اردو ویکیپیڈیا کے سب سے زیادہ ملاحظہ کردہ مضامین کی فہرست۔ مزید معلومات کے لیے ۔ ۔ ۔
سیکسی امریکی مصنفہ جوائس کیرول اوٹس (Joyce Carol Oates) کا ایک ناول ہے۔ یہ پہلی بار 2005ء میں شائع ہوا اور نوجوان قارئین کے لیے لکھا گیا ان کا چوتھا ناول ہے۔ کتاب میں کم سنی میں جنسی رغبت، ہم جنس پرستی اور قبل از شادی جنسی تعلقات جیسے موضوعات کے ساتھ ساتھ بالغ زبان کا استعمال کیا گیا ہے، جس کی وجہ سے اسے بعض اسکول لائبریریوں سے پابندی کے لیے نشانہ بنایا گیا۔
انا لله و انا الیہ راجعون (عربی: إِنَّا لِلَّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ) آیت استرجاع کہلاتی ہے جو قرآن میں سورۃ البقرہ کی آیت 156 سے ماخوذ ہے۔ اس کا مطلب ہے: "ہم اللّٰہ کے ہیں اور ہمیں اللّٰہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے (یعنی مرنے کے بعد)۔" جب مسلمان کسی کی موت یا مصیبت کی خبر سنتے ہیں تو یہ آیت پڑھتے ہیں۔ وہ اس آیت کو تعزیت کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں اور خصوصاً مصیبت یا نقصان کے وقت صبر کی گواہی دیتے ہیں۔ بے شک مُسلمین کو (مُصیبت اور نقصان کے وقت) صبر اور نماز کے ذریعے اللّٰہ سے مدد لینے کا حُکم ہے۔
ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال (ولادت: 9 نومبر 1877ء – وفات: 21 اپریل 1938ء) بیسویں صدی کے ایک معروف شاعر، مصنف، قانون دان، سیاستدان اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھے۔ اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے اور یہی ان کی بنیادی وجہ شہرت ہے۔ شاعری میں بنیادی رجحان تصوف اور احیائے امت اسلام کی طرف تھا۔ علامہ اقبال کو دور جدید کا صوفی سمجھا جاتا ہے۔ بحیثیت سیاست دان ان کا سب سے نمایاں کارنامہ نظریۂ پاکستان کی تشکیل ہے، جو انھوں نے 1930ء میں الہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پیش کیا تھا۔ یہی نظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا۔ اسی وجہ سے علامہ اقبال کو پاکستان کا نظریاتی باپ سمجھا جاتا ہے۔ گو کہ انھوں نے اس نئے ملک کے قیام کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن انھیں پاکستان کے قومی شاعر کی حیثیت حاصل ہے۔
جدید علم جینیات کی رو سے بالاتفاق برصغیر کی سرزمین پر تہتر ہزار برس پہلے سے پچپن ہزار برس قبل کی درمیانی مدت میں انسانوں کی آمد کا سراغ ملتا ہے جو افریقا سے وارد ہوئے تھے، لیکن اثریاتی نقطۂ نظر سے جنوبی ایشیا میں انسانی وجود کے اولین آثار تیس ہزار برس پرانے ہیں جبکہ خوارک کی فراہمی، کاشت کاری اور گلہ بانی وغیرہ کے ہنگاموں سے معمور باقاعدہ انسانی زندگی کا آغاز سات ہزار ق م کے آس پاس ہوا۔ مہر گڑھ کے مقام پر جو اور گیہوں کی پیداوار کے آثار ملتے ہیں اور ساتھ ہی ایسے قرائن بھی پائے گئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے معاً بعد بھیڑ بکریوں اور گائے بیل وغیرہ مویشیوں کے پالنے کا رجحان پیدا ہو چکا تھا۔ پینتالیس سو ق م تک انسانی زندگی مختلف شعبوں تک پھیل گئی اور بتدریج وادیٔ سندھ کی تہذیب کی صورت میں دنیا کے نقشے پر ابھری۔ اس تہذیب کا شمار عہد قدیم کی اولین تہذیبوں میں ہوتا ہے۔ یہ قدیم مصر اور میسوپوٹیمیا کی تہذیبوں کی ہم عصر تھی۔ وادی سندھ کی تہذیب 2500 ق م سے 1900 ق م تک برصغیر کے اُس خطہ میں پھلتی پھولتی رہی جو آج پاکستان اور شمال مغربی ہندوستان میں واقع ہے۔ شہری منصوبہ بندی، پکی اینٹوں کے مکانات، نکاسیِ آب کا پختہ بندوبست اور آب رسانی کا عمدہ نظم اس تہذیب کی خصوصیات میں داخل ہیں۔
ابو القاسم محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب (12 ربیع الاول عام الفیل / اپریل 570ء یا 571ء – 12 ربیع الاول 10ھ / 8 جون 632ء) مسلمانوں کے آخری نبی ہیں۔ اہل اسلام کے نزدیک حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تمام مذاہب کے پیشواؤں سے کامیاب ترین پیشوا تھے۔ آپ کی کنیت ابو القاسم تھی۔ مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ کی طرف سے انسانیت کی جانب بھیجے جانے والے انبیائے کرام کے سلسلے کے آخری نبی ہیں جن کو اللہ نے اپنے دین کی درست شکل انسانوں کی جانب آخری بار پہنچانے کے لیے دنیا میں بھیجا۔ انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دنیا کی تمام مذہبی شخصیات میں سب سے کامیاب شخصیت تھے۔ 570ء (بعض روایات میں 571ء) مکہ میں پیدا ہونے والے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر قرآن کی پہلی آیت چالیس برس کی عمر میں نازل ہوئی۔ ان کا وصال تریسٹھ (63) سال کی عمر میں 632ء میں مدینہ میں ہوا، مکہ اور مدینہ دونوں شہر آج کے سعودی عرب میں حجاز کا حصہ ہیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف کے والد کا انتقال ان کی دنیا میں آمد سے قریبا چھ ماہ قبل ہو گیا تھا اور جب ان کی عمر چھ سال تھی تو ان کی والدہ حضرت آمنہ بھی اس دنیا سے رحلت فرما گئیں۔ عربی زبان میں لفظ "محمد" کے معنی ہیں 'جس کی تعریف کی گئی'۔ یہ لفظ اپنی اصل حمد سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے تعریف کرنا۔ یہ نام ان کے دادا حضرت عبدالمطلب نے رکھا تھا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو رسول، خاتم النبیین، حضور اکرم، رحمۃ للعالمین اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے القابات سے بھی پکارا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی آپ کے بہت نام و القاب ہیں۔ نبوت کے اظہار سے قبل حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے چچا حضرت ابوطالب کے ساتھ تجارت میں ہاتھ بٹانا شروع کر دیا۔ اپنی سچائی، دیانت داری اور شفاف کردار کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عرب قبائل میں صادق اور امین کے القاب سے پہچانے جانے لگے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس 610ء میں ایک روز حضرت جبرائیل علیہ السلام (فرشتہ) ظاہر ہوئے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اللہ کا پیغام دیا۔ جبرائیل علیہ السلام نے اللہ کی جانب سے جو پہلا پیغام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پہنچایا وہ یہ ہے۔
ابوبکر صدیق عبد اللہ بن ابو قحافہ عثمان تیمی قرشی (573ء—634ء) اسلام کے پہلے خلیفہ راشد، عشرہ مبشرہ میں شامل، خاتم النبین محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اولین جانشین، صحابی، خسر اور ہجرت مدینہ کے وقت رفیق سفر تھے۔ اہل سنت و الجماعت کے یہاں ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ انبیا اور رسولوں کے بعد انسانوں میں سب سے بہتر، صحابہ میں ایمان و زہد کے لحاظ سے سب سے برتر اور ام المومنین عائشہ بنت ابوبکر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے محبوب تر تھے۔ عموماً ان کے نام کے ساتھ صدیق کا لقب لگایا جاتا ہے جسے حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی تصدیق و تائید کی بنا پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دیا تھا۔
پاکستان، جس کا سرکاری نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے، جنوبی ایشیا کا ایک ملک ہے۔ یہ آبادی کے لحاظ سے پانچواں سب سے بڑا ملک ہے، جس کی آبادی 2023 کے مطابق 24 کروڑ 15 لاکھ سے زیادہ ہے، اور اس میں مسلمانوں کی دوسری سب سے بڑی آبادی ہے۔ اسلام آباد اس کا دار الحکومت ہے، جبکہ کراچی اس کا سب سے بڑا شہر اور مالیاتی مرکز ہے۔ پاکستان رقبے کے لحاظ سے 33واں سب سے بڑا ملک ہے۔ یہ جنوب میں بحیرہ عرب، جنوب مغرب میں خلیج عمان اور جنوب مشرق میں سر کریک سے متصل ہے۔ اس کی زمینی سرحدیں مشرق میں بھارت، مغرب میں افغانستان، جنوب مغرب میں ایران اور شمال مشرق میں چین کے ساتھ ملتی ہیں۔ یہ خلیج عمان میں عمان کے ساتھ سمندری سرحد بھی رکھتا ہے اور شمال مغرب میں افغانستان کے تنگ واخان راہداری کے ذریعے تاجکستان سے جدا ہوتا ہے۔
احمد خان متقی بن محمد متقی (17 اکتوبر 1817ء – 27 مارچ 1898ء) المعروف سر سید، سر سید احمد خان انیسویں صدی کے ایک ہندوستانی مسلم نظریۂ عملیت کے حامل ، مصلح اور فلسفی تھے۔ ان کو برصغیر میں مسلم قوم پرستی کا سرخیل مانا جاتا ہے اور دو قومی نظریہ کا خالق تصور کیا جاتا ہے، جو آگے چل کر تحریک پاکستان کی بنیاد بنا۔
فاطمہ بنت محمد بن عبد اللہ جن کا معروف نام فاطمۃ الزہراء ہے حضرت محمد بن عبد اللہ اور خدیجہ بنت خویلد کی بیٹی تھیں۔ تمام مسلمانوں کے نزدیک آپ ایک برگزیدہ ہستی ہیں۔۔ آپ کی ولادت 20 جمادی الثانی بروز جمعہ بعثت کے پانچویں سال میں مکہ میں ہوئی۔ آپ کی شادی علی ابن ابی طالب سے ہوئی جن سے آپ کے دو بیٹے حسن اور حسین اور دو بیٹیاں زینب اور ام کلثوم پیدا ہوئیں۔ آپ کی وفات اپنے والد حضرت محمد بن عبد اللہ کی وفات کے کچھ ماہ بعد 632ء میں ہوئی۔ آپ کے بہت سے القابات مشہور ہیں۔
ابو الحسن علی بن ابی طالب ہاشمی قُرشی (15 ستمبر 601ء – 29 جنوری 661ء) خلافت راشدہ کے چوتھے خلیفہ تھے جنھوں نے 656ء سے 661ء تک حکومت کی۔ ابو الحسن عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے بعد اسلام کے خلیفہ بنے، لیکن انھیں شیعہ اثناعشریہ و زیدیہ مسلمانوں کے ہاں خلیفہ بلا فصل، پہلا امام معصوم اور وصی رسول اللہ سمجھا جاتا ہے۔ وہ پیغمبر اسلام محمد کے چچا زاد اور داماد تھے۔ ام المومنین خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے بعد دوسرے شخص تھے جو اسلام لائے۔ اور ان سے قبل ایک خاتون کے علاوہ کوئی مردو زن مسلمان نہیں ہوا۔ یوں سابقین اسلام میں شامل اور عشرہ مبشرہ، بیعت رضوان، اصحاب بدر و احد، میں سے بھی تھے بلکہ تمام جنگوں میں ان کا کردار سب سے نمایاں تھا اور فاتح خیبر تھے، ان کی ساری ابتدائی زندگی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ساتھ گذری۔ وہ تنہا صحابی ہیں جنھوں نے کسی جنگ میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تنہا نہیں چھوڑا ان کی فضیلت میں صحاح ستہ میں درجنوں احادیث ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انھیں دنیا اور آخرت میں اپنا بھائی قرار دیا اور دیگر صحابہ کے ساتھ ان کو بھی جنت اور شہادت کی موت کی خوش خبری دی۔
نجم الدولہ، دبیر الملک، مرزا نوشہ اسد اللہ خان غالب بہادر نظام جنگ (1797ء- 1869ء) اردو زبان کے سب سے بڑے شاعروں میں ایک سمجھے جاتے ہیں۔ یہ تسلیم شدہ بات ہے کہ 19 ویں صدی غالب کی صدی ہے۔ جبکہ 18 ویں میر تقی میر کی تھی اور 20 ویں علامہ اقبال کی۔ غالب کی عظمت کا راز صرف ان کی شاعری کے حسن اور بیان کی خوبی ہی میں نہیں ہے۔ ان کا اصل کمال یہ ہے کہ وہ زندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کو گہرائی میں جا کر سمجھتے تھے اور بڑی سادگی سے عام لوگوں کے لیے بیان کر دیتے تھے۔ غالب جس پر آشوب دور میں پیدا ہوئے اس میں انھوں نے مسلمانوں کی ایک عظیم سلطنت کو برباد ہوتے ہوئے اور باہر سے آئی ہوئی انگریز قوم کو ملک کے اقتدار پر چھاتے ہوئے دیکھا۔ غالباً یہی وہ پس منظر ہے جس نے ان کی نظر میں گہرائی اور فکر میں وسعت پیدا کی۔
سائبر سیکس (انگریزی: Cybersex) جسے کمپیوٹر سیکس، انٹرنیٹ سیکس، نیٹ سیکس اور سائبرنگ بھی کہا جاتا ہے، ایک بینشی ہمبستری کا معاملہ ہے جس میں دو یا اس سے زیادہ افراد دور دراز کے فاصلوں پر کمپیوٹر نیٹ ورک سے جڑتے ہیں اور ایک دوسرے کو مباشرت پر آمادہ پیامات بھیجتے ہیں۔ ایک طرح سے یہ تخیلی ہم بستری اس طرح مکمل ہوتی ہے کہ اس کے شرکاء اپنے اعمال کا تذکرہ کرتے ہیں اور اپنی گفتگو کے ساتھیوں کو جوابات بھیجتے ہیں جو اس شکل ہوتے ہیں کہ اس سے ان کی خود کی جنسی خواہشات اور تخیلات کو ہوا ملتی ہے۔ سائبر سیکس میں اکثر حقیقی زندگی کی مشت زنی کا ماحول ہوتا ہے۔ ایسے ماحول جن میں سائبر سیکس انجام پزیر ہو ضروری نہیں کہ مخصوص موضوع تک محدود رہے اور چیاٹ کے شرکاء اچانک کوئی دعوتی پیام وصول کر سکتے ہیں۔ سائبر سیکس کے معاملے کی کیفیت عمومًا اس بات پر منحصر ہے کہ شرکاء میں کس طرح ایک زندہ جذباتی دماغی تصویر اپنے ساتھیوں کے دماغوں میں چھوڑ سکتے ہیں۔ خیالات کی روانی اور بے یقینی کی معطلی بھی ضروری طور پر اہمیت کے حامل ہیں۔ سائبر سیکس کسی رواں یا بہت ہی گہرا چکے رشتے کے بیچ ممکن ہے، مثلًا ایسے عاشقوں کے بیچ کو جغرافیائی طور پر الک ہو چکے ہیں یا ان افراد کے بیچ ہو سکتا ہے جو پہلے سے ایک دوسرے سے غیر مانوس ہیں اور محض آن لائن مقامات یا سائبر جگہوں پر ملتے ہیں اور یہ لوگ ایک دوسرے سے ممکنہ طور پر اپنے ناموں اور شناختوں مخفی رکھنا چاہتے ہیں۔ کچھ سیاق و سباق میں سائبر سیکس ویب کیمبرا کی مدد سے مزید روانی کا مظاہرہ کر سکتی ہے اور اس کے ذریعے ساتھیوں کے ویڈیو بر سر موقع فریق ثانی تک پہنچ سکتے ہیں۔
ٹیپو سلطان (پیدائش: سلطان فتح علی صاحب ٹیپو: 20 نومبر، 1750ء - وفات:4 مئی، 1799ء) شیرِ میسور سلطان حیدر علی کے سب سے بڑے فرزند، جنھیں میسور کا شیر بھی کہا جاتا ہے , ریاست میسور کے حکمران تھے۔ ہندوستان کے اصلاح و حریت پسندحکمران، بین المذاہب ہم آہنگی کی زندۂ جاوید مثال، طغرق (فوجی راکٹ) کے موجد تھے۔ انھوں نے اپنی حکمرانی کے دوران متعدد انتظامی اختراعات متعارف کروائیں، جن میں ایک نیا سکوں کا نظام اور کیلنڈر اور ایک نیا زمینی محصول کا نظام شامل تھا، جس کی وجہ سے میسور کی ریشم کی صنعت نے ترقی کا آغاز کیا۔ انھوں نے میسوری راکٹ اور فوجی دستہ فتح المجاہدین کو قائم کیا۔ انھوں نے اینگلو میسور جنگوں کے دوران برطانوی افواج اور ان کے اتحادیوں کی پیش قدمی کے خلاف راکٹوں کو استعمال کیا۔
سانحۂ کربلا یا واقعہ کربلا یا کربلا کی جنگ 10 محرم 61ھ (بمطابق 9 یا 10 اکتوبر، 680ء) کو، موجودہ عراق میں کربلا کے مقام پر پیش آیا۔ یہ جنگ نواسہ رسول حضرت امام حسین ابن علی، ان کے حامیوں اور رشتہ داروں کے ایک چھوٹے سے گروہ، حسین ابن علیؓ کے ساتھ 72 ساتھی، کچھ غلام، 22 اہل بیت کے جوان اور خاندان نبوی کی کچھ خواتین و بچے شامل تھے اور اموی ظالم حکمران یزید اول کی ایک بڑی فوج کے مابین ہوئی۔جس کو حسین ابنِ علی نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔جس میں اموی خلیفہ یزید اول کی فوج نے پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نواسے حسین ابن علی اور ان کے رفقا کو لڑائی میں شہید کیا، حرم حسین کے خیموں کو لوٹ لیا گیا اور بالآخر آگ لگا دی گئی۔ عمر بن سعد کی فوج نے کربلا کے صحرا میں مقتولین کی لاشیں چھوڑ دیں۔ بنی اسد کے لوگوں نے لاشوں کو تین دن بعد دفن کیا۔ واقعہ کربلا کے بعد، حسین ابن علی کی فوج سے وابستہ متعدد خواتین اور بچوں کو گرفتار کر کے قید کر دیا گیا، بازار اور ہجوم والے مقامات سے گذر کر ان کی توہین کی گئی اور انھیں یزید ابن معاویہ کے دربار شام بھیج دیا گیا تھا۔ جنگ میں شہادت کے بعد حضرت امام حسین کو سید الشہدا کے لقب سے پکارا جاتا ہے۔
بینک یا مصرف (bank) ایسا معاشی ادارہ ہوتا ہے جو لوگوں کی رقم محفوظ رکھنے کے لیے جمع کرتا ہے اور اس رقم کو قرض دینے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ لوگوں سے رقم لے کر اُن کو کم شرح سود ادا کرتا ہے اور لوگوں کو رقم دے کر ان سے زیادہ شرح سود وصول کرتا ہے۔ شرح سود کا یہ فرق ہی بینک کا منافع ہوتا ہے۔ بینک کے پیشہ کو بینکاری کہتے ہیں۔
پاکستان کا آئین، جسے 1973 کا آئین بھی کہا جاتا ہے، پاکستان کا اعلیٰ ترین قانون ہے۔ یہ دستاویز پاکستان کے قانون، سیاسی ثقافت اور نظام کی رہنمائی کرتی ہے۔ یہ ریاست کا خاکہ، آبادی کے بنیادی حقوق، ریاست کے قوانین اور احکامات اور اداروں اور مسلح افواج کے ڈھانچے اور قیام کو بیان کرتی ہے۔ یہ ذو الفقار علی بھٹو کی حکومت نے ملک کی اپوزیشن جماعتوں کی اضافی مدد سے تیار کیا تھا اور اسے 10 اپریل کو 5ویں پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر منظور کیا اور 14 اگست 1973 کو توثیق کی گئی۔ پہلے تین ابواب حکومت کی تین شاخوں کے قواعد، مینڈیٹ اور علاحدہ اختیارات قائم کرتے ہیں: ایک دو ایوانی مقننہ؛ ایک ایگزیکٹو برانچ جسے وزیر اعظم بطور چیف ایگزیکٹو چلاتے ہیں؛ اور ایک اعلیٰ وفاقی عدلیہ جس کی سربراہی سپریم کورٹ کرتی ہے۔ آئین پاکستان کے صدر کو ریاست کے اتحاد کی نمائندگی کرنے والے رسمی سربراہ مملکت کے طور پر نامزد کرتا ہے۔ آئین کے پہلے چھ مضامین سیاسی نظام کو وفاقی پارلیمانی جمہوریہ کے نظام کے طور پر بیان کرتے ہیں؛ اور اسلام کو اس کا ریاستی مذہب بھی قرار دیتے ہیں۔ آئین میں قرآن اور سنت میں موجود اسلامی احکام کی تعمیل کے لیے قانونی نظام کی دفعات بھی شامل ہیں۔
تاریخ ہند کی سب سے بڑی اور پہلی سلطنت موریا تھی۔ جس کا بانی چندر گپت موریا تھا۔ عام روایات کے مطابق یہ نند خاندان کا ناجائز فرد تھا جوکسی بنا پر راجا کی ناراضی سے ڈر کر پنجاب کی طرف بھاگ گیا تھا۔ پنجاب میں چندر گپت پنجاب و سرحد کے غیر مطمئن قبائل کا رہنما بن گیا۔ اس نے اپنے وزیر چانکیا یا کوٹلیاChaknia or Koutlia کی مدد سے یونانی بالادستی کے خلاف بغاوت کردی اور ایک سال کے اندر یونانی حکومت کے اثر و نفوز کو مٹا کر ایک نئے شاہی خاندان کی بنیاد رکھی۔ جو اس کی ماں کے نام سے موریہ تاریخ میں مشہور ہوا۔ چندر گپت یونانی اثرات کو زائل کرنے کے بعد مگدھ کی ریاست پر حملہ آور ہوا۔ اس جنگ میں نند خاندان کا آخری حکمران مارا گیا۔
آئین پاکستان میں اٹھارہویں ترمیم
پاکستانی آئین میں اٹھارویں ترمیم 8 اپریل 2010 کو قومی اسمبلی پاکستان نے پاس کی۔ اس وقت آصف علی زرداری پاکستان کے صدر تھے۔اٹھارویں ترمیم پاکستان کی تاریخ کا اک روشن باب ہے۔ اٹھارویں ترمیم نے صدر کے پاس موجود تمام ایکزیکٹو اختیارات پارلیمان کو دے دیے، چونکہ وزیر اعظم قائدِ ایوان (Leader of the House) ہوتا ہے لہذا زیادہ اختیارات وزیر اعظم کے پاس بھی آئے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے شمالی مغربی سرحد صوبے کا نام تبدیل کرکے خیبر پختونخوا رکھا گیا گیا۔ وفاق سے زیادہ تر اختیارات لے کر صوبوں کو دیے گئے۔
قرآن کریم، قرآن مجید یا قرآن شریف (عربی: القرآن الكريم) دین اسلام کی مقدس و مرکزی کتاب ہے جس کے متعلق ہم اسلام کے پیروکاروں کا اعتقاد ہے کہ یہ کلام الہی ہے اور اسی بنا پر یہ انتہائی محترم و قابل عظمت کتاب ہے۔ اسے ہمارے پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی کے ذریعے اتارا گیا۔ یہ وحی اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتے حضرت جبرائیل علیہ السلام لاتے تھے جیسے جیسے قرآن مجید کی آیات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوتیں آپ صلی علیہ وآلہ وسلم اسے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو سناتے اور ان آیات کے مطالب و معانی سمجھا دیتے۔ کچھ صحابہ کرام تو ان آیات کو وہیں یاد کر لیتے اور کچھ لکھ کر محفوظ کر لیتے۔ ہم مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن ہر قسم کی تاریف بیان کرتا ہے پاک ہے محفوظ ہے ، قرآن میں آج تک کوئی کمی بیشی نہیں ہو سکی اور اسے دنیا کی واحد محفوظ افضل کتاب ہونے کی حیثیت حاصل ہے، جس کا حقیقی مفہوم تبدیل نہیں ہو سکا اور تمام دنیا میں کروڑوں کی تعداد میں چھپنے کے باوجود اس کا متن ایک جیسا ہے اور اس کی تلاوت عبادت ہے۔ اور صحف ابراہیم، زبور اور تورات و انجیل کے بعد آسمانی کتابوں میں یہ سب سے آخری اور افضل کتاب ہے اور سابقہ آسمانی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اب اس کے بعد کوئی آسمانی کتاب نازل نہیں ہوگی۔ قرآن کی فصاحت و بلاغت کے پیش نظر اسے لغوی و مذہبی لحاظ سے تمام عربی کتابوں میں اعلیٰ ترین مقام حاصل ہے۔ نیز عربی زبان و ادب اور اس کے نحوی و صرفی قواعد کی وحدت و ارتقا میں بھی قرآن کا خاصا اہم کردار دکھائی دیتا ہے۔ چنانچہ قرآن کے وضع کردہ عربی زبان کے قواعد بلند پایہ عرب محققین اور علمائے لغت مثلاً سیبویہ، ابو الاسود الدؤلی اور خلیل بن احمد فراہیدی وغیرہ کے یہاں بنیادی ماخذ سمجھے گئے ہیں۔
ابوحفص عمر فاروق بن خطاب عدوی قرشی (586ء/590ء، مکہ - 6 نومبر 644ء، مدینہ) ابوبکر صدیق کے بعد مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ راشد، محمد مصطفی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سسر اور تاریخ اسلام کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک ہیں۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں، ان کا شمار علما و زاہدین صحابہ میں ہوتا تھا۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد 23 اگست سنہ 634ء مطابق 22 جمادی الثانی سنہ 13ھ کو مسند خلافت سنبھالی۔ عمر بن خطاب ایک باعظمت، انصاف پسند اور عادل حکمران مشہور ہیں، ان کی عدالت میں مسلم و غیر مسلم دونوں کو یکساں انصاف ملا کرتا تھا، عمر بن خطاب کا یہ عدل و انصاف انتہائی مشہور ہوا اور ان کے لقب فاروق کی دیگر وجوہ تسمیہ میں ایک وجہ یہ بھی بنی۔ آپ رضی اللہ عنہ کا نسب نویں پشت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے جا ملتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نویں پشت میں کعب کے دو بیٹے ہیں مرہ اور عدی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مرہ کی اولاد میں سے ہیں، جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ عدی کی اولاد میں سے ہیں۔
عمران احمد خان نیازی پاکستانی سیاست دان, سابق کرکٹ کھلاڑی اور پاکستان کے سابق وزیر اعظم ہیں اور پاکستان تحریک انصاف کے بانی بھی ہیں۔ اس سے پہلے وہ 2002ء تا 2007ء اور 2013ء تا 2018ء تک پاکستان قومی اسمبلی کے رکن بھی رہ چکے ہیں۔ سیاست میں قدم رکھنے سے قبل عمران خان ایک کرکٹر اور مخیر تھے۔ انھوں نے دو دہائیوں تک بین الاقوامی کرکٹ کھیلی اور بعد میں خدمت خلق کے منصوبے بنائے جیسے کہ شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال اور ریسرچ سینٹر اور نمل کالج وغیرہ۔
فیلڈ مارشل سید عاصم منیر احمد شاہ پاکستانی بری افواج کے پانچ ستارہ جنرل، موجودہ اور گیارہویں سربراہ پاک فوج ہیں۔ آرمی چیف کے عہدے پر فائز ہونے سے پہلے وہ جی ایچ کیو میں بطور کوارٹر ماسٹر جنرل کمانڈ کر رہے تھے۔ انھوں نے 17 جون 2019ء سے 6 اکتوبر 2021ء تک گوجرانوالہ میں XXX کور (پاکستان) کی کمانڈ کی۔ انھوں نے آئی ایس آئی کے 23 ویں ڈائریکٹر جنرل کے طور پر خدمات انجام دیں یہاں تک کہ ان کی جگہ16 جون 2019ء کو لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو تعینات کیا گیا۔ منیر نے افسران کی تربیت گاہ، منگلا میں کیڈٹ کی حیثیت سے اپنی کارکردگی پر "اعزازی تلوار" حاصل کی۔ وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے انھیں 24 نومبر 2022ء کو 3 سال کی مدت کے لیے 17ویں چیف آف آرمی اسٹاف کے طور پر مقرر کیا۔ عاصم منیر وہ پہلے چیف آف آرمی اسٹاف ہیں جو ایم آئی اور آئی ایس آئی دونوں خفیہ اداروں کی سربراہی کر چکے ہیں۔ 20 مئی 2025ء کو عاصم منیر کو فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی دی گئی، یوں وہ پاکستان کی تاریخ میں اس رتبے تک پہنچنے والے دوسرے فرد بنے ان سے پہلے صرف ایوب خان کو یہ اعزاز حاصل ہوا تھا۔ عاصم پاکستان کے وہ پہلے اور واحد سربراہ پاک فوج بھی بنے جنھوں نے فیلڈ مارشل کے عہدہ کے ساتھ اس منصب پر خدمات انجام دیں۔ فیلڈ مارشل کا درجہ ایک باوقار اور فائیو اسٹار اعزازی عہدہ ہے، جو جنرل کے رینک سے بھی بلند ہوتا ہے۔
عارفہ سیدہ زہرا (وفات: 10نومبر2025ء)، پاکستانی ماہر تعلیم اور اردو زبان کی ماہر تھیں۔ انھوں نے پہلے لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی، پھر گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی اور مزید ڈگری منووا میں ہوائی یونیورسٹی سے حاصل کی۔ عارفہ سیدہ فارمن کرسچن کالج میں تاریخ کی پروفیسر ہیں اور لاہور کالج برائے خواتین یونیورسٹی کی سابقہ پرنسپل ہیں۔ وہ خواتین کی حیثیت سے متعلق قومی کمیشن میں چیئرپرسن تھیں۔ زہرا پنجاب کی سابق نگران صوبائی وزیر ہے۔ وہ اردو زبان اور ادب کے بارے میں اپنی معلومات کے لیے پہچانی جاتی ہیں اور وہ دانشورانہ تاریخ اور جنوب ایشیائی معاشرتی امور میں مہارت رکھتی ہیں۔ یونیورسٹی کے دائرے سے باہر، وہ زبان کی کانفرنسوں اور ٹیلی ویژن فورمز میں بھی تقریر کرتی ہیں۔
بدر کی جنگ (عربی: غَزْوَةُ بَدْرٍ، اردو میں: غزوۂ بدر)، جسے قرآن اور مسلمانوں کی جانب سے یوم فرقان (عربی: يَوْمُ الْفُرْقَانْ) بھی کہا جاتا ہے، 13 مارچ 624ء (17 رمضان 2 ہجری) کو موجودہ سعودی عرب کے صوبہ مدینہ میں واقع بدر کے قریب لڑی گئی تھی۔ اس جنگ میں حضرت محمد نے اپنے صحابہ کی قیادت کرتے ہوئے قریش کی فوج کو شکست دی، جس کی قیادت عمرو بن ہشام کر رہا تھا، جو مسلمانوں میں ابو جہل کے نام سے مشہور تھا۔ یہ جنگ حضرت محمد اور ان کی قبیلہ قریش کے درمیان چھ سالہ جنگ کا نقطہ آغاز بنی۔ اس سے قبل، 623ء کے آخر اور 624ء کے آغاز میں مسلمانوں اور مکہ کے مشرکین کے درمیان چند چھوٹی جھڑپیں ہو چکی تھیں۔
زُہران(1) کوامے ممدانی (پیدائش: 18 اکتوبر 1991ء) امریکی سیاست دان ہیں۔ وہ ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں اور 2021ء سے نیویارک اسٹیٹ اسمبلی میں کوئینز کے حلقہ 36 سے رکن ہیں۔ وہ ڈیموکریٹک سوشلسٹس آف امریکا کے بھی رکن ہیں اور 2025ء کے بلدیاتی انتخابات میں نیو یارک شہر کے میئر کے لیے منتخب ہوئے ہیں اور یکم جنوری 2026ء کو میئر نیو یارک شہر کے طور پر حلف اٹھائیں گے۔
آن لائن لغت سے مراد ایسا لغت جسے انٹرنیٹ کی مدد سے ویب براؤزر میں دیکھا اور پڑھا جا سکے۔ آن لائن لغات کی فراہمی کے متعدد طریقے رائج ہیں: مفت لیکن اضافی یا پیشہ ورانہ مواد کے لیے زر اشتراک درکار ہوتا ہے یا مکمل با معاوضہ۔ بعض آن لائن لغات فرہنگ کی طرح محض الفاظ کی فہرست پر مشتمل ہوتے ہیں، جبکہ بعض لغات اضافی خصوصیات مثلاً تلاش، قواعد زبان وغیرہ کے حامل ہوتے ہیں۔
اسلام ایک توحیدی مذہب ہے جو اللہ کی طرف سے، حضرت محمد ﷺ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ذریعے انسانوں تک پہنچائی گئی آخری الہامی کتاب (قرآن مجيد) کی تعلیمات پر قائم ہے۔ یعنی دنیاوی اعتبار سے بھی اور دینی اعتبار سے بھی اسلام (اور مسلم نظریے کے مطابق گذشتہ ادیان کی اصلاح) کا آغاز، 610ء تا 632ء تک 23 سال پر محیط عرصے میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اللہ کی طرف سے اترنے والے الہام (قرآن) سے ہوتا ہے۔ قرآن عربی زبان میں نازل ہوا (برائے وجہ : اللسان القرآن) اور اسی زبان میں دنیا کی کل آبادی کا کوئی 24% حصہ یعنی لگ بھگ 1.6 تا 1.8 ارب افراد اس کو پڑھتے ہیں؛ ان میں (مختلف ذرائع کے مطابق) قریباً 20 تا 30 کروڑ ہی وہ ہیں جن کی مادری زبان عربی ہے جبکہ 70 تا 80 کروڑ، غیر عرب یا عجمی ہیں جن کی مادری زبان عربی کے سوا کوئی اور ہوتی ہے۔ متعدد شخصی ماخذ سے اپنی موجودہ شکل میں آنے والی دیگر الہامی کتابوں کے برعکس، بوسیلۂ وحی، فردِ واحد (محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے منہ سے ادا ہوکر لکھی جانے والی کتاب اور اس کتاب پر عمل پیرا ہونے کی راہنمائی فراہم کرنے والی شریعت ہی دو ایسے وسائل ہیں جن کو اسلام کی معلومات کا منبع قرار دیا جاتا ہے۔
اردو زبان کی ابتدا کے متعلق نظریات
اردو کی ابتدا و آغاز کے بارے میں کئی مختلف نظریات ملتے ہیں یہ نظریات آپس میں اس حد تک متضاد ہیں کہ انسان چکرا کر رہ جاتا ہے۔ ان مشہور نظریات میں ایک بات مشترک ہے کہ ان میں اردو کی ابتدا کی بنیاد برصغیر پاک و ہند میں مسلمان فاتحین کی آمد پر رکھی گئی ہے۔ اور بنیادی استدلال یہ ہے کہ اردو زبان کا آغاز مسلمان فاتحین کی ہند میں آمد اور مقامی لوگوں سے میل جول اور مقامی زبان پر اثرات و تاثر سے ہوا۔ اور ایک نئی زبان معرض وجود میں آئی جو بعد میں اردو کہلائی۔ کچھ ماہرین لسانیات نے اردو کی ابتدا کا سراغ قدیم آریاؤں کے زمانے میں لگانے کی کوشش کی ہے۔اردو زبان کی ابتدا کے بارے میں ایک خیال یہ بھی ہے کہ یہ ہریانوی زبان سے شروع ہوئی۔ بہر طور اردو زبان کی ابتدا کے بارے میں کوئی حتمی بات کہنا مشکل ہے۔ اردو زبان کے محققین اگرچہ اس بات پر متفق ہیں کہ اردو کی ابتدا مسلمانوں کی آمد کے بعد ہوئی لیکن مقام اور نوعیت کے تعین اور نتائج کے استخراج میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس انداز سے اگر اردو کے متعلق نظریات کو دیکھا جائے تو وہ نمایاں طور پر چار مختلف نظریات کی شکل میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔
سلطنت عثمانیہ (یا خلافت عثمانیہ 1517ء سے 1924ء تک) (عثمانی ترکی زبان: "دولت عالیہ عثمانیہ"، ترکی زبان: Osmanlı Devleti) سنہ 1299ء سے 1922ء تک قائم رہنے والی ایک مسلم سلطنت تھی جس کے حکمران ترک تھے۔ اپنے عروج کے زمانے میں (16 ویں – 17 ویں صدی) یہ سلطنت تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی اور جنوب مشرقی یورپ، مشرق وسطٰی اور شمالی افریقہ کا بیشتر حصہ اس کے زیر نگیں تھا۔ اس عظیم سلطنت کی سرحدیں مغرب میں آبنائے جبرالٹر، مشرق میں بحیرۂ قزوین اور خلیج فارس اور شمال میں آسٹریا کی سرحدوں، سلوواکیہ اور کریمیا (موجودہ یوکرین) سے جنوب میں سوڈان، صومالیہ اور یمن تک پھیلی ہوئی تھی۔ مالدووا، ٹرانسلوانیا اور ولاچیا کے باجگذار علاقوں کے علاوہ اس کے 29 صوبے تھے۔
علاؤ الدین خلجی کے حملے نے دکن کی زبان اور تہذیب و تمدن کو بہت متاثر کیا۔ مرکز سے دور ہونے کی وجہ سے علاؤ الدین خلجی نے یہاں ترک سرداروں کو حکمران بنا دیا۔ بعد میں محمد تغلق نے دہلی کی بجائے دیو گری کو دار السلطنت قرار دیے کر ساری آبادی کووہاں جانے کا حکم دیا۔ جس کی وجہ سے بہت سے مسلمان گھرانے وہاں آباد ہوئے۔ ان کے ساتھ ہی نئی زبان و تہذیب بھی دکن پہنچی۔ مقامی باشندوں اور اہلیانِ دلی کے ملاپ سے ہندوی زبان وجود میں آئی جسے قدیم اردو بھی کہا جاتا ہے۔ سب سے پہلے صوفیا نے اس زبان کو تبلیغی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ اس کے بعد اس زبان نے اتنی تیزی سے ترقی کی کہ جب دکن میں مستقل تصانیف ملتی ہیں اس وقت شمالی ہندوستان میں سوائے امیر خسرو کی خالق باری، سید اشرف سمنانی کے رسالہ نثر اور افضل جھنجھانوی کی مثنوی کے کوئی کارنامہ نظر نہیں آتا۔ سلطان محمد تغلق کی سلطنت کمزور ہوئی تو دکن میں آزاد بہمنی سلطنت قائم ہوئی اور دکن، شمالی ہندوستان سے کٹ کر رہ گیا۔ بہمنی سلطنت کے زوال کے بعد پانچ آزاد ریاستیں وجود میں آگئیں۔ ان میں بیجا پور کی عادل شاہی اور گولکنڈہ کی قطب شاہی سلطنت نے اردو زبان و ادب کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ ان ریاستوں کے حکمران ادیب اور ادب پرور تھے۔ ابراہیم عادل شاہ نے اردو کو شاہی زبان کا درجہ دے دیا۔
مہاراجا اشوک سلطنت موریہ کا تیسرا شہنشاہ گذرا۔ وہ سلطنت مگدھ (جنوبی بہار،بھارت) کا راجا چندر گپت موریا کا پوتا ہے۔ اشوک 272 قبل مسیح میں گدّی پر بیٹھا۔ اُس نے چندر گُپت سے بھی زیادہ شہرت پائی۔اور اپنا دار السلطنت ٹیکسلا کو بنایا۔ اُس کو اکثر اشوکِ اعظم کہا جاتا ہے کیونکہ اپنے عہد کا سب سے بڑا اور طاقتور راجا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اشوک نے اپنے ایک بھائی کو چھوڑ کر 99 بھائیوں کو قتل کر دیا۔ جوانی میں اشوک لڑائی کا بڑا مرد تھا۔ وہ کہا کرتا تھا کہ کلِنگ (اُڑیسا) کو فتح کر کے اپنی سلطنت میں شامِل کر لوں گا۔ چنانچہ تین سال لڑا اور کلنگ کو فتح کر لیا۔ کہتے ہیں کہ اس جنگ میں ہزاروں لاکھوں کا خون ہوتا ہوا دیکھ کر اشوک کے دل میں ایسا رحم آیا کہ یک بیک طبیعت بالکل بدل گئی کہنے لگا کہ اب میں بدھ کی تعلیم پر چلوں گا اور کبھی کسی سے لڑائی نہ کروں گا۔ بدھ مت کو اپنے تمام راج کا مذہب قرار دیا اور اپنا نام پر یاد رشی یا حبیب خدا رکھا۔ اس کا ایک بیٹا بھکشو اور بیٹی بھکشنی ہو گئی۔ اس نے دونوں کو سیلون (سنگلدیب) بھیجا کہ وہاں بدھ مت کی تبلیغ کریں۔ اب دوسری مجلس کو منعقد ہوئے سوا سو سال سے زیادہ ہو گئے تھے اور بدھ مت میں کئی قسم کی تبدیلیاں نمایاں ہونے لگی تھیں۔ ان کی تحقیق کے لیے 242قبل مسیح میںمیں اشوک نے اس مذہب کے ایک ہزار بزرگوں اور عالموں کی تیسری بڑی مجلس منعقد کی۔ مراد یہ تھی کہ بدھ مت کی تعلیم بعد کی بدعتوں اور آمیزشوں سے پاک ہو کر اپنے بانی کی اصلی تعلیم کے مطابق ہو جائے۔ پاٹلی پتر میں یہ مجلس منعقد ہوئی۔ بدھ مت کی تمام حکایتیں اور روایتیں پالی زبانی میں لکھ لی گئیں۔ کچھ اوپر دو ہزار برس سے بدھ مت کے جو شاستر جنوبی ایشیا میں جاریہیں۔ وہ اسی مجلس کے مرتب کیے ہوئے۔ہیں، بدھ دھرم کی تبلیغ کے لیے اشوک نے کشمیر، قندھار، تبت، برہما، دکن اور سیلون (سنگلدیپ) میں بھکشو روانہ کیے۔
الناصر صلاح الدین یوسف بن ایوب (عربی: الناصر صلاح الدين يوسف بن أيوب; کرد: سەلاحەدینی ئەییووبی) جنھیں عام طور پر صلاح الدین ایوبی کے نام سے جانا جاتا ہے ایوبی سلطنت کے بانی تھے۔ وہ نہ صرف تاریخ اسلام بلکہ تاریخ عالم کے مشہور ترین فاتحین و حکمرانوں میں سے ایک ہیں۔ وہ 1138ء میں موجودہ عراق کے شہر تکریت میں پیدا ہوئے۔ ان کی زیر قیادت ایوبی سلطنت نے مصر، شام، یمن، عراق، حجاز اور دیار بکر پر حکومت کی۔ صلاح الدین ایوبی کو بہادری، فیاضی، حسن و خلق، سخاوت اور بردباری کے باعث نہ صرف مسلمان بلکہ مسیحی بھی عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ صلاح الدین ایوبی اپنے کارناموں میں نور الدین زنگی پر بھی بازی لے گئے۔ ان میں جہاد کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا اور بیت المقدس کی فتح ان کی سب سے بڑی خواہش تھی۔ صلاح الدین کو فاتح بیت المقدس کہا جاتا ہے جنھوں نے 1187ء میں یورپ کی متحدہ افواج کو عبرتناک شکست دے کر بیت المقدس ان سے آزاد کروا لیا تھا۔ صلاح الدین ایوبی 1193ء میں دمشق میں انتقال کر گئے، انھوں نے اپنی ذاتی دولت کا زیادہ تر حصہ اپنی رعایا کو دے دیا۔ وہ مسجد بنو امیہ سے متصل مقبرے میں مدفون ہیں۔ مسلم ثقافت کے لیے اپنی اہمیت کے ساتھ ساتھ، صلاح الدین کا کرد، ترک اور عرب ثقافت میں نمایاں طور پر احترام کیا جاتا ہے۔ انھیں اکثر تاریخ کی سب سے مشہور کرد شخصیت کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔
پاک بھارت تنازع 2025ء مسلح تصادم تھا جس کا آغاز 7 مئی 2025ء کو ہوا جب بھارت نے پاکستان پر میزائل حملے کیے، جنھیں آپریشن سِن٘دُور(2) کا نام دیا گیا۔ بھارت نے دعویٰ کیا کہ یہ کارروائی 22 اپریل کو بھارتی زیر انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں عسکریت پسندوں کے حملے کے جواب میں کی گئی جس میں 28 شہری، جن میں اکثریت سیاحوں کی تھی، ہلاک ہو گئے تھے۔ اس حملے کے بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا کیونکہ بھارت نے پاکستان پر سرحد پار دہشت گردی کی حمایت کا الزام عائد کیا جس کی پاکستان نے تردید کی۔ یہ واقعات بالآخر 2025ء کی پاک بھارت کشیدگی کا سبب بنے جو مسئلہ کشمیر کا حصہ ہے۔
یونین کونسل پاکستان میں انتظامی تقسیم کے لحاظ چھٹی اکائی ہے، یعنی سب سے پہلے وفاق پھر صوبہ پھر ڈویژن پھر ضلع پھر تحصیل اور پھر یونین کونسل۔ لیکن 2007ء کے بعد ڈویژن ختم کر دیا گیا اس لیے اب یونین کونسل پانچویں اکائی بن گئی ہے۔ یونین کونسل بلدیاتی حکومت کا سب اہم حصہ ہوتا ہے۔ یونین کونسل حکومت میں 13 کونسلر ہوتے ہیں جن کی سربراہی ناظم اور نائب ناظم کرتے ہیں۔ پاکستان میں اس وقت 6500 سے زائد یونین کونسلز ہیں۔
موسیٰ علیہ السلام اللہ کے برگزیدہ پیغمبروں میں سے ایک ہیں۔ آپ کے بھائی ہارون علیہ السلام بھی اللہ کے برگزیدہ نبیوں میں سے ایک ہیں۔یہ 1520 قبلِ مسیح کی بات ہے۔ مِصر پر فرعون بادشاہ’’مرنفتاح ثانی‘‘ کی حکومت تھی۔بعض نے اُس کا نام’’ منفتاح‘‘ بھی لکھا ہے اور وہ والد، رعمسیس کے بڑھاپے کی وجہ سے عملاً حکم ران بنا ہوا تھا۔ خدائی کا دعوے دار یہ بادشاہ بڑا ظالم و جابر تھا۔ اُس نے’’ بنی اسرائیل‘‘ کو اپنا غلام بنا رکھا تھا، حالاں کہ وہ حضرت یوسف کے زمانے سے وہاں رہائش پزیر تھے۔ حضرت یوسفؑ نے اپنے والد، حضرت یعقوبؑ اور اپنے بھائیوں کے لیے ایک قطعۂ زمین اُس وقت کے فرعون بادشاہ ’’ریان بن ولید‘‘ سے حاصل کیا تھا۔ حضرت یعقوبؑ کی یہی نسل’’بنی اسرائیل‘‘ کہلائی، جو مِصر میں خُوب پَھلی پُھولی۔ یہ لوگ حضرت یعقوبؑ کے دین کے پیروکار تھے، چناں چہ اُس وقت اللہ کے نزدیک یہ سب سے بہتر جماعت تھی۔ انھوں نے فرعون کو سجدہ کرنے اور اُسے اپنا ربّ ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ اسی وجہ سے بادشاہ اور اُس کے حواری ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھاتے اور اُن سے گھٹیا کام کرواتے۔ یاد رہے، فرعون کسی خاص شخص کا نام نہیں، بلکہ مِصر کے بادشاہوں کا لقب تھا۔ تاریخی حقائق کے مطابق، 31فراعنہ خاندانوں نے مِصر پر یکے بعد دیگرے حکومت کی۔ سب سے آخری خاندان نے 332قبلِ مسیح میں سکندرِ اعظم کے ہاتھوں شکست کھائی۔
صحابہ (عربی: الصحابۃ، "پیروکار") اسلام میں نبی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، کے ان پیرو کاروں کو کہا جاتا ہے جنھوں نے ان کی اپنی حیات میں اسلام قبول کیا اور ان کو کچھ وقت کی صحبت ملی۔ اور اسی ایمان کی حالت میں وہ دنیا سے گئے۔ بعض صحابہ نابینا بھی تھے اور بعض لوگ جنھوں نے اسلام قبول کیا، مگر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دور یا بعد میں پھر مرتد ہوئے اور پھر اسلام قبول کیا (محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیات کے بعد) تو ان کو صحابی نہیں کہا جاتا۔
جنگ احد 7 شوال 3ھ (23 مارچ 625ء) میں مسلمانوں اور مشرکینِ مکہ کے درمیان احد کے پہاڑ کے دامن میں ہوئی۔ مشرکین کے لشکر کی قیادت ابوسفیان کے پاس تھی اور اس نے 3000 سے زائد افراد کے ساتھ مسلمانوں پر حملہ کی ٹھانی تھی جس کی باقاعدہ تیاری کی گئی تھی۔ مسلمانوں کی قیادت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کی۔ اس جنگ کے نتیجہ کو کسی کی فتح یا شکست نہیں کہا جا سکتا کیونکہ دونوں طرف شدید نقصان ہوا اور کبھی مسلمان غالب آئے اور کبھی مشرکین لیکن آخر میں مشرکین کا لشکر لڑائی ترک کر کے مکہ واپس چلا گیا۔
جنگ آزادی ہند 1857ء جو ہندوستانیوں کی انگریز کے خلاف پہلی آزادی کی مسلح جنگ تھی اسے انگریزوں نے "جنگ غدر" کا نام دیا۔ عموماً اس کے دو سبب بیان کیے جاتے ہیں۔ اولاً یہ کہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان کے تمام صوبے اور کئی ریاستیں یکے بعد دیگرے اپنی حکومت میں شامل کر لی تھیں۔ جس کی وجہ سے ہندوستانیوں کے دل میں کمپنی کے متعلق شکوک پیدا ہو گئے۔ دوم یہ کہ ان دنوں جو کارتوس فوجیوں کو دیے جاتے تھے۔ وہ عام خیال کے مطابق سور اور گائے کی چربی سے آلودہ تھے اور انھیں بندوقوں میں ڈالنے سے بیشتر دانتوں سے کاٹنا پڑتا تھا۔ ہندو اور مسلمان فوجی سپاہیوں نے اسے مذہب کے منافی سمجھا اور ان میں کھلبلی مچ گئی۔ جن سپاہیوں نے ان کارتوسوں کو استعمال کرنے سے انکار کر دیا ان کی فوجی وردیاں اتار کر انھیں بیڑیاں پہنا دی گئیں۔ ان قیدیوں میں بہت سے ایسے تھے جنھوں نے انگریزوں کی خاطر بڑی بڑی قربانیاں دی تھیں۔
میر تقی میر (پیدائش: 28 مئی 1723ء— وفات: 20 ستمبر 1810ء) اصل نام میر محمد تقى اردو كے عظیم شاعر تھے۔ میر ان کا تخلص تھا۔ اردو شاعرى ميں مير تقى مير كا مقام بہت اونچا ہے ـ انھیں ناقدین و شعرائے متاخرین نے خدائے سخن کے خطاب سے نوازا۔ وہ اپنے زمانے كے ايك منفرد شاعر تھےـ۔ آپ كے متعلق اردو كے عظیم الشان شاعرمرزا غالب نے لکھا ہے۔
جنگ موتہ یا غزوہ موتہ جمادی الاول 8ھ (ستمبر 629ء) میں جنوب مغربی اردن میں موتہ کے مقام پر ہوئی جو دریائے اردن اور اردن کے شہر کرک کے درمیان میں ہے۔ اس میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شریک نہیں تھے اس لیے اسے غزوہ نہیں کہتے بلکہ جنگ یا سریہ یا معرکہ (عربی میں معركة مؤتہ ) کہتے ہیں۔ اس میں علی المرتضی سمیت کئی جلیل القدر صحابہ شامل نہیں تھے۔ یہ بازنطینی (مشرقی رومی) افواج اور مسلمانوں کے درمیان میں ہوئی۔ بازنطینی افواج میں نصف عرب مسیحی بھی شامل تھے جن کا تعلق اردن و بلاد شام سے تھا۔ جنگ کسی واضح نتیجہ کے بغیر ختم ہوئی اور طرفین (آج کے مسلمان اور مغربی دنیا) اسے اپنی اپنی فتح سمجھتے ہیں۔
عرفان الحق صدیقی، جو سیکڑوں سول، فوجی بیوکریٹس اور دیگر شعبہ ہائے زندگی میں سروس انجام دینے والوں کے 78 سالہ استاد، ماہر تعلیم، مصنف، دانشور، نثر نگار، شاعر اور صاحب طرز کالم نگار جو عرفان صدیقی کے نام سے مشہور ہیں راولپنڈی میں پیدا ہوئے، وہ جماعت اسلامی کے مرحوم رہنمااوردانش ورنعیم صدیقی کے بھانجے، اسلام آبادہائیکورٹ کے سابق جسٹس شوکت عزیزصدیقی کے پھوپھی زادہیں چئیرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل زبیرحیات، آرمی چیف جنرل قمرجاویدباجوہ اوراعجازالحق بھی آپ کے شاگردوں میں شامل ہیں، صدیقی صاحب نے لاہور میں واقع پنجاب یونیورسٹی سے ‘‘تعلیم و تربیت ’’ میں بیچلر اور پھر اردو زبان میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔
شوال۔ ذی القعدہ 5ھ (مارچ 627ء) میں مشرکینِ مکہ نے مسلمانوں سے جنگ کی ٹھانی۔ ابوسفیان نے قریش اور دیگر قبائل حتیٰ کہ یہودیوں سے بھی لوگوں کو جنگ پر راضی کیا اور اس سلسلے میں کئی معاہدے کیے اور ایک بہت بڑی فوج اکٹھی کر لی مگر مسلمانوں نے سلمان فارسی کے مشورہ سے مدینہ کے ارد گرد ایک خندق کھود لی۔ مشرکینِ مکہ ان کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ خندق کھودنے کی عرب میں یہ پہلی مثال تھی کیونکہ اصل میں یہ ایرانیوں کا طریقہ تھا۔ ایک ماہ کے محاصرے اور اپنے بے شمار افراد کے قتل کے بعد مشرکین مایوس ہو کر واپس چلے گئے۔ اسے غزوہ خندق یا جنگِ احزاب کہا جاتا ہے۔ احزاب کا نام اس لیے دیا جاتا ہے کہ اصل میں یہ کئی قبائل کا مجموعہ تھی۔ جیسے آج کل امریکا، برطانیہ وغیرہ کی اتحادی افواج کہلاتی ہیں۔ اس جنگ کا ذکر قرآن میں سورۃ الاحزاب میں ہے۔
الحافظ اللہ تعالیٰ کے خوبصورت ناموں (اسماء الحسنى) میں سے ایک ہے، اسی طرح الحفيظ بھی انہی میں شامل ہے۔ ان دونوں کا معنی یہ ہے کہ: اللہ وہ ہے جو مخلوق کے اعمال کو محفوظ رکھتا ہے، ان کے اقوال کو گنتا ہے، ان کی نیتوں اور ان کے دلوں کے بھیدوں کو جانتا ہے اور اپنے نیک بندوں کو گناہوں اور شیطانوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ ان ناموں کے معانی میں قرآن کی حفاظت بھی شامل ہے۔
اطہر من اللہ (پیدائش: 30 سمبر 1961ء) پاکستانی قانون دان ہیں جو 11 نومبر 2022ء سے عدالت عظمیٰ پاکستان کے جج کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ عدالت عظمیٰ پاکستان میں تعیناتی سے قبل وہ عدالت عالیہ اسلام آباد کے 8 سال جج اور 28 نومبر 2018ء سے 10 نومبر 2022ء تک چیف جسٹس کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔
آئین پاکستان میں چھبیسویں ترمیم
آئین پاکستان کی چھبیسویں ترمیم جسے سرکاری طور پر Constitution (Twenty-sixth Amendment) Act, 2024 کا نام دیا گیا ہے۔ یہ آئین پاکستان کی ایک ترمیم ہے جس کے تحت آئین میں کئی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ یہ آئینی ترمیم 20 اکتوبر 2024ء کو ایوان سے منظور ہوئیں جبکہ پارلیمنٹ سے اس کی منظوری کا اجلاس اس کے بعد شروع ہوا، جو 21 اکتوبر تک جاری رہا۔ اس مسودہ کو 18 اکتوبر 2024ء کو ایک خصوصی پارلیمانی کمیٹی نے حتمی شکل دی، جس میں 11 صفحات اور 26 ترامیم شامل ہیں۔ یہ ترمیم عدالتی عمل کے مختلف پہلوؤں کو تبدیل کرنے، عدالتی اختیارات کی وضاحت کرنے اور قانونی طریقہ کار میں رد و بدل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
ابراہیم علیہ السلام وہ پہلے پیغمبر تھے جن کو اللہ نے مُسلمان نبی پیغمبر ابو الانبیاء، خلیل اللہ امام الناس اور حنیف کہہ کر پُکارا۔ اللہ تعالی نے اپنے اس دوست برگزیدہ اور پیارے نبی کو قرآن مجید میں امتہ (النحل : 120) امام الناس (البقرہ: 124) حنیف اور مسلم (آل عمران: 67) کے ناموں سے بار بار بار کیا ہے۔ اکثر انبیائے کرام انہی کی اولاد سے ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام کے نام کی وجہ تسمیہ کے بارے میں بائبل کا بیان ہے کہ خدا تعالی ان سے مخاطب ہو کر کہتا ہے۔ دیکھ میرا عہد تیرے ساتھ ہے اور تو بہت قوموں کا باپ ہو گا۔ اور تیرا نام ابرام نہیں بلکہ ابراہام ہو گا۔ کیونکہ میں نے تجھے قوموں کا باپ بنایا ہے۔ (پیدائش 170:5) اکثر ماہرین کے نزدیک ابراہام یا ابراہیم ؑ بھی لفظ ہے۔ ہو سکتا ہے کہ پہلے آپ کا نام ابراہم ہو اور پھر ابراہام یا ابو رہام ہو گیا ہو۔مُسلمان اُن کو خلیل اللہ (اللہ کا دوست) کہتے ہیں۔ ابراہیم کی نسل سے کئی پیغمبر پیدا ہوئے، جن کا تذکرہ عہدنامہ قدیم میں ہے۔ اسلام کی کتاب قرآن مجید میں بھی بہت سارے ایسے انبیا کا ذکر ہے جو ابراہیم کی نسل میں سے تھے۔ اسلام کے آخری نبی مُحمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی ابراہیم کی نسل میں سے ہیں۔ شرک، ستارہ پرستی اور بت سازی کے خلاف اپنی قوم اور اوروں کے ساتھ ان کا مجادلہ و محاجہ بڑے زور سے پیش کیا گیا ہے۔ ابراہیم کا بچپن میں ہی رشد عطا کیا گیا اور قلب سلیم بھی عنایت فرمایا گیا۔ تکوینی عجائبات اور ملکوت السمٰوت والارض ان کے سامنے تھے۔ انھیں کے مشاہدے سے اُن کو یقین کامل حاصل ہوا۔ بت پرستی کے خلاف ابراہیم کے جہاد کا ذکر بھی قران کریم میں کئی بار آیا ہے۔قرآن حکیم میں حضرت ابراہیم ؑ اور آذر کے اختلاف عقائد کو جس طرح نمایاں کیا گیا ہے اور جس طرح آپ اپنی قوم کے شرک سے متنفر اور متصادم ہوئے۔ اس سے ہم آپ کی عظمت و جلالت کی حقیقت کو بھی پاسکتے ہیں۔ اور اپنے لیے شمع ہدایت بھی روشن کر سکتے ہیں۔ اس وجہ سے مسلمانوں کو ملت براہیمی ہونے پر فخر ہے۔ ان کے بارے میں یہ توکہیں وضاحت نہیں ہوئی کہ کیا وحی ان پر نازل ہوئی تھی یا ان کی بعثت محض روحانی تھی؟ البتہ قرآن مجید میں ایک جگہ اس امر کی تصدیق ہوئی ہے کہ اللہ تعالی آپ سے ہمکلام تھا۔ اہل تاریخ کے نزدیک متعدد صحیفے تھے جو ابراہیم پر نازل ہوئے۔ ایک صحیفہ جو ان کی طرف سے منسوب ہے یونانی سے انگریزی میں ترجمہ ہو کر شائع ہو چکا ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ کے دین کے بارے میں قرآن مجید میں کئی جگہ پر ارشار ہوتا ہے کہ آپ موحد مسلم اورراست رو تھے۔ ارشاد ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے: ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ”پھر ہم نے تیری طرف (حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی طرف) وحی کی کہ ابراہیم ؑ راست رو (مسلم) کے دین پر چل اور وہ مشرکوں میں سے نہیں تھا “ اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے: يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تُحَآجُّونَ فِي إِبْرَاهِيمَ وَمَا أُنزِلَتِ التَّورَاةُ وَالإنجِيلُ إِلاَّ مِن بَعْدِهِ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ هَاأَنتُمْ هَؤُلاء حَاجَجْتُمْ فِيمَا لَكُم بِهِ عِلمٌ فَلِمَ تُحَآجُّونَ فِيمَا لَيْسَ لَكُم بِهِ عِلْمٌ وَاللّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ مَا كَانَ إِبْرَاهِيمُ يَهُودِيًّا وَلاَ نَصْرَانِيًّا وَلَكِن كَانَ حَنِيفًا مُّسْلِمًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْرَاهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ وَهَـذَا النَّبِيُّ وَالَّذِينَ آمَنُواْ وَاللّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ ”اے اہل کتاب! تم ابراہیم ؑ کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو۔ حالانکہ توریت اور انجیل اس کے بعد ہی اتاری گئیں۔ پھر کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے۔ سنو! تم وہ ہو جو اس میں جھگڑ چکے، جس کا تمھیں علم تھا پھر اس میں کیوں جھگڑتے ہو جس کا میں علم نہیں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ ابراہیم ؑ نہ یہودی تھا اور نہ عیسائی، لیکن وہ راست رو اور فرماں بردار (مسلم اور حنیف) تھا اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھا۔ يقينا ابراہیم ؑ کے بہت نزدیک وہ لوگ ہیں جنھوں نے اس کی پیروی کی اور یہ نبی اور وہ جو اس پہ ایمان لائے اورالله مومنوں کا ولی ہے۔ قرآن مجید کی تقریباً بائیس سورتوں میں حضرت ابراہیم ؑ کا ذکر آتا ہے۔ آپ مسلمانوں کے رسول مقبول حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے جد امجد ہیں۔ گویا مسلمان نہ صرف امت محمدیہ سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ امت براہیمیہ سے بھی متعلق ہیں۔ مسلمان حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ حضرت ابراہیم ؑ اور ان کی اولاد پر بھی درود بھیجتے ہیں- Book Name: Sahih Muslim, Hadees # 6138 حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، وَابْنُ فُضَيْلٍ، عَنِ الْمُخْتَارِ، ح وحَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ السَّعْدِيُّ - وَاللَّفْظُ لَهُ -، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، أَخْبَرَنَا الْمُخْتَارُ بْنُ فُلْفُلٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا خَيْرَ الْبَرِيَّةِ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «ذَاكَ إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلَامُ» علی بن مسہر اور ابن فضیل نے مختار بن فلفل سے روایت کی ، انھوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور کہا : يا خَيرَ البرِيّۃِ اے مخلوقات میں سے بہترین انسان !
سعودی عرب (رسمی نام : المملكة سعودیہ العربیہ) مغربی ایشیا کا ایک ملک ہے۔ یہ جزیرہ نما عرب کے بڑے حصے پر محیط ہے، جو اسے ایشیا کا پانچواں سب سے بڑا، عرب دنیا کا دوسرا سب سے بڑا اور مغربی ایشیا اور مشرق وسطی کا سب سے بڑا ملک بناتا ہے۔ اس کی سرحد مغرب میں بحیرہ احمر سے ملتی ہے۔ شمال میں اردن، عراق اور کویت؛ مشرق میں خلیج فارس، قطر اور متحدہ عرب امارات؛ جنوب مشرق میں عمان؛ اور جنوب میں یمن۔ بحرین مشرقی ساحل سے دور ایک جزیرہ نما ملک ہے۔ شمال مغرب میں خلیج عقبہ سعودی عرب کو مصر اور اسرائیل سے الگ کرتی ہے۔ سعودی عرب واحد ملک ہے جس کے پاس بحیرہ احمر اور خلیج فارس دونوں کے ساتھ ساحل ہے اور اس کا زیادہ تر علاقہ خشک صحرا، نشیبی، میدان اور پہاڑوں پر مشتمل ہے۔ اس کا دار الحکومت اور سب سے بڑا شہر ریاض ہے۔ یہ ملک مکہ اور مدینہ کا گھر ہے، جو اسلام کے دو مقدس ترین شہر ہیں۔
خالد بن ولید ابن مغیرہ رضی اللہ عنہ (28ق.ھ / 22ھ) آپ خاندان قریش کے بہت ہی نامور اشراف میں سے تھے۔ ان کی والدہ حضرت بی بی لبابۂ صغری رضی اللہ تعالیٰ عنہا ام المؤمنین حضرت بی بی میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بہن تھیں۔ آپ بہادری اور فن سپہ گری و تدابیر جنگ کے اعتبار سے تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں ایک خصوصی امتیاز رکھتے ہیں۔ اسلام قبول کرنے سے پہلے ان کی اور ان کے باپ ولید کی اسلام دشمنی مشہور تھی۔ جنگ بدر اور جنگ احد کی لڑائیوں میں یہ کفار کے ساتھ رہے اور ان سے مسلمانوں کو بہت زیادہ جانی نقصان پہنچا مگر ناگہاں ان کے دل میں اسلام کی صداقت کا ایسا آفتاب طلوع ہو گیا کہ 7ھ میں یہ خود بخود مکہ سے مدینہ جاکر دربار رسالت میں حاضر ہو گئے اور دامن اسلام میں آگئے اور یہ عہد کر لیا کہ اب زندگی بھر میری تلوار کفار سے لڑنے کے لیے بے نیام رہے گی چنانچہ اس کے بعد ہر جنگ میں انتہائی مجاہدانہ جاہ وجلال کے ساتھ کفار کے مقابلہ میں شمشیر بکف رہے یہاں تک كه 8ھ میں جنگ موتہ میں جب حضرت زید بن حارثہ وحضرت جعفر بن ابی طالب وحضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم تینوں سپہ سالاروں نے یکے بعد دیگرے جام شہادت نوش کر لیا تو اسلامی فوج نے ان کو اپنا سپہ سالار منتخب کیا اور انھوں نے ایسی جاں بازی کے ساتھ جنگ کی کہ مسلمانوں کی فتح مبین ہو گئی۔ اور اسی موقع پر جب کہ یہ جنگ میں مصروف تھے حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے مدینہ منورہ میں صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی ایک جماعت کے سامنے ان کو ”سیف اللہ”(اللہ کی تلوار) کے خطاب سے سرفراز فرمایا۔ امیرالمؤمنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورخلافت میں جب فتنہ ارتداد نے سر اٹھایا تو انھوں نے ان معرکوں میں بھی خصوصاً جنگ یمامہ میں مسلمان فوجوں کی سپہ سالاری کی ذمہ داری قبول کی اور ہر محاذ پر فتح مبین حاصل کی۔ پھر امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے دوران رومیوں کی جنگوں میں بھی انھوں نے اسلامی فوجوں کی کمان سنبھالی اور بہت زیادہ فتوحات حاصل ہوئیں 22ھ میں چند دن بیماررہ کر وفات پائی۔ موتہ کی جنگ کے دوران، خالد بن ولید نے بازنطینیوں کے خلاف مسلم فوجوں قیادت کی۔ اور انھوں نے 629-630 میں مکہ کی مسلمانوں کی فتح اور 630ء میں حنین کی جنگ کے دوران مسلم فوج کے تحت بدویوں کی قیادت کی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات کے بعد، خالد بن ولید کو نجد اور یمامہ میں مقرر کیا گیا تھا تاکہ ان عرب قبائل کو دبایا جائے جو نوزائیدہ مسلم ریاست کے مخالف تھے۔ اس مہم کا اختتام بالترتیب 632 میں جنگ بزاخہ اور 633ء میں یمامہ کی جنگ میں عرب باغی رہنماؤں طلیحہ بن خویلد اور مسیلمہ کذاب پر خالدبن ولید کی فتح پر ہوا۔
برصغیر پاک و ہند میں 1857ء کی ناکام جنگ آزادی اور سقوطِ دہلی کے بعد مسلمانان برصغیر کی فلاح و بہبودگی ترقی کے لیے جو کوششیں کی گئیں، عرف عام میں وہ ”علی گڑھ تحریک “ کے نام سے مشہور ہوئیں۔ سر سید نے اس تحریک کا آغاز جنگ آزادی سے ایک طرح سے پہلے سے ہی کر دیا تھا۔ غازی پور میں سائنٹفک سوسائٹی کا قیام اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ لیکن جنگ آزادی نے سرسید کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کیے اور انھی واقعات نے علی گڑھ تحریک کو بارآور کرنے میں بڑی مدد دی۔ لیکن یہ پیش قدمی اضطراری نہ تھی بلکہ اس کے پس پشت بہت سے عوامل کارفرما تھے۔ مثلاً راجا رام موہن رائے کی تحریک نے بھی ان پر گہرا اثر چھوڑا۔
نکاح متعہ (عربی : نكاح المتعة ) جسے عرف عام میں متعہ یا صیغہ کہا جاتا ہے؛ ولی (شہادت) کی موجودگی یا غیر موجودگی میں ہونے والا ایک ایسا نکاح ہے جس کی مدت (ایک روز، چند روز، ماہ، سال یا کئی سال) معین ہوتی ہے جو فریقین خود طے کرتے ہیں اور اس مدت کے اختتام پر خود بخود علیحدگی ہو جاتی ہے یا اگر مرد باقی ماندہ مدت بخش دے تب بھی عورت نکاح سے آزاد ہو جاتی ہے مگر ہر صورت میں عدت اپنی شرائط کے ساتھ پوری کرنی پڑتی ہے ؛ اور اولاد انھیں والدین سے منسوب ہو تی ہے؛ اگر فریقین چاہیں تو مدتِ اختتامِ متعہ پر علیحدگی کی بجائے اسے جاری (یا مستقل) بھی کر سکتے ہیں۔ یہ نکاح ابتدا سے اسلام میں متعدد بار جائز ہوا اور اس سے روکا گیا پھر جائز ہوا۔ تاریخی اعتبار سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات سے چند سال قبل تک اس کی موجودگی پر سنی بھی اور شیعہ بھی دونوں اتفاق کرتے ہیں۔ یعنی اس کا اصل میں حلال ہونا مسلم اور مورد اتفاق ہے مگر اکثر شیعہ اور سنی نیز دیگر فرقے اس کے حلیت باقی رہنے یا حرام ہوجانے کے بارے میں مختلف نظریات رکھتے ہیں۔
مغلیہ سلطنت 1526ء سے 1857ء تک برصغیر پر حکومت کرنے والی ایک مسلم سلطنت تھی، جس کی بنیاد ظہیر الدین بابر نے 1526ء میں پہلی جنگ پانی پت میں دہلی سلطنت کے آخری سلطان ابراہیم لودھی کو شکست دے کر رکھی تھی۔ مغلیہ سلطنت اپنے عروج میں تقریباً پورے برصغیر پر حکومت کرتی تھی، یعنی موجودہ دور کے افغانستان، پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے ممالک پر مشتمل خطے پر انکا دور دورہ تھا۔ مغل سلطنت کی بنیاد 1526ء میں بابر نے رکھی، جو آج کے ازبکستان سے ایک سردار تھا، جس نے ہمسایہ صفوی سلطنت اور سلطنت عثمانیہ سے ہندوستان پر حملہ کے لیے مدد لی ۔ مغل شاہی ڈھانچہ بابر سے شروع ہوتا ہے۔ اور 1720ء تک قائم رہا۔ مغل سلطنت کے آخری طاقتور شہنشاہ، اورنگ زیب کے دور حکومت میں سلطنت نے اپنی زیادہ سے زیادہ جغرافیائی حد تک رسائی حاصل کی۔ اس کے بعد 1760ء تک پرانی دہلی اور اس کے آس پاس کے علاقے میں کمی واقع ہوئی، سلطنت کو 1857 کے ہندوستانی بغاوت کے بعد برطانوی راج نے باضابطہ طور پر تحلیل کر دیا۔ 17 ویں صدی میں بحر ہند میں بڑھتی ہوئی یورپی موجودگی اور ہندوستانی خام اور تیار مصنوعات کی بڑھتی ہوئی مانگ نے مغل دربار کے لیے بہت زیادہ دولت پیدا کی۔ مغل دور میں مصوری، ادبی شکلوں، ٹیکسٹائل اور فن تعمیر کی زیادہ سرپرستی ہوئی، خاص طور پر شاہ جہاں کے دور حکومت میں۔ جنوبی ایشیا میں مغل یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کے مقامات میں درج ذیل جگہیں شامل ہیں: آگرہ کا قلعہ، فتح پور سیکری، لال قلعہ، ہمایوں کا مقبرہ، لاہور کا قلعہ، شالامار باغات اور تاج محل، جسے "ہندوستان میں مسلم آرٹ کا زیور" کہا جاتا ہے۔ دنیا کے ورثے کے عالمی طور پر قابل تعریف شاہکاروں میں سے ایک ہے۔
امام احمد رضا خان (14 جون 1856ء – 28 اکتوبر 1921ء) بیسویں صدی عیسوی کے مجدد، نامور حنفی فقہیہ، محدث، اصولی، نعت گو شاعر، علوم نقلیہ وعقلیہ کے ماہر، سلسلہ قادریہ کے شیخ، عربی، فارسی اور اردو کی کثیر کتابوں کے مصنف جن میں مشہور ترجمہ قرآن کنزالایمان، فتاوی کا مجموعہ فتاویٰ رضویہ اور نعتیہ دیوان حدائق بخشش مشہور ہیں۔ احمد رضا خان نے شدت سے تقلید اور حنفیت کا دفاع کیا سلسلۂ حدیث میں شاہ ولی اللہ اور عبد الحق محدث دہلوی سے استفادہ کیا اور فقہ میں سند اجازت شیخ عبد الرحمن حنفی مکی سے حاصل کی، جن کا سلسلہ عبد اللہ بن مسعود تک پہنچتا ہے۔ احمد رضا خان نے دو قومی نظریہ کا پرچار کیا اور کسی بھی سطح پر ہندو مسلم اتحاد کو رد کیا، تحریک ترک موالات اور تحریک خلافت میں مسلمانوں کو متنبہ کیا کہ ان تحریکوں میں مسلم ہندو اتحاد کا نعرہ لگایا جا رہا ہے جو شرعی حیثیت سے ناجائز ہے۔ عورتوں کی ضروری دینی تعلیم کی سختی سے تلقین کی، عورتوں کے زیارت قبور کے لیے گھر سے نکلنے کے مسئلے پر ممانعت کا فتوی دیا۔
لکھنؤ (ہندی: लखनऊ) بھارت کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست اتر پردیش کا دار الحکومت، اور اردو کا قدیم گہوارہ ہے نیز اسے مشرقی تہذیب و تمدن کی آماجگاہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس شہر میں ضلع لکھنؤ اور لکھنؤ منڈل کا انتظامی صدر دفتر موجود ہے۔ لکھنؤ شہر اپنی نزاکت، تہذیب و تمدن، کثیر الثقافتی خوبیوں، دسہری آم کے باغوں اور چکن کی کڑھائی کے کام کے لیے معروف ہے۔ سنہ 2006ء میں، اس کی آبادی 2،541،101 اور شرح خواندگی 68.63 فیصد تھی۔ حکومت ہند کی 2001ء کی مردم شماری، سماجی اقتصادی اشاریہ اور بنیادی سہولت اشاریہ کے مطابق ضلع لکھنؤ اقلیتوں کی گنجان آبادی والا ضلع ہے۔ کانپور کے بعد یہ شہر اتر پردیش کا سب سے بڑا شہری علاقہ ہے۔ شہر کے درمیان میں دریائے گومتی بہتا ہے جو لکھنؤ کی ثقافت کا بھی ایک حصہ ہے۔
عربی (عربی: العربية) بلند میں سب سے بڑی زبان ہے اور عبرانی اور آرامی زبانوں سے بہت ملتی ہے۔ جدید عری یا فصیح عربی کی تھوڑی سی بدلی ہوئی شکل ہے۔ فصیح عربی قدیم زمانے سے ہی بہت ترقی یافتہ شکل میں تھی اور قرآن کی زبان ہونے کی وجہ سے زندہ ہے۔ فصیح عربی اور بولے جانے والی عربی میں بہت فرق نہیں بلکہ ایسے ہی ہے جیسے بولے جانے والی اردو اور ادبی اردو میں فرق ہے۔ عربی زبان نے اسلام کی ترقی کی وجہ سے مسلمانوں کی دوسری زبانوں مثلاً اردو، فارسی، ترکی وغیرہ پر بڑا اثر ڈالا ہے اور ان زبانوں میں عربی کے بے شمار الفاظ موجود ہیں۔ عربی کو مسلمانوں کی مذہبی زبان کی حیثیت حاصل ہے اور تمام دنیا کے مسلمان قرآن پڑھنے کی وجہ سے عربی حروف اور الفاظ سے مانوس ہیں۔ تاریخ میں عربی زبان کی اہمیّت کے سبب بہت سے مغربی زبانوں میں بھی اِس کے الفاظ وارد ہوئے ہیں۔
میاں محمد نواز شریف (ولادت: 25 دسمبر، 1949ء، لاہور) پاکستان کے سابق وزیر اعظم اور پاکستان کی دوسری بڑی سیاسی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سابق سربراہ۔ نواز شریف تین بار 1990ء تا 1993ء، 1997ء تا 1999ء اور آخری بار 2013ء تا 2017ء وزیر اعظم پاکستان کے عہدے پر فائز رہے۔ اس سے پہلے 1985 تا 1990 وزیر اعلیٰ پنجاب رہے۔
حضرت آدم علیہ السلام ، اللہ کے اولین پیغمبر ہیں۔ ابوالبشر (انسان کا باپ) اور صفی اللہ (خدا کا برگزیدہ) لقب۔ آپ کے زمانے کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔تمام آسمانی کتابوں کے ماننے والوں کاعقیدہ ہے کہ اس رُوئے زمین پر اللہ جل شانہ‘نے حضرت آدم علیہ السلام کو تخلیق کیا۔حضرت آدم ؑ کی پیدائش کا احوال کچھ یوں ہے :اللہ تعالی نے تمام زمین سے ایک مٹھی مٹی لے کر آدم علیہ السلام کو بنایا۔اس لیے زمین کے لحاظ سے لوگ سرخ ،سفید ، سیاہ اور درمیانے درجے میں ،اسی طرح اچھے ،برے ، نرم اور سخت طبیعت والے اور کچھ درمیانے درجے کے پیدا ہوئے(روایت : حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ )۔ اللہ تعالی نے جبریل علیہ السلام کو زمین میں مٹی لانے کے لیے بھیجا تو زمین نے عرض کی کہ میں تجھ سے اللہ کی پناہ میں آتی ہوں کہ تو مجھ سے کوئی کمی کرے یا مجھے عیب ناک کر دے تو وہ مٹی لیے بغیر ہی واپس چلے گئے اور عرض کی :اے اللہ!اس نے تیری پناہ میں آنے کی درخواست کی تو میں نے اس کو پناہ دے دی۔ اللہ تعالیٰ نے پھر حضرت میکائل کو بھیجا ،زمین نے اس سے بھی پناہ مانگی تو اس نے بھی پناہ دے دی اور حضرت جبریل کی طرح واقعہ بتا دیا پھر اللہ نے موت کے فرشتوں کو بھیجا۔زمین نے اس سے بھی پناہ مانگی تو اس نے کہا میں اس سے اللہ کی پناہ میں آتا ہوں کہ میں اللہ کے حکم کی تعمیل کیے بغیر واپس چلا جاؤں اور اس سے مختلف جگہوں سے سرخ ،سیاہ اور سفید مٹی اکٹھی کی جس کی بنا پر آدم علیہ السلام کی اولاد بھی مختلف رنگوں والی ہے ۔( روایت سدی رحمۃ اللہ بحوالہ ابن عباسؓ وابن مسعودؓ )وہ مٹی لے کرعرش پر چلے گئے اور اس کو پانی کے ساتھ تر کیا۔پانی سے تر کرنے سے وہ چپکنے والی لیس دار مٹی بن گئی۔ اس پر باری تعالیٰ نے فرشتوں کو فرمایا :میں مٹی سے انسان بنانے والا ہوں۔جب میں اس کو اچھی طرح بنا لوں اور اس میں اپنی پیدا کردہ روح ڈال دوں تو اس کے لیے سجدہ کرتے ہوئے گر جانا۔اللہ تعالی ٰنے علم کے ساتھ آدم علیہ السلام کا ان پر شرف اور مرتبہ واضح کیا۔حضرت ابن عباسؓ نے کہا ان سے مراد وہی نام ہیں جو لوگوں کے ہاں مشہور و معروف ہیں۔انسان ، جانور ، زمین ، سمندر ، پہاڑ ، اونٹ ، گدھا وغیرہ۔مجاہد نے کہا :پیالہ اور ہنڈیا وغیرہ کے نا م سکھائے،حتی کہ پھسکی اور گوز کا نام بھی بتا یا۔ مجاہد نے مزید کہا:ہر جانور ،پرند ، چرند اور ہر ضرورت کی ہر چیز کے نام سکھائے۔سعید بن جبیر ، قتادہ وغیرہ نے بھی اسی طرح کہا ہے۔الربیع نے کہا:فرشتوں کے نام سکھائے۔عبد الرحمن بن زید نے کہا :ان کی اولاد کے نام سکھائے۔اللہ نے آدم علیہ السلام کو ہر چھوٹی اور بڑی چیز اور ان کے افعال کے نام سکھائے ۔ حضرت انس بن مالکؓ نے رسول اللہﷺ سے روایت کرتے ہوئے فرمایا :قیامت کے دن ایمان والے اکٹھے ہوں گے اور کہیں گے کاش ہم اپنے رب کے پاس سفارش کرنے والا طلب کریں ،پھر وہ آدم کے پاس آئیں گے اور کہیں گے اے آدم!
عیسیٰ ابن مریم ( عربی: عِيسَى ٱبْنُ مَرْيَمَ) ' تورات کے مطابق عیسیٰ ابن مریم ' کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ بنی اسرائیل سے خدا کے آخری نبی اور رسول ہیں اور بنی اسرائیل ( Banī Isra'īl ) کی رہنمائی کے لیے انجیل نامی کتاب کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث کیے گئے مسیحا ہیں ۔ قرآن میں، یسوع کو المسیح ( al-Masīḥ ) کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ جو معجزانہ طور پر ایک کنواری سے پیدا ہوئے، اپنے شاگردوں کے ساتھ معجزات دیکھاتے تھے،اور اللہ نے معجزانہ طور پر ان کو بچایا زندہ آسمان پر اٹھا لیا۔ یہودی مذہبی مُقتَدِرَہ نے مسترد کر دیا ہے، لیکن صلیب پر مرنے کے طور پر نہیں (اور نہ دوبارہ زندہ کیے جانے پر) ، بلکہ جیسا کہ خدا نے ان کو معجزانہ طور پر بچایا اور آسمان پر زندہ اٹھا لیا۔ قرآن واضح طور پر اور بار بار اس خیال کو مسترد کرتا ہے کہ عیسیٰ کو ( یہودی یا رومی ) حکام نے نہ قتل کیا تھا اور نہ وہ مصلوب کیے گئے تھے۔ قرآن نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو عظیم ترین نبیوں میں شمار کیا ہے اور ان کا ذکر مختلف القابات سے کیا ہے۔ عیسیٰ کی نبوت سے پہلے یحییٰ علیہ السلام کی نبوت ہے اور محمد ﷺ کی جانشینی ہے، جن کے بعد کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ عیسیٰ نے احمد کا نام استعمال کرکے پیشین گوئی کی تھی۔ یسوع مسیح کے بارے میں اسلام میں مختلف قسم کی متغیر تشریحات موجود ہیں۔ قرآن کی مرکزی دھارے کی تشریحات میں آرتھوڈوکس عیسائی فلسفہ الہی ہائپوسٹاسس کے بارے میں کرسٹولوجی کے نظریاتی تصورات کا فقدان ہے، اس لیے بہت سے لوگوں کے لیے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن مسیح کو مسترد کرتا ہے کیونکہ یسوع مسیح کی الوہیت کے نظریے کے مسیحی نقطہ نظر میں ایک یہودی مسیحی خدا کے اوتار ہونے کے ناطے انسان یا انسانی جسم میں خدا کے لفظی بیٹے کے طور پر، جیسا کہ یہ ظاہری طور پر متعدد آیات میں یسوع کے خدا کے طور پر الہامی انسانیت کے نظریے کی تردید کرتا ہے اور اس بات پر بھی تاکید کرتا ہے کہ یسوع مسیح نے ذاتی طور پر خدا ( خدا باپ ) ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اصل پیغام ( taḥrīf ) میں ان کے زندہ ہونے کے بعد تبدیلی کی گئی تھی۔ قرآن مجید میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توحید پر زور دیا گیا ہے۔ اسلام میں تمام انبیا کی طرح، عیسیٰ کو بھی رسول کہا جاتا ہے، جیسا کہ انھوں نے تبلیغ کی کہ ان کے پیروکاروں کو ' صراط المستقیم ' اختیار کرنا چاہیے۔ اسلامی روایت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بہت سارے معجزات سے منسوب کیا گیا ہے۔ روایتی اسلامی تعلیمات میں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ عیسیٰ مسیح امام مہدی کے ساتھ دوسری آمد میں مسیح الدجال ('جھوٹا مسیح') کو قتل کرنے کے لیے واپس آئیں گے، جس کے بعد قدیم قبائل یاجوج ماجوج ( Yaʾjūj Maʾjūj ) کے ساتھ۔ منتشر ہو جائیں گے.
مریم نواز شریف (پیدائش 28 اکتوبر 1973ء) ایک پاکستانی سیاست دان ہے، جو اس وقت پنجاب کی وزیراعلیٰ کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ وہ پاکستان کے کسی بھی صوبے کی وزیر اعلیٰ بننے والی پہلی خاتون ہیں۔ وہ پاکستان کے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی بیٹی ہیں اور ابتدائی طور پر خاندان کی مخیر تنظیموں میں شامل تھیں۔ تاہم، 2012ء میں، وہ سیاست میں داخل ہوئیں اور 2013ء کے عام انتخابات کے دوران انھیں انتخابی مہم کا انچارج بنایا گیا۔ 2013ء میں انھیں وزیر اعظم یوتھ پروگرام کی چیئرپرسن مقرر کیا گیا۔ تاہم، انھوں نے 2014ء میں ان کی تقرری کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے کے بعد استعفیٰ دے دیا۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مختلف روایات میں اکثر گیارہ سے تیرہ ازواج کے نام ملتے ہیں۔ جنہیں امہات المؤمنین کہا جاتا ہے یعنی مؤمنین کی مائیں۔ اس کے علاوہ انھیں ازواج مطہرات بھی کہا جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ازواج میں حضرت عائشہ کے علاوہ تمام بیوہ و مطلقہ (طلاق شدہ) تھیں اور زیادہ شادیوں کا عرب میں عام رواج تھا۔
حسین بن علی بن ابی طالب ( عربی: ٱلْحُسَيْن ٱبْن عَلِيّ 10 جنوری 623 - 10 اکتوبر 680) محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نواسے اور علی ابن ابی طالب اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی فاطمہ زہرا کے بیٹے تھے۔ وہ اسلام میں ایک اہم شخصیت ہیں کیوں کہ وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے آل میں سے ہیں اور اہل تشیع مکتب فکر میں تیسرے امام بھی سمجھے جاتے ہیں۔
یوم اطفال (انگریزی: Children's Day) عالمی سطح پر دنیا کے مختلف ممالک میں مختلف تاریخ کو منایا جانا والا ایک دن اور تعطیل ہے۔ اس دن کا مقصد بچوں کی عزت افزائی اور ان کے حقوق کی پاسداری ہے۔ 1925ء کو بچوں کی فلاح و بہبود کی عالمی کانفرنس میں اس کا اعلان کیا گیا اور 1954ء میں عالمی سطح پر اس دن کو منانے کے لیے ایک تاریخ مقرر کی گئی۔ 1 جون کو عالمی یوم تحفظ اطفال سنہ 1950ء سے کئی ممالک میں منایا جانے لگا ہے۔ اور اس کا قیام 22 نومبر، 1949ء کو ویمینس انٹرنیشنل ڈیموکریٹک فیڈیریشن نے اپنے اجلاس ماسکو میں کیا۔ اقوام متحدہ نے 20 نومبر کو اسے رائج کیا۔
ناول اطالوی زبان کے لفظ ناولا (Novella) سے نکلا ہے۔ ناولا کے معنیٰ ہے نیا۔ لغت کے اعتبار سے ناول کے معانی نادر اور نئی بات کے ہیں۔ لیکن صنفِ ادب میں اس کی تعریف بنیادی زندگی کے حقائق بیان کرنا ہے۔ ناول کی اگر جامع تعریف کی جائے تو وہ کچھ یوں ہوگی کہ “ناول ایک نثری قصہ ہے جس میں پوری ایک زندگی بیان کی جاتی ہے”۔ ناول کے عناصر ِ ترکیبی میں کہانی، پلاٹ، کردار، مکالمے ،زماں و مکاں، اسلوب ،نکتہ نظر اور موضوع وغیرہ شامل ہیں۔
سورۃ، سورت یا سورہ عربی زبان کا لفظ ہے، قرآن مجید میں 114 سورتیں ہیں۔ ہر سورۃ آیات پر مشتمل ہوتی ہے۔ سورتوں کو مکی اور مدنی حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ مکی سورتیں وہ ہیں جو مدینہ کی طرف ہجرت سے پہلے مکہ شہر میں نازل ہوئیں ان کی تعداد 86 ہے۔ مکی دور کی سورتوں کا تعلق قیامت، جزا، یہودیت اور عیسائیت جیسے موضوعات پر ہے۔ مدنی سورتیں وہ ہیں جو ہجرت کے بعد نازل ہوئیں ان سورتوں کی تعداد 28 ہے۔ مدنی دور کی سورتیں ذاتی معاملات، معاشرے اور ریاست کے قوانین پر زیادہ توجہ دیتی ہیں۔ قرآن مجید کی نویں سورت سورہ توبہ کے علاوہ ہر سورت بسم اللہ الرحمن الرحیم (" اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے " ) سے شروع ہوتی ہے۔ انتیس سورتیں حروف مقطعات یعنی انوکھے حروف کے مجموعے وہ ہیں جن کے معانی نامعلوم ہیں سے شروع ہوتی ہیں۔ قرآن مجید کی پہلی سورت سورہ فاتحہ ہے۔ علمائے شرعی نے قرآن کی سورتوں کو ان کی لمبائی کے لحاظ سے تین حصوں میں تقسیم کیا ہے، یعنی سات لمبی سورتیں البقرہ، آل عمران، النساء، المائدہ، الانعام، الاعراف اور التوبہ۔ المئون جو سات لمبے دن ہیں اس کو اس لیے کہا گیا کہ اس کی ہر سورت سو آیات سے زیادہ یا اس کے قریب ہے۔ پہلے دور کے مسلمانوں نے قرآن کی سورتوں کے نام استعمال کی تعدد کے مطابق رکھے تھے، یہ بات مشہور ہے کہ عربوں نے بہت سے ناموں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے نام کسی نادر یا عجیب چیز سے لیے ہیں جس کی کوئی خصوصیت یا اہمیت ہو۔ جیساکہ اسی مناسبت سے قرآن کی سورتوں کے نام دیے گئے جیسے سورۃ البقرہ میں گائے کے قصے کے ذکر کی وجہ سے یہ نام رکھا گیا اور سورۃ النساء کو عورتوں کے متعلق بہت سے احکام مذکور ہونے کی وجہ سے یہ نام دیا گیا ہے۔ سورۃ الانعام کو اس کے حالات کی تفصیل کی وجہ سے کہا گیا ہے اور سورۃ الاخلاص بھی خالص توحید وجہ سے کہی گئی ہے۔ قرآن کی پہلی سورت سورہ فاتحہ ہے، لمبی سورتیں قرآن کے شروع میں اور چھوٹی سورتیں آخر میں جمع کی گئی ہیں، اس لیے سورتوں کی ترتیب ان کی تاریخ کے مطابق نہیں ہے۔ تمام سورتیں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سے شروع ہوتی ہیں۔ سورۃ التوبہ جو جنگ کے دوران میں نازل ہوئی تھی اس لیے اس سورت میں بسم اللہ شروع میں نہیں پڑھی جاتی۔ یہ سورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور مشرکین کے درمیان عہد کو توڑنے کے لیے نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے علی ابن ابی طالب کے پاس بھیجا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں پڑھ کر سنایا اور اس پر بسم اللہ نہیں کہی جیسا کہ عربوں کا رواج تھا۔ لیکن اس کے باوجود قرآن میں بسم اللہ کی تعداد 114 تک پہنچ جاتی ہے جو سورتوں کی تعداد کے برابر ہے۔ بسم اللہ سورۃ النمل کی آیت نمبر 30 میں جیسا کہ نبی اور بادشاہ سلیمان شیبہ کی ملکہ بلقیس کو اپنے خطوط شروع کرتے تھے۔ إِنَّهُ مِن سُلَيْمَانَ وَإِنَّهُ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ۔
کیریبین پریمیئر لیگ 2014ء کے دستے
یہ 2014ء کیریبین پریمیئر لیگ میں حصہ لینے والی ٹیموں کے شریک دستوں کی فہرست ہے۔
محمد علی جناح پیدائشی نام، محمد علی جناح بھائی، 25 دسمبر 1876ء – 11 ستمبر 1948ء) کے نامور وکیل، سیاست دان اور بانی پاکستان تھے۔ محمد علی جناح 1913ء سے لے کر پاکستان کی آزادی 14 اگست 1947ء تک آل انڈیا مسلم لیگ کے سربراہ رہے، پھر قیام پاکستان کے بعد اپنی وفات تک، وہ ملک کے پہلے گورنر جنرل رہے۔ سرکاری طور پر پاکستان میں آپ کو قائدِ اعظم یعنی سب سے عظیم رہبر اور بابائے قوم یعنی قوم کا باپ بھی کہا جاتا ہے۔ جناح کا یومِ پیدائش پاکستان میں قومی تعطیل کے طور پر منایا جاتا ہے۔
صحیح بخاری کا اصل نام «الجامع المسند الصحیح المختصر من امور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وسننہ و ایامہ» ہے جو «صحیح البخاری» کے نام سے مشہور ہے، یہ اہل سنت وجماعت کے مسلمانوں کی سب سے مشہور حدیث کی کتاب ہے، اس کو امام محمد بن اسماعیل بخاری نے سولہ سال کی مدت میں بڑی جانفشانی اور محنت کے ساتھ تدوین کیا ہے، اس کتاب کو انھوں نے چھ لاکھ احادیث سے منتخب کر کے جمع کیا ہے۔ اہل سنت کے یہاں اس کتاب کو ایک خاص مرتبہ و حیثیت حاصل ہے اور ان کی حدیث میں چھ امہات الکتب (صحاح ستہ) میں اول مقام حاصل ہے، خالص صحیح احادیث میں لکھی جانی والی پہلی کتاب شمار ہوتی ہے، اسی طرح اہل سنت میں قرآن مجید کے بعد سب سے صحیح کتاب مانی جاتی ہے۔ ذہبی کہتے ہیں: «امام بخاری کی جامع الصحیح، کتاب اللہ کے بعد اسلام کی سب معتبر اور افضل کتاب ہے»۔</ref> اسی طرح صحیح بخاری کا شمار کتب الجوامع میں بھی ہوتا ہے، یعنی ایسی کتاب جو اپنے فن حدیث میں تمام ابواب عقائد، احکام، تفسیر، تاریخ، زہد اور آداب وغیرہ پر مشتمل اور جامع ہو۔
محی الدین محمد (معروف بہ اورنگزیب عالمگیر) (پیدائش: 3 نومبر 1618ء— وفات: 3 مارچ 1707ء) جنھیں عام طور پر اورنگ زیب کے نام سے جانا جاتا ہے مغلیہ سلطنت کا چھٹا شہنشاہ تھا جس نے 1658ء سے 1707ء تک حکومت کی۔ ان کی شہنشاہی کے تحت، مغل وں نے اپنی سب سے بڑی حد تک رسائی حاصل کی اور ان کا علاقہ تقریباً پورے برصغیر میں پھیلا ہوا تھا۔ وہ مغلیہ سلطنت کا آخری عظیم الشان شہنشاہ تھا۔ اُس کی وفات سے مغل سلطنت زوال کا شکار ہو گئی۔ آخری موثر مغل حکمران سمجھے جانے والے اورنگ زیب نے فتاوی عالمگیری کو مرتب کیا اور برصغیر پاک و ہند میں شریعت اور اسلامی معاشیات کو مکمل طور پر قائم کرنے والے چند بادشاہوں میں سے تھے۔
غیر ازدواجی زنا کی سزا رجم کا ذکر احادیث میں آتا ہے لیکن قرآن میں زنا کی سزا کے طور پر اس کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس سزا کی موجودگی قرآن سے ثابت نہیں ہے؛ مزید یہ کہ کم از کم چار صالح اور مقتدر گواہ ایسے ہونا لازم ہیں کہ جو اس واقعہ کا مفصل اور آنکھوں دیکھا حال بیان کر کے اس کی شہادت دے سکتے ہوں؛ یعنی ان گواہوں نے متعلقہ افراد کو زنا کرتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو (اور زنا کی تعریف کے مطابق مرد کے قضیب کا عورت کے مہبل میں ادخال لازم ہے، گویا گواہوں کا اس ادخال کو دیکھنا رجم کی گواہی کی شرط بنتا ہے)۔ اور اگر ان میں سے کسی کی بھی گواہی غلط ثابت ہوتی ہو تو ان گواہوں پر خود سخت سزا لازم ہوتی ہے۔ رجم پر آج بھی مسلم دنیا میں متنازع افکار پائے جاتے ہیں جبکہ غیر مسلم دنیا میں مسلم علما کی جانب سے بھی رجم کی سزا کا اطلاق نہیں کیا جا سکتا اور نا ہی کوئی فرد رجم کی سزا دینے کا مستحق قرار دیا جاتا ہے پتھروں سے مارنے کے عمل (رجم) کا ذکر ناصرف اسلامی، بلکہ قدیم یونانی، یہودی اور مسیحی دستاویزات میں بھی ملتا ہے۔
مثنوی کا لفظ، عربی کے لفظ ”مثنیٰ “ سے بنا ہے اور مثنیٰ کے معنی دو کے ہیں۔ اصطلاح میں ہیت کے لحاظ سے ایسی صنفِ سخن اور مسلسل نظم کو کہتے ہیں جس کے شعر میں دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوں اور ہر دوسرے شعر میں قافیہ بدل جائے، لیکن ساری مثنوی ایک ہی بحر میں ہو۔ مثنوی میں عموماً لمبے لمبے قصے بیان کیے جاتے ہیں نثر میں جو کام ایک ناول سے لیا جاتا ہے، شاعری میں وہی کام مثنوی سے لیا جاتا ہے، یعنی دونوں ہی میں کہانی بیان کرتے ہیں۔ مثنوی ایک وسیع صنفِ سخن ہے اور تاریخی، اخلاقی اور مذہبی موضوعات پر کئی ایک خوبصورت مثنویاں کہی گئی ہیں۔ مثنوی عموماً چھوٹی بحروں میں کہی جاتی ہے اور اس کے لیے چند بحریں مخصوص بھی ہیں اور شعرا عموماً اس کی پاسداری کرتے ہیں لیکن مثنوی میں شعروں کی تعداد پر کوئی پابندی نہیں ہے، کچھ مثنویاں تو کئی کئی ہزار اشعار پر مشتمل ہیں۔
خدیجہ بنت خویلد (پیدائش: 556ء – وفات: 30 اپریل 619ء) مکہ کی ایک معزز، مالدار، عالی نسب خاتون جن کا تعلق عرب کے قبیلے قریش سے تھا۔ جو حسن صورت و سیرت کے لحاظ سے "طاہرہ" کے لقب سے مشہور تھیں۔ انھوں نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تجارتی کاروبار میں شریک کیا اور کئی مرتبہ اپنا سامانِ تجارت دے کر بیرون ملک بھیجا۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تاجرانہ حکمت، دیانت، صداقت، محنت اور اعلیٰ اخلاق سے اتنی متاثر ہوئیں کہ آپ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو شادی کا پیغام بھجوایا۔ جس کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے بڑوں کے مشورے سے قبول فرمایا۔ اس وقت ان کی عمر چاليس سال تھی جبکہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم صرف پچیس سال کے تھے۔ خدیجہ نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور پہلی ام المومنین ہونے کی سعادت حاصل کی۔ اور 25 سال نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اکلوتی زوجہ اور غمگسار شدید ترین مشکلات میں ساتھی تھیں۔ بقیہ تمام ازواج النبی ان کی وفات کے بعد زوجہ بنیں۔
نعمان ابن ثابت بن زوطا بن مرزبان (پیدائش: 5 ستمبر 699ء– وفات: 14 جون 767ء) (فارسی: ابوحنیفه،عربی: نعمان بن ثابت بن زوطا بن مرزبان)، عام طور پر آپکو امام ابو حنیفہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ آپ سنی حنفی فقہ (اسلامی فقہ) کے بانی تھے۔ آپ ایک تابعی، مسلمان عالم دین، مجتہد، فقیہ اور اسلامی قانون کے اولین تدوین کرنے والوں میں شامل تھے۔ آپ کے ماننے والوں کو حنفی کہا جاتا ہے۔ زیدی شیعہ مسلمانوں کی طرف سے بھی آپ کو ایک معروف اسلامی عالم دین اور شخصیت تصور کیا جاتا ہے۔ انھیں عام طور پر "امام اعظم" کہا جاتا ہے۔
سیدہ عائشہ بنت ابی بکر (رضی اللہ عنہا) (پیدائش: 614ء– وفات: 13 جولائی 678ء) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زوجہ تھیں۔ آپ کو اُم المومنین کے خطاب سے یاد کیا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد عہد خلفائے راشدین میں آپ کی شخصیت بہت نمایاں نظر آتی ہے۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد 47 سال بقید حیات رہیں اور یہ تمام وہ عرصہ ہے جس میں ابتدائی مسلم فتوحات ہوئیں، مختلف ممالک مملکت اسلامیہ میں داخل ہوئے۔ علم الحدیث میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایات کے بعد سب سے زیادہ روایاتِ حدیث کا ذخیرہ آپ سے ہی روایت کیا گیا ہے۔ آپ عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور عہد خلفائے راشدین کی عینی شاہد بھی تھیں اور مزید برآں آپ نے خلافت امویہ کے ابتدائی 17 سال بھی ملاحظہ فرمائے۔ آپ کا انتقال مدینہ منورہ میں سنہ 678 ء میں ہوا۔ آپ کے مناقب و فضائل کثیر ہیں جس سے آپ کی عظمت و شان جلالت مسلم خواتین پر نمایاں ہے۔ جنگ جمل کے حوالے سے یہ بات معلوم ہونا بھی مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ کچھ احادیث اور تاریخی کتابوں کے واقعات میں راویوں پر علما اسلام کی طرف سے جرح بھی کی گئی ہے اور بہت سے راویوں کے حالات معلوم نہیں ہیں۔ مسلمان امت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اہل بیت اطھار کے بارے میں صحیح عقائد قرآن وسنت اور مستند و صحیح احادیث نبوی سے لیتے ہیں۔ بعض روایات جو کتب احادیث و تاریخ میں اہل بدعت راویوں کی بھی ہیں وہ اس لیے قابل اعتبار نہیں کیونکہ علمائے اسلام نے بدعت سے نسبت رکھنے والی روایات کو مردود قرار دیا ہے۔ آپ کو عائشہ صدیقہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
اَفْغانِسْتان، سرکاری طور پر اِسْلامی اِمارَتِ اَفْغانِسْتان (دری/پشتو: افغانستان، تلفظ: [avɣɒnesˈtɒn]) وسط ایشیا اور جنوبی ایشیا میں واقع ایک زمین بند ملک ہے۔ اس کے جنوب اور مشرق میں پاکستان، مغرب میں ایران، شمال مشرق میں چین، شمال میں کرغیزستان، ترکمانستان، ازبکستان اور تاجکستان ہیں۔ اردگرد کے تمام ممالک سے افغانستان کے تاریخی، مذہبی اور ثقافتی تعلق بہت گہرا ہے۔ اس کے بیشتر لوگ (99 فیصد) مسلمان ہیں اور ملک کا سرکاری مذہب اسلام ہے۔ یہ ملک بالترتیب ایرانیوں، یونانیوں، عربوں، ترکوں، منگولوں، انگریزوں، روسیوں اور امریکا کے قبضے میں رہا ہے۔ مگر اس کے لوگ بیرونی قبضہ کے خلاف ہمیشہ مزاحمت کرتے رہے ہیں۔ ایک ملک کے طور پر اٹھارویں صدی کے وسط میں احمد شاہ ابدالی کے دور میں یہ ابھرا۔ اگرچہ بعد میں درانی سلطنت کے کافی حصے اردگرد کے ممالک کے حصے بن گئے۔
اردو زبان میں سینتیس حروفِ تہجی اور سینتالیس آوازیں ہیں جن میں سے بیشتر عربی سے لیے گئے ہیں اور دیگر انہی کی مختلف شکلیں ہیں۔ کچھ حروف کئی طریقوں سے استعمال ہوتے ہیں اور کچھ مخلوط حروف بھی استعمال ہوتے ہیں جو دو حروف سے مل کر بنتے ہیں۔ بعض لوگ 'ء' کو الگ حرف نہیں مانتے مگر پرانی اردو کتب اور لغات میں اسے الگ حرف کے طور پر لکھا جاتا ہے۔ مختلف الفاظ میں یہ الگ حرف کے طور پر ہی استعمال ہوتا ہے مثلاً 'دائرہ'۔ یہ بات مدِنظر رکھنا ضروری ہے کہ اردو تختی اور اردو حروف دو مختلف چیزیں ہیں کیونکہ اردو تختی میں اردو حروفِ تہجی کی کئی اشکال ہو سکتی ہیں جن کو الگ حرف کا درجہ نہیں دیا جا سکتا بلکہ وہ ایک ہی حرف کی مختلف شکلیں ہیں۔ مثلاً نون غنہ نون کی شکل ہے اور 'ھ' اور 'ہ' ایک ہی حرف کی مختلف اشکال ہیں۔ ایک اور مثال الف ممدودہ (آ) اور الف مقصورہ (ا) کی ہے جو اردو تختی میں الگ ہیں مگر اردو کا ایک ہی حرف شمار ہوتے ہیں۔
عدالت عظمیٰ پاکستان کے ججوں کی فہرست
عدالت عظمیٰ پاکستان (سپریم کورٹ آف پاکستان) پاکستان میں عدالتی درجہ بندی میں سب سے اعلیٰ اور اعلیٰ ترین عدالت ہے۔ اس کی عدالتی رکنیت اس وقت منصف اعظم پاکستان اور پندرہ سینئر ججوں پر مشتمل ہے، جو شریعت اپیلٹ کی ایڈہاک تقرریوں پر مشتمل ہے۔ ججوں کی نامزدگی کے لیے صدر پاکستان اور وزیر اعظم پاکستان مشورے اور مشاورت، کرتے ہیں۔