اردو ویکیپیڈیا کے سب سے زیادہ ملاحظہ کردہ مضامین کی فہرست۔ مزید معلومات کے لیے ۔ ۔ ۔
ماضی شرطی یا تمنائی وہ فعل جس میں گذرے ہوئے زمانے میں کسی ہونے والے کام کے ساتھ تمنا یا شرط پائی جائے جیسے کاش وہ سچ بولتا، اگر اسلم محنت کرتا تو کامیاب ہو جاتا، حنا کراچی آتی تو چڑیا گھر دیکھتی، کاش تم سبق پڑھتے، اگر انیلا خط لکھتی، اِن جملوں میں بولتا، کامیاب ہو جاتا، دیکھتی، پڑھتے، لکھتی ماضی شرطی یا تمنائی ہیں۔
فعل وہ کلمہ جس کے معانی میں کسی کام کا کرنا یا ہونا پایا جائے اور جس میں تینوں زمانوں ماضی، حال، مستقبل میں سے کوئی ایک زمانہ موجود ہو۔ فعل کی زمانے کے لحاظ سے تین اقسام ہیں۔ فعل ماضی وہ فعل جس میں کسی کام کا کرنا، ہونا یا سہنا گذرے ہوئے زمانے میں پایا جائے۔ فعل حال وہ فعل جس میں کسی کام کا کرنا، ہونا یا سہنا موجودہ زمانے میں پایا جائے۔ فعل مستقبل ایسا فعل جس میں کسی کام کا کرنا، ہونا یا سہنا آنے والے زمانے میں پایا جائے۔
انا لله و انا الیہ راجعون (عربی: إِنَّا لِلَّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ) آیت استرجاع کہلاتی ہے جو قرآن میں سورۃ البقرہ کی آیت 156 سے ماخوذ ہے۔ اس کا مطلب ہے: "ہم خدا کے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔" جب مسلمان کسی کی موت یا مصیبت کی خبر سنتے ہیں تو یہ آیت پڑھتے ہیں۔ وہ اس آیت کو تعزیت کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں اور مصیبت کے وقت صبر کا مطالبہ کرتے ہیں۔
ماضی بعید وہ فعل ہوتا جس میں کسی کام کا ہونا یا کرنا دُور کے زمانے میں پایا جائے۔ سلمیٰ نے خط لکھا تھا، عرفان نے سبق پڑھا تھا، سیما سیب لائی تھی، اسلم سویا تھا، شاہدہ نے حلوا پکایا تھا، انیلا کرسی پر بیٹھی تھی، اِن جملوں میں لکھا تھا، پڑھا تھا، لائی تھی، سویا تھا، پکایا تھا، بیٹھی تھی، ماضی بعید ہیں۔
اسم مصدر اسم کی ایک قسم ہے۔ اسم مصدر ایسا اسم ہوتا ہے جو خود تو کسی اسم سے نہیں بنتا لیکن اس سے مقررہ قاعدوں کے مطابق کئی الفاظ بنائے جا سکتے ہوں مثلا پڑھنا سے پڑھو، دیکھنا سے دیکھو، بڑھانا سے بڑھائو، بنانا سے بناوٹ، سونگھنا سے سونگھو وغیرہ اسم مصدر کی بلحاظ بناوٹ درج ذیل اقسام ہیں۔ مصدر اصلی یا مصدر وضعی، مصدر جعلی یا مصدر مرکب اسی طرح مصدر کی بلحاظ معنی درج ذیل اقسام ہیں۔ مصدر لازم، مصدر متعدی۔ یا مصدر سے پہلے کوئی لفظ لگانے سے مرکب مصدر بن جاتا ہے۔ مثلاً جھوٹ بولنا، مار کھانا، بھول جانا وغیرہ.
ابو القاسم محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب (12 ربیع الاول عام الفیل / 8 جون 570ء یا 571ء – 12 ربیع الاول 10ھ / 8 جون 632ء) مسلمانوں کے آخری نبی ہیں۔ اہل اسلام کے نزدیک محمد تمام مذاہب کے پیشواؤں سے کامیاب ترین پیشوا تھے۔ آپ کی کنیت ابو القاسم تھی۔ مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ کی طرف سے انسانیت کی جانب بھیجے جانے والے انبیائے کرام کے سلسلے کے آخری نبی ہیں جن کو اللہ نے اپنے دین کی درست شکل انسانوں کی جانب آخری بار پہنچانے کے لیے دنیا میں بھیجا۔ انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دنیا کی تمام مذہبی شخصیات میں سب سے کامیاب شخصیت تھے۔ 570ء (بعض روایات میں 571ء) مکہ میں پیدا ہونے والے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر قرآن کی پہلی آیت چالیس برس کی عمر میں نازل ہوئی۔ ان کا وصال تریسٹھ (63) سال کی عمر میں 632ء میں مدینہ میں ہوا، مکہ اور مدینہ دونوں شہر آج کے سعودی عرب میں حجاز کا حصہ ہیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف کے والد کا انتقال ان کی دنیا میں آمد سے قریبا چھ ماہ قبل ہو گیا تھا اور جب ان کی عمر چھ سال تھی تو ان کی والدہ حضرت آمنہ بھی اس دنیا سے رحلت فرما گئیں۔ عربی زبان میں لفظ "محمد" کے معنی ہیں 'جس کی تعریف کی گئی'۔ یہ لفظ اپنی اصل حمد سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے تعریف کرنا۔ یہ نام ان کے دادا حضرت عبدالمطلب نے رکھا تھا۔ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو رسول، خاتم النبیین، حضور اکرم، رحمۃ للعالمین اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے القابات سے بھی پکارا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی آپ کے بہت نام و القاب ہیں۔ نبوت کے اظہار سے قبل حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے چچا حضرت ابوطالب کے ساتھ تجارت میں ہاتھ بٹانا شروع کر دیا۔ اپنی سچائی، دیانت داری اور شفاف کردار کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عرب قبائل میں صادق اور امین کے القاب سے پہچانے جانے لگے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنا کثیر وقت مکہ سے باہر واقع ایک غار میں جا کر عبادت میں صرف کرتے تھے اس غار کو غار حرا کہا جاتا ہے۔ یہاں پر 610ء میں ایک روز حضرت جبرائیل علیہ السلام (فرشتہ) ظاہر ہوئے اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اللہ کا پیغام دیا۔ جبرائیل علیہ السلام نے اللہ کی جانب سے جو پہلا پیغام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پہنچایا وہ یہ ہے۔
روزہ اسلام کے 5 ارکان میں سے ایک ہے جسے عربی میں صوم کہتے ہیں۔ مسلمان اسلامی سال کے مقدس مہینے رمضان المبارک میں روزے رکھتے ہیں۔ روزے میں مسلمان صبح صادق سے غروب آفتاب تک کھانے، پینے اور اپنی بیوی سے ہمبستری کرنے سے باز رہتے ہیں۔ روزہ رکھنے کے لیے صبح صادق سے قبل کھانا کھایا جاتا ہے جسے سحری کہتے ہیں جس کے بعد نماز فجر ادا کی جاتی ہے جبکہ غروب آفتاب کے وقت اذان مغرب کے ساتھ کچھ کھا پی کر روزہ کھول لیا جاتا ہے جسے افطار کرنا کہتے ہیں۔
فارسی ایک ہند-یورپی زبان ہے جو ایران، افغانستان اور تاجکستان میں بولی جاتی ہے۔ فارسی کو ایران، افغانستان اور تاجکستان میں دفتری زبان کی حیثیت حاصل ہے۔ ایران، افغانستان، تاجکستان اور ازبکستان میں تقریباً 12 کروڑ افراد فارسی زبان کو سمجھ اور بول سکتے ہیں۔ فارسی عالمِ اِسلام اور مغربی دُنیا کے لیے ادب اور سائنس میں حصہ ڈالنے کا ایک ذریعہ رہی ہے۔ ہمسایہ زبانوں مثلاً اُردو پر اِس کے اثرات بہت نمایاں ہیں۔ تاہم عربی پر اِس کا اثر و رُسوخ کم رہا ہے۔ اور پشتو زبان کو تو مبالغہ کے طور پر فارسی کی دوسری شکل قرار دیا جاتا ہے، کیونکہ دونوں کے قواعد زیادہ تر ایک جیسے ہیں۔ برطانوی استعمار سے پہلے فارسی کو برّصغیر میں دوسری زبان کا درجہ حاصل تھا؛ اِس نے جنوبی ایشیاء میں تعلیمی اور ثقافتی زبان کا امتیاز حاصل کیا اور مُغل دورِ حکومت میں یہ سرکاری زبان بنی اور 1835ء میں اس کی سرکاری حیثیت اور دفتری رواج ختم کر دیا گیا۔ 1843ء سے برصغیر میں انگریزی صرف تجارت میں استعمال ہونے لگی۔ فارسی زبان کا اِس خطہ میں تاریخی رُسوخ ہندوستانی اور دوسری کئی زبانوں پر اس کے اثر سے لگایا جا سکتا ہے۔ خصوصاً اُردو زبان، فارسی اور دوسری زبانوں جیسے عربی اور تُرکی کے اثر و رُسوخ کا نتیجہ ہے، جو مُغل دورِ حکومت میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی زبان ہے۔ فارسی زبان ہندوستان کی تہذیب و تمدن کا ایک اہم حصہ رہی ہے اور اکبر شاہ کے دور میں ترجمے کا ایک شعبہ قائم ہوا تھا، جہاں فارسی کی نادر و نایاب کتابوں کا سنسکرت زبان میں اور سنسکرت کی کتابوں کا فارسی زبان میں ترجمہ کیا جاتا تھا۔ ایران میں سرکاری زبان فارسی ہے، ایران میں مزید سات زبانیں سرکاری طور پر تسلیم شدہ علاقائی زبانیں ہیں: آذربائیجانی ، کوردی ، لوری، مازندرانی ، گیلکی ، بلوچی اور عربی.
عدد (جمع: اعداد ؛ انگریزی: number) اصل میں ایک جِرم مجرد (abstract object) ہے جس کو شمار و پیمائش کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جبکہ وہ علامت جو کسی عدد کو ظاہر کرنے کے لیے اختیار کی جاتی ہے اسے عدید (numeral) کہا جاتا ہے، لیکن عام روزمرہ کے استعمال میں عدد سے مراد لکھی جانے والی علامت اور جرم مجرد (یعنی اس جرم کا شمار یا پیمائش) دونوں کی لی جاتی ہے۔
ماہِ رمضان (رمضان عربی زبان کا لفظ ہے، اس کی جمع رمضانات، ارمضاء، ارمضۃ یا رماضین آتی ہے) یہ ہجری تقویم کا نواں مہینہ ہے جو شعبان کے بعد آتا ہے۔ مسلمانوں کے نزدیک یہ مہینہ دیگر ہجری مہینوں کی بہ نسبت بہت خصوصیت اور مقام ومرتبہ والا سمجھا جاتا ہے۔ اس مہینے میں اسلام کا ایک اہم رکن روزہ رکھا جاتا ہے، روزہ کے دنوں میں فجر سے لے کر غروب آفتاب تک کھانا پینا منع ہوتا ہے۔
قرآن کریم، قرآن مجید یا قرآن شریف (عربی: القرآن الكريم) دین اسلام کی مقدس و مرکزی کتاب ہے جس کے متعلق ہم اسلام کے پیروکاروں کا اعتقاد ہے کہ یہ کلام الہی ہے اور اسی بنا پر یہ انتہائی محترم و قابل عظمت کتاب ہے۔ اسے ہمارے پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی کے ذریعے اتارا گیا۔ یہ وحی اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتے حضرت جبرائیل علیہ السلام لاتے تھے جیسے جیسے قرآن مجید کی آیات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوتیں آپ صلی علیہ وآلہ وسلم اسے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو سناتے اور ان آیات کے مطالب و معانی سمجھا دیتے۔ کچھ صحابہ کرام تو ان آیات کو وہیں یاد کر لیتے اور کچھ لکھ کر محفوظ کر لیتے۔ ہم مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن ہر قسم کی تاریف بیان کرتا ہے پاک ہے محفوظ ہے، قرآن میں آج تک کوئی کمی بیشی نہیں ہو سکی اور اسے دنیا کی واحد محفوظ افضل کتاب ہونے کی حیثیت حاصل ہے، جس کا حقیقی مفہوم تبدیل نہیں ہو سکا اور تمام دنیا میں کروڑوں کی تعداد میں چھپنے کے باوجود اس کا متن ایک جیسا ہے اور اس کی تلاوت عبادت ہے۔ اور صحف ابراہیم، زبور اور تورات و انجیل کے بعد آسمانی کتابوں میں یہ سب سے آخری اور افضل کتاب ہے اور سابقہ آسمانی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اب اس کے بعد کوئی آسمانی کتاب نازل نہیں ہوگی۔ قرآن کی فصاحت و بلاغت کے پیش نظر اسے لغوی و مذہبی لحاظ سے تمام عربی کتابوں میں اعلیٰ ترین مقام حاصل ہے۔ نیز عربی زبان و ادب اور اس کے نحوی و صرفی قواعد کی وحدت و ارتقا میں بھی قرآن کا خاصا اہم کردار دکھائی دیتا ہے۔ چنانچہ قرآن کے وضع کردہ عربی زبان کے قواعد بلند پایہ عرب محققین اور علمائے لغت مثلاً سیبویہ، ابو الاسود الدؤلی اور خلیل بن احمد فراہیدی وغیرہ کے یہاں بنیادی ماخذ سمجھے گئے ہیں۔
ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال (ولادت: 9 نومبر 1877ء – وفات: 21 اپریل 1938ء) بیسویں صدی کے ایک معروف شاعر، مصنف، قانون دان، سیاستدان اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھے۔ اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے اور یہی ان کی بنیادی وجہ شہرت ہے۔ شاعری میں بنیادی رجحان تصوف اور احیائے امت اسلام کی طرف تھا۔ علامہ اقبال کو دور جدید کا صوفی سمجھا جاتا ہے۔ بحیثیت سیاست دان ان کا سب سے نمایاں کارنامہ نظریۂ پاکستان کی تشکیل ہے، جو انھوں نے 1930ء میں الہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پیش کیا تھا۔ یہی نظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا۔ اسی وجہ سے علامہ اقبال کو پاکستان کا نظریاتی باپ سمجھا جاتا ہے۔ گو کہ انھوں نے اس نئے ملک کے قیام کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن انھیں پاکستان کے قومی شاعر کی حیثیت حاصل ہے۔
پاکستان (رسمی نام: اسلامی جمہوریۂ پاکستان IN ENGLISH: PAKISTAN ) جنوبی ایشیا کے شمال مغرب وسطی ایشیا اور مغربی ایشیا کے لیے دفاعی طور پر اہم حصے میں واقع ایک خود مختار اسلامی ملک ہے۔ یہ دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے، جس کی آبادی تقریباً 242 ملین ہے اور دنیا کی دوسری سب سے بڑی مسلم آبادی والا ملک ہے۔ 881,913 مربع کلومیٹر (340,509 مربع میل) کے ساتھ یہ دنیا کا تینتیسواں بڑے رقبے والا ملک ہے۔ اس کے جنوب میں 1046 کلومیٹر (650 میل) کی ساحلی پٹی ہے جو بحیرہ عرب سے ملتی ہے۔پاکستان کے مشرق ميں بھارت، شمال مشرق ميں چین اور مغرب ميں افغانستان اور ايران واقع ہيں۔ پاکستان کو شمال میں ایک تنگ واخان راہداری تاجکستان سے جدا کرتی ہے جبکہ اس ملک کی سمندری سرحدی حدود عمان کے سمندری حدود سے بھی ملتی ہیں۔ موجودہ پاکستان کے علاقے قدیم ترین دنیا میں وہ علاقے تھے جن میں موہنجوداڑو اور انڈس سولائیزیشن مہر گڑھ ٹیکسلا پراچین سنسکرت دور اور دیگر زیرتحقیق آرک لوجیکل سائٹس جیسے قندھارا تہذیب و تمدن تھی۔ اس علاقے پر پراچین راجپوت ایرانی یونانی عرب، بدھ مت، سکھ، مغل، ہن سفید اور ترک حملہ آوروں کی حکومت بھی رہی ہے۔ یہ علاقہ مختلف سلطنتوں جیسے چندر گپت موریا، ہخامنشی سلطنت عربوں کی خلافت امویہ، مغلیہ سلطنت، درانی سلطنت، سکھ سلطنت اور برطانوی راج کا اہم حصہ رہا ہے۔ اس کے بعد محمد علی جناح کی قیادت میں تحریک پاکستان کامیاب ہوئی اور 14 اگست 1947ء کو ہندوستان کے مشرق اور مغرب میں دو حصوں میں ایک آزاد اور خودمختار اسلامی ریاست قائم ہوئی۔ پاکستان نے اپنا پہلا آئین 1956ء میں بنایا جو 1958 میں منسوخ کر دیا گیا اس کے بعد 1962 میں پاکستان کا دوسرا آئین پیش کیا گیا جو 1969 میں جزل یحیی خان نے منسوخ کر دیا.
ابوبکر صدیق عبد اللہ بن ابو قحافہ عثمان تیمی قرشی (573ء—634ء) اسلام کے پہلے خلیفہ راشد، عشرہ مبشرہ میں شامل، خاتم النبین محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اولین جانشین، صحابی، خسر اور ہجرت مدینہ کے وقت رفیق سفر تھے۔ اہل سنت و الجماعت کے یہاں ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ انبیا اور رسولوں کے بعد انسانوں میں سب سے بہتر، صحابہ میں ایمان و زہد کے لحاظ سے سب سے برتر اور ام المومنین عائشہ بنت ابوبکر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے محبوب تر تھے۔ عموماً ان کے نام کے ساتھ صدیق کا لقب لگایا جاتا ہے جسے حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی تصدیق و تائید کی بنا پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دیا تھا۔
سانحۂ کربلا یا واقعہ کربلا یا کربلا کی جنگ 10 محرم 61ھ (بمطابق 9 یا 10 اکتوبر، 680ء) کو، موجودہ عراق میں کربلا کے مقام پر پیش آیا۔ یہ جنگ نواسہ رسول حضرت امام حسین ابن علی، ان کے حامیوں اور رشتہ داروں کے ایک چھوٹے سے گروہ، حسین ابن علیؓ کے ساتھ 72 ساتھی، کچھ غلام، 22 اہل بیت کے جوان اور خاندان نبوی کی کچھ خواتین و بچے شامل تھے اور اموی ظالم حکمران یزید اول کی ایک بڑی فوج کے مابین ہوئی۔جس کو حسین ابنِ علی نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔جس میں اموی خلیفہ یزید اول کی فوج نے پیغمبر اسلام محمد کے نواسے حسین ابن علی اور ان کے رفقا کو لڑائی میں شہید کیا، حرم حسین کے خیموں کو لوٹ لیا گیا اور بالآخر آگ لگا دی گئی۔ عمر بن سعد کی فوج نے کربلا کے صحرا میں مقتولین کی لاشیں چھوڑ دیں۔ بنی اسد کے لوگوں نے لاشوں کو تین دن بعد دفن کیا۔ واقعہ کربلا کے بعد، حسین ابن علی کی فوج سے وابستہ متعدد خواتین اور بچوں کو گرفتار کر کے قید کر دیا گیا، بازار اور ہجوم والے مقامات سے گذر کر ان کی توہین کی گئی اور انھیں یزید ابن معاویہ کے دربار شام بھیج دیا گیا تھا۔ جنگ میں شہادت کے بعد حضرت امام حسین کو سید الشہدا کے لقب سے پکارا جاتا ہے۔
خواتین کا عالمی دن ( IWD ) ایک عالمی تعطیل ہے جو ہر سال 8 مارچ کو خواتین کے حقوق کی تحریک میں ایک مرکزی نقطہ کے طور پر منایا جاتا ہے ، جو صنفی مساوات ، تولیدی حقوق اور خواتین کے خلاف تشدد اور بدسلوکی جیسے مسائل پر توجہ دلاتی ہے۔ خواتین کے حق رائے دہی کی عالمگیر تحریک سے حوصلہ افزائی، IWD کی ابتدا 20ویں صدی کے اوائل میں شمالی امریکا اور یورپ میں مزدور تحریکوں سے ہوئی۔ ابتدائی ورژن مبینہ طور پر 28 فروری 1909 کو نیویارک شہر میں سوشلسٹ پارٹی آف امریکہ کے زیر اہتمام "خواتین کا دن" تھا۔ اس نے 1910 کی بین الاقوامی سوشلسٹ خواتین کی کانفرنس میں جرمن مندوبین کو یہ تجویز پیش کرنے کی ترغیب دی کہ "خواتین کا ایک خصوصی دن" ہر سال منعقد کیا جائے، حالانکہ کوئی تاریخ مقرر نہیں ہے۔ اگلے سال یورپ بھر میں خواتین کے عالمی دن کے پہلے مظاہرے اور یاد منائی گئی۔ 1917 میں سوویت روس میں خواتین کو حق رائے دہی حاصل کرنے کے بعد ( فروری انقلاب کا آغاز)، IWD کو 8 مارچ کو قومی تعطیل قرار دیا گیا؛ بعد میں اس تاریخ کو سوشلسٹ تحریک اور کمیونسٹ ممالک نے منایا۔ 1960 کی دہائی کے اواخر میں عالمی حقوق نسواں کی تحریک کے ذریعہ اس کو اپنانے تک اس چھٹی کا تعلق بائیں بازو کی تحریکوں اور حکومتوں سے تھا۔ 1977 میں اقوام متحدہ کی طرف سے اسے اپنانے کے بعد IWD ایک مرکزی دھارے کی عالمی تعطیل بن گیا خواتین کا عالمی دن دنیا بھر میں مختلف طریقوں سے منایا جاتا ہے۔ یہ کئی ممالک میں عوامی تعطیل ہے اور دوسروں میں سماجی یا مقامی طور پر خواتین کی کامیابیوں کو منانے اور فروغ دینے کے لیے منایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ خواتین کے حقوق میں کسی خاص مسئلے، مہم یا موضوع کے سلسلے میں چھٹی کا دن مناتی ہے۔ دنیا کے کچھ حصوں میں، IWD اب بھی اپنے سیاسی ماخذ کی عکاسی کرتا ہے، جس کی نشان دہی مظاہروں اور بنیاد پرست تبدیلی کے مطالبات سے ہوتی ہے۔ دوسرے علاقوں میں، خاص طور پر مغرب میں، یہ زیادہ تر سماجی ثقافتی ہے اور عورت کے جشن پر مرکوز ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس دن کی ضرورت نہیں ہے جبکہ کچھ کا کہنا ہے کہ یہ خواتین کی نمائندگی، مساوی حقوق اور انصاف کی جانب ایک ضروری قدم ہے۔
حضرت عمرو ابن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ (45ق.ھ / 43ھ)ایک صحابی رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تھے۔آپ پیدائشی جرنیل تھے۔ جنگی مہارت، حکمتِ عملی، حُسنِ تدبّر، محاذ پر اچانک اور فوری فیصلوں پر قدرت رکھتے تھے۔ دشمن کی نقل و حرکت، اس کی مکّارانہ چالوں اور نفسیاتی حملوں کو خُوب سمجھتے اور موقع محل کے حساب سے اس کا جواب دینے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ فتحِ مکّہ کے فوری بعد رسول اللہ ﷺ نے مکّہ کے قرب و جوار میں نصب بُتوں کو گرانے کے لیے مختلف صحابہؓ کو منتخب کیا۔ چناں چہ حضرت خالد ؓبن ولید کو’’ عزیٰ‘‘، حضرت سعد بن زیدؓ کو’’منات‘‘ اور حضرت عمروؓ بن العاص کو ’’سواع‘‘ نامی بُت گرانے کی ذمّے داری دی گئی۔ 8ھ میں جنگِ موتہ کے بعد رسول اللہ ﷺ کو اطلاع ملی کہ مدینے سے دس دن کی مسافت پر واقع، وادی القریٰ میں مقیم، قبیلہ قفاء کے مشرکین نے مدینے پر حملے کی تیاری کر لی ہے۔ آنحضرتؐ نے اس مہم کے لیے حضرت عمروؓ بن العاص کو منتخب فرمایا، کیوں کہ اُن کی دادی اسی قبیلے سے تعلق رکھتی تھیں۔ آپؓ تین سو مجاہدین کا لشکر لے کر محاذ پر پہنچے، تو معلوم ہوا کہ مشرکین نے بہت بڑی فوج جمع کی ہوئی ہے۔ آپؓ نے فوری حضور ﷺ کو اطلاع بھجوائی۔ چناں چہ حضرت ابو عبیدہ بن جراحؓ مزید دو سو مجاہدین کی کُمک لے کر پہنچے، جن میں سیّدنا ابوبکرؓ، سیّدنا عُمرؓ سمیت سردارانِ انصار بھی تھے۔ کمک آجانے کے بعد حضرت عمروؓ نے ایک بھرپور حملہ کر کے قفاء کے پورے علاقے کو فتح کر لیا۔ محمد ابنِ اسحاق کا بیان ہے کہ’’ مسلمان، قبیلہ جزام کی سر زمین میں واقع ’’سلسل‘‘ نامی ایک چشمے پر اُترے تھے۔ اسی لیے اس مہم کا نام’’ذات السلال‘‘ پڑ گیا۔‘‘ اس جنگ میں حضرت عمروؓ کی سیاسی بصیرت اور جنگی حکمتِ عملی کے تین اقدامات کو رسول اللہ ﷺ نے بہت سراہا ۔(1) آپؓ راتوں کو سفر کرتے اور دن میں اپنی فوج کو گھاٹیوں میں چُھپا دیا کرتے تاکہ دشمن پر اچانک حملہ آور ہوں۔(2) سخت سردی کے باوجود کسی کو آگ جلانے کی اجازت نہیں دی تاکہ دشمن کو ان کی کم تعداد کا علم نہ ہو سکے۔(3) جنگ جیتنے کے بعد دشمن کے تعاقب سے منع کر دیا تاکہ اَن جان علاقوں میں بھٹک کر مجاہدین کی جانیں تلف نہ ہوں۔عرب کے جنوب میں واقع ریاست، عمّان میں دو مجوسی بھائیوں کی حکومت تھی، جو آگ کی پوجا کیا کرتے تھے۔ فتحِ مکّہ کے بعد رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمروؓ کو ایک خط دے کر عمّان روانہ کیا۔ حضرت عمروؓ خط لے کر دربار میں پہنچے اور اُن کے سامنے نہایت بصیرت افروز تقریر کی۔ اپنے مکارمِ اخلاق، حُسنِ تدّبر، سیاسی بصیرت اور جہدِ مسلسل کے نتیجے میں چند ہی دنوں میں نہ صرف دونوں بھائی مسلمان ہو گئے، بلکہ پوری رعایا بھی مشرف بہ اسلام ہو گئی۔ حضور اکرم ﷺ نے مسرّت کا اظہار فرما کر انھیں عمّان کا امیر مقرّر کر دیا۔ نبی کریم ﷺ کے رحلت فرمانے تک آپؓ عمان کے امیر کی حیثیت سے اسے علم کا گہوارا بنانے میں مصروف رہے۔پھر رسول اللہﷺ کی رحلت کے بعد واپس مدینہ آگئے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے خلیفہ بننے کے بعد حضرت عمروؓ کو بنو قضاء کے مرتدین اور منکرینِ زکوٰۃ کی سرکوبی پر مامور فرمایا، تو آپؓ نے اس معرکے میں بھی کام یابی حاصل کی اور مدینہ تشریف لے آئے۔ حضرت ابوبکرؓ نے انھیں دوبارہ عمّان کا حاکم بنا کر واپس بھیج دیا۔ 12 ہجری میں رومی اور ایرانی حکومتوں نے مسلمان علاقوں پر حملوں کا آغاز کیا، تو حضرت ابوبکرؓ نے انھیں عمّان سے واپس بلا کر مجاہدین کے ایک لشکر کا امیر مقرّر کر کے فلسطین روانہ کر دیا۔ جہاں رومیوں کا ایک لشکر اُن کا منتظر تھا،تاہم آپؓ نے صدیقِ اکبرؓ کو خط لکھ کر مزید کمک منگوا لی۔ جلد ہی حضرت ابو عبیدہ بن جراحؓ، حضرت شرجیل ؓ، حضرت یزید بن ابی سفیانؓ اور حضرت خالد بن ولیدؓ کی قیادت میں اسلامی فوجیں اُن سے آملیں۔ حضرت عمروؓ نے گھمسان کی جنگ میں رومیوں کو شکستِ فاش دی۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے انتقال کے بعد حضرت عُمرؓ خلیفہ بنے، تو انھیں فوج کا سپہ سالار بنا کر مِصر روانہ کر دیا۔ مِصر دنیا بھر میں رومیوں کی پہچان تھا۔ حضرت عمروؓ نے بہترین حکمتِ عملی اور جنگی بصیرت کی بنا پر بہت جلد پورے مِصر پر قبضہ کر لیا۔ اُنھوں نے ایک نیا شہر بسایا، جس کا نام ’’فسطاط‘‘ رکھا۔ امیر المومنین، سیّدنا عُمر فاروقؓ نے’’ فسطاط‘‘ کو مِصر کا دار الحکومت قرار دے کر حضرت عمروؓ بن عاص کو مِصر کا حاکم مقرّر کر دیا۔حضرت عمروؓ بن عاص ہی کے دَور میں یہاں دریائے نیل کے خشک ہونے کا مشہور واقعہ پیش آیا، جو عمر فاروقؓ کا خط ڈالنے کے بعد دوبارہ بہنا شروع ہوا۔حضرت عمروؓ بن عاص نے اپنے دورِ حکومت میں یہاں بہت سی اصلاحات کیں۔ نئے شہر آباد کیے، نہریں کھدوائیں، زراعت کو وسعت دی، مدارس، مساجد، مسافر خانے، سڑکیں، پارک اور باغات بنوائے، جس کی بنا پر مصر خوش حال ممالک میں سرِ فہرست آگیا۔ مصر کے حاکم کی حیثیت سے حضرت عمروؓ نے شہر فسطاط کے قریب دریائے نیل سے بحیرۂ قلزم تک 69 میل لمبی ایک نہر’’نہرِ امیر المومنین ‘‘ تعمیر کروائی۔ سیّدنا فاروق اعظمؓ کی شہادت کے بعد، حضرت عثمان غنیؓ خلیفہ بنے، تو انھوں نے حضرت عمروؓ بن العاص کو بدستور مِصر کے حاکم کی حیثیت سے برقرار رکھا، بلکہ انھیں دفاع اور خزانے کے محکمے بھی دے دیے۔حضرت عمروؓ بن العاص نے اپنی زندگی کا بڑا حصّہ میدانِ جنگ میں گزارا۔ 34ھ میں حضرت امیر معاویہؓ کے دورِ خلافت میں یمن، عراق، شام، فلسطین اور مِصر کے فاتح اور ملّتِ اسلامیہ کے یہ عظیم جرنیل کہ’’جن کے نام سے لرزتے تھے قیصر و کسریٰ‘‘ اس دارِ فانی سے رخصت ہوئے گئے۔
موسیٰ علیہ السلام اللہ کے برگزیدہ پیغمبروں میں سے ایک ہیں۔ آپ کے بھائی ہارون علیہ السلام بھی اللہ کے برگزیدہ نبیوں میں سے ایک ہیں۔یہ 1520 قبلِ مسیح کی بات ہے۔ مِصر پر فرعون بادشاہ’’مرنفتاح ثانی‘‘ کی حکومت تھی۔بعض نے اُس کا نام’’ منفتاح‘‘ بھی لکھا ہے اور وہ والد، رعمسیس کے بڑھاپے کی وجہ سے عملاً حکم ران بنا ہوا تھا۔ خدائی کا دعوے دار یہ بادشاہ بڑا ظالم و جابر تھا۔ اُس نے’’ بنی اسرائیل‘‘ کو اپنا غلام بنا رکھا تھا، حالاں کہ وہ حضرت یوسف کے زمانے سے وہاں رہائش پزیر تھے۔ حضرت یوسفؑ نے اپنے والد، حضرت یعقوبؑ اور اپنے بھائیوں کے لیے ایک قطعۂ زمین اُس وقت کے فرعون بادشاہ ’’ریان بن ولید‘‘ سے حاصل کیا تھا۔ حضرت یعقوبؑ کی یہی نسل’’بنی اسرائیل‘‘ کہلائی، جو مِصر میں خُوب پَھلی پُھولی۔ یہ لوگ حضرت یعقوبؑ کے دین کے پیروکار تھے، چناں چہ اُس وقت اللہ کے نزدیک یہ سب سے بہتر جماعت تھی۔ انھوں نے فرعون کو سجدہ کرنے اور اُسے اپنا ربّ ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ اسی وجہ سے بادشاہ اور اُس کے حواری ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھاتے اور اُن سے گھٹیا کام کرواتے۔ یاد رہے، فرعون کسی خاص شخص کا نام نہیں، بلکہ مِصر کے بادشاہوں کا لقب تھا۔ تاریخی حقائق کے مطابق، 31فراعنہ خاندانوں نے مِصر پر یکے بعد دیگرے حکومت کی۔ سب سے آخری خاندان نے 332قبلِ مسیح میں سکندرِ اعظم کے ہاتھوں شکست کھائی۔
اردو زبان میں سینتیس حروفِ تہجی اور سینتالیس آوازیں ہیں جن میں سے بیشتر عربی سے لیے گئے ہیں اور دیگر انہی کی مختلف شکلیں ہیں۔ کچھ حروف کئی طریقوں سے استعمال ہوتے ہیں اور کچھ مخلوط حروف بھی استعمال ہوتے ہیں جو دو حروف سے مل کر بنتے ہیں۔ بعض لوگ 'ء' کو الگ حرف نہیں مانتے مگر پرانی اردو کتب اور لغات میں اسے الگ حرف کے طور پر لکھا جاتا ہے۔ مختلف الفاظ میں یہ الگ حرف کے طور پر ہی استعمال ہوتا ہے مثلاً 'دائرہ'۔ یہ بات مدِنظر رکھنا ضروری ہے کہ اردو تختی اور اردو حروف دو مختلف چیزیں ہیں کیونکہ اردو تختی میں اردو حروفِ تہجی کی کئی اشکال ہو سکتی ہیں جن کو الگ حرف کا درجہ نہیں دیا جا سکتا بلکہ وہ ایک ہی حرف کی مختلف شکلیں ہیں۔ مثلاً نون غنہ نون کی شکل ہے اور 'ھ' اور 'ہ' ایک ہی حرف کی مختلف اشکال ہیں۔ ایک اور مثال الف ممدودہ (آ) اور الف مقصورہ (ا) کی ہے جو اردو تختی میں الگ ہیں مگر اردو کا ایک ہی حرف شمار ہوتے ہیں۔
رموز اوقاف (انگریزی: Punctuation) وہ علامتیں اور نشانیاں ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ عبارت میں کس جگہ اور کس طرح وقف کرنا ہے۔ رموز، رمز کی جمع ہے جس کا مطلب ہے علامت یا اشارہ جبکہ اوقاف، وقف کی جمع ہے جس کے معنی ٹھہرنے یا رکنے کے ہیں، یعنی رموز اقاف یا علامات وقف اُن اشاروں یا علامتوں کو کہتے ہیں جو کسی عبارت کے ایک جملے کے ایک حصے کو اس کے باقی حصوں سے علاحدہ کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ اردو، انگریزی یا دوسری زبانوں کے قواعد میں ان اوقاف اور علامات کو بہت اہمیت حاصل ہے اگر ان کا خیال نہ رکھا جائے تو مفہوم کچھ سے کچھ بلکہ بعض اوقات تو اس کے بالکل اُلٹ ہو جاتا ہے جہاں ٹھہرنا یا وقفہ کرنا ہو ان کے لیے اردو میں درج ذیل رموز اوقاف استعمال ہوتے ہیں۔ ختمہ (۔)، سوالیہ (؟)، سکتہ (،) تفصیلہ (:_)، قوسین () واوین (” “) ندائیہ یا فجائیہ (!) علامت شعر(؎) علامت مصرع (؏) علامت وغیرہ۔
احمد خان متقی بن محمد متقی (17 اکتوبر 1817ء – 27 مارچ 1898ء) المعروف سر سید، سر سید احمد خان انیسویں صدی کے ایک ہندوستانی مسلم نظریۂ عملیت کے حامل ، مصلح اور فلسفی تھے۔ ان کو برصغیر میں مسلم قوم پرستی کا سرخیل مانا جاتا ہے اور دو قومی نظریہ کا خالق تصور کیا جاتا ہے، جو آگے چل کر تحریک پاکستان کی بنیاد بنا۔
مکیش دھیرو بھائی امبانی (پیدائش 19 اپریل 1957ء) بھارت کے ایک ارب پتی تاجر اور ریلائنس انڈسٹریز کے چیئرمین اور منیجنگ ڈائریکٹر ہیں، جو قدر و قیمت کے لحاظ سے بھارت کی سب سے بڑی کمپنی ہے۔ مارچ 2024ء تک فوربس کے مطابق 117.8 بلین ڈالر کی تخمینی مالیت کے ساتھ، وہ ایشیا کے امیر ترین شخص اور دنیا کے 9ویں امیر ترین شخص ہیں۔ کبھی کبھی ایک پلوٹوکریٹ کے طور پر خصوصیات؛ اس نے بازار میں ہیرا پھیری، سیاسی بدعنوانی اور استحصال کی خبروں کے لیے شہرت اور بدنامی دونوں کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔
نجم الدولہ، دبیر الملک، مرزا نوشہ اسد اللہ خان غالب بہادر نظام جنگ (1797ء- 1869ء) اردو زبان کے سب سے بڑے شاعروں میں ایک سمجھے جاتے ہیں۔ یہ تسلیم شدہ بات ہے کہ 19 ویں صدی غالب کی صدی ہے۔ جبکہ 18 ویں میر تقی میر کی تھی اور 20 ویں علامہ اقبال کی۔ غالب کی عظمت کا راز صرف ان کی شاعری کے حسن اور بیان کی خوبی ہی میں نہیں ہے۔ ان کا اصل کمال یہ ہے کہ وہ زندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کو گہرائی میں جا کر سمجھتے تھے اور بڑی سادگی سے عام لوگوں کے لیے بیان کر دیتے تھے۔ غالب جس پر آشوب دور میں پیدا ہوئے اس میں انھوں نے مسلمانوں کی ایک عظیم سلطنت کو برباد ہوتے ہوئے اور باہر سے آئی ہوئی انگریز قوم کو ملک کے اقتدار پر چھاتے ہوئے دیکھا۔ غالباً یہی وہ پس منظر ہے جس نے ان کی نظر میں گہرائی اور فکر میں وسعت پیدا کی۔
سعودی عرب یا سعودی عربیہ (رسمی نام : المملكة سعودیہ العربیہ) مغربی ایشیا کا ایک ملک ہے۔ یہ جزیرہ نما عرب کے بڑے حصے پر محیط ہے، جو اسے ایشیا کا پانچواں سب سے بڑا، عرب دنیا کا دوسرا سب سے بڑا اور مغربی ایشیا اور مشرق وسطی کا سب سے بڑا ملک بناتا ہے۔ اس کی سرحد مغرب میں بحیرہ احمر سے ملتی ہے۔ شمال میں اردن، عراق اور کویت؛ مشرق میں خلیج فارس، قطر اور متحدہ عرب امارات؛ جنوب مشرق میں عمان؛ اور جنوب میں یمن۔ بحرین مشرقی ساحل سے دور ایک جزیرہ نما ملک ہے۔ شمال مغرب میں خلیج عقبہ سعودی عرب کو مصر اور اسرائیل سے الگ کرتی ہے۔ سعودی عرب واحد ملک ہے جس کے پاس بحیرہ احمر اور خلیج فارس دونوں کے ساتھ ساحل ہے اور اس کا زیادہ تر علاقہ خشک صحرا، نشیبی، میدان اور پہاڑوں پر مشتمل ہے۔ اس کا دار الحکومت اور سب سے بڑا شہر ریاض ہے۔ یہ ملک مکہ اور مدینہ کا گھر ہے، جو اسلام کے دو مقدس ترین شہر ہیں۔قبل از اسلام کا جزیرہ نما عرب، وہ علاقہ جس پر موجودہ سعودی عرب مشتمل ہے، کئی قدیم ثقافتوں اور تہذیبوں کا مقام تھا۔ سعودی عرب میں قبل از تاریخ انسانی سرگرمیوں کے کچھ ے ابتدائی نشانات پائے جاتے ہیں۔ دین اسلام چھٹی صدی عیسوی (571ء) میں ابھر کر سامنے آیا اور جزیرہ نما عرب کے ساتھ ساتھ ایشیا اور افریقہ کے بڑے حصے پر پھیل گیا۔
موہن داس کرم چند گاندھی (گجراتی: મોહનદાસ કરમચંદ ગાંધી؛ ہندی: मोहनदास करमचंद गांधी؛ انگریزی: Mohandas Karamchand Gandhi؛ 2 اکتوبر، 1869ء تا 30 جنوری 1948ء) بھارت کے سیاسی اور روحانی رہنما اور آزادی کی تحریک کے اہم ترین کردار تھے۔ انھوں نے ستیہ گرہ اور اہنسا (عدم تشدد) کو اپنا ہتھیار بنایا۔ ستیہ گرہ، ظلم کے خلاف عوامی سطح پر منظم سول نافرمانی ہے جو عدم تشدد پر مبنی ہے۔ یہ طریقئہ کار ہندوستان کی آزادی کی وجہ بنی۔ اور ساری دنیا کے لیے حقوق انسانی اور آزادی کی تحاریک کے لیے روح رواں ثابت ہوئی۔ بھارت میں انھیں احترام سے مہاتما گاندھی اور باپو کہا جاتا ہے۔ بھارت میں وہبابائے قوم(راشٹر پتا) کے نام سے بھی مشہور ہیں۔ گاندھی کی یوم پیدائش (گاندھی جینتی) بھارت میں قومی تعطیل کا درجہ رکھتا ہے ا ور دنیا بھر میں یوم عدم تشدد کی طور پر منایا جاتا ہے۔ 30 جنوری، 1948ء کو ایک ہندو قوم پرست نتھو رام گوڈسے نے ان کا قتل کر دیا۔جنوبی افریقا میں وکالت کے دوران میں گاندھی جی نے رہائشی ہندوستانی باشندوں کے شہری حقوق کی جدوجہد کے لیے شہری نافرمانی کا استعمال پہلی بار کیا۔ 1915ء میں ہندوستان واپسی کے بعد، انھوں نے کسانوں اور شہری مزدوردں کے ساتھ بے تحاشہ زمین کی چنگی اور تعصب کے خلاف احتجاج کیا۔ 1921ء میں انڈین نیشنل کانگریس کی قیادت سنبھالنے کے بعد، گاندھی ملک سے غربت کم کرنے، خواتین کے حقوق کو بڑھانے، مذہبی اور نسلی خیرسگالی، چھواچھوت کے خاتمہ اور معاشی خود انحصاری کا درس بڑھانے کی مہم کی قیادت کی۔ انھوں نے بھارت کوغیر ملکی تسلّط سے آزاد کرانے کے لیے سوراج کا عزم کیا۔ گاندھی نے مشہور عدم تعاون تحریک کی قیادت کی۔ جو 1930ء میں مارچ سے برطانوی حکومت کی طرف سے عائد نمک چنگی کی مخالفت میں 400 کلومیٹر (240 میل) لمبی دانڈی نمک احتجاج سے شروع ہوئی۔ اس کے بعد 1942ء میں انھوں نے بھارت چھوڑو شہری نافرمانی تحریک کا آغاز فوری طور پر آزادی کا مطالبہ کے ساتھ کیا۔ گاندھی دونوں جگہ جنوبی افریقا اور بھارت میں کئی سال قید میں گزارے۔
طارق جمیل (معروف بہ مولانا طارق جمیل) ایک پاکستانی مبلغ اور عالمِ دین ہیں۔ اُن کا تعلق خانیوال، صوبہ پنجاب کے شہر تلمبہ سے ہے جو میاں چنوں کے قریب واقع ہے۔ وہ تبلیغی جماعت کے رکن ہیں اور فیصل آباد، پاکستان میں ایک مدرسہ چلاتے ہیں۔ اُن کی تبلیغی کوششوں کے باعث بہت سے گلوکار، اداکار اور کھلاڑی دینِ اسلام کی طرف راغب ہوئے۔
بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (BISP) پاکستان میں غربت میں کمی کا ایک وفاقی غیر مشروط نقد رقم کی منتقلی کا پروگرام ہے۔ جولائی 2008 میں شروع کیا گیا، یہ پروگرام ملک کا سب سے بڑا واحد سوشل سیفٹی نیٹ پروگرام ہے۔ 90 بلین ($900 ملین) 2016 میں 5.4 ملین مستحقین کو تقسیم کیے گئے اس پروگرام نے 19,338 روپے (یا تقریباً $195) سالانہ تقسیم کیے جو سال 2016 میں ہر ماہ تقسیم کیے گئے تھے وظیفہ کنزیومر پرائس انڈیکس سے منسلک ہے اور اسے سمارٹ کارڈ کے ذریعے ادا کیا جاتا ہے۔ متحدہ ریاست برطانیہ کا محکمہ برائے بین الاقوامی ترقی اس پروگرام کا سب سے بڑا غیر ملکی حمایتی ہے، جو 2016 میں کل فنڈز کا 244 ملین ڈالر (یا 27%) فراہم کرتا ہے اور باقی رقم پاکستانی حکومت فراہم کرتی ہے۔ 2020 تک، BISP کو پاکستان میں سماجی بہبود کے سب سے بڑے پروگرام کے طور پر احساس پروگرام سے پیچھے چھوڑ دیا گیا۔ ایک علاحدہ وزارت غربت کے خاتمے اور سماجی تحفظ (PASS) قائم کی گئی اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو غربت کے خاتمے اور سماجی تحفظ کے ڈویژن کا حصہ بنایا گیا۔
شرح سود (interest rate) سے مراد قرض کی رقم کا کرایہ ہے جو قرض لینے والا ایک مقررہ مدت کے بعد قرض دینے والے کو بطور سود ادا کرنے کا پابند ہوتا ہے۔ اسے عام طور پر فیصد میں بیان کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر شرح سود دس فیصد سالانہ ہے تو قرض لینے والے کو ہر سو روپے کے قرض پر ایک سال بعد دس روپیہ قرض دینے والے کو سود ادا کرنا پڑے گا۔ اس کے بعد اگر قرض لینے والا اصل رقم (Principal) بھی واپس ادا کر سکے تو قرض کا معاہدہ ختم ہو جاتا ہے اور وہ مزید سود ادا کرنے سے آزاد ہو جاتا ہے۔
مذکر: نر اسم ہوتا ہے جیسےمرد، باپ، بیل، بیٹا جبکہ مونث: مادہ اسم ہوتا ہے جیسے عورت، ماں، گائے، بیٹی بے جان اسماء میں نر اور مادہ کا کوئی فرق نہیں ہوتا اس لیے ان کی تذکیر و تانیث کا تمام تر درارومدار اہل زبان پر ہوتا ہے جیسے قلم کو اہل زبان مذکر بولتے ہیں اور گیند کو مونث اسی لیے ایسے اسماء کی تذکیر و تانیث کو غیر حقیقی تذکیر و تانیث کہا جاتا ہے۔ جبکہ حقیقی تذکیر و تانیث وہ ہوتی ہے جس میں نر کے مقابلے میں مادہ اور مادہ کے مقابلے میں نر ہو جانداروں میں کیوں کہ قدرتی طور پر نر اور مادہ کا فرق موجود ہوتا ہے اس لیے اس لیے ان کی تذکیرو تانیث حقیقی ہوتی ہے جیسے مرد، عورت۔ بیل، گائے وغیرہ
فاطمہ بنت محمد بن عبد اللہ جن کا معروف نام فاطمۃ الزہراء ہے حضرت محمد بن عبد اللہ اور خدیجہ بنت خویلد کی بیٹی تھیں۔ تمام مسلمانوں کے نزدیک آپ ایک برگزیدہ ہستی ہیں۔۔ آپ کی ولادت 20 جمادی الثانی بروز جمعہ بعثت کے پانچویں سال میں مکہ میں ہوئی۔ آپ کی شادی علی ابن ابی طالب سے ہوئی جن سے آپ کے دو بیٹے حسن اور حسین اور دو بیٹیاں زینب اور ام کلثوم پیدا ہوئیں۔ آپ کی وفات اپنے والد حضرت محمد بن عبد اللہ کی وفات کے کچھ ماہ بعد 632ء میں ہوئی۔ آپ کے بہت سے القابات مشہور ہیں۔
'مرزا اسد اللہ خان غالب' کی شخصیت کو کون نہیں جانتا۔ ہمارے ملک میں تو یہ عالم ہے کہ اگر کسی کو تھوڑی بہت اردو کی سوجھ بوجھ ہے تو غالب کے نام کو تو ضرور جانتا ہوگا۔ بحیثیتِ شاعر وہ اتنے مقبول ہیں کہ اُن کے اشعار زبان زدِ خلائق ہیں۔ اور بحیثیتِ نثر نگار بھی وہ کسی سے کم نہیں۔ بلکہ اس لحاظ سے ان کا پایہ سب سے بلند ہے کہ ایسے زمانے میں جب رنگینی و قافیہ پیمائی، انشا پردازی کا اصل سرمایہ سمجھی جاتی تھی ، انھوں نے نثر میں بھی ایک نئی راہ نکالی ۔ سادہ و پرکار، حسین و رنگین۔ یہی نمونۂ نثر آنے والوں کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوئے۔
محمد علی جناح پیدائشی نام، محمد علی جناح بھائی، 25 دسمبر 1876ء – 11 ستمبر 1948ء) کے نامور وکیل، سیاست دان اور بانی پاکستان تھے۔ محمد علی جناح 1913ء سے لے کر پاکستان کی آزادی 14 اگست 1947ء تک آل انڈیا مسلم لیگ کے سربراہ رہے، پھر قیام پاکستان کے بعد اپنی وفات تک، وہ ملک کے پہلے گورنر جنرل رہے۔ سرکاری طور پر پاکستان میں آپ کو قائدِ اعظم یعنی سب سے عظیم رہبر اور بابائے قوم یعنی قوم کا باپ بھی کہا جاتا ہے۔ جناح کا یومِ پیدائش پاکستان میں قومی تعطیل کے طور پر منایا جاتا ہے۔کراچی کے پیدائشی اور لنکن ان سے بیرسٹری کی تربیت حاصل کرنے والے جناح، بیسویں صدی کے ابتدائی دو عشروں میں آل انڈیا کانگریس کے اہم رہنما کے طور پر ابھرے۔ اپنی سیاست کے ابتدائی ادوار میں انھوں نے ہندو مسلم اتحاد کے لیے کام کیا۔ 1916ء میں آل انڈیا مسلم لیگ اور آل انڈیا کانگریس کے مابین ہونے والے میثاق لکھنؤ کو مرتب کرنے میں بھی انھوں نے اہم کردار ادا کیا۔ جناح آل انڈیا ہوم رول لیگ کے اہم رہنماوں میں سے تھے، انھوں نے چودہ نکات بھی پیش کیے، جن کا مقصد ہندوستان کے مسلمانوں کے سیاسی حقوق کا تحفظ کرنا تھا۔ بہر کیف جناح 1920ء میں آل انڈیا کانگریس سے مستعفی ہو گئے، جس کی وجہ آل انڈیا کانگریس کے موہن داس گاندھی کی قیادت میں ستیاگرا کی مہم چلانے کا فیصلہ تھا۔1940ء تک جناح کو یہ یقین ہو چلا تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک علاحدہ وطن کی جدوجہد کرنی چاہیے۔ اسی سال، مسلم لیگ نے جناح کی قیادت میں قرارداد پاکستان منظور کی جس کا مقصد نئی مملکت کی قیام کا مطالبہ تھا۔دوسری جنگ عظیم کے دوران، آل انڈیا مسلم لیگ نے مضبوطی پکڑلی جبکہ ان ادوار میں کانگریس کے کئی رہنما قید کاٹ رہے تھے اور جنگ کے ختم ہونے کے مختصر عرصے میں ہی انتخابات کا انعقاد ہوا، جس میں جناح کی جماعت نے مسلمانوں کے لیے مختص نشستوں میں سے بڑی تعداد جیت لی۔ اس کے بعد آل انڈیا کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ متحدہ ہندوستان میں اختیارات کے توازن کے لیے کسی صیغے پر متفق نہ ہو سکے نتیجتاً تمام جماعتیں اس امر پر متفق ہوگئیں کہ ہندوستان کے دو حصے کیے جائیں جن میں ایک مسلم اکثریتی علاقوں میں پاکستان جبکہ باقی ماندہ علاقوں میں بھارت کا قیام ہو۔پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کے طور پر جناح نے اپنی حکومتی پالیسیوں کے قیام کے لیے کام کیا نیز انھوں نے ان لاکھوں لوگوں کے بہبود اور آباد کاری کے لیے بھی کام کیا جو تقسیم ہند کے بعد پاکستان کی جانب ہجرت کر چلے تھے، انھوں نے ان مہاجر کیمپوں کی ذاتی طور پر دیکھ بھال کی۔ جناح 71 سال کے عمر میں انتقال کر گئے جبکہ ان کے نوزائیدہ ملک کو سلطنت برطانیہ سے آزاد ہوئے محض ایک سال کا عرصہ ہوا تھا۔ ان کی سوانح عمری لکھنے والے لکھاری،اسٹینلی وولپرٹ لکھتے ہیں کہ، وہ (یعنی جناح) پاکستان کے عظیم ترین رہنما رہیں گے۔
اللہ کے ذاتی نام 'اللہ' کے علاوہ اللہ کے ننانوے صفاتی نام مشہور ہیں۔ انھیں کہا جاتا ہے۔ ان میں سے بیشتر قرآن میں موجود ہیں اگرچہ قرآن میں ننانوے کی تعداد مذکور نہیں مگر یہ ارشاد ہے کہ اللہ کو اچھے اچھے ناموں سے پکارا جائے۔ روایات میں بکثرت نیچے دیے گئے ننانوے صفاتی نام ملتے ہیں جن کے ساتھ ان کا اردو ترجمہ بھی درج کیا جا رہا ہے۔
علمِ ہندسہ و مثلثیات میں، وہ شکل جو دو اضلاع کا ایک ہی نقطہ پر ملنے سے بنتی ہے، زاویہ کہلاتی ہے۔ جو ایک دوسرے کو قطع کرنے والے دو خط مستقیم کے مقام اتصال پر کا کانا یا کونے۔ زاویے کی پیمائش اس دائرے کے محیطی درجوں میں ہوتی ہے۔ جس کا مرکز زاویے کا اسی نقطہ ہو۔ اگر کسی دائرے کے محیط کو 360ء برابر حصوں میں تقسیم کیا جائے اور نقاط تقسیم مرکز سے ملا دیے جائیں تو دائرے کا وہ رقبہ جو متصلہ خطوط کے درمیان واقع ہوگا ایک درجہ رقبہ کہلائے گا اور جو کونا راس پر بنے گا وہ ایک درجے کا زاویہ کہلائے گا۔ اس طرح سے کل چکر میں 360 درجے ہوتے ہیں۔ اس کو 360 درجوں میں اس لیے تقسیم کیا گیا ہیں کیونکہ 360 بہت زیادہ اعداد پر تقسیم ہوتا ہے جن میں 2,3،4,5،6,8،9,10,12,15,18,20,24,30,36 اور 40 وغیرہ شامل ہیں تا کہ حساب کتاب کرتے وقت اسانی ہو اور زیادہ ہندسے اعشاریوں کی شکل میں نہ ائے-اب اگر کسی اور کونے کی پیمائش مطلوب ہو تو دیکھ لیا جاتا ہے کہ اس میں کتنے درجے ہیں اس بات کا اندازہ کرنے کے لیے ایک آلہ استعمال کیا جاتا ہے جس کو پروٹریکٹر کہتے ہیں۔ یہ لکڑی، دھات یا پلاسٹک وغیرہ کا ایک نصف دائرہ ہوتا ہے جس پر درجوں اور ان کے کسور کے نشانات لگے ہوتے ہیں جو گھڑی کی سوئیوں کی حرکت کے رخ اور نیز اس کے الٹ ہوتے ہیں۔ تاکہ جس بھی زاویے کا رخ ہو اس کی پیمائش ہو سکے۔
اسلامی جمہوریۂ ایران (عرف عام: ایران، سابق نام: فارس، موجودہ فارسی نام: جمهوری اسلامی ایران) جنوب مغربی ایشیا کا ایک ملک ہے، جو مشرق وسطی میں واقع ہے۔ ایران کی سرحدیں شمال میں آرمینیا، آذربائیجان اور ترکمانستان، مشرق میں پاکستان اور افغانستان اور مغرب میں ترکی اور عراق (کردستان علاقہ) سے ملتی ہیں۔ مزید برآں خلیج فارس اور خلیج عمان واقع ہیں۔
حضرت آدم علیہ السلام ، اللہ کے اولین پیغمبر ہیں۔ ابوالبشر (انسان کا باپ) اور صفی اللہ (خدا کا برگزیدہ) لقب۔ آپ کے زمانے کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔تمام آسمانی کتابوں کے ماننے والوں کاعقیدہ ہے کہ اس رُوئے زمین پر اللہ جل شانہ‘نے حضرت آدم علیہ السلام کو تخلیق کیا۔حضرت آدم ؑ کی پیدائش کا احوال کچھ یوں ہے :اللہ تعالی نے تمام زمین سے ایک مٹھی مٹی لے کر آدم علیہ السلام کو بنایا۔اس لیے زمین کے لحاظ سے لوگ سرخ ،سفید ، سیاہ اور درمیانے درجے میں ،اسی طرح اچھے ،برے ، نرم اور سخت طبیعت والے اور کچھ درمیانے درجے کے پیدا ہوئے(روایت : حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ )۔ اللہ تعالی نے جبریل علیہ السلام کو زمین میں مٹی لانے کے لیے بھیجا تو زمین نے عرض کی کہ میں تجھ سے اللہ کی پناہ میں آتی ہوں کہ تو مجھ سے کوئی کمی کرے یا مجھے عیب ناک کر دے تو وہ مٹی لیے بغیر ہی واپس چلے گئے اور عرض کی :اے اللہ!اس نے تیری پناہ میں آنے کی درخواست کی تو میں نے اس کو پناہ دے دی۔ اللہ تعالیٰ نے پھر حضرت میکائل کو بھیجا ،زمین نے اس سے بھی پناہ مانگی تو اس نے بھی پناہ دے دی اور حضرت جبریل کی طرح واقعہ بتا دیا پھر اللہ نے موت کے فرشتوں کو بھیجا۔زمین نے اس سے بھی پناہ مانگی تو اس نے کہا میں اس سے اللہ کی پناہ میں آتا ہوں کہ میں اللہ کے حکم کی تعمیل کیے بغیر واپس چلا جاؤں اور اس سے مختلف جگہوں سے سرخ ،سیاہ اور سفید مٹی اکٹھی کی جس کی بنا پر آدم علیہ السلام کی اولاد بھی مختلف رنگوں والی ہے ۔( روایت سدی رحمۃ اللہ بحوالہ ابن عباسؓ وابن مسعودؓ )وہ مٹی لے کرعرش پر چلے گئے اور اس کو پانی کے ساتھ تر کیا۔پانی سے تر کرنے سے وہ چپکنے والی لیس دار مٹی بن گئی۔ اس پر باری تعالیٰ نے فرشتوں کو فرمایا :میں مٹی سے انسان بنانے والا ہوں۔جب میں اس کو اچھی طرح بنا لوں اور اس میں اپنی پیدا کردہ روح ڈال دوں تو اس کے لیے سجدہ کرتے ہوئے گر جانا۔اللہ تعالی ٰنے علم کے ساتھ آدم علیہ السلام کا ان پر شرف اور مرتبہ واضح کیا۔حضرت ابن عباسؓ نے کہا ان سے مراد وہی نام ہیں جو لوگوں کے ہاں مشہور و معروف ہیں۔انسان ، جانور ، زمین ، سمندر ، پہاڑ ، اونٹ ، گدھا وغیرہ۔مجاہد نے کہا :پیالہ اور ہنڈیا وغیرہ کے نا م سکھائے،حتی کہ پھسکی اور گوز کا نام بھی بتا یا۔ مجاہد نے مزید کہا:ہر جانور ،پرند ، چرند اور ہر ضرورت کی ہر چیز کے نام سکھائے۔سعید بن جبیر ، قتادہ وغیرہ نے بھی اسی طرح کہا ہے۔الربیع نے کہا:فرشتوں کے نام سکھائے۔عبد الرحمن بن زید نے کہا :ان کی اولاد کے نام سکھائے۔اللہ نے آدم علیہ السلام کو ہر چھوٹی اور بڑی چیز اور ان کے افعال کے نام سکھائے ۔ حضرت انس بن مالکؓ نے رسول اللہﷺ سے روایت کرتے ہوئے فرمایا :قیامت کے دن ایمان والے اکٹھے ہوں گے اور کہیں گے کاش ہم اپنے رب کے پاس سفارش کرنے والا طلب کریں ،پھر وہ آدم کے پاس آئیں گے اور کہیں گے اے آدم!
ابراہیم علیہ السلام وہ پہلے پیغمبر تھے جن کو اللہ نے مُسلمان نبی پیغمبر ابو الانبیاء، خلیل اللہ امام الناس اور حنیف کہہ کر پُکارا۔اللہ تعالی نے اپنے اس دوست برگزیدہ اور پیارے نبی کو قرآن مجید میں امتہ (النحل : 120) امام الناس (البقرہ: 124) حنیف اور مسلم (آل عمران: 67) کے ناموں سے بار بار بار کیا ہے۔ اکثر انبیائے کرام انہی کی اولاد سے ہیں۔ابراہیم علیہ السلام کے نام کی وجہ تسمیہ کے بارے میں بائبل کا بیان ہے کہ خدا تعالی ان سے مخاطب ہو کر کہتا ہے۔ دیکھ میرا عہد تیرے ساتھ ہے اور تو بہت قوموں کا باپ ہو گا۔ اور تیرا نام ابرام نہیں بلکہ ابراہام ہو گا۔ کیونکہ میں نے تجھے قوموں کا باپ بنایا ہے۔ (پیدائش 170:5)اکثر ماہرین کے نزدیک ابراہام یا ابراہیم ؑ بھی لفظ ہے۔ ہو سکتا ہے کہ پہلے آپ کا نام ابراہم ہو اور پھر ابراہام یا ابو رہام ہو گیا ہو۔مُسلمان اُن کو خلیل اللہ (اللہ کا دوست) کہتے ہیں۔ ابراہیم کی نسل سے کئی پیغمبر پیدا ہوئے، جن کا تذکرہ عہدنامہ قدیم میں ہے۔ اسلام کی کتاب قرآن مجید میں بھی بہت سارے ایسے انبیا کا ذکر ہے جو ابراہیم کی نسل میں سے تھے۔ اسلام کے آخری نبی مُحمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی ابراہیم کی نسل میں سے ہیں۔شرک، ستارہ پرستی اور بت سازی کے خلاف اپنی قوم اور اوروں کے ساتھ ان کا مجادلہ و محاجہ بڑے زور سے پیش کیا گیا ہے۔ ابراہیم کا بچپن میں ہی رشد عطا کیا گیا اور قلب سلیم بھی عنایت فرمایا گیا۔ تکوینی عجائبات اور ملکوت السمٰوت والارض ان کے سامنے تھے۔ انھیں کے مشاہدے سے اُن کو یقین کامل حاصل ہوا۔ بت پرستی کے خلاف ابراہیم کے جہاد کا ذکر بھی قران کریم میں کئی بار آیا ہے۔قرآن حکیم میں حضرت ابراہیم ؑ اور آذر کے اختلاف عقائد کو جس طرح نمایاں کیا گیا ہے اور جس طرح آپ اپنی قوم کے شرک سے متنفر اور متصادم ہوئے۔ اس سے ہم آپ کی عظمت و جلالت کی حقیقت کو بھی پاسکتے ہیں۔ اور اپنے لیے شمع ہدایت بھی روشن کر سکتے ہیں۔ اس وجہ سے مسلمانوں کو ملت براہیمی ہونے پر فخر ہے۔ ان کے بارے میں یہ توکہیں وضاحت نہیں ہوئی کہ کیا وحی ان پر نازل ہوئی تھی یا ان کی بعثت محض روحانی تھی؟ البتہ قرآن مجید میں ایک جگہ اس امر کی تصدیق ہوئی ہے کہ اللہ تعالی آپ سے ہمکلام تھا۔ اہل تاریخ کے نزدیک متعدد صحیفے تھے جو ابراہیم پر نازل ہوئے۔ ایک صحیفہ جو ان کی طرف سے منسوب ہے یونانی سے انگریزی میں ترجمہ ہو کر شائع ہو چکا ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ کے دین کے بارے میں قرآن مجید میں کئی جگہ پر ارشار ہوتا ہے کہ آپ موحد مسلم اورراست رو تھے۔ ارشاد ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے: ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ”پھر ہم نے تیری طرف (حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی طرف) وحی کی کہ ابراہیم ؑ راست رو (مسلم) کے دین پر چل اور وہ مشرکوں میں سے نہیں تھا “ اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے: يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تُحَآجُّونَ فِي إِبْرَاهِيمَ وَمَا أُنزِلَتِ التَّورَاةُ وَالإنجِيلُ إِلاَّ مِن بَعْدِهِ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ هَاأَنتُمْ هَؤُلاء حَاجَجْتُمْ فِيمَا لَكُم بِهِ عِلمٌ فَلِمَ تُحَآجُّونَ فِيمَا لَيْسَ لَكُم بِهِ عِلْمٌ وَاللّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ مَا كَانَ إِبْرَاهِيمُ يَهُودِيًّا وَلاَ نَصْرَانِيًّا وَلَكِن كَانَ حَنِيفًا مُّسْلِمًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْرَاهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ وَهَـذَا النَّبِيُّ وَالَّذِينَ آمَنُواْ وَاللّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ ”اے اہل کتاب! تم ابراہیم ؑ کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو۔ حالانکہ توریت اور انجیل اس کے بعد ہی اتاری گئیں۔ پھر کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے۔ سنو! تم وہ ہو جو اس میں جھگڑ چکے، جس کا تمھیں علم تھا پھر اس میں کیوں جھگڑتے ہو جس کا میں علم نہیں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ ابراہیم ؑ نہ یہودی تھا اور نہ عیسائی، لیکن وہ راست رو اور فرماں بردار (مسلم اور حنیف) تھا اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھا۔ يقينا ابراہیم ؑ کے بہت نزدیک وہ لوگ ہیں جنھوں نے اس کی پیروی کی اور یہ نبی اور وہ جو اس پہ ایمان لائے اورالله مومنوں کا ولی ہے۔ قرآن مجید کی تقریباً بائیس سورتوں میں حضرت ابراہیم ؑ کا ذکر آتا ہے۔ آپ مسلمانوں کے رسول مقبول حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے جد امجد ہیں۔ گویا مسلمان نہ صرف امت محمدیہ سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ امت براہیمیہ سے بھی متعلق ہیں۔ مسلمان حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ حضرت ابراہیم ؑ اور ان کی اولاد پر بھی درود بھیجتے ہیں- Book Name: Sahih Muslim, Hadees # 6138 حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، وَابْنُ فُضَيْلٍ، عَنِ الْمُخْتَارِ، ح وحَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ السَّعْدِيُّ - وَاللَّفْظُ لَهُ -، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، أَخْبَرَنَا الْمُخْتَارُ بْنُ فُلْفُلٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا خَيْرَ الْبَرِيَّةِ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «ذَاكَ إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلَامُ» علی بن مسہر اور ابن فضیل نے مختار بن فلفل سے روایت کی ، انھوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور کہا : يا خَيرَ البرِيّۃِ اے مخلوقات میں سے بہترین انسان !
متضاد مخالف؛ اُلٹ؛ اُلٹی طرف؛ دوسری جانب؛ ضِد؛ مُقابل؛ بِالمقابل؛ متقابل؛ متضاد؛ ایک لفظ جو مفہوم کے لحاظ سے دوسرے کی ضد ہو؛ متضاد المعنی۔ ایسے الفاظ جو مماثل وضع میں لیکن ایک دوسرے کے مخالف، برعکس یا یکسر مختلف ہوں۔ اسے 'بائنری' تعلق سے تعبیر کیا جاتا ہے کیوں کہ متضاد جوڑوں میں دو رکن ہوتے ہیں۔ باہم مخالف تعلق کو متضاد کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ایک جوڑے میں مخالف لفظ کو عام طور پر اس سوال کے ذریعہ طے کیا جا سکتا ہے کہ الف کے برعکس کیا ہے؟ جیسے:
مسلمان ہر سال اسلامی مہینے ذوالحجہ کی 8 سے 12 تاریخ کو سعودی عرب کے شہر مکہ مکرمہ کی زیارت کے لیے حاضر ہو کر وہاں جو مخصوص عبادت انجام دیتے ہیں، اس مجموعہ عبادات کو اسلامی اصطلاح میں حج اور ان انجام دی جانے والی عبادات کو مناسک حج کہتے ہیں۔ دین اسلام میں حج ہر صاحب استطاعت بالغ مسلمان پر زندگی بھر میں ایک مرتبہ فرض ہے، جیسا کہ قرآن مقدس میں ہے: وَأَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَى كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ ۔ حج اسلام کے 5 ارکان میں سب سے آخری رکن ہے، جیسا کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حدیث ہے: «اسلام کی بنیاد پانچ ستونوں پر ہے، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی گواہی دینا، نماز قائم کرنا، زكوة دينا، رمضان کے روزے رکھنا اور حج کرنا۔» مناسک حج کی ابتدا ہر سال 8 ذوالحجہ سے ہوتی ہے، حاجی متعین میقات حج سے احرام باندھ کر کعبہ کی زیارت کے لیے روانہ ہوتے ہیں، وہاں پہنچ کر طواف قدوم کرتے ہیں، پھر منی روانہ ہوتے ہیں اور وہاں یوم الترویہ گزار کر عرفات آتے ہیں اور یہاں ایک دن کا وقوف ہوتا ہے، اسی دن کو یوم عرفہ، یوم سعی، عید قربانی، یوم حلق و قصر وغیرہ کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد حجاج رمی جمار (کنکریاں پھینکنے) کے لیے جمرہ عقبہ جاتے ہیں، بعد ازاں مکہ واپس آکر طواف افاضہ کرتے ہیں اور پھر واپس منی جاکر ایام تشریق گذارتے ہیں۔ اس کے بعد حجاج دوبارہ مکہ واپس آکر طواف وداع کرتے ہیں اور یوں حج کے جملہ مناسک مکمل ہوتے ہیں۔ حج کی عبادت اسلام سے قبل بھی موجود تھی، مسلمانوں کا اعتقاد ہے کہ حج گذشتہ امتوں پر بھی فرض تھا، جیسے ملت حنیفیہ (حضرت ابراہیم علیہ اسلام کے پیروکاروں) کے متعلق قرآن میں ذکر ہے: وَإِذْ بَوَّأْنَا لِإِبْرَاهِيمَ مَكَانَ الْبَيْتِ أَنْ لَا تُشْرِكْ بِي شَيْئًا وَطَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْقَائِمِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ ، ۔ حضرت ابراہیم اور ان کے بعد بھی لوگ حج کیا کرتے تھے، البتہ جب جزیرہ نما عرب میں عمرو بن لحی کے ذریعہ بت پرستی کا آغاز ہوا تو لوگوں نے مناسک حج میں حذف و اضافہ کر لیا تھا۔ ہجرت کے نویں سال حج فرض ہوا، محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سنہ 10ھ میں واحد حج کیا جسے حجۃ الوداع کہا جاتا ہے۔ اس حج میں حج کے تمام مناسک کو درست طور پر کر کے دکھایا اور اعلان کیا کہ: « خذوا عني مناسككم» ترجمہ: اپنے مناسک حج مجھ سے لے لو۔ نیز اسی حج کے دوران میں اپنا مشہور خطبہ حجۃ الوداع بھی دیا اور اس میں دین اسلام کی جملہ اساسیات و قواعد اور اس کی تکمیل کا اعلان کیا۔ زندگی میں ایک بار صاحب استطاعت پر حج فرض ہے اور اس کے بعد جتنے بھی حج کیے جائیں گے ان کا شمار نفل حج میں ہوگا؛ ابو ہریرہ نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل کیا ہے: « لوگو! تم پر حج فرض کیا گیا ہے، چناں چہ حج ادا کرو»، صحابہ نے سوال کیا: "یا رسول اللہ!
رومیوں نے عیسائی مذہب قبول کرنے کے بعد یورپ اور شام میں یہودیوں پر زندگی تنگ کردی تھی۔ انھیں در بدر کیا، ظلم کیے، ذلیل کرکے رکھا اور ان کا قتل کیا۔ جان بچانے اور چین سے جینے کے لیے یہودی ان علاقوں کی طرف رخ کرتے جہاں مسلمانوں کی حکومت ہوتی۔ رومیوں کے عیسائیت قبول کرنے کے بعد بیت المقدس سے یہودیوں کو نکالا گیا اور ان کی عبادت گاہیں تباہ کردی گئیں۔ اس کے بعد حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں بیت المقدس کی فتح کے بعد یہودیوں کو شہر میں آنے جانے کی اجازت ملی۔
شوال۔ ذی القعدہ 5ھ (مارچ 627ء) میں مشرکینِ مکہ نے مسلمانوں سے جنگ کی ٹھانی۔ ابوسفیان نے قریش اور دیگر قبائل حتیٰ کہ یہودیوں سے بھی لوگوں کو جنگ پر راضی کیا اور اس سلسلے میں کئی معاہدے کیے اور ایک بہت بڑی فوج اکٹھی کر لی مگر مسلمانوں نے سلمان فارسی کے مشورہ سے مدینہ کے ارد گرد ایک خندق کھود لی۔ مشرکینِ مکہ ان کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ خندق کھودنے کی عرب میں یہ پہلی مثال تھی کیونکہ اصل میں یہ ایرانیوں کا طریقہ تھا۔ ایک ماہ کے محاصرے اور اپنے بے شمار افراد کے قتل کے بعد مشرکین مایوس ہو کر واپس چلے گئے۔ اسے غزوہ خندق یا جنگِ احزاب کہا جاتا ہے۔ احزاب کا نام اس لیے دیا جاتا ہے کہ اصل میں یہ کئی قبائل کا مجموعہ تھی۔ جیسے آج کل امریکا، برطانیہ وغیرہ کی اتحادی افواج کہلاتی ہیں۔ اس جنگ کا ذکر قرآن میں سورۃ الاحزاب میں ہے۔
نعمان ابن ثابت بن زوطا بن مرزبان (پیدائش: 5 ستمبر 699ء– وفات: 14 جون 767ء) (فارسی: ابوحنیفه،عربی: نعمان بن ثابت بن زوطا بن مرزبان)، عام طور پر آپکو امام ابو حنیفہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ آپ سنی حنفی فقہ (اسلامی فقہ) کے بانی تھے۔ آپ ایک تابعی، مسلمان عالم دین، مجتہد، فقیہ اور اسلامی قانون کے اولین تدوین کرنے والوں میں شامل تھے۔ آپ کے ماننے والوں کو حنفی کہا جاتا ہے۔ زیدی شیعہ مسلمانوں کی طرف سے بھی آ پ کو ایک معروف اسلامی عالم دین اور شخصیت تصور کیا جا تا ہے۔ انھیں عام طور پر "امام اعظم" کہا جاتا ہے۔
”صحاح“ صحیح کی جمع ہے۔ محسوسات اور معنویات میں استعمال ہوتا ہے اگر محسوسات میں استعمال ہوتو لغتاً اس کا معنی ہوگا ”الشیء السلیم من الأمراض والعیوب“ یعنی وہ چیز جو امراض وعیوب سے صحیح سالم ہو، اس سے معلوم ہوا کہ واضعِ لغت نے اس لفظ کو سلامت من العیوب ہی کے لیے وضع کیا ہے؛ لہٰذا یہی اس کا معنی حقیقی ہے اور معنویات میں یہ جس معنی کے لیے مستعمل ہے، وہ اس کا معنی مجازی ہے۔ مثلاً قول وحدیث کی صفت صحیح آتی ہے تواس وقت ترجمہ ہوگا ”مَا اعتُمد علیہ“ یعنی قول صحیح وہ ہے جس پر اعتماد کیا جائے۔ اور اصطلاح میں صحیح خبرواحد کی ایک قسم ہے۔
صحیح بخاری کا اصل نام «الجامع المسند الصحیح المختصر من امور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وسننہ و ایامہ» ہے جو «صحیح البخاری» کے نام سے مشہور ہے، یہ اہل سنت وجماعت کے مسلمانوں کی سب سے مشہور حدیث کی کتاب ہے، اس کو امام محمد بن اسماعیل بخاری نے سولہ سال کی مدت میں بڑی جانفشانی اور محنت کے ساتھ تدوین کیا ہے، اس کتاب کو انھوں نے چھ لاکھ احادیث سے منتخب کر کے جمع کیا ہے۔ اہل سنت کے یہاں اس کتاب کو ایک خاص مرتبہ و حیثیت حاصل ہے اور ان کی حدیث میں چھ امہات الکتب (صحاح ستہ) میں اول مقام حاصل ہے، خالص صحیح احادیث میں لکھی جانی والی پہلی کتاب شمار ہوتی ہے، اسی طرح اہل سنت میں قرآن مجید کے بعد سب سے صحیح کتاب مانی جاتی ہے۔ اسی طرح صحیح بخاری کا شمار کتب الجوامع میں بھی ہوتا ہے، یعنی ایسی کتاب جو اپنے فن حدیث میں تمام ابواب عقائد، احکام، تفسیر، تاریخ، زہد اور آداب وغیرہ پر مشتمل اور جامع ہو۔
سلطنت عثمانیہ (یا خلافت عثمانیہ 1517ء سے 1924ء تک) (عثمانی ترکی زبان: "دولت عالیہ عثمانیہ"، ترکی زبان: Osmanlı Devleti) سنہ 1299ء سے 1922ء تک قائم رہنے والی ایک مسلم سلطنت تھی جس کے حکمران ترک تھے۔ اپنے عروج کے زمانے میں (16 ویں – 17 ویں صدی) یہ سلطنت تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی اور جنوب مشرقی یورپ، مشرق وسطٰی اور شمالی افریقہ کا بیشتر حصہ اس کے زیر نگیں تھا۔ اس عظیم سلطنت کی سرحدیں مغرب میں آبنائے جبرالٹر، مشرق میں بحیرۂ قزوین اور خلیج فارس اور شمال میں آسٹریا کی سرحدوں، سلوواکیہ اور کریمیا (موجودہ یوکرین) سے جنوب میں سوڈان، صومالیہ اور یمن تک پھیلی ہوئی تھی۔ مالدووا، ٹرانسلوانیا اور ولاچیا کے باجگذار علاقوں کے علاوہ اس کے 29 صوبے تھے۔
اسلام ایک توحیدی مذہب ہے جو اللہ کی طرف سے، حضرت محمد ﷺ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ذریعے انسانوں تک پہنچائی گئی آخری الہامی کتاب (قرآن مجيد) کی تعلیمات پر قائم ہے۔ یعنی دنیاوی اعتبار سے بھی اور دینی اعتبار سے بھی اسلام (اور مسلم نظریے کے مطابق گذشتہ ادیان کی اصلاح) کا آغاز، 610ء تا 632ء تک 23 سال پر محیط عرصے میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اللہ کی طرف سے اترنے والے الہام (قرآن) سے ہوتا ہے۔ قرآن عربی زبان میں نازل ہوا (برائے وجہ : اللسان القرآن) اور اسی زبان میں دنیا کی کل آبادی کا کوئی 24% حصہ یعنی لگ بھگ 1.6 تا 1.8 ارب افراد اس کو پڑھتے ہیں ؛ ان میں (مختلف ذرائع کے مطابق) قریباً 20 تا 30 کروڑ ہی وہ ہیں جن کی مادری زبان عربی ہے جبکہ 70 تا 80 کروڑ، غیر عرب یا عجمی ہیں جن کی مادری زبان عربی کے سوا کوئی اور ہوتی ہے۔ متعدد شخصی ماخذ سے اپنی موجودہ شکل میں آنے والی دیگر الہامی کتابوں کے برعکس، بوسیلۂ وحی، فردِ واحد (محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے منہ سے ادا ہوکر لکھی جانے والی کتاب اور اس کتاب پر عمل پیرا ہونے کی راہنمائی فراہم کرنے والی شریعت ہی دو ایسے وسائل ہیں جن کو اسلام کی معلومات کا منبع قرار دیا جاتا ہے۔
آئین پاکستان میں اٹھارہویں ترمیم
پاکستانی آئین میں اٹھارویں ترمیم 8 اپریل 2010 کو قومی اسمبلی پاکستان نے پاس کی۔ اس وقت آصف علی زرداری پاکستان کے صدر تھے۔اٹھارویں ترمیم پاکستان کی تاریخ کا اک روشن باب ہے۔ اٹھارویں ترمیم نے صدر کے پاس موجود تمام ایکزیکٹو اختیارات پارلیمان کو دے دیے، چونکہ وزیر اعظم قائدِ ایوان (Leader of the House) ہوتا ہے لہذا زیادہ اختیارات وزیر اعظم کے پاس بھی آئے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے شمالی مغربی سرحد صوبے کا نام تبدیل کرکے خیبر پختونخوا رکھا گیا گیا۔ وفاق سے زیادہ تر اختیارات لے کر صوبوں کو دیے گئے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مختلف روایات میں اکثر گیارہ سے تیرہ ازواج کے نام ملتے ہیں۔ جنہیں امہات المؤمنین کہا جاتا ہے یعنی مؤمنین کی مائیں۔ اس کے علاوہ انھیں ازواج مطہرات بھی کہا جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ازواج میں حضرت عائشہ کے علاوہ تمام بیوہ و مطلقہ (طلاق شدہ) تھیں اور زیادہ شادیوں کا عرب میں عام رواج تھا۔
برطانوی راج کی تاریخ سے مراد برصغیر پاک و ہند میں 1757 اور 1947 کے درمیان برطانوی حکمرانی کے دور سے ہے۔ یہ نظام حکومت 1857 میں اس وقت متعارف کرایا گیا تھا جب ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکمرانی برطانوی راج یا ملکہ وکٹوریہ کے حوالے کی گئی تھی۔ اسے 18 ء میں 'ہندوستان کی مہارانی' یا 'ہندوستان کی مہارانی' قرار دیا گیا۔ یہ حکمرانی 1947 تک برقرار رہی جب برصغیر پاک و ہند کے برطانوی صوبوں کو تقسیم کرکے دو تسلط یا تسلط پیدا کیے گئے۔ یہ دونوں بالترتیب ہندوستان کا تسلط اور پاکستان کا تسلط تھے ۔ آبائی ریاستوں کو ان دونوں ممالک کے درمیان انتخاب کرنے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے۔ یہ دونوں ریاستیں بعد میں جمہوریہ ہند اور اسلامی جمہوریہ پاکستان بن گئیں ۔ پاکستان کا مشرقی حصہ یا مشرقی پاکستان 1971 میں عوامی جمہوریہ بنگلہ دیش کی آزاد ریاست بن گیا ۔ مشرقی صوبہ برما 1936 میں ایک علاحدہ کالونی میں تبدیل ہوا۔ 1948 میں برما نے آزادی حاصل کی۔ انگلش ایسٹ انڈیا کمپنی ، ایک انگریزی اور بعد میں برطانوی مشترکہ اسٹاک کمپنی تھی ۔ یہ بعد میں بحر ہند کے خطے میں تجارت کے لیے تشکیل دی گئی تھی ، ابتدا میں مغل ہندوستان اور ایسٹ انڈیز کے ساتھ اور بعد میں چنگ چین کے ساتھ۔ کمپنی نے برصغیر پاک و ہند کے بڑے حصوں ، جنوب مشرقی ایشیا کے نوآبادیاتی حصوں اور 1858 سے 1947 کے درمیان برصغیر پاک و ہند پر چنگ چین کے ساتھ جنگ کے بعد ہانگ کانگ کی نوآبادیاتی قبضہ کرنا ختم کر دیا۔ گورننس کا نظام 1858 میں قائم کیا گیا تھا جب ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکمرانی ملکہ وکٹوریہ (جسے 1876 میں ہندوستان کی مہارانی قرار دی گئی تھی) کے شخص میں ولی عہد کو منتقل کر دیا گیا تھا۔ یہ 1947، جب تک چلا برطانوی صوبوں بھارت کے تھے تقسیم : دو خود مختار بادشاہی ریاستوں میں بھارت ڈومنین اور پاکستان ڈومنین چھوڑ نوابی ریاستوں نے ان کے درمیان منتخب کرنے کے لیے.
سورۃ، سورت یا سورہ عربی زبان کا لفظ ہے، قرآن مجید میں 114 سورتیں ہیں۔ ہر سورۃ آیات پر مشتمل ہوتی ہے۔ سورتوں کو مکی اور مدنی حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ مکی سورتیں وہ ہیں جو مدینہ کی طرف ہجرت سے پہلے مکہ شہر میں نازل ہوئیں ان کی تعداد 86 ہے۔ مکی دور کی سورتوں کا تعلق قیامت، جزا، یہودیت اور عیسائیت جیسے موضوعات پر ہے۔ مدنی سورتیں وہ ہیں جو ہجرت کے بعد نازل ہوئیں ان سورتوں کی تعداد 28 ہے۔ مدنی دور کی سورتیں ذاتی معاملات، معاشرے اور ریاست کے قوانین پر زیادہ توجہ دیتی ہیں۔ قرآن مجید کی نویں سورت سورہ توبہ کے علاوہ ہر سورت بسم اللہ الرحمن الرحیم (" اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے " ) سے شروع ہوتی ہے۔ انتیس سورتیں حروف مقطعات یعنی انوکھے حروف کے مجموعے وہ ہیں جن کے معانی نامعلوم ہیں سے شروع ہوتی ہیں۔ قرآن مجید کی پہلی سورت سورہ فاتحہ ہے۔ علمائے شرعی نے قرآن کی سورتوں کو ان کی لمبائی کے لحاظ سے تین حصوں میں تقسیم کیا ہے، یعنی سات لمبی سورتیں البقرہ، آل عمران، النساء، المائدہ، الانعام، الاعراف اور التوبہ۔ المئون جو سات لمبے دن ہیں اس کو اس لیے کہا گیا کہ اس کی ہر سورت سو آیات سے زیادہ یا اس کے قریب ہے۔ پہلے دور کے مسلمانوں نے قرآن کی سورتوں کے نام استعمال کی تعدد کے مطابق رکھے تھے، یہ بات مشہور ہے کہ عربوں نے بہت سے ناموں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے نام کسی نادر یا عجیب چیز سے لیے ہیں جس کی کوئی خصوصیت یا اہمیت ہو۔ جیساکہ اسی مناسبت سے قرآن کی سورتوں کے نام دیے گئے جیسے سورۃ البقرہ میں گائے کے قصے کے ذکر کی وجہ سے یہ نام رکھا گیا اور سورۃ النساء کو عورتوں کے متعلق بہت سے احکام مذکور ہونے کی وجہ سے یہ نام دیا گیا ہے۔ سورۃ الانعام کو اس کے حالات کی تفصیل کی وجہ سے کہا گیا ہے اور سورۃ الاخلاص بھی خالص توحید وجہ سے کہی گئی ہے۔ قرآن کی پہلی سورت سورہ فاتحہ ہے، لمبی سورتیں قرآن کے شروع میں اور چھوٹی سورتیں آخر میں جمع کی گئی ہیں، اس لیے سورتوں کی ترتیب ان کی تاریخ کے مطابق نہیں ہے۔ تمام سورتیں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سے شروع ہوتی ہیں۔ سورۃ التوبہ جو جنگ کے دوران میں نازل ہوئی تھی اس لیے اس سورت میں بسم اللہ شروع میں نہیں پڑھی جاتی۔ یہ سورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور مشرکین کے درمیان عہد کو توڑنے کے لیے نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے علی ابن ابی طالب کے پاس بھیجا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں پڑھ کر سنایا اور اس پر بسم اللہ نہیں کہی جیسا کہ عربوں کا رواج تھا۔ لیکن اس کے باوجود قرآن میں بسم اللہ کی تعداد 114 تک پہنچ جاتی ہے جو سورتوں کی تعداد کے برابر ہے۔ بسم اللہ سورۃ النمل کی آیت نمبر 30 میں جیسا کہ نبی اور بادشاہ سلیمان شیبہ کی ملکہ بلقیس کو اپنے خطوط شروع کرتے تھے۔ إِنَّهُ مِن سُلَيْمَانَ وَإِنَّهُ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ۔قرآن کی ہر سورت کو کئی آیات میں تقسیم کیا گیا ہے، جن کی تعداد سورت کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے اور ان کی لمبائی بھی مختلف ہوتی ہے، کیونکہ ان میں سے کچھ چند حروف ہیں اور کچھ کئی سطروں پر مشتمل ہیں۔ جہاں تک قرآن میں آیات کی تعداد کا تعلق ہے تو یہ صحابہ و تابعین اور ان کی سند سے روایت کرنے والوں کی مستعدی سے آیا ہے، قرآنی متن ان کے پاس محفوظ ہے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے کوئی وضاحت نہیں کی۔ علما کا اتفاق ہے کہ قرآنی آیات چھ ہزار سے کم نہیں ہیں۔
ماضی استمراری ماضی استمراری اُس فعل کو کہتے ہیں جس میں گذرا ہوا زمانہ جاری حالت میں پایا جائے۔ جیسے عدیل صبح سویرے اُٹھتا تھا، ارم کھانا کھا رہا تھا، ہم ہر روز سیر کو جایا کرتے تھے، علی پڑھتا تھا، نجمہ لکھتی تھی، اصغر کھاتا تھا، اسلم روزانہ اسلام آباد جاتا تھا، اِن جملوں میں اُٹھتا تھا، کھا رہا رتھا، جایا کرتے تھے، پڑھتا تھا، لکھتی تھی، کھاتا تھا، جاتا تھا ماضی استمراری ہیں۔
تاج محل یعنی مقبرہ ملکہ ممتاز محل زوجہ شاہ جہاں (1627ء – 1659ء) بھارت کے شہر آگرہ میں واقع سنگ مرمر سے بنی ایک عظیم الشان عمارت ہے جسے مغل شہنشاہ شاہ جہاں نے اپنی زوجہ کی محبت کی لافانی یادگار کے طور پر دریائے جمنا کے ساحل پر بنایا تھا۔ تاج محل اپنے فنِ تعمیر کی خوبیوں اور خصوصیتوں کی بنا پر دنیا بھر میں مشہور ہے اور عجائبات عالم میں شمار ہوتا ہے۔ ہر سال لاکھوں سیاح اس کی زیارت کے لیے آتے ہیں۔ دنیا کی مختلف زبانوں کے نظم و نثر میں تاج محل اور اس کے عجائب پر اس قدر لکھا جا چکا ہے کہ ان سب کا احاطہ بے حد مشکل ہے۔
عمران احمد خان نیازی پاکستانی سیاست دان اور سابقہ کرکٹ کھلاڑی اور پاکستان کے سابق وزیر اعظم ہیں اور پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ بھی ہیں۔ اس سے پہلے وہ 2002ء تا 2007ء اور 2013ء تا 2018ء تک پاکستان قومی اسمبلی کے رکن بھی رہ چکے ہیں۔ سیاست میں قدم رکھنے سے قبل عمران خان ایک کرکٹر اور مخیر تھے۔ انھوں نے دو دہائیوں تک بین الاقوامی کرکٹ کھیلی اور بعد میں خدمت خلق کے منصوبے بنائے جیسے کہ شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال اور ریسرچ سینٹر اور نمل کالج وغیرہ۔
اردو زبان کی ابتدا کے متعلق نظریات
اردو کی ابتدا و آغاز کے بارے میں کئی مختلف نظریات ملتے ہیں یہ نظریات آپس میں اس حد تک متضاد ہیں کہ انسان چکرا کر رہ جاتا ہے۔ ان مشہور نظریات میں ایک بات مشترک ہے کہ ان میں اردو کی ابتدا کی بنیاد برصغیر پاک و ہند میں مسلمان فاتحین کی آمد پر رکھی گئی ہے۔ اور بنیادی استدلال یہ ہے کہ اردو زبان کا آغاز مسلمان فاتحین کی ہند میں آمد اور مقامی لوگوں سے میل جول اور مقامی زبان پر اثرات و تاثر سے ہوا۔ اور ایک نئی زبان معرض وجود میں آئی جو بعد میں اردو کہلائی۔ کچھ ماہرین لسانیات نے اردو کی ابتدا کا سراغ قدیم آریاؤں کے زمانے میں لگانے کی کوشش کی ہے۔ بہر طور اردو زبان کی ابتدا کے بارے میں کوئی حتمی بات کہنا مشکل ہے۔ اردو زبان کے محققین اگرچہ اس بات پر متفق ہیں کہ اردو کی ابتدا مسلمانوں کی آمد کے بعد ہوئی لیکن مقام اور نوعیت کے تعین اور نتائج کے استخراج میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس انداز سے اگر اردو کے متعلق نظریات کو دیکھا جائے تو وہ نمایاں طور پر چار مختلف نظریات کی شکل میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔
اردو شاعری میں مولانا حالی کا اعلیٰ ترین کارنامہ ان کی طویل نظم ”مدوجزر اسلام“ ہے جو عام طور پر ”مسدس حالی“ کے نام سے مشہور ہوئی۔ یہ نظم اس قدر مقبول ہوئی کہ اس نے مقبولیت اور شہرت کے اگلے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔ کہا جاتا ہے کہ کئی سال تک برصغیر کے طول و عرض میں جو کتاب قرآن کریم کے بعد سب سے زیادہ شائع ہوئی وہ ”مسدس حالی“ تھی۔ بقول سر سید احمد خان،
ابراہیم علیہ سلام ہی اسرائیل ہے۔ تاریخ لکھنے والوں نے غلط بات مشہور کی ہے کہ یعقوب علیہ سلام ہی اسرائیل ہے کیونکہ بائبل نے جھوٹ اور بات کو تحریف کرنے کی ہدایت دے رکھی ہے۔ بائبل ہی ابراہیم علیہ سلام کو تمام قوم کا باب کہتی ہے۔ اور یہ قرآن سے بھی ثابت ہے۔ اللہ نے ابراہیم علیہ سلام کو ہی امام بنایا لوگوں کے لیے ۔ آئیے اس پر ایمانداری سے روشنی ڈالتے ہیں اور دیکھتے ہیں کتنی سچ بات ہے۔ وَ اِذِ ابۡتَلٰۤی اِبۡرٰہٖمَ رَبُّہٗ بِکَلِمٰتٍ فَاَتَمَّہُنَّ ؕ قَالَ اِنِّیۡ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا ؕ قَالَ وَ مِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ ؕ قَالَ لَا یَنَالُ عَہۡدِی الظّٰلِمِیۡنَ ﴿124﴾۔ Surat No. 2 Ayat NO. 124 جب ابراہیم ( علیہ السلام ) کو ان کے رب نے کئی کئی باتوں سے آزمایا اور انھوں نے سب کو پورا کر دیا تو اللہ نے فرمایا کہ میں تمھیں لوگوں کا امام بنا دوں گا عرض کرنے لگے میری اولاد کو فرمایا میرا وعدہ ظالموں سے نہیں۔ (باب نمبر 17) جب ابرؔام نِنانوے برس کا ہُوا تب خُداوند ابراؔم کو نظر آیا اور اُس سے کہا کہ مَیں خُدایِ قادِر ہُوں ۔ تو میرے حضور میں چل اور کامِل ہو۔ پیَدایش 17:1۔2 اور میں اپنے اور تیرے درمیان عہد باندھوں گا اور تجھے بہت زیادہ بڑھاؤں گا۔ 3۔ تب ابراؔم سرنگو ہو گیا اور خُدا نے اُس سے ہمکلام ہو کر فرمایاکہ۔ 4۔ دیکھ میرا عہد تیرے ساتھ ہے اور تو سب قوموں کا باپ ہوگا۔ 5. اور تیرا نام پِھر ابراؔم نہیں کہلائیگا بلکہ تیرا نام ابرؔہام ہوگا کیونکہ مَیں تجھے بہت قوموں کا باپ ٹھہرا دیا ہے۔6۔ اور مَیں تجھے بہت برومند کروں گا اور قومیں تیری نسال سے ہوں گی اور بادشاہ تیری اَولاد میں سے برپا ہوں گے۔7.اورمَیں اپنے اور تیرے درمیان اور تیرے بعد تیری نسال کے درمیان اُنکی سب پُشتوں کے لیے اپنا عہد جو ابدی عہد ہوگا باندھُونگا تاکہ مَیں تیرا اور تیرے بعد تیری نسل کا خُدا رہُوں۔ اب یہاں بات آتی ہے ۔ بائبل نے ابراہیم علیہ سلام کو ابرام سے ابراہیم نام تبدیل کر دیا اسرائیل نہیں نام نہیں دیا کیونکہ وہ یہوداہ کی طرف یہ نام لے جانا چاہتے تھے تاکہ یعقوب سے جو نسل نکلے وہ اسرائیل کہلائے ۔ کیونکہ بائبل کی ہی کتاب سے یعقوب کے ایک بیٹے کا نام یہوداہ تھا اور وہ قبائلی پرست تھا۔ یہودیوں کی چال کامیاب ہو گئی اور مشہور ہو گیا دنیا میں اسرائیل نام یعقوب کو خدا نے دیا جب وہ خدا سے کشتی جیت گیا ۔ یعقوب علیہ سلام نے جائز نکاح راحیل اور ان کی بڑی بہن لیا سے کیا تھا اور دونوں بہنوں کی باندیوں یعنی لونڈیوں کے ساتھ بھی ناجائز تعلوق تھے ۔ یہ بائبل کی پرانی فطرت میں شامل ہے تمام انبیا کرام کو بدنام کرنا ۔ خیر اسرائیل اصل ابراہیم کی نسل کا نام ہے۔ اسرائیل لفظ عبرانی کا ہے جس کا مطلب ہے اللہ کا بندہ ۔ اسرا بندہ ۔ غلام ۔ نوکر ۔ خادم ۔ ئیل کا مطلب خدا کا ۔ ئیل عبرانی میں آرامی اور عربی میں الہ اللہ کی ذات یعنی خدا کے لیے خاص استعمال ہوتا ہے۔ پہلا بیٹا جو ابراہیم علیہ سلام کو اللہ نے عطا کیا وہ اسماعیل علیہ سلام تھے۔ بائبل کہتی ہے ۔ پہلوٹھا بیٹا خدا کے لیے برکت والا ہے۔ دوسرا بیٹا اسحاق ۔ بائبل کے مطابق ہاجرہ نام اسماعیل علیہ سلام کی والدہ کا نام اور سارہ اسحاق علیہ سلام کی والدہ ۔ قرآن والدہ کا نام نہیں بتاتا ۔ Surat No.
یہ مختصر ترین دعا ہے جو مسلمانوں کے نبی حضرت سیدنا محمّد صَلَّىٰ اللَّٰهُ عَلَيْہِ وَآلِہِ وَسَلَّمَ پر ان کے نام کے ساتھ ان کے اعلیٰ ترین درجے پر پہنچنے کے لیے الله تبارک و تعالیٰ سے کی جاتی ہے۔ اس دعا کو درودپاک کہا جاتا ہے اور اس کو لازمی طور پر نام سیدنا محمّد صَلَّىٰ للَّٰهُ عَلَيْہِ وَآلِہِ وَسَلَّمَ کے ساتھ لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔
انس بن مالک صحابی رسول تھے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نسب نامہ یہ ہے : انس بن مالک بن نضر بن ضمضم بن زید بن حرام انصاری۔ آپ قبیلہ انصار میں خزرج کی ایک شاخ بنی نجار میں سے ہیں۔ آپ کی والدہ کا نام ام سلیم بنت ملحان ہے۔آپ کی کنیت حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ابو حمزہ رکھی اور آپ کا مشہور لقب ”خادم النبی”ہے اور اس لقب پر حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بے حد فخر تھا۔ دس برس کی عمر میں یہ خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور دس برس تک سفر و وطن ، جنگ و صلح ہر جگہ ہر حال میں حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی خدمت کرتے رہے اور ہر دم خدمت اقدس میں حاضر باش رہتے تھے۔ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے تبرکات میں سے ان کے پاس چھوٹی سی لاٹھی تھی۔ آپ نے وصیت کی تھی کہ اس کو بوقت دفن میرے کفن میں رکھ دیں۔چنانچہ یہ لاٹھی آپ کے کفن میں رکھ دی گئی ۔حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ان کے لیے خاص طور پر مال اور اولاد میں ترقی اور برکت کی دعائیں فرمائی تھیں، چنانچہ ان کے مال اور اولاد میں بے حد برکت و ترقی ہوئی ۔ مختلف بیویوں اور باندیوں سے آپ کے 80 لڑکے اور 2 لڑکیاں پید اہوئیں اور جس دن آپ کا وصال ہوا اس دن آپ کے بیٹوں اور پوتوں وغیرہ کی تعداد ایک سو بیس( 120) تھی ۔ بہت زیادہ حدیثیں آپ سے مروی ہیں ۔ آپ کے شاگردوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے حنا کا خضاب سر اور داڑھی میں لگاتے تھے اور خوشبو بھی بکثرت استعمال کرتے ۔ آپ نے وصیت فرمائی کہ میرے کفن میں وہی خوشبو لگائی جائے جس میں حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا پسینہ ملا ہوا ہے ۔ ان کی والدہ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے پسینہ کو جمع کر کے خوشبو میں ملایا کرتی تھیں ۔
اردو صحافت کے آغاز سے متعلق کئی متضاد دعوے کیے گئے ہیں۔ کسی نے مولوی محمد باقر دہلوی کے سر اس کا سہرا باندھا ہے جو تحریک آزادی کے لیے شہید ہونے والے پہلے صحافی تھے جنہیں انگریزوں نے توپ سے باندھ کر اُڑا دیا تھا۔ مولوی محمد باقر کا اردو اخبار دہلی سے 1836سے 1857ء تک جاری رہا۔ بعض کا یہ دعوی ہے کہ اردو کا پہلا اخبار ’’آگرہ اخبار‘‘ ہے جو اکبرآباد سے 1831ء میں جاری کیا گیا۔ مورخین لکھتے ہیں کہ اردو کا سب سے پہلا اخبار ’’جام جہاں نما‘‘ کا ضمیمہ تھا جو27؍مارچ 1823ء کو جاری ہوا اور 1824تک نکلتا رہا اور پھر بند ہوکر دوبارہ 1825میں جاری ہوا۔ جناب یوسف کاظم عارف کا دعویٰ ہے کہ ’’مراۃ الاخبار‘‘ اردو کا پہلا اخبار ہے جو 1821 میں کلکتہ سے جاری ہوا۔ جس کے روح رواں راجا رام موہن رائے تھے۔ ایک اور دعویٰ یہ بھی ہے کہ 1810ء میں کلکتہ سے کاظم علی نے ’’اردو اخبار‘‘ کے نام سے اردو صحافت کا آغاز کیا۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اردو اخبار کا آغاز ہندوستان کے پہلے مجاہد اور شہید آزادی ٹیپو سلطان شہید نے کیا تھا۔ جنھوں نے 1794ء میں ایک حکم صادر کیا کہ ایک سرکاری پریس جاری کیا جائے جس میں عربی حروف میں ٹائپ کی چھپائی ہو۔ ان کے حکم کی تعمیل ہوئی۔ ٹیپو سلطان نے ارشاد فرمایا کہ اس پریس سے اردو زبان کا اخبار جاری کیا جائے جس کا نام ’’فوجی اخبار‘‘ رکھا جائے۔ یہ اخبار شاہی سرپرستی اور سرکاری نگرانی میں جاری ہوا جو اردو زبان کا پہلا اخبار تھا اگرچہ کہ عوام تک اس کی رسائی نہیں تھی بلکہ صرف شاہی فوج کے افسر اور سپائیوں میں تقسیم کیا جاتا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب سرکاری زبان فارسی تھی۔ اردو کی ابتدائی حالت تھی۔ مگر ٹیپو سلطان شہید کی دور بین نظروں نے یہ بھانپ لیا تھاکہ آنے والا دور اردو کا ہوگا۔ اس فوجی اخبار میں جو تقطیع پر ہفتہ وار شائع ہوتا تھا اس میں فوج کی نقل و حرکت، افسروں کے تعین اور تبادلے کی اطلاعات درج ہوتی تھیں۔ فوج کے متعلق احکامات بھی شائع کیے جاتے تھے۔ یہ پانچ سال تک پابندی کے ساتھ شائع ہوتا رہا۔ ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد انگریزوں نے پریس اور فوجی اخبار کی تمام فائلوں کو ضبط کر لیا اور اسے آگ لگادی۔
جدید علم جینیات کی رو سے بالاتفاق برصغیر کی سرزمین پر تہتر ہزار برس پہلے سے پچپن ہزار برس قبل کی درمیانی مدت میں انسانوں کی آمد کا سراغ ملتا ہے جو افریقا سے وارد ہوئے تھے، لیکن اثریاتی نقطۂ نظر سے جنوبی ایشیا میں انسانی وجود کے اولین آثار تیس ہزار برس پرانے ہیں جبکہ خوارک کی فراہمی، کاشت کاری اور گلہ بانی وغیرہ کے ہنگاموں سے معمور باقاعدہ انسانی زندگی کا آغاز سات ہزار ق م کے آس پاس ہوا۔ مہر گڑھ کے مقام پر جو اور گیہوں کی پیداوار کے آثار ملتے ہیں اور ساتھ ہی ایسے قرائن پائے گئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے فوراً بعد بھیڑ بکریوں اور گائے بیل وغیرہ مویشیوں کے پالنے کا رجحان پیدا ہو چکا تھا۔ پینتالیس سو ق م تک انسانی زندگی مختلف شعبوں تک پھیل گئی اور بتدریج وادیٔ سندھ کی تہذیب کی صورت میں دنیا کے نقشے پر ابھری۔ اس تہذیب کا شمار عہد قدیم کی اولین تہذیبوں میں ہوتا ہے۔ یہ قدیم مصر اور میسوپوٹیمیا کی تہذیبوں کی ہم عصر تھی۔ وادی سندھ کی تہذیب 2500 ق م سے 1900 ق م تک برصغیر کے اُس خطہ میں پھلتی پھولتی رہی جو آج پاکستان اور شمال مغربی ہندوستان میں واقع ہے۔ شہری منصوبہ بندی، پکی اینٹوں کے مکانات، نکاسیِ آب کا پختہ بندوبست اور آب رسانی کا عمدہ نظم اس تہذیب کی خصوصیات میں داخل ہیں۔قبل مسیح کے دوسرے ہزارے کے اوائل میں مسلسل قحط اور خشک سالی نے وادی سندھ کی آبادی کو منتشر ہونے پر مجبور کر دیا اور یہاں کے باشندے متفرق طور پر بڑے شہروں سے دیہی مقامات پر منتقل ہو گئے۔ عین اسی دور میں ہند۔آریائی قبائل وسط ایشیا سے نکل کر خطۂ پنجاب میں وارد ہوئے۔ یہاں سے ویدک دور کا آغاز ہوتا ہے۔ اس عہد کا قابل ذکر انسانی کارنامہ ویدوں کی تدوین ہے جن میں ان قبیلوں کے دیوی دیوتاؤں کی حمدیہ نظمیں مرتب کی گئی ہیں۔ ان قبیلوں میں وَرَن کا نظام بھی رائج تھا جو آگے چل کر ذات پات کی شکل میں سامنے آیا۔ اس نظام کے تحت ہند۔آریائی قبیلوں نے ہندوستانی معاشرے کو پنڈتوں، جنگجوؤں (سرداروں) اور کسانوں (عوام) میں بانٹ دیا جس کے بعد مقامی آبادی کو ان کے پیشے کے ناموں سے بلایا اور حقیر سمجھا جانے لگا۔ یہ عقلمند بہادر طاقتور اور مہذب ہند آریائی قبائل پنجاب سے بڑھ کر دریائے گنگا کے میدانی علاقہ تک پھیل گئے اور کاشت کاری کی غرض سے اس خطہ کے جنگلوں کو مسطح میدانوں میں تبدیل کر دیا۔ ویدک متون کی تدوین تقریباً 600 ق م تک انجام کو پہنچی اور اسی کے ساتھ ایک نئی بین علاقائی ثقافت کا ظہور ہوا۔ چھوٹے چھوٹے سردار (یا جن پد) آپس میں مل کر بڑی ریاستوں (یا مہا جن پد) کی شکل اختیار کرنے لگے اور یوں وادی سندھ کی تہذیب کے خاتمہ کے بعد دوبارہ برصغیر میں شہری آبادکاری کا آغاز ہوا۔ دوسری طرف اسی دور میں متعدد مذہبی تحریکیں برپا ہوئیں جن میں جین مت اور بدھ مت قابل ذکر ہیں۔ ان تحریکوں نے برہمنیت کے بڑھتے اثرات کی سخت مخالفت کی اور ان ویدک رسوم کی افضلیت پر سوال اٹھانے لگے جنھیں صرف برہمن پنڈت کے ہاتھوں انجام دیا جاتا تھا۔ برصغیر کے معاشرہ میں ان تحریکوں کے مخالفانہ افکار کا نفوذ بڑھا تو نئے مذہبی تصورات پروان چڑھنے لگے اور ان کی کامیابی نے برہمنیت کو برصغیر میں پہلے سے موجود ثقافتوں اور تہذیبوں کو باہم ملا کر ایک نیا آمیزہ تیار کرنے پر مجبور کر دیا جو آگے چل کر ہندومت کہلایا۔
مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق ختم نبوت سے مراد یہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالٰیٰ کے آخری نبی اور آخری رسول ہیں۔ اللہ رب العزت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس جہاں میں بھیج کر بعثت انبیا کا سلسلہ ختم فرما دیا ہے۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ختم نبوت کا ذکر قرآن حکیم کی 100 سے بھی زیادہ آیات میں نہایت ہی جامع انداز میں صراحت کے ساتھ کیا گیا ہے
منشی پریم چند اردو کے مشہور ناول نگار اور افسانہ نگار ہیں۔ ان کا اصلی نام دھنپت رائے ہے، لیکن ادبی دنیا میں پریم چند کے نام سے مشہور ہیں۔ وہ 1880ء میں منشی عجائب لال کے وہاں ضلع وارانسی مرٹھوا کے گاؤں لمہی میں پیدا ہوئے۔ان کے دادا گاؤں کے پٹواری اور والد ایک ڈاک خانے میں کلرک تھے۔ پریم چند ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ نے تقریباً سات آٹھ برس فارسی پڑھنے کے بعد انگریزی تعلیم شروع کی۔ پندرہ سال کی عمر میں شادی ہو گئی۔ ایک سال بعد والد کا انتقال ہو گیا۔ اس وقت آٹھویں جماعت میں پڑھتے تھے۔ پورے گھر بار کا بوجھ آپ پر ہی پڑ گیا۔ فکر معاش نے زیادہ پریشان کیا تو لڑکوں کو بطور استاد پڑھانے لگے اور میٹرک پاس کرنے کے بعد محکمہ تعلیم میں ملازم ہو گئے۔ اسی دوران میں بی۔ اے کی ڈگری حاصل کی۔