانے میں پایا جائے۔
اسلام ایک توحیدی مذہب ہے جو اللہ کی طرف سے، حضرت محمد ﷺ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ذریعے انسانوں تک پہنچائی گئی آخری الہامی کتاب (قرآن مجيد) کی تعلیمات پر قائم ہے۔ یعنی دنیاوی اعتبار سے بھی اور دینی اعتبار سے بھی اسلام (اور مسلم نظریے کے مطابق گذشتہ ادیان کی اصلاح) کا آغاز، 610ء تا 632ء تک 23 سال پر محیط عرصے میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اللہ کی طرف سے اترنے والے الہام (قرآن) سے ہوتا ہے۔ قرآن عربی زبان میں نازل ہوا (برائے وجہ : اللسان القرآن) اور اسی زبان میں دنیا کی کل آبادی کا کوئی 24% حصہ یعنی لگ بھگ 1.6 تا 1.8 ارب افراد اس کو پڑھتے ہیں ؛ ان میں (مختلف ذرائع کے مطابق) قریباً 20 تا 30 کروڑ ہی وہ ہیں جن کی مادری زبان عربی ہے جبکہ 70 تا 80 کروڑ، غیر عرب یا عجمی ہیں جن کی مادری زبان عربی کے سوا کوئی اور ہوتی ہے۔ متعدد شخصی ماخذ سے اپنی موجودہ شکل میں آنے والی دیگر الہامی کتابوں کے برعکس، بوسیلۂ وحی، فردِ واحد (محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے منہ سے ادا ہوکر لکھی جانے والی کتاب اور اس کتاب پر عمل پیرا ہونے کی راہنمائی فراہم کرنے والی شریعت ہی دو ایسے وسائل ہیں جن کو اسلام کی معلومات کا منبع قرار دیا جاتا ہے۔
سیدہ عائشہ بنت ابی بکر (رضی اللہ عنہا) (پیدائش: 614ء– وفات: 13 جولائی 678ء) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زوجہ ہیں۔ آپ کو اُم المومنین کے خطاب سے یاد کیا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد عہد خلفائے راشدین میں آپ کی شخصیت بہت نمایاں نظر آتی ہے۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد 47 سال بقید حیات رہیں اور یہ تمام وہ عرصہ ہے جس میں ابتدائی مسلم فتوحات ہوئیں، مختلف ممالک مملکت اسلامیہ میں داخل ہوئے۔ علم الحدیث میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایات کے بعد سب سے زیادہ روایاتِ حدیث کا ذخیرہ آپ سے ہی روایت کیا گیا ہے۔ آپ عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور عہد خلفائے راشدین کی عینی شاہد بھی تھیں اور مزید برآں آپ نے خلافت امویہ کے ابتدائی 17 سال بھی ملاحظہ فرمائے۔ آپ کا انتقال مدینہ منورہ میں سنہ 678 ء میں ہوا۔ آپ کے مناقب و فضائل کثیر ہیں جس سے آپ کی عظمت و شان جلالت مسلم خواتین پر نمایاں ہے۔جنگ جمل کے حوالے سے یہ بات معلوم ہونا بھی مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ کچھ احادیث اور تاریخی کتابوں کے واقعات میں راویوں پر علما اسلام کی طرف سے جرح بھی کی گئی ہے اور بہت سے راویوں کے حالات معلوم نہیں ہیں۔مسلمان امت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اہل بیت اطھار کے بارے میں صحیح عقائد قرآن وسنت اور مستند و صحیح احادیث نبوی سے لیتے
اللہ کے ذاتی نام 'اللہ' کے علاوہ اللہ کے ننانوے صفاتی نام مشہور ہیں۔ انھیں کہا جاتا ہے۔ ان میں سے بیشتر قرآن میں موجود ہیں اگرچہ قرآن میں ننانوے کی تعداد مذکور نہیں مگر یہ ارشاد ہے کہ اللہ کو اچھے اچھے ناموں سے پکارا جائے۔ روایات میں بکثرت نیچے دیے گئے ننانوے صفاتی نام ملتے ہیں جن کے ساتھ ان کا اردو ترجمہ بھی درج کیا جا رہا ہے۔
شوال۔ ذی القعدہ 5ھ (مارچ 627ء) میں مشرکینِ مکہ نے مسلمانوں سے جنگ کی ٹھانی۔ ابوسفیان نے قریش اور دیگر قبائل حتیٰ کہ یہودیوں سے بھی لوگوں کو جنگ پر راضی کیا اور اس سلسلے میں کئی معاہدے کیے اور ایک بہت بڑی فوج اکٹھی کر لی مگر مسلمانوں نے سلمان فارسی کے مشورہ سے مدینہ کے ارد گرد ایک خندق کھود لی۔ مشرکینِ مکہ ان کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ خندق کھودنے کی عرب میں یہ پہلی مثال تھی کیونکہ اصل میں یہ ایرانیوں کا طریقہ تھا۔ ایک ماہ کے محاصرے اور اپنے بے شمار افراد کے قتل کے بعد مشرکین مایوس ہو کر واپس چلے گئے۔ اسے غزوہ خندق یا جنگِ احزاب کہا جاتا ہے۔ احزاب کا نام اس لیے دیا جاتا ہے کہ اصل میں یہ کئی قبائل کا مجموعہ تھی۔ جیسے آج کل امریکا، برطانیہ وغیرہ کی اتحادی افواج کہلاتی ہیں۔ اس جنگ کا ذکر قرآن میں سورۃ الاحزاب میں ہے۔
شاعری کا مادہ "شعر" ہے، اس کے معانی کسی چیز کے جاننے پہچاننے اور واقفیت کے ہیں لیکن اصطلاحاً شعر اس کلامِ موزوں کو کہتے ہیں جو قصداً کہا جائے۔ یہ کلام موزوں جذبات اور احساسات کے تابع ہوتا ہے اور کسی واقعہ کی طرف جاننے کا اشارہ کرتا ہے۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ آپ نے کوئی حادثہ دیکھا ہو اور وہ آپ کے دل پر اثر کر گیا ہو اور آپ کے اندر سے خود بہ خود الفاظ کی صورت میں ادا ہو جائے، اس اثر کے بیان کو شعر کہتے ہیں اور انھیں شعروں کو شاعری کے نام سے جانا جاتا ہے۔دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ شاعری الفاظ کا وہ استعمال ہے، جس میں ایک طرف معانی کی وسعت ذہن کو تسخیر کرے تو دوسری جانب نغمگی کی تاثیر دل کو جکڑ لے۔ گویا ایک اچھا شعر بشر کے پورے وجود کا تجربہ ہے۔
اسم کسی جگہ شخص یا چیز کے نام کو اسم کہا جاتا ہے جیسے پاکستان، کراچی، لاہور، امجد، حنا، انور، کرسی، میز، قلم وغیرہ اسم کی کئی اقسام ہیں۔ اسم جامد، اسم مشتق، اسم مصدر، اسم معرفہ (خاص)، اسم نکرہ (عام) اسم معرفہ کی درج ذیل اقسام ہیں۔ اسم علم، اسم ضمیر، اسم اشارہ، اسم موصول۔ اسم نکرہ کی درج ذیل اقسام ہیں۔ اسم ذات، اسم حاصل مصدر، اسم حالیہ، اسم فاعل، اسم مفعول، اسم استفہام۔
مذکر: نر اسم ہوتا ہے جیسےمرد، باپ، بیل، بیٹا جبکہ مونث: مادہ اسم ہوتا ہے جیسے عورت، ماں، گائے، بیٹی بے جان اسماء میں نر اور مادہ کا کوئی فرق نہیں ہوتا اس لیے ان کی تذکیر و تانیث کا تمام تر درارومدار اہل زبان پر ہوتا ہے جیسے قلم کو اہل زبان مذکر بولتے ہیں اور گیند کو مونث اسی لیے ایسے اسماء کی تذکیر و تانیث کو غیر حقیقی تذکیر و تانیث کہا جاتا ہے۔ جبکہ حقیقی تذکیر و تانیث وہ ہوتی ہے جس میں نر کے مقابلے میں مادہ اور مادہ کے مقابلے میں نر ہو جانداروں میں کیوں کہ قدرتی طور پر نر اور مادہ کا فرق موجود ہوتا ہے اس لیے اس لیے ان کی تذکیرو تانیث حقیقی ہوتی ہے جیسے مرد، عورت۔ بیل، گائے وغیرہ
نعمان ابن ثابت بن زوطا بن مرزبان (پیدائش: 5 ستمبر 699ء– وفات: 14 جون 767ء) (فارسی: ابوحنیفه،عربی: نعمان بن ثابت بن زوطا بن مرزبان)، عام طور پر آپکو امام ابو حنیفہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ آپ سنی حنفی فقہ (اسلامی فقہ) کے بانی تھے۔ آپ ایک تابعی، مسلمان عالم دین، مجتہد، فقیہ اور اسلامی قانون کے اولین تدوین کرنے والوں میں شامل تھے۔ آپ کے ماننے والوں کو حنفی کہا جاتا ہے۔ زیدی شیعہ مسلمانوں کی طرف سے بھی آ پ کو ایک معروف اسلامی عالم دین اور شخصیت تصور کیا جا تا ہے۔ انھیں عام طور پر "امام اعظم" کہا جاتا ہے۔
میاں محمد نواز شریف (ولادت: 25 دسمبر، 1949ء، لاہور) پاکستان کے سابق وزیر اعظم اور پاکستان کی دوسری بڑی سیاسی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سابق سربراہ۔ نواز شریف تین بار 1990ء تا 1993ء، 1997ء تا 1999ء اور آخری بار 2013ء تا 2017ء وزیر اعظم پاکستان کے عہدے پر فائز رہے۔ اس سے پہلے 1985 تا 1990 وزیر اعلیٰ پنجاب رہے۔
قراء سبعہ یا سات قراء ان قراء کو کہا جاتا ہے جن سے قرآن کریم کی قراءت کے سلسلہ میں متعدد روایتیں وارد ہوئی ہیں، ان روایتوں میں بعض جگہوں پر کلمات، اعراب (زبر، زیر، پیش) وغیرہ کا اختلاف پایا جاتا ہے۔ علوم قرآن کی متدوال کتابوں میں ان قراء کے نام اس طرح درج ہیں: عبد اللہ بن عامر، ابن کثیر المکی، عاصم بن بہدلہ کوفی، ابو عمرو بصری، حمزہ کوفی، نافع مدنی اور کسائی کوفی۔ یہ تمام اصحاب طبقات قراء کے تیسرے طبقہ میں آتے ہیں۔
لفظ تفسیر عربی زبان کا لفظ ہے جس کا [مادہ معینی] فسر ہے۔ یہ باب تفصیل کا مصدر ہے اس کے معنی ہیں واضح کرنا، کھول کر بیان کرنا، وضاحت کرنا، مراد بتانا اور بے حجاب کرنا ہے۔ قرآن کی تشریح و وضاحت کے علم کو تفسیر کہتے ہیں اور تفسیر کرنے والے کو مفسر۔ اسی عربی لفظ فسر سے، اردو زبان میں، تفسیر کے ساتھ ساتھ ديگر متعلقہ الفاظ بھی بنائے جاتے ہیں جیسے؛ مُفسَر، مُفَسِّر اور مُفَسّر وغیرہ ایک اردو لغت میں [ مُفسَر]، [ مُفَسِّر] اور [ مُفَسّــَر] کا اندراج۔ تفسیر کی جمع تفاسیر کی جاتی ہے اور مفسر کی جمع مفسرین آتی ہے۔
فتح مکہ (جسے فتح عظیم بھی کہا جاتا ہے) عہد نبوی کا ایک غزوہ ہے جو 20 رمضان سنہ 8 ہجری بمطابق 10 جنوری سنہ 630 عیسوی کو پیش آیا، اس غزوے کی بدولت مسلمانوں کو شہر مکہ پر فتح نصیب ہوئی اور اس کو اسلامی قلمرو میں شامل کر لیا گیا۔ اس غزوہ کا سبب قریش مکہ کی جانب سے اس معاہدہ کی خلاف ورزی تھی جو ان کے اور مسلمانوں کے درمیان میں ہوا تھا، یعنی قریش مکہ نے اپنے حلیف قبیلہ بنو دئل بن بکر بن عبد منات بن کنانہ (اس کی ایک خاص شاخ جسے بنو نفاثہ کہا جاتا ہے) نے بنو خزاعہ کے خلاف قتل و غارت میں مدد کی تھی اور چونکہ بنو خزاعہ مسلمانوں کا حلیف قبیلہ تھا اس لیے اس حملے کو قریش مکہ کی جانب سے اس معاہدہ کی خلاف ورزی سمجھا گیا جو مسلمانوں اور قریش کے درمیان میں ہوا تھا، یہ معاہدہ "صلح حدیبیہ" کے نام سے معروف ہے۔ اسی معاہدہ کی خلاف ورزی کے جواب میں حضرت محمدﷺ بن عبد اللہ نے ایک عظیم الشان لشکر تیار کیا جو دس ہزار مجاہدین پر مشتمل تھا؛ لشکر آگے بڑھتا رہا یہاں تک کہ مکہ پہنچ گیا اور بغیر کسی مزاحمت کے مکہ میں پر امن طریقے سے داخل ہو گیا سوائے ایک معمولی سی جھڑپ کے جس کے سپہ سالار خالد بن ولید کو اس وقت سامنا ہوا جب قریش کی ایک ٹولی نے عکرمہ بن ابی جہل کی قیادت میں مسلمانوں سے مزاحمت کی اور پھر خالد بن ولید کو ان سے قتال کرنا پڑا جس کے نتیجے میں بارہ کفار مارے گئے اور باقی بھاگ گئے، جبکہ دو مسلمان بھی شہید ہوئے۔
متضاد مخالف؛ اُلٹ؛ اُلٹی طرف؛ دوسری جانب؛ ضِد؛ مُقابل؛ بِالمقابل؛ متقابل؛ متضاد؛ ایک لفظ جو مفہوم کے لحاظ سے دوسرے کی ضد ہو؛ متضاد المعنی۔ ایسے الفاظ جو مماثل وضع میں لیکن ایک دوسرے کے مخالف، برعکس یا یکسر مختلف ہوں۔ اسے 'بائنری' تعلق سے تعبیر کیا جاتا ہے کیوں کہ متضاد جوڑوں میں دو رکن ہوتے ہیں۔ باہم مخالف تعلق کو متضاد کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ایک جوڑے میں مخالف لفظ کو عام طور پر اس سوال کے ذریعہ طے کیا جا سکتا ہے کہ الف کے برعکس کیا ہے؟ جیسے:
خلافت راشدہ کے خاتمے کے بعد عربوں کی قائم کردہ دو عظیم ترین سلطنتوں میں سے دوسری سلطنت خلافت عباسیہ ہے۔ خاندان عباسیہ کے دو بھائیوں السفاح اور ابو جعفر المنصور نے 750ء (132ھ) خلافت عباسیہ کو قائم کیا اور 1258ء (656ھ) میں اس کا خاتمہ ہو گیا۔ یہ خلافت بنو امیہ کے خلاف ایک تحریک کے ذریعے قائم ہوئی۔ تحریک نے ایک عرصے تک اپنے مقاصد کے حصول کے لیے جدوجہد کی اور بالآخر بنو امیہ کو شکست دینے کے بعد بر سر اقتدار آگئی۔
ابراہیم علیہ السلام وہ پہلے پیغمبر تھے جن کو اللہ نے مُسلمان نبی پیغمبر ابو الانبیاء، خلیل اللہ امام الناس اور حنیف کہہ کر پُکارا۔اللہ تعالی نے اپنے اس دوست برگزیدہ اور پیارے نبی کو قرآن مجید میں امتہ (النحل : 120) امام الناس (البقرہ: 124) حنیف اور مسلم (آل عمران: 67) کے ناموں سے بار بار بار کیا ہے۔ اکثر انبیائے کرام انہی کی اولاد سے ہیں۔ابراہیم علیہ السلام کے نام کی وجہ تسمیہ کے بارے میں بائبل کا بیان ہے کہ خدا تعالی ان سے مخاطب ہو کر کہتا ہے۔ دیکھ میرا عہد تیرے ساتھ ہے اور تو بہت قوموں کا باپ ہو گا۔ اور تیرا نام ابرام نہیں بلکہ ابراہام ہو گا۔ کیونکہ میں نے تجھے قوموں کا باپ بنایا ہے۔ (پیدائش 170:5)اکثر ماہرین کے نزدیک ابراہام یا ابراہیم ؑ بھی لفظ ہے۔ ہو سکتا ہے کہ پہلے آپ کا نام ابراہم ہو اور پھر ابراہام یا ابو رہام ہو گیا ہو۔مُسلمان اُن کو خلیل اللہ (اللہ کا دوست) کہتے ہیں۔ ابراہیم کی نسل سے کئی پیغمبر پیدا ہوئے، جن کا تذکرہ عہدنامہ قدیم میں ہے۔ اسلام کی کتاب قرآن مجید میں بھی بہت سارے ایسے انبیا کا ذکر ہے جو ابراہیم کی نسل میں سے تھے۔ اسلام کے آخری نبی مُحمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی ابراہیم کی نسل میں سے ہیں۔شرک، ستارہ پرستی اور بت سازی کے خلاف اپنی قوم اور اوروں کے ساتھ ان کا مجادلہ و محاجہ بڑے زور سے پیش کیا گیا ہے۔ ابراہیم کا بچپن میں ہی رشد عطا کیا گیا اور قلب سلیم بھی عنایت فرمایا گیا۔ تکوینی عجائبات اور ملکوت السمٰوت والارض ان کے سامنے تھے۔ انھیں کے مشاہدے سے اُن کو یقین کامل حاصل ہوا۔ بت پرستی کے خلاف ابراہیم کے جہاد کا ذکر بھی قران کریم میں کئی بار آیا ہے۔قرآن حکیم میں حضرت ابراہیم ؑ اور آذر کے اختلاف عقائد کو جس طرح نمایاں کیا گیا ہے اور جس طرح آپ اپنی قوم کے شرک سے متنفر اور متصادم ہوئے۔ اس سے ہم آپ کی عظمت و جلالت کی حقیقت کو بھی پاسکتے ہیں۔ اور اپنے لیے شمع ہدایت بھی روشن کر سکتے ہیں۔ اس وجہ سے مسلمانوں کو ملت براہیمی ہونے پر فخر ہے۔ ان کے بارے میں یہ توکہیں وضاحت نہیں ہوئی کہ کیا وحی ان پر نازل ہوئی تھی یا ان کی بعثت محض روحانی تھی؟ البتہ قرآن مجید میں ایک جگہ اس امر کی تصدیق ہوئی ہے کہ اللہ تعالی آپ سے ہمکلام تھا۔ اہل تاریخ کے نزدیک متعدد صحیفے تھے جو ابراہیم پر نازل ہوئے۔ ایک صحیفہ جو ان کی طرف سے منسوب ہے یونانی سے انگریزی میں ترجمہ ہو کر شائع ہو چکا ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ کے دین کے بارے میں قرآن مجید میں کئی جگہ پر ارشار ہوتا ہے کہ آپ موحد مسلم اورراست رو تھے۔ ارشاد ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے: ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ”پھر ہم نے تیری طرف (حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی طرف) وحی کی کہ ابراہیم ؑ راست رو (مسلم) کے دین پر چل اور وہ مشرکوں میں سے نہیں تھا “ اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے: يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تُحَآجُّونَ فِي إِبْرَاهِيمَ وَمَا أُنزِلَتِ التَّورَاةُ وَالإنجِيلُ إِلاَّ مِن بَعْدِهِ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ هَاأَنتُمْ هَؤُلاء حَاجَجْتُمْ فِيمَا لَكُم بِهِ عِلمٌ فَلِمَ تُحَآجُّونَ فِيمَا لَيْسَ لَكُم بِهِ عِلْمٌ وَاللّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ مَا كَانَ إِبْرَاهِيمُ يَهُودِيًّا وَلاَ نَصْرَانِيًّا وَلَكِن كَانَ حَنِيفًا مُّسْلِمًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْرَاهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ وَهَـذَا النَّبِيُّ وَالَّذِينَ آمَنُواْ وَاللّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ ”اے اہل کتاب! تم ابراہیم ؑ کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو۔ حالانکہ توریت اور انجیل اس کے بعد ہی اتاری گئیں۔ پھر کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے۔ سنو! تم وہ ہو جو اس میں جھگڑ چکے، جس کا تمہیں علم تھا پھر اس میں کیوں جھگڑتے ہو جس کا میں علم نہیں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ ابراہیم ؑ نہ یہودی تھا اور نہ عیسائی، لیکن وہ راست رو اور فرماں بردار (مسلم اور حنیف) تھا اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھا۔ يقينا ابراہیم ؑ کے بہت نزدیک وہ لوگ ہیں جنھوں نے اس کی پیروی کی اور یہ نبی اور وہ جو اس پہ ایمان لائے اورالله مومنوں کا ولی ہے۔ قرآن مجید کی تقریباً بائیس سورتوں میں حضرت ابراہیم ؑ کا ذکر آتا ہے۔ آپ مسلمانوں کے رسول مقبول حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے جد امجد ہیں۔ گویا مسلمان نہ صرف امت محمدیہ سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ امت براہیمیہ سے بھی متعلق ہیں۔ مسلمان حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ حضرت ابراہیم ؑ اور ان کی اولاد پر بھی درود بھیجتے ہیں- Book Name: Sahih Muslim, Hadees # 6138 حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، وَابْنُ فُضَيْلٍ، عَنِ الْمُخْتَارِ، ح وحَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ السَّعْدِيُّ - وَاللَّفْظُ لَهُ -، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، أَخْبَرَنَا الْمُخْتَارُ بْنُ فُلْفُلٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا خَيْرَ الْبَرِيَّةِ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «ذَاكَ إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلَامُ» علی بن مسہر اور ابن فضیل نے مختار بن فلفل سے روایت کی ، انھوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور کہا : يا خَيرَ البرِيّۃِ اے مخلوقات میں سے بہترین انسان !
رموز اوقاف (انگریزی: Punctuation) وہ علامتیں اور نشانیاں ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ عبارت میں کس جگہ اور کس طرح وقف کرنا ہے۔ رموز، رمز کی جمع ہے جس کا مطلب ہے علامت یا اشارہ جبکہ اوقاف، وقف کی جمع ہے جس کے معنی ٹھہرنے یا رکنے کے ہیں، یعنی رموز اقاف یا علامات وقف اُن اشاروں یا علامتوں کو کہتے ہیں جو کسی عبارت کے ایک جملے کے ایک حصے کو اس کے باقی حصوں سے علاحدہ کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ اردو، انگریزی یا دوسری زبانوں کے قواعد میں ان اوقاف اور علامات کو بہت اہمیت حاصل ہے اگر ان کا خیال نہ رکھا جائے تو مفہوم کچھ سے کچھ بلکہ بعض اوقات تو اس کے بالکل اُلٹ ہو جاتا ہے جہاں ٹھہرنا یا وقفہ کرنا ہو ان کے لیے اردو میں درج ذیل رموز اوقاف استعمال ہوتے ہیں۔ ختمہ (۔)، سوالیہ (؟)، سکتہ (،) تفصیلہ (:_)، قوسین () واوین (” “) ندائیہ یا فجائیہ (!) علامت شعر(؎) علامت مصرع (؏) علامت وغیرہ۔
قواعد زبان میں حرف سے مراد حروفِ ابجد کے کسی ایک رکن کی ہوتی ہے۔ یہ وہ لفظ ہے جو تنہا اپنے پورے معانی نہ دے بلکہ اسما، افعال یا دو جملوں کے ساتھ مل کر اپنے پورے معنی ظاہر کرے۔ حرف کے کام دو اسما کو ملانا، دو افعال کو ملانا، دو چھوٹے جملوں کو ملا کر ایک جملہ بنانا اور اسما اور افعال کا ایک دوسرے سے تعلق ظاہر کرنا ہے۔ استعمال کے لحاظ سے حروف کو چار بڑے گروہوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
فسانۂ آزاد اردو ناول نگاری کے عہد اولین کا نقش ہے جسے پنڈت رتن ناتھ سرشار کشمیری نے لکھا۔ درحقیقت یہ ناول 1878ء میں لکھا گیا تھا اور شروع میں یہ لکھنؤ کے اودھ اخبار میں "ظرافت" کے عنوان سے قسط وار شائع ہوتا رہا پھر 1880ء میں پہلی دفعہ اسے منشی نول کشور لکھنؤ نے کتابی شکل میں چھاپا۔ یہ کتاب اردو ادب میں کلاسیک کا درجہ رکھتی ہے اور ڈیڑھ سو سال گزرنے کے باوجود مقبول خاص و عام ہیں۔
اورخان اول (پیدائش: 6 فروری 1281ء— وفات: اپریل 1362ءء) المعروف اورخان غازی (عثمانی: اورخان غازی) سلطنت عثمانیہ کے دوسرے فرمانروا تھے۔ انھیں سلطنت عثمانیہ کا اصل بانی قرار دیا جاتا ہے جس پر انھوں نے 1326ء سے 1359ء تک حکمران کی۔ انھوں نے مغربی اناطولیہ کا بیشتر حصہ عثمانی قلمرو میں شامل کیا جبکہ ان کے دور میں پہلی مرتبہ ترک افواج یورپ میں داخل ہوئیں جب ان کے بیٹے سلیمان پاشا نے 1354ء میں گیلی پولی پر قبضہ کیا۔
الناصر صلاح الدین یوسف بن ایوب (عربی: الناصر صلاح الدين يوسف بن أيوب؛ (کردی: سەلاحەدینی ئەییووبی)) جنہیں عام طور پر صلاح الدین ایوبی کے نام سے جانا جاتا ہے ایوبی سلطنت کے بانی تھے۔ وہ نہ صرف تاریخ اسلام بلکہ تاریخ عالم کے مشہور ترین فاتحین و حکمرانوں میں سے ایک ہیں۔ وہ 1138ء میں موجودہ عراق کے شہر تکریت میں پیدا ہوئے۔ ان کی زیر قیادت ایوبی سلطنت نے مصر، شام، یمن، عراق، حجاز اور دیار بکر پر حکومت کی۔ صلاح الدین ایوبی کو بہادری، فیاضی، حسن و خلق، سخاوت اور بردباری کے باعث نہ صرف مسلمان بلکہ مسیحی بھی عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ صلاح الدین ایوبی اپنے کارناموں میں نور الدین زنگی پر بھی بازی لے گئے۔ ان میں جہاد کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا اور بیت المقدس کی فتح ان کی سب سے بڑی خواہش تھی۔ صلاح الدین کو فاتح بیت المقدس کہا جاتا ہے جنھوں نے 1187ء میں یورپ کی متحدہ افواج کو عبرتناک شکست دے کر بیت المقدس ان سے آزاد کروا لیا تھا۔ صلاح الدین ایوبی 1193ء میں دمشق میں انتقال کر گئے ، انھوں نے اپنی ذاتی دولت کا زیادہ تر حصہ اپنی رعایا کو دے دیا۔ وہ مسجد بنو امیہ سے متصل مقبرے میں مدفون ہیں۔ مسلم ثقافت کے لیے اپنی اہمیت کے ساتھ ساتھ ، صلاح الدین کا کرد ، ترک اور عرب ثقافت میں نمایاں طور پر احترام کیا جاتا ہے۔ انھیں اکثر تاریخ کی سب سے مشہور کرد شخصیت کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔
صحیح بخاری کا اصل نام «الجامع المسند الصحیح المختصر من امور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وسننہ و ایامہ» ہے جو «صحیح البخاری» کے نام سے مشہور ہے، یہ اہل سنت وجماعت کے مسلمانوں کی سب سے مشہور حدیث کی کتاب ہے، اس کو امام محمد بن اسماعیل بخاری نے سولہ سال کی مدت میں بڑی جانفشانی اور محنت کے ساتھ تدوین کیا ہے، اس کتاب کو انھوں نے چھ لاکھ احادیث سے منتخب کر کے جمع کیا ہے۔ اہل سنت کے یہاں اس کتاب کو ایک خاص مرتبہ و حیثیت حاصل ہے اور ان کی حدیث میں چھ امہات الکتب (صحاح ستہ) میں اول مقام حاصل ہے، خالص صحیح احادیث میں لکھی جانی والی پہلی کتاب شمار ہوتی ہے، اسی طرح اہل سنت میں قرآن مجید کے بعد سب سے صحیح کتاب مانی جاتی ہے۔ اسی طرح صحیح بخاری کا شمار کتب الجوامع میں بھی ہوتا ہے، یعنی ایسی کتاب جو اپنے فن حدیث میں تمام ابواب عقائد، احکام، تفسیر، تاریخ، زہد اور آداب وغیرہ پر مشتمل اور جامع ہو۔
اردو زبان کی ابتدا کے متعلق نظریات
اردو کی ابتدا و آغاز کے بارے میں کئی مختلف نظریات ملتے ہیں یہ نظریات آپس میں اس حد تک متضاد ہیں کہ انسان چکرا کر رہ جاتا ہے۔ ان مشہور نظریات میں ایک بات مشترک ہے کہ ان میں اردو کی ابتدا کی بنیاد برصغیر پاک و ہند میں مسلمان فاتحین کی آمد پر رکھی گئی ہے۔ اور بنیادی استدلال یہ ہے کہ اردو زبان کا آغاز مسلمان فاتحین کی ہند میں آمد اور مقامی لوگوں سے میل جول اور مقامی زبان پر اثرات و تاثر سے ہوا۔ اور ایک نئی زبان معرض وجود میں آئی جو بعد میں اردو کہلائی۔ کچھ ماہرین لسانیات نے اردو کی ابتدا کا سراغ قدیم آریاؤں کے زمانے میں لگانے کی کوشش کی ہے۔ بہر طور اردو زبان کی ابتدا کے بارے میں کوئی حتمی بات کہنا مشکل ہے۔ اردو زبان کے محققین اگرچہ اس بات پر متفق ہیں کہ اردو کی ابتدا مسلمانوں کی آمد کے بعد ہوئی لیکن مقام اور نوعیت کے تعین اور نتائج کے استخراج میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس انداز سے اگر اردو کے متعلق نظریات کو دیکھا جائے تو وہ نمایاں طور پر چار مختلف نظریات کی شکل میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔
جنگ احد 17 شوال 3ھ (23 مارچ 625ء) میں مسلمانوں اور مشرکینِ مکہ کے درمیان احد کے پہاڑ کے دامن میں ہوئی۔ مشرکین کے لشکر کی قیادت ابوسفیان کے پاس تھی اور اس نے 3000 سے زائد افراد کے ساتھ مسلمانوں پر حملہ کی ٹھانی تھی جس کی باقاعدہ تیاری کی گئی تھی۔ مسلمانوں کی قیادت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کی۔ اس جنگ کے نتیجہ کو کسی کی فتح یا شکست نہیں کہا جا سکتا کیونکہ دونوں طرف شدید نقصان ہوا اور کبھی مسلمان غالب آئے اور کبھی مشرکین لیکن آخر میں مشرکین کا لشکر لڑائی ترک کر کے مکہ واپس چلا گیا۔
یوسف علیہ السلام اللہ تعالٰی کے نبی تھے۔ آپ کا ذکر بائبل میں بھی ملتاہے۔ آپ یعقوب علیہ السلام کے بیٹے تھے۔ آپ کا تعلق انبیا اللہ کے خاندان سے تھا۔ گیارہ سال کی عمر سے ہی نبی ہونے کے آثار واضح ہونے لگے۔ آپ نے خواب میں دیکھا کہ گیارہ ستارے، سورج اور چاند آپ کو سجدہ کر رہے ہیں۔ آپ کے والد یعقوب علیہ السلام نے آپ کو اپنا خواب کسی اور کو سنانے سے منع کیا۔ قرآن مجید کی ایک سورت ان کے نام پہ ہے۔ قران نے یوسف علیہ السلام کے قصے کو احسن القصص کہا ہے۔ سورہ انعام اور سورہ غافر میں بھی ان کا ذکر آیا ہے۔
محمد علی جناح پیدائشی نام، محمد علی جناح بھائی، 25 دسمبر 1876ء – 11 ستمبر 1948ء) کے نامور وکیل، سیاست دان اور بانی پاکستان تھے۔ محمد علی جناح 1913ء سے لے کر پاکستان کی آزادی 14 اگست 1947ء تک آل انڈیا مسلم لیگ کے سربراہ رہے، پھر قیام پاکستان کے بعد اپنی وفات تک، وہ ملک کے پہلے گورنر جنرل رہے۔ سرکاری طور پر پاکستان میں آپ کو قائدِ اعظم یعنی سب سے عظیم رہبر اور بابائے قوم یعنی قوم کا باپ بھی کہا جاتا ہے۔ جناح کا یومِ پیدائش پاکستان میں قومی تعطیل کے طور پر منایا جاتا ہے۔کراچی کے پیدائشی اور لنکن ان سے بیرسٹری کی تربیت حاصل کرنے والے جناح، بیسویں صدی کے ابتدائی دو عشروں میں آل انڈیا کانگریس کے اہم رہنما کے طور پر ابھرے۔ اپنی سیاست کے ابتدائی ادوار میں انہوں نے ہندو مسلم اتحاد کے لیے کام کیا۔ 1916ء میں آل انڈیا مسلم لیگ اور آل انڈیا کانگریس کے مابین ہونے والے میثاق لکھنؤ کو مرتب کرنے میں بھی انہوں نے اہم کردار ادا کیا۔ جناح آل انڈیا ہوم رول لیگ کے اہم رہنماوں میں سے تھے، انہوں نے چودہ نکات بھی پیش کیے، جن کا مقصد ہندوستان کے مسلمانوں کے سیاسی حقوق کا تحفظ کرنا تھا۔ بہر کیف جناح 1920ء میں آل انڈیا کانگریس سے مستعفی ہو گئے، جس کی وجہ آل انڈیا کانگریس کے موہن داس گاندھی کی قیادت میں ستیاگرا کی مہم چلانے کا فیصلہ تھا۔1940ء تک جناح کو یہ یقین ہو چلا تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک علاحدہ وطن کی جدوجہد کرنی چاہیے۔ اسی سال، مسلم لیگ نے جناح کی قیادت میں قرارداد پاکستان منظور کی جس کا مقصد نئی مملکت کی قیام کا مطالبہ تھا۔دوسری جنگ عظیم کے دوران، آل انڈیا مسلم لیگ نے مضبوطی پکڑلی جبکہ ان ادوار میں کانگریس کے کئی رہنما قید کاٹ رہے تھے اور جنگ کے ختم ہونے کے مختصر عرصے میں ہی انتخابات کا انعقاد ہوا، جس میں جناح کی جماعت نے مسلمانوں کے لیے مختص نشستوں میں سے بڑی تعداد جیت لی۔ اس کے بعد آل انڈیا کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ متحدہ ہندوستان میں اختیارات کے توازن کے لیے کسی صیغے پر متفق نا ہو سکے نتیجتاً تمام جماعتیں اس امر پر متفق ہوگئیں کہ ہندوستان کے دو حصے کیے جائیں جن میں ایک مسلم اکثریتی علاقوں میں پاکستان جبکہ باقی ماندہ علاقوں میں بھارت کا قیام ہو۔پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کے طور پر جناح نے اپنی حکومتی پالیسیوں کے قیام کے لیے کام کیا نیز انہوں نے ان لاکھوں لوگوں کے بہبود اور آباد کاری کے لیے بھی کام کیا جو تقسیم ہند کے بعد پاکستان کی جانب ہجرت کر چلے تھے، انہوں نے ان مہاجر کیمپوں کی ذاتی طور پر دیکھ بھال کی۔ جناح 71 سال کے عمر میں انتقال کر گئے جبکہ ان کے نوزائیدہ ملک کو سلطنت برطانیہ سے آزاد ہوئے محض ایک سال کا عرصہ ہوا تھا۔ ان کی سوانح عمری لکھنے والے لکھاری،اسٹینلی وولپرٹ لکھتے ہیں کہ، وہ (یعنی جناح) پاکستان کے عظیم ترین رہنما رہیں گے۔
علامہ شبلی نعمانی کی پیدائش اعظم گڑھ ضلع کے ایک گاؤں بندول جیراج پور میں4 /جون 1857ء کو ہوئی تھی- ابتدائی تعلیم گھر ہی پر مولوی فاروق چریاکوٹی سے حاصل کی- 1876ء میں حج کے لیے تشریف لے گئے۔ وکالت کا امتحان بھی پاس کیا اور وکالت بھی کی مگر اس پیشہ سے دلچسپی نہ ہونے کے سبب ترک کر دی۔ علی گڑھ گئے تو سرسید احمد خان سے ملاقات ہوئی، چنانچہ فارسی کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ یہیں سے شبلی نے علمی و تحقیقی زندگی کا آغاز کیا۔ پروفیسر آرنلڈ سے فرانسیسی سیکھی۔ 1892ء میں روم اور شام کا سفر کیا۔ 1898ء میں ملازمت ترک کرکے اعظم گڑھ آ گئے۔ 1913ء میں دار المصنفین کی بنیاد ڈالی۔ 1914ء میں انتقال ہوا۔
حضرت آدم علیہ السلام ، اللہ کے اولین پیغمبر ہیں۔ ابوالبشر (انسان کا باپ) اور صفی اللہ (خدا کا برگزیدہ) لقب۔ آپ کے زمانے کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔تمام آسمانی کتابوں کے ماننے والوں کاعقیدہ ہے کہ اس رُوئے زمین پر اللہ جل شانہ‘نے حضرت آدم علیہ السلام کو تخلیق کیا۔حضرت آدم ؑ کی پیدائش کا احوال کچھ یوں ہے :اللہ تعالی نے تمام زمین سے ایک مٹھی مٹی لے کر آدم علیہ السلام کو بنایا۔اس لیے زمین کے لحاظ سے لوگ سرخ ،سفید ، سیاہ اور درمیانے درجے میں ،اسی طرح اچھے ،برے ، نرم اور سخت طبیعت والے اور کچھ درمیانے درجے کے پیدا ہوئے(روایت : حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ )۔ اللہ تعالی نے جبریل علیہ السلام کو زمین میں مٹی لانے کے لیے بھیجا تو زمین نے عرض کی کہ میں تجھ سے اللہ کی پناہ میں آتی ہوں کہ تو مجھ سے کوئی کمی کرے یا مجھے عیب ناک کر دے تو وہ مٹی لیے بغیر ہی واپس چلے گئے اور عرض کی :اے اللہ!اس نے تیری پناہ میں آنے کی درخواست کی تو میں نے اس کو پناہ دے دی۔ اللہ تعالیٰ نے پھر حضرت میکائل کو بھیجا ،زمین نے اس سے بھی پناہ مانگی تو اس نے بھی پناہ دے دی اور حضرت جبریل کی طرح واقعہ بتا دیا پھر اللہ نے موت کے فرشتوں کو بھیجا۔زمین نے اس سے بھی پناہ مانگی تو اس نے کہا میں اس سے اللہ کی پناہ میں آتا ہوں کہ میں اللہ کے حکم کی تعمیل کیے بغیر واپس چلا جاؤں اور اس سے مختلف جگہوں سے سرخ ،سیاہ اور سفید مٹی اکٹھی کی جس کی بنا پر آدم علیہ السلام کی اولاد بھی مختلف رنگوں والی ہے ۔( روایت سدی رحمتہ اللہ بحوالہ ابن عباسؓ وابن مسعودؓ )وہ مٹی لے کرعرش پر چلے گئے اور اس کو پانی کے ساتھ تر کیا۔پانی سے تر کرنے سے وہ چپکنے والی لیس دار مٹی بن گئی۔ اس پر باری تعالیٰ نے فرشتوں کو فرمایا :میں مٹی سے انسان بنانے والا ہوں۔جب میں اس کو اچھی طرح بنا لوں اور اس میں اپنی پیدا کردہ روح ڈال دوں تو اس کے لیے سجدہ کرتے ہوئے گر جانا۔اللہ تعالی ٰنے علم کے ساتھ آدم علیہ السلام کا ان پر شرف اور مرتبہ واضح کیا۔حضرت ابن عباسؓ نے کہا ان سے مراد وہی نام ہیں جو لوگوں کے ہاں مشہور و معروف ہیں۔انسان ، جانور ، زمین ، سمندر ، پہاڑ ، اونٹ ، گدھا وغیرہ۔مجاہد نے کہا :پیالہ اور ہنڈیا وغیرہ کے نا م سکھائے،حتی کہ پھسکی اور گوز کا نام بھی بتا یا۔ مجاہد نے مزید کہا:ہر جانور ،پرند ، چرند اور ہر ضرورت کی ہر چیز کے نام سکھائے۔سعید بن جبیر ، قتادہ وغیرہ نے بھی اسی طرح کہا ہے۔الربیع نے کہا:فرشتوں کے نام سکھائے۔عبدالرحمن بن زید نے کہا :ان کی اولاد کے نام سکھائے۔اللہ نے آدم علیہ السلام کو ہر چھوٹی اور بڑی چیز اور ان کے افعال کے نام سکھائے ۔ حضرت انس بن مالکؓ نے رسول اللہﷺ سے روایت کرتے ہوئے فرمایا :قیامت کے دن ایمان والے اکٹھے ہوں گے اور کہیں گے کاش ہم اپنے رب کے پاس سفارش کرنے والا طلب کریں ،پھر وہ آدم کے پاس آئیں گے اور کہیں گے اے آدم!
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مختلف روایات میں اکثر گیارہ سے تیرہ ازواج کے نام ملتے ہیں۔ جنہیں امہات المؤمنین کہا جاتا ہے یعنی مؤمنین کی مائیں۔ اس کے علاوہ انھیں ازواج مطہرات بھی کہا جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ازواج میں حضرت عائشہ کے علاوہ تمام بیوہ و مطلقہ (طلاق شدہ) تھیں اور زیادہ شادیوں کا عرب میں عام رواج تھا۔
'مرزا اسد اللہ خان غالب' کی شخصیت کو کون نہیں جانتا۔ ہمارے ملک میں تو یہ عالم ہے کہ اگر کسی کو تھوڑی بہت اردو کی سوجھ بوجھ ہے تو غالب کے نام کو تو ضرور جانتا ہوگا۔ بحیثیتِ شاعر وہ اتنے مقبول ہیں کہ اُن کے اشعار زبان زدِ خلائق ہیں۔ اور بحیثیتِ نثر نگار بھی وہ کسی سے کم نہیں۔ بلکہ اس لحاظ سے ان کا پایہ سب سے بلند ہے کہ ایسے زمانے میں جب رنگینی و قافیہ پیمائی، انشا پردازی کا اصل سرمایہ سمجھی جاتی تھی ، انھوں نے نثر میں بھی ایک نئی راہ نکالی ۔ سادہ و پرکار، حسین و رنگین۔ یہی نمونۂ نثر آنے والوں کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوئے۔
سانحۂ کربلا یا واقعہ کربلا یا کربلا کی جنگ 10 محرم 61ھ (بمطابق 9 یا 10 اکتوبر، 680ء) کو، موجودہ عراق میں کربلا کے مقام پر پیش آیا۔ یہ جنگ نواسہ رسول حضرت امام حسین ابن علی، ان کے حامیوں اور رشتہ داروں کے ایک چھوٹے سے گروہ، حسین ابن علیؓ کے ساتھ 72 ساتھی، کچھ غلام، 22 اہل بیت کے جوان اور خاندان نبوی کی کچھ خواتین و بچے شامل تھے اور اموی ظالم حکمران یزید اول کی ایک بڑی فوج کے مابین ہوئی۔جس کو حسین ابنِ علی نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔جس میں اموی خلیفہ یزید اول کی فوج نے پیغمبر اسلام محمد کے نواسے حسین ابن علی اور ان کے رفقا کو لڑائی میں شہید کیا، حرم حسین کے خیموں کو لوٹ لیا گیا اور بالآخر آگ لگا دی گئی۔ عمر بن سعد کی فوج نے کربلا کے صحرا میں مقتولین کی لاشیں چھوڑ دیں۔ بنی اسد کے لوگوں نے لاشوں کو تین دن بعد دفن کیا۔ واقعہ کربلا کے بعد، حسین ابن علی کی فوج سے وابستہ متعدد خواتین اور بچوں کو گرفتار کر کے قید کر دیا گیا، بازار اور ہجوم والے مقامات سے گذر کر ان کی توہین کی گئی اور انھیں یزید ابن معاویہ کے دربار شام بھیج دیا گیا تھا۔ جنگ میں شہادت کے بعد حضرت امام حسین کو سید الشہدا کے لقب سے پکارا جاتا ہے۔
آزاد کشمیر ریاست جموں و کشمیر کا وہ حصہ ہے جو خود مختار خطہ ہے لیکن پاکستان کے زیرِ انتظام ہے۔ اس کا باقاعدہ نام ریاست آزاد جموں و کشمیر ہے جو پاکستان اور بھارت کے مابین متنازع ہے۔ یہ علاقہ 13،300 مربع کلومیٹر (5،135 مربع میل) پر پھیلا ہے۔ آزاد کشمیر کا دار الحکومت مظفرآباد ہے اور ریاست آزاد جموں و کشمیر کی آبادی اندازہ 40 لاکھ ہے۔ اور یہاں پہاڑی زبان، ہندکو، گوجری، پنجابی اور کشمیری زبانیں بولی جاتی ہیں۔ آزاد کشمیر کی شرح تعلیم 65 فیصد ہے۔کشمیر اپنی قدرتی خوبصورتی اور دلکش مناظر کی وجہ سے جانا جاتا ہے اور سیر و تفریح کے لیے لوگ بڑی تعداد میں آزاد کشمیر کا رُخ کرتے ہیں۔ انہی خوبصورت مناظر کی وجہ سے مغل شہنشاہ ظہیر الدین بابر نے کہا تھا کہ کشمیر زمین پر جنت ہے۔ آزاد کشمیر میں 10 اضلاع، 32 تحصیلیں اور 182 یونین کونسلیں ہیں۔ آزاد کشمیر کے میرپور ڈویژن میں ضلع باغ، ضلع بھمبر، ضلع پونچھ، ضلع سدھنوتی، ضلع کوٹلی، ضلع مظفر آباد، ضلع میر پور، ضلع نیلم، ضلع حویلی اور ضلع ہٹیاں شامل ہیں۔
عیسیٰ ابن مریم ( عربی: عِيسَى ٱبْنُ مَرْيَمَ) ' تورات کے مطابق عیسیٰ ابن مریم ' کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ بنی اسرائیل سے خدا کے آخری نبی اور رسول ہیں اور بنی اسرائیل ( Banī Isra'īl ) کی رہنمائی کے لیے انجیل نامی کتاب کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث کیے گئے مسیحا ہیں ۔ قرآن میں، یسوع کو المسیح ( al-Masīḥ ) کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ جو معجزانہ طور پر ایک کنواری سے پیدا ہوئے، اپنے شاگردوں کے ساتھ معجزات دیکھاتے تھے،اور اللہ نے معجزانہ طور پر ان کو بچایا زندہ آسمان پر اٹھا لیا۔ یہودی مذہبی اسٹیبلشمنٹ نے مسترد کر دیا ہے، لیکن صلیب پر مرنے کے طور پر نہیں (اور نہ ہی دوبارہ زندہ کیے جانے پر) ، بلکہ جیسا کہ خدا نے ان کو معجزانہ طور پر بچایا اور آسمان پر زندہ اٹھا لیا۔ قرآن واضح طور پر اور بار بار اس خیال کو مسترد کرتا ہے کہ عیسیٰ کو ( یہودی یا رومی ) حکام نے نہ قتل کیا تھا اور نہ ہی وہ مصلوب کیے گے تھے۔ قرآن نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو عظیم ترین نبیوں میں شمار کیا ہے اور ان کا ذکر مختلف القابات سے کیا ہے۔ عیسیٰ کی نبوت سے پہلے یحییٰ کی نبوت ہے اور محمد کی جانشینی ہے، جن کے بعد کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ عیسیٰ نے احمد کا نام استعمال کرکے پیشین گوئی کی تھی۔ یسوع مسیح کے بارے میں اسلام میں مختلف قسم کی متغیر تشریحات موجود ہیں۔ قرآن کی مرکزی دھارے کی تشریحات میں آرتھوڈوکس عیسائی فلسفہ الہی ہائپوسٹاسس کے بارے میں کرسٹولوجی کے نظریاتی تصورات کا فقدان ہے، اس لیے بہت سے لوگوں کے لیے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن مسیح کو مسترد کرتا ہے کیونکہ یسوع مسیح کی الوہیت کے نظریے کے مسیحی نقطہ نظر میں ایک یہودی مسیحی خدا کے اوتار ہونے کے ناطے انسان یا انسانی جسم میں خدا کے لفظی بیٹے کے طور پر، جیسا کہ یہ ظاہری طور پر متعدد آیات میں یسوع کے خدا کے طور پر الہامی انسانیت کے نظریے کی تردید کرتا ہے اور اس بات پر بھی تاکید کرتا ہے کہ یسوع مسیح نے ذاتی طور پر خدا ( خدا باپ ) ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اصل پیغام ( taḥrīf ) میں ان کے زندہ ہونے کے بعد تبدیلی کی گئی تھی۔ قرآن مجید میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توحید پر زور دیا گیا ہے۔ اسلام میں تمام انبیا کی طرح، عیسیٰ کو بھی رسول کہا جاتا ہے، جیسا کہ انھوں نے تبلیغ کی کہ ان کے پیروکاروں کو ' صراط المستقیم ' اختیار کرنا چاہیے۔ اسلامی روایت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بہت سارے معجزات سے منسوب کیا گیا ہے۔ روایتی اسلامی تعلیمات میں، یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ عیسیٰ مسیح امام مہدی کے ساتھ دوسری آمد میں مسیح الدجال ('جھوٹا مسیح') کو قتل کرنے کے لیے واپس آئیں گے، جس کے بعد قدیم قبائل یاجوج ماجوج ( Yaʾjūj Maʾjūj ) کے ساتھ۔ منتشر ہو جائیں گے.
دبستان لکھنؤ سے مراد شعر و ادب کا وہ رنگ ہے جو لکھنؤ کے شعرائے متقدمین نے اختیار کیا اور اپنی بعض خصوصیات کی بنا پر وہ رنگ قدیم اردو شاعری اور دہلوی شاعری سے مختلف ہے۔ جب لکھنؤ مرجع اہل دانش و حکمت بنا تو اس سے پہلے علم وادب کے دو بڑے مرکز دہلی اور دکن شہرت حاصل کر چکے تھے۔ لیکن جب دہلی کا سہاگ لٹا۔ دہلی میں قتل و غارت گری کا بازار گرم ہوا تو دہلی کے اہل علم فضل نے دہلی کی گلیوں کو چھوڑنا شروع کیا جس کی وجہ سے فیض آباد اور لکھنؤ میں علم و ادب کی محفلوں نے فروغ پایا۔
بلاغت (انگریزی: Rheotric)کی تعریف یوں کی گئی ہے کہ ایسا کلام جس میں مخاطب کے سامنے وہی نکات بیان کیے جائیں جو اسے پسند ہوں۔ جو اس کو ناگوار محسوس ہوتے ہوں ان کو حذف کر دیا گیا ہو۔ زیادہ اہم باتوں کو پہلے بیان کیا گیا ہو اور کم اہمیت رکھنے والی باتوں کو بعد میں، نیز غیر ضروری باتوں کو نظر انداز کر دیا گیا ہو۔
مکمل ابو عبد اللہ عثمان بن عفان اموی قرشی (47 ق ھ - 35 ھ / 576ء – 656ء) اسلام کے تیسرے خلیفہ، داماد رسول اور جامع قرآن تھے۔ عثمان غنی سابقین اسلام میں شامل اور عشرہ مبشرہ میں سے تھے، ان کی کنیت ذو النورین ہے کیونکہ انھوں نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دو صاحبزادیوں سے نکاح کیا تھا، پہلے رقیہ بنت محمد رضی اللہ عنہا سے کیا، پھر ان کی وفات کے بعد ام کلثوم بنت محمد سے نکاح کیا۔ عثمان غنی پہلے صحابی ہیں جنھوں نے سرزمین حبشہ کی ہجرت کی، بعد میں دیگر صحابہ بھی آپ کے پیچھے حبشہ پہنچے۔ بعد ازاں دوسری ہجرت مدینہ منورہ کی جانب کی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عثمان غنی پر مکمل اعتماد اور ان کی فطری حیاء و شرافت اور جو انھوں نے اپنے مال کے ذریعہ اہل ایمان کی نصرت کی تھی، اس کی انتہائی قدر کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیگر صحابہ کے ساتھ ان کو بھی جنت اور شہادت کی موت کی خوش خبری دی۔ سنہ 23ھ (644ء) میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد مشورہ سے آپ کو خلافت کی ذمہ داری سونپی گئی، جسے انھوں نے 644ء سے 656ء تک انجام دی۔ ان کے عہد خلافت میں جمع قرآن مکمل ہوا، مسجد حرام اور مسجد نبوی کی توسیع ہوئی اور قفقاز، خراسان، کرمان، سیستان، افریقیہ اور قبرص وغیرہ فتح ہو کر سلطنت اسلامی میں شامل ہوئے۔ نیز انھوں نے اسلامی ممالک کے ساحلوں کو بازنطینیوں کے حملوں سے محفوظ رکھنے کے لیے اولین مسلم بحری فوج بھی بنائی۔آپ کا زمانہ خلافت بارہ سال کے عرصہ پر محیط ہے، جس میں آخری کے چھ سالوں میں کچھ ناخوشگوار حادثات پیش آئے، جو بالآخر ان کی شہادت پر منتج ہوئے۔ سنہ 35ھ ، 12 ذی الحجہ، بروز جمعہ بیاسی سال کی عمر میں انھیں ان کے گھر میں قرآن کریم کی تلاوت کے دوران میں شہید کر دیا گیا اور مدینہ منورہ کے قبرستان جنت البقیع میں دفن ہوئے۔ خلیفۂ سوم سیدنا عثمان غنی کا تعلق قریش کے معزز قبیلے سے تھا۔ سلسلہ نسب عبد المناف پر رسول اللہ ﷺ سے جا ملتا ہے ۔ سیدنا عثمان ذوالنورین کی نانی نبی ﷺ کی پھوپھی تھیں۔ آپ کا نام عثمان اور لقب ” ذوالنورین “ ہے۔ اسلام قبول کرنے والوں میں آپ ” السابقون الاولون “ کی فہرست میں شامل تھے، آپ نے خلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیق کی دعوت پر اسلام قبول کیا تھا۔ ۔ حضور ﷺ پر ایمان لانے اور کلمہ حق پڑھنے کے جرم میں سیدنا عثمان غنی کو ان کے چچا حکم بن ابی العاص نے لوہے کی زنجیروں سے باندھ کر دھوپ میں ڈال دیا، کئی روز تک علاحدہ مکان میں بند رکھا گیا، چچا نے آپ سے کہا کہ جب تک تم نئے مذہب (اسلام ) کو نہیں چھوڑو گے آزاد نہیں کروں گا۔ یہ سن کر آپ نے جواب میں فرمایا کہ چچا ! اللہ کی قسم میں مذہب اسلام کو کبھی نہیں چھوڑ سکتا اور اس ایمان کی دولت سے کبھی دستبردار نہیں ہوں گا۔ سیدنا عثمان غنی اعلیٰ سیرت و کردار کے ساتھ ثروت و سخاوت میں بھی مشہور تھے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جنت میں ہر نبی کا ساتھی و رفیق ہوتا ہے میرا ساتھی ”عثمان “ ہوگا۔ سیدنا عثمان کے دائرہ اسلام میں آنے کے بعد نبی اکرم نے کچھ عرصہ بعد اپنی بیٹی سیدہ رقیہ رضى الله عنها کا نکاح آپ سے کر دیا۔ جب کفار مکہ کی اذیتوں سے تنگ آکر مسلمانوں نے نبی کریم ﷺ کی اجازت اور حکم الٰہی کے مطابق ہجرت حبشہ کی تو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ بھی مع اپنی اہلیہ حضرت رقیہ رضى اللہ عنہا حبشہ ہجرت فرما گئے، جب حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا تو نبی ﷺ نے دوسری بیٹی حضرت ام کلثوم رضى اللہ عنہا کوآپ کی زوجیت میں دے دی۔ اس طرح آپ کا لقب ” ذوالنورین“ معروف ہوا۔مدینہ منورہ میں پانی کی قلت تھی جس پر سیدنا عثمان نے نبی پاک ا کی اجازت سے پانی کا کنواں خرید کر مسلمانوں کے ليے وقف فرمایا۔اور اسی طرح غزوئہ تبوک میں جب رسول اللہ ﷺ نے مالی اعانت کی اپیل فرمائی تو سیدنا عثمان غنی نے تیس ہزار فوج کے ایک تہائی اخراجات کی ذمہ داری لے لی۔جب رسول اکرم ﷺ نے زیارت خانہ کعبہ کا ارادہ فرمایا تو حدیبیہ کے مقام پر یہ علم ہوا کہ قریش مکہ آمادہ جنگ ہیں ۔ اس پر آپ ﷺ نے سیدنا عثمان غنی کو سفیر بنا کر مکہ بھیجا۔ قریش مکہ نے آپ کو روکے رکھا تو افواہ پھیل گئی کہ سیدنا عثمان کو شہید کر دیا گیا ہے ۔ اس موقع پر چودہ سو صحابہ سے نبی ﷺ نے بیعت لی کہ سیدنا عثمان غنی کا قصاص لیا جائے گا ۔ یہ بیعت تاریخ اسلام میں ” بیعت رضوان “ کے نام سے معروف ہے ۔ قریش مکہ کو جب صحیح صورت حال کا علم ہوا تو آمادۂ صلح ہو گئے اور سیدنا عثمان غنی واپس آگئے۔خلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیق کی مجلس مشاورت کے آپ اہم رکن تھے ۔ امیر المومنین سیدنا عمر کی خلافت کا وصیت نامہ آپ نے ہی تحریر فرمایا ۔ دینی معاملات پر آپ کی رہنمائی کو پوری اہمیت دی جاتی ۔ سیدنا عثمان غنی صرف کاتب وحی ہی نہیں تھے بلکہ قرآن مجید آپ کے سینے میں محفوظ تھا۔ آیات قرآنی کے شان نزول سے خوب واقف تھے ۔ بطور تاجر دیانت و امانت آپ کا طرۂ امتیاز تھا۔ نرم خو تھے اور فکر آخرت ہر دم پیش نظر رکھتے تھے ۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے عثمان کی حیا سے فرشتے بھی شرماتے ہیں ، تبلیغ و اشاعت اسلام کے ليے فراخ دلی سے دولت صرف فرماتے۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اے عثمان اللہ تعالٰی تجھے خلافت کی قمیص پہنائیں گے ، جب منافق اسے اتارنے کی کوشش کریں تو اسے مت اتارنا یہاں تک کہ تم مجھے آملو۔ چنانچہ جس روز آپ کا محاصرہ کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ مجھ سے حضور نے عہد لیا تھا ( کہ منافق خلافت کی قمیص اتارنے کی کوشش کریں گے تم نہ اتارنا ) اس ليے میں اس پر قائم ہوں اور صبر کر رہا ہوں ۔ 35ھ میں ذی قعدہ کے پہلے عشرہ میں باغیوں نے سیدنا عثمان ذوالنورین کے گھر کا محاصرہ کیا اور آپ نے صبر اور استقامت کا دامن نہیں چھوڑا، محاصرہ کے دوران آپ کا کھانا اور پانی بند کر دیا گیا تقریبا چالیس روز بھوکے پیاسے 82 سالہ مظلوم مدینہ سیدنا عثمان کو جمعة المبارک 18ذو الحجہ کو انتہائی بے دردی کے ساتھ روزہ کی حالت میں قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہوئے شہید کر دیا گیا۔ ، .