اردو ویکیپیڈیا کے سب سے زیادہ ملاحظہ کردہ مضامین کی فہرست۔ مزید معلومات کے لیے ۔ ۔ ۔
آبنائے ہرمز (عربی: مضيق ہرمز، فارسی:تنگہ ہرمز) خلیج عمان اور خلیج فارس کے درمیان واقع ایک اہم آبنائے ہے۔ اس کے شمالی ساحلوں پر ایران اور جنوبی ساحلوں پر متحدہ عرب امارات اور اومان واقع ہیں۔ یہ آبنائے کم از کم 21 میل چوڑی ہے۔ یہ تیل کی دولت سے مالا مال خلیجی ریاستوں کے تیل کی برآمدات کا واحد بحری راستہ ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ روزانہ دنیا بھر میں تیل کی کل رسد کا 20 فیصد اس آبنائے سے گذرتا ہے۔
ابوحفص عمر فاروق بن خطاب عدوی قرشی (586ء/590ء، مکہ - 6 نومبر 644ء، مدینہ) ابوبکر صدیق کے بعد مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ راشد، محمد مصطفی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سسر اور تاریخ اسلام کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک ہیں۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں، ان کا شمار علما و زاہدین صحابہ میں ہوتا تھا۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد 23 اگست سنہ 634ء مطابق 22 جمادی الثانی سنہ 13ھ کو مسند خلافت سنبھالی۔ عمر بن خطاب ایک باعظمت، انصاف پسند اور عادل حکمران مشہور ہیں، ان کی عدالت میں مسلم و غیر مسلم دونوں کو یکساں انصاف ملا کرتا تھا، عمر بن خطاب کا یہ عدل و انصاف انتہائی مشہور ہوا اور ان کے لقب فاروق کی دیگر وجوہ تسمیہ میں ایک وجہ یہ بھی بنی۔ آپ رضی اللہ عنہ کا نسب نویں پشت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے جا ملتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نویں پشت میں کعب کے دو بیٹے ہیں مرہ اور عدی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مرہ کی اولاد میں سے ہیں، جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ عدی کی اولاد میں سے ہیں۔
سانحۂ کربلا یا واقعہ کربلا یا کربلا کی جنگ 10 محرم 61ھ (بمطابق 9 یا 10 اکتوبر، 680ء) کو، موجودہ عراق میں کربلا کے مقام پر پیش آیا۔ یہ جنگ نواسہ رسول حضرت امام حسین ابن علی، ان کے حامیوں اور رشتہ داروں کے ایک چھوٹے سے گروہ، حسین ابن علیؓ کے ساتھ 72 ساتھی، کچھ غلام، 22 اہل بیت کے جوان اور خاندان نبوی کی کچھ خواتین و بچے شامل تھے اور اموی ظالم حکمران یزید اول کی ایک بڑی فوج کے مابین ہوئی۔جس کو حسین ابنِ علی نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔جس میں اموی خلیفہ یزید اول کی فوج نے پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نواسے حسین ابن علی اور ان کے رفقا کو لڑائی میں شہید کیا، حرم حسین کے خیموں کو لوٹ لیا گیا اور بالآخر آگ لگا دی گئی۔ عمر بن سعد کی فوج نے کربلا کے صحرا میں مقتولین کی لاشیں چھوڑ دیں۔ بنی اسد کے لوگوں نے لاشوں کو تین دن بعد دفن کیا۔ واقعہ کربلا کے بعد، حسین ابن علی کی فوج سے وابستہ متعدد خواتین اور بچوں کو گرفتار کر کے قید کر دیا گیا، بازار اور ہجوم والے مقامات سے گذر کر ان کی توہین کی گئی اور انھیں یزید ابن معاویہ کے دربار شام بھیج دیا گیا تھا۔ جنگ میں شہادت کے بعد حضرت امام حسین کو سید الشہدا کے لقب سے پکارا جاتا ہے۔
انا لله و انا الیہ راجعون (عربی: إِنَّا لِلَّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ) آیت استرجاع کہلاتی ہے جو قرآن میں سورۃ البقرہ کی آیت 156 سے ماخوذ ہے۔ اس کا مطلب ہے: "ہم اللّٰہ کے ہیں اور ہمیں اللّٰہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے (یعنی مرنے کے بعد)۔" جب مسلمان کسی کی موت یا مصیبت کی خبر سنتے ہیں تو یہ آیت پڑھتے ہیں۔ وہ اس آیت کو تعزیت کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں اور خصوصاً مصیبت یا نقصان کے وقت صبر کی گواہی دیتے ہیں۔ بے شک مُسلمین کو (مُصیبت اور نقصان کے وقت) صبر اور نماز کے ذریعے اللّٰہ سے مدد لینے کا حُکم ہے۔
ایران اسرائیل جنگ ایران و حوثی یمن اور اسرائیل و امریکا کے مابین جاری مسلح تنازع ہے جو 13 جون 2025ء کو اس وقت شروع ہوا جب اسرائیل نے ایران کے جوہری پروگرام کو وسعت دینے سے روکنے کے دعوے کے ساتھ ایران کی متعدد تنصیبات پر ناگہانی حملے کیے۔ ان حملوں کو ”آپریشن شیرِ برخاستہ“(3) کا نام دیا گیا، جن کے دوران اسرائیلی دفاعی افواج اور موساد نے ایران کے جوہری مراکز، عسکری تنصیبات اور شہری علاقوں کو شدید نقصان پہنچایا۔ اسی شب ایران نے ”آپریشن وعدۂ صادق سوم“(4) کے تحت جوابی کارروائی کی، جس میں ایران نے بیلسٹک میزائلوں اور خودکار ڈرونوں کے ذریعے اسرائیل کے فوجی اور انٹیلی جنس مراکز کے ساتھ ساتھ بعض رہائشی علاقوں کو بھی نشانہ بنایا۔
ابو القاسم محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب (12 ربیع الاول عام الفیل / اپریل 570ء یا 571ء – 12 ربیع الاول 10ھ / 8 جون 632ء) مسلمانوں کے آخری نبی ہیں۔ اہل اسلام کے نزدیک حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تمام مذاہب کے پیشواؤں سے کامیاب ترین پیشوا تھے۔ آپ کی کنیت ابو القاسم تھی۔ مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ کی طرف سے انسانیت کی جانب بھیجے جانے والے انبیائے کرام کے سلسلے کے آخری نبی ہیں جن کو اللہ نے اپنے دین کی درست شکل انسانوں کی جانب آخری بار پہنچانے کے لیے دنیا میں بھیجا۔ انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دنیا کی تمام مذہبی شخصیات میں سب سے کامیاب شخصیت تھے۔ 570ء (بعض روایات میں 571ء) مکہ میں پیدا ہونے والے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر قرآن کی پہلی آیت چالیس برس کی عمر میں نازل ہوئی۔ ان کا وصال تریسٹھ (63) سال کی عمر میں 632ء میں مدینہ میں ہوا، مکہ اور مدینہ دونوں شہر آج کے سعودی عرب میں حجاز کا حصہ ہیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف کے والد کا انتقال ان کی دنیا میں آمد سے قریبا چھ ماہ قبل ہو گیا تھا اور جب ان کی عمر چھ سال تھی تو ان کی والدہ حضرت آمنہ بھی اس دنیا سے رحلت فرما گئیں۔ عربی زبان میں لفظ "محمد" کے معنی ہیں 'جس کی تعریف کی گئی'۔ یہ لفظ اپنی اصل حمد سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے تعریف کرنا۔ یہ نام ان کے دادا حضرت عبدالمطلب نے رکھا تھا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو رسول، خاتم النبیین، حضور اکرم، رحمۃ للعالمین اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے القابات سے بھی پکارا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی آپ کے بہت نام و القاب ہیں۔ نبوت کے اظہار سے قبل حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے چچا حضرت ابوطالب کے ساتھ تجارت میں ہاتھ بٹانا شروع کر دیا۔ اپنی سچائی، دیانت داری اور شفاف کردار کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عرب قبائل میں صادق اور امین کے القاب سے پہچانے جانے لگے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس 610ء میں ایک روز حضرت جبرائیل علیہ السلام (فرشتہ) ظاہر ہوئے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اللہ کا پیغام دیا۔ جبرائیل علیہ السلام نے اللہ کی جانب سے جو پہلا پیغام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پہنچایا وہ یہ ہے۔
پاکستان، جس کا سرکاری نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے، جنوبی ایشیا کا ایک ملک ہے۔ یہ آبادی کے لحاظ سے پانچواں سب سے بڑا ملک ہے، جس کی آبادی 2023 کے مطابق 24 کروڑ 15 لاکھ سے زیادہ ہے، اور اس میں مسلمانوں کی دوسری سب سے بڑی آبادی ہے۔ اسلام آباد اس کا دار الحکومت ہے، جبکہ کراچی اس کا سب سے بڑا شہر اور مالیاتی مرکز ہے۔ پاکستان رقبے کے لحاظ سے 33واں سب سے بڑا ملک ہے۔ یہ جنوب میں بحیرہ عرب، جنوب مغرب میں خلیج عمان اور جنوب مشرق میں سر کریک سے متصل ہے۔ اس کی زمینی سرحدیں مشرق میں بھارت، مغرب میں افغانستان، جنوب مغرب میں ایران اور شمال مشرق میں چین کے ساتھ ملتی ہیں۔ یہ خلیج عمان میں عمان کے ساتھ سمندری سرحد بھی رکھتا ہے اور شمال مغرب میں افغانستان کے تنگ واخان راہداری کے ذریعے تاجکستان سے جدا ہوتا ہے۔
ابوبکر صدیق عبد اللہ بن ابو قحافہ عثمان تیمی قرشی (573ء—634ء) اسلام کے پہلے خلیفہ راشد، عشرہ مبشرہ میں شامل، خاتم النبین محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اولین جانشین، صحابی، خسر اور ہجرت مدینہ کے وقت رفیق سفر تھے۔ اہل سنت و الجماعت کے یہاں ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ انبیا اور رسولوں کے بعد انسانوں میں سب سے بہتر، صحابہ میں ایمان و زہد کے لحاظ سے سب سے برتر اور ام المومنین عائشہ بنت ابوبکر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے محبوب تر تھے۔ عموماً ان کے نام کے ساتھ صدیق کا لقب لگایا جاتا ہے جسے حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی تصدیق و تائید کی بنا پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دیا تھا۔
ابو الحسن علی بن ابی طالب ہاشمی قُرشی (15 ستمبر 601ء – 29 جنوری 661ء) خلافت راشدہ کے چوتھے خلیفہ تھے جنھوں نے 656ء سے 661ء تک حکومت کی۔ ابو الحسن عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے بعد اسلام کے خلیفہ بنے، لیکن انھیں شیعہ اثناعشریہ و زیدیہ مسلمانوں کے ہاں خلیفہ بلا فصل، پہلا امام معصوم اور وصی رسول اللہ سمجھا جاتا ہے۔ وہ پیغمبر اسلام محمد کے چچا زاد اور داماد تھے۔ ام المومنین خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے بعد دوسرے شخص تھے جو اسلام لائے۔ اور ان سے قبل ایک خاتون کے علاوہ کوئی مردو زن مسلمان نہیں ہوا۔ یوں سابقین اسلام میں شامل اور عشرہ مبشرہ، بیعت رضوان، اصحاب بدر و احد، میں سے بھی تھے بلکہ تمام جنگوں میں ان کا کردار سب سے نمایاں تھا اور فاتح خیبر تھے، ان کی ساری ابتدائی زندگی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ساتھ گذری۔ وہ تنہا صحابی ہیں جنھوں نے کسی جنگ میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تنہا نہیں چھوڑا ان کی فضیلت میں صحاح ستہ میں درجنوں احادیث ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انھیں دنیا اور آخرت میں اپنا بھائی قرار دیا اور دیگر صحابہ کے ساتھ ان کو بھی جنت اور شہادت کی موت کی خوش خبری دی۔
اِسْرائِیل (عبرانی: יִשְׂרָאֵל) مغربی ایشیا کا ایک ملک ہے جو بحیرہ روم کے جنوب مشرقی ساحل پر واقع ہے۔ اس کے شمال میں لبنان، شمال مشرق میں شام، مشرق میں اردن، مشرق اور جنوب مشرق میں فلسطین اور جنوب میں مصر، خلیج عقبہ اور بحیرہ احمر واقع ہیں۔ اسرائیل خود کو یہودی جمہوریہ کہلاتا ہے اور دنیا میں واحد یہود اکثریتی ملک ہے۔
روح اللہ موسوی خمینی (18 مئی 1900 یا 24 ستمبر 1902 – 3 جون 1989) ایک ایرانی اسلامی انقلابی، سیاست دان اور مذہبی رہنما تھے جنھوں نے 1979 سے 1989 اپنی وفات تک ایران کے پہلے رہبرِ معظم کے طور پر حکمرانی کی. وہ اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی اور ایرانی انقلاب کے مرکزی رہنما تھے، جس نے محمد رضا پہلوی کا تختہ الٹ دیا اور ایرانی بادشاہت کا خاتمہ کیا۔ نظریاتی طور پر ایک شیعہ اسلام پسند، خمینی کے مذہبی اور سیاسی نظریات کو خمینیت کے نام سے جانا جاتا ہے۔ خمینی، جو موجودہ ایران کے صوبہ مرکزی کے شہر خمین میں پیدا ہوئے، ان کے والد کو 1903 میں قتل کر دیا گیا جب خمینی دو سال کے تھے۔ انھوں نے کم عمری میں قرآن اور عربی کی تعلیم حاصل کرنا شروع کی اور اپنے رشتہ داروں، بشمول اپنی والدہ کے کزن اور بڑے بھائی کی مدد سے اپنی مذہبی تعلیمات میں ترقی کی. خمینی اصولی شیعہ بارہ امامی اسلام کے ایک عالم، ایک آیت اللہ، ایک مرجع (“تقلید کا منبع”)، ایک مجتہد یا فقیہ (شریعت کا ماہر) اور 40 سے زیادہ کتابوں کے مصنف تھے۔ ان کی سفید انقلاب کی مخالفت کی وجہ سے انھیں 1964 میں بورصہ میں ریاستی سرپرستی میں جلاوطن کر دیا گیا۔ تقریباً ایک سال بعد، وہ نجف منتقل ہو گئے، جہاں انھوں نے اپنے مذہبی و سیاسی نظریہ ولایت فقیہ پر دیے گئے خطبات کو اسلامی حکومت میں مرتب کیا.
ابو عبد اللہ عثمان بن عفان اموی قرشی (47 ق ھ - 35 ھ / 576ء – 656ء) اسلام کے تیسرے خلیفہ، داماد رسول اور جامع قرآن تھے۔ عثمان غنی سابقین اسلام میں شامل اور عشرہ مبشرہ میں سے تھے، ان کی کنیت ذو النورین ہے کیونکہ انھوں نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دو صاحبزادیوں سے نکاح کیا تھا، پہلے رقیہ بنت محمد رضی اللہ عنہا سے کیا، پھر ان کی وفات کے بعد ام کلثوم بنت محمد سے نکاح کیا۔ عثمان غنی پہلے صحابی ہیں جنھوں نے سرزمین حبشہ کی ہجرت کی، بعد میں دیگر صحابہ بھی آپ کے پیچھے حبشہ پہنچے۔ بعد ازاں دوسری ہجرت مدینہ منورہ کی جانب کی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عثمان غنی پر مکمل اعتماد اور ان کی فطری حیاء و شرافت اور جو انھوں نے اپنے مال کے ذریعہ اہل ایمان کی نصرت کی تھی، اس کی انتہائی قدر کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیگر صحابہ کے ساتھ ان کو بھی جنت اور شہادت کی موت کی خوش خبری دی۔ سنہ 23ھ (644ء) میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد مشورہ سے آپ کو خلافت کی ذمہ داری سونپی گئی، جسے انھوں نے 644ء سے 656ء تک انجام دی۔ ان کے عہد خلافت میں جمع قرآن مکمل ہوا، مسجد حرام اور مسجد نبوی کی توسیع ہوئی اور قفقاز، خراسان، کرمان، سیستان، افریقیہ اور قبرص وغیرہ فتح ہو کر سلطنت اسلامی میں شامل ہوئے۔ نیز انھوں نے اسلامی ممالک کے ساحلوں کو بازنطینیوں کے حملوں سے محفوظ رکھنے کے لیے اولین مسلم بحری فوج بھی بنائی۔ آپ کا زمانہ خلافت بارہ سال کے عرصہ پر محیط ہے، جس میں آخری کے چھ سالوں میں کچھ ناخوشگوار حادثات پیش آئے، جو بالآخر ان کی شہادت پر منتج ہوئے۔ سنہ 35ھ، 12 ذی الحجہ، بروز جمعہ بیاسی سال کی عمر میں انھیں ان کے گھر میں قرآن کریم کی تلاوت کے دوران میں شہید کر دیا گیا اور مدینہ منورہ کے قبرستان جنت البقیع میں دفن ہوئے۔ خلیفۂ سوم سیدنا عثمان غنی کا تعلق قریش کے معزز قبیلے سے تھا۔ سلسلۂ نسب عبد المناف پر رسول اللہ ﷺ سے جا ملتا ہے۔ سیدنا عثمان ذوالنورین کی نانی نبی ﷺ کی پھوپھی تھیں۔ آپ کا نام عثمان اور لقب ” ذوالنورین “ ہے۔ اسلام قبول کرنے والوں میں آپ ” السابقون الاولون “ کی فہرست میں شامل تھے، آپ نے خلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیق کی دعوت پر اسلام قبول کیا تھا۔۔ حضور ﷺ پر ایمان لانے اور کلمہ حق پڑھنے کے جرم میں سیدنا عثمان غنی کو ان کے چچا حکم بن ابی العاص نے لوہے کی زنجیروں سے باندھ کر دھوپ میں ڈال دیا، کئی روز تک علاحدہ مکان میں بند رکھا گیا، چچا نے آپ سے کہا کہ جب تک تم نئے مذہب (اسلام ) کو نہیں چھوڑو گے آزاد نہیں کروں گا۔ یہ سن کر آپ نے جواب میں فرمایا کہ چچا ! اللہ کی قسم میں مذہب اسلام کو کبھی نہیں چھوڑ سکتا اور اس ایمان کی دولت سے کبھی دستبردار نہیں ہوں گا۔ سیدنا عثمان غنی اعلیٰ سیرت و کردار کے ساتھ ثروت و سخاوت میں بھی مشہور تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جنت میں ہر نبی کا ساتھی و رفیق ہوتا ہے میرا ساتھی ”عثمان “ ہوگا۔ سیدنا عثمان کے دائرہ اسلام میں آنے کے بعد نبی اکرم نے کچھ عرصہ بعد اپنی بیٹی سیدہ رقیہ رضى الله عنها کا نکاح آپ سے کر دیا۔ جب کفار مکہ کی اذیتوں سے تنگ آکر مسلمانوں نے نبی کریم ﷺ کی اجازت اور حکم الٰہی کے مطابق ہجرت حبشہ کی تو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ بھی مع اپنی اہلیہ حضرت رقیہ رضى اللہ عنہا حبشہ ہجرت فرما گئے، جب حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا تو نبی ﷺ نے دوسری بیٹی حضرت ام کلثوم رضى اللہ عنہا کوآپ کی زوجیت میں دے دی۔ اس طرح آپ کا لقب ” ذوالنورین“ معروف ہوا۔ مدینہ منورہ میں پانی کی قلت تھی جس پر سیدنا عثمان نے نبی پاک ا کی اجازت سے پانی کا کنواں خرید کر مسلمانوں کے ليے وقف فرمایا۔ اور اسی طرح غزوئہ تبوک میں جب رسول اللہ ﷺ نے مالی اعانت کی اپیل فرمائی تو سیدنا عثمان غنی نے تیس ہزار فوج کے ایک تہائی اخراجات کی ذمہ داری لے لی۔ جب رسول اکرم ﷺ نے زیارت خانہ کعبہ کا ارادہ فرمایا تو حدیبیہ کے مقام پر یہ علم ہوا کہ قریش مکہ آمادہ جنگ ہیں۔ اس پر آپ ﷺ نے سیدنا عثمان غنی کو سفیر بنا کر مکہ بھیجا۔ قریش مکہ نے آپ کو روکے رکھا تو افواہ پھیل گئی کہ سیدنا عثمان کو شہید کر دیا گیا ہے۔ اس موقع پر چودہ سو صحابہ سے نبی ﷺ نے بیعت لی کہ سیدنا عثمان غنی کا قصاص لیا جائے گا۔ یہ بیعت تاریخ اسلام میں ” بیعت رضوان “ کے نام سے معروف ہے۔ قریش مکہ کو جب صحیح صورت حال کا علم ہوا تو آمادۂ صلح ہو گئے اور سیدنا عثمان غنی واپس آگئے۔ خلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیق کی مجلس مشاورت کے آپ اہم رکن تھے۔ امیر المومنین سیدنا عمر کی خلافت کا وصیت نامہ آپ نے ہی تحریر فرمایا۔ دینی معاملات پر آپ کی رہنمائی کو پوری اہمیت دی جاتی۔ سیدنا عثمان غنی صرف کاتب وحی ہی نہیں تھے بلکہ قرآن مجید آپ کے سینے میں محفوظ تھا۔ آیات قرآنی کے شان نزول سے خوب واقف تھے۔ بطور تاجر دیانت و امانت آپ کا طرۂ امتیاز تھا۔ نرم خو تھے اور فکر آخرت ہر دم پیش نظر رکھتے تھے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے عثمان کی حیا سے فرشتے بھی شرماتے ہیں، تبلیغ و اشاعت اسلام کے ليے فراخ دلی سے دولت صرف فرماتے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اے عثمان اللہ تعالٰی تجھے خلافت کی قمیص پہنائیں گے، جب منافق اسے اتارنے کی کوشش کریں تو اسے مت اتارنا یہاں تک کہ تم مجھے آملو۔ چنانچہ جس روز آپ کا محاصرہ کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ مجھ سے حضور نے عہد لیا تھا ( کہ منافق خلافت کی قمیص اتارنے کی کوشش کریں گے تم نہ اتارنا ) اس ليے میں اس پر قائم ہوں اور صبر کر رہا ہوں۔ 35ھ میں ذی قعدہ کے پہلے عشرہ میں باغیوں نے سیدنا عثمان ذوالنورین کے گھر کا محاصرہ کیا اور آپ نے صبر اور استقامت کا دامن نہیں چھوڑا، محاصرہ کے دوران آپ کا کھانا اور پانی بند کر دیا گیا تقریباً چالیس روز بھوکے پیاسے 82 سالہ مظلوم مدینہ سیدنا عثمان کو جمعة المبارک 18ذو الحجہ کو انتہائی بے دردی کے ساتھ روزہ کی حالت میں قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہوئے شہید کر دیا گیا۔، .
حسین بن علی بن ابی طالب ( عربی: ٱلْحُسَيْن ٱبْن عَلِيّ 10 جنوری 623 - 10 اکتوبر 680) محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نواسے اور علی ابن ابی طالب اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی فاطمہ زہرا کے بیٹے تھے۔ وہ اسلام میں ایک اہم شخصیت ہیں کیوں کہ وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے آل میں سے ہیں اور اہل تشیع مکتب فکر میں تیسرے امام بھی سمجھے جاتے ہیں۔
ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال (ولادت: 9 نومبر 1877ء – وفات: 21 اپریل 1938ء) بیسویں صدی کے ایک معروف شاعر، مصنف، قانون دان، سیاستدان اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھے۔ اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے اور یہی ان کی بنیادی وجہ شہرت ہے۔ شاعری میں بنیادی رجحان تصوف اور احیائے امت اسلام کی طرف تھا۔ علامہ اقبال کو دور جدید کا صوفی سمجھا جاتا ہے۔ بحیثیت سیاست دان ان کا سب سے نمایاں کارنامہ نظریۂ پاکستان کی تشکیل ہے، جو انھوں نے 1930ء میں الہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پیش کیا تھا۔ یہی نظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا۔ اسی وجہ سے علامہ اقبال کو پاکستان کا نظریاتی باپ سمجھا جاتا ہے۔ گو کہ انھوں نے اس نئے ملک کے قیام کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن انھیں پاکستان کے قومی شاعر کی حیثیت حاصل ہے۔
شامِلی کورِیا (کوریائی: 조선)، کا قیام یکم مئی 1948ءکو کوریا کے ان علاقوں پر عمل میں آیا تھا جن پر جنگ عظیم ثانی میں سوویت روس کا قبضہ ہو گیا تھا۔ اس کا رقبہ 46500 مربع میل ہے اور آبادی 21386000 (21.38 ملین)ہے۔ 1950 ءمیں شمالی کوریا کی افواج نے جنوبی کوریا کو فتح کرنے کی کوشش کی۔ تین سال کی جنگ کے بعد چین اور امریکا کی مداخلت سے جنگ بندی عمل میں آئی۔ اگلی چار دہائیوں کے دوران کم ال سنگ کی قیادت میں اشتراکی حکومت نے سیاسی اقتصادی اور سماجی شعبوں کو مستحکم بنانے کی کوشش کی۔ قدرتی وسائل اور ہائڈروالیکٹرک پیداوار سے ملک کی فوجی قوت میں بہت اضافہ ہو گیا اور بھاری صنعتوں کا قیام عمل میں آیا۔ شمالی کوریا کے پاس اس وقت بڑی تعداد میں دور مار کرنے والے میزائلوں کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں نزدیک مار کرنے والے میزائل بھی موجود ہیں جن سے جنوبی کوریا کے دار الحکومت سیول کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
احمد خان متقی بن محمد متقی (17 اکتوبر 1817ء – 27 مارچ 1898ء) المعروف سر سید، سر سید احمد خان انیسویں صدی کے ایک ہندوستانی مسلم نظریۂ عملیت کے حامل ، مصلح اور فلسفی تھے۔ ان کو برصغیر میں مسلم قوم پرستی کا سرخیل مانا جاتا ہے اور دو قومی نظریہ کا خالق تصور کیا جاتا ہے، جو آگے چل کر تحریک پاکستان کی بنیاد بنا۔
بدر کی جنگ (عربی: غَزْوَةُ بَدْرٍ، اردو میں: غزوۂ بدر)، جسے قرآن اور مسلمانوں کی جانب سے یوم فرقان (عربی: يَوْمُ الْفُرْقَانْ) بھی کہا جاتا ہے، 13 مارچ 624ء (17 رمضان 2 ہجری) کو موجودہ سعودی عرب کے صوبہ مدینہ میں واقع بدر کے قریب لڑی گئی تھی۔ اس جنگ میں حضرت محمد نے اپنے صحابہ کی قیادت کرتے ہوئے قریش کی فوج کو شکست دی، جس کی قیادت عمرو بن ہشام کر رہا تھا، جو مسلمانوں میں ابو جہل کے نام سے مشہور تھا۔ یہ جنگ حضرت محمد اور ان کی قبیلہ قریش کے درمیان چھ سالہ جنگ کا نقطہ آغاز بنی۔ اس سے قبل، 623ء کے آخر اور 624ء کے آغاز میں مسلمانوں اور مکہ کے مشرکین کے درمیان چند چھوٹی جھڑپیں ہو چکی تھیں۔
اہل تشیع یا شیعیت (عربی: شيعة) اسلام کا دوسرا بڑا فرقہ ہے۔ اہل تشیع رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد فقط حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کی امامت و خلافت کے قائل ہیں اور صرف انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا جانشین اور پہلا معصوم امام مانتے ہیں۔ شیعہ یا اہل تشیع نظریہ خلافت کو تسلیم نہیں کرتے۔
جنگ عظیم دوم یا دوسری عالمی جنگ ایک عالمی تنازعہ تھا جو 1939 سے 1945 تک جاری رہا۔ دنیا کے ممالک کی اکثریت، بشمول تمام عظیم طاقتیں، دو مخالف فوجی اتحاد کے حصے کے طور پر لڑے: "اتحادی" اور "محوری"۔ بہت سے شریک ممالک نے اس پوری جنگ میں تمام دستیاب اقتصادی، صنعتی اور سائنسی صلاحیتوں کو سرمایہ کاری کر کے شہری اور فوجی وسائل کے درمیان فرق کو کم کر دیا۔ ہوائی جہازوں نے ایک اہم کردار ادا کیا، جس نے آبادی کے مراکز پر اسٹریٹجک بمباری اور جنگ میں استعمال ہوئے صرف دو جوہری ہتھیاروں کی ترسیل کو قابل بنایا۔ یہ تاریخ کا اب تک کا سب سے مہلک تنازع تھا، جس کے نتیجے میں 7 سے 8.5 کروڑ ہلاکتیں ہوئیں۔ ہولوکاسٹ سمیت نسل کشی، بھوک، قتل عام اور بیماری کی وجہ سے لاکھوں افراد ہلاک ہوئے۔ محور کی شکست کے نتیجے میں، جرمنی، آسٹریا اور جاپان پر قبضہ کر لیا گیا اور جرمن اور جاپانی رہنماؤں کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمے چلائے گئے۔
نجم الدولہ، دبیر الملک، مرزا نوشہ اسد اللہ خان غالب بہادر نظام جنگ (1797ء- 1869ء) اردو زبان کے سب سے بڑے شاعروں میں ایک سمجھے جاتے ہیں۔ یہ تسلیم شدہ بات ہے کہ 19 ویں صدی غالب کی صدی ہے۔ جبکہ 18 ویں میر تقی میر کی تھی اور 20 ویں علامہ اقبال کی۔ غالب کی عظمت کا راز صرف ان کی شاعری کے حسن اور بیان کی خوبی ہی میں نہیں ہے۔ ان کا اصل کمال یہ ہے کہ وہ زندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کو گہرائی میں جا کر سمجھتے تھے اور بڑی سادگی سے عام لوگوں کے لیے بیان کر دیتے تھے۔ غالب جس پر آشوب دور میں پیدا ہوئے اس میں انھوں نے مسلمانوں کی ایک عظیم سلطنت کو برباد ہوتے ہوئے اور باہر سے آئی ہوئی انگریز قوم کو ملک کے اقتدار پر چھاتے ہوئے دیکھا۔ غالباً یہی وہ پس منظر ہے جس نے ان کی نظر میں گہرائی اور فکر میں وسعت پیدا کی۔
قرآن کریم، قرآن مجید یا قرآن شریف (عربی: القرآن الكريم) دین اسلام کی مقدس و مرکزی کتاب ہے جس کے متعلق ہم اسلام کے پیروکاروں کا اعتقاد ہے کہ یہ کلام الہی ہے اور اسی بنا پر یہ انتہائی محترم و قابل عظمت کتاب ہے۔ اسے ہمارے پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی کے ذریعے اتارا گیا۔ یہ وحی اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتے حضرت جبرائیل علیہ السلام لاتے تھے جیسے جیسے قرآن مجید کی آیات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوتیں آپ صلی علیہ وآلہ وسلم اسے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو سناتے اور ان آیات کے مطالب و معانی سمجھا دیتے۔ کچھ صحابہ کرام تو ان آیات کو وہیں یاد کر لیتے اور کچھ لکھ کر محفوظ کر لیتے۔ ہم مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن ہر قسم کی تاریف بیان کرتا ہے پاک ہے محفوظ ہے ، قرآن میں آج تک کوئی کمی بیشی نہیں ہو سکی اور اسے دنیا کی واحد محفوظ افضل کتاب ہونے کی حیثیت حاصل ہے، جس کا حقیقی مفہوم تبدیل نہیں ہو سکا اور تمام دنیا میں کروڑوں کی تعداد میں چھپنے کے باوجود اس کا متن ایک جیسا ہے اور اس کی تلاوت عبادت ہے۔ اور صحف ابراہیم، زبور اور تورات و انجیل کے بعد آسمانی کتابوں میں یہ سب سے آخری اور افضل کتاب ہے اور سابقہ آسمانی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اب اس کے بعد کوئی آسمانی کتاب نازل نہیں ہوگی۔ قرآن کی فصاحت و بلاغت کے پیش نظر اسے لغوی و مذہبی لحاظ سے تمام عربی کتابوں میں اعلیٰ ترین مقام حاصل ہے۔ نیز عربی زبان و ادب اور اس کے نحوی و صرفی قواعد کی وحدت و ارتقا میں بھی قرآن کا خاصا اہم کردار دکھائی دیتا ہے۔ چنانچہ قرآن کے وضع کردہ عربی زبان کے قواعد بلند پایہ عرب محققین اور علمائے لغت مثلاً سیبویہ، ابو الاسود الدؤلی اور خلیل بن احمد فراہیدی وغیرہ کے یہاں بنیادی ماخذ سمجھے گئے ہیں۔
یہودیت وہ مذہب ہے جس میں خدا کی وحدانیت اور بنی اسرائیل کی برتری و عظمت کا یقین رکھنا ضروری ہے۔ یہی دو بنیادیں ہیں جس پر یہودی مذہب قائم ہے۔ یہ مذہب اس اعتبار سے بھی اہم ہے کہ اس کی مسلسل اور مرتب تاریخ محفوظ ہے۔ اس مذہب کو عالمگیر مذہب کہنا مشکل ہے کیونکہ دنیا کے ہر ایک گوشے میں ہونے کے باوجود اس مذہب میں غیر اسرائیلوں کے داخلے کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی ہے اور انھیں بہت مشکل مراحل سے گزار کر ہی یہودیت کے دائرے میں داخل کیا جاتا ہے۔ یہودیوں کو بنی اسرائیل بھی کہا جاتا ہے۔ اسلامی مقدس کتاب قرآن میں بھی ان کے لیے یہی لفظ بکثرت استعمال ہوا ہے۔ اصل میں بنی اسرائیل کے معنی ہیں اسرائیل کی اولاد اور نبی یعقوب کا لقب ہے۔
تاریخ ایران (History of Iran) جس فارس بھی کہا جاتا ہے ایک بڑے خطے کی تاریخ کے ساتھ باہم پیچیدگی سے ملی ہوئی ہے۔ ایران عظمی جو مغرب میں اناطولیہ، آبنائے باسفورس اور مصر مشرق میں قدیم ہندوستاناور دریائے سیحوں شمال میں قفقاز اور یوریشیائی مسطح میدانی خطہ جنوب میں خلیج فارس سے خلیج عمان تک پھیلا ہوا ہے۔
یہ بہت سخت، بھاری اور چاندی جیسی دھات ہے جس کا جوہری عدد 92 ہے۔ یہ 1789ء میں Martin Klaproth نامی ایک جرمن کیمیا دان نے دریافت کی تھی۔ اس نے اسے پچ بلنڈی سے الگ کیا تھا۔ یہ پچ بلنڈی چیک ریپبلک کی Joachimsal کی چاندی کی کانوں سے حاصل کی گئی تھی۔ اس نے اس نئی دھات کا نام نئے دریافت شدہ سیارے یورینس کے نام پر Uran رکھا۔ یہ سیارہ محض آٹھ سال پہلے ہی دریافت ہوا تھا۔ یورینیئم پچ بلنڈی کے علاوہ کارنوٹائٹ اور یُرے نائٹ میں بھی ملتا ہے۔
اللہ کے ذاتی نام 'اللہ' کے علاوہ اللہ کے ننانوے صفاتی نام مشہور ہیں۔ انھیں کہا جاتا ہے۔ ان میں سے بیشتر قرآن میں موجود ہیں اگرچہ قرآن میں ننانوے کی تعداد مذکور نہیں مگر یہ ارشاد ہے کہ اللہ کو اچھے اچھے ناموں سے پکارا جائے۔ روایات میں بکثرت نیچے دیے گئے ننانوے صفاتی نام ملتے ہیں جن کے ساتھ ان کا اردو ترجمہ بھی درج کیا جا رہا ہے۔
سید علی حسینی خامنہ ای (فارسی: سید علی حسینی خامنهای، پیدا ہوئے 19 اپریل 1939) ایک ایرانی بارہ امامی شیعہ مُجتہد اور سیاست دان ہیں جو 1989 سے ایران کے دوسرے رہبرِ معظم کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں. اس سے پہلے وہ 1981 سے 1989 تک ایران کے تیسرے صدر کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔ خامنہ ای کی 35 سالہ طویل حکمرانی انھیں مشرق وسطیٰ میں سب سے طویل عرصے تک خدمات انجام دینے والے سربراہ مملکت بناتی ہے اور پچھلی صدی میں شاہ محمد رضا پہلوی کے بعد دوسرے سب سے طویل عرصے تک خدمات انجام دینے والے ایرانی رہنما ہیں. ان کی سرکاری ویب گاہ کے مطابق، خامنہ ای کو محمد رضا پہلوی کے دور میں تین سالہ جلاوطنی پر بھیجنے سے پہلے چھ بار گرفتار کیا گیا تھا.
اردو زبان میں سینتیس حروفِ تہجی اور سینتالیس آوازیں ہیں جن میں سے بیشتر عربی سے لیے گئے ہیں اور دیگر انہی کی مختلف شکلیں ہیں۔ کچھ حروف کئی طریقوں سے استعمال ہوتے ہیں اور کچھ مخلوط حروف بھی استعمال ہوتے ہیں جو دو حروف سے مل کر بنتے ہیں۔ بعض لوگ 'ء' کو الگ حرف نہیں مانتے مگر پرانی اردو کتب اور لغات میں اسے الگ حرف کے طور پر لکھا جاتا ہے۔ مختلف الفاظ میں یہ الگ حرف کے طور پر ہی استعمال ہوتا ہے مثلاً 'دائرہ'۔ یہ بات مدِنظر رکھنا ضروری ہے کہ اردو تختی اور اردو حروف دو مختلف چیزیں ہیں کیونکہ اردو تختی میں اردو حروفِ تہجی کی کئی اشکال ہو سکتی ہیں جن کو الگ حرف کا درجہ نہیں دیا جا سکتا بلکہ وہ ایک ہی حرف کی مختلف شکلیں ہیں۔ مثلاً نون غنہ نون کی شکل ہے اور 'ھ' اور 'ہ' ایک ہی حرف کی مختلف اشکال ہیں۔ ایک اور مثال الف ممدودہ (آ) اور الف مقصورہ (ا) کی ہے جو اردو تختی میں الگ ہیں مگر اردو کا ایک ہی حرف شمار ہوتے ہیں۔
صہیونیت (عبرانی: צִיּוֹנוּת؛ عبرانی تلفظ: [t͡sijo̞ˈnut] از) قومی تحریک ہے جو یہودی لوگوں کی دوبارہ یہودی وطن یعنی ملک اسرائیل (جو کنعان، ارض مقدس اور فلسطین پر مشتمل ہے)۔ قیام کی حمایت کرتی ہے جدید صیہونیت انیسویں صدی کے اواخر میں وسطی اور مشرقی یورپ میں ایک یہودی قومی احیاء کی تحریک کے طور پر ابھر کر سامنے آئی، جس نے سام دشمنی کے رد عمل اور اخراجی قوم پرست تحریکوں کے جواب میں جنم لیا۔ اس کے بعد جلد ہی، اس کے زیادہ تر رہنماؤں نے اس تحریک کا مقصد مطلوبہ ریاست فلسطین اور بعد میں سلطنت عثمانیہ کے زیر حکومت علاقوں میں قائم کرنے سے وابستہ کر لیا۔
ایرانی انقلاب (فارسی: انقلاب ایران)، جسے 1979 کا انقلاب یا 1979 کا اسلامی انقلاب بھی کہا جاتا ہے، ایک سلسلہ وار واقعات تھے جو 1979 میں پہلوی خاندان کا تختہ الٹنے پر منتج ہوئے. اس انقلاب کے نتیجے میں ایران کی شاہی ریاست کی جگہ موجودہ اسلامی جمہوریہ ایران نے لے لی، کیونکہ محمد رضا پہلوی کی بادشاہت کو مذہبی عالم آیت اللہ روح اللہ خمینی کی قیادت میں ایک تھیوکریٹک حکومت نے تبدیل کر دیا، جو باغی گروہوں میں سے ایک کے سربراہ تھے۔ پہلوی، جو ایران کے آخری شاہ تھے، کی برطرفی نے ایران کی تاریخی بادشاہت کا باضابطہ خاتمہ کر دیا۔ 1953 کی ایرانی بغاوت کے بعد، پہلوی نے ایران کو مغربی بلاک کے ساتھ جوڑ دیا اور ایک آمرانہ حکمران کے طور پر اپنی طاقت کو مستحکم کرنے کے لیے امریکا کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کیے۔ سرد جنگ کے دوران امریکی حمایت پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہوئے، وہ 26 سال تک ایران کے شاہ رہے، جس نے ملک کو مشرقی بلاک اور سوویت یونین کے اثر و رسوخ کی طرف بڑھنے سے دور رکھا۔ 1923 کے آغاز میں، پہلوی نے میں ایران کو جدید بنانے کے لیے وسیع پیمانے پر اصلاحات کا آغاز کیا، جسے سفید انقلاب کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جدیدیت کی مخالفت کی وجہ سے 1964 میں خمینی کو ایران سے جلاوطن کر دیا گیا۔ تاہم، پہلوی اور خمینی کے درمیان نظریاتی کشیدگی برقرار رہی اور اکتوبر 1977 میں حکومت مخالف مظاہرے شروع ہوئے، جو اشتمالیت، اشتراکیت اور اسلامیت کو شامل کرتے ہوئے ایک مہم میں تبدیل ہو گئے۔ اگست 1978 میں، لگنے والی سینما ریکس آگ میں تقریباً 400 افراد کی ہلاکتیں — جسے اپوزیشن نے پہلوی کی ساواک کی کارستانی قرار دیا — ایران بھر میں ایک مقبول انقلابی تحریک کے لیے ایک محرک ثابت ہوئیں، اور بڑے پیمانے پر ہڑتالوں اور مظاہروں نے اس سال کے باقی حصے کے لیے ملک کو مفلوج کر دیا۔ ١٦ جنوری ١٩٧٩ کو، پہلوی آخری ایرانی بادشاہ کے طور پر جلاوطنی اختیار کر گئے، اور ایران کی ریجنسی کونسل اور شاپور بختیار، اپوزیشن پر مبنی وزیر اعظم کے لیے اپنی ذمہ داریوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ ١ فروری ١٩٧٩ کو، خمینی حکومت کی دعوت پر واپس آئے; تہران پہنچنے پر ہزاروں افراد نے ان کا استقبال کیا۔ ١١ فروری تک، بادشاہت کا خاتمہ کیا گیا اور خمینی نے قیادت سنبھالی جب کہ گوریلوں اور باغی دستوں نے مسلح لڑائی میں پہلوی کے وفاداروں کو زیر کر لیا۔ مارچ ١٩٧٩ کے اسلامی جمہوریہ ریفرنڈم کے بعد، جس میں ٩٨ فیصد نے اسلامی جمہوریہ میں تبدیلی کی منظوری دی، نئی حکومت نے اسلامی جمہوریہ ایران کے موجودہ آئین کا مسودہ تیار کرنا شروع کیا; خمینی دسمبر ١٩٧٩ میں ایران کے سپریم لیڈر کے طور پر سامنے آئے. انقلاب کی کامیابی کو دنیا بھر میں حیرت کا سامنا کرنا پڑا، اور یہ غیر معمولی تھا۔ اس میں انقلابی جذبات کی بہت سی روایتی وجوہات کی کمی تھی، جیسے جنگ میں شکست، مالی بحران، کسان بغاوت یا ناراض فوج۔ یہ ایک ایسے ملک میں ہوا جو نسبتا خوش حالی کا سامنا کر رہا ہے؛ بڑی رفتار سے گہری تبدیلی پیدا کی؛ بہت مقبول تھا؛ اس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر جلاوطنی ہوئی جو ایرانی باشندوں کے ایک بڑے حصے کی خصوصیت رکھتا ہے; اور ایک مغرب نواز سیکولر اور آمرانہ بادشاہت کی جگہ ایک مغربی اسلام مخالف تھیوکریسی کو متعارف کرایا جو ولایت فقیہ (اسلامی فقیہ کی نگہبانی) کے تصور پر مبنی ہے، جو آمریت اور مطلق العنانیت کے درمیان پھنسے ہوئے ہے.
ہیروشیما اور ناگاساکی میں ایٹمی بمباری
6 اور 9 اگست 1945 کودوسری جنگ عظیم میں ایک انسانی تاریخ کا سب سے شرمناک واقعہ پیش آیا جو آج بھی تاریخ کا بدترین دن مانا جاتا ہے۔ اس دن کو امریکا نے جاپان کے شہر ہیروشیما اور ناگاساکی میں ایٹم بم گرایا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے 2 سے 3 لاکھ کے درمیان لوگوں کی جان لی۔ آج اس دن کے بارے میں سوچا جاتا ہے تو آنکھوں سے آنسوں امڈ پڑتے ہیں کہ کیا ایسے انسان بھی ہو سکتے ہیں جو لاکھوں بے گناہ لوگوں کی جان منٹوں میں لے لیتا ہیں۔ اس واقعے نے پورے انسانیت کے دیواروں کو ہلا کر رکھ دیا۔ ایٹمی بمباری کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے معصوم لوگوں کے جسموں سے گوشت بگلنے لگا۔ اس دن کو تاریخ میں سیاہ ترین دن سمجھا جاتا ہے۔ اسی بمباری کی وجہ ہے کہ آج بھی اگر ہیروشیما یا ناگاساکی میں لوگ پیدا ہوتے ہیں تو ان میں کوئی نہ کوئی خلقی نقص پایا جاتا ہے۔ ایٹم بم انسانیت کے لیے انتہائی تباہ کن ہے۔ جب بھی اس کا استعمال ہوا ہے ہمیشہ اس نے تباہی مجھائی ہے۔وہی امریکا جو آج دعویٰ کرتا ہے کہ وہ ہم سب سے زیادہ انسانیت کے حق میں ہے، اسی نے 1945 میں سب سے زیادہ انسانوں کو قتل کیا۔
ابراہیم علیہ السلام وہ پہلے پیغمبر تھے جن کو اللہ نے مُسلمان نبی پیغمبر ابو الانبیاء، خلیل اللہ امام الناس اور حنیف کہہ کر پُکارا۔ اللہ تعالی نے اپنے اس دوست برگزیدہ اور پیارے نبی کو قرآن مجید میں امتہ (النحل : 120) امام الناس (البقرہ: 124) حنیف اور مسلم (آل عمران: 67) کے ناموں سے بار بار بار کیا ہے۔ اکثر انبیائے کرام انہی کی اولاد سے ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام کے نام کی وجہ تسمیہ کے بارے میں بائبل کا بیان ہے کہ خدا تعالی ان سے مخاطب ہو کر کہتا ہے۔ دیکھ میرا عہد تیرے ساتھ ہے اور تو بہت قوموں کا باپ ہو گا۔ اور تیرا نام ابرام نہیں بلکہ ابراہام ہو گا۔ کیونکہ میں نے تجھے قوموں کا باپ بنایا ہے۔ (پیدائش 170:5) اکثر ماہرین کے نزدیک ابراہام یا ابراہیم ؑ بھی لفظ ہے۔ ہو سکتا ہے کہ پہلے آپ کا نام ابراہم ہو اور پھر ابراہام یا ابو رہام ہو گیا ہو۔مُسلمان اُن کو خلیل اللہ (اللہ کا دوست) کہتے ہیں۔ ابراہیم کی نسل سے کئی پیغمبر پیدا ہوئے، جن کا تذکرہ عہدنامہ قدیم میں ہے۔ اسلام کی کتاب قرآن مجید میں بھی بہت سارے ایسے انبیا کا ذکر ہے جو ابراہیم کی نسل میں سے تھے۔ اسلام کے آخری نبی مُحمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی ابراہیم کی نسل میں سے ہیں۔ شرک، ستارہ پرستی اور بت سازی کے خلاف اپنی قوم اور اوروں کے ساتھ ان کا مجادلہ و محاجہ بڑے زور سے پیش کیا گیا ہے۔ ابراہیم کا بچپن میں ہی رشد عطا کیا گیا اور قلب سلیم بھی عنایت فرمایا گیا۔ تکوینی عجائبات اور ملکوت السمٰوت والارض ان کے سامنے تھے۔ انھیں کے مشاہدے سے اُن کو یقین کامل حاصل ہوا۔ بت پرستی کے خلاف ابراہیم کے جہاد کا ذکر بھی قران کریم میں کئی بار آیا ہے۔قرآن حکیم میں حضرت ابراہیم ؑ اور آذر کے اختلاف عقائد کو جس طرح نمایاں کیا گیا ہے اور جس طرح آپ اپنی قوم کے شرک سے متنفر اور متصادم ہوئے۔ اس سے ہم آپ کی عظمت و جلالت کی حقیقت کو بھی پاسکتے ہیں۔ اور اپنے لیے شمع ہدایت بھی روشن کر سکتے ہیں۔ اس وجہ سے مسلمانوں کو ملت براہیمی ہونے پر فخر ہے۔ ان کے بارے میں یہ توکہیں وضاحت نہیں ہوئی کہ کیا وحی ان پر نازل ہوئی تھی یا ان کی بعثت محض روحانی تھی؟ البتہ قرآن مجید میں ایک جگہ اس امر کی تصدیق ہوئی ہے کہ اللہ تعالی آپ سے ہمکلام تھا۔ اہل تاریخ کے نزدیک متعدد صحیفے تھے جو ابراہیم پر نازل ہوئے۔ ایک صحیفہ جو ان کی طرف سے منسوب ہے یونانی سے انگریزی میں ترجمہ ہو کر شائع ہو چکا ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ کے دین کے بارے میں قرآن مجید میں کئی جگہ پر ارشار ہوتا ہے کہ آپ موحد مسلم اورراست رو تھے۔ ارشاد ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے: ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ”پھر ہم نے تیری طرف (حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی طرف) وحی کی کہ ابراہیم ؑ راست رو (مسلم) کے دین پر چل اور وہ مشرکوں میں سے نہیں تھا “ اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے: يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تُحَآجُّونَ فِي إِبْرَاهِيمَ وَمَا أُنزِلَتِ التَّورَاةُ وَالإنجِيلُ إِلاَّ مِن بَعْدِهِ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ هَاأَنتُمْ هَؤُلاء حَاجَجْتُمْ فِيمَا لَكُم بِهِ عِلمٌ فَلِمَ تُحَآجُّونَ فِيمَا لَيْسَ لَكُم بِهِ عِلْمٌ وَاللّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ مَا كَانَ إِبْرَاهِيمُ يَهُودِيًّا وَلاَ نَصْرَانِيًّا وَلَكِن كَانَ حَنِيفًا مُّسْلِمًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْرَاهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ وَهَـذَا النَّبِيُّ وَالَّذِينَ آمَنُواْ وَاللّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ ”اے اہل کتاب! تم ابراہیم ؑ کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو۔ حالانکہ توریت اور انجیل اس کے بعد ہی اتاری گئیں۔ پھر کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے۔ سنو! تم وہ ہو جو اس میں جھگڑ چکے، جس کا تمھیں علم تھا پھر اس میں کیوں جھگڑتے ہو جس کا میں علم نہیں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ ابراہیم ؑ نہ یہودی تھا اور نہ عیسائی، لیکن وہ راست رو اور فرماں بردار (مسلم اور حنیف) تھا اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھا۔ يقينا ابراہیم ؑ کے بہت نزدیک وہ لوگ ہیں جنھوں نے اس کی پیروی کی اور یہ نبی اور وہ جو اس پہ ایمان لائے اورالله مومنوں کا ولی ہے۔ قرآن مجید کی تقریباً بائیس سورتوں میں حضرت ابراہیم ؑ کا ذکر آتا ہے۔ آپ مسلمانوں کے رسول مقبول حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے جد امجد ہیں۔ گویا مسلمان نہ صرف امت محمدیہ سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ امت براہیمیہ سے بھی متعلق ہیں۔ مسلمان حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ حضرت ابراہیم ؑ اور ان کی اولاد پر بھی درود بھیجتے ہیں- Book Name: Sahih Muslim, Hadees # 6138 حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، وَابْنُ فُضَيْلٍ، عَنِ الْمُخْتَارِ، ح وحَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ السَّعْدِيُّ - وَاللَّفْظُ لَهُ -، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، أَخْبَرَنَا الْمُخْتَارُ بْنُ فُلْفُلٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا خَيْرَ الْبَرِيَّةِ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «ذَاكَ إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلَامُ» علی بن مسہر اور ابن فضیل نے مختار بن فلفل سے روایت کی ، انھوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور کہا : يا خَيرَ البرِيّۃِ اے مخلوقات میں سے بہترین انسان !
جنگ احد 7 شوال 3ھ (23 مارچ 625ء) میں مسلمانوں اور مشرکینِ مکہ کے درمیان احد کے پہاڑ کے دامن میں ہوئی۔ مشرکین کے لشکر کی قیادت ابوسفیان کے پاس تھی اور اس نے 3000 سے زائد افراد کے ساتھ مسلمانوں پر حملہ کی ٹھانی تھی جس کی باقاعدہ تیاری کی گئی تھی۔ مسلمانوں کی قیادت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کی۔ اس جنگ کے نتیجہ کو کسی کی فتح یا شکست نہیں کہا جا سکتا کیونکہ دونوں طرف شدید نقصان ہوا اور کبھی مسلمان غالب آئے اور کبھی مشرکین لیکن آخر میں مشرکین کا لشکر لڑائی ترک کر کے مکہ واپس چلا گیا۔
سورۃ، سورت یا سورہ عربی زبان کا لفظ ہے، قرآن مجید میں 114 سورتیں ہیں۔ ہر سورۃ آیات پر مشتمل ہوتی ہے۔ سورتوں کو مکی اور مدنی حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ مکی سورتیں وہ ہیں جو مدینہ کی طرف ہجرت سے پہلے مکہ شہر میں نازل ہوئیں ان کی تعداد 86 ہے۔ مکی دور کی سورتوں کا تعلق قیامت، جزا، یہودیت اور عیسائیت جیسے موضوعات پر ہے۔ مدنی سورتیں وہ ہیں جو ہجرت کے بعد نازل ہوئیں ان سورتوں کی تعداد 28 ہے۔ مدنی دور کی سورتیں ذاتی معاملات، معاشرے اور ریاست کے قوانین پر زیادہ توجہ دیتی ہیں۔ قرآن مجید کی نویں سورت سورہ توبہ کے علاوہ ہر سورت بسم اللہ الرحمن الرحیم (" اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے " ) سے شروع ہوتی ہے۔ انتیس سورتیں حروف مقطعات یعنی انوکھے حروف کے مجموعے وہ ہیں جن کے معانی نامعلوم ہیں سے شروع ہوتی ہیں۔ قرآن مجید کی پہلی سورت سورہ فاتحہ ہے۔ علمائے شرعی نے قرآن کی سورتوں کو ان کی لمبائی کے لحاظ سے تین حصوں میں تقسیم کیا ہے، یعنی سات لمبی سورتیں البقرہ، آل عمران، النساء، المائدہ، الانعام، الاعراف اور التوبہ۔ المئون جو سات لمبے دن ہیں اس کو اس لیے کہا گیا کہ اس کی ہر سورت سو آیات سے زیادہ یا اس کے قریب ہے۔ پہلے دور کے مسلمانوں نے قرآن کی سورتوں کے نام استعمال کی تعدد کے مطابق رکھے تھے، یہ بات مشہور ہے کہ عربوں نے بہت سے ناموں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے نام کسی نادر یا عجیب چیز سے لیے ہیں جس کی کوئی خصوصیت یا اہمیت ہو۔ جیساکہ اسی مناسبت سے قرآن کی سورتوں کے نام دیے گئے جیسے سورۃ البقرہ میں گائے کے قصے کے ذکر کی وجہ سے یہ نام رکھا گیا اور سورۃ النساء کو عورتوں کے متعلق بہت سے احکام مذکور ہونے کی وجہ سے یہ نام دیا گیا ہے۔ سورۃ الانعام کو اس کے حالات کی تفصیل کی وجہ سے کہا گیا ہے اور سورۃ الاخلاص بھی خالص توحید وجہ سے کہی گئی ہے۔ قرآن کی پہلی سورت سورہ فاتحہ ہے، لمبی سورتیں قرآن کے شروع میں اور چھوٹی سورتیں آخر میں جمع کی گئی ہیں، اس لیے سورتوں کی ترتیب ان کی تاریخ کے مطابق نہیں ہے۔ تمام سورتیں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سے شروع ہوتی ہیں۔ سورۃ التوبہ جو جنگ کے دوران میں نازل ہوئی تھی اس لیے اس سورت میں بسم اللہ شروع میں نہیں پڑھی جاتی۔ یہ سورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور مشرکین کے درمیان عہد کو توڑنے کے لیے نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے علی ابن ابی طالب کے پاس بھیجا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں پڑھ کر سنایا اور اس پر بسم اللہ نہیں کہی جیسا کہ عربوں کا رواج تھا۔ لیکن اس کے باوجود قرآن میں بسم اللہ کی تعداد 114 تک پہنچ جاتی ہے جو سورتوں کی تعداد کے برابر ہے۔ بسم اللہ سورۃ النمل کی آیت نمبر 30 میں جیسا کہ نبی اور بادشاہ سلیمان شیبہ کی ملکہ بلقیس کو اپنے خطوط شروع کرتے تھے۔ إِنَّهُ مِن سُلَيْمَانَ وَإِنَّهُ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ۔
الناصر صلاح الدین یوسف بن ایوب (عربی: الناصر صلاح الدين يوسف بن أيوب; (کرد: سەلاحەدینی ئەییووبی)) جنھیں عام طور پر صلاح الدین ایوبی کے نام سے جانا جاتا ہے ایوبی سلطنت کے بانی تھے۔ وہ نہ صرف تاریخ اسلام بلکہ تاریخ عالم کے مشہور ترین فاتحین و حکمرانوں میں سے ایک ہیں۔ وہ 1138ء میں موجودہ عراق کے شہر تکریت میں پیدا ہوئے۔ ان کی زیر قیادت ایوبی سلطنت نے مصر، شام، یمن، عراق، حجاز اور دیار بکر پر حکومت کی۔ صلاح الدین ایوبی کو بہادری، فیاضی، حسن و خلق، سخاوت اور بردباری کے باعث نہ صرف مسلمان بلکہ مسیحی بھی عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ صلاح الدین ایوبی اپنے کارناموں میں نور الدین زنگی پر بھی بازی لے گئے۔ ان میں جہاد کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا اور بیت المقدس کی فتح ان کی سب سے بڑی خواہش تھی۔ صلاح الدین کو فاتح بیت المقدس کہا جاتا ہے جنھوں نے 1187ء میں یورپ کی متحدہ افواج کو عبرتناک شکست دے کر بیت المقدس ان سے آزاد کروا لیا تھا۔ صلاح الدین ایوبی 1193ء میں دمشق میں انتقال کر گئے، انھوں نے اپنی ذاتی دولت کا زیادہ تر حصہ اپنی رعایا کو دے دیا۔ وہ مسجد بنو امیہ سے متصل مقبرے میں مدفون ہیں۔ مسلم ثقافت کے لیے اپنی اہمیت کے ساتھ ساتھ، صلاح الدین کا کرد، ترک اور عرب ثقافت میں نمایاں طور پر احترام کیا جاتا ہے۔ انھیں اکثر تاریخ کی سب سے مشہور کرد شخصیت کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔
موسیٰ علیہ السلام اللہ کے برگزیدہ پیغمبروں میں سے ایک ہیں۔ آپ کے بھائی ہارون علیہ السلام بھی اللہ کے برگزیدہ نبیوں میں سے ایک ہیں۔یہ 1520 قبلِ مسیح کی بات ہے۔ مِصر پر فرعون بادشاہ’’مرنفتاح ثانی‘‘ کی حکومت تھی۔بعض نے اُس کا نام’’ منفتاح‘‘ بھی لکھا ہے اور وہ والد، رعمسیس کے بڑھاپے کی وجہ سے عملاً حکم ران بنا ہوا تھا۔ خدائی کا دعوے دار یہ بادشاہ بڑا ظالم و جابر تھا۔ اُس نے’’ بنی اسرائیل‘‘ کو اپنا غلام بنا رکھا تھا، حالاں کہ وہ حضرت یوسف کے زمانے سے وہاں رہائش پزیر تھے۔ حضرت یوسفؑ نے اپنے والد، حضرت یعقوبؑ اور اپنے بھائیوں کے لیے ایک قطعۂ زمین اُس وقت کے فرعون بادشاہ ’’ریان بن ولید‘‘ سے حاصل کیا تھا۔ حضرت یعقوبؑ کی یہی نسل’’بنی اسرائیل‘‘ کہلائی، جو مِصر میں خُوب پَھلی پُھولی۔ یہ لوگ حضرت یعقوبؑ کے دین کے پیروکار تھے، چناں چہ اُس وقت اللہ کے نزدیک یہ سب سے بہتر جماعت تھی۔ انھوں نے فرعون کو سجدہ کرنے اور اُسے اپنا ربّ ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ اسی وجہ سے بادشاہ اور اُس کے حواری ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھاتے اور اُن سے گھٹیا کام کرواتے۔ یاد رہے، فرعون کسی خاص شخص کا نام نہیں، بلکہ مِصر کے بادشاہوں کا لقب تھا۔ تاریخی حقائق کے مطابق، 31فراعنہ خاندانوں نے مِصر پر یکے بعد دیگرے حکومت کی۔ سب سے آخری خاندان نے 332قبلِ مسیح میں سکندرِ اعظم کے ہاتھوں شکست کھائی۔
فاطمہ بنت محمد بن عبد اللہ جن کا معروف نام فاطمۃ الزہراء ہے حضرت محمد بن عبد اللہ اور خدیجہ بنت خویلد کی بیٹی تھیں۔ تمام مسلمانوں کے نزدیک آپ ایک برگزیدہ ہستی ہیں۔۔ آپ کی ولادت 20 جمادی الثانی بروز جمعہ بعثت کے پانچویں سال میں مکہ میں ہوئی۔ آپ کی شادی علی ابن ابی طالب سے ہوئی جن سے آپ کے دو بیٹے حسن اور حسین اور دو بیٹیاں زینب اور ام کلثوم پیدا ہوئیں۔ آپ کی وفات اپنے والد حضرت محمد بن عبد اللہ کی وفات کے کچھ ماہ بعد 632ء میں ہوئی۔ آپ کے بہت سے القابات مشہور ہیں۔
پاک بھارت تنازع 2025ء مسلح تصادم تھا جس کا آغاز 7 مئی 2025ء کو ہوا جب بھارت نے پاکستان پر میزائل حملے کیے، جنھیں آپریشن سِن٘دُور(2) کا نام دیا گیا۔ بھارت نے دعویٰ کیا کہ یہ کارروائی 22 اپریل کو بھارتی زیر انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں عسکریت پسندوں کے حملے کے جواب میں کی گئی جس میں 28 شہری، جن میں اکثریت سیاحوں کی تھی، ہلاک ہو گئے تھے۔ اس حملے کے بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا کیونکہ بھارت نے پاکستان پر سرحد پار دہشت گردی کی حمایت کا الزام عائد کیا جس کی پاکستان نے تردید کی۔ یہ واقعات بالآخر 2025ء کی پاک بھارت کشیدگی کا سبب بنے جو مسئلہ کشمیر کا حصہ ہے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مختلف روایات میں اکثر گیارہ سے تیرہ ازواج کے نام ملتے ہیں۔ جنہیں امہات المؤمنین کہا جاتا ہے یعنی مؤمنین کی مائیں۔ اس کے علاوہ انھیں ازواج مطہرات بھی کہا جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ازواج میں حضرت عائشہ کے علاوہ تمام بیوہ و مطلقہ (طلاق شدہ) تھیں اور زیادہ شادیوں کا عرب میں عام رواج تھا۔
ریاستہائے متحدہ امریکا (ر.م.ا)، عام طور پر ریاستہائے متحدہ (ر.م.) یا امریکا کے نام سے جانا جاتا ہے، بنیادی طور پر شمالی امریکا میں واقع ایک ملک ہے۔ یہ 50 ریاستوں اور ایک وفاقی دارالحکومتی ضلع، واشنگٹن ڈی سی پر مشتمل وفاقی اتحاد ہے۔ 48 متصل ریاستیں شمال میں کینیڈا اور جنوب میں میکسیکو کے ساتھ سرحدیں رکھتی ہیں، جبکہ الاسکا کی ریاست شمال مغرب میں اور بحر الکاہل میں جزائر کا ایک گروہ، ہوائی، واقع ہیں۔ ریاستہائے متحدہ پانچ بڑے جزیرے کی حدود اور متعدد غیر آباد جزیروں پر بھی خود مختاری کا دعویٰ کرتا ہے۔ ملک کا رقبہ دنیا میں تیسرا سب سے بڑا ہے، سب سے بڑا خصوصی اقتصادی زون ہے اور آبادی کے لحاظ سے تیسرا سب سے بڑا ملک ہے، جس کی آبادی 334 ملین سے زیادہ ہے۔ اس کے تین سب سے بڑے میٹروپولیٹن علاقے نیو یارک، لاس اینجلس اور شکاگو ہیں اور اس کی تین سب سے زیادہ آبادی والی ریاستیں کیلیفورنیا، ٹیکساس اور فلوریڈا ہیں۔
سعودی عرب (رسمی نام : المملكة سعودیہ العربیہ) مغربی ایشیا کا ایک ملک ہے۔ یہ جزیرہ نما عرب کے بڑے حصے پر محیط ہے، جو اسے ایشیا کا پانچواں سب سے بڑا، عرب دنیا کا دوسرا سب سے بڑا اور مغربی ایشیا اور مشرق وسطی کا سب سے بڑا ملک بناتا ہے۔ اس کی سرحد مغرب میں بحیرہ احمر سے ملتی ہے۔ شمال میں اردن، عراق اور کویت؛ مشرق میں خلیج فارس، قطر اور متحدہ عرب امارات؛ جنوب مشرق میں عمان؛ اور جنوب میں یمن۔ بحرین مشرقی ساحل سے دور ایک جزیرہ نما ملک ہے۔ شمال مغرب میں خلیج عقبہ سعودی عرب کو مصر اور اسرائیل سے الگ کرتی ہے۔ سعودی عرب واحد ملک ہے جس کے پاس بحیرہ احمر اور خلیج فارس دونوں کے ساتھ ساحل ہے اور اس کا زیادہ تر علاقہ خشک صحرا، نشیبی، میدان اور پہاڑوں پر مشتمل ہے۔ اس کا دار الحکومت اور سب سے بڑا شہر ریاض ہے۔ یہ ملک مکہ اور مدینہ کا گھر ہے، جو اسلام کے دو مقدس ترین شہر ہیں۔
مغربی آسٹریلیا کے اول درجہ کرکٹ کھلاڑیوں کی فہرست
1892-93ء کے آسٹریلیا کرکٹ سیزن کے دوران ٹیم کے فرسٹ کلاس ڈیبیو کے بعد سے فرسٹ کلاس کرکٹ میچوں میں مغربی آسٹریلیا کے لیے کل 455 کھلاڑی نمودار ہوئے ہیں۔ 2023-24ء سیزن کے اختتام تک، ویسٹرن آسٹریلیا نے بطور ٹیم 800 سے زیادہ فرسٹ کلاس میچز کھیلے ہیں، جن میں اکثریت شیفیلڈ شیلڈ میں دیگر آسٹریلیا کی ریاستوں کے خلاف ہے۔
نعمان ابن ثابت بن زوطا بن مرزبان (پیدائش: 5 ستمبر 699ء– وفات: 14 جون 767ء) (فارسی: ابوحنیفه،عربی: نعمان بن ثابت بن زوطا بن مرزبان)، عام طور پر آپکو امام ابو حنیفہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ آپ سنی حنفی فقہ (اسلامی فقہ) کے بانی تھے۔ آپ ایک تابعی، مسلمان عالم دین، مجتہد، فقیہ اور اسلامی قانون کے اولین تدوین کرنے والوں میں شامل تھے۔ آپ کے ماننے والوں کو حنفی کہا جاتا ہے۔ زیدی شیعہ مسلمانوں کی طرف سے بھی آپ کو ایک معروف اسلامی عالم دین اور شخصیت تصور کیا جاتا ہے۔ انھیں عام طور پر "امام اعظم" کہا جاتا ہے۔
عام نظریہ یہ ہے کہ اسلامی پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تین بیٹے تھے جن کا نام عبد اللہ، ابراہیم اور قاسم تھا اور چار بیٹیاں جن کا نام فاطمہ زہرا ، رقیہ ، ام کلثوم اور زینب تھا۔ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اولاد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ان کی پہلی بیوی خدیجہ بنت خویلد سے پیدا ہوئے تھے، سوائے ان کے بیٹے ابراہیم کے، جو ماریہ القبطیہ سے پیدا ہوئے تھے۔ محمد کے بیٹے میں سے کوئی بھی بالغ نہیں ہوا، لیکن ان کا ایک بالغ رضاعی بیٹا، زید بن حارثہ تھا۔ ان کی تمام بیٹیاں جوانی کو پہنچیں۔ کچھ شیعہ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ فاطمہ بنت محمد ان کی اکلوتی حیاتیاتی بیٹی تھیں۔
جوہری اسلحہ یا نیوکلیائی ہتھیار (nuclear weapon) جس کو عام طور پر جوہری اسلحہ یا جوہری ہتھیار بھی کہا جاتا ہے، ایک ایسا اسلحہ ہے کہ جو اپنی تباہ کاری کی صلاحیت یا طاقت، انشقاق (fission) یا اتحاد (fusion) جیسے مرکزی تعاملات (نیوکلیئر ری ایکشنز) سے حاصل کرتا ہے۔ اور انشقاق اور ائتلاف (اتحاد) جیسے مرکزی طبیعیاتی عوامل سے توانائی اخذ کرنے کی وجہ سے ہی ایک چھوٹے سے مرکزی اسلحہ کا محصول (یعنی اس سے نکلنے والی توانائی یا yield)، ایک بہت بڑے روایتی قـنبلہ (bomb) کے مقابلے میں واضع طور پر زیادہ ہوتی ہے اور ایسا صرف ایک قنبلہ یا بم ہی تمام کا تمام شہر غارت کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔
اسے مغربی دیوار (عبرانی:הכותל המערבי) بھی کہا جاتا ہے، قدیم شہر یروشلم میں واقع یہودیوں کی اہم مذہبی یادگار ہے۔ یہودیوں کے بقول 70ء کی تباہی سے ہیکل سلیمانی کی ایک دیوار کا کچھ حصہ بچا ہوا ہے جہاں دو ہزار سال سے یہودی زائرین آ کر رویا کرتے تھے اسی لیے اسے "دیوار گریہ" کہا جاتا ہے جبکہ مسلمان اس کو دیوارِ براق کہتے ہیں۔
شاہ ایران۔ اصل نام رضا خان، سپاہی کے بیٹے تھے۔ معمولی تعلیم حاصل کی۔ نوجوانی میں فوج میں بھرتی ہو گئے اور جلد ہی اعلیٰ عہدے پر فائز ہو گئے۔ 1921ء میں حکومت کا تختہ الٹ دیا اور 1923ء میں وزیر اعظم کا عہدہ خود سنبھال لیا۔ انھوں نے فارس کو ایران کا نام دیا۔ 1925ء میں خاندان قاجار خاندان کے آخری بادشاہ احمد شاہ قاجار کو معزول کرکے خود بادشاہ بن گئے اور رضا شاہ پہلوی کا لقب اختیار کیا۔ انھوں نے فوج اور ملکی نظم و نسق میں اصلاحات کیں، بیرونی ممالک کی مراعات منسوخ کر دیں اور ایران کو خارجی اثر و رسوخ سے پاک کر دیا۔ ان کے عہد میں ٹرانس ایرانین ریلوے کا اجرا ہوا اور تہران یونیورسٹی قائم ہوئی۔ دوسری عالمی جنگ میں ایران نے جرمنی کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم رکھے۔ اس پر برطانوی اور روسی افواج ایران میں داخل ہو گئیں۔ انگریزوں نے رضا شاہ کو تخت چھوڑنے اور اپنے بیٹے محمد رضا شاہ پہلوی کو حکومت سونپنے پر مجبور کیا۔ 1941ء میں رضا شاہ جنوبی افریقہ چلے گئے اور وہیں وفات پائی۔
مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق ختم نبوت سے مراد یہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالٰیٰ کے آخری نبی اور آخری رسول ہیں۔ اللہ رب العزت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس جہاں میں بھیج کر بعثت انبیا کا سلسلہ ختم فرما دیا ہے۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ختم نبوت کا ذکر قرآن حکیم کی 100 سے بھی زیادہ آیات میں نہایت ہی جامع انداز میں صراحت کے ساتھ کیا گیا ہے
صحیح بخاری کا اصل نام «الجامع المسند الصحیح المختصر من امور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وسننہ و ایامہ» ہے جو «صحیح البخاری» کے نام سے مشہور ہے، یہ اہل سنت وجماعت کے مسلمانوں کی سب سے مشہور حدیث کی کتاب ہے، اس کو امام محمد بن اسماعیل بخاری نے سولہ سال کی مدت میں بڑی جانفشانی اور محنت کے ساتھ تدوین کیا ہے، اس کتاب کو انھوں نے چھ لاکھ احادیث سے منتخب کر کے جمع کیا ہے۔ اہل سنت کے یہاں اس کتاب کو ایک خاص مرتبہ و حیثیت حاصل ہے اور ان کی حدیث میں چھ امہات الکتب (صحاح ستہ) میں اول مقام حاصل ہے، خالص صحیح احادیث میں لکھی جانی والی پہلی کتاب شمار ہوتی ہے، اسی طرح اہل سنت میں قرآن مجید کے بعد سب سے صحیح کتاب مانی جاتی ہے۔ اسی طرح صحیح بخاری کا شمار کتب الجوامع میں بھی ہوتا ہے، یعنی ایسی کتاب جو اپنے فن حدیث میں تمام ابواب عقائد، احکام، تفسیر، تاریخ، زہد اور آداب وغیرہ پر مشتمل اور جامع ہو۔
بھارَت (ہندی: भारत، انگریزی: India), جسے عموماً ہندوستان یا ہند کہا جاتا ہے اور رسمی طور پر جمہوریہ بھارت جنوبی ایشیا میں واقع ایک ملک ہے۔ پرانے دور سے ہی مختلف مذاہب کو یہاں رچنے بسنے کا موقع ملا۔ بھارت آبادی کے لحاظ سے اس وقت سب سے بڑا ملک بن گیا ہے اور اس لحاظ سے یہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھی کہلاتا ہے۔ بھارت کے ایک ارب 35 کروڑ سے زائد باشندے سو سے زائد زبانیں بولتے ہیں۔ بھارت کے مشرق میں بنگلہ دیش اور میانمار، شمال میں بھوٹان، چین اور نیپال اور مغرب میں پاکستان اور جنوب مشرق اور جنوب مغرب میں بحر ہند واقع ہے۔ نیز یہ ملک سری لنکا، مالدیپ سے قریب ترین ملک ہے۔ جبکہ بھارت کے نکوبار اور انڈمان جزیرے تھائی لینڈ اور انڈونیشیا کے سمندری حدود سے جڑے ہوئے ہیں۔
میر تقی میر (پیدائش: 28 مئی 1723ء— وفات: 22 ستمبر 1810ء) اصل نام میر محمد تقى اردو كے عظیم شاعر تھے۔ میر ان کا تخلص تھا۔ اردو شاعرى ميں مير تقى مير كا مقام بہت اونچا ہے ـ انھیں ناقدین و شعرائے متاخرین نے خدائے سخن کے خطاب سے نوازا۔ وہ اپنے زمانے كے ايك منفرد شاعر تھےـ۔ آپ كے متعلق اردو كے عظیم الشان شاعرمرزا غالب نے لکھا ہے۔
رموز اوقاف (انگریزی: Punctuation) وہ علامتیں اور نشانیاں ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ عبارت میں کس جگہ اور کس طرح وقف کرنا ہے۔ رموز، رمز کی جمع ہے جس کا مطلب ہے علامت یا اشارہ جبکہ اوقاف، وقف کی جمع ہے جس کے معنی ٹھہرنے یا رکنے کے ہیں، یعنی رموز اقاف یا علامات وقف اُن اشاروں یا علامتوں کو کہتے ہیں جو کسی عبارت کے ایک جملے کے ایک حصے کو اس کے باقی حصوں سے علاحدہ کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ اردو، انگریزی یا دوسری زبانوں کے قواعد میں ان اوقاف اور علامات کو بہت اہمیت حاصل ہے اگر ان کا خیال نہ رکھا جائے تو مفہوم کچھ سے کچھ بلکہ بعض اوقات تو اس کے بالکل اُلٹ ہو جاتا ہے جہاں ٹھہرنا یا وقفہ کرنا ہو ان کے لیے اردو میں درج ذیل رموز اوقاف استعمال ہوتے ہیں۔ ختمہ (۔)، سوالیہ (؟)، سکتہ (،) تفصیلہ (:_)، قوسین () واوین (” “) ندائیہ یا فجائیہ (!) علامت شعر(؎) علامت مصرع (؏) علامت وغیرہ۔
خالد بن ولید ابن مغیرہ رضی اللہ عنہ (28ق.ھ / 22ھ) آپ خاندان قریش کے بہت ہی نامور اشراف میں سے تھے۔ ان کی والدہ حضرت بی بی لبابۂ صغری رضی اللہ تعالیٰ عنہا ام المؤمنین حضرت بی بی میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بہن تھیں۔ آپ بہادری اور فن سپہ گری و تدابیر جنگ کے اعتبار سے تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں ایک خصوصی امتیاز رکھتے ہیں۔ اسلام قبول کرنے سے پہلے ان کی اور ان کے باپ ولید کی اسلام دشمنی مشہور تھی۔ جنگ بدر اور جنگ احد کی لڑائیوں میں یہ کفار کے ساتھ رہے اور ان سے مسلمانوں کو بہت زیادہ جانی نقصان پہنچا مگر ناگہاں ان کے دل میں اسلام کی صداقت کا ایسا آفتاب طلوع ہو گیا کہ 7ھ میں یہ خود بخود مکہ سے مدینہ جاکر دربار رسالت میں حاضر ہو گئے اور دامن اسلام میں آگئے اور یہ عہد کر لیا کہ اب زندگی بھر میری تلوار کفار سے لڑنے کے لیے بے نیام رہے گی چنانچہ اس کے بعد ہر جنگ میں انتہائی مجاہدانہ جاہ وجلال کے ساتھ کفار کے مقابلہ میں شمشیر بکف رہے یہاں تک كه 8ھ میں جنگ موتہ میں جب حضرت زید بن حارثہ وحضرت جعفر بن ابی طالب وحضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم تینوں سپہ سالاروں نے یکے بعد دیگرے جام شہادت نوش کر لیا تو اسلامی فوج نے ان کو اپنا سپہ سالار منتخب کیا اور انھوں نے ایسی جاں بازی کے ساتھ جنگ کی کہ مسلمانوں کی فتح مبین ہو گئی۔ اور اسی موقع پر جب کہ یہ جنگ میں مصروف تھے حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے مدینہ منورہ میں صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی ایک جماعت کے سامنے ان کو ”سیف اللہ”(اللہ کی تلوار) کے خطاب سے سرفراز فرمایا۔ امیرالمؤمنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورخلافت میں جب فتنہ ارتداد نے سر اٹھایا تو انھوں نے ان معرکوں میں بھی خصوصاً جنگ یمامہ میں مسلمان فوجوں کی سپہ سالاری کی ذمہ داری قبول کی اور ہر محاذ پر فتح مبین حاصل کی۔ پھر امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے دوران رومیوں کی جنگوں میں بھی انھوں نے اسلامی فوجوں کی کمان سنبھالی اور بہت زیادہ فتوحات حاصل ہوئیں 22ھ میں چند دن بیماررہ کر وفات پائی۔ موتہ کی جنگ کے دوران، خالد بن ولید نے بازنطینیوں کے خلاف مسلم فوجوں قیادت کی۔ اور انھوں نے 629-630 میں مکہ کی مسلمانوں کی فتح اور 630ء میں حنین کی جنگ کے دوران مسلم فوج کے تحت بدویوں کی قیادت کی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات کے بعد، خالد بن ولید کو نجد اور یمامہ میں مقرر کیا گیا تھا تاکہ ان عرب قبائل کو دبایا جائے جو نوزائیدہ مسلم ریاست کے مخالف تھے۔ اس مہم کا اختتام بالترتیب 632 میں جنگ بزاخہ اور 633ء میں یمامہ کی جنگ میں عرب باغی رہنماؤں طلیحہ بن خویلد اور مسیلمہ کذاب پر خالدبن ولید کی فتح پر ہوا۔
متحدہ عرب امارات (عربی: دولة الإمارات العربية المتحدة) جسے صرف امارات بھی کہا جاتا ہے، جزیرہ نمائے عرب کے جنوب مشرقی ساحلوں پر واقع ایک ملک ہے جو 7 امارات: ابوظہبی، عجمان، دبئی، فجیرہ، راس الخیمہ، شارجہ اور ام القوین پر مشتمل ہے۔ 1971ء سے پہلے، یہ ریاستیں ریاستہائے ساحل متصالح (Trucial States) کہلاتی تھیں۔
ایڈولف ہٹلر 20 اپريل 1889ء كو آسٹريا كے ايك غريب گھرانے ميں پيدا ہوا۔ اس کی تعليم نہايت كم تھی۔ آسٹريا كے دارالحكومت ويانا كے كالج آف فائن آرٹس ميں محض اس لیے داخلہ نہ مل سكا كہ وہ ان كے مطلوبہ معيار پر نہيں اترتا تھا۔ 1913ء ميں ہٹلر جرمنی چلا آيا جہاں پہلی جنگ عظيم ميں جرمنی کی طرف سے ايك عام سپاہی کی حيثيت سے لڑا اور فوج ميں اس لیے ترقی حاصل نہ كر سكا كہ افسران كے نزديك اس ميں قائدانہ صلاحيتوں كی كمی تھی۔ 1919ء ميں ہٹلر جرمنی کی وركرز پارٹی كا ركن بنا جو 1920ء ميں نيشنل سوشلسٹ جرمن وركرز پارٹی (نازی) كہلائی۔ 1921ء ميں وہ پارٹی كا چيئرمين منتخب ہوا۔ 1930ء ميں منعقد ہونے والے انتخابات ميں نازی پارٹی جرمنی کی دوسری بڑی پارٹی بن گئی۔ یقینا ہٹلر خوبیوں اور خامیوں کا عجیب پیکر تھا
بی-2 اسپرٹ (B-2 Spirit) ایک دزدیدہ یا سٹیلتھ بمبار ہوائی جہاز ہے۔ یہ عام بموں کے ساتھ ساتھ ایٹم بم بھی لے جا سکتا ہے۔ اسے امریکہ کی کمپنی نارتھراپ گرومن نے بنایا ہے۔ یہ دنیا کا مہنگا ترین جہاز ہے۔ اس میں جو سٹیلتھ تکنیک استعمال کی گئی ہے وہ اسے ریڈار کی نظروں سے محفوظ رکھتی ہے جس کی وجہ سے یہ دشمن کے سب سے محفوظ علاقوں میں بھی بمباری کر سکتا ہے۔
محمد علی جناح پیدائشی نام، محمد علی جناح بھائی، 25 دسمبر 1876ء – 11 ستمبر 1948ء) کے نامور وکیل، سیاست دان اور بانی پاکستان تھے۔ محمد علی جناح 1913ء سے لے کر پاکستان کی آزادی 14 اگست 1947ء تک آل انڈیا مسلم لیگ کے سربراہ رہے، پھر قیام پاکستان کے بعد اپنی وفات تک، وہ ملک کے پہلے گورنر جنرل رہے۔ سرکاری طور پر پاکستان میں آپ کو قائدِ اعظم یعنی سب سے عظیم رہبر اور بابائے قوم یعنی قوم کا باپ بھی کہا جاتا ہے۔ جناح کا یومِ پیدائش پاکستان میں قومی تعطیل کے طور پر منایا جاتا ہے۔
پیروز نهاوندی یا فیروز جسے ابولؤلؤ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے کا اصل تاریخی تعارف خلیفہ دوم عمر بن خطاب کو شہید کرنے کا ہے۔ وہ نہاوند شہر کا ایک مشہور اور ماہر ترین بڑھئی تھا۔ اس نے خلیفہ دوم کو شہید کرنے کے بعد خودکشی کر لی تھی۔ پیروز نهاوندی یا فیروز جسے ابولؤلؤ اور باباشجاع الدین کے نام سے بھی جانا جاتا ہے رستم فرخ زاد کی زیر کمان ایرانی مجوسی فوج کا سپاہی تھا اور جنگ قادسیہ (نہاوند) میں ساسانی فوج کی شکست کے بعد غلام کے طور پر مدینہ لایا گیا- سن 23 ہجری میں مسجد نبوی میں دوران نماز اس نے سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ پر خنجر سے وار کیا- سیدنا فاروق اعظم کی شہادت کے بعد اسے قصاص میں قتل کیا گیا- عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ابو لولوہ مجوسی اور آتش پرست تھا۔اس کے بارے میں آتا ہے کہ ایک عمدہ لوہار اور بڑھئی تھا- اس کے نام سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا تعلق نہاوند سے تھا- فیروز مجوسی کا مزار قم سے ساٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر کاشان - فنس روڈ پر واقع ہے- یہ گیارہویں صدی کے شاہانہ انداز میں تعمیر کی گئی عمارت ہے جو مرکزی ہال، صحن اور نیلے کلر کی ایرانی ٹائلوں سے مزین مخروطی گنبد پر مشتمل ہے- اس کی درست تاریخ بنیاد تو نہیں معلوم مگر چودھویں صدی کے آخری نصف میں اسے پوری طرح بحال کر دیا گیا تھا اور اس پر نیا لوح تربت لگایا گیا تھا- شیعہ اسے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کو قتل کرنے کے عوض بابا شجاع الدین (دین کا بہادر سپوت) کا اعزاز دیتے ہیں- حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کا دن آج بھی ایران کے دور دراز کے قصبات میں فیروز نہاوندی کی عظمت کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے جو کچھ سال پہلے تک تمام شہروں میں جشن عمر کشی کے نام سے منایا جاتا تھا جو عرب ممالک کے احتجاج پر حکام نے بند کروادیا.
شوال۔ ذی القعدہ 5ھ (مارچ 627ء) میں مشرکینِ مکہ نے مسلمانوں سے جنگ کی ٹھانی۔ ابوسفیان نے قریش اور دیگر قبائل حتیٰ کہ یہودیوں سے بھی لوگوں کو جنگ پر راضی کیا اور اس سلسلے میں کئی معاہدے کیے اور ایک بہت بڑی فوج اکٹھی کر لی مگر مسلمانوں نے سلمان فارسی کے مشورہ سے مدینہ کے ارد گرد ایک خندق کھود لی۔ مشرکینِ مکہ ان کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ خندق کھودنے کی عرب میں یہ پہلی مثال تھی کیونکہ اصل میں یہ ایرانیوں کا طریقہ تھا۔ ایک ماہ کے محاصرے اور اپنے بے شمار افراد کے قتل کے بعد مشرکین مایوس ہو کر واپس چلے گئے۔ اسے غزوہ خندق یا جنگِ احزاب کہا جاتا ہے۔ احزاب کا نام اس لیے دیا جاتا ہے کہ اصل میں یہ کئی قبائل کا مجموعہ تھی۔ جیسے آج کل امریکا، برطانیہ وغیرہ کی اتحادی افواج کہلاتی ہیں۔ اس جنگ کا ذکر قرآن میں سورۃ الاحزاب میں ہے۔
حضرت آدم علیہ السلام ، اللہ کے اولین پیغمبر ہیں۔ ابوالبشر (انسان کا باپ) اور صفی اللہ (خدا کا برگزیدہ) لقب۔ آپ کے زمانے کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔تمام آسمانی کتابوں کے ماننے والوں کاعقیدہ ہے کہ اس رُوئے زمین پر اللہ جل شانہ‘نے حضرت آدم علیہ السلام کو تخلیق کیا۔حضرت آدم ؑ کی پیدائش کا احوال کچھ یوں ہے :اللہ تعالی نے تمام زمین سے ایک مٹھی مٹی لے کر آدم علیہ السلام کو بنایا۔اس لیے زمین کے لحاظ سے لوگ سرخ ،سفید ، سیاہ اور درمیانے درجے میں ،اسی طرح اچھے ،برے ، نرم اور سخت طبیعت والے اور کچھ درمیانے درجے کے پیدا ہوئے(روایت : حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ )۔ اللہ تعالی نے جبریل علیہ السلام کو زمین میں مٹی لانے کے لیے بھیجا تو زمین نے عرض کی کہ میں تجھ سے اللہ کی پناہ میں آتی ہوں کہ تو مجھ سے کوئی کمی کرے یا مجھے عیب ناک کر دے تو وہ مٹی لیے بغیر ہی واپس چلے گئے اور عرض کی :اے اللہ!اس نے تیری پناہ میں آنے کی درخواست کی تو میں نے اس کو پناہ دے دی۔ اللہ تعالیٰ نے پھر حضرت میکائل کو بھیجا ،زمین نے اس سے بھی پناہ مانگی تو اس نے بھی پناہ دے دی اور حضرت جبریل کی طرح واقعہ بتا دیا پھر اللہ نے موت کے فرشتوں کو بھیجا۔زمین نے اس سے بھی پناہ مانگی تو اس نے کہا میں اس سے اللہ کی پناہ میں آتا ہوں کہ میں اللہ کے حکم کی تعمیل کیے بغیر واپس چلا جاؤں اور اس سے مختلف جگہوں سے سرخ ،سیاہ اور سفید مٹی اکٹھی کی جس کی بنا پر آدم علیہ السلام کی اولاد بھی مختلف رنگوں والی ہے ۔( روایت سدی رحمۃ اللہ بحوالہ ابن عباسؓ وابن مسعودؓ )وہ مٹی لے کرعرش پر چلے گئے اور اس کو پانی کے ساتھ تر کیا۔پانی سے تر کرنے سے وہ چپکنے والی لیس دار مٹی بن گئی۔ اس پر باری تعالیٰ نے فرشتوں کو فرمایا :میں مٹی سے انسان بنانے والا ہوں۔جب میں اس کو اچھی طرح بنا لوں اور اس میں اپنی پیدا کردہ روح ڈال دوں تو اس کے لیے سجدہ کرتے ہوئے گر جانا۔اللہ تعالی ٰنے علم کے ساتھ آدم علیہ السلام کا ان پر شرف اور مرتبہ واضح کیا۔حضرت ابن عباسؓ نے کہا ان سے مراد وہی نام ہیں جو لوگوں کے ہاں مشہور و معروف ہیں۔انسان ، جانور ، زمین ، سمندر ، پہاڑ ، اونٹ ، گدھا وغیرہ۔مجاہد نے کہا :پیالہ اور ہنڈیا وغیرہ کے نا م سکھائے،حتی کہ پھسکی اور گوز کا نام بھی بتا یا۔ مجاہد نے مزید کہا:ہر جانور ،پرند ، چرند اور ہر ضرورت کی ہر چیز کے نام سکھائے۔سعید بن جبیر ، قتادہ وغیرہ نے بھی اسی طرح کہا ہے۔الربیع نے کہا:فرشتوں کے نام سکھائے۔عبد الرحمن بن زید نے کہا :ان کی اولاد کے نام سکھائے۔اللہ نے آدم علیہ السلام کو ہر چھوٹی اور بڑی چیز اور ان کے افعال کے نام سکھائے ۔ حضرت انس بن مالکؓ نے رسول اللہﷺ سے روایت کرتے ہوئے فرمایا :قیامت کے دن ایمان والے اکٹھے ہوں گے اور کہیں گے کاش ہم اپنے رب کے پاس سفارش کرنے والا طلب کریں ،پھر وہ آدم کے پاس آئیں گے اور کہیں گے اے آدم!
اردو زبان کی ابتدا کے متعلق نظریات
اردو کی ابتدا و آغاز کے بارے میں کئی مختلف نظریات ملتے ہیں یہ نظریات آپس میں اس حد تک متضاد ہیں کہ انسان چکرا کر رہ جاتا ہے۔ ان مشہور نظریات میں ایک بات مشترک ہے کہ ان میں اردو کی ابتدا کی بنیاد برصغیر پاک و ہند میں مسلمان فاتحین کی آمد پر رکھی گئی ہے۔ اور بنیادی استدلال یہ ہے کہ اردو زبان کا آغاز مسلمان فاتحین کی ہند میں آمد اور مقامی لوگوں سے میل جول اور مقامی زبان پر اثرات و تاثر سے ہوا۔ اور ایک نئی زبان معرض وجود میں آئی جو بعد میں اردو کہلائی۔ کچھ ماہرین لسانیات نے اردو کی ابتدا کا سراغ قدیم آریاؤں کے زمانے میں لگانے کی کوشش کی ہے۔اردو زبان کی ابتدا کے بارے میں ایک خیال یہ بھی ہے کہ یہ ہریانوی زبان سے شروع ہوئی۔ بہر طور اردو زبان کی ابتدا کے بارے میں کوئی حتمی بات کہنا مشکل ہے۔ اردو زبان کے محققین اگرچہ اس بات پر متفق ہیں کہ اردو کی ابتدا مسلمانوں کی آمد کے بعد ہوئی لیکن مقام اور نوعیت کے تعین اور نتائج کے استخراج میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس انداز سے اگر اردو کے متعلق نظریات کو دیکھا جائے تو وہ نمایاں طور پر چار مختلف نظریات کی شکل میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔
حسن بن علی بن ابی طالب (621ء–670ء) 15رمضان 3 ہجری کی شب کو مدینہ منورہ میں سورہ کوثر کی پہلی تفسیر بن کر صحن علی المرتضیٰؓ و خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا ؓ میں تشریف لائے رسولِ خداؐ کے لیے امام حسنؓ کی آمد بہت بڑی خوشی تھی کیونکہ جب مکہ مکرمہ میں رسو ل کریم ؐ کے بیٹے یکے بعد دیگرے رحلت فرماتے رہے تو مشرکین طعنے دیتے اور آپ کو بڑا صدمہ پہنچتا۔ مشرکین کو جواب کے لیے قرآن مجید میں سورۃ الکوثر نازل ہوئی جس میں آپ کوخوش خبری دی گئی ہے کہ خدا نے آپ کو کثرتِ اولاد عطا فرمائی ہے اور مقطوع النسل آپؐ نہیں ہوںگے بلکہ آپؐ کا دشمن ہوگا۔ دنیا میں ہر انسان کی نسل اس کے بیٹے سے ہے لیکن کائنات کی اشرف ترین ہستی سرور کونین حضرت محمد مصطفیؐ کی نسل کا ذریعہ ان کی بیٹی حضرت فاطمہ زہراؓ یعنی امام حسن ؓ و حسین ؓ کو قرار دیا گیا۔ حضرت عمر ابن خطاب ؓ اور حضرت جابر ابن عبد اللہ انصاریؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا’’ہر عورت کی اولاد کا نسب اس کے باپ کی طرف ہوتا ہے سوائے اولاد فاطمہؓ کے، میں ہی ان کا نسب ہوں اور میں ہی ان کا باپ ہوں‘‘حضرت عمر ؓ سے یہ بھی روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ قیامت کے دن ہر نسب منقطع ہو جائے گا سوائے میرے نسب (اولاد فاطمہ )اور رشتہ کے ۔ نصاری نجران کے ساتھ مباہلہ کے لیے بھی رسول خدا امام حسن و حسین ؓ کو اپنے فرزندان کے طور پر ساتھ لے کر گئے جس پر قرآن کی آیت گواہ ہے۔ بحارالانور میں ہے کہ جب امام حسن ؓ سرور کائنات کی خدمت میں لائے گئے تو آنحضرت نے نوزائیدہ بچے کو آغوش میں لے کر پیار کیا اور داہنے کان میں اذان اور بائیں کان میں ا قامت فرمانے کے بعد اپنی زبان ان کے منہ میں دیدی، امام حسنؓ اسے چوسنے لگے اس کے بعدآپ نے دعاکی خدایا اس کو اور اس کی اولاد کو اپنی پناہ میں رکھنا ولادت کے ساتویں دن سرکار کائناتؐ نے خود اپنے دست مبارک سے عقیقہ فرمایا اور بالوں کو منڈوا کر اس کے ہم وزن چاندی تصدق کی ۔ اس کے بعد آنحضرت ؐ نے حضرت علیؓ سے پوچھا۔ ــ’’ آپ نے اس بچہ کا کوئی نام بھی رکھا؟‘‘امیر المومنین ؓنے عرض کی۔ ’’آپؐ پر سبقت میں کیسے کر سکتا تھا۔ ‘‘پیغمبر ؐ نے فرمایا ’’ میں بھی خدا پر کیسے سبقت کر سکتا ہوں‘‘چند ہی لمحوں کے بعد جبرائیل ؑ پیغمبر ؐ کی خدمت میں وحی لے کر آگئے اور کہا ’’ خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے کہ اس بچہ کا نام حسن ؓ رکھیے۔ تاریخ خمیس میں یہ مسئلہ تفصیلاً مذکور ہے۔ ماہرین علم الانساب بیان کرتے ہیں کہ خداوند عالم نے خاتون جنت حضرت فاطمہ زہراؓ کے دونوں شاہزادوں کانام انظار عالم سے پوشیدہ رکھا تھا یعنی ان سے پہلے حسن و حسین نام سے کوئی موسوم نہ ہوا تھا۔ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ؐ کے ساتھ امام حسن ؓسے زیادہ مشابہت رکھنے والا کوئی نہیں تھا۔ حضرت امام حسن ؓ رسول کریمؐ سے چہرے سے سینے تک اور امام حسین ؓ سینے سے قدموں تک رسول ؐکی شبیہہ تھے۔ خداکی وحی کے بغیر کوئی کام اور کلام نہ کرنے والے رسول خدا ؐکی نواسوں سے محبت اور اللہ کے نزدیک مقام کا اندازہ اس حدیث مبارکہ سے لگایا جا سکتا ہے۔ روایت ہے کہ رسول کریم ؐ نماز عشاء ادا کرنے کے لیے باہر تشریف لائے اور آپؐ اس وقت حضرت امام حسن اور امام حسینؓ کو گود میں اٹھائے ہوئے تھے۔ آپؐ اس وقت آگے بڑھے (نماز کی امامت فرمانے کے لیے) اور ان کو زمین پر بٹھلایا۔ پھر نماز کے واسطے تکبیر فرمائی۔ آپ ؐ نے نماز کے درمیان ایک سجدہ میں تاخیر فرمائی تو میں نے سر اٹھایا تو دیکھا کہ صاحب زادے (یعنی رسول کریم ؐ کے نواسے) آپ ؐ کی پشت مبارک پر ہیں اور اس وقت آپؐ حالت سجدہ میں ہیں۔ پھر میں سجدہ میں چلا گیا جس وقت آپؐ نماز سے فارغ ہو گئے تو لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ آپؐ نے نماز کے دوران ایک سجدہ ادا فرمانے میں تاخیر کیوں فرمائی۔ آپؐ نے فرمایا ایسی کوئی بات نہ تھی میرے نواسے مجھ پر سوار ہوئے تو مجھ کو (برا) محسوس ہوا کہ میں جلدی اٹھ کھڑا ہوں اور اس کی مراد (کھیلنے کی خواہش) مکمل نہ ہو۔ ۔ آنحضرت ایک دن محو خطبہ تھے کہ حسنین آ گئے اور حسن کے پاؤں دامن عبامیں اس طرح الجھے کہ زمین پر گر پڑے، یہ دیکھ کر آنحضرت ؐنے خطبہ ترک کر دیا اور منبر سے اتر کر انھیں آغوش میں اٹھا لیا اور منبر پر تشریف لے جا کر خطبہ شروع فرمایا حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے کہ میں نے دیکھا کہ نبی کریم ؐ نے حضرت حسن بن علیؓ کو اپنے مبارک کندھے پر اٹھایا ہوا تھا اور آپؐ فرما رہے تھے، اے اللہ! میں اس سے محبت کرتا ہوں پس تو بھی اس سے محبت فرما۔ (بخاری، مسلم) اہل بیت سے آپ کو سب سے پیا را کون ہے؟ فرمایا، حسن اور حسینؓ۔ آپؐ حضرت فاطمہ ؓ سے فرمایا کرتے، میرے دونوں بیٹوں کو میرے پاس بلاؤ۔ پھرآپ ؐدونوں کو سونگھا کرتے اور انھیں اپنے ساتھ لپٹا لیا کرتے۔ (ترمذی)حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ حضورِ اکرمؐ نے فرمایا، حسن اور حسینؓ دونوں دنیا میں سے میرے دو پھول ہیں۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ؐ کا ارشاد ہے، جس نے ان دونوں یعنی حسن وحسینؓ سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان دونوں سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا۔ حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے کہ رسول کریمؓ نے فرمایا، کیا میں تمھیں ان کے بارے میں نہ بتاؤں جو اپنے نانا نانی کے لحاظ سے سب لوگوں سے بہتر ہیں؟ کیا میں تمھیں ان کے بارے میں نہ بتاؤں جو اپنے چچا اور پھوپھی کے لحاظ سے سب لوگوں سے بہتر ہیں؟کیا میں تمھیں ان کے بارے میں نہ بتاؤں جو اپنے ماں باپ کے اعتبار سے سب لوگوں سے بہتر ہیں؟ وہ حسن اور حسینؓ ہیں سیدہ فاطمہؓ سے روایت ہے کہ وہ حضرت حسن اور حضرت حسینؓ کو رسول کریم ؐکے مرضْ الوصال کے دوران آپؐ کی خدمت میں لائیں اور عرض کی، یارسول اللہ ؐ! انھیں اپنی وراثت میں سے کچھ عطا فرمائیں۔ رسول کریم ؐ نے فرمایا، حسن میری ہیبت اور سرداری کا وارث ہے اور حسین میری جرات اور سخاوت کا وارث ہے۔ امام حسن مجتبیٰؓ نے سات سال اور کچھ مہینے تک اپنے نانا رسول خداؐ کا زمانہ دیکھا اور آنحضرتؐ کی آغوش محبت میں پرورش پائی۔ پیغمبر اکرمؐکی رحلت کے بعد جو حضرت فاطمہ زہراؓ کی شہادت سے تین سے چھ مہینے پہلے ہوئی آپ اپنے والد ماجد کے زیر تربیت آ گئے تھے۔ فرزند رسول امام حسن مجتبیٰؓ اپنے والد گرامی کی شہادت کے بعد امامت کے درجے پر فائز ہوئے اس کے ساتھ خلافت اسلامیہ پر بھی متمکن ہوئے اور تقریباً چھ ماہ تک آپر امور مملکت کا نظم ونسق سنبھالا۔ آپ کا عہد بھی خلفائے راشدین میں شمار کیا جاتا ہے۔ امام زین العابدین ؓفرماتے ہیں کہ امام حسنؓزبردست عابد، بے مثل زاہد، افضل ترین عالم تھے آپ نے جب بھی حج فرمایاپیدل فرمایا، کبھی کبھی پابرہنہ حج کے لیے جاتے تھے آپ اکثریاد خداوندی میں گریہ کرتے تھے جب آپ وضو کرتے تھے توآپ کے چہرہ کارنگ زرد ہوجا یاکرتا تھا اورجب نمازکے لیے کھڑ ے ہوتے تھے توبیدکی مثل کانپنے لگتے تھے ۔ امام شافعیؒ لکھتے ہیں کہ امام حسن ؓ نے اکثراپناسارامال راہ خدامیں تقسیم کردیاہے اور بعض مرتبہ نصف مال تقسیم فرمایا ہے وہ عظیم و پرہیزگار تھے۔ امام حسن کے والد بزرگوار امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے 21 رمضان کو شہادت پائی اس وقت امام حسن کی عمر 37 سال چھ یوم کی تھی۔ حضرت علی کی تکفین و تدفین کے بعد عبد اللہ ابن عباس کی تحریک سے قیس ابن سعد بن عبادہ انصاری نے امام حسن کی بیعت کی اوران کے بعدتمام حاضرین نے بیعت کرلی جن کی تعداد چالیس ہزار تھی یہ واقعہ 21 رمضان 40ھ یوم جمعہ کاہے( ابن اثیر) ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کھڑے ہوکر تقریر کی اور لوگوں کو بیعت کی دعوت دی .
نکاح متعہ (عربی : نكاح المتعة ) جسے عرف عام میں متعہ یا صیغہ کہا جاتا ہے؛ ولی (شہادت) کی موجودگی یا غیر موجودگی میں ہونے والا ایک ایسا نکاح ہے جس کی مدت (ایک روز، چند روز، ماہ، سال یا کئی سال) معین ہوتی ہے جو فریقین خود طے کرتے ہیں اور اس مدت کے اختتام پر خود بخود علیحدگی ہو جاتی ہے یا اگر مرد باقی ماندہ مدت بخش دے تب بھی عورت نکاح سے آزاد ہو جاتی ہے مگر ہر صورت میں عدت اپنی شرائط کے ساتھ پوری کرنی پڑتی ہے ؛ اور اولاد انھیں والدین سے منسوب ہو تی ہے؛ اگر فریقین چاہیں تو مدتِ اختتامِ متعہ پر علیحدگی کی بجائے اسے جاری (یا مستقل) بھی کر سکتے ہیں۔ یہ نکاح ابتدا سے اسلام میں متعدد بار جائز ہوا اور اس سے روکا گیا پھر جائز ہوا۔ تاریخی اعتبار سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات سے چند سال قبل تک اس کی موجودگی پر سنی بھی اور شیعہ بھی دونوں اتفاق کرتے ہیں۔ یعنی اس کا اصل میں حلال ہونا مسلم اور مورد اتفاق ہے مگر اکثر شیعہ اور سنی نیز دیگر فرقے اس کے حلیت باقی رہنے یا حرام ہوجانے کے بارے میں مختلف نظریات رکھتے ہیں۔
پاکستان کا آئین، جسے 1973 کا آئین بھی کہا جاتا ہے، پاکستان کا اعلیٰ ترین قانون ہے۔ یہ دستاویز پاکستان کے قانون، سیاسی ثقافت اور نظام کی رہنمائی کرتی ہے۔ یہ ریاست کا خاکہ، آبادی کے بنیادی حقوق، ریاست کے قوانین اور احکامات اور اداروں اور مسلح افواج کے ڈھانچے اور قیام کو بیان کرتی ہے۔ یہ ذو الفقار علی بھٹو کی حکومت نے ملک کی اپوزیشن جماعتوں کی اضافی مدد سے تیار کیا تھا اور اسے 10 اپریل کو 5ویں پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر منظور کیا اور 14 اگست 1973 کو توثیق کی گئی۔ پہلے تین ابواب حکومت کی تین شاخوں کے قواعد، مینڈیٹ اور علاحدہ اختیارات قائم کرتے ہیں: ایک دو ایوانی مقننہ؛ ایک ایگزیکٹو برانچ جسے وزیر اعظم بطور چیف ایگزیکٹو چلاتے ہیں؛ اور ایک اعلیٰ وفاقی عدلیہ جس کی سربراہی سپریم کورٹ کرتی ہے۔ آئین پاکستان کے صدر کو ریاست کے اتحاد کی نمائندگی کرنے والے رسمی سربراہ مملکت کے طور پر نامزد کرتا ہے۔ آئین کے پہلے چھ مضامین سیاسی نظام کو وفاقی پارلیمانی جمہوریہ کے نظام کے طور پر بیان کرتے ہیں؛ اور اسلام کو اس کا ریاستی مذہب بھی قرار دیتے ہیں۔ آئین میں قرآن اور سنت میں موجود اسلامی احکام کی تعمیل کے لیے قانونی نظام کی دفعات بھی شامل ہیں۔
جنگ آزادی ہند 1857ء جو ہندوستانیوں کی انگریز کے خلاف پہلی آزادی کی مسلح جنگ تھی اسے انگریزوں نے "جنگ غدر" کا نام دیا۔ عموماً اس کے دو سبب بیان کیے جاتے ہیں۔ اولاً یہ کہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان کے تمام صوبے اور کئی ریاستیں یکے بعد دیگرے اپنی حکومت میں شامل کر لی تھیں۔ جس کی وجہ سے ہندوستانیوں کے دل میں کمپنی کے متعلق شکوک پیدا ہو گئے۔ دوم یہ کہ ان دنوں جو کارتوس فوجیوں کو دیے جاتے تھے۔ وہ عام خیال کے مطابق سور اور گائے کی چربی سے آلودہ تھے اور انھیں بندوقوں میں ڈالنے سے بیشتر دانتوں سے کاٹنا پڑتا تھا۔ ہندو اور مسلمان فوجی سپاہیوں نے اسے مذہب کے منافی سمجھا اور ان میں کھلبلی مچ گئی۔ جن سپاہیوں نے ان کارتوسوں کو استعمال کرنے سے انکار کر دیا ان کی فوجی وردیاں اتار کر انھیں بیڑیاں پہنا دی گئیں۔ ان قیدیوں میں بہت سے ایسے تھے جنھوں نے انگریزوں کی خاطر بڑی بڑی قربانیاں دی تھیں۔
اسلام ایک توحیدی مذہب ہے جو اللہ کی طرف سے، حضرت محمد ﷺ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ذریعے انسانوں تک پہنچائی گئی آخری الہامی کتاب (قرآن مجيد) کی تعلیمات پر قائم ہے۔ یعنی دنیاوی اعتبار سے بھی اور دینی اعتبار سے بھی اسلام (اور مسلم نظریے کے مطابق گذشتہ ادیان کی اصلاح) کا آغاز، 610ء تا 632ء تک 23 سال پر محیط عرصے میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اللہ کی طرف سے اترنے والے الہام (قرآن) سے ہوتا ہے۔ قرآن عربی زبان میں نازل ہوا (برائے وجہ : اللسان القرآن) اور اسی زبان میں دنیا کی کل آبادی کا کوئی 24% حصہ یعنی لگ بھگ 1.6 تا 1.8 ارب افراد اس کو پڑھتے ہیں؛ ان میں (مختلف ذرائع کے مطابق) قریباً 20 تا 30 کروڑ ہی وہ ہیں جن کی مادری زبان عربی ہے جبکہ 70 تا 80 کروڑ، غیر عرب یا عجمی ہیں جن کی مادری زبان عربی کے سوا کوئی اور ہوتی ہے۔ متعدد شخصی ماخذ سے اپنی موجودہ شکل میں آنے والی دیگر الہامی کتابوں کے برعکس، بوسیلۂ وحی، فردِ واحد (محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے منہ سے ادا ہوکر لکھی جانے والی کتاب اور اس کتاب پر عمل پیرا ہونے کی راہنمائی فراہم کرنے والی شریعت ہی دو ایسے وسائل ہیں جن کو اسلام کی معلومات کا منبع قرار دیا جاتا ہے۔
مغلیہ سلطنت 1526ء سے 1857ء تک برصغیر پر حکومت کرنے والی ایک مسلم سلطنت تھی، جس کی بنیاد ظہیر الدین بابر نے 1526ء میں پہلی جنگ پانی پت میں دہلی سلطنت کے آخری سلطان ابراہیم لودھی کو شکست دے کر رکھی تھی۔ مغلیہ سلطنت اپنے عروج میں تقریباً پورے برصغیر پر حکومت کرتی تھی، یعنی موجودہ دور کے افغانستان، پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے ممالک پر مشتمل خطے پر انکا دور دورہ تھا۔ مغل سلطنت کی بنیاد 1526ء میں بابر نے رکھی، جو آج کے ازبکستان سے ایک سردار تھا، جس نے ہمسایہ صفوی سلطنت اور سلطنت عثمانیہ سے ہندوستان پر حملہ کے لیے مدد لی ۔ مغل شاہی ڈھانچہ بابر سے شروع ہوتا ہے۔ اور 1720ء تک قائم رہا۔ مغل سلطنت کے آخری طاقتور شہنشاہ، اورنگ زیب کے دور حکومت میں سلطنت نے اپنی زیادہ سے زیادہ جغرافیائی حد تک رسائی حاصل کی۔ اس کے بعد 1760ء تک پرانی دہلی اور اس کے آس پاس کے علاقے میں کمی واقع ہوئی، سلطنت کو 1857 کے ہندوستانی بغاوت کے بعد برطانوی راج نے باضابطہ طور پر تحلیل کر دیا۔ 17 ویں صدی میں بحر ہند میں بڑھتی ہوئی یورپی موجودگی اور ہندوستانی خام اور تیار مصنوعات کی بڑھتی ہوئی مانگ نے مغل دربار کے لیے بہت زیادہ دولت پیدا کی۔ مغل دور میں مصوری، ادبی شکلوں، ٹیکسٹائل اور فن تعمیر کی زیادہ سرپرستی ہوئی، خاص طور پر شاہ جہاں کے دور حکومت میں۔ جنوبی ایشیا میں مغل یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کے مقامات میں درج ذیل جگہیں شامل ہیں: آگرہ کا قلعہ، فتح پور سیکری، لال قلعہ، ہمایوں کا مقبرہ، لاہور کا قلعہ، شالامار باغات اور تاج محل، جسے "ہندوستان میں مسلم آرٹ کا زیور" کہا جاتا ہے۔ دنیا کے ورثے کے عالمی طور پر قابل تعریف شاہکاروں میں سے ایک ہے۔
مسجد نبوی دنیا کی سب سے بڑی مساجد میں سے ایک ہے اور اسلام کا دوسرا مقدس ترین مقام ہے۔ مکہ مکرمہ میں مسجد حرام مسلمانوں کے لیے مقدس ترین مقام ہے جبکہ بیت المقدس میں مسجد اقصی اسلام کا تیسرا مقدس مقام ہے۔ مسجد نبوی سعودی عرب کے شہر مدینہ منورہ میں واقع ہے۔ تاریخ میں مسجد نبوی میں کئی بار توسیع کی گئی جن میں خلفائے راشدین، خلافت امویہ، خلافت عباسیہ، سلطنت عثمانیہ اور آخر کار سعودی ریاست کے دور میں توسیع ہوئیں۔ سعودی دور میں اس کی سب سے بڑی توسیع 1994ء میں ہوئی تھی۔ مسجد نبوی جزیرہ نما عرب میں پہلی جگہ ہے جسے 1909ء میں برقی چراغوں کے استعمال سے روشن کیا گیا تھا۔ عمر بن عبدالعزیز کی طرف سے 91 ہجری میں توسیع کے بعد حجرہ نبوی کو مسجد میں شامل کیا گیا (جو اس وقت " پیغمبر کے حجرے" کے نام سے جانا جاتا ہے جو مسجد کے جنوب مشرقی کونے میں واقع ہے) جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، ابوبکر صدیق اور عمر بن خطاب کو دفن کیا گیا تھا، اور اس پر گنبد خضریٰ بنایا گیا تھا، یہ مسجد نبوی کے سب سے نمایاں نشانیوں میں سے ایک ہے۔ مسجد نبوی نے سیاسی اور سماجی زندگی میں ایک اہم کردار ادا کیا، کیونکہ یہ ایک سماجی مرکز، عدالت اور مذہبی درسگاہ کے طور پر کام کرتی تھی۔ مسجد نبوی مدینہ منورہ کے مرکز میں واقع ہے، جس کے ارد گرد بہت سے ہوٹل اور پرانے بازار ہیں۔ جو لوگ یہاں حج یا عمرہ کرتے ہیں وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی بھی زیارت کرتے ہیں۔
بنیامین نیتن یاہو (; عبرانی:; پیدائش: 21 اکتوبر 1949ء) ایک اسرائیلی سیاست دان ہیں، جو 2022 سے اسرائیل کے وزیرِ اعظم کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اس سے پہلے وہ 1996-1999 اور 2009-2021 کے دوران بھی اس عہدے پر فائز رہ چکے ہیں۔ وہ لیکود جماعت کے چیئرمین ہیں۔ نیتن یاہو اسرائیل کی تاریخ میں سب سے طویل عرصے تک وزیرِ اعظم رہنے والے سیاست دان ہیں، جنھوں نے مجموعی طور پر 16 سال سے زیادہ خدمات انجام دی ہیں۔ بنجمن نیتن یاہو سیکولر یہودی والدین کے ہاں پیدا ہوئے اور ان کی پرورش مغربی یروشلم اور امریکا میں ہوئی. وہ 1967 میں اسرائیل واپس آئے اور اسرائیلی دفاعی افواہج میں شامل ہو گئے، جہاں انھوں نے سیرت متکل خصوصی فورسز میں کپتان کے طور پر خدمات انجام دیں اور اعزازی طور پر فارغ ہوئے. میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے گریجویشن کے بعد، نیتن یاہو نے بوسٹن کنسلٹنگ گروپ کے لیے کام کیا اور 1978 میں اسرائیل واپس آ کر یوناتن نیتن یاہو اینٹی ٹیرر انسٹی ٹیوٹ کی بنیاد رکھی.