اردو ویکیپیڈیا کے سب سے زیادہ ملاحظہ کردہ مضامین کی فہرست۔ مزید معلومات کے لیے ۔ ۔ ۔
سیکسی امریکی مصنفہ جوائس کیرول اوٹس (Joyce Carol Oates) کا ایک ناول ہے۔ یہ پہلی بار 2005ء میں شائع ہوا اور نوجوان قارئین کے لیے لکھا گیا ان کا چوتھا ناول ہے۔ کتاب میں کم سنی میں جنسی رغبت، ہم جنس پرستی اور قبل از شادی جنسی تعلقات جیسے موضوعات کے ساتھ ساتھ بالغ زبان کا استعمال کیا گیا ہے، جس کی وجہ سے اسے بعض اسکول لائبریریوں سے پابندی کے لیے نشانہ بنایا گیا۔
ابو القاسم محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب (12 ربیع الاول عام الفیل / اپریل 570ء یا 571ء – 12 ربیع الاول 10ھ / 8 جون 632ء) مسلمانوں کے آخری نبی ہیں۔ اہل اسلام کے نزدیک حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تمام مذاہب کے پیشواؤں سے کامیاب ترین پیشوا تھے۔ آپ کی کنیت ابو القاسم تھی۔ مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ کی طرف سے انسانیت کی جانب بھیجے جانے والے انبیائے کرام کے سلسلے کے آخری نبی ہیں جن کو اللہ نے اپنے دین کی درست شکل انسانوں کی جانب آخری بار پہنچانے کے لیے دنیا میں بھیجا۔ انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دنیا کی تمام مذہبی شخصیات میں سب سے کامیاب شخصیت تھے۔ 570ء (بعض روایات میں 571ء) مکہ میں پیدا ہونے والے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر قرآن کی پہلی آیت چالیس برس کی عمر میں نازل ہوئی۔ ان کا وصال تریسٹھ (63) سال کی عمر میں 632ء میں مدینہ میں ہوا، مکہ اور مدینہ دونوں شہر آج کے سعودی عرب میں حجاز کا حصہ ہیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف کے والد کا انتقال ان کی دنیا میں آمد سے قریبا چھ ماہ قبل ہو گیا تھا اور جب ان کی عمر چھ سال تھی تو ان کی والدہ حضرت آمنہ بھی اس دنیا سے رحلت فرما گئیں۔ عربی زبان میں لفظ "محمد" کے معنی ہیں 'جس کی تعریف کی گئی'۔ یہ لفظ اپنی اصل حمد سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے تعریف کرنا۔ یہ نام ان کے دادا حضرت عبدالمطلب نے رکھا تھا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو رسول، خاتم النبیین، حضور اکرم، رحمۃ للعالمین اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے القابات سے بھی پکارا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی آپ کے بہت نام و القاب ہیں۔ نبوت کے اظہار سے قبل حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے چچا حضرت ابوطالب کے ساتھ تجارت میں ہاتھ بٹانا شروع کر دیا۔ اپنی سچائی، دیانت داری اور شفاف کردار کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عرب قبائل میں صادق اور امین کے القاب سے پہچانے جانے لگے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس 610ء میں ایک روز حضرت جبرائیل علیہ السلام (فرشتہ) ظاہر ہوئے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اللہ کا پیغام دیا۔ جبرائیل علیہ السلام نے اللہ کی جانب سے جو پہلا پیغام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پہنچایا وہ یہ ہے۔
انا لله و انا الیہ راجعون (عربی: إِنَّا لِلَّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ) آیت استرجاع کہلاتی ہے جو قرآن میں سورۃ البقرہ کی آیت 156 سے ماخوذ ہے۔ اس کا مطلب ہے: "ہم اللّٰہ کے ہیں اور ہمیں اللّٰہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے (یعنی مرنے کے بعد)۔" جب مسلمان کسی کی موت یا مصیبت کی خبر سنتے ہیں تو یہ آیت پڑھتے ہیں۔ وہ اس آیت کو تعزیت کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں اور خصوصاً مصیبت یا نقصان کے وقت صبر کی گواہی دیتے ہیں۔ بے شک مُسلمین کو (مُصیبت اور نقصان کے وقت) صبر اور نماز کے ذریعے اللّٰہ سے مدد لینے کا حُکم ہے۔
ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال (ولادت: 9 نومبر 1877ء – وفات: 21 اپریل 1938ء) بیسویں صدی کے ایک معروف شاعر، مصنف، قانون دان، سیاستدان اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھے۔ اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے اور یہی ان کی بنیادی وجہ شہرت ہے۔ شاعری میں بنیادی رجحان تصوف اور احیائے امت اسلام کی طرف تھا۔ علامہ اقبال کو دور جدید کا صوفی سمجھا جاتا ہے۔ بحیثیت سیاست دان ان کا سب سے نمایاں کارنامہ نظریۂ پاکستان کی تشکیل ہے، جو انھوں نے 1930ء میں الہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پیش کیا تھا۔ یہی نظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا۔ اسی وجہ سے علامہ اقبال کو پاکستان کا نظریاتی باپ سمجھا جاتا ہے۔ گو کہ انھوں نے اس نئے ملک کے قیام کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن انھیں پاکستان کے قومی شاعر کی حیثیت حاصل ہے۔
ابوحفص عمر فاروق بن خطاب عدوی قرشی (586ء/590ء، مکہ - 6 نومبر 644ء، مدینہ) ابوبکر صدیق کے بعد مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ راشد، محمد مصطفی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سسر اور تاریخ اسلام کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک ہیں۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں، ان کا شمار علما و زاہدین صحابہ میں ہوتا تھا۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد 23 اگست سنہ 634ء مطابق 22 جمادی الثانی سنہ 13ھ کو مسند خلافت سنبھالی۔ عمر بن خطاب ایک باعظمت، انصاف پسند اور عادل حکمران مشہور ہیں، ان کی عدالت میں مسلم و غیر مسلم دونوں کو یکساں انصاف ملا کرتا تھا، عمر بن خطاب کا یہ عدل و انصاف انتہائی مشہور ہوا اور ان کے لقب فاروق کی دیگر وجوہ تسمیہ میں ایک وجہ یہ بھی بنی۔ آپ رضی اللہ عنہ کا نسب نویں پشت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے جا ملتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نویں پشت میں کعب کے دو بیٹے ہیں مرہ اور عدی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مرہ کی اولاد میں سے ہیں، جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ عدی کی اولاد میں سے ہیں۔
نجم الدولہ، دبیر الملک، مرزا نوشہ اسد اللہ خان غالب بہادر نظام جنگ (1797ء- 1869ء) اردو زبان کے سب سے بڑے شاعروں میں ایک سمجھے جاتے ہیں۔ یہ تسلیم شدہ بات ہے کہ 19 ویں صدی غالب کی صدی ہے۔ جبکہ 18 ویں میر تقی میر کی تھی اور 20 ویں علامہ اقبال کی۔ غالب کی عظمت کا راز صرف ان کی شاعری کے حسن اور بیان کی خوبی ہی میں نہیں ہے۔ ان کا اصل کمال یہ ہے کہ وہ زندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کو گہرائی میں جا کر سمجھتے تھے اور بڑی سادگی سے عام لوگوں کے لیے بیان کر دیتے تھے۔ غالب جس پر آشوب دور میں پیدا ہوئے اس میں انھوں نے مسلمانوں کی ایک عظیم سلطنت کو برباد ہوتے ہوئے اور باہر سے آئی ہوئی انگریز قوم کو ملک کے اقتدار پر چھاتے ہوئے دیکھا۔ غالباً یہی وہ پس منظر ہے جس نے ان کی نظر میں گہرائی اور فکر میں وسعت پیدا کی۔
انسولین (Insulin) ایک ہارمون ہے جو انسانی جسم میں لبلبے سے خارج ہو کر خون میں شامل ہو جاتا ہے۔ یہ انسانی جسم میں خون میں گلوکوز کی مقدار کو کنٹرول میں رکھتا ہے۔ گلوکوز شوگر کی ایک قسم ہے۔ اس لیے انسولین کی کمی سے جو بیماری ہوتی ہے اُسے عام طور پر شوگر کی بیماری (یعنی ذیا بطیس ) کہتے ہے۔ اس بیماری میں مریض کے خون میں گلوکوز (شوگر) کی مقدار بڑھ جاتی ہے جو آہستہ آہستہ جسم کے کئی اعضاء کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتی ہے۔
پاکستان، جس کا سرکاری نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے، جنوبی ایشیا کا ایک ملک ہے۔ یہ آبادی کے لحاظ سے پانچواں سب سے بڑا ملک ہے، جس کی آبادی 2023 کے مطابق 24 کروڑ 15 لاکھ سے زیادہ ہے، اور اس میں مسلمانوں کی دوسری سب سے بڑی آبادی ہے۔ اسلام آباد اس کا دار الحکومت ہے، جبکہ کراچی اس کا سب سے بڑا شہر اور مالیاتی مرکز ہے۔ پاکستان رقبے کے لحاظ سے 33واں سب سے بڑا ملک ہے۔ یہ جنوب میں بحیرہ عرب، جنوب مغرب میں خلیج عمان اور جنوب مشرق میں سر کریک سے متصل ہے۔ اس کی زمینی سرحدیں مشرق میں بھارت، مغرب میں افغانستان، جنوب مغرب میں ایران اور شمال مشرق میں چین کے ساتھ ملتی ہیں۔ یہ خلیج عمان میں عمان کے ساتھ سمندری سرحد بھی رکھتا ہے اور شمال مغرب میں افغانستان کے تنگ واخان راہداری کے ذریعے تاجکستان سے جدا ہوتا ہے۔
احمد خان متقی بن محمد متقی (17 اکتوبر 1817ء – 27 مارچ 1898ء) المعروف سر سید، سر سید احمد خان انیسویں صدی کے ایک ہندوستانی مسلم نظریۂ عملیت کے حامل ، مصلح اور فلسفی تھے۔ ان کو برصغیر میں مسلم قوم پرستی کا سرخیل مانا جاتا ہے اور دو قومی نظریہ کا خالق تصور کیا جاتا ہے، جو آگے چل کر تحریک پاکستان کی بنیاد بنا۔
ابوبکر صدیق عبد اللہ بن ابو قحافہ عثمان تیمی قرشی (573ء—634ء) اسلام کے پہلے خلیفہ راشد، عشرہ مبشرہ میں شامل، خاتم النبین محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اولین جانشین، صحابی، خسر اور ہجرت مدینہ کے وقت رفیق سفر تھے۔ اہل سنت و الجماعت کے یہاں ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ انبیا اور رسولوں کے بعد انسانوں میں سب سے بہتر، صحابہ میں ایمان و زہد کے لحاظ سے سب سے برتر اور ام المومنین عائشہ بنت ابوبکر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے محبوب تر تھے۔ عموماً ان کے نام کے ساتھ صدیق کا لقب لگایا جاتا ہے جسے حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی تصدیق و تائید کی بنا پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دیا تھا۔
جنگ احد 7 شوال 3ھ (23 مارچ 625ء) میں مسلمانوں اور مشرکینِ مکہ کے درمیان احد کے پہاڑ کے دامن میں ہوئی۔ مشرکین کے لشکر کی قیادت ابوسفیان کے پاس تھی اور اس نے 3000 سے زائد افراد کے ساتھ مسلمانوں پر حملہ کی ٹھانی تھی جس کی باقاعدہ تیاری کی گئی تھی۔ مسلمانوں کی قیادت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کی۔ اس جنگ کے نتیجہ کو کسی کی فتح یا شکست نہیں کہا جا سکتا کیونکہ دونوں طرف شدید نقصان ہوا اور کبھی مسلمان غالب آئے اور کبھی مشرکین لیکن آخر میں مشرکین کا لشکر لڑائی ترک کر کے مکہ واپس چلا گیا۔
محمد علی جناح پیدائشی نام، محمد علی جناح بھائی، 25 دسمبر 1876ء – 11 ستمبر 1948ء) کے نامور وکیل، سیاست دان اور بانی پاکستان تھے۔ محمد علی جناح 1913ء سے لے کر پاکستان کی آزادی 14 اگست 1947ء تک آل انڈیا مسلم لیگ کے سربراہ رہے، پھر قیام پاکستان کے بعد اپنی وفات تک، وہ ملک کے پہلے گورنر جنرل رہے۔ سرکاری طور پر پاکستان میں آپ کو قائدِ اعظم یعنی سب سے عظیم رہبر اور بابائے قوم یعنی قوم کا باپ بھی کہا جاتا ہے۔ جناح کا یومِ پیدائش پاکستان میں قومی تعطیل کے طور پر منایا جاتا ہے۔
بدر کی جنگ (عربی: غَزْوَةُ بَدْرٍ، اردو میں: غزوۂ بدر)، جسے قرآن اور مسلمانوں کی جانب سے یوم فرقان (عربی: يَوْمُ الْفُرْقَانْ) بھی کہا جاتا ہے، 13 مارچ 624ء (17 رمضان 2 ہجری) کو موجودہ سعودی عرب کے صوبہ مدینہ میں واقع بدر کے قریب لڑی گئی تھی۔ اس جنگ میں حضرت محمد نے اپنے صحابہ کی قیادت کرتے ہوئے قریش کی فوج کو شکست دی، جس کی قیادت عمرو بن ہشام کر رہا تھا، جو مسلمانوں میں ابو جہل کے نام سے مشہور تھا۔ یہ جنگ حضرت محمد اور ان کی قبیلہ قریش کے درمیان چھ سالہ جنگ کا نقطہ آغاز بنی۔ اس سے قبل، 623ء کے آخر اور 624ء کے آغاز میں مسلمانوں اور مکہ کے مشرکین کے درمیان چند چھوٹی جھڑپیں ہو چکی تھیں۔
ابو الحسن علی بن ابی طالب ہاشمی قُرشی (15 ستمبر 601ء – 29 جنوری 661ء) خلافت راشدہ کے چوتھے خلیفہ تھے جنھوں نے 656ء سے 661ء تک حکومت کی۔ ابو الحسن عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے بعد اسلام کے خلیفہ بنے، لیکن انھیں شیعہ اثناعشریہ و زیدیہ مسلمانوں کے ہاں خلیفہ بلا فصل، پہلا امام معصوم اور وصی رسول اللہ سمجھا جاتا ہے۔ وہ پیغمبر اسلام محمد کے چچا زاد اور داماد تھے۔ ام المومنین خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے بعد دوسرے شخص تھے جو اسلام لائے۔ اور ان سے قبل ایک خاتون کے علاوہ کوئی مردو زن مسلمان نہیں ہوا۔ یوں سابقین اسلام میں شامل اور عشرہ مبشرہ، بیعت رضوان، اصحاب بدر و احد، میں سے بھی تھے بلکہ تمام جنگوں میں ان کا کردار سب سے نمایاں تھا اور فاتح خیبر تھے، ان کی ساری ابتدائی زندگی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ساتھ گذری۔ وہ تنہا صحابی ہیں جنھوں نے کسی جنگ میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تنہا نہیں چھوڑا ان کی فضیلت میں صحاح ستہ میں درجنوں احادیث ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انھیں دنیا اور آخرت میں اپنا بھائی قرار دیا اور دیگر صحابہ کے ساتھ ان کو بھی جنت اور شہادت کی موت کی خوش خبری دی۔
ہجرت مدینہ پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ان کے صحابہ کی طرف سے مکہ مکرمہ سے یثرب (جسے اس ہجرت کے بعد مدینۃ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نام دیا گیا) منتقل ہوجانے کے عمل کو کہتے ہیں جو 12ربیع الاول 13نبوی (جو بعد میں پہلا ہجری سال کہلایا)، بمطابق 24 ستمبر 622ء عیسوی بروز جمعہ کو ہوئی، بعد میں اسی دن کی نسبت سے ہجری تقویم کا آغاز ہوا۔ مسلمانوں نے قمری ہجری تقویم اور شمسی ہجری تقویم دونوں کا آغاز اسی واقعہ کی بنیاد پر کیا۔
جنگ آزادی ہند 1857ء جو ہندوستانیوں کی انگریز کے خلاف پہلی آزادی کی مسلح جنگ تھی اسے انگریزوں نے "جنگ غدر" کا نام دیا۔ عموماً اس کے دو سبب بیان کیے جاتے ہیں۔ اولاً یہ کہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان کے تمام صوبے اور کئی ریاستیں یکے بعد دیگرے اپنی حکومت میں شامل کر لی تھیں۔ جس کی وجہ سے ہندوستانیوں کے دل میں کمپنی کے متعلق شکوک پیدا ہو گئے۔ دوم یہ کہ ان دنوں جو کارتوس فوجیوں کو دیے جاتے تھے۔ وہ عام خیال کے مطابق سور اور گائے کی چربی سے آلودہ تھے اور انھیں بندوقوں میں ڈالنے سے بیشتر دانتوں سے کاٹنا پڑتا تھا۔ ہندو اور مسلمان فوجی سپاہیوں نے اسے مذہب کے منافی سمجھا اور ان میں کھلبلی مچ گئی۔ جن سپاہیوں نے ان کارتوسوں کو استعمال کرنے سے انکار کر دیا ان کی فوجی وردیاں اتار کر انھیں بیڑیاں پہنا دی گئیں۔ ان قیدیوں میں بہت سے ایسے تھے جنھوں نے انگریزوں کی خاطر بڑی بڑی قربانیاں دی تھیں۔
بیگم حضرت محل کا نام زبان پر آتے ہی جنگ آزادی کا تصور ذہن میں ابھر آتا ہے۔ حضرت محل کا نام ہندوستان کی جنگ آزادی میں پہلی سرگرم عمل خاتون رہنما کے نام سے مشہور ہے۔ 1857–1858 کی جنگ آزادی میں صوبہ اودھ سے حضرت محل کی نا قابل فراموش جد و جہد تاریخ کے صفحات میں سنہرے الفاظ میں درج ہے۔ حضرت محل نے صنف نازک ہوتے ہوئے بھی بر طانوی سامراج و ایسٹ انڈیا کمپنی سے لوہا لیا۔ برطانوی حکومت کی ”تقسیم کرو اور حکومت کرو“ کی پالیسی کی مخالفت کرتے ہوئے انھوں نے ہندوﺅں اور مسلمانوں میں اتحاد پیدا کر کے تحریک جنگ آزادی ہند 1857ء کو ایک نیا رخ دیا۔ بیگم حضرت محل پہلی ایسی قائد تھیں جنھوں نے برطانوی حکومت کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے اور 20 برس جلا وطنی اور اپنی موت 1879 تک لگاتار برطانوی حکومت کی مخالفت کی۔ حالانکہ حضرت محل کے متعلق مورخین کو بھی زیادہ پختہ جانکاری نہیں ہے۔ شاید وہ فیض آباد کے ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتی تھیں کچھ انگریزی مصنفین کے مطابق ان کا نام افتخار النساء تھا۔ نام سے لگتا ہے کہ ان کے آبا و اجداد ایران سے یہاں آکر اودھ میں بس گئے تھے۔ ان کی تعلیم ایک رقاصہ کی شکل میں ہوئی جس کا مقصد واجد علی شاہ کو متاثر کرنا تھا۔ نواب صاحب نے ان کو اپنے حرم میں جگہ دی۔ پی-جے-او-ٹیلر کے مطابق جب افتخار النساء کے یہاں ایک بیٹے کی ولادت ہوئی تو ان کا رتبہ بڑھا اور انھیں نواب صاحب نے اپنی ازواج میں شامل کرکے حضرت محل کا لقب دیا اور انھیں شاہی خاندان میں ملکہ کا درجہ دیا۔ اپنے بیٹے برجیس قدر کی پیدائش کے بعد حضرت محل کی شخصیت میں بہت بدلاﺅ آیا اور ان کی تنظیمیں صلاحیتوں کو جلا ملی۔ 1856ءمیں برطانوی حکومت نے نواب واجد علی شاہ کو جلا وطن کر کے کلکتہ بھیج دیا۔ تب حضرت محل نے اودھ کی باگ ڈور سنبھال لی اور بیگم حضرت محل ایک نئے وجود میں سب کے سامنے آتی ہیں۔ ان کا یہ رخ اپنے وطن کے لیے تھا۔ جس کا مقصد تھا اپنے ملک سے انگریزوں کو باہر پھینکنا یہ مشعل لو، سبھی کے دل میں جل رہی تھی۔ لیکن اسے بھڑکانے اور جنون میں بدلنے میں بیگم حضرت محل نے ایک خاص کردارادا کیا۔ انھوں نے یہ ثابت کیا کہ عورت صرف گھر کی چہار دیواری کا نظام ہی خوبی سے نہیں سنبھالتی بلکہ وقت پڑنے پر وہ اپنے جوہر دکھا کر دشمنوں کو کھدیڑنے کا حوصلہ بھی رکھتی ہے۔ ہندوستان کی پہلی جنگ آزادی کے دوران میں انھوں نے اپنے حامیوں جن کے دلوں میں اپنے ملک سے انگریزوں کے ناپاک قدموں کو دور کرنے کا جذبہ تھا۔ انگریزی حکومت کے خلاف منظم کیا اور جب ان سے اودھ کا نظام چھین لیا گیا تو انھوں نے اپنے بیٹے برجیس قدر کو ولی عہد بنا دیا۔ جنگ آزادی میں وہ دوسرے مجاہدین آزادی کے ساتھ مل کر چلنے کی حامی تھیں جس میں نانا صاحب بھی شامل تھے۔ جب برطانوی فوج نے لکھنؤ پر دوبارہ قبضہ کر لیا اور ان کے سارے حقوق چھین لیے تو انھوں نے برٹش حکومت کی طرف سے دی گئی کسی بھی طرح کی عنایت کو ٹھکرادیا۔ اس سے بیگم حضرت محل کی خود داری کا پتہ چلتا ہے۔ وہ صرف ایک بہترین پالیسی ساز ہی نہیں تھیں۔ بلکہ جنگ کے میدان میں بھی انھوں نے جوہر دکھائے۔ جب ان کی فوج ہار گئی تو انھوں نے دوسرے مقامات پر فوج کو منظم کیا۔ بیگم حضرت محل کا اپنے ملک کے لیے خدمت کرنا بے شک کوئی نیا کارنامہ نہیں تھا۔ لیکن ایک عورت ہو کر انھوں نے جس خوبی سے انگریزوں سے ٹکرلی وہ معنی رکھتا ہے۔ 1857 کی بغاوت کی چنگاریاں تو ملک کے کونے کونے میں پھوٹ رہی تھیں۔ ملک کے ہر کونے میں اس کی تپش محسوس کی جا رہی تھی اسی چنگاری کو آگ میں تبدیل کرنے کا سہرا بیگم حضرت محل کے سر جاتا ہے۔ اترپردیش کے اودھ علاقہ میں بھی آزادی کی للک تھی۔ جگہ جگہ بغاوتیں شروع ہو گئی تھیں۔ بیگم حضرت محل نے لکھنؤ کے مختلف علاقوں میں گھوم گھوم کر لگاتار انقلابیوں اور اپنی فوج کی حوصلہ افزائی کرنے میں دن رات ایک کر دیا۔ ایک عورت کا یہ حوصلہ اور ہمت دیکھ کر فوج اور باغیوں کا حوصلہ جوش سے دگنا ہو جاتا۔ انھوں نے آس پاس کے جاگیر داروں کو بھی ساتھ ملا کر انگریزوں سے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ بیگم حضرت محل کا کردار جنگ آزادی کی اس پہلی جنگ میں نا قابل فرامو ش ہے۔ آج جب بھی 1857 کی بغاوت کا ذکر آتا ہے تو بیگم حضرت محل کا نام خود بخود زباں پر آجاتا ہے۔ انگریزوں کی مکاری اور چالاکی کو حضرت محل بہت اچھی طرح سمجھ چکی تھیں۔ وہ ایک دور اندیش خاتون تھیں۔ انگریزوں سے لوہا لینے کے لیے انھوں نے اپنی صلاحیتوں کا بھر پور استعمال کیا۔ انتظامی حکومتی فیصلوں میں بیگم حضرت محل کی صلاحیت خوب کام آئی۔ بیگم حضرت محل کے فیصلوں کو قبول کیا گیا۔ بڑے بڑے عہدوں پر قابل عہد یدار مقرر کیے گئے۔ محدود وسائل اور مشکل حالات کے باوجود بیگم حضرت محل لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتی رہیں۔ بیگم حضرت محل نے خواتین کی ایک فوج تیار کی اور کچھ ماہرخواتین کو جاسوسی کے کام پر بھی لگایا۔ فوجی خواتین نے محل کی حفاظت کے لیے اپنی جان کی بھی پروا نہیں کی۔ انگریزی فوج لگاتار ریزی ڈینسی سے اپنے ساتھیوں کو آزاد کرانے کے لیے کوشش کرر ہی تھی۔ لیکن بھاری مخالفت کی وجہ سے انگریزوں کو لکھنؤ فوج بھیجنا مشکل ہو گیا تھا۔ ادھر ریزی ڈینسی پر ناموں کے ذریعہ لگاتار حملے کیے جا رہے تھے۔ بیگم حضرت محل لکھنؤ کے مختلف علاقوں میں تنہا فوجیوں کا حوصلہ بڑھا رہی تھیں۔ لیکن ہونی کو کون ٹال سکتا تھا۔ دہلی پر انگریزوں کا قبضہ ہو چکا تھا۔ مغل شاہ بہادر شاہ ظفرکے نظر بند ہوتے ہی انقلابیوں کے حوصلے کمزور پڑنے لگے۔ لکھنؤ بھی دھیرے دھیرے انگریزوں کے قبضہ میں آنے لگا تھا۔ ہینری ہیولاک اور جیمز آوٹ رام کی فوجیں لکھنؤ پہنچ گئیں۔ بیگم حضرت محل نے قیصر باغ کے دروازے پر تالے لٹکوا دیے۔ انگریزی فوج بہت تیزی سے آگے بڑھ رہی تھی۔ بیگم نے اپنے فوجیوں میں جوش بھرتے ہوئے کہا،
نکاح متعہ (عربی : نكاح المتعة ) جسے عرف عام میں متعہ یا صیغہ کہا جاتا ہے؛ ولی (شہادت) کی موجودگی یا غیر موجودگی میں ہونے والا ایک ایسا نکاح ہے جس کی مدت (ایک روز، چند روز، ماہ، سال یا کئی سال) معین ہوتی ہے جو فریقین خود طے کرتے ہیں اور اس مدت کے اختتام پر خود بخود علیحدگی ہو جاتی ہے یا اگر مرد باقی ماندہ مدت بخش دے تب بھی عورت نکاح سے آزاد ہو جاتی ہے مگر ہر صورت میں عدت اپنی شرائط کے ساتھ پوری کرنی پڑتی ہے ؛ اور اولاد انھیں والدین سے منسوب ہو تی ہے؛ اگر فریقین چاہیں تو مدتِ اختتامِ متعہ پر علیحدگی کی بجائے اسے جاری (یا مستقل) بھی کر سکتے ہیں۔ یہ نکاح ابتدا سے اسلام میں متعدد بار جائز ہوا اور اس سے روکا گیا پھر جائز ہوا۔ تاریخی اعتبار سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات سے چند سال قبل تک اس کی موجودگی پر سنی بھی اور شیعہ بھی دونوں اتفاق کرتے ہیں۔ یعنی اس کا اصل میں حلال ہونا مسلم اور مورد اتفاق ہے مگر اکثر شیعہ اور سنی نیز دیگر فرقے اس کے حلیت باقی رہنے یا حرام ہوجانے کے بارے میں مختلف نظریات رکھتے ہیں۔
میر تقی میر (پیدائش: 28 مئی 1723ء— وفات: 22 ستمبر 1810ء) اصل نام میر محمد تقى اردو كے عظیم شاعر تھے۔ میر ان کا تخلص تھا۔ اردو شاعرى ميں مير تقى مير كا مقام بہت اونچا ہے ـ انھیں ناقدین و شعرائے متاخرین نے خدائے سخن کے خطاب سے نوازا۔ وہ اپنے زمانے كے ايك منفرد شاعر تھےـ۔ آپ كے متعلق اردو كے عظیم الشان شاعرمرزا غالب نے لکھا ہے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مختلف روایات میں اکثر گیارہ سے تیرہ ازواج کے نام ملتے ہیں۔ جنہیں امہات المؤمنین کہا جاتا ہے یعنی مؤمنین کی مائیں۔ اس کے علاوہ انھیں ازواج مطہرات بھی کہا جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ازواج میں حضرت عائشہ کے علاوہ تمام بیوہ و مطلقہ (طلاق شدہ) تھیں اور زیادہ شادیوں کا عرب میں عام رواج تھا۔
شوال۔ ذی القعدہ 5ھ (مارچ 627ء) میں مشرکینِ مکہ نے مسلمانوں سے جنگ کی ٹھانی۔ ابوسفیان نے قریش اور دیگر قبائل حتیٰ کہ یہودیوں سے بھی لوگوں کو جنگ پر راضی کیا اور اس سلسلے میں کئی معاہدے کیے اور ایک بہت بڑی فوج اکٹھی کر لی مگر مسلمانوں نے سلمان فارسی کے مشورہ سے مدینہ کے ارد گرد ایک خندق کھود لی۔ مشرکینِ مکہ ان کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ خندق کھودنے کی عرب میں یہ پہلی مثال تھی کیونکہ اصل میں یہ ایرانیوں کا طریقہ تھا۔ ایک ماہ کے محاصرے اور اپنے بے شمار افراد کے قتل کے بعد مشرکین مایوس ہو کر واپس چلے گئے۔ اسے غزوہ خندق یا جنگِ احزاب کہا جاتا ہے۔ احزاب کا نام اس لیے دیا جاتا ہے کہ اصل میں یہ کئی قبائل کا مجموعہ تھی۔ جیسے آج کل امریکا، برطانیہ وغیرہ کی اتحادی افواج کہلاتی ہیں۔ اس جنگ کا ذکر قرآن میں سورۃ الاحزاب میں ہے۔
ابراہیم علیہ السلام وہ پہلے پیغمبر تھے جن کو اللہ نے مُسلمان نبی پیغمبر ابو الانبیاء، خلیل اللہ امام الناس اور حنیف کہہ کر پُکارا۔ اللہ تعالی نے اپنے اس دوست برگزیدہ اور پیارے نبی کو قرآن مجید میں امتہ (النحل : 120) امام الناس (البقرہ: 124) حنیف اور مسلم (آل عمران: 67) کے ناموں سے بار بار بار کیا ہے۔ اکثر انبیائے کرام انہی کی اولاد سے ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام کے نام کی وجہ تسمیہ کے بارے میں بائبل کا بیان ہے کہ خدا تعالی ان سے مخاطب ہو کر کہتا ہے۔ دیکھ میرا عہد تیرے ساتھ ہے اور تو بہت قوموں کا باپ ہو گا۔ اور تیرا نام ابرام نہیں بلکہ ابراہام ہو گا۔ کیونکہ میں نے تجھے قوموں کا باپ بنایا ہے۔ (پیدائش 170:5) اکثر ماہرین کے نزدیک ابراہام یا ابراہیم ؑ بھی لفظ ہے۔ ہو سکتا ہے کہ پہلے آپ کا نام ابراہم ہو اور پھر ابراہام یا ابو رہام ہو گیا ہو۔مُسلمان اُن کو خلیل اللہ (اللہ کا دوست) کہتے ہیں۔ ابراہیم کی نسل سے کئی پیغمبر پیدا ہوئے، جن کا تذکرہ عہدنامہ قدیم میں ہے۔ اسلام کی کتاب قرآن مجید میں بھی بہت سارے ایسے انبیا کا ذکر ہے جو ابراہیم کی نسل میں سے تھے۔ اسلام کے آخری نبی مُحمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی ابراہیم کی نسل میں سے ہیں۔ شرک، ستارہ پرستی اور بت سازی کے خلاف اپنی قوم اور اوروں کے ساتھ ان کا مجادلہ و محاجہ بڑے زور سے پیش کیا گیا ہے۔ ابراہیم کا بچپن میں ہی رشد عطا کیا گیا اور قلب سلیم بھی عنایت فرمایا گیا۔ تکوینی عجائبات اور ملکوت السمٰوت والارض ان کے سامنے تھے۔ انھیں کے مشاہدے سے اُن کو یقین کامل حاصل ہوا۔ بت پرستی کے خلاف ابراہیم کے جہاد کا ذکر بھی قران کریم میں کئی بار آیا ہے۔قرآن حکیم میں حضرت ابراہیم ؑ اور آذر کے اختلاف عقائد کو جس طرح نمایاں کیا گیا ہے اور جس طرح آپ اپنی قوم کے شرک سے متنفر اور متصادم ہوئے۔ اس سے ہم آپ کی عظمت و جلالت کی حقیقت کو بھی پاسکتے ہیں۔ اور اپنے لیے شمع ہدایت بھی روشن کر سکتے ہیں۔ اس وجہ سے مسلمانوں کو ملت براہیمی ہونے پر فخر ہے۔ ان کے بارے میں یہ توکہیں وضاحت نہیں ہوئی کہ کیا وحی ان پر نازل ہوئی تھی یا ان کی بعثت محض روحانی تھی؟ البتہ قرآن مجید میں ایک جگہ اس امر کی تصدیق ہوئی ہے کہ اللہ تعالی آپ سے ہمکلام تھا۔ اہل تاریخ کے نزدیک متعدد صحیفے تھے جو ابراہیم پر نازل ہوئے۔ ایک صحیفہ جو ان کی طرف سے منسوب ہے یونانی سے انگریزی میں ترجمہ ہو کر شائع ہو چکا ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ کے دین کے بارے میں قرآن مجید میں کئی جگہ پر ارشار ہوتا ہے کہ آپ موحد مسلم اورراست رو تھے۔ ارشاد ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے: ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ”پھر ہم نے تیری طرف (حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی طرف) وحی کی کہ ابراہیم ؑ راست رو (مسلم) کے دین پر چل اور وہ مشرکوں میں سے نہیں تھا “ اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے: يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تُحَآجُّونَ فِي إِبْرَاهِيمَ وَمَا أُنزِلَتِ التَّورَاةُ وَالإنجِيلُ إِلاَّ مِن بَعْدِهِ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ هَاأَنتُمْ هَؤُلاء حَاجَجْتُمْ فِيمَا لَكُم بِهِ عِلمٌ فَلِمَ تُحَآجُّونَ فِيمَا لَيْسَ لَكُم بِهِ عِلْمٌ وَاللّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ مَا كَانَ إِبْرَاهِيمُ يَهُودِيًّا وَلاَ نَصْرَانِيًّا وَلَكِن كَانَ حَنِيفًا مُّسْلِمًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْرَاهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ وَهَـذَا النَّبِيُّ وَالَّذِينَ آمَنُواْ وَاللّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ ”اے اہل کتاب! تم ابراہیم ؑ کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو۔ حالانکہ توریت اور انجیل اس کے بعد ہی اتاری گئیں۔ پھر کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے۔ سنو! تم وہ ہو جو اس میں جھگڑ چکے، جس کا تمھیں علم تھا پھر اس میں کیوں جھگڑتے ہو جس کا میں علم نہیں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ ابراہیم ؑ نہ یہودی تھا اور نہ عیسائی، لیکن وہ راست رو اور فرماں بردار (مسلم اور حنیف) تھا اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھا۔ يقينا ابراہیم ؑ کے بہت نزدیک وہ لوگ ہیں جنھوں نے اس کی پیروی کی اور یہ نبی اور وہ جو اس پہ ایمان لائے اورالله مومنوں کا ولی ہے۔ قرآن مجید کی تقریباً بائیس سورتوں میں حضرت ابراہیم ؑ کا ذکر آتا ہے۔ آپ مسلمانوں کے رسول مقبول حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے جد امجد ہیں۔ گویا مسلمان نہ صرف امت محمدیہ سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ امت براہیمیہ سے بھی متعلق ہیں۔ مسلمان حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ حضرت ابراہیم ؑ اور ان کی اولاد پر بھی درود بھیجتے ہیں- Book Name: Sahih Muslim, Hadees # 6138 حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، وَابْنُ فُضَيْلٍ، عَنِ الْمُخْتَارِ، ح وحَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ السَّعْدِيُّ - وَاللَّفْظُ لَهُ -، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، أَخْبَرَنَا الْمُخْتَارُ بْنُ فُلْفُلٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا خَيْرَ الْبَرِيَّةِ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «ذَاكَ إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلَامُ» علی بن مسہر اور ابن فضیل نے مختار بن فلفل سے روایت کی ، انھوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور کہا : يا خَيرَ البرِيّۃِ اے مخلوقات میں سے بہترین انسان !
موسیٰ علیہ السلام اللہ کے برگزیدہ پیغمبروں میں سے ایک ہیں۔ آپ کے بھائی ہارون علیہ السلام بھی اللہ کے برگزیدہ نبیوں میں سے ایک ہیں۔یہ 1520 قبلِ مسیح کی بات ہے۔ مِصر پر فرعون بادشاہ’’مرنفتاح ثانی‘‘ کی حکومت تھی۔بعض نے اُس کا نام’’ منفتاح‘‘ بھی لکھا ہے اور وہ والد، رعمسیس کے بڑھاپے کی وجہ سے عملاً حکم ران بنا ہوا تھا۔ خدائی کا دعوے دار یہ بادشاہ بڑا ظالم و جابر تھا۔ اُس نے’’ بنی اسرائیل‘‘ کو اپنا غلام بنا رکھا تھا، حالاں کہ وہ حضرت یوسف کے زمانے سے وہاں رہائش پزیر تھے۔ حضرت یوسفؑ نے اپنے والد، حضرت یعقوبؑ اور اپنے بھائیوں کے لیے ایک قطعۂ زمین اُس وقت کے فرعون بادشاہ ’’ریان بن ولید‘‘ سے حاصل کیا تھا۔ حضرت یعقوبؑ کی یہی نسل’’بنی اسرائیل‘‘ کہلائی، جو مِصر میں خُوب پَھلی پُھولی۔ یہ لوگ حضرت یعقوبؑ کے دین کے پیروکار تھے، چناں چہ اُس وقت اللہ کے نزدیک یہ سب سے بہتر جماعت تھی۔ انھوں نے فرعون کو سجدہ کرنے اور اُسے اپنا ربّ ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ اسی وجہ سے بادشاہ اور اُس کے حواری ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھاتے اور اُن سے گھٹیا کام کرواتے۔ یاد رہے، فرعون کسی خاص شخص کا نام نہیں، بلکہ مِصر کے بادشاہوں کا لقب تھا۔ تاریخی حقائق کے مطابق، 31فراعنہ خاندانوں نے مِصر پر یکے بعد دیگرے حکومت کی۔ سب سے آخری خاندان نے 332قبلِ مسیح میں سکندرِ اعظم کے ہاتھوں شکست کھائی۔
سلطنت عثمانیہ (یا خلافت عثمانیہ 1517ء سے 1924ء تک) (عثمانی ترکی زبان: "دولت عالیہ عثمانیہ"، ترکی زبان: Osmanlı Devleti) سنہ 1299ء سے 1922ء تک قائم رہنے والی ایک مسلم سلطنت تھی جس کے حکمران ترک تھے۔ اپنے عروج کے زمانے میں (16 ویں – 17 ویں صدی) یہ سلطنت تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی اور جنوب مشرقی یورپ، مشرق وسطٰی اور شمالی افریقہ کا بیشتر حصہ اس کے زیر نگیں تھا۔ اس عظیم سلطنت کی سرحدیں مغرب میں آبنائے جبرالٹر، مشرق میں بحیرۂ قزوین اور خلیج فارس اور شمال میں آسٹریا کی سرحدوں، سلوواکیہ اور کریمیا (موجودہ یوکرین) سے جنوب میں سوڈان، صومالیہ اور یمن تک پھیلی ہوئی تھی۔ مالدووا، ٹرانسلوانیا اور ولاچیا کے باجگذار علاقوں کے علاوہ اس کے 29 صوبے تھے۔
پاکستان کے ساتھ سعودی عرب کے شروع سے خصوصی تعلقات قائم ہیں۔ پاکستان اور سعودی عرب میں دوستی کا پہلا معاہدہ شاہ ابن سعود کے زمانے میں 1951ء میں ہوا تھا۔ شاہ فیصل کے دور میں ان تعلقات کو بہت فروغ ملا۔ سعودی عرب ان چند ممالک میں ہے جنھوں نے سرکاری سطح پر مسئلہ کشمیر میں پاکستان کے موقف کی کھل کر تائید کی۔ ستمبر1965ء کی پاک بھارت جنگ میں سعودی عرب نے پاکستان کی بڑے پیمانے پر مدد کی۔ اپریل 1966ء میں شاہ فیصل نے پہلی مرتبہ پاکستان کا دورہ کیا اور اس موقع پر اسلام آباد کی مرکزی جامع مسجد کے سارے اخراجات خود اٹھانے کا اعلان کیا۔ یہ مسجد آج شاہ فیصل مسجد کے نام سے دنیا بھر میں جانی جاتی ہے۔ 1967ء میں سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان میں فوجی تعاون کا معاہدہ ہوا جس کے تحت سعودی عرب کی بری، بحری اور فضائی افواج کی تربیت کا کام پاکستان کو سونپ دیا گیا۔ اپریل 1968ء میں سعودی عرب سے تمام برطانوی ہوا بازوں اور فنی ماہرین کو رخصت کر دیا گیا اور ان کی جگہ پاکستانی ماہرین کی خدمات حاصل کی گئیں۔ شاہ فیصل کے دور حکومت میں سعودی عرب نے 1973ء کے سیلاب مین مالی امداد فراہم کی اور دسمبر 1975ء میں سوات کے زلزلہ زدگان کی تعمیر و ترقی کے لیے بھی ایک کروڑ ڈالر کا عطیہ دیا۔ 1971ء میں مشرقی پاکستان کی پاکستان سے علیحدگی پر شاہ فیصل کو بہت رنج ہوا اور انھوں نے پاکستان کی جانب سے تسلیم کرنے کے بعد بھی بنگلہ دیش کو تسلیم نہ کیا۔
سیدہ عائشہ بنت ابی بکر (رضی اللہ عنہا) (پیدائش: 614ء– وفات: 13 جولائی 678ء) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زوجہ تھیں۔ آپ کو اُم المومنین کے خطاب سے یاد کیا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد عہد خلفائے راشدین میں آپ کی شخصیت بہت نمایاں نظر آتی ہے۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد 47 سال بقید حیات رہیں اور یہ تمام وہ عرصہ ہے جس میں ابتدائی مسلم فتوحات ہوئیں، مختلف ممالک مملکت اسلامیہ میں داخل ہوئے۔ علم الحدیث میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایات کے بعد سب سے زیادہ روایاتِ حدیث کا ذخیرہ آپ سے ہی روایت کیا گیا ہے۔ آپ عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور عہد خلفائے راشدین کی عینی شاہد بھی تھیں اور مزید برآں آپ نے خلافت امویہ کے ابتدائی 17 سال بھی ملاحظہ فرمائے۔ آپ کا انتقال مدینہ منورہ میں سنہ 678 ء میں ہوا۔ آپ کے مناقب و فضائل کثیر ہیں جس سے آپ کی عظمت و شان جلالت مسلم خواتین پر نمایاں ہے۔ جنگ جمل کے حوالے سے یہ بات معلوم ہونا بھی مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ کچھ احادیث اور تاریخی کتابوں کے واقعات میں راویوں پر علما اسلام کی طرف سے جرح بھی کی گئی ہے اور بہت سے راویوں کے حالات معلوم نہیں ہیں۔ مسلمان امت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اہل بیت اطھار کے بارے میں صحیح عقائد قرآن وسنت اور مستند و صحیح احادیث نبوی سے لیتے ہیں۔ بعض روایات جو کتب احادیث و تاریخ میں اہل بدعت راویوں کی بھی ہیں وہ اس لیے قابل اعتبار نہیں کیونکہ علمائے اسلام نے بدعت سے نسبت رکھنے والی روایات کو مردود قرار دیا ہے۔ آپ کو عائشہ صدیقہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
مثنوی کا لفظ، عربی کے لفظ ”مثنیٰ “ سے بنا ہے اور مثنیٰ کے معنی دو کے ہیں۔ اصطلاح میں ہیت کے لحاظ سے ایسی صنفِ سخن اور مسلسل نظم کو کہتے ہیں جس کے شعر میں دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوں اور ہر دوسرے شعر میں قافیہ بدل جائے، لیکن ساری مثنوی ایک ہی بحر میں ہو۔ مثنوی میں عموماً لمبے لمبے قصے بیان کیے جاتے ہیں نثر میں جو کام ایک ناول سے لیا جاتا ہے، شاعری میں وہی کام مثنوی سے لیا جاتا ہے، یعنی دونوں ہی میں کہانی بیان کرتے ہیں۔ مثنوی ایک وسیع صنفِ سخن ہے اور تاریخی، اخلاقی اور مذہبی موضوعات پر کئی ایک خوبصورت مثنویاں کہی گئی ہیں۔ مثنوی عموماً چھوٹی بحروں میں کہی جاتی ہے اور اس کے لیے چند بحریں مخصوص بھی ہیں اور شعرا عموماً اس کی پاسداری کرتے ہیں لیکن مثنوی میں شعروں کی تعداد پر کوئی پابندی نہیں ہے، کچھ مثنویاں تو کئی کئی ہزار اشعار پر مشتمل ہیں۔
سعودی عرب (رسمی نام : المملكة سعودیہ العربیہ) مغربی ایشیا کا ایک ملک ہے۔ یہ جزیرہ نما عرب کے بڑے حصے پر محیط ہے، جو اسے ایشیا کا پانچواں سب سے بڑا، عرب دنیا کا دوسرا سب سے بڑا اور مغربی ایشیا اور مشرق وسطی کا سب سے بڑا ملک بناتا ہے۔ اس کی سرحد مغرب میں بحیرہ احمر سے ملتی ہے۔ شمال میں اردن، عراق اور کویت؛ مشرق میں خلیج فارس، قطر اور متحدہ عرب امارات؛ جنوب مشرق میں عمان؛ اور جنوب میں یمن۔ بحرین مشرقی ساحل سے دور ایک جزیرہ نما ملک ہے۔ شمال مغرب میں خلیج عقبہ سعودی عرب کو مصر اور اسرائیل سے الگ کرتی ہے۔ سعودی عرب واحد ملک ہے جس کے پاس بحیرہ احمر اور خلیج فارس دونوں کے ساتھ ساحل ہے اور اس کا زیادہ تر علاقہ خشک صحرا، نشیبی، میدان اور پہاڑوں پر مشتمل ہے۔ اس کا دار الحکومت اور سب سے بڑا شہر ریاض ہے۔ یہ ملک مکہ اور مدینہ کا گھر ہے، جو اسلام کے دو مقدس ترین شہر ہیں۔
الناصر صلاح الدین یوسف بن ایوب (عربی: الناصر صلاح الدين يوسف بن أيوب; کرد: سەلاحەدینی ئەییووبی) جنھیں عام طور پر صلاح الدین ایوبی کے نام سے جانا جاتا ہے ایوبی سلطنت کے بانی تھے۔ وہ نہ صرف تاریخ اسلام بلکہ تاریخ عالم کے مشہور ترین فاتحین و حکمرانوں میں سے ایک ہیں۔ وہ 1138ء میں موجودہ عراق کے شہر تکریت میں پیدا ہوئے۔ ان کی زیر قیادت ایوبی سلطنت نے مصر، شام، یمن، عراق، حجاز اور دیار بکر پر حکومت کی۔ صلاح الدین ایوبی کو بہادری، فیاضی، حسن و خلق، سخاوت اور بردباری کے باعث نہ صرف مسلمان بلکہ مسیحی بھی عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ صلاح الدین ایوبی اپنے کارناموں میں نور الدین زنگی پر بھی بازی لے گئے۔ ان میں جہاد کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا اور بیت المقدس کی فتح ان کی سب سے بڑی خواہش تھی۔ صلاح الدین کو فاتح بیت المقدس کہا جاتا ہے جنھوں نے 1187ء میں یورپ کی متحدہ افواج کو عبرتناک شکست دے کر بیت المقدس ان سے آزاد کروا لیا تھا۔ صلاح الدین ایوبی 1193ء میں دمشق میں انتقال کر گئے، انھوں نے اپنی ذاتی دولت کا زیادہ تر حصہ اپنی رعایا کو دے دیا۔ وہ مسجد بنو امیہ سے متصل مقبرے میں مدفون ہیں۔ مسلم ثقافت کے لیے اپنی اہمیت کے ساتھ ساتھ، صلاح الدین کا کرد، ترک اور عرب ثقافت میں نمایاں طور پر احترام کیا جاتا ہے۔ انھیں اکثر تاریخ کی سب سے مشہور کرد شخصیت کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔
قرآن کریم، قرآن مجید یا قرآن شریف (عربی: القرآن الكريم) دین اسلام کی مقدس و مرکزی کتاب ہے جس کے متعلق ہم اسلام کے پیروکاروں کا اعتقاد ہے کہ یہ کلام الہی ہے اور اسی بنا پر یہ انتہائی محترم و قابل عظمت کتاب ہے۔ اسے ہمارے پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی کے ذریعے اتارا گیا۔ یہ وحی اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتے حضرت جبرائیل علیہ السلام لاتے تھے جیسے جیسے قرآن مجید کی آیات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوتیں آپ صلی علیہ وآلہ وسلم اسے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو سناتے اور ان آیات کے مطالب و معانی سمجھا دیتے۔ کچھ صحابہ کرام تو ان آیات کو وہیں یاد کر لیتے اور کچھ لکھ کر محفوظ کر لیتے۔ ہم مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن ہر قسم کی تاریف بیان کرتا ہے پاک ہے محفوظ ہے ، قرآن میں آج تک کوئی کمی بیشی نہیں ہو سکی اور اسے دنیا کی واحد محفوظ افضل کتاب ہونے کی حیثیت حاصل ہے، جس کا حقیقی مفہوم تبدیل نہیں ہو سکا اور تمام دنیا میں کروڑوں کی تعداد میں چھپنے کے باوجود اس کا متن ایک جیسا ہے اور اس کی تلاوت عبادت ہے۔ اور صحف ابراہیم، زبور اور تورات و انجیل کے بعد آسمانی کتابوں میں یہ سب سے آخری اور افضل کتاب ہے اور سابقہ آسمانی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اب اس کے بعد کوئی آسمانی کتاب نازل نہیں ہوگی۔ قرآن کی فصاحت و بلاغت کے پیش نظر اسے لغوی و مذہبی لحاظ سے تمام عربی کتابوں میں اعلیٰ ترین مقام حاصل ہے۔ نیز عربی زبان و ادب اور اس کے نحوی و صرفی قواعد کی وحدت و ارتقا میں بھی قرآن کا خاصا اہم کردار دکھائی دیتا ہے۔ چنانچہ قرآن کے وضع کردہ عربی زبان کے قواعد بلند پایہ عرب محققین اور علمائے لغت مثلاً سیبویہ، ابو الاسود الدؤلی اور خلیل بن احمد فراہیدی وغیرہ کے یہاں بنیادی ماخذ سمجھے گئے ہیں۔
فتح مکہ (جسے فتح عظیم بھی کہا جاتا ہے) عہد نبوی کا ایک غزوہ ہے جو 20 رمضان سنہ 8 ہجری بمطابق 10 جنوری سنہ 630 عیسوی کو پیش آیا، اس غزوے کی بدولت مسلمانوں کو شہر مکہ پر فتح نصیب ہوئی اور اس کو اسلامی قلمرو میں شامل کر لیا گیا۔ اس غزوہ کا سبب قریش مکہ کی جانب سے اس معاہدہ کی خلاف ورزی تھی جو ان کے اور مسلمانوں کے درمیان میں ہوا تھا، یعنی قریش مکہ نے اپنے حلیف قبیلہ بنو دئل بن بکر بن عبد منات بن کنانہ (اس کی ایک خاص شاخ جسے بنو نفاثہ کہا جاتا ہے) نے بنو خزاعہ کے خلاف قتل و غارت میں مدد کی تھی اور چونکہ بنو خزاعہ مسلمانوں کا حلیف قبیلہ تھا اس لیے اس حملے کو قریش مکہ کی جانب سے اس معاہدہ کی خلاف ورزی سمجھا گیا جو مسلمانوں اور قریش کے درمیان میں ہوا تھا، یہ معاہدہ "صلح حدیبیہ" کے نام سے معروف ہے۔ اسی معاہدہ کی خلاف ورزی کے جواب میں حضرت محمدﷺ بن عبد اللہ نے ایک عظیم الشان لشکر تیار کیا جو دس ہزار مجاہدین پر مشتمل تھا؛ لشکر آگے بڑھتا رہا یہاں تک کہ مکہ پہنچ گیا اور بغیر کسی مزاحمت کے مکہ میں پر امن طریقے سے داخل ہو گیا سوائے ایک معمولی سی جھڑپ کے جس کے سپہ سالار خالد بن ولید کو اس وقت سامنا ہوا جب قریش کی ایک ٹولی نے عکرمہ بن ابی جہل کی قیادت میں مسلمانوں سے مزاحمت کی اور پھر خالد بن ولید کو ان سے قتال کرنا پڑا جس کے نتیجے میں بارہ کفار مارے گئے اور باقی بھاگ گئے، جبکہ دو مسلمان بھی شہید ہوئے۔
مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق ختم نبوت سے مراد یہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالٰیٰ کے آخری نبی اور آخری رسول ہیں۔ اللہ رب العزت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس جہاں میں بھیج کر بعثت انبیا کا سلسلہ ختم فرما دیا ہے۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ختم نبوت کا ذکر قرآن حکیم کی 100 سے بھی زیادہ آیات میں نہایت ہی جامع انداز میں صراحت کے ساتھ کیا گیا ہے
صحابہ (عربی: الصحابۃ، "پیروکار") اسلام میں نبی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، کے ان پیرو کاروں کو کہا جاتا ہے جنھوں نے ان کی اپنی حیات میں اسلام قبول کیا اور ان کو کچھ وقت کی صحبت ملی۔ اور اسی ایمان کی حالت میں وہ دنیا سے گئے۔ بعض صحابہ نابینا بھی تھے اور بعض لوگ جنھوں نے اسلام قبول کیا، مگر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دور یا بعد میں پھر مرتد ہوئے اور پھر اسلام قبول کیا (محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیات کے بعد) تو ان کو صحابی نہیں کہا جاتا۔
بنو نصر بن معاویہ بن بکر ایک ہوازنی ، قیسی، مضری اور عدنانی قبیلہ تھا، جنہیں عموماً "نصور" کہا جاتا تھا۔ یہ قبیلہ ہوازن کی بڑی شاخوں میں سے ایک تھا اور "عُلیا ہوازن" سے تعلق رکھتا تھا۔ ان کے پاس سوقِ عکاظ میں کھجور کے باغات اور اموال تھے، جبکہ ان کی سکونت طائف، جَلدان اور نجد کے علاقوں میں تھی۔ اسلامی فتوحات کے دوران بنو نصر کے کچھ افراد شام کی طرف ہجرت کر گئے اور دمشق میں ان کے نام سے ایک محلہ معروف تھا۔ ، ان کی دوسری بڑی ہجرت عہدِ اموی میں مصر کی طرف ہوئی، جو دوسری صدی ہجری میں پیش آئی۔ انھی سے منسوب ایک مقام "جزیرہ بنی نصر" کے نام سے جانا جاتا ہے۔
اللہ کے ذاتی نام 'اللہ' کے علاوہ اللہ کے ننانوے صفاتی نام مشہور ہیں۔ انھیں کہا جاتا ہے۔ ان میں سے بیشتر قرآن میں موجود ہیں اگرچہ قرآن میں ننانوے کی تعداد مذکور نہیں مگر یہ ارشاد ہے کہ اللہ کو اچھے اچھے ناموں سے پکارا جائے۔ روایات میں بکثرت نیچے دیے گئے ننانوے صفاتی نام ملتے ہیں جن کے ساتھ ان کا اردو ترجمہ بھی درج کیا جا رہا ہے۔
مرزا غلام احمد (13 فروری 1835ء تا 26 مئی 1908ء) ہندوستان سے تعلق رکھنے والے ایک مذہبی رہنما اور احمدیہ کے بانی تھے۔ مرزا غلام احمد نے دعویٰ کیا کہ وہی مسیح موعود اور مہدی آخر الزمان ہے اور نبی ہونے کا دعویٰ بھی کیا۔ 1888ء میں، مرزا نے اعلان کیا کہ انھیں بیعت لے کر ایک جماعت بنانے کا حکم ملا ہے اور اس طرح 23 مارچ 1889ء کو لدھیانہ میں پہلی بیعت لے کر جماعت احمدیہ جسے قادیانیت اور مرزائیت بھی کہا جاتا ہے، کی بنیاد رکھی۔
سرائیکی (انگریزی: Saraiki, Siraiki, Seraiki) ایک ہند آریائی زبان ہے جو جنوبی پنجاب اور جنوبی خیبر پختونخوا بولی جاتی یے۔ اس کے بولنے والوں کی تعداد 2 کروڑ ساٹھ لاکھ ہے جو موجودہ جنوبی پنجاب ، خیبر پختونخوا، شمالی سندھ اور مشرقی بلوچستان میں رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھارت میں 109,000 لوگ سرائیکی بولتے ہیں جو تقسیم کے وقت ہجرت کرکے گئے تھے۔ اس طرح سرائیکی زبان بولنے والوں کی کل آبادی 26 ملین ہے۔ یہ بلوچوں کی تیسری بڑی زبان ہے۔پاکستان میں سرائیکی زبان بولنے والوں کی آبادی 12.19 فیصد ہے جس میں 8.4 فیصد آبادی سرائیکی گوتوں کی ہے باقی 3.79 فیصد میں بلوچ، پٹھان، عرب اور ترک قبائل شامل ہیں۔ سرائیکی زبان بولنے والوں کی آبادی صوبہ خیبر پختونخوا میں 3.72 فیصد، سندھ میں 2.23 فیصد، بلوچستان میں 2.65 فیصد اور پنجاب میں 20 فیصد ہے۔
باغ و بہار میر امن دہلوی کی تصنیف کردہ ایک داستان ہے جو اُنھوں نے فورٹ ولیم کالج میں جان گلکرسٹ کی فرمائش پر لکھی۔ عام خیال ہے کہ باغ و بہار کو میر امن نے امیر خسرو کی فارسی داستان قصہ چہار درویش سے اردو میں ترجمہ کیا ہے لیکن یہ خیال پایہ استناد کو نہیں پہنچتا۔ حافظ محمود شیرانی نے تحقیق سے یہ ثابت کیا ہے کہ اس قصے کا امیر خسرو سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں ان کے مطابق یہ قصہ محمد علی معصوم کی تصنیف ہے باغ و بہار فورٹ ولیم کالج کی دین ہے جو انگریزوں کو مقامی زبانوں سے آشنا کرنے کے لیے قائم کیا گیا تھا اور یہیں میر امن نے باغ و بہار کو جان گل کرائسٹ کی فرمائش پر میر حسین عطا تحسین کی نو طرز مرصع سے استفادہ کرکے تصنیف کیا۔ اس طرح یہ داستان اردو نثر میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے اور اسے بجا طور پر جدید اردو نثر کا پہلا صحیفہ قرار دیا گیا ہے۔ اس داستان کی اشاعت کے بعد اردو نثر میں پہلی مرتبہ سلیس زبان اور آسان عبارت آرائی کا رواج ہوا اور آگے چل کر غالب کی نثر نے اسے کمال تک پہنچا دیا۔ اسی بنا پر مولوی عبدالحق کا کہنا ہے کہ اردو نثر کی ان چند کتابوں میں باغ و بہار کو شمار کیا جاتا ہے جو ہمیشہ زندہ رہنے والی ہیں اور شوق سے پڑھی جائیں گی۔ بقول سید محمد، "میر امن نے باغ و بہار میں ایسی سحر کاری کی ہے کہ جب تک اردو زبان زندہ ہے مقبول رہے گی اور اس کی قدر و قیمت میں مرورِ ایام کے ساتھ کوئی کمی نہ ہوگی۔" نیز سید وقار عظیم کے الفاظ میں "داستانوں میں جو قبول عام باغ و بہار کے حصے میں آیا ہے وہ اردو کی کسی اور داستان کو نصیب نہیں ہوا"۔
فیلڈ مارشل سید عاصم منیر احمد شاہ پاکستانی بری افواج کے پانچ ستارہ جنرل، موجودہ اور گیارہویں سربراہ پاک فوج ہیں۔ آرمی چیف کے عہدے پر فائز ہونے سے پہلے وہ جی ایچ کیو میں بطور کوارٹر ماسٹر جنرل کمانڈ کر رہے تھے۔ انھوں نے 17 جون 2019ء سے 6 اکتوبر 2021ء تک گوجرانوالہ میں XXX کور (پاکستان) کی کمانڈ کی۔ انھوں نے آئی ایس آئی کے 23 ویں ڈائریکٹر جنرل کے طور پر خدمات انجام دیں یہاں تک کہ ان کی جگہ16 جون 2019ء کو لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو تعینات کیا گیا۔ منیر نے افسران کی تربیت گاہ، منگلا میں کیڈٹ کی حیثیت سے اپنی کارکردگی پر "اعزازی تلوار" حاصل کی۔ وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے انھیں 24 نومبر 2022ء کو 3 سال کی مدت کے لیے 17ویں چیف آف آرمی اسٹاف کے طور پر مقرر کیا۔ عاصم منیر وہ پہلے چیف آف آرمی اسٹاف ہیں جو ایم آئی اور آئی ایس آئی دونوں خفیہ اداروں کی سربراہی کر چکے ہیں۔ 20 مئی 2025ء کو عاصم منیر کو فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی دی گئی، یوں وہ پاکستان کی تاریخ میں اس رتبے تک پہنچنے والے دوسرے فرد بنے ان سے پہلے صرف ایوب خان کو یہ اعزاز حاصل ہوا تھا۔ عاصم پاکستان کے وہ پہلے اور واحد سربراہ پاک فوج بھی بنے جنھوں نے فیلڈ مارشل کے عہدہ کے ساتھ اس منصب پر خدمات انجام دیں۔ فیلڈ مارشل کا درجہ ایک باوقار اور فائیو اسٹار اعزازی عہدہ ہے، جو جنرل کے رینک سے بھی بلند ہوتا ہے۔
عبد مَناف بْن عَبْدُ الْمُطلب بن ہاشم، جو ابو طالب کے نام سے مشہور تھے۔ آپ کا ایک اسمِ گرامی عمران بھی تاریخ کی کتابوں میں ملتا ہے، حضرت علی کے والد، پیغمبر اسلامؐ کے چچا اور مکہ میں قبیلہ بنی ہاشم کے سردار تھے۔ کچھ عرصے کے لیے آپ سقایۃ الحاج کے عہدے پر فائز رہے اور اپنے والد عبد المطلب کی وفات کے بعد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سر پرستی قبول کی اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کی جانب سے نبوت کے اعلان کے بعد ان کی مکمل حمایت کی۔ اور جب تک زندہ رہے مشرکین اور کفار کو جرأت نہ ہوئی کہ حضرت رسولؐ خدا پہ کسی قسم کی سختی کر سکیں۔ آپ کے القاب میں سیدالعرب ، شیخ بطحا اور مومنِ قریش زیادہ مشہور ۔
نعمان ابن ثابت بن زوطا بن مرزبان (پیدائش: 5 ستمبر 699ء– وفات: 14 جون 767ء) (فارسی: ابوحنیفه،عربی: نعمان بن ثابت بن زوطا بن مرزبان)، عام طور پر آپکو امام ابو حنیفہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ آپ سنی حنفی فقہ (اسلامی فقہ) کے بانی تھے۔ آپ ایک تابعی، مسلمان عالم دین، مجتہد، فقیہ اور اسلامی قانون کے اولین تدوین کرنے والوں میں شامل تھے۔ آپ کے ماننے والوں کو حنفی کہا جاتا ہے۔ زیدی شیعہ مسلمانوں کی طرف سے بھی آپ کو ایک معروف اسلامی عالم دین اور شخصیت تصور کیا جاتا ہے۔ انھیں عام طور پر "امام اعظم" کہا جاتا ہے۔
اسلام ایک توحیدی مذہب ہے جو اللہ کی طرف سے، حضرت محمد ﷺ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ذریعے انسانوں تک پہنچائی گئی آخری الہامی کتاب (قرآن مجيد) کی تعلیمات پر قائم ہے۔ یعنی دنیاوی اعتبار سے بھی اور دینی اعتبار سے بھی اسلام (اور مسلم نظریے کے مطابق گذشتہ ادیان کی اصلاح) کا آغاز، 610ء تا 632ء تک 23 سال پر محیط عرصے میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اللہ کی طرف سے اترنے والے الہام (قرآن) سے ہوتا ہے۔ قرآن عربی زبان میں نازل ہوا (برائے وجہ : اللسان القرآن) اور اسی زبان میں دنیا کی کل آبادی کا کوئی 24% حصہ یعنی لگ بھگ 1.6 تا 1.8 ارب افراد اس کو پڑھتے ہیں؛ ان میں (مختلف ذرائع کے مطابق) قریباً 20 تا 30 کروڑ ہی وہ ہیں جن کی مادری زبان عربی ہے جبکہ 70 تا 80 کروڑ، غیر عرب یا عجمی ہیں جن کی مادری زبان عربی کے سوا کوئی اور ہوتی ہے۔ متعدد شخصی ماخذ سے اپنی موجودہ شکل میں آنے والی دیگر الہامی کتابوں کے برعکس، بوسیلۂ وحی، فردِ واحد (محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے منہ سے ادا ہوکر لکھی جانے والی کتاب اور اس کتاب پر عمل پیرا ہونے کی راہنمائی فراہم کرنے والی شریعت ہی دو ایسے وسائل ہیں جن کو اسلام کی معلومات کا منبع قرار دیا جاتا ہے۔
بینک یا مصرف (bank) ایسا معاشی ادارہ ہوتا ہے جو لوگوں کی رقم محفوظ رکھنے کے لیے جمع کرتا ہے اور اس رقم کو قرض دینے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ لوگوں سے رقم لے کر اُن کو کم شرح سود ادا کرتا ہے اور لوگوں کو رقم دے کر ان سے زیادہ شرح سود وصول کرتا ہے۔ شرح سود کا یہ فرق ہی بینک کا منافع ہوتا ہے۔ بینک کے پیشہ کو بینکاری کہتے ہیں۔
محمد بن اسماعيل بخاری (پیدائش: 19 جولائی 810ء، بخارا - وفات: 1 ستمبر 870ء) مشہور ترین محدث اور حدیث کی سب سے معروف کتاب صحیح بخاری کے مولف تھے۔ ان کے والد بھی ایک محدث تھے اور امام مالک کے شاگرد تھے۔ امام بخاری کا درجہ احادیث کو چھان پھٹک کر ترتیب دینے میں اتنا اونچا ہے کہ بلا اختلاف الجامع الصحیح یعنی صحیح بخاری شریف کا درجہ صحت میں قرآن پاک کے بعد پہلا ہے۔
ناول اطالوی زبان کے لفظ ناولا (Novella) سے نکلا ہے۔ ناولا کے معنیٰ ہے نیا۔ لغت کے اعتبار سے ناول کے معانی نادر اور نئی بات کے ہیں۔ لیکن صنفِ ادب میں اس کی تعریف بنیادی زندگی کے حقائق بیان کرنا ہے۔ ناول کی اگر جامع تعریف کی جائے تو وہ کچھ یوں ہوگی کہ “ناول ایک نثری قصہ ہے جس میں پوری ایک زندگی بیان کی جاتی ہے”۔ ناول کے عناصر ِ ترکیبی میں کہانی، پلاٹ، کردار، مکالمے ،زماں و مکاں، اسلوب ،نکتہ نظر اور موضوع وغیرہ شامل ہیں۔
عمران احمد خان نیازی پاکستانی سیاست دان, سابق کرکٹ کھلاڑی اور پاکستان کے سابق وزیر اعظم ہیں اور پاکستان تحریک انصاف کے بانی بھی ہیں۔ اس سے پہلے وہ 2002ء تا 2007ء اور 2013ء تا 2018ء تک پاکستان قومی اسمبلی کے رکن بھی رہ چکے ہیں۔ سیاست میں قدم رکھنے سے قبل عمران خان ایک کرکٹر اور مخیر تھے۔ انھوں نے دو دہائیوں تک بین الاقوامی کرکٹ کھیلی اور بعد میں خدمت خلق کے منصوبے بنائے جیسے کہ شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال اور ریسرچ سینٹر اور نمل کالج وغیرہ۔
اردو زبان میں سینتیس حروفِ تہجی اور سینتالیس آوازیں ہیں جن میں سے بیشتر عربی سے لیے گئے ہیں اور دیگر انہی کی مختلف شکلیں ہیں۔ کچھ حروف کئی طریقوں سے استعمال ہوتے ہیں اور کچھ مخلوط حروف بھی استعمال ہوتے ہیں جو دو حروف سے مل کر بنتے ہیں۔ بعض لوگ 'ء' کو الگ حرف نہیں مانتے مگر پرانی اردو کتب اور لغات میں اسے الگ حرف کے طور پر لکھا جاتا ہے۔ مختلف الفاظ میں یہ الگ حرف کے طور پر ہی استعمال ہوتا ہے مثلاً 'دائرہ'۔ یہ بات مدِنظر رکھنا ضروری ہے کہ اردو تختی اور اردو حروف دو مختلف چیزیں ہیں کیونکہ اردو تختی میں اردو حروفِ تہجی کی کئی اشکال ہو سکتی ہیں جن کو الگ حرف کا درجہ نہیں دیا جا سکتا بلکہ وہ ایک ہی حرف کی مختلف شکلیں ہیں۔ مثلاً نون غنہ نون کی شکل ہے اور 'ھ' اور 'ہ' ایک ہی حرف کی مختلف اشکال ہیں۔ ایک اور مثال الف ممدودہ (آ) اور الف مقصورہ (ا) کی ہے جو اردو تختی میں الگ ہیں مگر اردو کا ایک ہی حرف شمار ہوتے ہیں۔
منشی پریم چند اردو کے نامور ناول نگار اور افسانہ نگار ہیں۔ ان کا اصلی نام دھنپت رائے ہے، لیکن ادبی دنیا میں پریم چند کے نام سے مشہور ہیں۔ وہ 1880ء میں منشی عجائب لال کے وہاں ضلع وارانسی مرٹھوا کے گاؤں لمہی میں پیدا ہوئے۔ان کے دادا گاؤں کے پٹواری اور والد ایک ڈاک خانے میں کلرک تھے۔ پریم چند ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ نے تقریباً سات آٹھ برس فارسی پڑھنے کے بعد انگریزی تعلیم شروع کی۔ پندرہ سال کی عمر میں شادی ہو گئی۔ ایک سال بعد والد کا انتقال ہو گیا۔ اس وقت آٹھویں جماعت میں پڑھتے تھے۔ پورے گھر بار کا بوجھ آپ پر ہی پڑ گیا۔ فکر معاش نے زیادہ پریشان کیا تو لڑکوں کو بطور استاد پڑھانے لگے اور میٹرک پاس کرنے کے بعد محکمہ تعلیم میں ملازم ہو گئے۔ اسی دوران میں بی۔ اے کی ڈگری حاصل کی۔
پاک بھارت تنازع 2025ء مسلح تصادم تھا جس کا آغاز 7 مئی 2025ء کو ہوا جب بھارت نے پاکستان پر میزائل حملے کیے، جنھیں آپریشن سِن٘دُور(2) کا نام دیا گیا۔ بھارت نے دعویٰ کیا کہ یہ کارروائی 22 اپریل کو بھارتی زیر انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں عسکریت پسندوں کے حملے کے جواب میں کی گئی جس میں 28 شہری، جن میں اکثریت سیاحوں کی تھی، ہلاک ہو گئے تھے۔ اس حملے کے بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا کیونکہ بھارت نے پاکستان پر سرحد پار دہشت گردی کی حمایت کا الزام عائد کیا جس کی پاکستان نے تردید کی۔ یہ واقعات بالآخر 2025ء کی پاک بھارت کشیدگی کا سبب بنے جو مسئلہ کشمیر کا حصہ ہے۔
سلطان محمد فاتح یا سلطان محمد الثانی (عثمانی ترکی زبان: محمد ثانى، Meḥmed-i s̠ānī; ترکی زبان: II. Mehmet ترکی تلفظ: [ˈmeh.met]; اور المعروف el-Fātiḥ، الفاتح) (پیدائش: 30 مارچ 1432ء — وفات: 3 مئی 1481ء) سلطنت عثمانیہ کے ساتویں سلطان تھے جو 1444ء سے 1446ء اور 1451ء سے 1481ء تک سلطنت عثمانیہ کے سلطان رہے۔ انھوں نے محض 21 سال کی عمر میں قسطنطنیہ (موجودہ استنبول) فتح کرکے عیسائیوں کی بازنطینی سلطنت کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دیا۔ اس عظیم الشان فتح کے بعد انھوں نے اپنے خطابات میں قیصر کا اضافہ کیا۔ انھیں سلطان محمد الفاتح یا سلطان الفاتح کے القابات سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔
ابو عبد اللہ عثمان بن عفان اموی قرشی (47 ق ھ - 35 ھ / 576ء – 656ء) اسلام کے تیسرے خلیفہ، داماد رسول اور جامع قرآن تھے۔ عثمان غنی سابقین اسلام میں شامل اور عشرہ مبشرہ میں سے تھے، ان کی کنیت ذو النورین ہے کیونکہ انھوں نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دو صاحبزادیوں سے نکاح کیا تھا، پہلے رقیہ بنت محمد رضی اللہ عنہا سے کیا، پھر ان کی وفات کے بعد ام کلثوم بنت محمد سے نکاح کیا۔ عثمان غنی پہلے صحابی ہیں جنھوں نے سرزمین حبشہ کی ہجرت کی، بعد میں دیگر صحابہ بھی آپ کے پیچھے حبشہ پہنچے۔ بعد ازاں دوسری ہجرت مدینہ منورہ کی جانب کی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عثمان غنی پر مکمل اعتماد اور ان کی فطری حیاء و شرافت اور جو انھوں نے اپنے مال کے ذریعہ اہل ایمان کی نصرت کی تھی، اس کی انتہائی قدر کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیگر صحابہ کے ساتھ ان کو بھی جنت اور شہادت کی موت کی خوش خبری دی۔ سنہ 23ھ (644ء) میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد مشورہ سے آپ کو خلافت کی ذمہ داری سونپی گئی، جسے انھوں نے 644ء سے 656ء تک انجام دی۔ ان کے عہد خلافت میں جمع قرآن مکمل ہوا، مسجد حرام اور مسجد نبوی کی توسیع ہوئی اور قفقاز، خراسان، کرمان، سیستان، افریقیہ اور قبرص وغیرہ فتح ہو کر سلطنت اسلامی میں شامل ہوئے۔ نیز انھوں نے اسلامی ممالک کے ساحلوں کو بازنطینیوں کے حملوں سے محفوظ رکھنے کے لیے اولین مسلم بحری فوج بھی بنائی۔ آپ کا زمانہ خلافت بارہ سال کے عرصہ پر محیط ہے، جس میں آخری کے چھ سالوں میں کچھ ناخوشگوار حادثات پیش آئے، جو بالآخر ان کی شہادت پر منتج ہوئے۔ سنہ 35ھ، 12 ذی الحجہ، بروز جمعہ بیاسی سال کی عمر میں انھیں ان کے گھر میں قرآن کریم کی تلاوت کے دوران میں شہید کر دیا گیا اور مدینہ منورہ کے قبرستان جنت البقیع میں دفن ہوئے۔ خلیفۂ سوم سیدنا عثمان غنی کا تعلق قریش کے معزز قبیلے سے تھا۔ سلسلۂ نسب عبد المناف پر رسول اللہ ﷺ سے جا ملتا ہے۔ سیدنا عثمان ذوالنورین کی نانی نبی ﷺ کی پھوپھی تھیں۔ آپ کا نام عثمان اور لقب ” ذوالنورین “ ہے۔ اسلام قبول کرنے والوں میں آپ ” السابقون الاولون “ کی فہرست میں شامل تھے، آپ نے خلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیق کی دعوت پر اسلام قبول کیا تھا۔۔ حضور ﷺ پر ایمان لانے اور کلمہ حق پڑھنے کے جرم میں سیدنا عثمان غنی کو ان کے چچا حکم بن ابی العاص نے لوہے کی زنجیروں سے باندھ کر دھوپ میں ڈال دیا، کئی روز تک علاحدہ مکان میں بند رکھا گیا، چچا نے آپ سے کہا کہ جب تک تم نئے مذہب (اسلام ) کو نہیں چھوڑو گے آزاد نہیں کروں گا۔ یہ سن کر آپ نے جواب میں فرمایا کہ چچا ! اللہ کی قسم میں مذہب اسلام کو کبھی نہیں چھوڑ سکتا اور اس ایمان کی دولت سے کبھی دستبردار نہیں ہوں گا۔ سیدنا عثمان غنی اعلیٰ سیرت و کردار کے ساتھ ثروت و سخاوت میں بھی مشہور تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جنت میں ہر نبی کا ساتھی و رفیق ہوتا ہے میرا ساتھی ”عثمان “ ہوگا۔ سیدنا عثمان کے دائرہ اسلام میں آنے کے بعد نبی اکرم نے کچھ عرصہ بعد اپنی بیٹی سیدہ رقیہ رضى الله عنها کا نکاح آپ سے کر دیا۔ جب کفار مکہ کی اذیتوں سے تنگ آکر مسلمانوں نے نبی کریم ﷺ کی اجازت اور حکم الٰہی کے مطابق ہجرت حبشہ کی تو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ بھی مع اپنی اہلیہ حضرت رقیہ رضى اللہ عنہا حبشہ ہجرت فرما گئے، جب حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا تو نبی ﷺ نے دوسری بیٹی حضرت ام کلثوم رضى اللہ عنہا کوآپ کی زوجیت میں دے دی۔ اس طرح آپ کا لقب ” ذوالنورین“ معروف ہوا۔ مدینہ منورہ میں پانی کی قلت تھی جس پر سیدنا عثمان نے نبی پاک ا کی اجازت سے پانی کا کنواں خرید کر مسلمانوں کے ليے وقف فرمایا۔ اور اسی طرح غزوئہ تبوک میں جب رسول اللہ ﷺ نے مالی اعانت کی اپیل فرمائی تو سیدنا عثمان غنی نے تیس ہزار فوج کے ایک تہائی اخراجات کی ذمہ داری لے لی۔ جب رسول اکرم ﷺ نے زیارت خانہ کعبہ کا ارادہ فرمایا تو حدیبیہ کے مقام پر یہ علم ہوا کہ قریش مکہ آمادہ جنگ ہیں۔ اس پر آپ ﷺ نے سیدنا عثمان غنی کو سفیر بنا کر مکہ بھیجا۔ قریش مکہ نے آپ کو روکے رکھا تو افواہ پھیل گئی کہ سیدنا عثمان کو شہید کر دیا گیا ہے۔ اس موقع پر چودہ سو صحابہ سے نبی ﷺ نے بیعت لی کہ سیدنا عثمان غنی کا قصاص لیا جائے گا۔ یہ بیعت تاریخ اسلام میں ” بیعت رضوان “ کے نام سے معروف ہے۔ قریش مکہ کو جب صحیح صورت حال کا علم ہوا تو آمادۂ صلح ہو گئے اور سیدنا عثمان غنی واپس آگئے۔ خلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیق کی مجلس مشاورت کے آپ اہم رکن تھے۔ امیر المومنین سیدنا عمر کی خلافت کا وصیت نامہ آپ نے ہی تحریر فرمایا۔ دینی معاملات پر آپ کی رہنمائی کو پوری اہمیت دی جاتی۔ سیدنا عثمان غنی صرف کاتب وحی ہی نہیں تھے بلکہ قرآن مجید آپ کے سینے میں محفوظ تھا۔ آیات قرآنی کے شان نزول سے خوب واقف تھے۔ بطور تاجر دیانت و امانت آپ کا طرۂ امتیاز تھا۔ نرم خو تھے اور فکر آخرت ہر دم پیش نظر رکھتے تھے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے عثمان کی حیا سے فرشتے بھی شرماتے ہیں، تبلیغ و اشاعت اسلام کے ليے فراخ دلی سے دولت صرف فرماتے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اے عثمان اللہ تعالٰی تجھے خلافت کی قمیص پہنائیں گے، جب منافق اسے اتارنے کی کوشش کریں تو اسے مت اتارنا یہاں تک کہ تم مجھے آملو۔ چنانچہ جس روز آپ کا محاصرہ کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ مجھ سے حضور نے عہد لیا تھا ( کہ منافق خلافت کی قمیص اتارنے کی کوشش کریں گے تم نہ اتارنا ) اس ليے میں اس پر قائم ہوں اور صبر کر رہا ہوں۔ 35ھ میں ذی قعدہ کے پہلے عشرہ میں باغیوں نے سیدنا عثمان ذوالنورین کے گھر کا محاصرہ کیا اور آپ نے صبر اور استقامت کا دامن نہیں چھوڑا، محاصرہ کے دوران آپ کا کھانا اور پانی بند کر دیا گیا تقریباً چالیس روز بھوکے پیاسے 82 سالہ مظلوم مدینہ سیدنا عثمان کو جمعة المبارک 18ذو الحجہ کو انتہائی بے دردی کے ساتھ روزہ کی حالت میں قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہوئے شہید کر دیا گیا۔، .
خطبہ حجۃ الوداع بلاشبہ انسانی حقوق کا اوّلین اور مثالی منشور اعظم ہے۔ اسے تاریخی حقائق کی روشنی میں انسانیت کا سب سے پہلامنشور انسانی حقوق ہونے کا اعزاز ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جو آخری حج کیا اسے دو حوالوں سے حجۃ الوداع کہتے ہیں۔ ایک اس حوالہ سے کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آخری حج وہی کیا اور اس حوالے سے بھی کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خود اس خطبہ میں ارشاد فرمایا :وَاللَّهِ لاَ أَدْرِي لَعَلِّي لاَ أَلْقَاكُمْ بَعْدَ يَوْمِي هَذَا۔ یہ میری تم سے آخری اجتماعی ملاقات ہے، شاید اس مقام پر اس کے بعد تم مجھ سے نہ مل سکوں۔ خطبہ حجۃ الوداع کو اسلام میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مدینہ ہجرت کے بعد یہاں کی آبادی (خصوصاً یہود) کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جو میثاق مدینہ کے نام سے موسوم ہے۔ یہ پہلا بین الاقوامی تحریری معاہدہ ہے۔ بعض مورخین میگنا کارٹا کو پہلا بین الاقوامی معاہدہ قرار دیتے ہیں حالانکہ میثاق مدینہ 622ء میں ہوا جبکہ میگنا کارٹا 600 سالوں بعد 1215ء میں انگلستان کے شاہ جان اول کے زمانے میں ہوا۔
سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ(53ق.ھ / 35ھ)جلیل القدر صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ حضرت سلمان فارسی ؓ کا تعلق فارس (ایران ) سے تھا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایران کے مشہور شہر اصفہان کے ایک گائوں روزبہ میں پیدا ہوئے۔ اسلام لانے سے قبل آپ ؓ کا نام مابہ تھا۔ آپ ؓ کے والد کا نام بوذخشان تھا۔ آپ ؓ اسلام قبول کرنے سے پہلے زرتشت مذہب ( مجوسی) کے پیروکار تھے، لیکن حق کی تلاش میں فارس سے نکلے، اپنا آبائی مذہب مجوسیت چھوڑ کر عیسائیت اختیار کی اور بالآخر نبی اکرم ؐ کی بارگاہ میں پہنچ کر اسلام قبول کر لیا۔ حضرت سلمان فارسی ؓ کی زندگی حق کی تلاش اور جستجو سے عبارت تھی۔ آپ کے قبول اسلام کا واقعہ بھی بہت دلچسپ اور اثر انگیز ہے۔ آپ کا تعلق مجوسیت سے تھا لیکن آپ کے دل میں ایک چنگاری روشن تھی جو انھیں بے چین رکھتی تھی اور وہ سوچتے تھے کہ یہ آگ جسے ہم خود روشن کرتے ہیں یہ ہمارا خدا تو کبھی نہیں ہو سکتی۔ آپ کے والد بوذخشان ایک بڑے آتش کدے کے مہتمم بھی تھے۔ ایک دن انھوں نے حضرت سلمان سے کہا کہ آج میں کھیتوں میں نہیں جا سکوں گا اس لیے آج کھیتوں کی دیکھ بھال تمھارے ذمے ہے۔ حضرت سلمان ؓ نے ہامی بھر لی اور کھیتوں کی طرف چل دیے، راستے میں عیسائیوں کا ایک گرجا نظر آیا۔ آپ وہاں چلے گئے، ان کی عبادت کے طریقے سے بہت متاثر ہوئے اور اسی دن اپنا آبائی مذہب چھوڑ کر عیسائیت اختیار کرلی۔ ان کے والد کو جب اس بات کا علم ہوا تو انھیں گھر میں قید کر لیا اور ان کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں اور پائوں میں بیڑیاں ڈال دیں، لیکن آپ کسی نہ کسی وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے اور ایک قافلے کے ساتھ شامل ہوکر شام پہنچ گئے۔ لیکن حق کی تلاش کا یہ سفر یہیں نہیں رکھا، آپ ؓ حق کی تلاش میں قریہ قریہ، ملکوں ملکوں بھٹکتے رہے، شام سے موصل(عراق)، وہاں سے نصیبین (ترکی) اور پھر عموریہ پہنچے۔ عموریہ پہنچ کر آپؓ وہاں کے بڑے پادری کی خدمت میں رہنے لگے۔ اس پادری کا جب وقتِ اجل آیا تو اس نے حضرت سلمان ؓ کو بلا یا کہا کہ ’’ میرے بیٹے! اب میں اس دنیا سے رخصت ہوتا ہوں۔ اب نبی آخرالزمان کے ظہور کا وقت قریب آ پہنچا ہے، جو صحرائے عرب سے اٹھ کر دینِ حنیف کو زندہ کرے گا اور اس زمین کی طرف ہجرت کرے گا جہاں کھجوروں کی کثرت ہوگی۔ اس کے دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت ہوگی۔ وہ ہدیہ قبول کرے گا لیکن صدقہ کو اپنے لیے حرام سمجھے گا۔ تم جب اس نبی پاک کا زمانہ پائو تو اس کی خدمت میں ضرور حاضر ہونا۔ ‘‘ اس مردِ درویش کے انتقال کے بعد حضرت سلمان اسی جستجو میں رہنے لگے کہ کوئی قافلہ حجاز کی طرف جا رہا ہو تو اس میں شامل ہو جائیں۔ آپؓ کی جستجو رنگ لائی اور قبیلہ بنو کلب کا ایک قافلہ عموریہ سے گذرا۔ آپ اس قافلے میں شامل ہو گئے لیکن راستے میں قافلے والوں کی نیت خراب ہو گئی او رجب یہ قافلہ وادی القریٰ پہنچا تو انھوں نے حضرت سلمانؓ کو یہودیوں کے ہاتھ فروخت کر دیا۔ آپ نے اس کو اپنی قسمت سمجھ لیا لیکن اس کے باجود تلاشِ حق کی جو چنگاری آپ کے سینے میں روشن تھی، وہ موجود رہی۔ ایک دن اس یہودی کا یک رشتہ دار جو یثرب( مدینہ) کا رہنے والا تھا، وہ اس سے ملنے آیا۔ اس کو ایک غلام کی ضرورت تھی۔ اس نے حضرت سلمان ؓ کے مالک سے انھیں خرید لیا اور یثرب لے آیا۔ یہاں جب آپ ؓ نے کھجور کے درختوں کے جھنڈ دیکھے تو آپ سمجھ گئے کہ اب تلاش ختم ہونے والی ہے۔ ایک دن آپ ایک درخت پر چڑھے کام کر رہے تھے کہ ایک یہودی شہر سے بھاگتا ہوا آیا اور کہنے لگا۔ ایک دن آپ ایک درخت پر چڑھے کام کر رہے تھے کہ ایک یہودی شہر سے بھاگتا ہوا آیا اور کہنے لگا’’ خدا بنو قیلہ کو غارت کرے، سب کے سب قبا میں ایک شخص کے پاس جا رہے ہیں جو مکہ سے آیا ہے اور خود کو نبی کہتا ہے۔ ‘‘ یہ سنتے ہیں حضرت سلمان ؓ بد حواس ہوکر درخت سے اتر آئے اور اس شخص سے کہنے لگے کہ ’’ کیا کہا تم نے؟ ذرا پھر سے تو کہنا۔ ‘‘ ان کا آقا بہت غصہ ہوا اور ان ایک تھپڑ ما ر کر کہا کہ تم جاکر اپنا کام کرو۔ حضرت سلمان اس وقت تو خاموش ہو گئے لیکن ایک دن آپ ؓ کچھ کھانے کی چیزیں لے کر پیارے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور وہ چیزیں صدقہ کے طور پر پیارے نبی ﷺ کو پیش کر دیں۔ پیارے نبی ﷺ نے وہ چیزیں اپنے صحابہ میں تقسیم کر دیں لیکن خود کچھ نہ لیا۔ اگلے دن دوبارہ کچھ چیزیں لے حاضر ہو گئے اور اب انھوں کھانے پینے کی چیزیں بطور ہدیہ پیارے نبی کی خدمت میں پیش کر دیں۔ پیارے نبی ؐ نے خود میں وہ چیزیں کھائیں اور صحابہ ؓ میں بھی تقسیم کر دیں۔ حضرت سلمان ؓ کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا کیوں کہ آخری نبی کی بتائی دو نشانیاں تو پوری ہوگئیں تھیں اب آخری نشانی یعنی مہر نبوت کو دیکھنا رہ گیا تھا۔ چند دنوں بعد آپؓ کو پتا چلا کہ نبی اکرم ﷺ ایک جنازے کے ساتھ بقیع غرقد تشریف لے گئے ہیں۔ حضرت سلمان ؓ بھی وہاں پہنچ گئے اور پیارے نبی ﷺ کو سلام کرکے آپؐ کے پیچھے کھڑے ہوئے کہ موقع ملے تو مہر نبوت کا مشاہدہ کرلوں۔ پیارے نبی ؐ نے آپ ؓ کی کیفیت کو بھانپ لیا اور اپنی پشت سے کپڑا سرکا دیا۔ حضرت سلمان فارسی ؓ نے کانپتے ہونٹوں سے مہر نبوت کو بوسہ دیا اور کلمہ پڑھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے۔ حضرت سلمان فارسی ؓ ایمان قبول کرنے کے بعد نبی اکرم ؐ کی خدمت میں حاضر رہنے لگے۔ پیارے نبی ؐ نے آپؓ کو یہودی کی غلامی سے نجات دلائی۔ اس کے بعد تو آپؓ سفر و حضر میں پیارے نبی ﷺ کے ساتھ ساتھ رہنے لگے۔ آپ ؓ بہت جلیل القدر صحابی تھے۔ آپ کے مرتبے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نبی اکرم ؐ نے غزوہ احزاب ( جنگ خندق) میں آپ ؓ کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے خندق کھودی اور دفاعی جنگ لڑی۔ جنگ خندق کے موقع پر جب خندق کھودی جا رہی تھی، مہاجرین و انصار صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین میں بحث چھِڑ گئی کہ سلمان ؓ کون ہیں۔ مہاجرین کہتے تھے کہ سلمان ہم میں سے ہیں جب کہ انصار کا کہنا تھا کہ سلمان میں سے ہیں۔ اسی دوران پیارے نبی ؐ تشریف لے آئے۔ آپ ؓ کو جب ساری بات کا علم ہوا تو آپ ؐ نے فرمایا کہ سلمان میرے اہل بیت میں سے ہیں۔ آپؓہر وقت عشق نبی میں غرق رہتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ انھیں جہاد کا بھی بہت شوق تھا۔ ان کے عشق رسول اور شوق جہاد کو دیکھ کر پیارے نبی ؐ نے ارشاد فرمایا کہ ’’ جنت تین آدمیوں کا اشتیاق رکھتی ہے۔ علی ؓ، عمارؓ اور سلمان ؓ کا۔ ایک موقع پر آپ ؐ نے ارشاد فرمایا کہ سلمان علم سے لبریز ہے۔ آپ ؓ بہت قناعت پسند، درویش صفت انسان تھے۔ دنیا داری سے دور بھاگتے تھے۔ حضرت عمر بن ؓخطاب نے ان کو مدائن کا گورنر مقرر کیا۔ اس کی جو تنخواہ ملتی وہ غریبوں، مسکینوں میں تقسیم کردیتے اور خود چٹائی بُن کر کماتے، اس کا بھی ایک تہائی خیرات کردیتے تھے۔ سفر ہمیشہ بغیر زین کے گدھے پر سوا ہوکر کرتے۔ ایک دفعہ اسی طرح آپؓ گدھے پر بغیر زین کے سفر کر رہے تھے اور پیوند لگا کرتا پہنا ہوا تھا۔ ایک شخص نے ان سے پوچھ لیا کہ ’’ اے امیر !
حضرت آدم علیہ السلام ، اللہ کے اولین پیغمبر ہیں۔ ابوالبشر (انسان کا باپ) اور صفی اللہ (خدا کا برگزیدہ) لقب۔ آپ کے زمانے کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔تمام آسمانی کتابوں کے ماننے والوں کاعقیدہ ہے کہ اس رُوئے زمین پر اللہ جل شانہ‘نے حضرت آدم علیہ السلام کو تخلیق کیا۔حضرت آدم ؑ کی پیدائش کا احوال کچھ یوں ہے :اللہ تعالی نے تمام زمین سے ایک مٹھی مٹی لے کر آدم علیہ السلام کو بنایا۔اس لیے زمین کے لحاظ سے لوگ سرخ ،سفید ، سیاہ اور درمیانے درجے میں ،اسی طرح اچھے ،برے ، نرم اور سخت طبیعت والے اور کچھ درمیانے درجے کے پیدا ہوئے(روایت : حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ )۔ اللہ تعالی نے جبریل علیہ السلام کو زمین میں مٹی لانے کے لیے بھیجا تو زمین نے عرض کی کہ میں تجھ سے اللہ کی پناہ میں آتی ہوں کہ تو مجھ سے کوئی کمی کرے یا مجھے عیب ناک کر دے تو وہ مٹی لیے بغیر ہی واپس چلے گئے اور عرض کی :اے اللہ!اس نے تیری پناہ میں آنے کی درخواست کی تو میں نے اس کو پناہ دے دی۔ اللہ تعالیٰ نے پھر حضرت میکائل کو بھیجا ،زمین نے اس سے بھی پناہ مانگی تو اس نے بھی پناہ دے دی اور حضرت جبریل کی طرح واقعہ بتا دیا پھر اللہ نے موت کے فرشتوں کو بھیجا۔زمین نے اس سے بھی پناہ مانگی تو اس نے کہا میں اس سے اللہ کی پناہ میں آتا ہوں کہ میں اللہ کے حکم کی تعمیل کیے بغیر واپس چلا جاؤں اور اس سے مختلف جگہوں سے سرخ ،سیاہ اور سفید مٹی اکٹھی کی جس کی بنا پر آدم علیہ السلام کی اولاد بھی مختلف رنگوں والی ہے ۔( روایت سدی رحمۃ اللہ بحوالہ ابن عباسؓ وابن مسعودؓ )وہ مٹی لے کرعرش پر چلے گئے اور اس کو پانی کے ساتھ تر کیا۔پانی سے تر کرنے سے وہ چپکنے والی لیس دار مٹی بن گئی۔ اس پر باری تعالیٰ نے فرشتوں کو فرمایا :میں مٹی سے انسان بنانے والا ہوں۔جب میں اس کو اچھی طرح بنا لوں اور اس میں اپنی پیدا کردہ روح ڈال دوں تو اس کے لیے سجدہ کرتے ہوئے گر جانا۔اللہ تعالی ٰنے علم کے ساتھ آدم علیہ السلام کا ان پر شرف اور مرتبہ واضح کیا۔حضرت ابن عباسؓ نے کہا ان سے مراد وہی نام ہیں جو لوگوں کے ہاں مشہور و معروف ہیں۔انسان ، جانور ، زمین ، سمندر ، پہاڑ ، اونٹ ، گدھا وغیرہ۔مجاہد نے کہا :پیالہ اور ہنڈیا وغیرہ کے نا م سکھائے،حتی کہ پھسکی اور گوز کا نام بھی بتا یا۔ مجاہد نے مزید کہا:ہر جانور ،پرند ، چرند اور ہر ضرورت کی ہر چیز کے نام سکھائے۔سعید بن جبیر ، قتادہ وغیرہ نے بھی اسی طرح کہا ہے۔الربیع نے کہا:فرشتوں کے نام سکھائے۔عبد الرحمن بن زید نے کہا :ان کی اولاد کے نام سکھائے۔اللہ نے آدم علیہ السلام کو ہر چھوٹی اور بڑی چیز اور ان کے افعال کے نام سکھائے ۔ حضرت انس بن مالکؓ نے رسول اللہﷺ سے روایت کرتے ہوئے فرمایا :قیامت کے دن ایمان والے اکٹھے ہوں گے اور کہیں گے کاش ہم اپنے رب کے پاس سفارش کرنے والا طلب کریں ،پھر وہ آدم کے پاس آئیں گے اور کہیں گے اے آدم!
سانحۂ کربلا یا واقعہ کربلا یا کربلا کی جنگ 10 محرم 61ھ (بمطابق 9 یا 10 اکتوبر، 680ء) کو، موجودہ عراق میں کربلا کے مقام پر پیش آیا۔ یہ جنگ نواسہ رسول حضرت امام حسین ابن علی، ان کے حامیوں اور رشتہ داروں کے ایک چھوٹے سے گروہ، حسین ابن علیؓ کے ساتھ 72 ساتھی، کچھ غلام، 22 اہل بیت کے جوان اور خاندان نبوی کی کچھ خواتین و بچے شامل تھے اور اموی ظالم حکمران یزید اول کی ایک بڑی فوج کے مابین ہوئی۔جس کو حسین ابنِ علی نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔جس میں اموی خلیفہ یزید اول کی فوج نے پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نواسے حسین ابن علی اور ان کے رفقا کو لڑائی میں شہید کیا، حرم حسین کے خیموں کو لوٹ لیا گیا اور بالآخر آگ لگا دی گئی۔ عمر بن سعد کی فوج نے کربلا کے صحرا میں مقتولین کی لاشیں چھوڑ دیں۔ بنی اسد کے لوگوں نے لاشوں کو تین دن بعد دفن کیا۔ واقعہ کربلا کے بعد، حسین ابن علی کی فوج سے وابستہ متعدد خواتین اور بچوں کو گرفتار کر کے قید کر دیا گیا، بازار اور ہجوم والے مقامات سے گذر کر ان کی توہین کی گئی اور انھیں یزید ابن معاویہ کے دربار شام بھیج دیا گیا تھا۔ جنگ میں شہادت کے بعد حضرت امام حسین کو سید الشہدا کے لقب سے پکارا جاتا ہے۔
حضور سیدنا زید بن حارثہ وہ واحد صحابی ہیں جن کا نام قرآن مجید میں آیا ہے۔ آپ کو بچپن میں اغوا کر کے غلام بنا لیا گیا تھا۔ کئی ہاتھوں سے بکتے ہوئے آپ کو حضرت خدیجۃ الکبریٰ کے بھتیجے حکیم بن حزام نے خرید لیا اور اپنی پھوپھی حضرت خدیجۃ الکبریٰ کی نذر کر دیا حضرت خدیجہ نے اس غلام کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نذر کر دیا یہ درحقیقت ایک آزاد عیسائی خاندان کے لڑکے تھے۔ اس دوران آپ کے والد کو بھی آپ کی خبر پہنچ گئی۔ آپ کے والد حارث اور چچا کعبہ آپ کو لینے مکہ آئے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو منہ مانگی رقم کی پیشکش کر دی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا، "اگر زید تمھارے ساتھ جانا چاہے تو میں کوئی رقم نہ لوں گا۔" زید نے اپنے والدین کی بجائے حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے ساتھ رہنے کو ترجیح دی۔ یہ دیکھ کر آپ کے والد خفا ہوئے اور کہا کہ تم آزادی کی زندگی کو غلامی پر ترجیع دیتے ہو زید نے کہا کہ میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں وہ بات دیکھی کہ ان کے لیے میں باپ تو کیا کائنات چھوڑ سلتا ہوں۔ یہ سن کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم زید کو لے کر خانہ کعبہ میں گئے اور علان فرما دیا کہ لوگوں سن لو میں زید کو آج سے آزاد کر کے اپنا منہ بولا بیٹا بناتا ہوں.اس کے بعد زید بن حارث کی بجائے زید بن محمد کہا جانے لگا۔ یہ دیکھ کر زید کے چچا اور باپ حارث بہت خوش ہوئے اور بخوشی واپس چلے گئے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا برتاؤ اپنے ملازموں کے ساتھ بھی کیسا ہوتا ہوگا۔ اس موقع پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے زید کو اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیا۔غلاموں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے زید ہیں۔آپ تمام غزوات میں شریک تھے۔اور غزوہ مؤتہ میں شہادت نوش فرمائی۔
جنگ موتہ یا غزوہ موتہ جمادی الاول 8ھ (ستمبر 629ء) میں جنوب مغربی اردن میں موتہ کے مقام پر ہوئی جو دریائے اردن اور اردن کے شہر کرک کے درمیان میں ہے۔ اس میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شریک نہیں تھے اس لیے اسے غزوہ نہیں کہتے بلکہ جنگ یا سریہ یا معرکہ (عربی میں معركة مؤتہ ) کہتے ہیں۔ اس میں علی المرتضی سمیت کئی جلیل القدر صحابہ شامل نہیں تھے۔ یہ بازنطینی (مشرقی رومی) افواج اور مسلمانوں کے درمیان میں ہوئی۔ بازنطینی افواج میں نصف عرب مسیحی بھی شامل تھے جن کا تعلق اردن و بلاد شام سے تھا۔ جنگ کسی واضح نتیجہ کے بغیر ختم ہوئی اور طرفین (آج کے مسلمان اور مغربی دنیا) اسے اپنی اپنی فتح سمجھتے ہیں۔
علامہ شبلی نعمانی کی پیدائش اعظم گڑھ ضلع کے ایک گاؤں بندول جیراج پور میں4 /جون 1857ء کو ہوئی تھی- ابتدائی تعلیم گھر ہی پر مولوی فاروق چریاکوٹی سے حاصل کی- 1876ء میں حج کے لیے تشریف لے گئے۔ وکالت کا امتحان بھی پاس کیا اور وکالت بھی کی مگر اس پیشہ سے دلچسپی نہ ہونے کے سبب ترک کر دی۔ علی گڑھ گئے تو سرسید احمد خان سے ملاقات ہوئی، چنانچہ فارسی کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ یہیں سے شبلی نے علمی و تحقیقی زندگی کا آغاز کیا۔ پروفیسر آرنلڈ سے فرانسیسی سیکھی۔ 1892ء میں روم اور شام کا سفر کیا۔ 1898ء میں ملازمت ترک کرکے اعظم گڑھ آ گئے۔ 1913ء میں دار المصنفین کی بنیاد ڈالی۔ 1914ء میں انتقال ہوا۔
خلافت راشدہ کے خاتمے کے بعد عربوں کی قائم کردہ دو عظیم ترین سلطنتوں میں سے دوسری سلطنت خلافت عباسیہ ہے۔ خاندان عباسیہ کے دو بھائیوں السفاح اور ابو جعفر المنصور نے 750ء (132ھ) خلافت عباسیہ کو قائم کیا اور 1258ء (656ھ) میں اس کا خاتمہ ہو گیا۔ یہ خلافت بنو امیہ کے خلاف ایک تحریک کے ذریعے قائم ہوئی۔ تحریک نے ایک عرصے تک اپنے مقاصد کے حصول کے لیے جدوجہد کی اور بالآخر بنو امیہ کو شکست دینے کے بعد بر سر اقتدار آگئی۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دعوت اسلام سے جب دینِ حق روز بروز پھلنے پھولنے لگا اور حمزہ اور عمر رضی اللہ عنہم اجمعین جیسی جلیل القدر ہستیاں بھی ایمان لے آئیں تو اسلام کو زبردست تقویت ملی لیکن جیسے جیسے اسلام غرباء اور کمزوروں سے بڑھ کر ان معززین میں پھیلا قریش کی مخالفت اسی قدر تیز ہوتی گئی۔ اب انھوں نے غریب مسلمانوں کو مشق ستم بنایا جسے مسلمان تو اسلام کی خاطر برداشت کرتے رہے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان بے گناہوں پر ظلم و ستم برداشت نہ کر سکے اور مسلمانوں کو سکون کی خاطر حبشہ کی طرف ہجرت کا حکم دیا جو ایک مسیحی ملک تھا۔ یہاں کا بادشاہ نجاشی رحمدل تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم سے مسلمانوں نے سکون کی خاطر نبوت کے پانچویں سال ہجرت کی جس میں 11 مرد اور 4 عورتیں شامل تھیں۔ ان میں عثمان رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ اور رقیہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا بھی تھیں۔ حبشہ کی طرف دو ہجرتیں ہوئیں
حسین بن علی بن ابی طالب ( عربی: ٱلْحُسَيْن ٱبْن عَلِيّ 10 جنوری 623 - 10 اکتوبر 680) محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نواسے اور علی ابن ابی طالب اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی فاطمہ زہرا کے بیٹے تھے۔ وہ اسلام میں ایک اہم شخصیت ہیں کیوں کہ وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے آل میں سے ہیں اور اہل تشیع مکتب فکر میں تیسرے امام بھی سمجھے جاتے ہیں۔
خدیجہ بنت خویلد (پیدائش: 556ء – وفات: 30 اپریل 619ء) مکہ کی ایک معزز، مالدار، عالی نسب خاتون جن کا تعلق عرب کے قبیلے قریش سے تھا۔ جو حسن صورت و سیرت کے لحاظ سے "طاہرہ" کے لقب سے مشہور تھیں۔ انھوں نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تجارتی کاروبار میں شریک کیا اور کئی مرتبہ اپنا سامانِ تجارت دے کر بیرون ملک بھیجا۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تاجرانہ حکمت، دیانت، صداقت، محنت اور اعلیٰ اخلاق سے اتنی متاثر ہوئیں کہ آپ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو شادی کا پیغام بھجوایا۔ جس کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے بڑوں کے مشورے سے قبول فرمایا۔ اس وقت ان کی عمر چاليس سال تھی جبکہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم صرف پچیس سال کے تھے۔ خدیجہ نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور پہلی ام المومنین ہونے کی سعادت حاصل کی۔ اور 25 سال نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اکلوتی زوجہ اور غمگسار شدید ترین مشکلات میں ساتھی تھیں۔ بقیہ تمام ازواج النبی ان کی وفات کے بعد زوجہ بنیں۔
اردو زبان کی ابتدا کے متعلق نظریات
اردو کی ابتدا و آغاز کے بارے میں کئی مختلف نظریات ملتے ہیں یہ نظریات آپس میں اس حد تک متضاد ہیں کہ انسان چکرا کر رہ جاتا ہے۔ ان مشہور نظریات میں ایک بات مشترک ہے کہ ان میں اردو کی ابتدا کی بنیاد برصغیر پاک و ہند میں مسلمان فاتحین کی آمد پر رکھی گئی ہے۔ اور بنیادی استدلال یہ ہے کہ اردو زبان کا آغاز مسلمان فاتحین کی ہند میں آمد اور مقامی لوگوں سے میل جول اور مقامی زبان پر اثرات و تاثر سے ہوا۔ اور ایک نئی زبان معرض وجود میں آئی جو بعد میں اردو کہلائی۔ کچھ ماہرین لسانیات نے اردو کی ابتدا کا سراغ قدیم آریاؤں کے زمانے میں لگانے کی کوشش کی ہے۔اردو زبان کی ابتدا کے بارے میں ایک خیال یہ بھی ہے کہ یہ ہریانوی زبان سے شروع ہوئی۔ بہر طور اردو زبان کی ابتدا کے بارے میں کوئی حتمی بات کہنا مشکل ہے۔ اردو زبان کے محققین اگرچہ اس بات پر متفق ہیں کہ اردو کی ابتدا مسلمانوں کی آمد کے بعد ہوئی لیکن مقام اور نوعیت کے تعین اور نتائج کے استخراج میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس انداز سے اگر اردو کے متعلق نظریات کو دیکھا جائے تو وہ نمایاں طور پر چار مختلف نظریات کی شکل میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔
فاطمہ بنت محمد بن عبد اللہ جن کا معروف نام فاطمۃ الزہراء ہے حضرت محمد بن عبد اللہ اور خدیجہ بنت خویلد کی بیٹی تھیں۔ تمام مسلمانوں کے نزدیک آپ ایک برگزیدہ ہستی ہیں۔۔ آپ کی ولادت 20 جمادی الثانی بروز جمعہ بعثت کے پانچویں سال میں مکہ میں ہوئی۔ آپ کی شادی علی ابن ابی طالب سے ہوئی جن سے آپ کے دو بیٹے حسن اور حسین اور دو بیٹیاں زینب اور ام کلثوم پیدا ہوئیں۔ آپ کی وفات اپنے والد حضرت محمد بن عبد اللہ کی وفات کے کچھ ماہ بعد 632ء میں ہوئی۔ آپ کے بہت سے القابات مشہور ہیں۔
“لفظ قصیدہ عربی لفظ قصد سے بنا ہے اس کے لغوی معنی قصد (ارادہ ) کرنے کے ہیں۔ گویا قصیدے میں شاعر کسی خاص موضوع پر اظہار خیال کرنے کا قصد کرتا ہے اس کے دوسرے معانی مغز کے ہیں یعنی قصیدہ اپنے موضوعات و مفاہیم کے اعتبار سے دیگر اصناف ِ شعر کے مقابلے میں وہی نمایاں اور امتیازی حیثیت رکھتا ہے جو انسانی جسم و اعضاءمیں مغز کو حاصل ہوتی ہے فارسی میں قصیدے کو چامہ بھی کہتے ہیں”۔
صحیح بخاری کا اصل نام «الجامع المسند الصحیح المختصر من امور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وسننہ و ایامہ» ہے جو «صحیح البخاری» کے نام سے مشہور ہے، یہ اہل سنت وجماعت کے مسلمانوں کی سب سے مشہور حدیث کی کتاب ہے، اس کو امام محمد بن اسماعیل بخاری نے سولہ سال کی مدت میں بڑی جانفشانی اور محنت کے ساتھ تدوین کیا ہے، اس کتاب کو انھوں نے چھ لاکھ احادیث سے منتخب کر کے جمع کیا ہے۔ اہل سنت کے یہاں اس کتاب کو ایک خاص مرتبہ و حیثیت حاصل ہے اور ان کی حدیث میں چھ امہات الکتب (صحاح ستہ) میں اول مقام حاصل ہے، خالص صحیح احادیث میں لکھی جانی والی پہلی کتاب شمار ہوتی ہے، اسی طرح اہل سنت میں قرآن مجید کے بعد سب سے صحیح کتاب مانی جاتی ہے۔ ذہبی کہتے ہیں: «امام بخاری کی جامع الصحیح، کتاب اللہ کے بعد اسلام کی سب معتبر اور افضل کتاب ہے»۔</ref> اسی طرح صحیح بخاری کا شمار کتب الجوامع میں بھی ہوتا ہے، یعنی ایسی کتاب جو اپنے فن حدیث میں تمام ابواب عقائد، احکام، تفسیر، تاریخ، زہد اور آداب وغیرہ پر مشتمل اور جامع ہو۔
عید الفطر ایک اہم مذہبی تہوار ہے جسے پوری دنیا میں بسنے والے مسلمان رمضان المبارک کا مہینہ ختم ہونے پر مناتے ہیں۔ عید کے دن مسلمانوں کو روزہ رکھنے سے منع کیا گیا ہے۔ مسلمان رمضان کے 29 یا 30 روزے رکھنے کے بعد یکم شوال کو عید مناتے ہیں۔ کسی بھی قمری ہجری مہینے کا آغاز مقامی مذہبی رہنماؤں کے چاند نظر آجانے کے فیصلے سے ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک میں عید مختلف دنوں میں منائی جاتی ہے۔ اس کے برعکس کچھ ممالک ایسے ہیں جو سعودی عرب کی پیروی کرتے ہیں۔ عید الفطر کے دن نماز عید (دو رکعت 6 زائد تکبیروں)کے ساتھ پڑھی جاتی ہے، جسے جامع مسجد یا کسی کھلے میدان یعنی عیدگاہ میں ادا کیا جاتا ہے۔ اس میں 6 زائد تکبیریں ہوتی ہیں (جن میں سے 3 پہلی رکعت کے شروع میں ثنا کے بعد اور فاتحہ سے پہلے اور بقیہ 3 دوسری رکعت کے رکوع میں جانے سے پہلے ادا کی جاتی ہیں)۔ مسلمان کا عقیدہ ہے کہ اسلام میں انھیں حکم دیا گیا ہے کہ "رمضان کے آخری دن تک روزے رکھو۔ اور عید کی نماز سے پہلے صدقہ فطر ادا کرو"۔
امام احمد رضا خان (14 جون 1856ء – 28 اکتوبر 1921ء) بیسویں صدی عیسوی کے مجدد، نامور حنفی فقہیہ، محدث، اصولی، نعت گو شاعر، علوم نقلیہ وعقلیہ کے ماہر، سلسلہ قادریہ کے شیخ، عربی، فارسی اور اردو کی کثیر کتابوں کے مصنف جن میں مشہور ترجمہ قرآن کنزالایمان، فتاوی کا مجموعہ فتاویٰ رضویہ اور نعتیہ دیوان حدائق بخشش مشہور ہیں۔ احمد رضا خان نے شدت سے تقلید اور حنفیت کا دفاع کیا سلسلۂ حدیث میں شاہ ولی اللہ اور عبد الحق محدث دہلوی سے استفادہ کیا اور فقہ میں سند اجازت شیخ عبد الرحمن حنفی مکی سے حاصل کی، جن کا سلسلہ عبد اللہ بن مسعود تک پہنچتا ہے۔ احمد رضا خان نے دو قومی نظریہ کا پرچار کیا اور کسی بھی سطح پر ہندو مسلم اتحاد کو رد کیا، تحریک ترک موالات اور تحریک خلافت میں مسلمانوں کو متنبہ کیا کہ ان تحریکوں میں مسلم ہندو اتحاد کا نعرہ لگایا جا رہا ہے جو شرعی حیثیت سے ناجائز ہے۔ عورتوں کی ضروری دینی تعلیم کی سختی سے تلقین کی، عورتوں کے زیارت قبور کے لیے گھر سے نکلنے کے مسئلے پر ممانعت کا فتوی دیا۔
افغانستان اے کرکٹ ٹیم کا دورہ سری لنکا 2024ء
افغانستان اے کرکٹ ٹیم سری لنکا اے کرکٹ ٹیم سے کھیلنے کے لیے اپریل اور مئی 2024ء میں سری لنکا کا دورہ کرنے والی ہے۔ یہ دورہ 5 لسٹ اے اور ایک فرسٹ کلاس میچوں پر مشتمل ہوگا۔ فروری 2024ء میں افغانستان کرکٹ بورڈ (اے سی بی) نے دورے کی تاریخوں کی تصدیق کی۔ مارچ 2024ء میں سری لنکا کرکٹ (ایس ایل سی) نے پورے دورے کے پروگرام کا اعلان کیا جس میں ایک روزہ اور 4 روزہ میچ بالترتیب ہمبنٹوٹا اور کولمبو میں کھیلے جائیں گے۔ افغانستان اے 25 اپریل 2024ء کو سری لنکا پہنچے گا۔
بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن گوجرانوالہ
بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن، گوجرانوالہ پاکستان میں ایک تعلیمی بورڈ ہے۔ اس کا مرکزی دفتر گوجرانوالہ میں ہے۔
کمپنی کوارٹر ماسٹر حوالدار ویر عبد الحمید (1جولائی 1933 – 10 ستمبر 1965) ہندوستانی فوج کے فوجی تھے۔ ویر عبد الحمید چوتھے بھارتی آرمی گریناڈیر میں ایک فوجی تھے۔ 1965 کے بھارت اور پاک جنگ کے دوران، شہید ہوئے۔ جبکہ اس وقت لڑائی میں کھیم کرن سیکٹر کے اسال اتاڈ میں ہوئی جنگ میں شاندار جنگی جوہر کا مظاہرہ کیا تھا۔ جس کے نتیجے میں آپ کو ہندوستانی فوج کے اعلیٰ ترین اعزاز پرم ویر چکر بعد از مرگ دیا گیا۔ شہادت سے پہلے پرم ویر عبد الحمید نے اس وقت "گن ماؤنٹیڈ جیپ" سے پاکستان کے "پٹن ٹینک" کو تباہ کر دیا تھا جو اس وقت ناقابل تصور سمجھا جاتا تھا۔
اردو ادب میں کل دو اصناف ہیں: پہلا اصناف شاعری اور دوسرا اصناف نثر اصناف نثر میں داستان کے علاوہ تمام اصناف انگریزی سے مستعار ہے اور اصناف شاعری یعنی (نظم) میں جتنے بھی ہیں حمد، نظم، غزل، مثنوی، قصیدہ، مرثیہ، رباعی، مخمس، مسدس، مثمن، قطعہ، نعت، یہ سب صرف گیت، دوہوں اور سانٹوکوچھوڑ کر سب عربی فارسی سے مستعار ہیں ان تمام صنف میں سب سے مشہور صنف غزل ہے، جسے ہر خاص و عام نے قبول کیا اور سراہا ہے مگر اردو شاعری کی سب سے وسیع قسم اردو نظم ہے۔ اردو نظم میں بہت زیادہ تجربے کیے گئے ہیں اور یہی اس کی وسعت کی دلیل ہے۔ نظیر اکبر آبادی، الطاف حسین حالی، اکبر الہ آبادی اور اقبال، جوش ملیح آبادی، مولانا انعاؔم تھانوی، ساحر لدھیانوی، فیض احمد فیض، علی سردار جعفری، ن م راشد، اسماعیل میرٹھی، نظم طباطبائی، جون ایلیا نظم کے بڑے شاعروں میں سے ہیں۔ اردو میں نظم کی صنف انیسویں صدی کی آخری دہائیوں کے دوران میں انگریزی کے اثر سے پیدا ہوئی، جو دھیرے دھیرے پوری طرح قائم ہو گئی۔ نظم بحر اور قافیے میں بھی ہوتی ہے اور اس کے بغیر بھی۔ اب نثری نظم بھی اردو میں مستحکم ہو گئی ہے۔ نثری نظم کے حوالے سے میراجی، ن م راشد سے ہوتے ہوئے احمد ہمیش سے ہوتے ہوئے جواز جعفری تک سلسلہ آتا ہے؛ لیکن ایک اور بات ...! اس سارے سلسلے میں ڈاکٹر وحید احمد آج بھی نمایاں ہیں۔ موجودہ دور میں بھی نثری نظم کے بہت سے شاعر موجود ہیں۔جن میں ایک نام منصف ہاشمی کا بھی ہے۔ اس کی اس حوالے سے پہلی کتاب کا نام "مٹھی میں ستارے لیے" اور دوسری کتاب "عشق" کے نام سے منظر عام پر آئیں.
امیر معاویہ بن ابو سفیان یا معاویہ اول (عربی: معاوية بن أبي سفيان، 597ء، 603ء یا 605ء – اپریل 680ء) خلافت امویہ کے بانی تھے اور 661ء سے اپنی وفات 680ء تک خلیفہ رہے۔ وہ نبی محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے 30 سال بعد خلیفہ بن گئے، ان سے قبل خلفائے راشدین اور حسن ابن علی خلیفہ رہے۔ اگرچہ ان کے دور میں انفاص و تقوی کو دور خلفائے راشدین کے مقابلے میں کمتر سمجھا جاتا ہے، لیکن نمو پزیر اسلام میں امیر معاویہ پہلے مسلمان خلیفہ ہیں جن کا نام سرکاری دستاویزات، سکوں اور کتبوں پر کندہ ہوا۔ امیر معاویہ کاتبین وحی میں سے تھے۔
حليمہ بنت ابی ذؤيب (وفات: 8ھ/ 629ء) محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رضاعی والدہ ہیں، بی بی ثویبہ کے بعد محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو آپ نے ہی آخر تک دودھ پلایا، اس وقت آپ کے ساتھ عبد اللہ ابن حارث کو بھی دودھ پلایا، آپ کی بڑی بیٹی شیما حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو گود میں کھلاتی لوریاں دیتی تھیں۔ چار پانچ سال حلیمہ کے پاس بادیہ بنو سعد میں مقیم رہے۔ پھر آپ کی والدہ حضرت آمنہ کے پاس پہنچا گئیں۔ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ آپ کی تربیت بنو سعد میں ہوئی تھی اس لیے آپ کی زبان بالکل بے عیب ہے ۔