اردو ویکیپیڈیا کے سب سے زیادہ ملاحظہ کردہ مضامین کی فہرست۔ مزید معلومات کے لیے ۔ ۔ ۔
9 ذی الحج کو یوم عرفہ کہتے ہیں غیر حاجی کے لیے اس دن روزے کی فضیلت ہے میدان عرفات میں یوم عرفہ کا روزہ رکھنا منع ہے اور دوسری جگہوں میں اس دن روزہ رکھنا کار ثواب ہے اور عیدین میں روزہ رکھنا ممنوع ہے۔ ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے میدان عرفات میں یوم عرفہ کا روزہ رکھنے سے منع فرمایا : ابو قتادہ سے روایت کیا کہ رسول اﷲﷺسے یوم عرفہ کے بارے دریافت کیا گیا تو فرمایا یہ سال گذشتہ اور آئندہ کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے علامہ شرنبلالی نے لکھا ہے کہ حدیث صحیح میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یوم عرفہ افضل الایام ہے اور جب یہ دن جمعہ کا ہو تو یہ ستر حجوں سے افضل ہے۔ عرفہ کو عرفہ اس لیے کہا جاتا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے جبرائیل علیہ السلام کو اس سوال کے جواب مین فرمایا کہ : ھل عرفت ما رائیتک ؟ قال نعم عرفتُ !
ابراہیم علیہ السلام وہ پہلے پیغمبر تھے جن کو اللہ نے مُسلمان نبی پیغمبر ابو الانبیاء، خلیل اللہ امام الناس اور حنیف کہہ کر پُکارا۔ اللہ تعالی نے اپنے اس دوست برگزیدہ اور پیارے نبی کو قرآن مجید میں امتہ (النحل : 120) امام الناس (البقرہ: 124) حنیف اور مسلم (آل عمران: 67) کے ناموں سے بار بار بار کیا ہے۔ اکثر انبیائے کرام انہی کی اولاد سے ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام کے نام کی وجہ تسمیہ کے بارے میں بائبل کا بیان ہے کہ خدا تعالی ان سے مخاطب ہو کر کہتا ہے۔ دیکھ میرا عہد تیرے ساتھ ہے اور تو بہت قوموں کا باپ ہو گا۔ اور تیرا نام ابرام نہیں بلکہ ابراہام ہو گا۔ کیونکہ میں نے تجھے قوموں کا باپ بنایا ہے۔ (پیدائش 170:5) اکثر ماہرین کے نزدیک ابراہام یا ابراہیم ؑ بھی لفظ ہے۔ ہو سکتا ہے کہ پہلے آپ کا نام ابراہم ہو اور پھر ابراہام یا ابو رہام ہو گیا ہو۔مُسلمان اُن کو خلیل اللہ (اللہ کا دوست) کہتے ہیں۔ ابراہیم کی نسل سے کئی پیغمبر پیدا ہوئے، جن کا تذکرہ عہدنامہ قدیم میں ہے۔ اسلام کی کتاب قرآن مجید میں بھی بہت سارے ایسے انبیا کا ذکر ہے جو ابراہیم کی نسل میں سے تھے۔ اسلام کے آخری نبی مُحمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی ابراہیم کی نسل میں سے ہیں۔ شرک، ستارہ پرستی اور بت سازی کے خلاف اپنی قوم اور اوروں کے ساتھ ان کا مجادلہ و محاجہ بڑے زور سے پیش کیا گیا ہے۔ ابراہیم کا بچپن میں ہی رشد عطا کیا گیا اور قلب سلیم بھی عنایت فرمایا گیا۔ تکوینی عجائبات اور ملکوت السمٰوت والارض ان کے سامنے تھے۔ انھیں کے مشاہدے سے اُن کو یقین کامل حاصل ہوا۔ بت پرستی کے خلاف ابراہیم کے جہاد کا ذکر بھی قران کریم میں کئی بار آیا ہے۔قرآن حکیم میں حضرت ابراہیم ؑ اور آذر کے اختلاف عقائد کو جس طرح نمایاں کیا گیا ہے اور جس طرح آپ اپنی قوم کے شرک سے متنفر اور متصادم ہوئے۔ اس سے ہم آپ کی عظمت و جلالت کی حقیقت کو بھی پاسکتے ہیں۔ اور اپنے لیے شمع ہدایت بھی روشن کر سکتے ہیں۔ اس وجہ سے مسلمانوں کو ملت براہیمی ہونے پر فخر ہے۔ ان کے بارے میں یہ توکہیں وضاحت نہیں ہوئی کہ کیا وحی ان پر نازل ہوئی تھی یا ان کی بعثت محض روحانی تھی؟ البتہ قرآن مجید میں ایک جگہ اس امر کی تصدیق ہوئی ہے کہ اللہ تعالی آپ سے ہمکلام تھا۔ اہل تاریخ کے نزدیک متعدد صحیفے تھے جو ابراہیم پر نازل ہوئے۔ ایک صحیفہ جو ان کی طرف سے منسوب ہے یونانی سے انگریزی میں ترجمہ ہو کر شائع ہو چکا ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ کے دین کے بارے میں قرآن مجید میں کئی جگہ پر ارشار ہوتا ہے کہ آپ موحد مسلم اورراست رو تھے۔ ارشاد ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے: ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ”پھر ہم نے تیری طرف (حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی طرف) وحی کی کہ ابراہیم ؑ راست رو (مسلم) کے دین پر چل اور وہ مشرکوں میں سے نہیں تھا “ اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے: يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تُحَآجُّونَ فِي إِبْرَاهِيمَ وَمَا أُنزِلَتِ التَّورَاةُ وَالإنجِيلُ إِلاَّ مِن بَعْدِهِ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ هَاأَنتُمْ هَؤُلاء حَاجَجْتُمْ فِيمَا لَكُم بِهِ عِلمٌ فَلِمَ تُحَآجُّونَ فِيمَا لَيْسَ لَكُم بِهِ عِلْمٌ وَاللّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ مَا كَانَ إِبْرَاهِيمُ يَهُودِيًّا وَلاَ نَصْرَانِيًّا وَلَكِن كَانَ حَنِيفًا مُّسْلِمًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْرَاهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ وَهَـذَا النَّبِيُّ وَالَّذِينَ آمَنُواْ وَاللّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ ”اے اہل کتاب! تم ابراہیم ؑ کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو۔ حالانکہ توریت اور انجیل اس کے بعد ہی اتاری گئیں۔ پھر کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے۔ سنو! تم وہ ہو جو اس میں جھگڑ چکے، جس کا تمھیں علم تھا پھر اس میں کیوں جھگڑتے ہو جس کا میں علم نہیں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ ابراہیم ؑ نہ یہودی تھا اور نہ عیسائی، لیکن وہ راست رو اور فرماں بردار (مسلم اور حنیف) تھا اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھا۔ يقينا ابراہیم ؑ کے بہت نزدیک وہ لوگ ہیں جنھوں نے اس کی پیروی کی اور یہ نبی اور وہ جو اس پہ ایمان لائے اورالله مومنوں کا ولی ہے۔ قرآن مجید کی تقریباً بائیس سورتوں میں حضرت ابراہیم ؑ کا ذکر آتا ہے۔ آپ مسلمانوں کے رسول مقبول حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے جد امجد ہیں۔ گویا مسلمان نہ صرف امت محمدیہ سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ امت براہیمیہ سے بھی متعلق ہیں۔ مسلمان حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ حضرت ابراہیم ؑ اور ان کی اولاد پر بھی درود بھیجتے ہیں- Book Name: Sahih Muslim, Hadees # 6138 حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، وَابْنُ فُضَيْلٍ، عَنِ الْمُخْتَارِ، ح وحَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ السَّعْدِيُّ - وَاللَّفْظُ لَهُ -، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، أَخْبَرَنَا الْمُخْتَارُ بْنُ فُلْفُلٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا خَيْرَ الْبَرِيَّةِ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «ذَاكَ إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلَامُ» علی بن مسہر اور ابن فضیل نے مختار بن فلفل سے روایت کی ، انھوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور کہا : يا خَيرَ البرِيّۃِ اے مخلوقات میں سے بہترین انسان !
تکبیرات تشریق: عرفہ یعنی 9 ذوالحجہ کی فجر سے 13ذوالحجہ کی عصر تک ہر فرض نماز کے بعد بلند آواز کے ساتھ ایک بار اَ للہُ اکبر اللہ اکبر لا الٰہ الا اللہ واللہ اکبراللہ اکبر ولِلّٰہ الْحَمْد پڑھنا۔ تکبیرات تشریق یعنی ہر فرض نماز کے بعد فرض نماز پڑھنے والے کے ایک مرتبہ اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ و اللہ اکبر و للہ الحمد کہنا واجب ہے ۔ یہ تکبیر عرفہ یعنی ذو الحجہ کی نویں تاریخ کی فجر سے تیرہویں تاریخ کی عصر تک کہنا چاہیے۔ یہ تکبیر عورتوں پر واجب نہیں ہے ہاں ایک صورت ہے جس میں عورت پر بھی واجب ہو جاتی ہے وہ یہ کہ عورت مقتدیہ ہو اور اس کا امام یہ جانتا ہو۔ عورتوں کے لئے تکبیرات تشریق کا حکم ایامِ تشریق میں تکبیراتِ تشریق کا پڑھنا جس طرح مردوں پر واجب ہے اسی طرح عورتوں پر بھی واجب ہے،یہی احناف کا مفتی بہ قول ہے،البتہ مرد ہر فرض نمازکے بعد بآوازِ بلند اور عورتیں آہستہ آواز سے یہ تکبیرات پڑھیں گی۔ در مختار میں ہےکہ: "ووجوبه ( على إمام مقيم ) بمصر ( و ) على مقتد ( مسافر أو قروي أو امرأة ) بالتبعية لكن المرأة تخافت ويجب على مقيم اقتدى بمسافر ( وقالا بوجوبه فور كل فرض مطلقًا) ولو منفردا أو مسافرا أو امرأة لأنه تبع للمكتوبة." الجوہرۃ النیرۃ شرح قدوری میں ہے کہ: "(قوله: والتكبير عقيب الصلوات المفروضات ) هذا على الإطلاق إنما هو قولهما ؛ لأن عندهما التكبير تبع للمكتوبة فيأتي به كل من يصلي المكتوبة وأما عند أبي حنيفة لا تكبير إلا على الرجال الأحرار المكلفين المقيمين في الأمصار إذا صلوا مكتوبة بجماعة من صلاة هذه الأيام وعلى من يصلي معهم بطريق التبعية ، وقوله المفروضات يحترز به من الوتر وصلاة العيد ويكبر عقيب صلاة الجمعة ؛ لأنها مفروضة وفي الخجندي التكبير إنما يؤدى بشرائط خمسة على قول أبي حنيفة يجب على أهل الأمصار دون الرساتيق وعلى المقيمين دون المسافرين إلا إذا اقتدوا بالمقيم في المصر وجب عليهم على سبيل المتابعة وعلى من صلى بجماعة لا من صلى وحده وعلى الرجال دون النساء وإن صلين بجماعة إلا إذا اقتدين برجل ونوى إمامتهن وفي الصلوات الخمس دون النوافل والسنن والوتر والعيد واختلفوا على قول أبي حنيفة في العيد إذا صلوا خلف عبد ، والأصح الوجوب وإذا أم العبد قوما في هذه الأيام فعلى قول من شرط الحرية لا تكبير عليهم وعلى قول من لم يشرطها يكبرون والمسافرون إذا صلوا بجماعة في مصر فيه روايتان عن أبي حنيفة في رواية لا تكبير عليهم وفي رواية يكبرون. وقال أبو يوسف و محمد: التكبير يتبع الفريضة فكل من أدى فريضة فعليه التكبير والفتوى على قولهما حتى يكبر المسافر وأهل القرى ومن صلى وحده." تکبیر تشریق کہنا واجب ہے ایّامِ تشریق میں ہر فرض نماز کے بعد تکبیراتِ تشریق ہر عاقل، بالغ، مسلمان مرد پر ایک دفعہ پڑھنا شرعاً واجب ہے اور ایک قول کے مطابق اس کا بآواز بلند ہونا بھی ضروری ہے، چاہے مرد ہو یا عورت، شہر کا رہنے والا ہو یا دیہات کا اور اس کو نہ پڑھنے والا ترکِ واجب کی وجہ سے گناہ گار ہوگا، لہٰذا مذکور علاقہ کے لوگوں پر لازم ہے کہ اس کے ترک سے احتراز کریں اور اب تک اس کے ترک کی صورت میں جو گناہ ہوا ہے، اس پر بصدقِ دل توبہ واستغفار بھی کریں۔ و فی حاشية ابن عابدين: (قوله صفته إلخ) فهو تهليلة بين أربع تكبيرات ثم تحميدة و الجهر به واجب و قيل سنة قهستاني اھ (2/ 178)۔ وجہ تسمیہ ( تشریق کا مفہوم) چوں کہ یہ تکبیرات "الله أكبر الله أكبر لا إله إلا الله والله أكبر الله أكبر ولله الحمد"نو ذی الحجہ کی فجر سے ایامِ تشریق کے آخری دن یعنی 13 ذی الحجہ کی شام تک پڑھی جاتی ہیں، ان ایام میں 9تاریخ کے سوا باقی سارے ایام ایامِ تشریق ہیں، اس لیے تغلیباً ان تکبیرات کو تکبیراتِ تشریق کہتے ہیں، اگرچہ ان تکبیرات کے حکم میں ایک دن ایامِ تشریق سے پہلے کا(یعنی نو ذی الحجہ ) بھی شامل ہے۔یہی (یعنی 9 ذوالحجہ کی فجر سے تکبیراتِ تشریق کا آغاز کرنا) احناف کامفتی بہ قول ہے۔ نیز ایامِ تشریق کو تشریق کہنے کی مختلف توجیہات نیز ایامِ تشریق کو تشریق کہنے کی مختلف توجیہات فقہاء نے لکھی ہیں، جن میں سے مشہور یہ ہے کہ یہ ’’تشریق اللحم‘‘ (گوشت خشک کرنے) سے ماخوذہے، ان دنوں میں جانور ذبح کرکے اس کا گوشت خشک کیا جاتاتھا، یا ’’شروق الشمس‘‘ سے ہے، یعنی نمازِ عید کے لیے سورج چڑھنے کا انتظار کرناوغیرہ۔ لیکن یادرہے کہ ان تکبیرات کے اوقات کی تعیین میں اصل ایامِ تشریق ہی نہیں، بلکہ وہ صریح احادیث ہیں جن میں رسول کریم ﷺسے یہ ثابت ہے کہ آپ یومِ عرفہ کی فجر سے ایامِ تشریق کے آخری دن کی عصر تک یہ تکبیرات ادافرماتے تھے۔اس لیے احناف کا مفتی بہ قول ان روایات کی بناپریہی ہے کہ ان تکبیرات کا وقت یومِ عرفہ کی فجر سے ایامِ تشریق کے آخری دن کی عصر کی نماز تک ہے۔ذیل میں وہ احادیث ذکر کی جارہی ہیں جن سے ان تکبیرات سے متعلق یومِ عرفہ سے ابتدا کرنا ثابت ہے: سنن الدارقطنی میں ہے : "عن جابر عن أبي الطفيل عن علي وعمار أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يجهر في المكتوبات بـ {بسم الله الرحمن الرحيم}، وكان يقنت في الفجر، وكان يكبر يوم عرفة صلاة الغداة ويقطعها صلاة العصر آخر أيام التشريق".(2/389) السنن الکبری للبیہقی میں ہے : "عن عبد الرحمن بن سابط عن جابر : قال كان النبى صلى الله عليه وسلم يكبر يوم عرفة صلاة الغداة إلى صلاة العصر آخر أيام التشريق."(3/315) وفیہ ایضاً : "عن أبى إسحاق قال : اجتمع عمر وعلي وابن مسعود رضي الله عنهم على التكبير في دبر صلاة الغداة من يوم عرفة. فأما أصحاب ابن مسعود فإلى صلاة العصر من يوم النحر، وأما عمر وعلي رضى الله عنهما فإلى صلاة العصر من آخر أيام التشريق." (3/314) المستدرک علی الصحیحین للحاکم میں ہے : "عن أبي الطفيل عن علي و عمار : أن النبي صلى الله عليه و سلم كان يجهر في المكتوبات ببسم الله الرحمن الرحيم، و كان يقنت في صلاة الفجر، و كان يكبر من يوم عرفة صلاة الغداة و يقطعها صلاة العصر آخر أيام التشريق".(1/439) شرح السنۃ میں ہے : "وذهب أكثر أهل العلم إلى أنه يبتدئ التكبير عقيب صلاة الصبح من يوم عرفة ، ويختم بعد العصر من آخر أيام التشريق، وهو قول عمر وعلي، وبه قال مكحول، لما روي عن جابر بن عبد الله أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يصلي صلاة الغداة يوم عرفة، ثم يستند إلى القبلة، فيقول : الله أكبر ، الله أكبر ، الله أكبر ، لا إله إلا الله ، والله أكبر ، الله أكبر ولله الحمد ، ثم يكبر دبر كل صلاة إلى صلاة العصر من آخر أيام التشريق."(7/146) فتح الباری لابن رجب میں ہے : "فأما علي، فكان يكبر من صبح يوم عرفة إلى العصر من آخر أيام التشريق ." (6/126) فتح الباری میں ہے : "والفقه أن أيام التشريق ما بعد يوم النحر على اختلافهم هل هي ثلاثة أو يومان لكن ما ذكروه من سبب تسميتها بذلك يقتضى دخول يوم العيد فيها وقد حكى أبو عبيد أن فيه قولين أحدهما لأنهم كانوا يشرقون فيها لحوم الأضاحي أي يقددونها ويبرزونها للشمس ثانيهما لأنها كلها أيام تشريق لصلاة يوم النحر فصارت تبعا ليوم النحر قال وهذا أعجب القولين إلى وأظنه أراد ما حكاه غيره أن أيام التشريق سميت بذلك لأن صلاة العيد إنما تصلى بعد أن تشرق الشمس وعن بن الأعرابي قال سميت بذلك لأن الهدايا والضحايا لاتنحر حتى تشرق الشمس وعن يعقوب بن السكيت قال هو من قول الجاهلية أشرق ثبير كيما نغير أي ندفع لننحر انتهى وأظنهم أخرجوا يوم العيد منها لشهرته بلقب يخصه وهو يوم العيد وإلا فهي في الحقيقة تبع له في التسمية كما تبين من كلامهم ومن ذلك حديث على لا جمعة ولا تشريق إلا في مصر جامع أخرجه أبو عبيد بإسناد صحيح إليه موقوفا".(2/457) عمدۃ القاری میں ہے : "الثاني في وقت التكبير: فعند أصحابنا يبدأ بعد صلاة الفجر يوم عرفة ويختم عقيب العصر يوم النحر عند أبي حنيفة وهو قول عبد الله بن مسعود رضي الله تعالى عنه وعلقمة والأسود والنخعي وعند أبي يوسف ومحمد يختم عقيب صلاة العصر من آخر أيام التشريق وهو قول عمر بن الخطاب وعلي بن أبي طالب وعبد الله بن عباس وبه قال سفيان الثوري وسفيان بن عيينة وأبو ثور وأحمد والشافعي في قول وفي (التحرير) ذكر عثمان معهم وفي (المفيد) وأبا بكر، وعليه الفتوى".(10/308) تکبیراتِ تشریق کا ثبوت قرآن وحدیث اور آثارِ صحابہ سے ہے ۔ ایام تشریق اور تکبیرات تشریق کا ثبوت قرآن سے قرآنِ کریم میں اللہ رب العزت کا فرمان ہے : {وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَّعْدُودَاتٍ}ترجمہ: اور تم اللہ کو یاد کرو مخصوص چند دنوں میں۔ (البقرۃ : 203) ایام تشریق اور تکبیرات تشریق کا ثبوت قرآن و حدیث سے تفسیر ابن کثیر میں ہے : "قال ابن عباس : " الأيام المعدودات " أيام التشريق، و " الأيام المعلومات " أيام العشر.
اسماعیل علیہ السلام اللہ کے نبی، ابراہیم علیہ السلام کے بڑے صاحبزادے تھے۔ قرآن نے انھیں صادق الوعد کا لقب دیاحضرت ہاجرہ کے بطن سے پیدا ہوئے۔ بچے ہی تھے کہ ابراہیم علیہ السلام ان کو ان کی والدہ ہاجرہ کو اس بنجر اور ویران علاقے میں چھوڑ آئے جو اب مکہ معظمہ کے نام سے مشہور ہے۔ اور عالم اسلام کا قبلہ ہے۔ ایک دن ابراہیم علیہ السلام نے اسماعیل علیہ السلام سے فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ تمھیں ذبح کر رہا ہوں۔ اب تم بتاؤ کہ تمھاری کیا رائے ہے؟ اسماعیل علیہ السلام نے فرمایا کہ آپ مجھے ثابت قدیم پائیں گے۔ جب ابراہیم علیہ السلام نے اسماعیل علیہ السلام کو منہ کے بل ذبح کرنے لیے لٹایا تو خدا کی طرف سے آواز آئی۔ اے ابراہیم!
مسلمان ہر سال اسلامی مہینے ذوالحجہ کی 8 سے 12 تاریخ کو سعودی عرب کے شہر مکہ مکرمہ کی زیارت کے لیے حاضر ہو کر وہاں جو مخصوص عبادت انجام دیتے ہیں، اس مجموعہ عبادات کو اسلامی اصطلاح میں حج اور ان انجام دی جانے والی عبادات کو مناسک حج کہتے ہیں۔ دین اسلام میں حج ہر صاحب استطاعت بالغ مسلمان پر زندگی بھر میں ایک مرتبہ فرض ہے، جیسا کہ قرآن مقدس میں ہے: وَأَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَى كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ ۔ حج اسلام کے 5 ارکان میں سب سے آخری رکن ہے، جیسا کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حدیث ہے: «اسلام کی بنیاد پانچ ستونوں پر ہے، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی گواہی دینا، نماز قائم کرنا، زكوة دينا، رمضان کے روزے رکھنا اور حج کرنا۔ » مناسک حج کی ابتدا ہر سال 8 ذوالحجہ سے ہوتی ہے، حاجی متعین میقات حج سے احرام باندھ کر کعبہ کی زیارت کے لیے روانہ ہوتے ہیں، وہاں پہنچ کر طواف قدوم کرتے ہیں، پھر منی روانہ ہوتے ہیں اور وہاں یوم الترویہ گزار کر عرفات آتے ہیں اور یہاں ایک دن کا وقوف ہوتا ہے، اسی دن کو یوم عرفہ، یوم سعی، عید قربانی، یوم حلق و قصر وغیرہ کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد حجاج رمی جمار (کنکریاں پھینکنے) کے لیے جمرہ عقبہ جاتے ہیں، بعد ازاں مکہ واپس آکر طواف افاضہ کرتے ہیں اور پھر واپس منی جاکر ایام تشریق گذارتے ہیں۔ اس کے بعد حجاج دوبارہ مکہ واپس آکر طواف وداع کرتے ہیں اور یوں حج کے جملہ مناسک مکمل ہوتے ہیں۔ حج کی عبادت اسلام سے قبل بھی موجود تھی، مسلمانوں کا اعتقاد ہے کہ حج گذشتہ امتوں پر بھی فرض تھا، جیسے ملت حنیفیہ (حضرت ابراہیم علیہ اسلام کے پیروکاروں) کے متعلق قرآن میں ذکر ہے: وَإِذْ بَوَّأْنَا لِإِبْرَاهِيمَ مَكَانَ الْبَيْتِ أَنْ لَا تُشْرِكْ بِي شَيْئًا وَطَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْقَائِمِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ ،۔ حضرت ابراہیم اور ان کے بعد بھی لوگ حج کیا کرتے تھے، البتہ جب جزیرہ نما عرب میں عمرو بن لحی کے ذریعہ بت پرستی کا آغاز ہوا تو لوگوں نے مناسک حج میں حذف و اضافہ کر لیا تھا۔ ہجرت کے نویں سال حج فرض ہوا، محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سنہ 10ھ میں واحد حج کیا جسے حجۃ الوداع کہا جاتا ہے۔ اس حج میں حج کے تمام مناسک کو درست طور پر کر کے دکھایا اور اعلان کیا کہ: « خذوا عني مناسككم» ترجمہ: اپنے مناسک حج مجھ سے لے لو۔ نیز اسی حج کے دوران میں اپنا مشہور خطبہ حجۃ الوداع بھی دیا اور اس میں دین اسلام کی جملہ اساسیات و قواعد اور اس کی تکمیل کا اعلان کیا۔ زندگی میں ایک بار صاحب استطاعت پر حج فرض ہے اور اس کے بعد جتنے بھی حج کیے جائیں گے ان کا شمار نفل حج میں ہوگا؛ ابو ہریرہ نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل کیا ہے: « لوگو! تم پر حج فرض کیا گیا ہے، چناں چہ حج ادا کرو»، صحابہ نے سوال کیا: "یا رسول اللہ!
انا لله و انا الیہ راجعون (عربی: إِنَّا لِلَّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ) آیت استرجاع کہلاتی ہے جو قرآن میں سورۃ البقرہ کی آیت 156 سے ماخوذ ہے۔ اس کا مطلب ہے: "ہم خدا کے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔" جب مسلمان کسی کی موت یا مصیبت کی خبر سنتے ہیں تو یہ آیت پڑھتے ہیں۔ وہ اس آیت کو تعزیت کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں اور مصیبت کے وقت صبر کا مطالبہ کرتے ہیں۔
الہٰ آباد کے قریب ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ آپ کا اصل نام سید اکبر حسین رضوی تھا اور تخلص اکبر۔ آپ 16 نومبر1846ء میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم سرکاری مدارس میں پائی اور محکمہ تعمیرات میں ملازم ہو گئے۔ 1869ء میں مختاری کا امتحان پاس کرکے نائب تحصیلدار ہوئے۔ 1870ء میں ہائی کورٹ کی مسل خوانی کی جگہ ملی۔ 1872ء میں وکالت کا امتحان پاس کیا۔ 1880ء تک وکالت کرتے رہے۔ پھر منصف مقرر ہوئے۔ 1894ء میں عدالت خفیفہ کے جج ہو گئے۔ 1898ء میں خان بہادر کا خطاب ملا۔ 1903ء میں ملازمت سے سبکدوش ہو گئے۔ انھوں نے جنگ آزادی ہند 1857ء، پہلی جنگ عظیم اور گاندھی کی امن تحریک کا ابتدائی حصہ دیکھا تھا۔
ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال (ولادت: 9 نومبر 1877ء – وفات: 21 اپریل 1938ء) بیسویں صدی کے ایک معروف شاعر، مصنف، قانون دان، سیاستدان اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھے۔ اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے اور یہی ان کی بنیادی وجہ شہرت ہے۔ شاعری میں بنیادی رجحان تصوف اور احیائے امت اسلام کی طرف تھا۔ علامہ اقبال کو دور جدید کا صوفی سمجھا جاتا ہے۔ بحیثیت سیاست دان ان کا سب سے نمایاں کارنامہ نظریۂ پاکستان کی تشکیل ہے، جو انھوں نے 1930ء میں الہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پیش کیا تھا۔ یہی نظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا۔ اسی وجہ سے علامہ اقبال کو پاکستان کا نظریاتی باپ سمجھا جاتا ہے۔ گو کہ انھوں نے اس نئے ملک کے قیام کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن انھیں پاکستان کے قومی شاعر کی حیثیت حاصل ہے۔
لفظ تفسیر عربی زبان کا لفظ ہے جس کا [مادہ معینی] فسر ہے۔ یہ باب تفصیل کا مصدر ہے اس کے معنی ہیں واضح کرنا، کھول کر بیان کرنا، وضاحت کرنا، مراد بتانا اور بے حجاب کرنا ہے۔ قرآن کی تشریح و وضاحت کے علم کو تفسیر کہتے ہیں اور تفسیر کرنے والے کو مفسر۔ اسی عربی لفظ فسر سے، اردو زبان میں، تفسیر کے ساتھ ساتھ ديگر متعلقہ الفاظ بھی بنائے جاتے ہیں جیسے؛ مُفسَر، مُفَسِّر اور مُفَسّر وغیرہ ایک اردو لغت میں [ مُفسَر]، [ مُفَسِّر] اور [ مُفَسّــَر] کا اندراج۔ تفسیر کی جمع تفاسیر کی جاتی ہے اور مفسر کی جمع مفسرین آتی ہے۔
ابو القاسم محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب (12 ربیع الاول عام الفیل / اپریل 570ء یا 571ء – 12 ربیع الاول 10ھ / 8 جون 632ء) مسلمانوں کے آخری نبی ہیں۔ اہل اسلام کے نزدیک محمد تمام مذاہب کے پیشواؤں سے کامیاب ترین پیشوا تھے۔ آپ کی کنیت ابو القاسم تھی۔ مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ کی طرف سے انسانیت کی جانب بھیجے جانے والے انبیائے کرام کے سلسلے کے آخری نبی ہیں جن کو اللہ نے اپنے دین کی درست شکل انسانوں کی جانب آخری بار پہنچانے کے لیے دنیا میں بھیجا۔ انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دنیا کی تمام مذہبی شخصیات میں سب سے کامیاب شخصیت تھے۔ 570ء (بعض روایات میں 571ء) مکہ میں پیدا ہونے والے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر قرآن کی پہلی آیت چالیس برس کی عمر میں نازل ہوئی۔ ان کا وصال تریسٹھ (63) سال کی عمر میں 632ء میں مدینہ میں ہوا، مکہ اور مدینہ دونوں شہر آج کے سعودی عرب میں حجاز کا حصہ ہیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف کے والد کا انتقال ان کی دنیا میں آمد سے قریبا چھ ماہ قبل ہو گیا تھا اور جب ان کی عمر چھ سال تھی تو ان کی والدہ حضرت آمنہ بھی اس دنیا سے رحلت فرما گئیں۔ عربی زبان میں لفظ "محمد" کے معنی ہیں 'جس کی تعریف کی گئی'۔ یہ لفظ اپنی اصل حمد سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے تعریف کرنا۔ یہ نام ان کے دادا حضرت عبدالمطلب نے رکھا تھا۔ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو رسول، خاتم النبیین، حضور اکرم، رحمۃ للعالمین اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے القابات سے بھی پکارا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی آپ کے بہت نام و القاب ہیں۔ نبوت کے اظہار سے قبل حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے چچا حضرت ابوطالب کے ساتھ تجارت میں ہاتھ بٹانا شروع کر دیا۔ اپنی سچائی، دیانت داری اور شفاف کردار کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عرب قبائل میں صادق اور امین کے القاب سے پہچانے جانے لگے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنا کثیر وقت مکہ سے باہر واقع ایک غار میں جا کر عبادت میں صرف کرتے تھے اس غار کو غار حرا کہا جاتا ہے۔ یہاں پر 610ء میں ایک روز حضرت جبرائیل علیہ السلام (فرشتہ) ظاہر ہوئے اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اللہ کا پیغام دیا۔ جبرائیل علیہ السلام نے اللہ کی جانب سے جو پہلا پیغام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پہنچایا وہ یہ ہے۔
الفوز الکبیر فی اصول التفسیر اصول تفسیر کی ایک مشہور و معروف کتاب ہے جسے قطب الدین احمد بن شاہ عبد الرحیم یعنی شاہ ولی اللہ دہلوی ( 1176ھ / 1703-1762ء) نے تحریر کی ہے۔ یہ کتاب فنِّ اصولِ تفسیر میں نہایت ہی جامع اور مختصر اور نادر اصول وضوابط سے پُر ہے۔ عمومی خیال ہے کہ فہمِ قرآن کے حوالے سے تنہا اس کتاب کا مطالعہ، بہت سی اصول تفسیر کی کتابوں اور تفسیروں کے مطالعے سے بے نیاز کر دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کتاب عام طور پر مدارس اسلامیہ میں داخلِ نصاب ہے اور بڑی اہمیت کے ساتھ اب تک پڑھائی جاتی ہے۔ یہ کتاب اصولِ تفسیر سے رغبت رکھنے والوں کے لیے نہایت ہی مفید ہے۔ یہ کتاب نہ صرف برّ صغیر؛ بلکہ عرب اور افریقی و یورپی ممالک میں بھی متعارف ہے۔ شاہ صاحب نے اصلًا یہ کتاب فارسی زبان میں لکھی تھی؛ اِس لیے کہ اُس وقت ہندوستان میں فارسی زبان کی حیثیت مادری زبان کی سی تھی۔
متضاد مخالف؛ اُلٹ؛ اُلٹی طرف؛ دوسری جانب؛ ضِد؛ مُقابل؛ بِالمقابل؛ متقابل؛ متضاد؛ ایک لفظ جو مفہوم کے لحاظ سے دوسرے کی ضد ہو؛ متضاد المعنی۔ ایسے الفاظ جو مماثل وضع میں لیکن ایک دوسرے کے مخالف، برعکس یا یکسر مختلف ہوں۔ اسے 'بائنری' تعلق سے تعبیر کیا جاتا ہے کیوں کہ متضاد جوڑوں میں دو رکن ہوتے ہیں۔ باہم مخالف تعلق کو متضاد کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ایک جوڑے میں مخالف لفظ کو عام طور پر اس سوال کے ذریعہ طے کیا جا سکتا ہے کہ الف کے برعکس کیا ہے؟ جیسے:
احمد خان متقی بن محمد متقی (17 اکتوبر 1817ء – 27 مارچ 1898ء) المعروف سر سید، سر سید احمد خان انیسویں صدی کے ایک ہندوستانی مسلم نظریۂ عملیت کے حامل ، مصلح اور فلسفی تھے۔ ان کو برصغیر میں مسلم قوم پرستی کا سرخیل مانا جاتا ہے اور دو قومی نظریہ کا خالق تصور کیا جاتا ہے، جو آگے چل کر تحریک پاکستان کی بنیاد بنا۔
خلافت راشدہ کے خاتمے کے بعد عربوں کی قائم کردہ دو عظیم ترین سلطنتوں میں سے دوسری سلطنت خلافت عباسیہ ہے۔ خاندان عباسیہ کے دو بھائیوں السفاح اور ابو جعفر المنصور نے 750ء (132ھ) خلافت عباسیہ کو قائم کیا اور 1258ء (656ھ) میں اس کا خاتمہ ہو گیا۔ یہ خلافت بنو امیہ کے خلاف ایک تحریک کے ذریعے قائم ہوئی۔ تحریک نے ایک عرصے تک اپنے مقاصد کے حصول کے لیے جدوجہد کی اور بالآخر بنو امیہ کو شکست دینے کے بعد بر سر اقتدار آگئی۔
الناصر صلاح الدین یوسف بن ایوب (عربی: الناصر صلاح الدين يوسف بن أيوب؛ (کردی: سەلاحەدینی ئەییووبی)) جنہیں عام طور پر صلاح الدین ایوبی کے نام سے جانا جاتا ہے ایوبی سلطنت کے بانی تھے۔ وہ نہ صرف تاریخ اسلام بلکہ تاریخ عالم کے مشہور ترین فاتحین و حکمرانوں میں سے ایک ہیں۔ وہ 1138ء میں موجودہ عراق کے شہر تکریت میں پیدا ہوئے۔ ان کی زیر قیادت ایوبی سلطنت نے مصر، شام، یمن، عراق، حجاز اور دیار بکر پر حکومت کی۔ صلاح الدین ایوبی کو بہادری، فیاضی، حسن و خلق، سخاوت اور بردباری کے باعث نہ صرف مسلمان بلکہ مسیحی بھی عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ صلاح الدین ایوبی اپنے کارناموں میں نور الدین زنگی پر بھی بازی لے گئے۔ ان میں جہاد کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا اور بیت المقدس کی فتح ان کی سب سے بڑی خواہش تھی۔ صلاح الدین کو فاتح بیت المقدس کہا جاتا ہے جنھوں نے 1187ء میں یورپ کی متحدہ افواج کو عبرتناک شکست دے کر بیت المقدس ان سے آزاد کروا لیا تھا۔ صلاح الدین ایوبی 1193ء میں دمشق میں انتقال کر گئے ، انھوں نے اپنی ذاتی دولت کا زیادہ تر حصہ اپنی رعایا کو دے دیا۔ وہ مسجد بنو امیہ سے متصل مقبرے میں مدفون ہیں۔ مسلم ثقافت کے لیے اپنی اہمیت کے ساتھ ساتھ ، صلاح الدین کا کرد ، ترک اور عرب ثقافت میں نمایاں طور پر احترام کیا جاتا ہے۔ انھیں اکثر تاریخ کی سب سے مشہور کرد شخصیت کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔
فضا حسین ، جسے اپنے اسٹیج نام حریم شاہ کے نام سے جانا جاتا ہے پاکستانی ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا کی مشہور اور متنازع شخصیت ہے جو ٹک ٹوک پر اپنی ویڈیوز کی وجہ سے مشہور ہوئیں۔ وفاقی وزیر شیخ رشید سے ان کے ساتھ گفتگو کی ویڈیو ریکارڈنگ منظر عام پر آنے کے بعد انھیں اپنی گفتگو پر شدید رد عمل کا سامنا کرنا پڑا۔
قرآن کریم، قرآن مجید یا قرآن شریف (عربی: القرآن الكريم) دین اسلام کی مقدس و مرکزی کتاب ہے جس کے متعلق ہم اسلام کے پیروکاروں کا اعتقاد ہے کہ یہ کلام الہی ہے اور اسی بنا پر یہ انتہائی محترم و قابل عظمت کتاب ہے۔ اسے ہمارے پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی کے ذریعے اتارا گیا۔ یہ وحی اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتے حضرت جبرائیل علیہ السلام لاتے تھے جیسے جیسے قرآن مجید کی آیات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوتیں آپ صلی علیہ وآلہ وسلم اسے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو سناتے اور ان آیات کے مطالب و معانی سمجھا دیتے۔ کچھ صحابہ کرام تو ان آیات کو وہیں یاد کر لیتے اور کچھ لکھ کر محفوظ کر لیتے۔ ہم مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن ہر قسم کی تاریف بیان کرتا ہے پاک ہے محفوظ ہے، قرآن میں آج تک کوئی کمی بیشی نہیں ہو سکی اور اسے دنیا کی واحد محفوظ افضل کتاب ہونے کی حیثیت حاصل ہے، جس کا حقیقی مفہوم تبدیل نہیں ہو سکا اور تمام دنیا میں کروڑوں کی تعداد میں چھپنے کے باوجود اس کا متن ایک جیسا ہے اور اس کی تلاوت عبادت ہے۔ اور صحف ابراہیم، زبور اور تورات و انجیل کے بعد آسمانی کتابوں میں یہ سب سے آخری اور افضل کتاب ہے اور سابقہ آسمانی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اب اس کے بعد کوئی آسمانی کتاب نازل نہیں ہوگی۔ قرآن کی فصاحت و بلاغت کے پیش نظر اسے لغوی و مذہبی لحاظ سے تمام عربی کتابوں میں اعلیٰ ترین مقام حاصل ہے۔ نیز عربی زبان و ادب اور اس کے نحوی و صرفی قواعد کی وحدت و ارتقا میں بھی قرآن کا خاصا اہم کردار دکھائی دیتا ہے۔ چنانچہ قرآن کے وضع کردہ عربی زبان کے قواعد بلند پایہ عرب محققین اور علمائے لغت مثلاً سیبویہ، ابو الاسود الدؤلی اور خلیل بن احمد فراہیدی وغیرہ کے یہاں بنیادی ماخذ سمجھے گئے ہیں۔
سانحۂ کربلا یا واقعہ کربلا یا کربلا کی جنگ 10 محرم 61ھ (بمطابق 9 یا 10 اکتوبر، 680ء) کو، موجودہ عراق میں کربلا کے مقام پر پیش آیا۔ یہ جنگ نواسہ رسول حضرت امام حسین ابن علی، ان کے حامیوں اور رشتہ داروں کے ایک چھوٹے سے گروہ، حسین ابن علیؓ کے ساتھ 72 ساتھی، کچھ غلام، 22 اہل بیت کے جوان اور خاندان نبوی کی کچھ خواتین و بچے شامل تھے اور اموی ظالم حکمران یزید اول کی ایک بڑی فوج کے مابین ہوئی۔جس کو حسین ابنِ علی نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔جس میں اموی خلیفہ یزید اول کی فوج نے پیغمبر اسلام محمد کے نواسے حسین ابن علی اور ان کے رفقا کو لڑائی میں شہید کیا، حرم حسین کے خیموں کو لوٹ لیا گیا اور بالآخر آگ لگا دی گئی۔ عمر بن سعد کی فوج نے کربلا کے صحرا میں مقتولین کی لاشیں چھوڑ دیں۔ بنی اسد کے لوگوں نے لاشوں کو تین دن بعد دفن کیا۔ واقعہ کربلا کے بعد، حسین ابن علی کی فوج سے وابستہ متعدد خواتین اور بچوں کو گرفتار کر کے قید کر دیا گیا، بازار اور ہجوم والے مقامات سے گذر کر ان کی توہین کی گئی اور انھیں یزید ابن معاویہ کے دربار شام بھیج دیا گیا تھا۔ جنگ میں شہادت کے بعد حضرت امام حسین کو سید الشہدا کے لقب سے پکارا جاتا ہے۔
پاکستان (رسمی نام: اسلامی جمہوریۂ پاکستان - انگریزی میں: PAKISTAN ) جنوبی ایشیا کے شمال مغرب وسطی ایشیا اور مغربی ایشیا کے لیے دفاعی طور پر اہم حصے میں واقع ایک خود مختار اسلامی ملک ہے۔ یہ دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے، جس کی آبادی تقریباً 242 ملین ہے اور دنیا کی دوسری سب سے بڑی مسلم آبادی والا ملک ہے۔ 881,913 مربع کلومیٹر (340,509 مربع میل) کے ساتھ یہ دنیا کا تینتیسواں (33) بڑے رقبے والا ملک ہے۔ اس کے جنوب میں 1046 کلومیٹر (650 میل) کی ساحلی پٹی ہے جو بحیرہ عرب سے ملتی ہے۔پاکستان کے مشرق ميں بھارت، شمال مشرق ميں چین اور مغرب ميں افغانستان اور ايران واقع ہيں۔ پاکستان کو شمال میں ایک تنگ واخان راہداری تاجکستان سے جدا کرتی ہے جبکہ اس ملک کی سمندری سرحدی حدود عمان کے سمندری حدود سے بھی ملتی ہیں۔ موجودہ پاکستان کے علاقے قدیم ترین دنیا میں وہ علاقے تھے جن میں موہنجوداڑو اور انڈس سولائیزیشن مہر گڑھ ٹیکسلا پراچین سنسکرت دور اور دیگر زیرتحقیق آرک لوجیکل سائٹس جیسے قندھارا تہذیب و تمدن تھی۔ اس علاقے پر پراچین راجپوت ایرانی یونانی عرب، بدھ مت، سکھ، مغل، ہن سفید اور ترک حملہ آوروں کی حکومت بھی رہی ہے۔ یہ علاقہ مختلف سلطنتوں جیسے چندر گپت موریا، ہخامنشی سلطنت عربوں کی خلافت امویہ، مغلیہ سلطنت، درانی سلطنت، سکھ سلطنت اور برطانوی راج کا اہم حصہ رہا ہے۔ اس کے بعد محمد علی جناح کی قیادت میں تحریک پاکستان کامیاب ہوئی اور 14 اگست 1947ء کو ہندوستان کے مشرق اور مغرب میں دو حصوں میں ایک آزاد اور خودمختار اسلامی ریاست قائم ہوئی۔ پاکستان نے اپنا پہلا آئین 1956ء میں بنایا جو 1958 میں منسوخ کر دیا گیا اس کے بعد 1962 میں پاکستان کا دوسرا آئین پیش کیا گیا جو 1969 میں جزل یحیی خان نے منسوخ کر دیا.
مذکر: نر اسم ہوتا ہے جیسےمرد، باپ، بیل، بیٹا جبکہ مونث: مادہ اسم ہوتا ہے جیسے عورت، ماں، گائے، بیٹی بے جان اسماء میں نر اور مادہ کا کوئی فرق نہیں ہوتا اس لیے ان کی تذکیر و تانیث کا تمام تر درارومدار اہل زبان پر ہوتا ہے جیسے قلم کو اہل زبان مذکر بولتے ہیں اور گیند کو مونث اسی لیے ایسے اسماء کی تذکیر و تانیث کو غیر حقیقی تذکیر و تانیث کہا جاتا ہے۔ جبکہ حقیقی تذکیر و تانیث وہ ہوتی ہے جس میں نر کے مقابلے میں مادہ اور مادہ کے مقابلے میں نر ہو جانداروں میں کیوں کہ قدرتی طور پر نر اور مادہ کا فرق موجود ہوتا ہے اس لیے اس لیے ان کی تذکیرو تانیث حقیقی ہوتی ہے جیسے مرد، عورت۔ بیل، گائے وغیرہ
مکمل ابو عبد اللہ عثمان بن عفان اموی قرشی (47 ق ھ - 35 ھ / 576ء – 656ء) اسلام کے تیسرے خلیفہ، داماد رسول اور جامع قرآن تھے۔ عثمان غنی سابقین اسلام میں شامل اور عشرہ مبشرہ میں سے تھے، ان کی کنیت ذو النورین ہے کیونکہ انھوں نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دو صاحبزادیوں سے نکاح کیا تھا، پہلے رقیہ بنت محمد رضی اللہ عنہا سے کیا، پھر ان کی وفات کے بعد ام کلثوم بنت محمد سے نکاح کیا۔ عثمان غنی پہلے صحابی ہیں جنھوں نے سرزمین حبشہ کی ہجرت کی، بعد میں دیگر صحابہ بھی آپ کے پیچھے حبشہ پہنچے۔ بعد ازاں دوسری ہجرت مدینہ منورہ کی جانب کی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عثمان غنی پر مکمل اعتماد اور ان کی فطری حیاء و شرافت اور جو انھوں نے اپنے مال کے ذریعہ اہل ایمان کی نصرت کی تھی، اس کی انتہائی قدر کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیگر صحابہ کے ساتھ ان کو بھی جنت اور شہادت کی موت کی خوش خبری دی۔ سنہ 23ھ (644ء) میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد مشورہ سے آپ کو خلافت کی ذمہ داری سونپی گئی، جسے انھوں نے 644ء سے 656ء تک انجام دی۔ ان کے عہد خلافت میں جمع قرآن مکمل ہوا، مسجد حرام اور مسجد نبوی کی توسیع ہوئی اور قفقاز، خراسان، کرمان، سیستان، افریقیہ اور قبرص وغیرہ فتح ہو کر سلطنت اسلامی میں شامل ہوئے۔ نیز انھوں نے اسلامی ممالک کے ساحلوں کو بازنطینیوں کے حملوں سے محفوظ رکھنے کے لیے اولین مسلم بحری فوج بھی بنائی۔ آپ کا زمانہ خلافت بارہ سال کے عرصہ پر محیط ہے، جس میں آخری کے چھ سالوں میں کچھ ناخوشگوار حادثات پیش آئے، جو بالآخر ان کی شہادت پر منتج ہوئے۔ سنہ 35ھ ، 12 ذی الحجہ، بروز جمعہ بیاسی سال کی عمر میں انھیں ان کے گھر میں قرآن کریم کی تلاوت کے دوران میں شہید کر دیا گیا اور مدینہ منورہ کے قبرستان جنت البقیع میں دفن ہوئے۔ خلیفۂ سوم سیدنا عثمان غنی کا تعلق قریش کے معزز قبیلے سے تھا۔ سلسلہ نسب عبد المناف پر رسول اللہ ﷺ سے جا ملتا ہے ۔ سیدنا عثمان ذوالنورین کی نانی نبی ﷺ کی پھوپھی تھیں۔ آپ کا نام عثمان اور لقب ” ذوالنورین “ ہے۔ اسلام قبول کرنے والوں میں آپ ” السابقون الاولون “ کی فہرست میں شامل تھے، آپ نے خلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیق کی دعوت پر اسلام قبول کیا تھا۔ ۔ حضور ﷺ پر ایمان لانے اور کلمہ حق پڑھنے کے جرم میں سیدنا عثمان غنی کو ان کے چچا حکم بن ابی العاص نے لوہے کی زنجیروں سے باندھ کر دھوپ میں ڈال دیا، کئی روز تک علاحدہ مکان میں بند رکھا گیا، چچا نے آپ سے کہا کہ جب تک تم نئے مذہب (اسلام ) کو نہیں چھوڑو گے آزاد نہیں کروں گا۔ یہ سن کر آپ نے جواب میں فرمایا کہ چچا ! اللہ کی قسم میں مذہب اسلام کو کبھی نہیں چھوڑ سکتا اور اس ایمان کی دولت سے کبھی دستبردار نہیں ہوں گا۔ سیدنا عثمان غنی اعلیٰ سیرت و کردار کے ساتھ ثروت و سخاوت میں بھی مشہور تھے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جنت میں ہر نبی کا ساتھی و رفیق ہوتا ہے میرا ساتھی ”عثمان “ ہوگا۔ سیدنا عثمان کے دائرہ اسلام میں آنے کے بعد نبی اکرم نے کچھ عرصہ بعد اپنی بیٹی سیدہ رقیہ رضى الله عنها کا نکاح آپ سے کر دیا۔ جب کفار مکہ کی اذیتوں سے تنگ آکر مسلمانوں نے نبی کریم ﷺ کی اجازت اور حکم الٰہی کے مطابق ہجرت حبشہ کی تو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ بھی مع اپنی اہلیہ حضرت رقیہ رضى اللہ عنہا حبشہ ہجرت فرما گئے، جب حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا تو نبی ﷺ نے دوسری بیٹی حضرت ام کلثوم رضى اللہ عنہا کوآپ کی زوجیت میں دے دی۔ اس طرح آپ کا لقب ” ذوالنورین“ معروف ہوا۔مدینہ منورہ میں پانی کی قلت تھی جس پر سیدنا عثمان نے نبی پاک ا کی اجازت سے پانی کا کنواں خرید کر مسلمانوں کے ليے وقف فرمایا۔اور اسی طرح غزوئہ تبوک میں جب رسول اللہ ﷺ نے مالی اعانت کی اپیل فرمائی تو سیدنا عثمان غنی نے تیس ہزار فوج کے ایک تہائی اخراجات کی ذمہ داری لے لی۔جب رسول اکرم ﷺ نے زیارت خانہ کعبہ کا ارادہ فرمایا تو حدیبیہ کے مقام پر یہ علم ہوا کہ قریش مکہ آمادہ جنگ ہیں ۔ اس پر آپ ﷺ نے سیدنا عثمان غنی کو سفیر بنا کر مکہ بھیجا۔ قریش مکہ نے آپ کو روکے رکھا تو افواہ پھیل گئی کہ سیدنا عثمان کو شہید کر دیا گیا ہے ۔ اس موقع پر چودہ سو صحابہ سے نبی ﷺ نے بیعت لی کہ سیدنا عثمان غنی کا قصاص لیا جائے گا ۔ یہ بیعت تاریخ اسلام میں ” بیعت رضوان “ کے نام سے معروف ہے ۔ قریش مکہ کو جب صحیح صورت حال کا علم ہوا تو آمادۂ صلح ہو گئے اور سیدنا عثمان غنی واپس آگئے۔خلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیق کی مجلس مشاورت کے آپ اہم رکن تھے ۔ امیر المومنین سیدنا عمر کی خلافت کا وصیت نامہ آپ نے ہی تحریر فرمایا ۔ دینی معاملات پر آپ کی رہنمائی کو پوری اہمیت دی جاتی ۔ سیدنا عثمان غنی صرف کاتب وحی ہی نہیں تھے بلکہ قرآن مجید آپ کے سینے میں محفوظ تھا۔ آیات قرآنی کے شان نزول سے خوب واقف تھے ۔ بطور تاجر دیانت و امانت آپ کا طرۂ امتیاز تھا۔ نرم خو تھے اور فکر آخرت ہر دم پیش نظر رکھتے تھے ۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے عثمان کی حیا سے فرشتے بھی شرماتے ہیں ، تبلیغ و اشاعت اسلام کے ليے فراخ دلی سے دولت صرف فرماتے۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اے عثمان اللہ تعالٰی تجھے خلافت کی قمیص پہنائیں گے ، جب منافق اسے اتارنے کی کوشش کریں تو اسے مت اتارنا یہاں تک کہ تم مجھے آملو۔ چنانچہ جس روز آپ کا محاصرہ کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ مجھ سے حضور نے عہد لیا تھا ( کہ منافق خلافت کی قمیص اتارنے کی کوشش کریں گے تم نہ اتارنا ) اس ليے میں اس پر قائم ہوں اور صبر کر رہا ہوں ۔ 35ھ میں ذی قعدہ کے پہلے عشرہ میں باغیوں نے سیدنا عثمان ذوالنورین کے گھر کا محاصرہ کیا اور آپ نے صبر اور استقامت کا دامن نہیں چھوڑا، محاصرہ کے دوران آپ کا کھانا اور پانی بند کر دیا گیا تقریبا چالیس روز بھوکے پیاسے 82 سالہ مظلوم مدینہ سیدنا عثمان کو جمعة المبارک 18ذو الحجہ کو انتہائی بے دردی کے ساتھ روزہ کی حالت میں قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہوئے شہید کر دیا گیا۔ ، .
ابوبکر صدیق عبد اللہ بن ابو قحافہ عثمان تیمی قرشی (573ء—634ء) اسلام کے پہلے خلیفہ راشد، عشرہ مبشرہ میں شامل، خاتم النبین محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اولین جانشین، صحابی، خسر اور ہجرت مدینہ کے وقت رفیق سفر تھے۔ اہل سنت و الجماعت کے یہاں ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ انبیا اور رسولوں کے بعد انسانوں میں سب سے بہتر، صحابہ میں ایمان و زہد کے لحاظ سے سب سے برتر اور ام المومنین عائشہ بنت ابوبکر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے محبوب تر تھے۔ عموماً ان کے نام کے ساتھ صدیق کا لقب لگایا جاتا ہے جسے حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی تصدیق و تائید کی بنا پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دیا تھا۔
مزدلفہ (عربی: مزدلفة) حج سے متعلقہ ایک کھلی جگہ ہے۔ یہ منی کے جنوب مشرق میں منی اور عرفات کے درمیان میں واقع ہے۔ ہر سال مسلمان حج کے موقع پر 9 ذوالحجہ کو مغرب کے بعد عرفات سے یہاں آتے ہیں اور رات کھلے آسمان کے نیچے بسر کرتے ہیں۔ یہاں سے ہی شیطانوں یا جمرات کو مارنے کے لیے کنکریاں بھی چنی جاتی ہیں۔ اگلے دن فجر کے بعد حجاج منی کے لیے روانہ ہو جاتے ہیں۔
اللہ کے ذاتی نام 'اللہ' کے علاوہ اللہ کے ننانوے صفاتی نام مشہور ہیں۔ انھیں کہا جاتا ہے۔ ان میں سے بیشتر قرآن میں موجود ہیں اگرچہ قرآن میں ننانوے کی تعداد مذکور نہیں مگر یہ ارشاد ہے کہ اللہ کو اچھے اچھے ناموں سے پکارا جائے۔ روایات میں بکثرت نیچے دیے گئے ننانوے صفاتی نام ملتے ہیں جن کے ساتھ ان کا اردو ترجمہ بھی درج کیا جا رہا ہے۔
مسجد نبوی دنیا کی سب سے بڑی مساجد میں سے ایک ہے اور اسلام کا دوسرا مقدس ترین مقام ہے۔ مکہ مکرمہ میں مسجد حرام مسلمانوں کے لیے مقدس ترین مقام ہے جبکہ بیت المقدس میں مسجد اقصی اسلام کا تیسرا مقدس مقام ہے ۔ مسجد نبوی سعودی عرب کے شہر مدینہ منورہ میں واقع ہے۔ تاریخ میں مسجد نبوی میں کئی بار توسیع کی گئی جن میں خلفائے راشدین، خلافت امویہ، خلافت عباسیہ، سلطنت عثمانیہ اور آخر کار سعودی ریاست کے دور میں توسیع ہوئیں۔ سعودی دور میں اس کی سب سے بڑی توسیع 1994ء میں ہوئی تھی۔ مسجد نبوی جزیرہ نما عرب میں پہلی جگہ ہے جسے 1909ء میں برقی چراغوں کے استعمال سے روشن کیا گیا تھا۔ عمر بن عبدالعزیز کی طرف سے 91 ہجری میں توسیع کے بعد حجرہ نبوی کو مسجد میں شامل کیا گیا (جو اس وقت " پیغمبر کے حجرے" کے نام سے جانا جاتا ہے جو مسجد کے جنوب مشرقی کونے میں واقع ہے) جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، ابوبکر صدیق اور عمر بن خطاب کو دفن کیا گیا تھا، اور اس پر گنبد خضریٰ بنایا گیا تھا، یہ مسجد نبوی کے سب سے نمایاں نشانیوں میں سے ایک ہے۔ مسجد نبوی نے سیاسی اور سماجی زندگی میں ایک اہم کردار ادا کیا، کیونکہ یہ ایک سماجی مرکز، عدالت اور مذہبی درسگاہ کے طور پر کام کرتی تھی۔ مسجد نبوی مدینہ منورہ کے مرکز میں واقع ہے، جس کے ارد گرد بہت سے ہوٹل اور پرانے بازار ہیں۔ جو لوگ یہاں حج یا عمرہ کرتے ہیں وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی بھی زیارت کرتے ہیں۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مختلف روایات میں اکثر گیارہ سے تیرہ ازواج کے نام ملتے ہیں۔ جنہیں امہات المؤمنین کہا جاتا ہے یعنی مؤمنین کی مائیں۔ اس کے علاوہ انھیں ازواج مطہرات بھی کہا جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ازواج میں حضرت عائشہ کے علاوہ تمام بیوہ و مطلقہ (طلاق شدہ) تھیں اور زیادہ شادیوں کا عرب میں عام رواج تھا۔
حجاجِ کرام دس گیارہ اور بارہ تاریخ کو پتھر کے جن تین ستونوں کو باری باری کنکر مارتے ہیں ان کو ” جمرات “ یاجمار کہا جاتا ہے۔ یہ شعائر اللہ میں سے ہیں یہ منی میں تین مشہور مقام ہیں جہاں اب دیوار کی شکل میں بڑے بڑے ستون بنے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے حکم، نبی اکرم ﷺ کے طریقہ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اتباع میں ان تین جگہوں پر کنکریاں ماری جاتی ہیں۔
اسلام ایک توحیدی مذہب ہے جو اللہ کی طرف سے، حضرت محمد ﷺ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ذریعے انسانوں تک پہنچائی گئی آخری الہامی کتاب (قرآن مجيد) کی تعلیمات پر قائم ہے۔ یعنی دنیاوی اعتبار سے بھی اور دینی اعتبار سے بھی اسلام (اور مسلم نظریے کے مطابق گذشتہ ادیان کی اصلاح) کا آغاز، 610ء تا 632ء تک 23 سال پر محیط عرصے میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اللہ کی طرف سے اترنے والے الہام (قرآن) سے ہوتا ہے۔ قرآن عربی زبان میں نازل ہوا (برائے وجہ : اللسان القرآن) اور اسی زبان میں دنیا کی کل آبادی کا کوئی 24% حصہ یعنی لگ بھگ 1.6 تا 1.8 ارب افراد اس کو پڑھتے ہیں ؛ ان میں (مختلف ذرائع کے مطابق) قریباً 20 تا 30 کروڑ ہی وہ ہیں جن کی مادری زبان عربی ہے جبکہ 70 تا 80 کروڑ، غیر عرب یا عجمی ہیں جن کی مادری زبان عربی کے سوا کوئی اور ہوتی ہے۔ متعدد شخصی ماخذ سے اپنی موجودہ شکل میں آنے والی دیگر الہامی کتابوں کے برعکس، بوسیلۂ وحی، فردِ واحد (محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے منہ سے ادا ہوکر لکھی جانے والی کتاب اور اس کتاب پر عمل پیرا ہونے کی راہنمائی فراہم کرنے والی شریعت ہی دو ایسے وسائل ہیں جن کو اسلام کی معلومات کا منبع قرار دیا جاتا ہے۔
مسلم ابن عقیل (شہادت: 9 ذوالحجۃ 60ھ) علی ابن ابی طالب کے بھائی عقیل ابن ابو طالب کے بیٹے تھے یعنی حسین ابن علی کے چچا زاد بھائی تھے۔ ان کا لقب سفیر حسین اور غریبِ کوفہ (کوفہ کے مسافر) تھا۔ واقعۂ کربلا سے کچھ عرصہ پہلے جب کوفہ کے لوگوں نے حسین ابن علی کو خطوط بھیج کر کوفہ آنے کی دعوت دی تو انھوں نے مسلم ابن عقیل کو صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے کوفہ روانہ کیا۔ وہاں پہنچ کر انھیں صورت حال مناسب لگی اور انھوں نے امام حسین کو خط بھیج دیا کہ کوفہ آنے میں کوئی قباحت نہیں۔ مگر بعد میں یزید بن معاویہ نے عبید اللہ ابن زیاد کو کوفہ کا حکمران بنا کر بھیجا جس نے مسلم بن عقیل اور ان کے دو کم سن فرزندوں کو شہید کروا دیا۔
مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق ختم نبوت سے مراد یہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالٰیٰ کے آخری نبی اور آخری رسول ہیں۔ اللہ رب العزت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس جہاں میں بھیج کر بعثت انبیا کا سلسلہ ختم فرما دیا ہے۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ختم نبوت کا ذکر قرآن حکیم کی 100 سے بھی زیادہ آیات میں نہایت ہی جامع انداز میں صراحت کے ساتھ کیا گیا ہے
نعمان ابن ثابت بن زوطا بن مرزبان (پیدائش: 5 ستمبر 699ء– وفات: 14 جون 767ء) (فارسی: ابوحنیفه،عربی: نعمان بن ثابت بن زوطا بن مرزبان)، عام طور پر آپکو امام ابو حنیفہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ آپ سنی حنفی فقہ (اسلامی فقہ) کے بانی تھے۔ آپ ایک تابعی، مسلمان عالم دین، مجتہد، فقیہ اور اسلامی قانون کے اولین تدوین کرنے والوں میں شامل تھے۔ آپ کے ماننے والوں کو حنفی کہا جاتا ہے۔ زیدی شیعہ مسلمانوں کی طرف سے بھی آ پ کو ایک معروف اسلامی عالم دین اور شخصیت تصور کیا جا تا ہے۔ انھیں عام طور پر "امام اعظم" کہا جاتا ہے۔
مہینا، وقت کی ایک اکائی ہے، جو کیلنڈر میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کا دورانیہ چاند کی زمین کے گرد ایک مکمل گردش پر منحصر ہے۔ اسی وجہ سے انگریزی میں مہینے کے لیے استعمال ہونے والا لفظ Month، چاند کے لیے استعمال ہونے والے لفظ Moon سے مأخوذ ہے۔ چاند 29.53 دنوں میں زمین کے گرد (سورج کی نسبت سے) ایک چکر مکمل کرتا ہے جس کے لیے ماہرین فلکیات Synodic Month کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ ستاروں کی نسبت سے چاند یہ چکر 27.32 دنوں میں طے کرتا ہے جسے Sidereal Month کہا جاتا ہے۔ ۔چاند کا ستاروں کی بجائے سورج کے بنسبت زمین کے گرد زیاده دیر میں چکر طے کرنے کی وجہ زمین کا اس دوران اپنے مدار میں مزید سفر طے کرنا ہے۔ شمسی کیلنڈروں میں ایک مہینہ عمومی طور پر 30 یا 31 دنوں پر مشتمل ہوتا ہے جبکه قمری کیلنڈر میں 29 یا 30 دنوں پرمشتمل ہوتا ہے۔ اس اکائی کی شروعات مصر سے ہوئی جہاں پہلی بار چاند کی گردش کے حساب سے مصریوں نے مہینے کا تعین کیا۔
عیسیٰ ابن مریم ( عربی: عِيسَى ٱبْنُ مَرْيَمَ) ' تورات کے مطابق عیسیٰ ابن مریم ' کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ بنی اسرائیل سے خدا کے آخری نبی اور رسول ہیں اور بنی اسرائیل ( Banī Isra'īl ) کی رہنمائی کے لیے انجیل نامی کتاب کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث کیے گئے مسیحا ہیں ۔ قرآن میں، یسوع کو المسیح ( al-Masīḥ ) کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ جو معجزانہ طور پر ایک کنواری سے پیدا ہوئے، اپنے شاگردوں کے ساتھ معجزات دیکھاتے تھے،اور اللہ نے معجزانہ طور پر ان کو بچایا زندہ آسمان پر اٹھا لیا۔ یہودی مذہبی مُقتَدِرَہ نے مسترد کر دیا ہے، لیکن صلیب پر مرنے کے طور پر نہیں (اور نہ دوبارہ زندہ کیے جانے پر) ، بلکہ جیسا کہ خدا نے ان کو معجزانہ طور پر بچایا اور آسمان پر زندہ اٹھا لیا۔ قرآن واضح طور پر اور بار بار اس خیال کو مسترد کرتا ہے کہ عیسیٰ کو ( یہودی یا رومی ) حکام نے نہ قتل کیا تھا اور نہ وہ مصلوب کیے گئے تھے۔ قرآن نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو عظیم ترین نبیوں میں شمار کیا ہے اور ان کا ذکر مختلف القابات سے کیا ہے۔ عیسیٰ کی نبوت سے پہلے یحییٰ علیہ السلام کی نبوت ہے اور محمد ﷺ کی جانشینی ہے، جن کے بعد کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ عیسیٰ نے احمد کا نام استعمال کرکے پیشین گوئی کی تھی۔ یسوع مسیح کے بارے میں اسلام میں مختلف قسم کی متغیر تشریحات موجود ہیں۔ قرآن کی مرکزی دھارے کی تشریحات میں آرتھوڈوکس عیسائی فلسفہ الہی ہائپوسٹاسس کے بارے میں کرسٹولوجی کے نظریاتی تصورات کا فقدان ہے، اس لیے بہت سے لوگوں کے لیے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن مسیح کو مسترد کرتا ہے کیونکہ یسوع مسیح کی الوہیت کے نظریے کے مسیحی نقطہ نظر میں ایک یہودی مسیحی خدا کے اوتار ہونے کے ناطے انسان یا انسانی جسم میں خدا کے لفظی بیٹے کے طور پر، جیسا کہ یہ ظاہری طور پر متعدد آیات میں یسوع کے خدا کے طور پر الہامی انسانیت کے نظریے کی تردید کرتا ہے اور اس بات پر بھی تاکید کرتا ہے کہ یسوع مسیح نے ذاتی طور پر خدا ( خدا باپ ) ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اصل پیغام ( taḥrīf ) میں ان کے زندہ ہونے کے بعد تبدیلی کی گئی تھی۔ قرآن مجید میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توحید پر زور دیا گیا ہے۔ اسلام میں تمام انبیا کی طرح، عیسیٰ کو بھی رسول کہا جاتا ہے، جیسا کہ انھوں نے تبلیغ کی کہ ان کے پیروکاروں کو ' صراط المستقیم ' اختیار کرنا چاہیے۔ اسلامی روایت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بہت سارے معجزات سے منسوب کیا گیا ہے۔ روایتی اسلامی تعلیمات میں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ عیسیٰ مسیح امام مہدی کے ساتھ دوسری آمد میں مسیح الدجال ('جھوٹا مسیح') کو قتل کرنے کے لیے واپس آئیں گے، جس کے بعد قدیم قبائل یاجوج ماجوج ( Yaʾjūj Maʾjūj ) کے ساتھ۔ منتشر ہو جائیں گے.
حضرت آدم علیہ السلام ، اللہ کے اولین پیغمبر ہیں۔ ابوالبشر (انسان کا باپ) اور صفی اللہ (خدا کا برگزیدہ) لقب۔ آپ کے زمانے کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔تمام آسمانی کتابوں کے ماننے والوں کاعقیدہ ہے کہ اس رُوئے زمین پر اللہ جل شانہ‘نے حضرت آدم علیہ السلام کو تخلیق کیا۔حضرت آدم ؑ کی پیدائش کا احوال کچھ یوں ہے :اللہ تعالی نے تمام زمین سے ایک مٹھی مٹی لے کر آدم علیہ السلام کو بنایا۔اس لیے زمین کے لحاظ سے لوگ سرخ ،سفید ، سیاہ اور درمیانے درجے میں ،اسی طرح اچھے ،برے ، نرم اور سخت طبیعت والے اور کچھ درمیانے درجے کے پیدا ہوئے(روایت : حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ )۔ اللہ تعالی نے جبریل علیہ السلام کو زمین میں مٹی لانے کے لیے بھیجا تو زمین نے عرض کی کہ میں تجھ سے اللہ کی پناہ میں آتی ہوں کہ تو مجھ سے کوئی کمی کرے یا مجھے عیب ناک کر دے تو وہ مٹی لیے بغیر ہی واپس چلے گئے اور عرض کی :اے اللہ!اس نے تیری پناہ میں آنے کی درخواست کی تو میں نے اس کو پناہ دے دی۔ اللہ تعالیٰ نے پھر حضرت میکائل کو بھیجا ،زمین نے اس سے بھی پناہ مانگی تو اس نے بھی پناہ دے دی اور حضرت جبریل کی طرح واقعہ بتا دیا پھر اللہ نے موت کے فرشتوں کو بھیجا۔زمین نے اس سے بھی پناہ مانگی تو اس نے کہا میں اس سے اللہ کی پناہ میں آتا ہوں کہ میں اللہ کے حکم کی تعمیل کیے بغیر واپس چلا جاؤں اور اس سے مختلف جگہوں سے سرخ ،سیاہ اور سفید مٹی اکٹھی کی جس کی بنا پر آدم علیہ السلام کی اولاد بھی مختلف رنگوں والی ہے ۔( روایت سدی رحمۃ اللہ بحوالہ ابن عباسؓ وابن مسعودؓ )وہ مٹی لے کرعرش پر چلے گئے اور اس کو پانی کے ساتھ تر کیا۔پانی سے تر کرنے سے وہ چپکنے والی لیس دار مٹی بن گئی۔ اس پر باری تعالیٰ نے فرشتوں کو فرمایا :میں مٹی سے انسان بنانے والا ہوں۔جب میں اس کو اچھی طرح بنا لوں اور اس میں اپنی پیدا کردہ روح ڈال دوں تو اس کے لیے سجدہ کرتے ہوئے گر جانا۔اللہ تعالی ٰنے علم کے ساتھ آدم علیہ السلام کا ان پر شرف اور مرتبہ واضح کیا۔حضرت ابن عباسؓ نے کہا ان سے مراد وہی نام ہیں جو لوگوں کے ہاں مشہور و معروف ہیں۔انسان ، جانور ، زمین ، سمندر ، پہاڑ ، اونٹ ، گدھا وغیرہ۔مجاہد نے کہا :پیالہ اور ہنڈیا وغیرہ کے نا م سکھائے،حتی کہ پھسکی اور گوز کا نام بھی بتا یا۔ مجاہد نے مزید کہا:ہر جانور ،پرند ، چرند اور ہر ضرورت کی ہر چیز کے نام سکھائے۔سعید بن جبیر ، قتادہ وغیرہ نے بھی اسی طرح کہا ہے۔الربیع نے کہا:فرشتوں کے نام سکھائے۔عبد الرحمن بن زید نے کہا :ان کی اولاد کے نام سکھائے۔اللہ نے آدم علیہ السلام کو ہر چھوٹی اور بڑی چیز اور ان کے افعال کے نام سکھائے ۔ حضرت انس بن مالکؓ نے رسول اللہﷺ سے روایت کرتے ہوئے فرمایا :قیامت کے دن ایمان والے اکٹھے ہوں گے اور کہیں گے کاش ہم اپنے رب کے پاس سفارش کرنے والا طلب کریں ،پھر وہ آدم کے پاس آئیں گے اور کہیں گے اے آدم!
موسیٰ علیہ السلام اللہ کے برگزیدہ پیغمبروں میں سے ایک ہیں۔ آپ کے بھائی ہارون علیہ السلام بھی اللہ کے برگزیدہ نبیوں میں سے ایک ہیں۔یہ 1520 قبلِ مسیح کی بات ہے۔ مِصر پر فرعون بادشاہ’’مرنفتاح ثانی‘‘ کی حکومت تھی۔بعض نے اُس کا نام’’ منفتاح‘‘ بھی لکھا ہے اور وہ والد، رعمسیس کے بڑھاپے کی وجہ سے عملاً حکم ران بنا ہوا تھا۔ خدائی کا دعوے دار یہ بادشاہ بڑا ظالم و جابر تھا۔ اُس نے’’ بنی اسرائیل‘‘ کو اپنا غلام بنا رکھا تھا، حالاں کہ وہ حضرت یوسف کے زمانے سے وہاں رہائش پزیر تھے۔ حضرت یوسفؑ نے اپنے والد، حضرت یعقوبؑ اور اپنے بھائیوں کے لیے ایک قطعۂ زمین اُس وقت کے فرعون بادشاہ ’’ریان بن ولید‘‘ سے حاصل کیا تھا۔ حضرت یعقوبؑ کی یہی نسل’’بنی اسرائیل‘‘ کہلائی، جو مِصر میں خُوب پَھلی پُھولی۔ یہ لوگ حضرت یعقوبؑ کے دین کے پیروکار تھے، چناں چہ اُس وقت اللہ کے نزدیک یہ سب سے بہتر جماعت تھی۔ انھوں نے فرعون کو سجدہ کرنے اور اُسے اپنا ربّ ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ اسی وجہ سے بادشاہ اور اُس کے حواری ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھاتے اور اُن سے گھٹیا کام کرواتے۔ یاد رہے، فرعون کسی خاص شخص کا نام نہیں، بلکہ مِصر کے بادشاہوں کا لقب تھا۔ تاریخی حقائق کے مطابق، 31فراعنہ خاندانوں نے مِصر پر یکے بعد دیگرے حکومت کی۔ سب سے آخری خاندان نے 332قبلِ مسیح میں سکندرِ اعظم کے ہاتھوں شکست کھائی۔
الاندلس (انگریزی: Al-Andalus، عربی: الأندلس، کلمہ نویسی al-ʼAndalus; (ہسپانوی: Al-Ándalus); (پرتگالی: Al-Andalus); (اراغونی: Al-Andalus); (کاتالان: Al-Àndalus); بربر: Andalus یا Wandalus) یورپ میں موجود ایک سابقہ مسلم خطہ تھا جو ہسپانیہ، پرتگال اور جدید فرانس پر مشتمل تھا، جسے مسلم ہسپانیہ (Muslim Spain) یا اسلامی آئبیریا (Islamic Iberia) بھی کہا جاتا ہے۔ یہ خطہ جزیرہ نما آئبیریا میں تھا۔
سیدہ عائشہ بنت ابی بکر (رضی اللہ عنہا) (پیدائش: 614ء– وفات: 13 جولائی 678ء) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زوجہ ہیں۔ آپ کو اُم المومنین کے خطاب سے یاد کیا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد عہد خلفائے راشدین میں آپ کی شخصیت بہت نمایاں نظر آتی ہے۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد 47 سال بقید حیات رہیں اور یہ تمام وہ عرصہ ہے جس میں ابتدائی مسلم فتوحات ہوئیں، مختلف ممالک مملکت اسلامیہ میں داخل ہوئے۔ علم الحدیث میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایات کے بعد سب سے زیادہ روایاتِ حدیث کا ذخیرہ آپ سے ہی روایت کیا گیا ہے۔ آپ عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور عہد خلفائے راشدین کی عینی شاہد بھی تھیں اور مزید برآں آپ نے خلافت امویہ کے ابتدائی 17 سال بھی ملاحظہ فرمائے۔ آپ کا انتقال مدینہ منورہ میں سنہ 678 ء میں ہوا۔ آپ کے مناقب و فضائل کثیر ہیں جس سے آپ کی عظمت و شان جلالت مسلم خواتین پر نمایاں ہے۔جنگ جمل کے حوالے سے یہ بات معلوم ہونا بھی مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ کچھ احادیث اور تاریخی کتابوں کے واقعات میں راویوں پر علما اسلام کی طرف سے جرح بھی کی گئی ہے اور بہت سے راویوں کے حالات معلوم نہیں ہیں۔مسلمان امت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اہل بیت اطھار کے بارے میں صحیح عقائد قرآن وسنت اور مستند و صحیح احادیث نبوی سے لیتے
اندلس شمالی افریقہ کے بالکل سامنے یورپ کے جنوب مغربی کنارے پر ایک حسین و جمیل جزیرہ نما ہے۔ آج کل اس میں پرتگال اور سپین دو ممالک واقع ہیں۔ کسی زمانے میں یہ ملک مغربی دنیا کے عظیم ترین ممالک میں شمار ہوتا تھا۔ مسلمانوں کی فتح سے پہلے یہاں کی حکومت سلطنت روم کی ہمسر تھی۔ مسلمانوں کے دور میں یہ پورے یورپ کے لیے روشنی کا مینار تھا۔
سورۃ، سورت یا سورہ عربی زبان کا لفظ ہے، قرآن مجید میں 114 سورتیں ہیں۔ ہر سورۃ آیات پر مشتمل ہوتی ہے۔ سورتوں کو مکی اور مدنی حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ مکی سورتیں وہ ہیں جو مدینہ کی طرف ہجرت سے پہلے مکہ شہر میں نازل ہوئیں ان کی تعداد 86 ہے۔ مکی دور کی سورتوں کا تعلق قیامت، جزا، یہودیت اور عیسائیت جیسے موضوعات پر ہے۔ مدنی سورتیں وہ ہیں جو ہجرت کے بعد نازل ہوئیں ان سورتوں کی تعداد 28 ہے۔ مدنی دور کی سورتیں ذاتی معاملات، معاشرے اور ریاست کے قوانین پر زیادہ توجہ دیتی ہیں۔ قرآن مجید کی نویں سورت سورہ توبہ کے علاوہ ہر سورت بسم اللہ الرحمن الرحیم (" اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے " ) سے شروع ہوتی ہے۔ انتیس سورتیں حروف مقطعات یعنی انوکھے حروف کے مجموعے وہ ہیں جن کے معانی نامعلوم ہیں سے شروع ہوتی ہیں۔ قرآن مجید کی پہلی سورت سورہ فاتحہ ہے۔ علمائے شرعی نے قرآن کی سورتوں کو ان کی لمبائی کے لحاظ سے تین حصوں میں تقسیم کیا ہے، یعنی سات لمبی سورتیں البقرہ، آل عمران، النساء، المائدہ، الانعام، الاعراف اور التوبہ۔ المئون جو سات لمبے دن ہیں اس کو اس لیے کہا گیا کہ اس کی ہر سورت سو آیات سے زیادہ یا اس کے قریب ہے۔ پہلے دور کے مسلمانوں نے قرآن کی سورتوں کے نام استعمال کی تعدد کے مطابق رکھے تھے، یہ بات مشہور ہے کہ عربوں نے بہت سے ناموں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے نام کسی نادر یا عجیب چیز سے لیے ہیں جس کی کوئی خصوصیت یا اہمیت ہو۔ جیساکہ اسی مناسبت سے قرآن کی سورتوں کے نام دیے گئے جیسے سورۃ البقرہ میں گائے کے قصے کے ذکر کی وجہ سے یہ نام رکھا گیا اور سورۃ النساء کو عورتوں کے متعلق بہت سے احکام مذکور ہونے کی وجہ سے یہ نام دیا گیا ہے۔ سورۃ الانعام کو اس کے حالات کی تفصیل کی وجہ سے کہا گیا ہے اور سورۃ الاخلاص بھی خالص توحید وجہ سے کہی گئی ہے۔ قرآن کی پہلی سورت سورہ فاتحہ ہے، لمبی سورتیں قرآن کے شروع میں اور چھوٹی سورتیں آخر میں جمع کی گئی ہیں، اس لیے سورتوں کی ترتیب ان کی تاریخ کے مطابق نہیں ہے۔ تمام سورتیں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سے شروع ہوتی ہیں۔ سورۃ التوبہ جو جنگ کے دوران میں نازل ہوئی تھی اس لیے اس سورت میں بسم اللہ شروع میں نہیں پڑھی جاتی۔ یہ سورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور مشرکین کے درمیان عہد کو توڑنے کے لیے نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے علی ابن ابی طالب کے پاس بھیجا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں پڑھ کر سنایا اور اس پر بسم اللہ نہیں کہی جیسا کہ عربوں کا رواج تھا۔ لیکن اس کے باوجود قرآن میں بسم اللہ کی تعداد 114 تک پہنچ جاتی ہے جو سورتوں کی تعداد کے برابر ہے۔ بسم اللہ سورۃ النمل کی آیت نمبر 30 میں جیسا کہ نبی اور بادشاہ سلیمان شیبہ کی ملکہ بلقیس کو اپنے خطوط شروع کرتے تھے۔ إِنَّهُ مِن سُلَيْمَانَ وَإِنَّهُ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ۔
جنگ احد 17 شوال 3ھ (23 مارچ 625ء) میں مسلمانوں اور مشرکینِ مکہ کے درمیان احد کے پہاڑ کے دامن میں ہوئی۔ مشرکین کے لشکر کی قیادت ابوسفیان کے پاس تھی اور اس نے 3000 سے زائد افراد کے ساتھ مسلمانوں پر حملہ کی ٹھانی تھی جس کی باقاعدہ تیاری کی گئی تھی۔ مسلمانوں کی قیادت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کی۔ اس جنگ کے نتیجہ کو کسی کی فتح یا شکست نہیں کہا جا سکتا کیونکہ دونوں طرف شدید نقصان ہوا اور کبھی مسلمان غالب آئے اور کبھی مشرکین لیکن آخر میں مشرکین کا لشکر لڑائی ترک کر کے مکہ واپس چلا گیا۔
نمرود شنعار کا بادشاہ تھا، جس کا قصہ بائبل میں بھی درج ہے۔ اس بادشاہ کا نام نمرود بن کنعان بن سام بن نوح تھا اس کا پائے تخت بابُل تھا اس کے نسب میں کچھ اختلاف بھی ہے، حضرت مجاہد فرماتے ہیں دنیا کی مشرق مغرب کی سلطنت رکھنے والے چار ہوئے جن میں سے دو مومن اور دو کافر، حضرت سلیمان بن داؤد اور حضرت ذوالقرنین اور کافروں میں نمرود اور بخت نصر مفسرین کا بیان ہے کہ ”نمرود بن کنعان ”بڑا جابر بادشاہ تھا۔ سب سے پہلے اسی نے تاج شاہی اپنے سر پر رکھا۔ اس سے پہلے کسی بادشاہ نے تاج نہیں پہنا تھا یہ لوگوں سے زبردستی اپنی پرستش کراتا تھا کاہن اور نجومی اس کے دربار میں بکثرت اس کے مقرب تھے۔ نمرود نے ایک رات یہ خواب دیکھا کہ ایک ستارہ نکلا اور اس کی روشنی میں چاند، سورج وغیرہ سارے ستارے بے نور ہو کر رہ گئے۔ کاہنوں اور نجومیوں نے اس خواب کی یہ تعبیر دی کہ ایک فرزند ایسا ہو گا جو تیری بادشاہی کے زوال کا باعث ہو گا۔ یہ سن کر نمرود بے حد پریشان ہو گیا اور اس نے یہ حکم دے دیا کہ میرے شہر میں جو بچہ پیدا ہو وہ قتل کر دیا جائے۔ اور مرد عورتوں سے جدا رہیں۔ چنانچہ ہزاروں بچے قتل کر دیے گئے۔ مگر تقدیراتِ الٰہیہ کو کون ٹال سکتا ہے؟ اسی دوران میں حضرت ابراہیم علیہ السلام پیدا ہو گئے اور بادشاہ کے خوف سے ان کی والدہ نے شہر سے دور پہاڑ کے ایک غار میں ان کوچھپا دیا اسی غار میں چھپ کر ان کی والدہ روزانہ دودھ پلا دیا کرتی تھیں۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ سات برس کی عمر تک اور بعضوں نے تحریر فرمایا کہ سترہ برس تک آپ اسی غار میں پرورش پاتے رہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا توکل۔... روایت ہے کہ جب نمرود نے اپنی ساری قوم کے روبرو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں پھینک دیا تو زمین و آسمان کی تمام مخلوقات چیخ مار مار کر بارگاہ ِ خداوندی میں عرض کرنے لگیں کہ خداوند! تیرے خلیل آگ میں ڈالے جا رہے ہیں اور اُن کے سوا زمین میں کوئی اور انسان تیری توحید کا علمبردار اور تیرا پرستار نہیں، لہٰذا تو ہمیں اجازت دے کہ ہم ان کی امداد و نصرت کریں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ابراہیم میرے خلیل ہیں اور میں اُن کا معبود ہوں تو اگر حضرت ابراہیم تم سبھوں سے فریاد کر کے مدد طلب کریں تو میری اجازت ہے کہ سب ان کی مدد کرو۔ اور اگر وہ میرے سوا کسی اور سے کوئی مدد طلب نہ کریں تو تم سب سن لو کہ میں ان کا دوست اور حامی و مددگار ہوں۔ لہٰذا تم اب اُن کا معاملہ میرے اوپر چھوڑ دو۔ اس کے بعد آپ کے پاس پانی کا فرشتہ آیا اور کہا کہ اگر آپ فرمائیں تو میں پانی برسا کر اس آگ کو بجھا دوں۔ پھر ہوا کا فرشتہ حاضر ہوا اور اس نے کہا کہ اگر آپ کا حکم ہو تو میں زبردست آندھی چلا کر اس آگ کو اڑا دوں تو آپ نے ان دونوں فرشتوں سے فرمایا کہ مجھے تم لوگوں کی کوئی ضرورت نہیں۔ مجھ کو میرا اللہ کافی ہے اور وہی میرا بہترین کارساز ہے وہی جب چاہے گا اور جس طرح اس کی مرضی ہو گی میری مدد فرمائے گا۔ کون سی دعاپڑھکرآپ آگ میں گئے:۔ ایک روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ جب کافروں نے آپ کو آگ میں ڈالا تو آپ نے اُس وقت یہ دعا پڑھی لَا اِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ سُبْحَانَکَ لَکَ الْحَمْدُ وَلَکَ الْمُلْکُ لاَ شَرِیْکَ لَکَ اور جب آپ آگ کے شعلوں میں داخل ہو گئے تو حضرت جبریل علیہ السلام تشریف لائے اور کہا کہ اے خلیل اللہ !
فعل وہ کلمہ جس کے معانی میں کسی کام کا کرنا یا ہونا پایا جائے اور جس میں تینوں زمانوں ماضی، حال، مستقبل میں سے کوئی ایک زمانہ موجود ہو۔ فعل کی زمانے کے لحاظ سے تین اقسام ہیں۔ فعل ماضی وہ فعل جس میں کسی کام کا کرنا، ہونا یا سہنا گذرے ہوئے زمانے میں پایا جائے۔ فعل حال وہ فعل جس میں کسی کام کا کرنا، ہونا یا سہنا موجودہ زمانے میں پایا جائے۔ فعل مستقبل ایسا فعل جس میں کسی کام کا کرنا، ہونا یا سہنا آنے والے زمانے میں پایا جائے۔
عید الفطر ایک اہم مذہبی تہوار ہے جسے پوری دنیا میں بسنے والے مسلمان رمضان المبارک کا مہینہ ختم ہونے پر مناتے ہیں۔ عید کے دن مسلمانوں کو روزہ رکھنے سے منع کیا گیا ہے۔ مسلمان رمضان کے 29 یا 30 روزے رکھنے کے بعد یکم شوال کو عید مناتے ہیں۔ کسی بھی قمری ہجری مہینے کا آغاز مقامی مذہبی رہنماؤں کے چاند نظر آجانے کے فیصلے سے ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک میں عید مختلف دنوں میں منائی جاتی ہے۔ اس کے برعکس کچھ ممالک ایسے ہیں جو سعودی عرب کی پیروی کرتے ہیں۔ عید الفطر کے دن نماز عید (دو رکعت 6 زائد تکبیروں)کے ساتھ پڑھی جاتی ہے، جسے جامع مسجد یا کسی کھلے میدان یعنی عیدگاہ میں ادا کیا جاتا ہے۔ اس میں 6 زائد تکبیریں ہوتی ہیں (جن میں سے 3 پہلی رکعت کے شروع میں ثنا کے بعد اور فاتحہ سے پہلے اور بقیہ 3 دوسری رکعت کے رکوع میں جانے سے پہلے ادا کی جاتی ہیں)۔ مسلمان کا عقیدہ ہے کہ اسلام میں انھیں حکم دیا گیا ہے کہ "رمضان کے آخری دن تک روزے رکھو۔ اور عید کی نماز سے پہلے صدقہ فطر ادا کرو"۔
ابوہریرہ ؓ نے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ” قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک دو جماعتیں آپس میں جنگ نہ کر لیں ۔ دونوں میں بڑی بھاری جنگ ہو گی ۔ حالانکہ دونوں کا دعویٰ ایک ہی ہو گا اور قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک تقریباً تیس جھوٹے دجال پیدا نہ ہو لیں ۔ ان میں ہر ایک کا یہی گمان ہو گا کہ وہ اللہ کا نبی ہے.
اسلام میں حج کے آغاز کی تاریخ انتہائی قدیم ہے۔ اسلامی روایات کے مطابق الله کے حکم سے حضرت ابراہیم نے اپنی بیوی ہاجرہ اور ان کے بیٹے اسماعیل علیہ السلام كو قدیم مکہ کے صحرا میں خوراک اور پانی کے ساتھ تنہا چھوڑ دیا تھا۔ مکہ اس وقت ایک ويران جگہ تھی- پانی کی تلاش میں ہاجرہ نے صفا اور مروہ کے دو پہاڑوں کے درمیان سات بار دوڑ کر چکر لگایا، آخری چکر میں اسماعیل كو زمین پر ایڑی رگڑتے اور اس کے نیچے پانی كا چشمہ نکلتے ديكها- پانی کی موجودگی کے وجہ سے قبائل نے مکہ میں آباد ہونا شروع کر دیا۔ قبیلہ جرہم سب سے پہلے پہنچا۔ بڑے ہو كر اسماعیل نے اس قبیلہ میں شادى كی اور ان کے ساتھ رہنا شروع كرديا- قرآن کے مطابق حضرتِ ابراہیم اور حضرتِ اسماعیل علیہما السلام نے مل کر ايک گھر کی بنیاد ڈالی جو اکثر مفسرین کے مطابق کعبہ ہے۔ کعبہ کے مشرقی کونے میں حجر اسود کو رکھنے کے بعد ابراہیم علیہ السلام كو وحی آئی جس میں اللہ نے ان سے کہا كہ جاؤ اور لوگوں کو حج کے لیے بلاو۔ شبلی نعمانی کے مطابق حضرت ابراہیم کا تعمیر کردہ یہ گهر 27 فٹ بلند، 96 فٹ لمبا اور 66 فٹ چوڑا تها۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مدینہ ہجرت کے بعد یہاں کی آبادی (خصوصاً یہود) کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جو میثاق مدینہ کے نام سے موسوم ہے۔ یہ پہلا بین الاقوامی تحریری معاہدہ ہے۔ بعض مورخین میگنا کارٹا کو پہلا بین الاقوامی معاہدہ قرار دیتے ہیں حالانکہ میثاق مدینہ 622ء میں ہوا جبکہ میگنا کارٹا 600 سالوں بعد 1215ء میں انگلستان کے شاہ جان اول کے زمانے میں ہوا۔
سلطنت عثمانیہ (یا خلافت عثمانیہ 1517ء سے 1924ء تک) (عثمانی ترکی زبان: "دولت عالیہ عثمانیہ"، ترکی زبان: Osmanlı Devleti) سنہ 1299ء سے 1922ء تک قائم رہنے والی ایک مسلم سلطنت تھی جس کے حکمران ترک تھے۔ اپنے عروج کے زمانے میں (16 ویں – 17 ویں صدی) یہ سلطنت تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی اور جنوب مشرقی یورپ، مشرق وسطٰی اور شمالی افریقہ کا بیشتر حصہ اس کے زیر نگیں تھا۔ اس عظیم سلطنت کی سرحدیں مغرب میں آبنائے جبرالٹر، مشرق میں بحیرۂ قزوین اور خلیج فارس اور شمال میں آسٹریا کی سرحدوں، سلوواکیہ اور کریمیا (موجودہ یوکرین) سے جنوب میں سوڈان، صومالیہ اور یمن تک پھیلی ہوئی تھی۔ مالدووا، ٹرانسلوانیا اور ولاچیا کے باجگذار علاقوں کے علاوہ اس کے 29 صوبے تھے۔
فتح مکہ (جسے فتح عظیم بھی کہا جاتا ہے) عہد نبوی کا ایک غزوہ ہے جو 20 رمضان سنہ 8 ہجری بمطابق 10 جنوری سنہ 630 عیسوی کو پیش آیا، اس غزوے کی بدولت مسلمانوں کو شہر مکہ پر فتح نصیب ہوئی اور اس کو اسلامی قلمرو میں شامل کر لیا گیا۔ اس غزوہ کا سبب قریش مکہ کی جانب سے اس معاہدہ کی خلاف ورزی تھی جو ان کے اور مسلمانوں کے درمیان میں ہوا تھا، یعنی قریش مکہ نے اپنے حلیف قبیلہ بنو دئل بن بکر بن عبد منات بن کنانہ (اس کی ایک خاص شاخ جسے بنو نفاثہ کہا جاتا ہے) نے بنو خزاعہ کے خلاف قتل و غارت میں مدد کی تھی اور چونکہ بنو خزاعہ مسلمانوں کا حلیف قبیلہ تھا اس لیے اس حملے کو قریش مکہ کی جانب سے اس معاہدہ کی خلاف ورزی سمجھا گیا جو مسلمانوں اور قریش کے درمیان میں ہوا تھا، یہ معاہدہ "صلح حدیبیہ" کے نام سے معروف ہے۔ اسی معاہدہ کی خلاف ورزی کے جواب میں حضرت محمدﷺ بن عبد اللہ نے ایک عظیم الشان لشکر تیار کیا جو دس ہزار مجاہدین پر مشتمل تھا؛ لشکر آگے بڑھتا رہا یہاں تک کہ مکہ پہنچ گیا اور بغیر کسی مزاحمت کے مکہ میں پر امن طریقے سے داخل ہو گیا سوائے ایک معمولی سی جھڑپ کے جس کے سپہ سالار خالد بن ولید کو اس وقت سامنا ہوا جب قریش کی ایک ٹولی نے عکرمہ بن ابی جہل کی قیادت میں مسلمانوں سے مزاحمت کی اور پھر خالد بن ولید کو ان سے قتال کرنا پڑا جس کے نتیجے میں بارہ کفار مارے گئے اور باقی بھاگ گئے، جبکہ دو مسلمان بھی شہید ہوئے۔
محمد علی جناح پیدائشی نام، محمد علی جناح بھائی، 25 دسمبر 1876ء – 11 ستمبر 1948ء) کے نامور وکیل، سیاست دان اور بانی پاکستان تھے۔ محمد علی جناح 1913ء سے لے کر پاکستان کی آزادی 14 اگست 1947ء تک آل انڈیا مسلم لیگ کے سربراہ رہے، پھر قیام پاکستان کے بعد اپنی وفات تک، وہ ملک کے پہلے گورنر جنرل رہے۔ سرکاری طور پر پاکستان میں آپ کو قائدِ اعظم یعنی سب سے عظیم رہبر اور بابائے قوم یعنی قوم کا باپ بھی کہا جاتا ہے۔ جناح کا یومِ پیدائش پاکستان میں قومی تعطیل کے طور پر منایا جاتا ہے۔
مرزا رفیع نام پیدائش مابین 1118ھ و 1120ھ مطابق 1706ء و 1708ء بزرگوں کا پیشہ سپہ گری تھا۔ باپ سبیل تجارت ہندوستان وارد ہوئے تھے سوداؔ پہلے سلیمان علی خاں و داؤدبعد کو شاہ حاتمؔ کے شاگرد ہوئے خان آرزو کی صحبت سے بھی فائدے حاصل کیے۔ خصوصاً اردو میں شعر گوئی انھیں کے مشورے سے شروع کی۔ محمد شاہ بادشاہ کے زمانے میں ان کی شاعری عروج پر تھی کئی روسا کے ہاں ان کی قدر ہوتی تھی۔ خصوصاً بسنت خاں خواجہ سرا و مہربان خان زیادہ مہربان تھے۔ جب احمد شاہ ابدالی اور مرہٹوں کے حملوں سے دہلی تباہ و برباد ہو گئی تو سوداؔ نے باہر کا رخ کیا۔1134ھ مطابق1721ء میں عمادالملک کے پاس متھرا گئے۔ پھر اسی سال فرخ آباد میں نواب مہربان خاں امید کے یہاں تقریباً22برس رہے۔ وہاں سے 1182ھ ،1770میں نواب کے انتقال پر شجاع الدولہ کے زمانے میں فیض آباد پہنچے پانچ سال بعد جب آصف الدولہ تخت نشیں ہوئے اور اپنا پایۂ تخت لکھنؤ میں منتقل کیا تو یہ بھی ان کے ہمراہ لکھنؤ آ گئے یہاں ان کی زندگی با فراغت بسر ہوئی چھ ہزار (6000)روپے سالانہ مقرر تھے۔ تقریباً 76برس کی عمر میں 4رجب (جمادی الثانی) 1195ھ1781میں انتقال ہوا۔ مصحفی فخر الدین اور قمرالدین منتؔ نے تاریخیں کہیں۔ ان کی کلیات میں 43قصیدے رؤسا اور ائمہ اہل بیت وغیر ہ کی مدح میں ہیں ان کے علاوہ ہجویں ،مراثی، مثنویاں، رباعیاں، مستزاد، قطعات، تاریخیں پہیلیاں، و اسوحت وغیرہ سب چیزیں موجود ہیں،نثر میں ایک تذکرہ اردو شعرا، کا لکھا تھا جواب نا پید ہے۔ فارسی نثر میں ایک رسالہ عبرت الغافلین فاخر یکسن کی کارستانیوں کے جواب میں لکھا یہ چیزیں اس زمانے کے معیار تنقید شعر دکھانے کے لیے اہم چیز ہے ایک اور رسالہ سبیل ہدایت تقی کے مرثیے پر لکھا فارسی کا بھی ایک چھوٹا دیوان موجود ہے۔ ’’سودا کا غزل گوئی میں کوئی خاص رنگ نہیں ہے وہ اس میدان میں طر ح طرح سے طبع آزمائی کرتا ہے غزل کی جان صفائی زبان اور سادگی بیان ہے۔ سوداؔ نے غزل میں اس کا بہت کم خیال رکھا ہے اس نے غزل میں فارسی کے مشہور اساتذہ نظیریؔ صائب اور سلیم و کلیم کار نگ اختیار کیا۔ یہ شعرا صاحب طرز ہوئے ہیں ان کی خصوصیات اردو میں آسانی اور سہولت سے نہیں نبھ سکتی تھیں۔ اور خصوصاً ایسے زمانے میں جب کہ اردو ابتدائی اور سیال حالت میں تھی اور اس کی تشکیل ہو رہی تھی۔ اس لیے سوداؔ نے غزلوں میں قصیدوں کی زبان استعمال کیہے جس میں عربی فارسی ترکیبوں کی بہتات ہے اور قصیدے کی طرح غزلوں میں بھی سنگلاخ زمینیں اختیار کی ہیں یہی وجہ ہے کہ غزل کے مضامین کے اصل جوہر کو پیچیدہ اور کسی قدر مشکل طرز نے چھپا دیا اور عام مقبولیت سے محروم کر دیا جو لوگ سوداؔ کے اس انداز کو سہولت سے قبول نہیں کرسکتے تھے، انھوں نے اس کی غزل کو قصیدے کے مقابلے میں پست کہہ دیا ہے۔ سوداؔ نے خود اس طرف اشارہ کیا ہے۔ وہ جو کہتے ہیں کہ سوداؔ کا قصیدہ ہے خوب ان کی خدمت میں لیے میں یہ غزل جاؤں گا سوداؔ کو تم سمجھتے تھے کہہ نہ سکے گا یہ غزل آفریں ایسے وہم پر صدقے میں اس گمان کے آفریں ایسے وہم پر صدقے میں اس گمان کے سوداؔ کی غزل گوئی کے متعلق یہ غلط فہمی دراصل اس کے طرز بیان کی وجہ سے پیدا ہوئی۔ اسی زمانے میں میرؔ جیسا بلند پایہ غزل گو استاد موجود تھا جس کی صاف و سلیس زبان میں نغمہ سرائی نے خاص و عام کو گرویدہ بنالیا تھا وہ نہایت مترنم بحریں بھی استعمال کرتا تھا ان بحروں میں اس کی جو غزلیں ہیں وہ خاص طور سے بہت دلچسپ ہیں اور خاص و عام کی زبان پر جاری سوداؔ اور میر کی غزل گوئی کا جو مقابلہ و موازنہ کیا جاتا ہے اس نے بھی سوداؔ کی غزل کے حق میں بہت سی غلط فہمیاں پیدا کردی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اس کی غزل کی طرف بہت کم توجہ کی جاتی ہے لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ غزل میں میرؔ و سوداؔ کا موازنہ اصولاً صحیح نہیں ہو سکتا۔ میرؔ کی الم پرست طبیعت کو سوداؔ کے ہمہ گیر مزاج سے کوئی مناسبت نہیں میرؔ کا ایک خاص رنگ ہے۔ اس کی دنیا ہی الگ موازنہ کی خاطر اسے کسی اردو کے شاعر کے مقابلے میں لاکھڑا کرنا اس کی توہین ہے ‘‘ عبد السلام کے نزدیک سوداؔ کے کلام پر عمومی حیثیت سے جو رائے آزاد نے دی ہے وہ صائب ترین ہے اور اس پر کسی مزید اضافے کی ضرورت نہیں آزادؔ لکھے ہیں۔ ’’اہل سخن کا اتفاق ہے کہ مرزا اس فن میں مسلم الثبوت تھے وہ اسی طبیعت لے کر آئے تھے جو شعر اور فن انشا ہی کے واسطے پیدا ہوئی تھی۔ ان کا کلام کہتا ہے کہ دل کا کنول ہر وقت کھلا رہتا تھا۔ اس پر سب رنگوں میں ہم رنگ اور ہر رنگ میں اپنی ترنگ جب دیکھو طبیعت شورش سے بھری اور جوش و خروش سے لبریز نظم کی ہر فرع میں طبع آزمائی کی ہے اور کہیں رکے نہیں چند صنعتیں خاص ہیں جن سے کلام ان کا جملہ شعرا سے مناز ہوتا ہے اول یہ کہ زبان پر حاکمانہ قدرت کھتے ہیں کلام کا زور مضمون کی نزاکت سے ایسا دست و گریباں ہے جیسے آگ کے شعلے میں گرمی اور روشنی بندش کی چستی اور ترکیب کی درستی سے لفظوں کو درد لست کے ساتھ پہلو بہ پہلو جڑتے ہیں گویا ولایتی طمنچے کی چاپیں چڑھی ہوئی ہیں اور یہ خاص ان کا حصہ ہے چنانچہ جب ان کے شعر میں سے کچھ بھول جائیں تو جب تک وہی لفظ وہاں نہ رکھے جائیں شعر مزا ہی نہیں دیتا خیالات نازک اور مضامین تازہ باندھتے ہیں مگر اس باریک نقاشی پر ان کی فصاحت آئینے کا کا م دیتی ہے تشبیہ و استعارے ان کے ہاں ہیں مگر اس قدر کہ جتنا کھانے میں نمک یا گلاب کے پھول پر رنگ رنگینی کے پردے میں مطلب اصلی کو کم نہیں ہونے دیتے۔ ان کی طبیعت ایک ڈھنگ ک پابند نہ تھی، نئے نئے خیال اور چٹختے قافیے جس پہلو سے جمتے دیکھتے تھے جمادیتے تھے وار وہی ان کا پہلو ہوتا تھا کہ خواہ مخواہ سننے والوں کو بھلے معلوم ہوتے تھے، یازبان کی خوبی تھی کہ جو بات اس سے نکلتی تھی اس کا انداز نیا اور اچھا معلوم ہوتا تھا۔ ان کے ہمعصر استاد تھے خود اقرار کرتے تھے کہ جو باتیں ہم کاوش اور تلاش سے پیدا کرتے ہیں وہ اس شخص کو پیش پا افتادہ تھیں ۔‘‘ سوداؔ فطرتا میرؔ ودردؔ سے مختلف تھے میرؔ و درد ؔ آپ بیتی بیان کرتے ہیں۔ سوداؔ جگ بیتی اسی لیے میرؔ ودردؔ کے یہاں وحدت سے اور سوداؔ کے یہاں کثرت سوداؔ کی تماشائی نظر میں دنیا وسیع اور بوقلموں نظر آتی ہے۔ میرؔ کے یہاں محدود یک رنگ لیکن گہری سودا و میر کے فرق کلیم الدین صحیح لکھتے ہیں۔ ’’میر ؔ کی آنکھیں دل کی طرف جھکی ہوئی تھیں وہ اپنے جذبات و کوائف کے نظارے میں مستغرق رہتے تھے ایسے ہمہ تن محو کہ دنیا و مافیہا کی اکثر خبر نہ ہوتی۔ سوداؔ کی آنکھیں وا تھیں وہ دنیا کی بو قلمونی کا مشاہدہ کرتے تھے اس لیے ان کی دنیا میرؔ ودردؔ کی دنیا کی طرف محدودو تنگ نہ تھی ۔۔۔ تاثیر سے معمور اشعار سوداؔ کے اشعار میں ملتے ہیں لیکن ان کی تاثیر دل کی گریباں گیر نہیں ہوتی۔ میرؔ کا ہر لفظ ایک مستقل درد ہے اور ہر شعر ایک ناسورؔ سوداؔ کے اشعار میں یہی بات موجود نہیں اس کے اشعار میں عالم کے مختلف رخ کی تصویریں ہیں۔ سوداؔ کی تصویریں نگاہوں کو خیرہ کرتی ہیں۔ میرؔ کے شخصی جذبات کی حسرتؔ افزا تصویریں دل میں جاگزیں ہوتی ہیں ۔‘‘ سوداؔ اسی خارجی نقطۂ نظر کے باعث شعر کے ظاہری حسن پر بہت زیادہ توجہ دیتے ہیں اور واقعہ یہ ہے کہ اس حیثیت سے سوداؔ کی غزل اردو میں بہت اچھی ثابت ہوگی۔ انتخاب لفظ، بندش، ترکیب اور تشبہیوں میں بھی پختہ کاری اور ندرت موجود ہے۔ میرؔ اور دردؔ کے یہاں جو سوز و گداز ہے اس کی بجائے سوداؔ کے یہاں زور کلام اور شور بیان نظر آتا ہے اور اسی باعث غزل ان کے لیے محدود نظر آتی ہے۔ باجود ے کہ وہ رواج زمانہ سے مجبور ہیں لیکن کبھی مسلسل غزلوں اور قطعوں اور زیادہ تر قصائد کو اپنے احساسات و تجربات کی افراط کے لیے ذریعہ اظہار بناتے ہیں۔ قصائد میں سودا ؔ یہ نسبت غزل کے زیادہ آزاد ہیں ان کی ہنگامہ آرا اور پر زور طبیعت کے لیے یہ زیادہ موزوں بھی ہے۔ ان کی جودت طبع اور ان کا زور تخیئل قصائد میں وسیع تر میدان پاتا ہے۔ یہاں غزل کے قیود کی جکڑ بندیاں نہیں ہیں یہی وجہ ہے کہ غالباً یہ وسیع آزادی ان کو قصائد میں اکثر بے عناں بھی بنادیتی ہے۔ طوالت کے باعث تشبیب میں ان کی تصویرں مکمل ہونے کے باوجود بھی دھندلی نظر آتی ہیں۔ مدح اور دعا کے حصوں کوچھوڑکر جن میں رسمی مبالغہ آمیزی موجود ہے )ان کی تشبیہوں پر نظر ڈالی جائے تو تازگی شگفتگی، گرمئ تخیئل، رنگینئ جذبات، غرض کہ طرح طرح کے تنوع نظر آئیں گے ساتھ ہی فن کارانہ خصوصیات بھی اپنی جگہ پر ہیں پر شکوہ الفاظ دل کش اور نادر بندشیں، نرالی تشبیہیں اور استعارے علو خیاں کے ساتھ نزادک خیال اور پھر ان کا زور بیان جس سے بہ قول کلیم’’سامعہ مرعوب اور دماغ متحیر ہوجاتا ہے ‘‘ ان تمامچیزوں نے سوداؔ کو قصائد میں انورؔ بنادیا۔ سوداؔ ہجو گوئی میں بھی اردو میں اول درجہ رکھتے ہیں لیکن ذاتیات کا عنصر غالب ہے۔ مبالغہ آمیزی فحش کلامی بے جا طوالب اور تکرار لطف کم کردیتی ہے ورنہ بے دریغ طنز اور ظرافت کا مادہ ان میں بدرجۂ اتم موجود تھا بجائے ذاتی انتقام کے کسی عام کمزوری کو لے کر اور اپنے شکار کو اس میں مثال کے طور پر پیش کرتے تو ان کی ضرب اور بھی کاری پڑتی ظرافت کا لطف بھی دونا ہوجاتا اسی لیے جہاں کہیں تخلیقی کردار پیش کیے ہیں (مثلاً مثنوی در ہجو امیر دولت مند بخیل) وہاں تصویر زیادہ اچھی کھینچی ہے اور جہاں انھوں نے موضوع عام رکھا ہے کوئی خاص شخصیت پیش نظر ہے ۔(مثلاً قصیدۂ شہر آشوب، مخمس شہر آشوب، مثنوی در ہجر، شیدی فولاد خاں کو توال ) وہاں ان کی قوت بیانیہ اپنا موزوں ترین اسلوب اختیار کرتی ہے۔ قصیدے کی شان و شوکت کے برخلاف ایک دلکش سادگی اور روانی کے ساتھ اپنے تنوع خیال کو رنگ رنگ سے اور نہایت آزادی کے ساتھ پیش کرتے جاتے ہیں اور جزوی باتیں بھی نہیں چھوڑتے ان کے قصائد میں فارسی کا پرتو ہے لیکن ان کی ہجویں ان کے خاص اپنے ڈھنگ کی ہیں اگر وہ بیانیہ نظم پر اور زیادہ توجہ دیتے تو اردو ادب مالا مال ہوجاتا۔
نکاح متعہ (عربی : نكاح المتعة ) جسے عرف عام میں متعہ یا صیغہ کہا جاتا ہے؛ ولی (شہادت) کی موجودگی یا غیر موجودگی میں ہونے والا ایک ایسا نکاح ہے جس کی مدت (ایک روز، چند روز، ماہ، سال یا کئی سال) معین ہوتی ہے جو فریقین خود طے کرتے ہیں اور اس مدت کے اختتام پر خود بخود علیحدگی ہو جاتی ہے یا اگر مرد باقی ماندہ مدت بخش دے تب بھی عورت نکاح سے آزاد ہو جاتی ہے مگر ہر صورت میں عدت اپنی شرائط کے ساتھ پوری کرنی پڑتی ہے ؛ اور اولاد انھیں والدین سے منسوب ہو تی ہے؛ اگر فریقین چاہیں تو مدتِ اختتامِ متعہ پر علیحدگی کی بجائے اسے جاری (یا مستقل) بھی کر سکتے ہیں۔ یہ نکاح ابتدا سے اسلام میں متعدد بار جائز ہوا اور اس سے روکا گیا پھر جائز ہوا۔ تاریخی اعتبار سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات سے چند سال قبل تک اس کی موجودگی پر سنی بھی اور شیعہ بھی دونوں اتفاق کرتے ہیں۔ یعنی اس کا اصل میں حلال ہونا مسلم اور مورد اتفاق ہے مگر اکثر شیعہ اور سنی نیز دیگر فرقے اس کے حلیت باقی رہنے یا حرام ہوجانے کے بارے میں مختلف نظریات رکھتے ہیں۔
نجم الدولہ، دبیر الملک، مرزا نوشہ اسد اللہ خان غالب بہادر نظام جنگ (1797ء- 1869ء) اردو زبان کے سب سے بڑے شاعروں میں ایک سمجھے جاتے ہیں۔ یہ تسلیم شدہ بات ہے کہ 19 ویں صدی غالب کی صدی ہے۔ جبکہ 18 ویں میر تقی میر کی تھی اور 20 ویں علامہ اقبال کی۔ غالب کی عظمت کا راز صرف ان کی شاعری کے حسن اور بیان کی خوبی ہی میں نہیں ہے۔ ان کا اصل کمال یہ ہے کہ وہ زندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کو گہرائی میں جا کر سمجھتے تھے اور بڑی سادگی سے عام لوگوں کے لیے بیان کر دیتے تھے۔ غالب جس پر آشوب دور میں پیدا ہوئے اس میں انھوں نے مسلمانوں کی ایک عظیم سلطنت کو برباد ہوتے ہوئے اور باہر سے آئی ہوئی انگریز قوم کو ملک کے اقتدار پر چھاتے ہوئے دیکھا۔ غالباً یہی وہ پس منظر ہے جس نے ان کی نظر میں گہرائی اور فکر میں وسعت پیدا کی۔
علامہ شبلی نعمانی کی پیدائش اعظم گڑھ ضلع کے ایک گاؤں بندول جیراج پور میں4 /جون 1857ء کو ہوئی تھی- ابتدائی تعلیم گھر ہی پر مولوی فاروق چریاکوٹی سے حاصل کی- 1876ء میں حج کے لیے تشریف لے گئے۔ وکالت کا امتحان بھی پاس کیا اور وکالت بھی کی مگر اس پیشہ سے دلچسپی نہ ہونے کے سبب ترک کر دی۔ علی گڑھ گئے تو سرسید احمد خان سے ملاقات ہوئی، چنانچہ فارسی کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ یہیں سے شبلی نے علمی و تحقیقی زندگی کا آغاز کیا۔ پروفیسر آرنلڈ سے فرانسیسی سیکھی۔ 1892ء میں روم اور شام کا سفر کیا۔ 1898ء میں ملازمت ترک کرکے اعظم گڑھ آ گئے۔ 1913ء میں دار المصنفین کی بنیاد ڈالی۔ 1914ء میں انتقال ہوا۔
بنو امیہ قریش کا ایک ممتاز اور دولت مند قبیلہ تھا۔ اسی خاندان نے خلافت راشدہ کے بعد تقریباً ایک صدی تک ملوکیت سنبھالی اور اسلامی فتوحات کو بام عروج پر پہنچایا۔ جس کی سرحدیں ایک طرف چین اور دوسری طرف اسپین تک پھیلی ہوئی تھیں۔ البتہ مرکزی خلافت کے خاتمے کے باوجود اس خاندان کا ایک شہزادہ عبدالرحمن الداخل اسپین میں حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوا۔ جہاں 1492ء تک اموی سلطنت قائم رہی۔
“لفظ قصیدہ عربی لفظ قصد سے بنا ہے اس کے لغوی معنی قصد (ارادہ ) کرنے کے ہیں۔ گویا قصیدے میں شاعر کسی خاص موضوع پر اظہار خیال کرنے کا قصد کرتا ہے اس کے دوسرے معانی مغز کے ہیں یعنی قصیدہ اپنے موضوعات و مفاہیم کے اعتبار سے دیگر اصناف ِ شعر کے مقابلے میں وہی نمایاں اور امتیازی حیثیت رکھتا ہے جو انسانی جسم و اعضاءمیں مغز کو حاصل ہوتی ہے فارسی میں قصیدے کو چامہ بھی کہتے ہیں”۔
محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت سے قبل عرب حدیث بامعنی اخبار (مطلب اللہ کے پیغام۔کو۔اسان کر کے سمجھا دینے کے ہیں مطلب معنی اسان کرتے تھے، مثلاً وہ اپنے مشہور ایام کو احادیث سے تعبیر کرتے تھے، اسی لیے حضرت امام علی اور صحابہ کرام کا کہنا ہے کہ حدیث کی جمع احادیث ہے، لفظ حدیث کے مادہ کو جیسے بھی تبدیل کریں اس میں خبر آسان کر دینے کا مفہوم ضرور موجود ہو گا، اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے وجعلناہم احادیث، فجعلناہم احادیث، اللہ نزل احسن الحدیث کتابا متشابھا، فلیاتو حدیث مثلہ، یہ اللہ پاک نے خود قرآن مجید بہت ساری آیات میں کہا ہے حدیث ہمارے لیے قرآن مجید کے مشکل الفاظ کو آسانی سے سمجھنے اور سمجھانے والے ہمارے پیارے پیغمبر رسول صلی اللّٰہ علیہ والیہ وسلم کے امتی کو کے سمجھو دیکھو اللہ تعالیٰ نے انسان کو آسانی سے سمجھنے کے لیے سب کچھ ٹھیک ٹھیک سے قرآن حدیث فقہ معنی قرآن و حدیث محمد کی تعلیم سے سمجھایا ہے
قواعد زبان میں حرف سے مراد حروفِ ابجد کے کسی ایک رکن کی ہوتی ہے۔ یہ وہ لفظ ہے جو تنہا اپنے پورے معانی نہ دے بلکہ اسما، افعال یا دو جملوں کے ساتھ مل کر اپنے پورے معنی ظاہر کرے۔ حرف کے کام دو اسما کو ملانا، دو افعال کو ملانا، دو چھوٹے جملوں کو ملا کر ایک جملہ بنانا اور اسما اور افعال کا ایک دوسرے سے تعلق ظاہر کرنا ہے۔ استعمال کے لحاظ سے حروف کو چار بڑے گروہوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
عربی (عربی: العربية) سامی زبانوں میں سب سے بڑی زبان ہے اور عبرانی اور آرامی زبانوں سے بہت ملتی ہے۔ جدید عربی کلاسیکی یا فصیح عربی کی تھوڑی سی بدلی ہوئی شکل ہے۔ فصیح عربی قدیم زمانے سے ہی بہت ترقی یافتہ شکل میں تھی اور قرآن کی زبان ہونے کی وجہ سے زندہ ہے۔ فصیح عربی اور بولے جانے والی عربی میں بہت فرق نہیں بلکہ ایسے ہی ہے جیسے بولے جانے والی اردو اور ادبی اردو میں فرق ہے۔ عربی زبان نے اسلام کی ترقی کی وجہ سے مسلمانوں کی دوسری زبانوں مثلاً اردو، فارسی، ترکی وغیرہ پر بڑا اثر ڈالا ہے اور ان زبانوں میں عربی کے بے شمار الفاظ موجود ہیں۔ عربی کو مسلمانوں کی مذہبی زبان کی حیثیت حاصل ہے اور تمام دنیا کے مسلمان قرآن پڑھنے کی وجہ سے عربی حروف اور الفاظ سے مانوس ہیں۔ تاریخ میں عربی زبان کی اہمیّت کے سبب بہت سے مغربی زبانوں میں بھی اِس کے الفاظ وارد ہوئے ہیں۔
اردو زبان میں سینتیس حروفِ تہجی اور سینتالیس آوازیں ہیں جن میں سے بیشتر عربی سے لیے گئے ہیں اور دیگر انہی کی مختلف شکلیں ہیں۔ کچھ حروف کئی طریقوں سے استعمال ہوتے ہیں اور کچھ مخلوط حروف بھی استعمال ہوتے ہیں جو دو حروف سے مل کر بنتے ہیں۔ بعض لوگ 'ء' کو الگ حرف نہیں مانتے مگر پرانی اردو کتب اور لغات میں اسے الگ حرف کے طور پر لکھا جاتا ہے۔ مختلف الفاظ میں یہ الگ حرف کے طور پر ہی استعمال ہوتا ہے مثلاً 'دائرہ'۔ یہ بات مدِنظر رکھنا ضروری ہے کہ اردو تختی اور اردو حروف دو مختلف چیزیں ہیں کیونکہ اردو تختی میں اردو حروفِ تہجی کی کئی اشکال ہو سکتی ہیں جن کو الگ حرف کا درجہ نہیں دیا جا سکتا بلکہ وہ ایک ہی حرف کی مختلف شکلیں ہیں۔ مثلاً نون غنہ نون کی شکل ہے اور 'ھ' اور 'ہ' ایک ہی حرف کی مختلف اشکال ہیں۔ ایک اور مثال الف ممدودہ (آ) اور الف مقصورہ (ا) کی ہے جو اردو تختی میں الگ ہیں مگر اردو کا ایک ہی حرف شمار ہوتے ہیں۔
سرعت انزال جسے انگریزی میں Premature ejaculation کہاجاتاہے ایک ایسی غیر طبعی کیفیت ہے جس میں جماع یعنی ہمبستری کے دوران اندام نہانی میں دخول کرنے سے قبل یا دخول کرتے ہی مرد کا انزال ہوجاتاہے اور جماع نامکمل ہوجاتاہے ایسی قبل از وقت انزال کی حالت کو سرعت انزال کہا جاتا ہے جو مردانہ کمزوری کی ایک اہم علامت ہے۔
یہ مختصر ترین دعا ہے جو مسلمانوں کے نبی حضرت سیدنا محمّد صَلَّىٰ اللَّٰهُ عَلَيْہِ وَآلِہِ وَسَلَّمَ پر ان کے نام کے ساتھ ان کے اعلیٰ ترین درجے پر پہنچنے کے لیے الله تبارک و تعالیٰ سے کی جاتی ہے۔ اس دعا کو درودپاک کہا جاتا ہے اور اس کو لازمی طور پر نام سیدنا محمّد صَلَّىٰ للَّٰهُ عَلَيْہِ وَآلِہِ وَسَلَّمَ کے ساتھ لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔
رمی جمار یا رمی حج سے متعلقہ ایک اسلامی اصطلاح ہے۔ مسلمان دوران حج تین علامتی شیطانوں کو کنکر مارتے ہیں۔ یہ حج کا ایک رکن ہے۔ دس، گیارہ اور بارہ ذوالحجہ کو یہ عمل کیا جاتا ہے، اس میں ہر حاجی پر لازم ہے کہ تین شیطانوں کو سات سات کنکر ترتیب وار مارے۔ یہ عمل اسلام میں نبی ابراہیم علیہ السلام کی سنت کے طور پر جاری ہے۔ بعض حالات میں تیرہ ذوالحجہ کو بھی پتھر مارنے ضروری ہو جاتے ہیں۔