اردو ویکیپیڈیا کے سب سے زیادہ ملاحظہ کردہ مضامین کی فہرست۔ مزید معلومات کے لیے ۔ ۔ ۔
سانحۂ کربلا یا واقعہ کربلا یا کربلا کی جنگ 10 محرم 61ھ (بمطابق 9 یا 10 اکتوبر، 680ء) کو، موجودہ عراق میں کربلا کے مقام پر پیش آیا۔ یہ جنگ نواسہ رسول حضرت امام حسین ابن علی، ان کے حامیوں اور رشتہ داروں کے ایک چھوٹے سے گروہ، حسین ابن علیؓ کے ساتھ 72 ساتھی، کچھ غلام، 22 اہل بیت کے جوان اور خاندان نبوی کی کچھ خواتین و بچے شامل تھے اور اموی ظالم حکمران یزید اول کی ایک بڑی فوج کے مابین ہوئی۔جس کو حسین ابنِ علی نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔جس میں اموی خلیفہ یزید اول کی فوج نے پیغمبر اسلام محمد کے نواسے حسین ابن علی اور ان کے رفقا کو لڑائی میں شہید کیا، حرم حسین کے خیموں کو لوٹ لیا گیا اور بالآخر آگ لگا دی گئی۔ عمر بن سعد کی فوج نے کربلا کے صحرا میں مقتولین کی لاشیں چھوڑ دیں۔ بنی اسد کے لوگوں نے لاشوں کو تین دن بعد دفن کیا۔ واقعہ کربلا کے بعد، حسین ابن علی کی فوج سے وابستہ متعدد خواتین اور بچوں کو گرفتار کر کے قید کر دیا گیا، بازار اور ہجوم والے مقامات سے گذر کر ان کی توہین کی گئی اور انھیں یزید ابن معاویہ کے دربار شام بھیج دیا گیا تھا۔ جنگ میں شہادت کے بعد حضرت امام حسین کو سید الشہدا کے لقب سے پکارا جاتا ہے۔
یزید بن معاویہ (مکمل نام: یزید بن معاویہ بن ابوسفیان بن حرب بن امیہ الاموی الدمشقی) خلافت امویہ کا دوسرا خلیفہ تھا۔ اس کی ولادت 23 جولائی 645ء کو عثمان بن عفان کی خلافت میں ہوئی۔ اس کی ماں کا نام میسون تھا اور وہ شام کی کلبیہ قبیلہ کی مسیحی خاتون تھی، اس نے معاویہ کے بعد 680ء سے 683ء تک مسند خلافت سنبھالا۔ اس کے دور میں اس کے حکم سےسانحۂ کربلا میں نواسہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، حسین ابن علی شہید کیے گئے۔ حسین بن علی کا سر یزید کے دربار میں لے جایا گیا۔ جبکہ روایات کے مطابق، اسی نے ان کی شہادت کا حکم دیا اور عبید اللہ ابن زیاد کو خصوصی طور پر یہ ذمہ داری دی اور جب حسین بن علی کا سر اس کے سامنے آیا تو اس نے خوشی کا اظہار کیا اور ان کے اہل خانہ کو قید میں رکھا۔اسی دور میں عبد اللہ ابن حنظلہ کی تحریک کو کچلنے کے لیے مدینہ میں قتل عام ہوا اور عبد اللہ ابن زبیر کے خلاف لڑائی میں خانہ کعبہ پر سنگ باری اور آتشی گولہ باری کی گئی۔یزید نے معاویہ کی وفات کے بعد 30 برس کی عمر میں رجب 60ھ میں مسند خلافت سنبھالی۔ اس کے عہد حکومت میں عقبہ بن نافع کے ہاتھوں مغربی اقصی فتح ہوا اور مسلم بن زیاد نے بخارا اور خوارزم فتح کیا، دمشق میں ایک چھوٹی سی نہر تھی جس کی توسیع یزید نے کی تھی اس لیے اس نہر کو اس کی طرف منسوب کر
حسین بن علی بن ابی طالب ( عربی: ٱلْحُسَيْن ٱبْن عَلِيّ 10 جنوری 623 - 10 اکتوبر 680) محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نواسے اور علی ابن ابی طالب اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی فاطمہ زہرا کے بیٹے تھے۔ وہ اسلام میں ایک اہم شخصیت ہیں کیوں کہ وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے آل میں سے ہیں، اور اہل تشیع مکتبہ فکر میں تیسرے امام بھی سمجھے جاتے ہیں۔
ابوحفص عمر فاروق بن خطاب عدوی قرشی (586ء/590ء، مکہ - 6 نومبر 644ء، مدینہ) ابوبکر صدیق کے بعد مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ راشد، محمد مصطفی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سسر اور تاریخ اسلام کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک ہیں۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں، ان کا شمار علما و زاہدین صحابہ میں ہوتا تھا۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد 23 اگست سنہ 634ء مطابق 22 جمادی الثانی سنہ 13ھ کو مسند خلافت سنبھالی۔ عمر بن خطاب ایک باعظمت، انصاف پسند اور عادل حکمران مشہور ہیں، ان کی عدالت میں مسلم و غیر مسلم دونوں کو یکساں انصاف ملا کرتا تھا، عمر بن خطاب کا یہ عدل و انصاف انتہائی مشہور ہوا اور ان کے لقب فاروق کی دیگر وجوہ تسمیہ میں ایک وجہ یہ بھی بنی۔ آپ رضی اللہ عنہ کا نسب نویں پشت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے جا ملتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نویں پشت میں کعب کے دو بیٹے ہیں مرہ اور عدی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مرہ کی اولاد میں سے ہیں،جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ عدی کی اولاد میں سے ہیں۔
انا لله و انا الیہ راجعون (عربی: إِنَّا لِلَّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ) آیت استرجاع کہلاتی ہے جو قرآن میں سورۃ البقرہ کی آیت 156 سے ماخوذ ہے۔ اس کا مطلب ہے: "ہم خدا کے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔" جب مسلمان کسی کی موت یا مصیبت کی خبر سنتے ہیں تو یہ آیت پڑھتے ہیں۔ وہ اس آیت کو تعزیت کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں اور مصیبت کے وقت صبر کا مطالبہ کرتے ہیں۔
ابو القاسم محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب (12 ربیع الاول عام الفیل / اپریل 570ء یا 571ء – 12 ربیع الاول 10ھ / 8 جون 632ء) مسلمانوں کے آخری نبی ہیں۔ اہل اسلام کے نزدیک محمد تمام مذاہب کے پیشواؤں سے کامیاب ترین پیشوا تھے۔ آپ کی کنیت ابو القاسم تھی۔ مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ کی طرف سے انسانیت کی جانب بھیجے جانے والے انبیائے کرام کے سلسلے کے آخری نبی ہیں جن کو اللہ نے اپنے دین کی درست شکل انسانوں کی جانب آخری بار پہنچانے کے لیے دنیا میں بھیجا۔ انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دنیا کی تمام مذہبی شخصیات میں سب سے کامیاب شخصیت تھے۔ 570ء (بعض روایات میں 571ء) مکہ میں پیدا ہونے والے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر قرآن کی پہلی آیت چالیس برس کی عمر میں نازل ہوئی۔ ان کا وصال تریسٹھ (63) سال کی عمر میں 632ء میں مدینہ میں ہوا، مکہ اور مدینہ دونوں شہر آج کے سعودی عرب میں حجاز کا حصہ ہیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف کے والد کا انتقال ان کی دنیا میں آمد سے قریبا چھ ماہ قبل ہو گیا تھا اور جب ان کی عمر چھ سال تھی تو ان کی والدہ حضرت آمنہ بھی اس دنیا سے رحلت فرما گئیں۔ عربی زبان میں لفظ "محمد" کے معنی ہیں 'جس کی تعریف کی گئی'۔ یہ لفظ اپنی اصل حمد سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے تعریف کرنا۔ یہ نام ان کے دادا حضرت عبدالمطلب نے رکھا تھا۔ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو رسول، خاتم النبیین، حضور اکرم، رحمۃ للعالمین اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے القابات سے بھی پکارا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی آپ کے بہت نام و القاب ہیں۔ نبوت کے اظہار سے قبل حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے چچا حضرت ابوطالب کے ساتھ تجارت میں ہاتھ بٹانا شروع کر دیا۔ اپنی سچائی، دیانت داری اور شفاف کردار کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عرب قبائل میں صادق اور امین کے القاب سے پہچانے جانے لگے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنا کثیر وقت مکہ سے باہر واقع ایک غار میں جا کر عبادت میں صرف کرتے تھے اس غار کو غار حرا کہا جاتا ہے۔ یہاں پر 610ء میں ایک روز حضرت جبرائیل علیہ السلام (فرشتہ) ظاہر ہوئے اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اللہ کا پیغام دیا۔ جبرائیل علیہ السلام نے اللہ کی جانب سے جو پہلا پیغام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پہنچایا وہ یہ ہے۔
حسن بن علی بن ابی طالب (621ء–670ء) 15رمضان 3 ہجری کی شب کو مدینہ منورہ میں سورہ کوثر کی پہلی تفسیر بن کر صحن علی المرتضیٰؓ و خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا ؓ میں تشریف لائے رسولِ خداؐ کے لیے امام حسنؓ کی آمد بہت بڑی خوشی تھی کیونکہ جب مکہ مکرمہ میں رسو ل کریم ؐ کے بیٹے یکے بعد دیگرے رحلت فرماتے رہے تو مشرکین طعنے دیتے اور آپ کو بڑا صدمہ پہنچتا۔ مشرکین کو جواب کے لیے قرآن مجید میں سورۃ الکوثر نازل ہوئی جس میں آپ کوخوش خبری دی گئی ہے کہ خدا نے آپ کو کثرتِ اولاد عطا فرمائی ہے اور مقطوع النسل آپؐ نہیں ہوںگے بلکہ آپؐ کا دشمن ہوگا۔دنیا میں ہر انسان کی نسل اس کے بیٹے سے ہے لیکن کائنات کی اشرف ترین ہستی سرور کونین حضرت محمد مصطفیؐ کی نسل کا ذریعہ ان کی بیٹی حضرت فاطمہ زہراؓ یعنی امام حسن ؓ و حسین ؓ کو قرار دیا گیا۔حضرت عمر ابن خطاب ؓ اور حضرت جابر ابن عبد اللہ انصاریؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا’’ہر عورت کی اولاد کا نسب اس کے باپ کی طرف ہوتا ہے سوائے اولاد فاطمہؓ کے ،میں ہی ان کا نسب ہوں اور میں ہی ان کا باپ ہوں‘‘حضرت عمر ؓ سے یہ بھی روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ قیامت کے دن ہر نسب منقطع ہو جائے گا سوائے میرے نسب (اولاد فاطمہ )اور رشتہ کے ۔نصاری نجران کے ساتھ مباہلہ کے لیے بھی رسول خدا امام حسن و حسین ؓ کو اپنے فرزندان کے طور پر ساتھ لے کر گئے جس پر قرآن کی آیت گواہ ہے۔بحارالانور میں ہے کہ جب امام حسن ؓ سرور کائنات کی خدمت میں لائے گئے تو آنحضرت نے نوزائیدہ بچے کو آغوش میں لے کر پیار کیا اور داہنے کان میں اذان اور بائیں کان میں ا قامت فرمانے کے بعد اپنی زبان ان کے منہ میں دیدی، امام حسنؓ اسے چوسنے لگے اس کے بعدآپ نے دعاکی خدایا اس کو اور اس کی اولاد کو اپنی پناہ میں رکھنا ولادت کے ساتویں دن سرکار کائناتؐ نے خود اپنے دست مبارک سے عقیقہ فرمایا اور بالوں کو منڈوا کر اس کے ہم وزن چاندی تصدق کی ۔ اس کے بعد آنحضرت ؐ نے حضرت علیؓ سے پوچھا۔ــ’’ آپ نے اس بچہ کا کوئی نام بھی رکھا؟‘‘امیر المومنین ؓنے عرض کی ۔’’آپؐ پر سبقت میں کیسے کر سکتا تھا۔‘‘پیغمبر ؐ نے فرمایا ’’ میں بھی خدا پر کیسے سبقت کر سکتا ہوں‘‘چند ہی لمحوں کے بعد جبرائیل ؑ پیغمبر ؐ کی خدمت میں وحی لے کر آگئے اور کہا ’’ خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے کہ اس بچہ کا نام حسن ؓ رکھیے۔تاریخ خمیس میں یہ مسئلہ تفصیلاً مذکور ہے۔ ماہرین علم الانساب بیان کرتے ہیں کہ خداوند عالم نے خاتون جنت حضرت فاطمہ زہراؓ کے دونوں شاہزادوں کانام انظار عالم سے پوشیدہ رکھا تھا یعنی ان سے پہلے حسن و حسین نام سے کوئی موسوم نہ ہوا تھا۔ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ؐ کے ساتھ امام حسن ؓسے زیادہ مشابہت رکھنے والا کوئی نہیں تھا۔حضرت امام حسن ؓ رسول کریمؐ سے چہرے سے سینے تک اور امام حسین ؓ سینے سے قدموں تک رسول ؐکی شبیہہ تھے۔خداکی وحی کے بغیر کوئی کام اور کلام نہ کرنے والے رسول خدا ؐکی نواسوں سے محبت اور اللہ کے نزدیک مقام کا اندازہ اس حدیث مبارکہ سے لگایا جا سکتا ہے ۔ روایت ہے کہ رسول کریم ؐ نماز عشاء ادا کرنے کے لیے باہر تشریف لائے اور آپؐ اس وقت حضرت امام حسن اور امام حسینؓ کو گود میں اٹھائے ہوئے تھے۔ آپؐ اس وقت آگے بڑھے (نماز کی امامت فرمانے کے لیے) اور ان کو زمین پر بٹھلایا۔پھر نماز کے واسطے تکبیر فرمائی۔ آپ ؐ نے نماز کے درمیان ایک سجدہ میں تاخیر فرمائی تو میں نے سر اٹھایا تو دیکھا کہ صاحب زادے (یعنی رسول کریم ؐ کے نواسے) آپ ؐ کی پشت مبارک پر ہیں اور اس وقت آپؐ حالت سجدہ میں ہیں۔ پھر میں سجدہ میں چلا گیا جس وقت آپؐ نماز سے فارغ ہو گئے تو لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ آپؐ نے نماز کے دوران ایک سجدہ ادا فرمانے میں تاخیر کیوں فرمائی۔آپؐ نے فرمایا ایسی کوئی بات نہ تھی میرے نواسے مجھ پر سوار ہوئے تو مجھ کو (برا) محسوس ہوا کہ میں جلدی اٹھ کھڑا ہوں اور اس کی مراد (کھیلنے کی خواہش) مکمل نہ ہو۔ ۔آنحضرت ایک دن محو خطبہ تھے کہ حسنین آ گئے اور حسن کے پاؤں دامن عبامیں اس طرح الجھے کہ زمین پر گر پڑے، یہ دیکھ کر آنحضرت ؐنے خطبہ ترک کر دیا اور منبر سے اتر کر انھیں آغوش میں اٹھا لیا اور منبر پر تشریف لے جا کر خطبہ شروع فرمایا حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے کہ میں نے دیکھا کہ نبی کریم ؐ نے حضرت حسن بن علیؓ کو اپنے مبارک کندھے پر اٹھایا ہوا تھا اور آپؐ فرما رہے تھے، اے اللہ! میں اس سے محبت کرتا ہوں پس تو بھی اس سے محبت فرما۔ (بخاری، مسلم) اہل بیت سے آپ کو سب سے پیا را کون ہے؟ فرمایا ، حسن اور حسینؓ۔ آپؐ حضرت فاطمہ ؓ سے فرمایا کرتے ، میرے دونوں بیٹوں کو میرے پاس بلاؤ۔ پھرآپ ؐدونوں کو سونگھا کرتے اور انھیں اپنے ساتھ لپٹا لیا کرتے۔ (ترمذی)حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ حضورِ اکرمؐ نے فرمایا، حسن اور حسینؓ دونوں دنیا میں سے میرے دو پھول ہیں۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ؐ کا ارشاد ہے ،جس نے ان دونوں یعنی حسن وحسینؓ سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان دونوں سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا۔ حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے کہ رسول کریمؓ نے فرمایا،کیا میں تمھیں ان کے بارے میں نہ بتاؤں جو اپنے نانا نانی کے لحاظ سے سب لوگوں سے بہتر ہیں؟ کیا میں تمھیں ان کے بارے میں نہ بتاؤں جو اپنے چچا اور پھوپھی کے لحاظ سے سب لوگوں سے بہتر ہیں؟کیا میں تمھیں ان کے بارے میں نہ بتاؤں جو اپنے ماں باپ کے اعتبار سے سب لوگوں سے بہتر ہیں؟ وہ حسن اور حسینؓ ہیں سیدہ فاطمہؓ سے روایت ہے کہ وہ حضرت حسن اور حضرت حسینؓ کو رسول کریم ؐکے مرضْ الوصال کے دوران آپؐ کی خدمت میں لائیں اور عرض کی، یارسول اللہ ؐ! انھیں اپنی وراثت میں سے کچھ عطا فرمائیں۔ رسول کریم ؐ نے فرمایا، حسن میری ہیبت اور سرداری کا وارث ہے اور حسین میری جرات اور سخاوت کا وارث ہے۔ امام حسن مجتبیٰؓ نے سات سال اور کچھ مہینے تک اپنے نانا رسول خداؐ کا زمانہ دیکھا اور آنحضرتؐ کی آغوش محبت میں پرورش پائی۔ پیغمبر اکرمؐکی رحلت کے بعد جو حضرت فاطمہ زہراؓ کی شہادت سے تین سے چھ مہینے پہلے ہوئی آپ اپنے والد ماجد کے زیر تربیت آ گئے تھے۔فرزند رسول امام حسن مجتبیٰؓ اپنے والد گرامی کی شہادت کے بعد امامت کے درجے پر فائز ہوئے اس کے ساتھ خلافت اسلامیہ پر بھی متمکن ہوئے اور تقریباً چھ ماہ تک آپر امور مملکت کا نظم ونسق سنبھالا۔آپ کا عہد بھی خلفائے راشدین میں شمار کیا جاتا ہے۔امام زین العابدین ؓفرماتے ہیں کہ امام حسنؓزبردست عابد، بے مثل زاہد، افضل ترین عالم تھے آپ نے جب بھی حج فرمایاپیدل فرمایا، کبھی کبھی پابرہنہ حج کے لیے جاتے تھے آپ اکثریاد خداوندی میں گریہ کرتے تھے جب آپ وضو کرتے تھے توآپ کے چہرہ کارنگ زرد ہوجا یاکرتا تھا اورجب نمازکے لیے کھڑ ے ہوتے تھے توبیدکی مثل کانپنے لگتے تھے ۔ امام شافعیؒ لکھتے ہیں کہ امام حسن ؓ نے اکثراپناسارامال راہ خدامیں تقسیم کردیاہے اور بعض مرتبہ نصف مال تقسیم فرمایا ہے وہ عظیم و پرہیزگار تھے۔ امام حسن کے والد بزرگوار امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے 21 رمضان کو شہادت پائی اس وقت امام حسن کی عمر 37 سال چھ یوم کی تھی۔ حضرت علی کی تکفین و تدفین کے بعد عبد اللہ ابن عباس کی تحریک سے قیس ابن سعد بن عبادہ انصاری نے امام حسن کی بیعت کی اوران کے بعدتمام حاضرین نے بیعت کرلی جن کی تعداد چالیس ہزار تھی یہ واقعہ 21 رمضان 40ھ یوم جمعہ کاہے( ابن اثیر) ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کھڑے ہوکر تقریر کی اور لوگوں کو بیعت کی دعوت دی .
ابو الحسن علی بن ابی طالب ہاشمی قُرشی (15 ستمبر 601ء – 29 جنوری 661ء) پیغمبر اسلام محمد کے چچا زاد اور داماد تھے۔ ام المومنین خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے بعد دوسرے شخص تھے جو اسلام لائے۔ اور ان سے قبل ایک خاتون کے علاوہ کوئی مردو زن مسلمان نہیں ہوا۔ یوں سابقین اسلام میں شامل اور عشرہ مبشرہ، بیعت رضوان، اصحاب بدر و احد، میں سے بھی تھے بلکہ تمام جنگوں میں ان کا کردار سب سے نمایاں تھا اور فاتح خیبر تھے، ان کی ساری ابتدائی زندگی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ساتھ گذری۔ وہ تنہا صحابی ہیں جنھوں نے کسی جنگ میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تنہا نہیں چھوڑا ان کی فضیلت میں صحاح ستہ میں درجنوں احادیث ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انھیں دنیا اور آخرت میں اپنا بھائی قرار دیا اور دیگر صحابہ کے ساتھ ان کو بھی جنت اور شہادت کی موت کی خوش خبری دی۔
ابوبکر صدیق عبد اللہ بن ابو قحافہ عثمان تیمی قرشی (573ء—634ء) اسلام کے پہلے خلیفہ راشد، عشرہ مبشرہ میں شامل، خاتم النبین محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اولین جانشین، صحابی، خسر اور ہجرت مدینہ کے وقت رفیق سفر تھے۔ اہل سنت و الجماعت کے یہاں ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ انبیا اور رسولوں کے بعد انسانوں میں سب سے بہتر، صحابہ میں ایمان و زہد کے لحاظ سے سب سے برتر اور ام المومنین عائشہ بنت ابوبکر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے محبوب تر تھے۔ عموماً ان کے نام کے ساتھ صدیق کا لقب لگایا جاتا ہے جسے حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی تصدیق و تائید کی بنا پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دیا تھا۔
جنگ جمل یا جنگ بصرہ 13 جمادی الاولیٰ 36ھ (7 نومبر 656ء) کو بصرہ، عراق میں لڑی گئی۔ جنگ رسول اللہ ﷺ کے چچا زاد بھائی و داماد اور چوتھے خلیفہ راشد علی اور زوجہ رسول عائشہ، طلحہ اور زبیر کے درمیان میں لڑی گئی۔ اس جنگ میں علی کے مخالفین چاہتے تھے کہ عثمان کے خون کا بدلہ لیں جو حال ہی میں بغاوت کے نتیجے میں مخالفین کے ہاتھوں شہید کر دیے گئے تھے۔ ناگزیر جنگ کا اختتام علی کی فتح اور عائشہ کی شکست کے ساتھ ہوا، یوں پہلے فتنہ کا دوسرا باب شروع ہوا۔
ابو عبد اللہ عثمان بن عفان اموی قرشی (47 ق ھ - 35 ھ / 576ء – 656ء) اسلام کے تیسرے خلیفہ، داماد رسول اور جامع قرآن تھے۔ عثمان غنی سابقین اسلام میں شامل اور عشرہ مبشرہ میں سے تھے، ان کی کنیت ذو النورین ہے کیونکہ انھوں نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دو صاحبزادیوں سے نکاح کیا تھا، پہلے رقیہ بنت محمد رضی اللہ عنہا سے کیا، پھر ان کی وفات کے بعد ام کلثوم بنت محمد سے نکاح کیا۔ عثمان غنی پہلے صحابی ہیں جنھوں نے سرزمین حبشہ کی ہجرت کی، بعد میں دیگر صحابہ بھی آپ کے پیچھے حبشہ پہنچے۔ بعد ازاں دوسری ہجرت مدینہ منورہ کی جانب کی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عثمان غنی پر مکمل اعتماد اور ان کی فطری حیاء و شرافت اور جو انھوں نے اپنے مال کے ذریعہ اہل ایمان کی نصرت کی تھی، اس کی انتہائی قدر کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیگر صحابہ کے ساتھ ان کو بھی جنت اور شہادت کی موت کی خوش خبری دی۔ سنہ 23ھ (644ء) میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد مشورہ سے آپ کو خلافت کی ذمہ داری سونپی گئی، جسے انھوں نے 644ء سے 656ء تک انجام دی۔ ان کے عہد خلافت میں جمع قرآن مکمل ہوا، مسجد حرام اور مسجد نبوی کی توسیع ہوئی اور قفقاز، خراسان، کرمان، سیستان، افریقیہ اور قبرص وغیرہ فتح ہو کر سلطنت اسلامی میں شامل ہوئے۔ نیز انھوں نے اسلامی ممالک کے ساحلوں کو بازنطینیوں کے حملوں سے محفوظ رکھنے کے لیے اولین مسلم بحری فوج بھی بنائی۔ آپ کا زمانہ خلافت بارہ سال کے عرصہ پر محیط ہے، جس میں آخری کے چھ سالوں میں کچھ ناخوشگوار حادثات پیش آئے، جو بالآخر ان کی شہادت پر منتج ہوئے۔ سنہ 35ھ ، 12 ذی الحجہ، بروز جمعہ بیاسی سال کی عمر میں انھیں ان کے گھر میں قرآن کریم کی تلاوت کے دوران میں شہید کر دیا گیا اور مدینہ منورہ کے قبرستان جنت البقیع میں دفن ہوئے۔ خلیفۂ سوم سیدنا عثمان غنی کا تعلق قریش کے معزز قبیلے سے تھا۔ سلسلہ نسب عبد المناف پر رسول اللہ ﷺ سے جا ملتا ہے ۔ سیدنا عثمان ذوالنورین کی نانی نبی ﷺ کی پھوپھی تھیں۔ آپ کا نام عثمان اور لقب ” ذوالنورین “ ہے۔ اسلام قبول کرنے والوں میں آپ ” السابقون الاولون “ کی فہرست میں شامل تھے، آپ نے خلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیق کی دعوت پر اسلام قبول کیا تھا۔ ۔ حضور ﷺ پر ایمان لانے اور کلمہ حق پڑھنے کے جرم میں سیدنا عثمان غنی کو ان کے چچا حکم بن ابی العاص نے لوہے کی زنجیروں سے باندھ کر دھوپ میں ڈال دیا، کئی روز تک علاحدہ مکان میں بند رکھا گیا، چچا نے آپ سے کہا کہ جب تک تم نئے مذہب (اسلام ) کو نہیں چھوڑو گے آزاد نہیں کروں گا۔ یہ سن کر آپ نے جواب میں فرمایا کہ چچا ! اللہ کی قسم میں مذہب اسلام کو کبھی نہیں چھوڑ سکتا اور اس ایمان کی دولت سے کبھی دستبردار نہیں ہوں گا۔ سیدنا عثمان غنی اعلیٰ سیرت و کردار کے ساتھ ثروت و سخاوت میں بھی مشہور تھے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جنت میں ہر نبی کا ساتھی و رفیق ہوتا ہے میرا ساتھی ”عثمان “ ہوگا۔ سیدنا عثمان کے دائرہ اسلام میں آنے کے بعد نبی اکرم نے کچھ عرصہ بعد اپنی بیٹی سیدہ رقیہ رضى الله عنها کا نکاح آپ سے کر دیا۔ جب کفار مکہ کی اذیتوں سے تنگ آکر مسلمانوں نے نبی کریم ﷺ کی اجازت اور حکم الٰہی کے مطابق ہجرت حبشہ کی تو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ بھی مع اپنی اہلیہ حضرت رقیہ رضى اللہ عنہا حبشہ ہجرت فرما گئے، جب حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا تو نبی ﷺ نے دوسری بیٹی حضرت ام کلثوم رضى اللہ عنہا کوآپ کی زوجیت میں دے دی۔ اس طرح آپ کا لقب ” ذوالنورین“ معروف ہوا۔مدینہ منورہ میں پانی کی قلت تھی جس پر سیدنا عثمان نے نبی پاک ا کی اجازت سے پانی کا کنواں خرید کر مسلمانوں کے ليے وقف فرمایا۔اور اسی طرح غزوئہ تبوک میں جب رسول اللہ ﷺ نے مالی اعانت کی اپیل فرمائی تو سیدنا عثمان غنی نے تیس ہزار فوج کے ایک تہائی اخراجات کی ذمہ داری لے لی۔جب رسول اکرم ﷺ نے زیارت خانہ کعبہ کا ارادہ فرمایا تو حدیبیہ کے مقام پر یہ علم ہوا کہ قریش مکہ آمادہ جنگ ہیں ۔ اس پر آپ ﷺ نے سیدنا عثمان غنی کو سفیر بنا کر مکہ بھیجا۔ قریش مکہ نے آپ کو روکے رکھا تو افواہ پھیل گئی کہ سیدنا عثمان کو شہید کر دیا گیا ہے ۔ اس موقع پر چودہ سو صحابہ سے نبی ﷺ نے بیعت لی کہ سیدنا عثمان غنی کا قصاص لیا جائے گا ۔ یہ بیعت تاریخ اسلام میں ” بیعت رضوان “ کے نام سے معروف ہے ۔ قریش مکہ کو جب صحیح صورت حال کا علم ہوا تو آمادۂ صلح ہو گئے اور سیدنا عثمان غنی واپس آگئے۔خلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیق کی مجلس مشاورت کے آپ اہم رکن تھے ۔ امیر المومنین سیدنا عمر کی خلافت کا وصیت نامہ آپ نے ہی تحریر فرمایا ۔ دینی معاملات پر آپ کی رہنمائی کو پوری اہمیت دی جاتی ۔ سیدنا عثمان غنی صرف کاتب وحی ہی نہیں تھے بلکہ قرآن مجید آپ کے سینے میں محفوظ تھا۔ آیات قرآنی کے شان نزول سے خوب واقف تھے ۔ بطور تاجر دیانت و امانت آپ کا طرۂ امتیاز تھا۔ نرم خو تھے اور فکر آخرت ہر دم پیش نظر رکھتے تھے ۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے عثمان کی حیا سے فرشتے بھی شرماتے ہیں ، تبلیغ و اشاعت اسلام کے ليے فراخ دلی سے دولت صرف فرماتے۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اے عثمان اللہ تعالٰی تجھے خلافت کی قمیص پہنائیں گے ، جب منافق اسے اتارنے کی کوشش کریں تو اسے مت اتارنا یہاں تک کہ تم مجھے آملو۔ چنانچہ جس روز آپ کا محاصرہ کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ مجھ سے حضور نے عہد لیا تھا ( کہ منافق خلافت کی قمیص اتارنے کی کوشش کریں گے تم نہ اتارنا ) اس ليے میں اس پر قائم ہوں اور صبر کر رہا ہوں ۔ 35ھ میں ذی قعدہ کے پہلے عشرہ میں باغیوں نے سیدنا عثمان ذوالنورین کے گھر کا محاصرہ کیا اور آپ نے صبر اور استقامت کا دامن نہیں چھوڑا، محاصرہ کے دوران آپ کا کھانا اور پانی بند کر دیا گیا تقریبا چالیس روز بھوکے پیاسے 82 سالہ مظلوم مدینہ سیدنا عثمان کو جمعة المبارک 18ذو الحجہ کو انتہائی بے دردی کے ساتھ روزہ کی حالت میں قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہوئے شہید کر دیا گیا۔ ، .
جنگ صفین 37ھ جولائی 657ء میں خلیفہ چہارم علی بن ابی طالب اور شام کے گورنر معاویہ بن ابی سفیان کے درمیان میں ہوئی۔ یہ جنگ دریائے فرات کے کنارے اس علاقے میں ہوئی جو اب ملک شام میں شامل ہے اور الرقہ (اردو میں رقہ) کہلاتا ہے۔ اس جنگ میں شامی افوج کے 45000 اور خلیفہ کی افواج کے 25000 افراد مارے گئے۔ جن میں سے بیشتر اصحاب رسول تھے۔ اس جنگ کی پیشینگوئی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کی تھی اور عمار بن یاسر کو بتایا تھا کہ اے عمار تجھ کو ایک باغی گروہ شہید کرے گا۔ ابوموسیٰ اور ابومسعود دونوں عمار بن یاسر کے پاس گئے جب انھیں علی نے اہل کوفہ کے پاس اس لیے بھیجا تھا کہ لوگوں کو لڑنے کے لیے تیار کریں۔ ابوموسیٰ اور ابومسعود دونوں عمار سے کہنے لگے جب سے تم مسلمانوں ہوئے ہو ہم نے کوئی بات اس سے زیادہ بری نہیں دیکھی جو تم اس کام میں جلدی کر رہے ہو۔ عمار نے جواب دیا میں نے بھی جب سے تم دونوں مسلمان ہوئے ہو تمھاری کوئی بات اس سے بری نہیں دیکھی جو تم اس کام میں دیر کر رہے ہو۔ ابومسعود نے عمار اور ابوموسیٰ دونوں کو ایک ایک کپڑے کا نیا جوڑا پہنایا پھر تینوں مل کر مسجد میں تشریف لے گئے۔ ابومریم عبد اللہ بن زیاد الاسدی نے بیان کیا کہ جب طلحہ، زبیر اور عائشہ بصرہ کی طرف روانہ ہوئے تو علی نے عمار بن یاسر اور حسن بن علی کو بھیجا۔ یہ دونوں بزرگ ہمارے پاس کوفہ آئے اور منبر پر چڑھے۔ حسن بن علی منبر کے اوپر سب سے اونچی جگہ تھے اور عمار بن یاسر ان سے نیچے تھے۔ پھر ہم ان کے پاس جمع ہو گئے اور میں نے عمار کو یہ کہتے سنا کہ عائشہ بصرہ گئی ہیں اور اللہ کی قسم وہ دنیا و آخرت میں تمھارے نبی کریم ﷺ کی پاک بیوی ہیں لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ نے تمھیں آزمایا ہے تاکہ جان لے کہ تم اس اللہ کی اطاعت کرتے ہو یا عائشہ کی۔
مختار ثقفی تاریخِ اسلامی کے ان چند حکمرانوں میں سے ایک ہیں، انھوں نے بنو امیہ کے خلاف تلوار اٹھائی اور کربلا میں حسین ابن علی کی شہادت کا بدلہ لیا اور سینکڑوں قاتلانِ حسین کو قتل کیا۔ جس میں شمر بھی شامل تھا جس نے امام حسین کا سر جسم سے علٰیحدہ کر کے نیزے پر دمشق بھجوایا تھا اور حرملہ بھی جس نے امام حسین کے چھ ماہ کے بیٹے علی اصغر کو تیر سے شہید کیا تھا۔ اوہ محبان اہلِ بیت سے تھے۔ مثلاً جب امیر مختار نے عمر سعد اور ابنِ زیاد کے سر امام زین العابدین علیہ السلام کو بھیجے تو انھوں نے امیر مختار کے حق میں دعائے خیر کی۔ اسی طرح امام محمد باقر علیہ السلام نے بعض نکتہ چینوں کو کہا کہ مختار کو گالی نہ دو کیونکہ اس نے ہمارے قاتلوں کو قتل کیا اور ہمارے خون کا قصاص لیا۔
علی بن حسین (پیدائش: 4 جنوری 656ء — وفات: 20 اکتوبر 713ء) جو زین العابدین (عابدوں کی زینت) اور امام الساجدین (سجدہ کرنے والوں کا امام) کے نام سے مشہور ہیں، اپنے والد حسین ابن علی، تایا حسن ابن علی اور دادا علی بن ابی طالب کے بعد اثنا عشری میں چوتھے امام اور اسماعیلی شیعیت میں تیسرے امام مانے جاتے ہیں۔ علی بن حسین سانحۂ کربلا میں موجود تھے، اس وقت ان کی عمر 23 یا 25 سال تھی، لیکن بیماری کی وجہ سے لڑائی میں شریک نہ ہو سکے۔ یہ اس سانحے میں بچ جانے والے واحد مرد تھے۔ ان کو دمشق میں یزید کے سامنے لے جایا گیا، کچھ دن بعد ان کو دیگر خواتین کے ساتھ واپس مدینہ جانے دیا گیا، جہاں انھوں نے چند اصحاب کے ساتھ خاموشی سے زندگی بسر کی۔ ان کی زندگی اور بیانات مکمل طور پر طہارت اور مذہبی تعلیمات کے لیے وقف تھے، جو زیادہ تر دعاؤں اور التجاؤں کی شکل میں ہوتے۔ ان کی مشہور مناجات صحیفہ سجادیہ کے نام سے معروف ہے۔
پاکستان (رسمی نام: اسلامی جمہوریۂ پاکستان - انگریزی میں: PAKISTAN ) جنوبی ایشیا کے شمال مغرب وسطی ایشیا اور مغربی ایشیا کے لیے دفاعی طور پر اہم حصے میں واقع ایک خود مختار اسلامی ملک ہے۔ یہ دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے، جس کی آبادی تقریباً 242 ملین ہے اور دنیا کی دوسری سب سے بڑی مسلم آبادی والا ملک ہے۔ 881,913 مربع کلومیٹر (340,509 مربع میل) کے ساتھ یہ دنیا کا تینتیسواں (33) بڑے رقبے والا ملک ہے۔ اس کے جنوب میں 1046 کلومیٹر (650 میل) کی ساحلی پٹی ہے جو بحیرہ عرب سے ملتی ہے۔پاکستان کے مشرق ميں بھارت، شمال مشرق ميں چین اور مغرب ميں افغانستان اور ايران واقع ہيں۔ پاکستان کو شمال میں ایک تنگ واخان راہداری تاجکستان سے جدا کرتی ہے جبکہ اس ملک کی سمندری سرحدی حدود عمان کے سمندری حدود سے بھی ملتی ہیں۔ موجودہ پاکستان کے علاقے قدیم ترین دنیا میں وہ علاقے تھے جن میں موہنجوداڑو اور انڈس سولائیزیشن مہر گڑھ ٹیکسلا پراچین سنسکرت دور اور دیگر زیرتحقیق آرک لوجیکل سائٹس جیسے قندھارا تہذیب و تمدن تھی۔ اس علاقے پر پراچین راجپوت ایرانی یونانی عرب، بدھ مت، سکھ، مغل، ہن سفید اور ترک حملہ آوروں کی حکومت بھی رہی ہے۔ یہ علاقہ مختلف سلطنتوں جیسے چندر گپت موریا، ہخامنشی سلطنت عربوں کی خلافت امویہ، مغلیہ سلطنت، درانی سلطنت، سکھ سلطنت اور برطانوی راج کا اہم حصہ رہا ہے۔ اس کے بعد محمد علی جناح کی قیادت میں تحریک پاکستان کامیاب ہوئی اور 14 اگست 1947ء کو ہندوستان کے مشرق اور مغرب میں دو حصوں میں ایک آزاد اور خودمختار اسلامی ریاست قائم ہوئی۔ پاکستان نے اپنا پہلا آئین 1956ء میں بنایا جو 1958 میں منسوخ کر دیا گیا اس کے بعد 1962 میں پاکستان کا دوسرا آئین پیش کیا گیا جو 1969 میں جزل یحیی خان نے منسوخ کر دیا.
مروان بن حکم کا تعلق بنو امیہ کی دوسری شاخ بنی عاص سے تھا۔ حکم نے فتح مکہ کے بعد اسلام قبول کیا۔ حضرت عثمان نے حکم کے بیٹے مروان کو اپنا سیکرٹری مقرر کیا تھا۔ حضرت عثمان کو اس پر بے حد اعتماد تھا۔ اس لیے مہر خلافت بھی اس کے سپرد کر رکھی تھی۔ جب آپ کے خلاف فسادیوں نے شورش پیدا کی تو حاکم مصر کے نام منسوب خط وغیرہ کی جعلسازی کی ذمہ داری بھی اس پر عائد کی جاتی ہے۔ شہادت عثمان کے بعد مدینہ چھوڑ کر بھاگ نکلا اور معاویہ بن ابو سفیان کے ساتھ جنگ جمل اور جنگ صفین میں حضرت علی کے خلاف لڑا۔ حضرت طلحہ کی شہادت بھی اس کے ہاتھوں ہوئی جو اسی کی فوج کے سربراہ تھے۔ امیر معاویہ کے بر سر اقتدار آنے کے بعد اسے مدینہ کا گورنر مقرر کیا گیا۔ یزید کی موت کے وقت یہ مدینہ ہی میں مقیم تھا۔ جبیر ابن مطعم سے روایت ہے کہ ہم لوگ پیغمبرِ اسلام کی خدمت میں حاضر تھے کہ ادھر سے حکم (مروان کا باپ) گذرا۔ اسے دیکھ کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ اس کے صلب میں جو بچہ ہے اس سے میری امت عذاب اور پریشانی میں مبتلا ہوگی۔ اس روایت بارے ابن ابی حاتم کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے اس کے متعلق سوال کیا تو انھوں نے کہا کہ یہ روایت منکر ہے۔<ref>أبو محمد عبد الرحمن بن محمد بن إدريس بن المنذر التميمي ابن أبي حاتم، الرازي (1427 هـ - 2006 م)۔ العلل۔ 6۔ مطابع الحميضي۔ صفحہ: 555 </>
متضاد مخالف؛ اُلٹ؛ اُلٹی طرف؛ دوسری جانب؛ ضِد؛ مُقابل؛ بِالمقابل؛ متقابل؛ متضاد؛ ایک لفظ جو مفہوم کے لحاظ سے دوسرے کی ضد ہو؛ متضاد المعنی۔ ایسے الفاظ جو مماثل وضع میں لیکن ایک دوسرے کے مخالف، برعکس یا یکسر مختلف ہوں۔ اسے 'بائنری' تعلق سے تعبیر کیا جاتا ہے کیوں کہ متضاد جوڑوں میں دو رکن ہوتے ہیں۔ باہم مخالف تعلق کو متضاد کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ایک جوڑے میں مخالف لفظ کو عام طور پر اس سوال کے ذریعہ طے کیا جا سکتا ہے کہ الف کے برعکس کیا ہے؟ جیسے:
شہدائے کربلا وہ مظلوم افراد ہیں جو واقعہ کربلا میں ایک غیر منصفانہ جنگ میں شہید کر دیے گئے۔ جن کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ اس وقت کے مسلم دنیا کے حاکم یزید بن معاویہ کو ایک خلیفہ کے طور پر تسلیم نہیں کرتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یزید اسلام کی ہدایت ، یعنی شورائی نظام سے نہیں بلکہ ایک ملوکیت سے مکرّر کردہ شخص تھا اور اس کے کردار میں بہت سی خرابیاں پائی جاتی تھیں۔ اور ان لوگوں کا خیال تھا جس کو ایسے غیر اسلامی طریقے سے مکرّر کیا گیا ہو، اور جس شخص کی شخصیت میں ایسی خرابیاں یا برائیاں پائی جائیں وہ امّتِ مسلمہ کا خلیفہ بننے کا اہل نہیں ہے۔ شہدائے کربلا کے سالار نواسہ رسول حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ تھے۔
ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال (ولادت: 9 نومبر 1877ء – وفات: 21 اپریل 1938ء) بیسویں صدی کے ایک معروف شاعر، مصنف، قانون دان، سیاستدان اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھے۔ اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے اور یہی ان کی بنیادی وجہ شہرت ہے۔ شاعری میں بنیادی رجحان تصوف اور احیائے امت اسلام کی طرف تھا۔ علامہ اقبال کو دور جدید کا صوفی سمجھا جاتا ہے۔ بحیثیت سیاست دان ان کا سب سے نمایاں کارنامہ نظریۂ پاکستان کی تشکیل ہے، جو انھوں نے 1930ء میں الہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پیش کیا تھا۔ یہی نظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا۔ اسی وجہ سے علامہ اقبال کو پاکستان کا نظریاتی باپ سمجھا جاتا ہے۔ گو کہ انھوں نے اس نئے ملک کے قیام کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن انھیں پاکستان کے قومی شاعر کی حیثیت حاصل ہے۔
اہل تشیع یا شیعیت (عربی: شيعة) اسلام کا دوسرا بڑا فرقہ ہے۔ اہل تشیع رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد فقط حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کی امامت و خلافت کے قائل ہیں اور صرف انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا جانشین اور پہلا معصوم امام مانتے ہیں۔ شیعہ یا اہل تشیع نظریہ خلافت کو تسلیم نہیں کرتے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مختلف روایات میں اکثر گیارہ سے تیرہ ازواج کے نام ملتے ہیں۔ جنہیں امہات المؤمنین کہا جاتا ہے یعنی مؤمنین کی مائیں۔ اس کے علاوہ انھیں ازواج مطہرات بھی کہا جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ازواج میں حضرت عائشہ کے علاوہ تمام بیوہ و مطلقہ (طلاق شدہ) تھیں اور زیادہ شادیوں کا عرب میں عام رواج تھا۔
قرآن کریم، قرآن مجید یا قرآن شریف (عربی: القرآن الكريم) دین اسلام کی مقدس و مرکزی کتاب ہے جس کے متعلق ہم اسلام کے پیروکاروں کا اعتقاد ہے کہ یہ کلام الہی ہے اور اسی بنا پر یہ انتہائی محترم و قابل عظمت کتاب ہے۔ اسے ہمارے پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی کے ذریعے اتارا گیا۔ یہ وحی اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتے حضرت جبرائیل علیہ السلام لاتے تھے جیسے جیسے قرآن مجید کی آیات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوتیں آپ صلی علیہ وآلہ وسلم اسے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو سناتے اور ان آیات کے مطالب و معانی سمجھا دیتے۔ کچھ صحابہ کرام تو ان آیات کو وہیں یاد کر لیتے اور کچھ لکھ کر محفوظ کر لیتے۔ ہم مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن ہر قسم کی تاریف بیان کرتا ہے پاک ہے محفوظ ہے، قرآن میں آج تک کوئی کمی بیشی نہیں ہو سکی اور اسے دنیا کی واحد محفوظ افضل کتاب ہونے کی حیثیت حاصل ہے، جس کا حقیقی مفہوم تبدیل نہیں ہو سکا اور تمام دنیا میں کروڑوں کی تعداد میں چھپنے کے باوجود اس کا متن ایک جیسا ہے اور اس کی تلاوت عبادت ہے۔ اور صحف ابراہیم، زبور اور تورات و انجیل کے بعد آسمانی کتابوں میں یہ سب سے آخری اور افضل کتاب ہے اور سابقہ آسمانی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اب اس کے بعد کوئی آسمانی کتاب نازل نہیں ہوگی۔ قرآن کی فصاحت و بلاغت کے پیش نظر اسے لغوی و مذہبی لحاظ سے تمام عربی کتابوں میں اعلیٰ ترین مقام حاصل ہے۔ نیز عربی زبان و ادب اور اس کے نحوی و صرفی قواعد کی وحدت و ارتقا میں بھی قرآن کا خاصا اہم کردار دکھائی دیتا ہے۔ چنانچہ قرآن کے وضع کردہ عربی زبان کے قواعد بلند پایہ عرب محققین اور علمائے لغت مثلاً سیبویہ، ابو الاسود الدؤلی اور خلیل بن احمد فراہیدی وغیرہ کے یہاں بنیادی ماخذ سمجھے گئے ہیں۔
فاطمہ بنت محمد بن عبد اللہ جن کا معروف نام فاطمۃ الزہراء ہے حضرت محمد بن عبد اللہ اور خدیجہ بنت خویلد کی بیٹی تھیں۔ تمام مسلمانوں کے نزدیک آپ ایک برگزیدہ ہستی ہیں۔۔ آپ کی ولادت 20 جمادی الثانی بروز جمعہ بعثت کے پانچویں سال میں مکہ میں ہوئی۔ آپ کی شادی علی ابن ابی طالب سے ہوئی جن سے آپ کے دو بیٹے حسن اور حسین اور دو بیٹیاں زینب اور ام کلثوم پیدا ہوئیں۔ آپ کی وفات اپنے والد حضرت محمد بن عبد اللہ کی وفات کے کچھ ماہ بعد 632ء میں ہوئی۔ آپ کے بہت سے القابات مشہور ہیں۔
نکاح متعہ (عربی : نكاح المتعة ) جسے عرف عام میں متعہ یا صیغہ کہا جاتا ہے؛ ولی (شہادت) کی موجودگی یا غیر موجودگی میں ہونے والا ایک ایسا نکاح ہے جس کی مدت (ایک روز، چند روز، ماہ، سال یا کئی سال) معین ہوتی ہے جو فریقین خود طے کرتے ہیں اور اس مدت کے اختتام پر خود بخود علیحدگی ہو جاتی ہے یا اگر مرد باقی ماندہ مدت بخش دے تب بھی عورت نکاح سے آزاد ہو جاتی ہے مگر ہر صورت میں عدت اپنی شرائط کے ساتھ پوری کرنی پڑتی ہے ؛ اور اولاد انھیں والدین سے منسوب ہو تی ہے؛ اگر فریقین چاہیں تو مدتِ اختتامِ متعہ پر علیحدگی کی بجائے اسے جاری (یا مستقل) بھی کر سکتے ہیں۔ یہ نکاح ابتدا سے اسلام میں متعدد بار جائز ہوا اور اس سے روکا گیا پھر جائز ہوا۔ تاریخی اعتبار سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات سے چند سال قبل تک اس کی موجودگی پر سنی بھی اور شیعہ بھی دونوں اتفاق کرتے ہیں۔ یعنی اس کا اصل میں حلال ہونا مسلم اور مورد اتفاق ہے مگر اکثر شیعہ اور سنی نیز دیگر فرقے اس کے حلیت باقی رہنے یا حرام ہوجانے کے بارے میں مختلف نظریات رکھتے ہیں۔
نعمان ابن ثابت بن زوطا بن مرزبان (پیدائش: 5 ستمبر 699ء– وفات: 14 جون 767ء) (فارسی: ابوحنیفه،عربی: نعمان بن ثابت بن زوطا بن مرزبان)، عام طور پر آپکو امام ابو حنیفہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ آپ سنی حنفی فقہ (اسلامی فقہ) کے بانی تھے۔ آپ ایک تابعی، مسلمان عالم دین، مجتہد، فقیہ اور اسلامی قانون کے اولین تدوین کرنے والوں میں شامل تھے۔ آپ کے ماننے والوں کو حنفی کہا جاتا ہے۔ زیدی شیعہ مسلمانوں کی طرف سے بھی آ پ کو ایک معروف اسلامی عالم دین اور شخصیت تصور کیا جا تا ہے۔ انھیں عام طور پر "امام اعظم" کہا جاتا ہے۔
بنو امیہ قریش کا ایک ممتاز اور دولت مند قبیلہ تھا۔ اسی خاندان نے خلافت راشدہ کے بعد تقریباً ایک صدی تک ملوکیت سنبھالی اور اسلامی فتوحات کو بام عروج پر پہنچایا۔ جس کی سرحدیں ایک طرف چین اور دوسری طرف اسپین تک پھیلی ہوئی تھیں۔ البتہ مرکزی خلافت کے خاتمے کے باوجود اس خاندان کا ایک شہزادہ عبدالرحمن الداخل اسپین میں حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوا۔ جہاں 1492ء تک اموی سلطنت قائم رہی۔
واقعہ کربلا، جس میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نواسے حسین ابن علی اور ان کے رشتہ دار اور غلاموں کو 10 محرم الحرام، 61ھ میں عراق کے شہر کربلا میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ بے دردی سے شہید کیا گيا۔ اس واقعے نے آنے والی صدیوں میں اسلامی تاریخ پر دور رس اثرات مرتب کیے؛ جو ہنوز جاری ہیں۔ واقعہ کربلا کے پس منظر، عوامل اور تفصیلات میں تاریخی بنیادوں پر اہل سنت و جماعت اور اہل تشیع کے درمیان میں کئی باتوں میں اختلاف پایا جاتا ہے لیکن اس بات پر سبھی متفق ہیں کہ یہ واقعہ 10 محرم 61ھ کو کربلا میں پیش آیا اور اس میں حسین ابن علی اور ان کے اصحاب کو قتل کیا گیا۔ اس واقعہ سے متعلق تاریخی اعداد و شمار درج ذیل ہیں۔
اللہ کے ذاتی نام 'اللہ' کے علاوہ اللہ کے ننانوے صفاتی نام مشہور ہیں۔ انھیں کہا جاتا ہے۔ ان میں سے بیشتر قرآن میں موجود ہیں اگرچہ قرآن میں ننانوے کی تعداد مذکور نہیں مگر یہ ارشاد ہے کہ اللہ کو اچھے اچھے ناموں سے پکارا جائے۔ روایات میں بکثرت نیچے دیے گئے ننانوے صفاتی نام ملتے ہیں جن کے ساتھ ان کا اردو ترجمہ بھی درج کیا جا رہا ہے۔
جنگ احد 17 شوال 3ھ (23 مارچ 625ء) میں مسلمانوں اور مشرکینِ مکہ کے درمیان احد کے پہاڑ کے دامن میں ہوئی۔ مشرکین کے لشکر کی قیادت ابوسفیان کے پاس تھی اور اس نے 3000 سے زائد افراد کے ساتھ مسلمانوں پر حملہ کی ٹھانی تھی جس کی باقاعدہ تیاری کی گئی تھی۔ مسلمانوں کی قیادت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کی۔ اس جنگ کے نتیجہ کو کسی کی فتح یا شکست نہیں کہا جا سکتا کیونکہ دونوں طرف شدید نقصان ہوا اور کبھی مسلمان غالب آئے اور کبھی مشرکین لیکن آخر میں مشرکین کا لشکر لڑائی ترک کر کے مکہ واپس چلا گیا۔
مذکر: نر اسم ہوتا ہے جیسےمرد، باپ، بیل، بیٹا جبکہ مونث: مادہ اسم ہوتا ہے جیسے عورت، ماں، گائے، بیٹی بے جان اسماء میں نر اور مادہ کا کوئی فرق نہیں ہوتا اس لیے ان کی تذکیر و تانیث کا تمام تر درارومدار اہل زبان پر ہوتا ہے جیسے قلم کو اہل زبان مذکر بولتے ہیں اور گیند کو مونث اسی لیے ایسے اسماء کی تذکیر و تانیث کو غیر حقیقی تذکیر و تانیث کہا جاتا ہے۔ جبکہ حقیقی تذکیر و تانیث وہ ہوتی ہے جس میں نر کے مقابلے میں مادہ اور مادہ کے مقابلے میں نر ہو جانداروں میں کیوں کہ قدرتی طور پر نر اور مادہ کا فرق موجود ہوتا ہے اس لیے اس لیے ان کی تذکیرو تانیث حقیقی ہوتی ہے جیسے مرد، عورت۔ بیل، گائے وغیرہ
شوال۔ ذی القعدہ 5ھ (مارچ 627ء) میں مشرکینِ مکہ نے مسلمانوں سے جنگ کی ٹھانی۔ ابوسفیان نے قریش اور دیگر قبائل حتیٰ کہ یہودیوں سے بھی لوگوں کو جنگ پر راضی کیا اور اس سلسلے میں کئی معاہدے کیے اور ایک بہت بڑی فوج اکٹھی کر لی مگر مسلمانوں نے سلمان فارسی کے مشورہ سے مدینہ کے ارد گرد ایک خندق کھود لی۔ مشرکینِ مکہ ان کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ خندق کھودنے کی عرب میں یہ پہلی مثال تھی کیونکہ اصل میں یہ ایرانیوں کا طریقہ تھا۔ ایک ماہ کے محاصرے اور اپنے بے شمار افراد کے قتل کے بعد مشرکین مایوس ہو کر واپس چلے گئے۔ اسے غزوہ خندق یا جنگِ احزاب کہا جاتا ہے۔ احزاب کا نام اس لیے دیا جاتا ہے کہ اصل میں یہ کئی قبائل کا مجموعہ تھی۔ جیسے آج کل امریکا، برطانیہ وغیرہ کی اتحادی افواج کہلاتی ہیں۔ اس جنگ کا ذکر قرآن میں سورۃ الاحزاب میں ہے۔
سیدہ عائشہ بنت ابی بکر (رضی اللہ عنہا) (پیدائش: 614ء– وفات: 13 جولائی 678ء) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زوجہ ہیں۔ آپ کو اُم المومنین کے خطاب سے یاد کیا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد عہد خلفائے راشدین میں آپ کی شخصیت بہت نمایاں نظر آتی ہے۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد 47 سال بقید حیات رہیں اور یہ تمام وہ عرصہ ہے جس میں ابتدائی مسلم فتوحات ہوئیں، مختلف ممالک مملکت اسلامیہ میں داخل ہوئے۔ علم الحدیث میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایات کے بعد سب سے زیادہ روایاتِ حدیث کا ذخیرہ آپ سے ہی روایت کیا گیا ہے۔ آپ عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور عہد خلفائے راشدین کی عینی شاہد بھی تھیں اور مزید برآں آپ نے خلافت امویہ کے ابتدائی 17 سال بھی ملاحظہ فرمائے۔ آپ کا انتقال مدینہ منورہ میں سنہ 678 ء میں ہوا۔ آپ کے مناقب و فضائل کثیر ہیں جس سے آپ کی عظمت و شان جلالت مسلم خواتین پر نمایاں ہے۔جنگ جمل کے حوالے سے یہ بات معلوم ہونا بھی مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ کچھ احادیث اور تاریخی کتابوں کے واقعات میں راویوں پر علما اسلام کی طرف سے جرح بھی کی گئی ہے اور بہت سے راویوں کے حالات معلوم نہیں ہیں۔مسلمان امت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اہل بیت اطھار کے بارے میں صحیح عقائد قرآن وسنت اور مستند و صحیح احادیث نبوی سے لیتے
گورنر کوفہ، پورا نام عبیداللہ بن زیاد بن ابیہ جسے ابن مرجانہ یا ابن زیاد کے نام سے پہچانا جاتا ہے (28 ہجری - 67 ہجری) بنو امیہ کا ایک مشہور فوجی کمانڈر تھا اور امام حسین بن علی علیہم السلام اور ان کے ساتھیوں کے قتل کے اہم عوامل میں سے ایک تھا۔ وہ مرجانہ نامی لونڈی سے پیدا ہوا۔ بعض نے طنزیہ انداز میں ابن زیاد کو اس کی والدہ سے منسوب کیا ہے اور اسے "ابن مرجانہ" کہا جانے لگا، جس سے مراد عبید اللہ کی پیدائشی ناپاکی ہے۔ مسلم بن عقیل نے کوفے میں امام حسین علیہ السلام کے حق میں زمین ہموار کرنا شروع کی تو یزید بن معاویہ نے ابن زیاد کو بصرے سے تبدیل کرکے کوفے کا گورنر مقرر کر دیا۔ اس نے پہلے مسلم بن عقیل اور ان کے دو کم سن فرزندوں کو شہید کرادیا۔ پھر حضرت حُر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک ہزار سوار دے کر حضرت امام حسین علیہ السلام کا راستہ روکنے کے لیے بھیجا۔ امام حسین علیہ السلام میدان کربلا میں خیمہ زن ہوئے۔ ابن زیاد نے پہلے عمر بن سعد اور پھر شمر بن ذی الجوشن کو فوج دے کر ان کے مقابلے کے لیے بھیجا۔ جس کے نتیجے میں المناک حادثہ کربلا(محرم 61ھ) رونما ہوا۔ امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد پہلے شہداء کے سر کاٹ کر ابن زیاد کو پیش کیے گئے۔ اس نے امام حسین علیہ السلام کے سر کی بے ادبی کی اور تمام سر یزید کو روانہ کر دیے۔ محرم 67ھ میں ابن زیاد کا مختار ثقفی کے جرنیل ابراہیم سے مقابلہ ہوا۔ جس میں ابن زیاد کو شکست ہوئی اور وہ میدان جنگ میں مارا گیا۔ قتل کے بعد اس کے سر کو کوفے میں اسی مقام پر لا کر رکھا گیا جہاں چھ سال قبل اس نے امام حسین علیہ السلام کا سر رکھوایا تھا۔
الناصر صلاح الدین یوسف بن ایوب (عربی: الناصر صلاح الدين يوسف بن أيوب؛ (کردی: سەلاحەدینی ئەییووبی)) جنہیں عام طور پر صلاح الدین ایوبی کے نام سے جانا جاتا ہے ایوبی سلطنت کے بانی تھے۔ وہ نہ صرف تاریخ اسلام بلکہ تاریخ عالم کے مشہور ترین فاتحین و حکمرانوں میں سے ایک ہیں۔ وہ 1138ء میں موجودہ عراق کے شہر تکریت میں پیدا ہوئے۔ ان کی زیر قیادت ایوبی سلطنت نے مصر، شام، یمن، عراق، حجاز اور دیار بکر پر حکومت کی۔ صلاح الدین ایوبی کو بہادری، فیاضی، حسن و خلق، سخاوت اور بردباری کے باعث نہ صرف مسلمان بلکہ مسیحی بھی عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ صلاح الدین ایوبی اپنے کارناموں میں نور الدین زنگی پر بھی بازی لے گئے۔ ان میں جہاد کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا اور بیت المقدس کی فتح ان کی سب سے بڑی خواہش تھی۔ صلاح الدین کو فاتح بیت المقدس کہا جاتا ہے جنھوں نے 1187ء میں یورپ کی متحدہ افواج کو عبرتناک شکست دے کر بیت المقدس ان سے آزاد کروا لیا تھا۔ صلاح الدین ایوبی 1193ء میں دمشق میں انتقال کر گئے ، انھوں نے اپنی ذاتی دولت کا زیادہ تر حصہ اپنی رعایا کو دے دیا۔ وہ مسجد بنو امیہ سے متصل مقبرے میں مدفون ہیں۔ مسلم ثقافت کے لیے اپنی اہمیت کے ساتھ ساتھ ، صلاح الدین کا کرد ، ترک اور عرب ثقافت میں نمایاں طور پر احترام کیا جاتا ہے۔ انھیں اکثر تاریخ کی سب سے مشہور کرد شخصیت کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔
مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق ختم نبوت سے مراد یہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالٰیٰ کے آخری نبی اور آخری رسول ہیں۔ اللہ رب العزت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس جہاں میں بھیج کر بعثت انبیا کا سلسلہ ختم فرما دیا ہے۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ختم نبوت کا ذکر قرآن حکیم کی 100 سے بھی زیادہ آیات میں نہایت ہی جامع انداز میں صراحت کے ساتھ کیا گیا ہے
فعل وہ کلمہ جس کے معانی میں کسی کام کا کرنا یا ہونا پایا جائے اور جس میں تینوں زمانوں ماضی، حال، مستقبل میں سے کوئی ایک زمانہ موجود ہو۔ فعل کی زمانے کے لحاظ سے تین اقسام ہیں۔ فعل ماضی وہ فعل جس میں کسی کام کا کرنا، ہونا یا سہنا گذرے ہوئے زمانے میں پایا جائے۔ فعل حال وہ فعل جس میں کسی کام کا کرنا، ہونا یا سہنا موجودہ زمانے میں پایا جائے۔ فعل مستقبل ایسا فعل جس میں کسی کام کا کرنا، ہونا یا سہنا آنے والے زمانے میں پایا جائے۔
واقعہ حرہ یزید بن معاویہ کے دور میں سانحۂ کربلا کے بعد دوسرا بڑا شرمناک سانحہ تھا۔ مدینہ پر شامی افواج نے چڑھائی کی تھی جس میں انھوں ظلم و بربریت کی داستانیں رقم کیں اور مدینہ میں قتل عام کیا گیا۔ یہ افسوسناک واقعہ 63ھ میں پیش آیا اور واقعۂ حرہ کہلاتا ہے۔ یزید کی بھیجی ہوئی افواج نے دس ہزار سے زائد افراد کو شہید کیا جس میں بہت سے صحابی، صحابیوں کی اولاد، تابعین اور حفاظ قرآن و حدیث کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ خواتین کی بے حرمتی کی گئی اور تین دن تک مسجد نبوی میں نماز نہ ہو سکی۔
احمد خان متقی بن محمد متقی (17 اکتوبر 1817ء – 27 مارچ 1898ء) المعروف سر سید، سر سید احمد خان انیسویں صدی کے ایک ہندوستانی مسلم نظریۂ عملیت کے حامل ، مصلح اور فلسفی تھے۔ ان کو برصغیر میں مسلم قوم پرستی کا سرخیل مانا جاتا ہے اور دو قومی نظریہ کا خالق تصور کیا جاتا ہے، جو آگے چل کر تحریک پاکستان کی بنیاد بنا۔
عمر بن سعد (ولادت-620ء وفات 65ھ یا 66ھ یا 67ھ/684ء یا 685ء یا 686ء) مشہور صحابی رسول سعد بن ابی وقاص کے فرزند جنہیں واقعہ کربلا کی ایک سرکردہ شخصیت کے طور پر جانا جاتا ہے۔ واقعہ كربلا کے وقت یہ ابن زیاد کی فوج میں سپہ سالار تھے اکثر روایت میں انھیں واقعہ کربلا کے مجرمین میں شمار کیا جاتا ہے جبکہ متعدد اس کے برخلاف ہیں جیسا کہ عمر بن سعد نے حتی المقدور کوشش کی کہ یہ معاملہ خوش اسلوبی سے طے ہوجائے۔
فتح مکہ (جسے فتح عظیم بھی کہا جاتا ہے) عہد نبوی کا ایک غزوہ ہے جو 20 رمضان سنہ 8 ہجری بمطابق 10 جنوری سنہ 630 عیسوی کو پیش آیا، اس غزوے کی بدولت مسلمانوں کو شہر مکہ پر فتح نصیب ہوئی اور اس کو اسلامی قلمرو میں شامل کر لیا گیا۔ اس غزوہ کا سبب قریش مکہ کی جانب سے اس معاہدہ کی خلاف ورزی تھی جو ان کے اور مسلمانوں کے درمیان میں ہوا تھا، یعنی قریش مکہ نے اپنے حلیف قبیلہ بنو دئل بن بکر بن عبد منات بن کنانہ (اس کی ایک خاص شاخ جسے بنو نفاثہ کہا جاتا ہے) نے بنو خزاعہ کے خلاف قتل و غارت میں مدد کی تھی اور چونکہ بنو خزاعہ مسلمانوں کا حلیف قبیلہ تھا اس لیے اس حملے کو قریش مکہ کی جانب سے اس معاہدہ کی خلاف ورزی سمجھا گیا جو مسلمانوں اور قریش کے درمیان میں ہوا تھا، یہ معاہدہ "صلح حدیبیہ" کے نام سے معروف ہے۔ اسی معاہدہ کی خلاف ورزی کے جواب میں حضرت محمدﷺ بن عبد اللہ نے ایک عظیم الشان لشکر تیار کیا جو دس ہزار مجاہدین پر مشتمل تھا؛ لشکر آگے بڑھتا رہا یہاں تک کہ مکہ پہنچ گیا اور بغیر کسی مزاحمت کے مکہ میں پر امن طریقے سے داخل ہو گیا سوائے ایک معمولی سی جھڑپ کے جس کے سپہ سالار خالد بن ولید کو اس وقت سامنا ہوا جب قریش کی ایک ٹولی نے عکرمہ بن ابی جہل کی قیادت میں مسلمانوں سے مزاحمت کی اور پھر خالد بن ولید کو ان سے قتال کرنا پڑا جس کے نتیجے میں بارہ کفار مارے گئے اور باقی بھاگ گئے، جبکہ دو مسلمان بھی شہید ہوئے۔
خلافت راشدہ کے خاتمے کے بعد عربوں کی قائم کردہ دو عظیم ترین سلطنتوں میں سے دوسری سلطنت خلافت عباسیہ ہے۔ خاندان عباسیہ کے دو بھائیوں السفاح اور ابو جعفر المنصور نے 750ء (132ھ) خلافت عباسیہ کو قائم کیا اور 1258ء (656ھ) میں اس کا خاتمہ ہو گیا۔ یہ خلافت بنو امیہ کے خلاف ایک تحریک کے ذریعے قائم ہوئی۔ تحریک نے ایک عرصے تک اپنے مقاصد کے حصول کے لیے جدوجہد کی اور بالآخر بنو امیہ کو شکست دینے کے بعد بر سر اقتدار آگئی۔
یوم آزادی بھارت میں ہر سال 15 اگست کو قومی تعطیل کے طور پر منایا جاتا ہے۔ سنہ 1947 میں اسی تاریخ کو ہندوستان نے ایک طویل جدوجہد کے بعد مملکت متحدہ کے استعمار سے آزادی حاصل کی تھی۔ برطانیہ نے قانون آزادی ہند 1947ء کا بل منظور کر کے قانون سازی کا اختیار مجلس دستور ساز کو سونپ دیا تھا۔ یہ آزادی تحریک آزادی ہند کا نتیجہ تھی جس کے تحت انڈین نیشنل کانگریس کی قیادت میں پورے ہندوستان میں تحریک عدم تشدد اور سول نافرمانی میں عوام نے حصہ لیا اور اس جدوجہد میں ہر کس و ناکس نے اپنا تعاون پیش کیا۔ ہندوستان کی آزادی کے ساتھ ساتھ تقسیم ہند کا واقعہ بھی پیش آیا اور برطانوی ہند کو مذہبی بنیادوں پر دو ڈومینین میں تقسیم کر دیا گیا؛ بھارت ڈومینین اور پاکستان ڈومنین۔ اس تقسیم کے نتیجہ میں دونوں طرف خطرناک مذہبی فسادات ہوئے جن میں تقریباً 1.5 کروڑ لوگ مارے گئے اور بے گھر ہوئے۔ 15 اگست سنہ 1947ی کو بھارت کے وزیر اعظم بھارت جواہر لعل نہرو نے دہلی میں واقع لال قلعہ کے لاہوری دروازہ پر بھارت کا نیا پرچم لہرایا۔ اسی دن ہر سال بھارت کا وزیر اعظم بھارتی پرچم لہراتا ہے اور ملک کو خطاب کرتا ہے۔
موسیٰ علیہ السلام اللہ کے برگزیدہ پیغمبروں میں سے ایک ہیں۔ آپ کے بھائی ہارون علیہ السلام بھی اللہ کے برگزیدہ نبیوں میں سے ایک ہیں۔یہ 1520 قبلِ مسیح کی بات ہے۔ مِصر پر فرعون بادشاہ’’مرنفتاح ثانی‘‘ کی حکومت تھی۔بعض نے اُس کا نام’’ منفتاح‘‘ بھی لکھا ہے اور وہ والد، رعمسیس کے بڑھاپے کی وجہ سے عملاً حکم ران بنا ہوا تھا۔ خدائی کا دعوے دار یہ بادشاہ بڑا ظالم و جابر تھا۔ اُس نے’’ بنی اسرائیل‘‘ کو اپنا غلام بنا رکھا تھا، حالاں کہ وہ حضرت یوسف کے زمانے سے وہاں رہائش پزیر تھے۔ حضرت یوسفؑ نے اپنے والد، حضرت یعقوبؑ اور اپنے بھائیوں کے لیے ایک قطعۂ زمین اُس وقت کے فرعون بادشاہ ’’ریان بن ولید‘‘ سے حاصل کیا تھا۔ حضرت یعقوبؑ کی یہی نسل’’بنی اسرائیل‘‘ کہلائی، جو مِصر میں خُوب پَھلی پُھولی۔ یہ لوگ حضرت یعقوبؑ کے دین کے پیروکار تھے، چناں چہ اُس وقت اللہ کے نزدیک یہ سب سے بہتر جماعت تھی۔ انھوں نے فرعون کو سجدہ کرنے اور اُسے اپنا ربّ ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ اسی وجہ سے بادشاہ اور اُس کے حواری ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھاتے اور اُن سے گھٹیا کام کرواتے۔ یاد رہے، فرعون کسی خاص شخص کا نام نہیں، بلکہ مِصر کے بادشاہوں کا لقب تھا۔ تاریخی حقائق کے مطابق، 31فراعنہ خاندانوں نے مِصر پر یکے بعد دیگرے حکومت کی۔ سب سے آخری خاندان نے 332قبلِ مسیح میں سکندرِ اعظم کے ہاتھوں شکست کھائی۔
اسلام ایک توحیدی مذہب ہے جو اللہ کی طرف سے، حضرت محمد ﷺ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ذریعے انسانوں تک پہنچائی گئی آخری الہامی کتاب (قرآن مجيد) کی تعلیمات پر قائم ہے۔ یعنی دنیاوی اعتبار سے بھی اور دینی اعتبار سے بھی اسلام (اور مسلم نظریے کے مطابق گذشتہ ادیان کی اصلاح) کا آغاز، 610ء تا 632ء تک 23 سال پر محیط عرصے میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اللہ کی طرف سے اترنے والے الہام (قرآن) سے ہوتا ہے۔ قرآن عربی زبان میں نازل ہوا (برائے وجہ : اللسان القرآن) اور اسی زبان میں دنیا کی کل آبادی کا کوئی 24% حصہ یعنی لگ بھگ 1.6 تا 1.8 ارب افراد اس کو پڑھتے ہیں ؛ ان میں (مختلف ذرائع کے مطابق) قریباً 20 تا 30 کروڑ ہی وہ ہیں جن کی مادری زبان عربی ہے جبکہ 70 تا 80 کروڑ، غیر عرب یا عجمی ہیں جن کی مادری زبان عربی کے سوا کوئی اور ہوتی ہے۔ متعدد شخصی ماخذ سے اپنی موجودہ شکل میں آنے والی دیگر الہامی کتابوں کے برعکس، بوسیلۂ وحی، فردِ واحد (محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے منہ سے ادا ہوکر لکھی جانے والی کتاب اور اس کتاب پر عمل پیرا ہونے کی راہنمائی فراہم کرنے والی شریعت ہی دو ایسے وسائل ہیں جن کو اسلام کی معلومات کا منبع قرار دیا جاتا ہے۔
عام نظریہ یہ ہے کہ اسلامی پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تین بیٹے تھے جن کا نام عبد اللہ، ابراہیم اور قاسم تھا اور چار بیٹیاں جن کا نام فاطمہ زہرا ، رقیہ ، ام کلثوم اور زینب تھا۔ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اولاد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ان کی پہلی بیوی خدیجہ بنت خویلد سے پیدا ہوئے تھے، سوائے ان کے بیٹے ابراہیم کے، جو ماریہ القبطیہ سے پیدا ہوئے تھے۔ محمد کے بیٹے میں سے کوئی بھی بالغ نہیں ہوا، لیکن ان کا ایک بالغ رضاعی بیٹا، زید بن حارثہ تھا۔ ان کی تمام بیٹیاں جوانی کو پہنچیں۔ کچھ شیعہ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ فاطمہ بنت محمد ان کی اکلوتی حیاتیاتی بیٹی تھیں۔
محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصال کے بعد ابوبکر صدیق، عمر فاروق، عثمان غنی اور علی المرتضی، حسن المجتبی کا عہد خلافت خلافت راشدہ کہلاتا ہے۔ اس عہد کی مجموعی مدت تیس سال ہے جس میں ابوبکر صدیق اولین اور علی آخری خلیفہ ہیں، حسن کی خلافت کے چھ ماہ خلافت علی میں شمار ہوتے ہیں جیسا کہ جمہور اسلاف کی رائے ہے۔ اس عہد کی نمایاں ترین خصوصیت یہ تھی کہ یہ قرآن و سنت کی بنیاد پر قائم نظام حکومت تھا۔
حضرت آدم علیہ السلام ، اللہ کے اولین پیغمبر ہیں۔ ابوالبشر (انسان کا باپ) اور صفی اللہ (خدا کا برگزیدہ) لقب۔ آپ کے زمانے کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔تمام آسمانی کتابوں کے ماننے والوں کاعقیدہ ہے کہ اس رُوئے زمین پر اللہ جل شانہ‘نے حضرت آدم علیہ السلام کو تخلیق کیا۔حضرت آدم ؑ کی پیدائش کا احوال کچھ یوں ہے :اللہ تعالی نے تمام زمین سے ایک مٹھی مٹی لے کر آدم علیہ السلام کو بنایا۔اس لیے زمین کے لحاظ سے لوگ سرخ ،سفید ، سیاہ اور درمیانے درجے میں ،اسی طرح اچھے ،برے ، نرم اور سخت طبیعت والے اور کچھ درمیانے درجے کے پیدا ہوئے(روایت : حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ )۔ اللہ تعالی نے جبریل علیہ السلام کو زمین میں مٹی لانے کے لیے بھیجا تو زمین نے عرض کی کہ میں تجھ سے اللہ کی پناہ میں آتی ہوں کہ تو مجھ سے کوئی کمی کرے یا مجھے عیب ناک کر دے تو وہ مٹی لیے بغیر ہی واپس چلے گئے اور عرض کی :اے اللہ!اس نے تیری پناہ میں آنے کی درخواست کی تو میں نے اس کو پناہ دے دی۔ اللہ تعالیٰ نے پھر حضرت میکائل کو بھیجا ،زمین نے اس سے بھی پناہ مانگی تو اس نے بھی پناہ دے دی اور حضرت جبریل کی طرح واقعہ بتا دیا پھر اللہ نے موت کے فرشتوں کو بھیجا۔زمین نے اس سے بھی پناہ مانگی تو اس نے کہا میں اس سے اللہ کی پناہ میں آتا ہوں کہ میں اللہ کے حکم کی تعمیل کیے بغیر واپس چلا جاؤں اور اس سے مختلف جگہوں سے سرخ ،سیاہ اور سفید مٹی اکٹھی کی جس کی بنا پر آدم علیہ السلام کی اولاد بھی مختلف رنگوں والی ہے ۔( روایت سدی رحمۃ اللہ بحوالہ ابن عباسؓ وابن مسعودؓ )وہ مٹی لے کرعرش پر چلے گئے اور اس کو پانی کے ساتھ تر کیا۔پانی سے تر کرنے سے وہ چپکنے والی لیس دار مٹی بن گئی۔ اس پر باری تعالیٰ نے فرشتوں کو فرمایا :میں مٹی سے انسان بنانے والا ہوں۔جب میں اس کو اچھی طرح بنا لوں اور اس میں اپنی پیدا کردہ روح ڈال دوں تو اس کے لیے سجدہ کرتے ہوئے گر جانا۔اللہ تعالی ٰنے علم کے ساتھ آدم علیہ السلام کا ان پر شرف اور مرتبہ واضح کیا۔حضرت ابن عباسؓ نے کہا ان سے مراد وہی نام ہیں جو لوگوں کے ہاں مشہور و معروف ہیں۔انسان ، جانور ، زمین ، سمندر ، پہاڑ ، اونٹ ، گدھا وغیرہ۔مجاہد نے کہا :پیالہ اور ہنڈیا وغیرہ کے نا م سکھائے،حتی کہ پھسکی اور گوز کا نام بھی بتا یا۔ مجاہد نے مزید کہا:ہر جانور ،پرند ، چرند اور ہر ضرورت کی ہر چیز کے نام سکھائے۔سعید بن جبیر ، قتادہ وغیرہ نے بھی اسی طرح کہا ہے۔الربیع نے کہا:فرشتوں کے نام سکھائے۔عبد الرحمن بن زید نے کہا :ان کی اولاد کے نام سکھائے۔اللہ نے آدم علیہ السلام کو ہر چھوٹی اور بڑی چیز اور ان کے افعال کے نام سکھائے ۔ حضرت انس بن مالکؓ نے رسول اللہﷺ سے روایت کرتے ہوئے فرمایا :قیامت کے دن ایمان والے اکٹھے ہوں گے اور کہیں گے کاش ہم اپنے رب کے پاس سفارش کرنے والا طلب کریں ،پھر وہ آدم کے پاس آئیں گے اور کہیں گے اے آدم!
عمار بن یاسر (56 ق.ھ-37ھ) (کنیت ابو یقظان ) جلیل القدر صحابی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے۔عمار بن یاسر رضی اللّٰہ عنہ قدیم الاسلام اور مہاجرین اولین میں سے ہیں اور یہ ان مصیبت زدہ صحابیوں میں سے ہیں جن کو کفار مکہ نے اس قدر ایذائیں دیں کہ جنہیں سوچ کر بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ظالموں نے ان کو جلتی ہوئی آگ پر لٹایا چنانچہ یہ دہکتی ہوئی آگ کے کوئلوں پر پیٹھ کے بل لیٹے رہتے تھے اور جب حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم ان کے پاس سے گزرتے اور یہ آپ کو یا رسول اللہ!
محمد علی جناح پیدائشی نام، محمد علی جناح بھائی، 25 دسمبر 1876ء – 11 ستمبر 1948ء) کے نامور وکیل، سیاست دان اور بانی پاکستان تھے۔ محمد علی جناح 1913ء سے لے کر پاکستان کی آزادی 14 اگست 1947ء تک آل انڈیا مسلم لیگ کے سربراہ رہے، پھر قیام پاکستان کے بعد اپنی وفات تک، وہ ملک کے پہلے گورنر جنرل رہے۔ سرکاری طور پر پاکستان میں آپ کو قائدِ اعظم یعنی سب سے عظیم رہبر اور بابائے قوم یعنی قوم کا باپ بھی کہا جاتا ہے۔ جناح کا یومِ پیدائش پاکستان میں قومی تعطیل کے طور پر منایا جاتا ہے۔
مسجد نبوی دنیا کی سب سے بڑی مساجد میں سے ایک ہے اور اسلام کا دوسرا مقدس ترین مقام ہے۔ مکہ مکرمہ میں مسجد حرام مسلمانوں کے لیے مقدس ترین مقام ہے جبکہ بیت المقدس میں مسجد اقصی اسلام کا تیسرا مقدس مقام ہے ۔ مسجد نبوی سعودی عرب کے شہر مدینہ منورہ میں واقع ہے۔ تاریخ میں مسجد نبوی میں کئی بار توسیع کی گئی جن میں خلفائے راشدین، خلافت امویہ، خلافت عباسیہ، سلطنت عثمانیہ اور آخر کار سعودی ریاست کے دور میں توسیع ہوئیں۔ سعودی دور میں اس کی سب سے بڑی توسیع 1994ء میں ہوئی تھی۔ مسجد نبوی جزیرہ نما عرب میں پہلی جگہ ہے جسے 1909ء میں برقی چراغوں کے استعمال سے روشن کیا گیا تھا۔ عمر بن عبدالعزیز کی طرف سے 91 ہجری میں توسیع کے بعد حجرہ نبوی کو مسجد میں شامل کیا گیا (جو اس وقت " پیغمبر کے حجرے" کے نام سے جانا جاتا ہے جو مسجد کے جنوب مشرقی کونے میں واقع ہے) جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، ابوبکر صدیق اور عمر بن خطاب کو دفن کیا گیا تھا، اور اس پر گنبد خضریٰ بنایا گیا تھا، یہ مسجد نبوی کے سب سے نمایاں نشانیوں میں سے ایک ہے۔ مسجد نبوی نے سیاسی اور سماجی زندگی میں ایک اہم کردار ادا کیا، کیونکہ یہ ایک سماجی مرکز، عدالت اور مذہبی درسگاہ کے طور پر کام کرتی تھی۔ مسجد نبوی مدینہ منورہ کے مرکز میں واقع ہے، جس کے ارد گرد بہت سے ہوٹل اور پرانے بازار ہیں۔ جو لوگ یہاں حج یا عمرہ کرتے ہیں وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی بھی زیارت کرتے ہیں۔
معاویہ بن یزید اموی خلیفہ یزید کے جانشین تھے۔ یزید نے اپنی زندگی میں انھیں جانشین مقرر کر دیا۔ چنانچہ 683ء میں باپ کی وفات کے بعد تخت نشین ہوا۔ 21 سال کا یہ نوجوان عادات وخصائل میں اپنے باپ کی ضد تھا۔ عبادت اور ریاضت اس کا معمول تھا۔ امام حسین کی شہادت کے بعد اسے کاروبار حکومت سے اس قدر نفرت ہو چکی تھی کہ 3 ماہ کی حکومت کے بعد ازخود خلافت سے یہ کہہ کر دست بردار ہو گیا۔ کہ
غزوہ خیبر محرم 7ھ (مئی 628ء) میں مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان یہ جنگ ہوئی جس میں مسلمان فتح یاب ہوئے۔ خیبر یہودیوں کا مرکز تھا جو مدینہ سے 150 کلومیٹر عرب کے شمال مغرب میں تھا جہاں سے وہ دوسرے یہودی قبائل کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے رہتے تھے۔ چنانچہ مسلمانوں نے اس مسئلہ کو ختم کرنے کے لیے یہ جنگ شروع کی۔
محمد بن اسماعيل بخاری (پیدائش: 19 جولائی 810ء، بخارا - وفات: 1 ستمبر 870ء) مشہور ترین محدث اور حدیث کی سب سے معروف کتاب صحیح بخاری کے مولف تھے۔ ان کے والد بھی ایک محدث تھے اور امام مالک کے شاگرد تھے۔ امام بخاری کا درجہ احادیث کو چھان پھٹک کر ترتیب دینے میں اتنا اونچا ہے کہ بلا اختلاف الجامع الصحیح یعنی صحیح بخاری شریف کا درجہ صحت میں قرآن پاک کے بعد پہلا ہے۔
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فاتح ایران کا تعلق قریش کے قبیلہ بنو زہرہ سے تھا جو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ننھیالی خاندان ہے اس لیے آپ رشتے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ماموں زاد بھائی تھے۔ حمزہ بن عبدالمطلب کی والدہ آپ کی سگی پھوپھی تھیں۔ ہجرت مدینہ سے 30 برس پہلے پیدا ہوئے۔ نزول وحی کے ساتویں روز ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ترغیب دلانے پر مشرف با اسلام ہوئے۔ اور عمر بھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے محافظ خصوصی کے فرائض انجام دیے۔ ، : آپ کی کنیت ابو اسحاق ہے اور خاندان قریش کے ایک بہت ہی نامور شخص ہيں جو مکہ مکرمہ کے رہنے والے ہیں ۔ یہ ان خوش نصیبوں میں سے ایک ہیں جن کو نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے جنت کی بشارت دی۔ یہ ابتدائے اسلام ہی میں جبکہ ابھی ان کی عمر سترہ برس کی تھی دامن اسلام میں آگئے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے ساتھ ساتھ تمام معرکوں میں حاضر رہے ۔ یہ خود فرمایا کرتے تھے کہ میں وہ پہلا شخص ہوں جس نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں کفار پر تیر چلا یا ہم لوگوں نے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ رہ کر اس حال میں جہاد کیا کہ ہم لوگوں کے پاس سوائے ببول کے پتوں اور ببول کی پھلیوں کے کوئی کھانے کی چیز نہ تھی ۔ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے خاص طور پر ان کے لیے یہ دعا فرمائی: ”اَللّٰھُمَّ سَدِّدْ سَھْمَہٗ وَاَجِبْ دَعْوَتَہٗ ” (اے اللہ! عزوجل ان کے تیر کے نشانہ کو درست فرمادے اور ان کی دعا کو مقبول فرما) خلافت راشدہ کے زمانے میں بھی یہ فارس اور روم کے جہادوں میں سپہ سالار رہے امیرالمؤمنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دور خلافت میں ان کو کوفہ کا گورنر مقرر فرمایا پھر اس عہدہ سے معزول کر دیا اور یہ برابر جہادوں میں کفار سے کبھی سپاہی بن کر اور کبھی اسلامی لشکر کے سپہ سالار بن کر لڑتے رہے ۔ جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ امیر المؤمنین ہوئے تو انھوں نے دوبارہ انھیں کوفہ کا گورنر بنا دیا۔ یہ مدینہ منورہ کے قریب مقام ”عقیق ”میں اپنا ایک گھر بنا کر اس میں رہتے تھے اور 55ھ میں جبکہ ان کی عمر شریف 75 پچھتّر برس کی تھی اسی مکان کے اندر وفات پائی۔ آپ نے وفات سے پہلے یہ وصیت فرمائی تھی کہ میرے کفن میں میرا اون کا وہ پراناجبہ ضرور پہنایا جائے جس کو پہن کر میں نے جنگ بدرمیں کفار سے جہاد کیا تھا چنانچہ وہ جبہ آپ کے کفن میں شامل کیا گیا ۔ لوگ فرط عقیدت سے آپ کے جنازے کو کندھوں پر اٹھا کر مقام ”عقیق” سے مدینہ منورہ لائے اور حاکم مدینہ مروان بن حکم نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع میں آپ کی قبر منور بنائی ۔ .
ابراہیم علیہ السلام وہ پہلے پیغمبر تھے جن کو اللہ نے مُسلمان نبی پیغمبر ابو الانبیاء، خلیل اللہ امام الناس اور حنیف کہہ کر پُکارا۔ اللہ تعالی نے اپنے اس دوست برگزیدہ اور پیارے نبی کو قرآن مجید میں امتہ (النحل : 120) امام الناس (البقرہ: 124) حنیف اور مسلم (آل عمران: 67) کے ناموں سے بار بار بار کیا ہے۔ اکثر انبیائے کرام انہی کی اولاد سے ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام کے نام کی وجہ تسمیہ کے بارے میں بائبل کا بیان ہے کہ خدا تعالی ان سے مخاطب ہو کر کہتا ہے۔ دیکھ میرا عہد تیرے ساتھ ہے اور تو بہت قوموں کا باپ ہو گا۔ اور تیرا نام ابرام نہیں بلکہ ابراہام ہو گا۔ کیونکہ میں نے تجھے قوموں کا باپ بنایا ہے۔ (پیدائش 170:5) اکثر ماہرین کے نزدیک ابراہام یا ابراہیم ؑ بھی لفظ ہے۔ ہو سکتا ہے کہ پہلے آپ کا نام ابراہم ہو اور پھر ابراہام یا ابو رہام ہو گیا ہو۔مُسلمان اُن کو خلیل اللہ (اللہ کا دوست) کہتے ہیں۔ ابراہیم کی نسل سے کئی پیغمبر پیدا ہوئے، جن کا تذکرہ عہدنامہ قدیم میں ہے۔ اسلام کی کتاب قرآن مجید میں بھی بہت سارے ایسے انبیا کا ذکر ہے جو ابراہیم کی نسل میں سے تھے۔ اسلام کے آخری نبی مُحمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی ابراہیم کی نسل میں سے ہیں۔ شرک، ستارہ پرستی اور بت سازی کے خلاف اپنی قوم اور اوروں کے ساتھ ان کا مجادلہ و محاجہ بڑے زور سے پیش کیا گیا ہے۔ ابراہیم کا بچپن میں ہی رشد عطا کیا گیا اور قلب سلیم بھی عنایت فرمایا گیا۔ تکوینی عجائبات اور ملکوت السمٰوت والارض ان کے سامنے تھے۔ انھیں کے مشاہدے سے اُن کو یقین کامل حاصل ہوا۔ بت پرستی کے خلاف ابراہیم کے جہاد کا ذکر بھی قران کریم میں کئی بار آیا ہے۔قرآن حکیم میں حضرت ابراہیم ؑ اور آذر کے اختلاف عقائد کو جس طرح نمایاں کیا گیا ہے اور جس طرح آپ اپنی قوم کے شرک سے متنفر اور متصادم ہوئے۔ اس سے ہم آپ کی عظمت و جلالت کی حقیقت کو بھی پاسکتے ہیں۔ اور اپنے لیے شمع ہدایت بھی روشن کر سکتے ہیں۔ اس وجہ سے مسلمانوں کو ملت براہیمی ہونے پر فخر ہے۔ ان کے بارے میں یہ توکہیں وضاحت نہیں ہوئی کہ کیا وحی ان پر نازل ہوئی تھی یا ان کی بعثت محض روحانی تھی؟ البتہ قرآن مجید میں ایک جگہ اس امر کی تصدیق ہوئی ہے کہ اللہ تعالی آپ سے ہمکلام تھا۔ اہل تاریخ کے نزدیک متعدد صحیفے تھے جو ابراہیم پر نازل ہوئے۔ ایک صحیفہ جو ان کی طرف سے منسوب ہے یونانی سے انگریزی میں ترجمہ ہو کر شائع ہو چکا ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ کے دین کے بارے میں قرآن مجید میں کئی جگہ پر ارشار ہوتا ہے کہ آپ موحد مسلم اورراست رو تھے۔ ارشاد ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے: ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ”پھر ہم نے تیری طرف (حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی طرف) وحی کی کہ ابراہیم ؑ راست رو (مسلم) کے دین پر چل اور وہ مشرکوں میں سے نہیں تھا “ اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے: يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تُحَآجُّونَ فِي إِبْرَاهِيمَ وَمَا أُنزِلَتِ التَّورَاةُ وَالإنجِيلُ إِلاَّ مِن بَعْدِهِ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ هَاأَنتُمْ هَؤُلاء حَاجَجْتُمْ فِيمَا لَكُم بِهِ عِلمٌ فَلِمَ تُحَآجُّونَ فِيمَا لَيْسَ لَكُم بِهِ عِلْمٌ وَاللّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ مَا كَانَ إِبْرَاهِيمُ يَهُودِيًّا وَلاَ نَصْرَانِيًّا وَلَكِن كَانَ حَنِيفًا مُّسْلِمًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْرَاهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ وَهَـذَا النَّبِيُّ وَالَّذِينَ آمَنُواْ وَاللّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ ”اے اہل کتاب! تم ابراہیم ؑ کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو۔ حالانکہ توریت اور انجیل اس کے بعد ہی اتاری گئیں۔ پھر کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے۔ سنو! تم وہ ہو جو اس میں جھگڑ چکے، جس کا تمھیں علم تھا پھر اس میں کیوں جھگڑتے ہو جس کا میں علم نہیں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ ابراہیم ؑ نہ یہودی تھا اور نہ عیسائی، لیکن وہ راست رو اور فرماں بردار (مسلم اور حنیف) تھا اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھا۔ يقينا ابراہیم ؑ کے بہت نزدیک وہ لوگ ہیں جنھوں نے اس کی پیروی کی اور یہ نبی اور وہ جو اس پہ ایمان لائے اورالله مومنوں کا ولی ہے۔ قرآن مجید کی تقریباً بائیس سورتوں میں حضرت ابراہیم ؑ کا ذکر آتا ہے۔ آپ مسلمانوں کے رسول مقبول حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے جد امجد ہیں۔ گویا مسلمان نہ صرف امت محمدیہ سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ امت براہیمیہ سے بھی متعلق ہیں۔ مسلمان حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ حضرت ابراہیم ؑ اور ان کی اولاد پر بھی درود بھیجتے ہیں- Book Name: Sahih Muslim, Hadees # 6138 حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، وَابْنُ فُضَيْلٍ، عَنِ الْمُخْتَارِ، ح وحَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ السَّعْدِيُّ - وَاللَّفْظُ لَهُ -، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، أَخْبَرَنَا الْمُخْتَارُ بْنُ فُلْفُلٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا خَيْرَ الْبَرِيَّةِ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «ذَاكَ إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلَامُ» علی بن مسہر اور ابن فضیل نے مختار بن فلفل سے روایت کی ، انھوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور کہا : يا خَيرَ البرِيّۃِ اے مخلوقات میں سے بہترین انسان !
یزید کے دربار میں زینب بنت علی کا خطبہ
واقعہ کربلا کے بعد زینب بنت علی کا کردار بہت اہم ہے۔ واقعہ کربلا کے بعد وہ قیدی بنا کر کئی شہروں سے گزار کردمشق لے جائی گئیں۔ انھوں اس سفر اسیری میں کئی خطبے دیے ان میں سے ایک خطبہ یزید بن معاویہ کے دربار میں دیا۔ ان کے دیگر فصاحت و بلاغت سے بھرپور خطبات کی طرح ان کا یہ خطبہ بہت مشہور ہے۔ جس نے یزید کے دربار پر لرزہ طاری کر دیا تھا۔ یزید کی محفل میں جب بی بی زینب (سلام اللہ علیہا) کی نظر اپنے بھائی کے خون آلود سر پر پڑی تو انھوں نے جو غم ناک آواز میں فریاد کی جس سے سب لوگوں کے دل دہل گئے۔ آپ نے فرمایا تھا ”اے حسین اے محبوب خدا، اے مکہ و منی کے بیٹے! اے فاطمہ زہرا سید نساء العالمین کے بیٹے، اے محمد مصطفی کی بیٹی کے بیٹے!“ پھر یہ معروف خطبہ دیا جس نے دشمن حسین کے مقاصد کو خاک میں ملا دیا۔ راوی اس واقعہ کو نقل کرتے ہوئے کہتا ہے کہ: ”خدا کی قسم! بی بی زینب کی آواز سے وہ تمام لوگ رونے لگے جو یزید کے دربار میں بیٹھے ہوئے تھے اور یزید اس طرح خاموش بیٹھا ہوا تھا جس طرح اس کو سانپ سونگھ گیا ہو۔“ یزید نے خیزران کی لکڑی لانے کا حکم دیا، پھر یزید نے اس لکڑی کو امام حسین کے لبوں اور دانتوں پر لگایا۔ ابو برزہ اسلمی (جو صحابی رسول تھے اور وہاں پر موجود تھے) نے یزید کو مخاطب کر کے کہا: ”اے یزید!
اسم کسی جگہ شخص یا چیز کے نام کو اسم کہا جاتا ہے جیسے پاکستان، کراچی، لاہور، امجد، حنا، انور، کرسی، میز، قلم وغیرہ اسم کی کئی اقسام ہیں۔ اسم جامد، اسم مشتق، اسم مصدر، اسم معرفہ (خاص)، اسم نکرہ (عام) اسم معرفہ کی درج ذیل اقسام ہیں۔ اسم علم، اسم ضمیر، اسم اشارہ، اسم موصول۔ اسم نکرہ کی درج ذیل اقسام ہیں۔ اسم ذات، اسم حاصل مصدر، اسم حالیہ، اسم فاعل، اسم مفعول، اسم استفہام۔
جنگ آزادی ہند 1857ء جو ہندوستانیوں کی انگریز کے خلاف پہلی آزادی کی مسلح جنگ تھی اسے انگریزوں نے "جنگ غدر" کا نام دیا۔ عموماً اس کے دو سبب بیان کیے جاتے ہیں۔ اولاً یہ کہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان کے تمام صوبے اور کئی ریاستیں یکے بعد دیگرے اپنی حکومت میں شامل کر لی تھیں۔ جس کی وجہ سے ہندوستانیوں کے دل میں کمپنی کے متعلق شکوک پیدا ہو گئے۔ دوم یہ کہ ان دنوں جو کارتوس فوجیوں کو دیے جاتے تھے۔ وہ عام خیال کے مطابق سور اور گائے کی چربی سے آلودہ تھے اور انھیں بندوقوں میں ڈالنے سے بیشتر دانتوں سے کاٹنا پڑتا تھا۔ ہندو اور مسلمان فوجی سپاہیوں نے اسے مذہب کے منافی سمجھا اور ان میں کھلبلی مچ گئی۔ جن سپاہیوں نے ان کارتوسوں کو استعمال کرنے سے انکار کر دیا ان کی فوجی وردیاں اتار کر انھیں بیڑیاں پہنا دی گئیں۔ ان قیدیوں میں بہت سے ایسے تھے جنھوں نے انگریزوں کی خاطر بڑی بڑی قربانیاں دی تھیں۔
شیخ حسینہ واجد ((بنگالی: শেখ হাসিনা ওয়াজেদ)) بنگلہ دیش کی موجودہ اور دسویں وزیر اعظم ہیں۔ وہ بنگلہ دیش کے سیاست دان اوردیش کے پہلے صدر شیخ مجیب الرحمان بنگلہ کی صاحبزادی ہیں اور ان کا شمار بنگلہ دیش کے منجھے ہوئے سیاست دانوں میں ہوتا ہے۔ پہلے وہ 1986ء سے 1988ء تک، 1991ء سے 1996ء تک اور 2001ء سے 2006ء تک قائد حزب اختلاف رہیں۔ وہ 1996ء سے 2001ء تک اور 2009ء سے 2014ء تک وزیر اعظم بنگلہ دیش بھی رہ چکی ہیں۔ وہ سنہ 1981ء سے بنگلہ دیش عوامی لیگ کی قیادت کر رہی ہیں۔مجموعی طور پر 19 سال سے زائد عرصے تک خدمات انجام دینے کے بعد، وہ بنگلہ دیش کی تاریخ میں سب سے طویل عرصے تک وزیر اعظم رہنے والی ہیں۔ 20 جولائی 2024ء تک، وہ دنیا کی سب سے طویل عرصے تک حکومت کرنے والی خاتون سربراہ ہیں۔
رموز اوقاف (انگریزی: Punctuation) وہ علامتیں اور نشانیاں ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ عبارت میں کس جگہ اور کس طرح وقف کرنا ہے۔ رموز، رمز کی جمع ہے جس کا مطلب ہے علامت یا اشارہ جبکہ اوقاف، وقف کی جمع ہے جس کے معنی ٹھہرنے یا رکنے کے ہیں، یعنی رموز اقاف یا علامات وقف اُن اشاروں یا علامتوں کو کہتے ہیں جو کسی عبارت کے ایک جملے کے ایک حصے کو اس کے باقی حصوں سے علاحدہ کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ اردو، انگریزی یا دوسری زبانوں کے قواعد میں ان اوقاف اور علامات کو بہت اہمیت حاصل ہے اگر ان کا خیال نہ رکھا جائے تو مفہوم کچھ سے کچھ بلکہ بعض اوقات تو اس کے بالکل اُلٹ ہو جاتا ہے جہاں ٹھہرنا یا وقفہ کرنا ہو ان کے لیے اردو میں درج ذیل رموز اوقاف استعمال ہوتے ہیں۔ ختمہ (۔)، سوالیہ (؟)، سکتہ (،) تفصیلہ (:_)، قوسین () واوین (” “) ندائیہ یا فجائیہ (!) علامت شعر(؎) علامت مصرع (؏) علامت وغیرہ۔
ہجرت مدینہ پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ان کے صحابہ کی طرف سے مکہ مکرمہ سے یثرب (جسے اس ہجرت کے بعد مدینۃ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نام دیا گیا) منتقل ہوجانے کے عمل کو کہتے ہیں جو 12ربیع الاول 13نبوی (جو بعد میں پہلا ہجری سال کہلایا)، بمطابق 24 ستمبر 622ء عیسوی بروز جمعہ کو ہوئی، بعد میں اسی دن کی نسبت سے ہجری تقویم کا آغاز ہوا۔ مسلمانوں نے قمری ہجری تقویم اور شمسی ہجری تقویم دونوں کا آغاز اسی واقعہ کی بنیاد پر کیا۔
سورۃ، سورت یا سورہ عربی زبان کا لفظ ہے، قرآن مجید میں 114 سورتیں ہیں۔ ہر سورۃ آیات پر مشتمل ہوتی ہے۔ سورتوں کو مکی اور مدنی حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ مکی سورتیں وہ ہیں جو مدینہ کی طرف ہجرت سے پہلے مکہ شہر میں نازل ہوئیں ان کی تعداد 86 ہے۔ مکی دور کی سورتوں کا تعلق قیامت، جزا، یہودیت اور عیسائیت جیسے موضوعات پر ہے۔ مدنی سورتیں وہ ہیں جو ہجرت کے بعد نازل ہوئیں ان سورتوں کی تعداد 28 ہے۔ مدنی دور کی سورتیں ذاتی معاملات، معاشرے اور ریاست کے قوانین پر زیادہ توجہ دیتی ہیں۔ قرآن مجید کی نویں سورت سورہ توبہ کے علاوہ ہر سورت بسم اللہ الرحمن الرحیم (" اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے " ) سے شروع ہوتی ہے۔ انتیس سورتیں حروف مقطعات یعنی انوکھے حروف کے مجموعے وہ ہیں جن کے معانی نامعلوم ہیں سے شروع ہوتی ہیں۔ قرآن مجید کی پہلی سورت سورہ فاتحہ ہے۔ علمائے شرعی نے قرآن کی سورتوں کو ان کی لمبائی کے لحاظ سے تین حصوں میں تقسیم کیا ہے، یعنی سات لمبی سورتیں البقرہ، آل عمران، النساء، المائدہ، الانعام، الاعراف اور التوبہ۔ المئون جو سات لمبے دن ہیں اس کو اس لیے کہا گیا کہ اس کی ہر سورت سو آیات سے زیادہ یا اس کے قریب ہے۔ پہلے دور کے مسلمانوں نے قرآن کی سورتوں کے نام استعمال کی تعدد کے مطابق رکھے تھے، یہ بات مشہور ہے کہ عربوں نے بہت سے ناموں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے نام کسی نادر یا عجیب چیز سے لیے ہیں جس کی کوئی خصوصیت یا اہمیت ہو۔ جیساکہ اسی مناسبت سے قرآن کی سورتوں کے نام دیے گئے جیسے سورۃ البقرہ میں گائے کے قصے کے ذکر کی وجہ سے یہ نام رکھا گیا اور سورۃ النساء کو عورتوں کے متعلق بہت سے احکام مذکور ہونے کی وجہ سے یہ نام دیا گیا ہے۔ سورۃ الانعام کو اس کے حالات کی تفصیل کی وجہ سے کہا گیا ہے اور سورۃ الاخلاص بھی خالص توحید وجہ سے کہی گئی ہے۔ قرآن کی پہلی سورت سورہ فاتحہ ہے، لمبی سورتیں قرآن کے شروع میں اور چھوٹی سورتیں آخر میں جمع کی گئی ہیں، اس لیے سورتوں کی ترتیب ان کی تاریخ کے مطابق نہیں ہے۔ تمام سورتیں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سے شروع ہوتی ہیں۔ سورۃ التوبہ جو جنگ کے دوران میں نازل ہوئی تھی اس لیے اس سورت میں بسم اللہ شروع میں نہیں پڑھی جاتی۔ یہ سورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور مشرکین کے درمیان عہد کو توڑنے کے لیے نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے علی ابن ابی طالب کے پاس بھیجا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں پڑھ کر سنایا اور اس پر بسم اللہ نہیں کہی جیسا کہ عربوں کا رواج تھا۔ لیکن اس کے باوجود قرآن میں بسم اللہ کی تعداد 114 تک پہنچ جاتی ہے جو سورتوں کی تعداد کے برابر ہے۔ بسم اللہ سورۃ النمل کی آیت نمبر 30 میں جیسا کہ نبی اور بادشاہ سلیمان شیبہ کی ملکہ بلقیس کو اپنے خطوط شروع کرتے تھے۔ إِنَّهُ مِن سُلَيْمَانَ وَإِنَّهُ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ۔
خیبر پختونخوا یا مختصر طور پر پختونخوا، پاکستان کا ایک صوبہ ہے جو پاکستان کے شمالی مغربی حصّے میں واقع ہے۔ رقبے کے لحاظ پاکستان کے چار صوبوں میں سب سے چھوٹا جبکہ آبادی کے لحاظ سے تیسرا بڑا صوبہ ہے۔ اس کا شمالی حصّہ سرسبز و شاداب علاقوں پہ مشتمل ہے جہاں لوگ مختلف علاقوں سے سیر و تفریح کے لیے آتے ہیں۔ اور جنوبی حصّہ شہروں پر مشتمل ہے جہاں پاکستان کے بہت سے اہم ادارے اور صنعتیں موجود ہیں۔ صوبائی زبان پشتو اور صوبائی دار الحکومت پشاور ہے۔
مشہور ہندوستانی مصور، پورا نام مقبول فدا حسین (17پدائش ستمبر 1915ء؛ انتقال 9 جون 2011ء)، لیکن ایم ایف حسین کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ 17 ستمبر 1915 کو ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ کم عمر میں والدہ کا انتقال ہو گیا۔ جس کے بعد والد کے ساتھ اندور آ گئے جہاں انھوں نے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ مقبول فدا حسین بھارت کے سب سے مشہور مصوروں میں سے ایک تھے۔ بھارت کے پکاسو کے نام سے بھی مشہور حسین نے 1929 میں رنگوں کو اپنا دوست بنا لیا تھا۔ بمبئی آکر انھوں نے باقاعدہ آرٹ کی تعلیم حاصل کی۔ 1940 کے عشرے میں ان کا نام آرٹ کی دنیا میں ابھرا۔
سلطنت عثمانیہ (یا خلافت عثمانیہ 1517ء سے 1924ء تک) (عثمانی ترکی زبان: "دولت عالیہ عثمانیہ"، ترکی زبان: Osmanlı Devleti) سنہ 1299ء سے 1922ء تک قائم رہنے والی ایک مسلم سلطنت تھی جس کے حکمران ترک تھے۔ اپنے عروج کے زمانے میں (16 ویں – 17 ویں صدی) یہ سلطنت تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی اور جنوب مشرقی یورپ، مشرق وسطٰی اور شمالی افریقہ کا بیشتر حصہ اس کے زیر نگیں تھا۔ اس عظیم سلطنت کی سرحدیں مغرب میں آبنائے جبرالٹر، مشرق میں بحیرۂ قزوین اور خلیج فارس اور شمال میں آسٹریا کی سرحدوں، سلوواکیہ اور کریمیا (موجودہ یوکرین) سے جنوب میں سوڈان، صومالیہ اور یمن تک پھیلی ہوئی تھی۔ مالدووا، ٹرانسلوانیا اور ولاچیا کے باجگذار علاقوں کے علاوہ اس کے 29 صوبے تھے۔
نجم الدولہ، دبیر الملک، مرزا نوشہ اسد اللہ خان غالب بہادر نظام جنگ (1797ء- 1869ء) اردو زبان کے سب سے بڑے شاعروں میں ایک سمجھے جاتے ہیں۔ یہ تسلیم شدہ بات ہے کہ 19 ویں صدی غالب کی صدی ہے۔ جبکہ 18 ویں میر تقی میر کی تھی اور 20 ویں علامہ اقبال کی۔ غالب کی عظمت کا راز صرف ان کی شاعری کے حسن اور بیان کی خوبی ہی میں نہیں ہے۔ ان کا اصل کمال یہ ہے کہ وہ زندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کو گہرائی میں جا کر سمجھتے تھے اور بڑی سادگی سے عام لوگوں کے لیے بیان کر دیتے تھے۔ غالب جس پر آشوب دور میں پیدا ہوئے اس میں انھوں نے مسلمانوں کی ایک عظیم سلطنت کو برباد ہوتے ہوئے اور باہر سے آئی ہوئی انگریز قوم کو ملک کے اقتدار پر چھاتے ہوئے دیکھا۔ غالباً یہی وہ پس منظر ہے جس نے ان کی نظر میں گہرائی اور فکر میں وسعت پیدا کی۔
اردو زبان میں سینتیس حروفِ تہجی اور سینتالیس آوازیں ہیں جن میں سے بیشتر عربی سے لیے گئے ہیں اور دیگر انہی کی مختلف شکلیں ہیں۔ کچھ حروف کئی طریقوں سے استعمال ہوتے ہیں اور کچھ مخلوط حروف بھی استعمال ہوتے ہیں جو دو حروف سے مل کر بنتے ہیں۔ بعض لوگ 'ء' کو الگ حرف نہیں مانتے مگر پرانی اردو کتب اور لغات میں اسے الگ حرف کے طور پر لکھا جاتا ہے۔ مختلف الفاظ میں یہ الگ حرف کے طور پر ہی استعمال ہوتا ہے مثلاً 'دائرہ'۔ یہ بات مدِنظر رکھنا ضروری ہے کہ اردو تختی اور اردو حروف دو مختلف چیزیں ہیں کیونکہ اردو تختی میں اردو حروفِ تہجی کی کئی اشکال ہو سکتی ہیں جن کو الگ حرف کا درجہ نہیں دیا جا سکتا بلکہ وہ ایک ہی حرف کی مختلف شکلیں ہیں۔ مثلاً نون غنہ نون کی شکل ہے اور 'ھ' اور 'ہ' ایک ہی حرف کی مختلف اشکال ہیں۔ ایک اور مثال الف ممدودہ (آ) اور الف مقصورہ (ا) کی ہے جو اردو تختی میں الگ ہیں مگر اردو کا ایک ہی حرف شمار ہوتے ہیں۔
ابو محمد حجاج بن یوسف بن حکم بن ابو عقیل ثقفی۔ طائف میں پیدا ہوا وہیں اس کی پرورش ہوئی، حجاج بن یوسف طائف کے مشہور قبیلہ بنو ثقیف سے تعلق رکھتا تھا۔ ابتدائی تعلیم و تربیت اس نے اپنے باپ سے حاصل کی۔ جو ایک مدرس تھا۔ حجاج بچپن سے ہی اپنے ہم جماعتوں پر حکومت کرنے کا عادی تھا۔ تعلیم سے فارغ ہو کر اس نے اپنے باپ کے ساتھ ہی تدریس کا پیشہ اختیار کیا لیکن وہ اس پیشے پر قطعی مطمئن نہ تھا اور کسی نہ کسی طرح حکمران بننے کے خواب دیکھتا رہتا تھا۔ بالاخر وہ طائف چھوڑ کر دمشق پہنچا اور کسی نہ کسی طرح عبدالملک بن مروان کے وزیر کی ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ وزیر نے جلدی ہی اس کی انتظامی صلاحیتوں کو بھانپ لیا اور اسے ترقی دے کر اپنی جاگیر کا منتظم مقرر کر دیا۔ ایک چیز جس کی وزیر کو ہمیشہ شکایت رہتی تھی اس کی سخت گیری تھی لیکن اس سخت گیری کی وجہ سے وزیر کی جاگیر کا انتظام بہتر ہو گیا تھا۔
معراج کمالِ معجزاتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ یہ وہ عظیم خارقِ عادت واقعہ ہے جس نے تسخیرِ کائنات کے مقفّل دروازوں کو کھولنے کی اِبتداء کی۔ اِنسان نے آگے چل کر تحقیق و جستجو کے بند کواڑوں پر دستک دی اور خلاء میں پیچیدہ راستوں کی تلاش کا فریضہ سر انجام دیا۔ رات کے مختصر سے وقفے میں جب اللہ ربّ العزّت حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مسجدِ حرام سے نہ صرف مسجد اقصیٰ تک بلکہ جملہ سماوِی کائنات کی بے اَنت وُسعتوں کے اُس پار ’’قَابَ قَوْسَيْنِ‘‘ اور ’’أَوْ أَدْنَى‘‘ کے مقاماتِ بلند تک لے گیا اور آپ مدّتوں وہاں قیام کے بعد اُسی قلیل مدّتی زمینی ساعت میں اِس زمین پر دوبارہ جلوہ اَفروز بھی ہو گئے۔ قرآن کریم میں سورہ بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں ارشادِ خداوندی ہے کہ وہ (ذات) پاک ہے جو ایک رات اپنے بندے کو مسجد الحرام یعنی (خانہ کعبہ) سے مسجد اقصیٰ (یعنی بیت المقدس) تک جس کے اردگرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں لے گیا تاکہ ہم اسے اپنی (قدرت کی) نشانیاں دکھائیں۔ بے شک وہ سننے والا (اور) دیکھنے والا ہے۔ رجب کی ستائیسویں شب کو اللہ کے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو معراج کا شرف عطا کیا گیا۔اگرچہ اس واقعہ کے زمان کے بارے میں کئی روایات موجود ہیں لیکن محققین کی تحقیق کے مطابق یہ واقعہ ہجرت سے تین سال قبل پیش آیا،یعنی دسویں سالِ بعثت کو۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ شیعہ سنی علما کا اتفاق ہے کہ نماز جناب ابو طالبؑ کی وفات کے بعد یعنی بعثت کے دسویں سال کو واجب ہوگئ تو پانچ وقت کی نماز اسی معراج کی رات امت پہ واجب ہو گئی تھی۔منقول ہے کہ اس دن کفار نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بہت ستایا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی چچازاد بہن ام ہانی کے گھر تشریف لے گئے اور وہاں آرام فرمانے لگے۔ ادھر اللہ کے حکم سے حضرت جبرئیل پچاس ہزار فرشتوں کی برات اور براق لے کر نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ کا رب آپ سے ملاقات چاہتا ہے۔ چنانچہ سوئے عرش سفر کی تیاریاں ہونے لگیں۔ سفر معراج کا سلسلہ شروع ہونے والا تھا نبی رحمت کی بارگاہ میں براق حاضر کیا گیا جس پر حضور کو سوار ہونا تھا، مگر اللہ کے پیارے محبوب نے کچھ توقف فرمایا۔ جبرئیل امین نے اس پس و پیش کی وجہ دریافت کی تو آپ نے ارشاد فرمایا: مجھ پر تو اللہ رب العزت کی اس قدر نوازشات ہیں، مگر روز قیامت میری امت کا کیا ہو گا؟ میری امت پل صراط سے کیسے گذرے گی؟ اسی وقت اللہ تعالٰی کی طرف سے بشارت دی گئی :اے محبوب!