اردو ویکیپیڈیا کے سب سے زیادہ ملاحظہ کردہ مضامین کی فہرست۔ مزید معلومات کے لیے ۔ ۔ ۔
قرآن، قرآن مجید یا قرآن شریف (عربی: القرآن الكريم) دین اسلام کی مقدس و مرکزی کتاب ہے جس کے متعلق اسلام کے پیروکاروں کا اعتقاد ہے کہ وہ کلام الہی ہے اور اسی بنا پر یہ انتہائی محترم و قابل عظمت کتاب ہے۔ اسے پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی کے ذریعے اتارا گیا۔ یہ وحی اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتے حضرت جبرائیل علیہ السلام لاتے تھے جیسے جیسے قرآن مجید کی آیات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوتیں آپ صلی علیہ وآلہ وسلم اسے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو سنا اور ان آیات کے مطالب و معانی سمجھا دیتے۔ کچھ صحابہ کرام تو ان آیات کو وہیں یاد کر لیتے اور کچھ لکھ کر محفوظ کر لیتے۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن ہر قسم کی تحریف سے پاک سے محفوظ ہے، قرآن میں آج تک کوئی کمی بیشی نہیں ہو سکی اور اسے دنیا کی واحد محفوظ کتاب ہونے کی حیثیت حاصل ہے، جس کا حقیقی مفہوم تبدیل نہیں ہو سکا اور تمام دنیا میں کروڑوں کی تعداد میں چھپنے کے باوجود اس کا متن ایک جیسا ہے اور اس کی تلاوت عبادت ہے۔ نیز صحف ابراہیم، زبور اور تورات و انجیل کے بعد آسمانی کتابوں میں یہ سب سے آخری کتاب ہے اور سابقہ آسمانی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اب اس کے بعد کوئی آسمانی کتاب نازل نہیں ہوگی۔ قرآن کی فصاحت و بلاغت کے پیش نظر اسے لغوی و مذہبی لحاظ سے تمام عربی کتابوں میں اعلیٰ ترین مقام دیا گیا ہے۔ نیز عربی زبان و ادب اور اس کے نحوی و صرفی قواعد کی وحدت و ارتقا میں بھی قرآن کا خاصا اہم کردار دکھائی دیتا ہے۔ چنانچہ قرآن کے وضع کردہ عربی زبان کے قواعد بلند پایہ عرب محققین اور علمائے لغت مثلاً سیبویہ، ابو الاسود الدؤلی اور خلیل بن احمد فراہیدی وغیرہ کے یہاں بنیادی ماخذ سمجھے گئے ہیں۔
ابو القاسم محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب (12 ربیع الاول عام الفیل / 8 جون 570ء یا 571ء – 12 ربیع الاول 10ھ / 8 جون 632ء) مسلمانوں کے آخری نبی ہیں۔ اہل اسلام کے نزدیک محمد تمام مذاہب کے پیشواؤں سے کامیاب ترین پیشوا تھے۔ آپ کی کنیت ابوالقاسم تھی۔ مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ کی طرف سے انسانیت کی جانب بھیجے جانے والے انبیا اکرام کے سلسلے کے آخری نبی ہیں جن کو اللہ نے اپنے دین کی درست شکل انسانوں کی جانب آخری بار پہنچانے کیلئے دنیا میں بھیجا۔ انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دنیا کی تمام مذہبی شخصیات میں سب سے کامیاب شخصیت تھے۔ 570ء (بعض روایات میں 571ء) مکہ میں پیدا ہونے والے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر قرآن کی پہلی آیت چالیس برس کی عمرمیں نازل ہوئی۔ ان کا وصال تریسٹھ (63) سال کی عمر میں 632ء میں مدینہ میں ہوا، مکہ اور مدینہ دونوں شہر آج کے سعودی عرب میں حجاز کا حصہ ہیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف کے والد کا انتقال ان کی دنیا میں آمد سے قریبا چھ ماہ قبل ہو گیا تھا اور جب ان کی عمر چھ سال تھی تو ان کی والدہ حضرت آمنہ بھی اس دنیا سے رحلت فرما گئیں۔ عربی زبان میں لفظ "محمد" کے معنی ہیں 'جس کی تعریف کی گئی'۔ یہ لفظ اپنی اصل حمد سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے تعریف کرنا۔ یہ نام ان کے دادا حضرت عبدالمطلب نے رکھا تھا۔ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو رسول، خاتم النبیین، حضور اکرم، رحمت للعالمین اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے القابات سے بھی پکارا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی آپ کے بہت نام و القاب ہیں۔ نبوت کے اظہار سے قبل حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے چچا حضرت ابوطالب کے ساتھ تجارت میں ہاتھ بٹانا شروع کر دیا۔ اپنی سچائی، دیانت داری اور شفاف کردار کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عرب قبائل میں صادق اور امین کے القاب سے پہچانے جانے لگے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنا کثیر وقت مکہ سے باہر واقع ایک غار میں جا کر عبادت میں صرف کرتے تھے اس غار کو غار حرا کہا جاتا ہے۔ یہاں پر 610ء میں ایک روز حضرت جبرائیل علیہ السلام (فرشتہ) ظاہر ہوئے اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اللہ کا پیغام دیا۔ جبرائیل علیہ السلام نے اللہ کی جانب سے جو پہلا پیغام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پہنچایا وہ یہ ہے۔
انا لله و انا الیہ راجعون (عربی: إِنَّا لِلَّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ) قرآن میں سورۃ البقرہ کی آیت 156 کے ایک حصے سے لیا گیا ہے۔، کا مطلب ہے "ہم خدا کے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔" جب مسلمان کسی کی موت یا مصیبت کا سنتے ہیں تو یہ آیت پڑھتے ہیں۔ وہ اس آیت کو تعزیت کہنے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں اور مصیبت کے وقت صبر کا مطالبہ کرتے ہیں۔
ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال (ولادت: 9 نومبر 1877ء – وفات: 21 اپریل 1938ء) بیسویں صدی کے ایک معروف شاعر، مصنف، قانون دان، سیاستدان اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھے۔ اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے اور یہی ان کی بنیادی وجہ شہرت ہے۔ شاعری میں بنیادی رجحان تصوف اور احیائے امت اسلام کی طرف تھا۔ "دا ریکنسٹرکشن آف ریلیجس تھاٹ ان اسلام" کے نام سے انگریزی میں ایک نثری کتاب بھی تحریر کی۔ علامہ اقبال کو دور جدید کا صوفی سمجھا جاتا ہے۔ بحیثیت سیاست دان ان کا سب سے نمایاں کارنامہ نظریۂ پاکستان کی تشکیل ہے، جو انہوں نے 1930ء میں الہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پیش کیا تھا۔ یہی نظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا۔ اسی وجہ سے علامہ اقبال کو پاکستان کا نظریاتی باپ سمجھا جاتا ہے۔ گو کہ انہوں نے اس نئے ملک کے قیام کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن انہیں پاکستان کے قومی شاعر کی حیثیت حاصل ہے۔
ابوبکر صدیق عبد اللہ بن ابو قحافہ عثمان تیمی قرشی (573ء—634ء) اسلام کے پہلے خلیفہ راشد، عشرہ مبشرہ میں شامل، خاتم النبین محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اولین جانشین، صحابی، خسر اور ہجرت مدینہ کے وقت رفیق سفر تھے۔ اہل سنت و الجماعت کے یہاں ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ انبیا اور رسولوں کے بعد انسانوں میں سب سے بہتر، صحابہ میں ایمان و زہد کے لحاظ سے سب سے برتر اور ام المومنین عائشہ بنت ابوبکر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے محبوب تر تھے۔ عموماً ان کے نام کے ساتھ صدیق کا لقب لگایا جاتا ہے جسے حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی تصدیق و تائید کی بنا پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دیا تھا۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان جنوبی ایشیا کے شمال مغرب وسطی ایشیا اور مغربی ایشیا کے لیے دفاعی طور پر اہم حصے میں واقع ایک خود مختار اسلامی ملک ہے۔ یہ دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے، جس کی آبادی تقریباً 242 ملین ہے اور دنیا کی دوسری سب سے بڑی مسلم آبادی والا ملک ہے۔ 881,913 مربع کلومیٹر (340,509 مربع میل) کے ساتھ یہ دنیا کا تینتیسواں بڑے رقبے والا ملک ہے۔ اس کے جنوب میں 1046 کلومیٹر (650 میل) کی ساحلی پٹی ہے جو بحیرہ عرب سے ملتی ہے۔پاکستان کے مشرق ميں بھارت، شمال مشرق ميں چین اور مغرب ميں افغانستان اور ايران واقع ہيں۔ پاکستان کو شمال میں ایک تنگ واخان راہداری تاجکستان سے جدا کرتی ہے جبکہ اس ملک کی سمندری سرحدی حدود اومان کے سمندری حدود سے بھی ملتی ہیں۔
اللہ کے ذاتی نام 'اللہ' کے علاوہ اللہ کے ننانوے صفاتی نام مشہور ہیں۔ انہیں کہا جاتا ہے۔ ان میں سے بیشتر قرآن میں موجود ہیں اگرچہ قرآن میں ننانوے کی تعداد مذکور نہیں مگر یہ ارشاد ہے کہ اللہ کو اچھے اچھے ناموں سے پکارا جائے۔ روایات میں بکثرت نیچے دیے گئے ننانوے صفاتی نام ملتے ہیں جن کے ساتھ ان کا اردو ترجمہ بھی درج کیا جا رہا ہے۔
ابوحفص عمر فاروق بن خطاب عدوی قرشی (586ء/590ء، مکہ - 6 نومبر 644ء، مدینہ) ابوبکر صدیق کے بعد مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ راشد، محمد مصطفی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سسر اور تاریخ اسلام کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک ہیں۔ عمر بن خطاب عشرہ مبشرہ میں سے ہیں، ان کا شمار علما و زاہدین صحابہ میں ہوتا تھا۔ ابوبکر صدیق کی وفات کے بعد 23 اگست سنہ 634ء مطابق 22 جمادی الثانی سنہ 13ھ کو مسند خلافت سنبھالی۔ عمر بن خطاب ایک باعظمت، انصاف پسند اور عادل حکمران مشہور ہیں، ان کی عدالت میں مسلم و غیر مسلم دونوں کو یکساں انصاف ملا کرتا تھا، عمر بن خطاب کا یہ عدل و انصاف انتہائی مشہور ہوا اور ان کے لقب فاروق کی دیگر وجوہ تسمیہ میں ایک وجہ یہ بھی بنی۔ آپ رضی اللہ عنہ کا نسب نویں پشت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے جا ملتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نویں پشت میں کعب کے دو بیٹے ہیں مرہ اور عدی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مرہ کی اولاد میں سے ہیں، جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ عدی کی اولاد میں سے ہیں۔
بیگم رعنا لیاقت علی(ولادت: 13 فروری 1905ء ،|وفات: 13 جون 1990ء) 1947ء سے 1951ء تک پاکستان کی خاتون اول، پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی بیگم، تحریک پاکستان کی رکن اور سندھ کی پہلی خاتون گورنر تھیں۔ وہ اپنے شوہر کے ہمراہ تحریک پاکستان کی صف اول کی خواتین میں شامل تھیں۔ بیگم رعنا ان خواتین سیاست دانوں اور ملک گیر معزز خواتین شخصیات میں شامل تھیں جنہوں نے 1940ء میں اپنے کیریئر کا آغاز کیا اور پاکستان میں اہم واقعات کا مشاہدہ کیا۔ وہ تحریک پاکستان کی ایک اہم اور سرکردہ خاتون شخصیت میں سے ایک تھیں اور انہوں نے محمد علی جناح کے تحت کام کیا اور پاکستان موومنٹ کمیٹی کی ذِمّہ دار رکن کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ انہوں نے جناح کی پاکستان موومنٹ کمیٹی میں معاشی مشیر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں اور بعد میں جب ان کے شوہر لیاقت خان علی پاکستان کے پہلے وزیر اعظم بنے تو پاکستان کی خاتون اول بھی بنیں۔ خاتون اول پاکستان کی حیثیت سے، انہوں نے نئے قائم ملک (پاکستان) میں خواتین کی ترقی کے لیے پروگرام شروع کیے۔
حروف مقطعات (عربی:مقطعات، أوائل السور، فواتح السور) قرآن مجید میں استعمال ہونے والے وہ عربی ابجد کے حروف ہیں جو قرآن کی بعض سورتوں کی ابتدائی آیت کے طور پر آتے ہیں۔ مثلاً الم، المر وغیرہ۔ یہ عربی زبان کے ایسے الفاظ نہیں ہیں جن کا مطلب معلوم ہو۔ ان پر بہت تحقیق ہوئی ہے مگر ان کا مطلب اللہ ہی کو معلوم ہے۔ مقطعات کا لفظی مطلب اختصار (انگریزی میں abbreviation) کے ہیں۔ بعض خیالات کے مطابق یہ عربی الفاظ کے اختصارات ہیں اور بعض لوگوں کے مطابق یہ کچھ رمز (code) ہیں۔ یہ حروف 29 سورتوں کی پہلی آیت کے طور پر ہیں اور سورۃ الشوری (سورۃ کا شمار: 42) کی دوسری آیت کے طور پر بھی آتے ہیں۔ یعنی یہ ایک سے پانچ حروف پر مشتمل 30 جوڑ (combinations) ہیں۔ جو 29 سورتوں کے شروع میں قرآن میں ملتے ہیں۔
نجم الدولہ، دبیر الملک، مرزا نوشہ اسد اللہ خان غالب بہادر نظام جنگ (1797ء- 1869ء) اردو زبان کے سب سے بڑے شاعروں میں ایک سمجھے جاتے ہیں۔ یہ تسلیم شدہ بات ہے کہ 19 ویں صدی غالب کی صدی ہے۔ جبکہ 18 ویں میر تقی میر کی تھی اور 20 ویں علامہ اقبال کی۔ غالب کی عظمت کا راز صرف ان کی شاعری کے حسن اور بیان کی خوبی ہی میں نہیں ہے۔ ان کا اصل کمال یہ ہے کہ وہ زندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کو گہرائی میں جا کر سمجھتے تھے اور بڑی سادگی سے عام لوگوں کے لیے بیان کر دیتے تھے۔ غالب جس پر آشوب دور میں پیدا ہوئے اس میں انہوں نے مسلمانوں کی ایک عظیم سلطنت کو برباد ہوتے ہوئے اور باہر سے آئی ہوئی انگریز قوم کو ملک کے اقتدار پر چھاتے ہوئے دیکھا۔ غالباً یہی وہ پس منظر ہے جس نے ان کی نظر میں گہرائی اور فکر میں وسعت پیدا کی۔
احمد خان متقی بن محمد متقی (17 اکتوبر 1817ء – 27 مارچ 1898ء) المعروف سر سید، سر سید احمد خان انیسویں صدی کے ایک ہندوستانی مسلم نظریۂ عملیت کے حامل ، مصلح اور فلسفی تھے۔ ان کو برصغیر میں مسلم قوم پرستی کا سرخیل مانا جاتا ہے اور دو قومی نظریہ کا خالق تصور کیا جاتا ہے، جو آگے چل کر تحریک پاکستان کی بنیاد بنا۔
سُلطان الہند خواجہ سیّد معین الدین چشتی (1142ء-1236ء) فارسی نژاد روحانی پیشوا، واعظ، عالم، فلسفی، صوفی اور زاہد نیز اجمیری سلسلۂ چشتیہ کے مشہور بزرگ تھے۔ ان کا آبائی وطن سیستان تھا۔ 13ویں صدی کے اوائل میں انہوں نے برصغیر کا سفر کیا اور یہیں بس گئے اور تصوف کے مشہور سلسلہ چشتیہ کو خوب فروغ بخشا۔ تصوف کا یہ سلسلہ قرون وسطی کے ہندوستان میں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا اور اس طریقت کو کئی سنی اولیا نے اپنایا جن میں نظام الدین محمداولیاء (وفات: 1325) اور امیر خسرو (وفات: 1325) جیسی عظیم الشان شخصیات بھی شامل ہیں۔ معین الدین چشتی کو برصغیر کا سب سے بڑا ولی اور صوفی سمجھا جاتا ہے۔ خواجہ غریب نواز وہ پہلے بزرگ ہیں جنھوں نے غیر عرب مسلمانوں کو سماع کی طرف راغب کیا اور تقرب الہی کی غرض سے حالت وجد میں سماع کی اجازت دی تاکہ نو مسلموں کو اجنبیت کا احساس نہ ہو اور بھجن اور گیت کے عادی قوالی اور سماع کے ذریعے اللہ سے تقرب حاصل کریں۔ حالانکہ بعض علما کا کہنا ہے کہ ان کا یہ فیصلہ صد فیصد درست نہیں تھا کیونکہ ان ہی کے سلسلہ کے بزرگ نظام الدین اولیاء نے تمام قسم کے آلات موسیقی کو حرام قرار دے دیا تھا۔
رموز اوقاف (انگریزی: Punctuation) وہ علامتیں اور نشانیاں ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ عبارت میں کس جگہ اور کس طرح وقف کرنا ہے۔ رموز، رمز کی جمع ہے جس کا مطلب ہے علامت یا اشارہ جبکہ اوقاف، وقف کی جمع ہے جس کے معنی ٹھہرنے یا رکنے کے ہیں، یعنی رموز اقاف یا علامات وقف اُن اشاروں یا علامتوں کو کہتے ہیں جو کسی عبارت کے ایک جملے کے ایک حصے کو اس کے باقی حصوں سے علاحدہ کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ اردو، انگریزی یا دوسری زبانوں کے قواعد میں ان اوقاف اور علامات کو بہت اہمیت حاصل ہے اگر ان کا خیال نہ رکھا جائے تو مفہوم کچھ سے کچھ بلکہ بعض اوقات تو اس کے بالکل اُلٹ ہو جاتا ہے جہاں ٹھہرنا یا وقفہ کرنا ہو ان کے لیے اردو میں درج ذیل رموز اوقاف استعمال ہوتے ہیں۔ ختمہ (۔)، سوالیہ (؟)، سکتہ (،) تفصیلہ (:_)، قوسین () واوین (” “) ندائیہ یا فجائیہ (!) علامت شعر(؎) علامت مصرع (؏) علامت وغیرہ۔
میر تقی میر (پیدائش: 28 مئی 1723ء— وفات: 22 ستمبر 1810ء) اصل نام میر محمد تقى اردو كے عظیم شاعر تھے۔ میر ان کا تخلص تھا۔ اردو شاعرى ميں مير تقى مير كا مقام بہت اونچا ہے ـ انہیں ناقدین و شعرائے متاخرین نے خدائے سخن کے خطاب سے نوازا۔ وہ اپنے زمانے كے ايك منفرد شاعر تھےـ۔ آپ كے متعلق اردو كے عظیم الشان شاعرمرزا غالب نے لکھا ہے۔
سانحۂ کربلا یا واقعہ کربلا یا کربلا کی جنگ 10 محرم 61ھ (بمطابق 9 یا 10 اکتوبر، 680ء) کو موجودہ عراق میں کربلا کے مقام پر پیش آیا۔ یہ جنگ نواسہ رسول حضرت امام حسین ابن علی، ان کے حامیوں اور رشتہ داروں کے ایک چھوٹے سے گروہ، حسین ابن علیؓ کے ساتھ 72 ساتھی، کچھ غلام، 22 اہل بیت کے جوان اور خاندان نبوی کی کچھ خواتین و بچے شامل تھے اور اموی ظالم حکمران یزید اول کی ایک بڑی فوج کے مابین ہوئی۔جس کو حسین نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔جس میں اموی خلیفہ یزید اول کی فوج نے پیغمبر اسلام محمد کے نواسے حسین ابن علی اور ان کے رفقا کو لڑائی میں شہید کیا، حرم حسین کے خیموں کو لوٹ لیا گیا اور بالآخر آگ لگا دی گئی۔ عمر بن سعد کی فوج نے کربلا کے صحرا میں مقتولین کی لاشیں چھوڑ دیں۔ بنی اسد کے لوگوں نے لاشوں کو تین دن بعد دفن کیا۔ واقعہ کربلا کے بعد، حسین ابن علی کی فوج سے وابستہ متعدد خواتین اور بچوں کو گرفتار کر کے قید کر دیا گیا، بازار اور ہجوم والے مقامات سے گزر کر ان کی توہین کی گئی اور انہیں یزید ابن معاویہ کے دربار شام بھیج دیا گیا تھا۔ جنگ میں شہادت کے بعد حضرت امام حسین کو سید الشہدا کے لقب سے پکارا جاتا ہے۔
معراج کمالِ معجزاتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ یہ وہ عظیم خارقِ عادت واقعہ ہے جس نے تسخیرِ کائنات کے مقفّل دروازوں کو کھولنے کی اِبتداء کی۔ اِنسان نے آگے چل کر تحقیق و جستجو کے بند کواڑوں پر دستک دی اور خلاء میں پیچیدہ راستوں کی تلاش کا فریضہ سر انجام دیا۔ رات کے مختصر سے وقفے میں جب اللہ ربّ العزّت حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مسجدِ حرام سے نہ صرف مسجد اقصیٰ تک بلکہ جملہ سماوِی کائنات کی بے اَنت وُسعتوں کے اُس پار ’’قَابَ قَوْسَيْنِ‘‘ اور ’’أَوْ أَدْنَى‘‘ کے مقاماتِ بلند تک لے گیا اور آپ مدّتوں وہاں قیام کے بعد اُسی قلیل مدّتی زمینی ساعت میں اِس زمین پر دوبارہ جلوہ اَفروز بھی ہو گئے۔ قرآن کریم میں سورہ بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں ارشادِ خداوندی ہے کہ وہ (ذات) پاک ہے جو ایک رات اپنے بندے کو مسجد الحرام یعنی (خانہ کعبہ) سے مسجد اقصیٰ (یعنی بیت المقدس) تک جس کے اردگرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں لے گیا تاکہ ہم اسے اپنی (قدرت کی) نشانیاں دکھائیں۔ بے شک وہ سننے والا (اور) دیکھنے والا ہے۔ رجب کی ستائیسویں شب کو اللہ کے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو معراج کا شرف عطا کیا گیا۔اگرچہ اس واقعہ کے زمان کے بارے میں کئی روایات موجود ہیں لیکن محققین کی تحقیق کے مطابق یہ واقعہ ہجرت سے تین سال قبل پیش آیا،یعنی دسویں سالِ بعثت کو۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ شیعہ سنی علما کا اتفاق ہے کہ نماز جناب ابو طالبؑ کی وفات کے بعد یعنی بعثت کے دسویں سال کو واجب ہوگئ تو پانچ وقت کی نماز اسی معراج کی رات امت پہ واجب ہو گئی تھی۔منقول ہے کہ اس دن کفار نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بہت ستایا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی چچازاد بہن ام ہانی کے گھر تشریف لے گئے اور وہاں آرام فرمانے لگے۔ ادھر اللہ کے حکم سے حضرت جبرئیل پچاس ہزار فرشتوں کی برات اور براق لے کر نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ کا رب آپ سے ملاقات چاہتا ہے۔ چنانچہ سوئے عرش سفر کی تیاریاں ہونے لگیں۔ سفر معراج کا سلسلہ شروع ہونے والا تھا نبی رحمت کی بارگاہ میں براق حاضر کیا گیا جس پر حضور کو سوار ہونا تھا، مگر اللہ کے پیارے محبوب نے کچھ توقف فرمایا۔ جبرئیل امین نے اس پس و پیش کی وجہ دریافت کی تو آپ نے ارشاد فرمایا: مجھ پر تو اللہ رب العزت کی اس قدر نوازشات ہیں، مگر روز قیامت میری امت کا کیا ہو گا؟ میری امت پل صراط سے کیسے گذرے گی؟ اسی وقت اللہ تعالٰی کی طرف سے بشارت دی گئی :اے محبوب!
محمد علی جناح پیدائشی نام، محمد علی جناح بھائی، 25 دسمبر 1876ء – 11 ستمبر 1948ء) کے نامور وکیل، سیاست دان اور بانی پاکستان تھے۔ محمد علی جناح 1913ء سے لے کر پاکستان کی آزادی 14 اگست 1947ء تک آل انڈیا مسلم لیگ کے سربراہ رہے، پھر قیام پاکستان کے بعد اپنی وفات تک، وہ ملک کے پہلے گورنر جنرل رہے۔ سرکاری طور پر پاکستان میں آپ کو قائدِ اعظم یعنی سب سے عظیم رہبر اور بابائے قوم یعنی قوم کا باپ بھی کہا جاتا ہے۔ جناح کا یومِ پیدائش پاکستان میں قومی تعطیل کے طور پر منایا جاتا ہے۔کراچی کے پیدائشی اور لنکن ان سے بیرسٹری کی تربیت حاصل کرنے والے جناح، بیسویں صدی کے ابتدائی دو عشروں میں آل انڈیا کانگریس کے اہم رہنما کے طور پر ابھرے۔ اپنی سیاست کے ابتدائی ادوار میں انہوں نے ہندو مسلم اتحاد کے لیے کام کیا۔ 1916ء میں آل انڈیا مسلم لیگ اور آل انڈیا کانگریس کے مابین ہونے والے میثاق لکھنؤ کو مرتب کرنے میں بھی انہوں نے اہم کردار ادا کیا۔ جناح آل انڈیا ہوم رول لیگ کے اہم رہنماوں میں سے تھے، انہوں نے چودہ نکات بھی پیش کیے، جن کا مقصد ہندوستان کے مسلمانوں کے سیاسی حقوق کا تحفظ کرنا تھا۔ بہر کیف جناح 1920ء میں آل انڈیا کانگریس سے مستعفی ہو گئے، جس کی وجہ آل انڈیا کانگریس کے موہن داس گاندھی کی قیادت میں ستیاگرا کی مہم چلانے کا فیصلہ تھا۔1940ء تک جناح کو یہ یقین ہو چلا تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک علاحدہ وطن کی جدوجہد کرنی چاہیے۔ اسی سال، مسلم لیگ نے جناح کی قیادت میں قرارداد پاکستان منظور کی جس کا مقصد نئی مملکت کی قیام کا مطالبہ تھا۔دوسری جنگ عظیم کے دوران، آل انڈیا مسلم لیگ نے مضبوطی پکڑلی جبکہ ان ادوار میں کانگریس کے کئی رہنما قید کاٹ رہے تھے اور جنگ کے ختم ہونے کے مختصر عرصے میں ہی انتخابات کا انعقاد ہوا، جس میں جناح کی جماعت نے مسلمانوں کے لیے مختص نشستوں میں سے بڑی تعداد جیت لی۔ اس کے بعد آل انڈیا کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ متحدہ ہندوستان میں اختیارات کے توازن کے لیے کسی صیغے پر متفق نا ہو سکے نتیجتاً تمام جماعتیں اس امر پر متفق ہوگئیں کہ ہندوستان کے دو حصے کیے جائیں جن میں ایک مسلم اکثریتی علاقوں میں پاکستان جبکہ باقی ماندہ علاقوں میں بھارت کا قیام ہو۔پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کے طور پر جناح نے اپنی حکومتی پالیسیوں کے قیام کے لیے کام کیا نیز انہوں نے ان لاکھوں لوگوں کے بہبود اور آباد کاری کے لیے بھی کام کیا جو تقسیم ہند کے بعد پاکستان کی جانب ہجرت کر چلے تھے، انہوں نے ان مہاجر کیمپوں کی ذاتی طور پر دیکھ بھال کی۔ جناح 71 سال کے عمر میں انتقال کر گئے جبکہ ان کے نوزائیدہ ملک کو سلطنت برطانیہ سے آزاد ہوئے محض ایک سال کا عرصہ ہوا تھا۔ ان کی سوانح عمری لکھنے والے لکھاری،اسٹینلی وولپرٹ لکھتے ہیں کہ، وہ (یعنی جناح) پاکستان کے عظیم ترین رہنما رہیں گے۔
اردو زبان کی ابتدا کے متعلق نظریات
اردو کی ابتدا و آغاز کے بارے میں کئی مختلف نظریات ملتے ہیں یہ نظریات آپس میں اس حد تک متضاد ہیں کہ انسان چکرا کر رہ جاتا ہے۔ ان مشہور نظریات میں ایک بات مشترک ہے کہ ان میں اردو کی ابتدا کی بنیاد برصغیر پاک و ہند میں مسلمان فاتحین کی آمد پر رکھی گئی ہے۔ اور بنیادی استدلال یہ ہے کہ اردو زبان کا آغاز مسلمان فاتحین کی ہند میں آمد اور مقامی لوگوں سے میل جول اور مقامی زبان پر اثرات و تاثر سے ہوا۔ اور ایک نئی زبان معرض وجود میں آئی جو بعد میں اردو کہلائی۔ کچھ ماہرین لسانیات نے اردو کی ابتدا کا سراغ قدیم آریاؤں کے زمانے میں لگانے کی کوشش کی ہے۔ بہر طور اردو زبان کی ابتدا کے بارے میں کوئی حتمی بات کہنا مشکل ہے۔ اردو زبان کے محققین اگرچہ اس بات پر متفق ہیں کہ اردو کی ابتدا مسلمانوں کی آمد کے بعد ہوئی لیکن مقام اور نوعیت کے تعین اور نتائج کے استخراج میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس انداز سے اگر اردو کے متعلق نظریات کو دیکھا جائے تو وہ نمایاں طور پر چار مختلف نظریات کی شکل میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔
متضاد مخالف؛ اُلٹ؛ اُلٹی طرف؛ دوسری جانب؛ ضِد؛ مُقابل؛ بِالمقابل؛ متقابل؛ متضاد؛ ایک لفظ جو مفہوم کے لحاظ سے دوسرے کی ضد ہو؛ متضاد المعنی۔ ایسے الفاظ جو مماثل وضع میں لیکن ایک دوسرے کے مخالف، برعکس یا یکسر مختلف ہوں۔ اسے 'بائنری' تعلق سے تعبیر کیا جاتا ہے کیوں کہ متضاد جوڑوں میں دو رکن ہوتے ہیں۔ باہم مخالف تعلق کو متضاد کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ایک جوڑے میں مخالف لفظ کو عام طور پر اس سوال کے ذریعہ طے کیا جا سکتا ہے کہ الف کے برعکس کیا ہے؟ جیسے:
امیر معاویہ یا معاویہ اول (عربی: معاوية بن أبي سفيان، 597ء، 603ء یا 605ء – اپریل 680ء) [[|اموی حکومت|اموی خلافت]] کے بانی تھے اور 661ء سے اپنی وفات 680ء تک خلیفہ رہے۔ وہ نبی محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے 30 سال بعد خلیفہ بن گئے، ان سے قبل خلفائے راشدین اور حسن ابن علی خلیفہ رہے۔ اگرچہ ان کے دور میں انفاص و تقوی کو دور خلفائے راشدین کے مقابلے میں کمتر سمجھا جاتا ہے، لیکن نمو پزیر اسلام میں امیر معاویہ پہلے مسلمان خلیفہ ہیں جن کا نام سرکاری دستاویزات، سکوں اور کتبوں پر کندہ ہوا۔ امیر معاویہ کاتبین وحی میں سے تھے۔
نوح علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے پیغمبر تھے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کے بعد یہ پہلے نبی ہیں جن کو رسالت “(جس انسان پر اللہ تعالیٰ کی وحی نازل ہوتی ہے وہ ” نبی “ ہے اور جس کو جدید شریعت بھی عطا کی گئی ہو وہ ” رسول “ ہے) سے نوازا گیا۔صحیح مسلم ” باب شفاعت “ میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے ایک طویل روایت ہے اس میں یہ تصریح ہے :
اردو زبان میں سینتیس حروفِ تہجی اور سینتالیس آوازیں ہیں جن میں سے بیشتر عربی سے لیے گئے ہیں اور دیگر انہی کی مختلف شکلیں ہیں۔ کچھ حروف کئی طریقوں سے استعمال ہوتے ہیں اور کچھ مخلوط حروف بھی استعمال ہوتے ہیں جو دو حروف سے مل کر بنتے ہیں۔ بعض لوگ 'ء' کو الگ حرف نہیں مانتے مگر پرانی اردو کتب اور لغات میں اسے الگ حرف کے طور پر لکھا جاتا ہے۔ مختلف الفاظ میں یہ الگ حرف کے طور پر ہی استعمال ہوتا ہے مثلاً 'دائرہ'۔ یہ بات مدِنظر رکھنا ضروری ہے کہ اردو تختی اور اردو حروف دو مختلف چیزیں ہیں کیونکہ اردو تختی میں اردو حروفِ تہجی کی کئی اشکال ہو سکتی ہیں جن کو الگ حرف کا درجہ نہیں دیا جا سکتا بلکہ وہ ایک ہی حرف کی مختلف شکلیں ہیں۔ مثلاً نون غنہ نون کی شکل ہے اور 'ھ' اور 'ہ' ایک ہی حرف کی مختلف اشکال ہیں۔ ایک اور مثال الف ممدودہ (آ) اور الف مقصورہ (ا) کی ہے جو اردو تختی میں الگ ہیں مگر اردو کا ایک ہی حرف شمار ہوتے ہیں۔
حرف (Letter) سے مراد قواعد میں ابجدیہ (Alphabets) کے کسی ایک رکن کی ہوتی ہے۔ وہ لفظ ہے جو تنہا اپنے پورے معانی نہ دے بلکہ اسموں، فعلوں یا دو جملوں کے ساتھ مل کر اپنے پورے معنی ظاہر کرے۔ حرف کے کام دو اسموں کو ملانا دو فعلوں کو ملانا، دو چھوٹے جملوں کو ملا کر ایک جملہ بنانا، اسموں اور فعلوں کا ایک دوسرے سے تعلق ظاہر کرنا ہے۔ استعمال کے لحاظ سے حروف کو چار بڑے گروہوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ 1۔ وہ حروف جو اسموں اور فعلوں کے باہمی تعلق کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ مثلاً کا، کے، کی، کو وغیرہ 2۔ وہ حروف جو تخصیص کا کام دیتے ہیں۔ مثلاً ہی، ہر، ایک، صرف، فقط، بس وغیرہ 3۔ وہ حرف جو دو اسموں، دو فعلوں اور جملوں کو ملاتے ہیں۔ مثلاً اور، پھر کہ وغیرہ۔ 4۔ وہ حروف جو جملوں کو ملاتے ہیں مثلاً ارے، ہاں اور ہائے، اف، اخاہ، تف، الامان وغیرہ۔ یا حرف اس کلمہ کو کہتے ہیں جو نہ کسی چیز کا نام ہو، نہ کسی شخص کا نام ہو، نہ کسی جگہ کا نام ہو، نہ اس سے کوئی کام ظاہرہو اور نہ ہی یہ الگ سے اپنا کوئی معنی رکھتا ہو بلکہ یہ مختلف اسموں اور فعلوں کو آاپس میں ملانے کا کام دیتا ہو۔ جیسے اسلم اور تنویر آئے میں ”اور“ حرف ہے جو دو اسموں کو آپس میں ملا رہا ہے۔ اسی طرح منیر مسجد تک گیا کے جملے میں ”تک“ حرف ہے جو ایک اسم کو فعل سے ملا رہا ہے۔ حروف کی اقسام حروف کی درج ذیل اقسام ہیں 1۔ حروف جار 2۔ حروف عطف 3۔ حروف شرط 4۔ حروف ندا 5۔ حروف تاسف 6۔ حروف تشبیہ 7۔ حروف اضافت 8۔ حروف استفہام 9۔ حروف تحسین 10۔ حروف نفرین 11۔ حروف علت 12۔ حروف بیان 1۔ حروف جار حروف جار وہ حروف ہوتے ہیں جو کسی اسم کو فعل کے ساتھ ملاتے ہیں۔ جیسے کاغذ اور پنسل میز پر رکھ دو اس جملے میں ”پر“ حرف جار ہے، اردو کے حروف جار اردو کے مشہور حروف جار مندرجہ ذیل ہیں۔ کا، کے، کی، کو، تک، پر، سے، تلک، اوپر، نیچے، پہ، درمیان میں ساتھ، اندر باہر وغیرہ 2۔ حروف عطف حروف عطف وہ حروف ہوتے ہیں جو دو اسموں یا دو جملوں کو آپس میں ملانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ جیسے قلم اور دوات میز پر رکھ دو، حنا کھانا کھا کر اسکول گئی۔ ان جملوں میں ”اور“ اور ”کر“ حروف عطف ہیں۔ اردو کے حروف عطف اور، و، نیز، پھر، بھی وغیرہ حروف عطف ہیں۔ 3۔ حروف شرط حروف شرط وہ حروف ہوتے ہیں جو شرط کے موقع پر بولے جاتے ہیں۔ مثلا اگر وہ تیز چلتا تو وقت پر پہنچ جاتا اس جملے میں ”اگر“ حرف شرط ہے۔ اردوکے حروف شرط اردو کے حروف شرط مندرجہ ذیل ہیں۔ اگرچہ، اگر، گر۔ جوں جوں، جوں ہی، جب، جب تک، تاوقتیکہ وغیرہ 4۔ حروف ندا ایسے حروف جو کسی اسم کو پکارنے کے لیے استعمال ہوں ن حروف ندا کہلاتے ہیں۔ جیسے ارے بھائی! جب تک محنت نہیں کرو گے کامیاب نہیں ہوسکو گے۔ اس جملے میں ”ارے“ حرف ندا ہے۔ اردو کے حروف ندا اردو کے حروف ندا مندرجہ ذیل ہیں۔ ارے، ابے، او، اچی وغیرہ 5۔ حروف تاسف حروف تاسف وہ حروف ہوتے ہیں جو افسوس اور تاسف کے موقع پر بولے جاتے ہیں۔ مثلاً افسوس انسان غفلت کا شکار ہو گیاہے اس جملے میں افسوس حرف تاسف ہے۔ اردو کے حروف تاسف افسوس، صد افسوس، ہائے، ہائے، ہائے، وائے، اُف، افوہ، حسرتا، واحسراتا وغیرہ 6۔ حروف تشبیہ ایسے حروف جو ایک چیز کو دوسری چیز کی مانند قرار دینے کے لیے استعمال ہوں حروف تشبیہ کہلاتے ہیں جیسے شیر کی مانند بہادر، موتی جیسے دانت، برف کی طرح ٹھنڈا اِن جملوں میں مانند، جیسے، طرح حروف تشبیہ ہیں۔ اردو کے حروف تشبیہ مثل، مانند، طرح، جیسا، سا، جوں، ہوبہو، عین بین، بعینہ وغیرہ 7۔ حروف اضافت حروف اضافت وہ حروف ہوتے ہیں جو صرف اسموں کے باہمی تعلق یا لگائو کو ظاہر کرتے ہیں۔ مضاف، مضاف الیہ اور حرف اضافت کے ملنے سے مرکب اضافی بنتا ہے۔ مثلاً اسلم کا بھائی، حنا کی کتاب، باغ کے پھول وغیرہ اِن جملوں میں کا، کیی، کے حروف اضافت ہیں۔ 8۔ حروف استفہام حروف استفہام اُن حروف کو کہتے ہیں جو کچھ پوچھنے یا سوال کرنے کے موقع پر بولے جاتے ہیں۔ مثلاً احمد تم کب بازار جائو گے؟ اس جملے میں کب حرف استفہام ہے۔ اس جملے میں کب حرف استفہام ہے۔ اردو کے حروف استفہام کیا، کب، کون، کیوں، کہاں، کس کا، کس کو، کس کے، کیسا، کیسے، کیسی، کتنا، کتنی، کتنے، کیونکہ، کس لیے، وغیرہ۔ 9۔ حروف تحسین حروف تحسین وہ حروف ہوتے ہیں جو کسی چیز کی تعریف کے موقع پر بولے جاتے ہیں جیسے سبحان اللہ! کتنا پیارا موسم ہے۔ اس جملے میں سبحان اللہ حرف تحسین ہے۔ اردو کے حروف تحسین مرحبا، سبحان اللہ، شاباش، آفرین، خوب، بہت خوب، بہت اچھا، واہ واہ، اللہ اللہ، ماشاءاللہ، جزاک اللہ، آہا، وغیرہ حروف تحسین ہیں۔ اِن حروف کو حروف انبساط بھی کہتے ہیں انبساط کے معنی خوشی یا مسرت کے ہیں۔ 10۔ حروف نفرین حروف نفرین ایسے حروف ہوتے ہیں جو نفرت یا ملامت کے لیے بولے جاتے ہیں جیسے جھوٹوں پر اللہ کی ہزار لعنت اس جملے میں ہزار لعنت حرف نفرین ہے۔ اردو کے حروف نفرین لعنت، ہزار لعنت، تف، پھٹکار ہے، اخ تھو، چھی چھی وغیرہ حروف نفرین ہیں۔ 11۔ حروف علت یہ حروف ہیں جو کسی وجہ یا سبب کو ظاہر کریں جیسے کیونکہ، اس لیے، بریں سبب، بنا بریں، لہذا، پس، تاکہ، بایں وجہ، چونکہ، چنانچہ وغیرہ 12۔ حروف بیان ایسے حروف جو کسی وضاحت کے لیے استعمال کیے جائیں حروف بیان کہلاتے ہیں جیسے استاد نے شاگرد سے کہا کہ سبق پڑھو اس جملے میں کہ حرف بیان ہے۔ اضافہ: حرف: وہ کلمہ جو نہ فعل ہو نہ اسم اور نہ کسی مصدر سے مُشتق ہو بلکہ دو لفظوں کو آپس میں ملاتا ہو گویا الفاظ میں ربط اور تعلق پیدا کرتا ہو۔ جس سے مطلب سمجھنا آسان ہو جاتا ہے۔ جیسے کا۔ کی۔ کو۔ سے ۔ میں۔نے۔ پر .وغیرہ۔ یا حروف (حرف) وہ خاص حروف(الفاظ) ہیں جو جملے کے اجزاء کو باہم ملاتے اور جملے کے مطلب کا سمجھنا آسان کرتے ہیں، ان حروف کے استعمال کےبغیر جملوں یا الفاظ کا مطلب سمجھ نہیں آسکتا۔ جیسے کھانا میز لگا دو۔ کتاب بستہ ہے۔ میز نیچے جوتے پڑے ہیں۔ مجھے آپ مل خوشی ہوئی۔ ان جملوں میں پر، میں، کے ، سے ، کر لگانے سے جملے بامعنی اور آسان فہم ہو جاتے ہیں۔ کھانا میز پر لگا دو۔ کتاب بستے میں ہے۔ میز کے نیچے جوتے پڑے ہیں۔ مجھے آپ سے مل کر خوشی ہوئی۔ پر، میں، کے ، سے ، کر حروف کہلاتے ہیں ۔ حروف کی درج ذیل اقسام ہیں؛ 1۔ حروفِ ربط: یہ حروف ایک لفظ(اسم) کا تعلق دوسرے لفظ(فاعل یا مفعول ) سے ظاہر کرتے ہیں۔ جیسے کا، کی، کو، نے۔سے اسلم کو کھانا دے دو۔ وہ علی کی کتاب ہے۔ بابر نے علی کو سلام کیا۔ ان جملوں میں ”کو، کی اور نے“ حروف ربط ہیں۔ حروف ربط کی 4 معروف صورتیں یہ ہیں؛ 1۔ حالت فاعلی: ”نے“ فاعل کے ساتھ استعمال ہوتا ہے۔ جیسے علی نے پانی پیا۔ اکبر نے کتاب پڑھی۔ (نے کا استعمال صرف فعل ماضی میں ہوتا ہے۔) 2۔ حالتِ مفعولی: ”کو“ مفعول کے ساتھ استعمال ہوتا ہے۔ جیسے نوکر کو بلاؤ۔ علی کو کتاب دو۔ (بعض اوقات کو کی جگہ ”کے“ کا حرف استعمال ہوتا ہے۔ جیسے ماں نے بچے کے کاجل لگایا۔) 3۔حالتِ اضافی: ”کا، کی، کے“ دو اسموں کے تعلق کو ظاہر کرتے ہیں۔ جیسے علی کی کتاب، آپ کا کمرہ، درخت کی جڑ۔ (ان کا استعمال فعل سے ماوراء ہوتا ہے۔) 4۔ حالتِ طوری: ”سے“ اسم کے ساتھ استعمال ہوتا ہے۔ جیسے آپ کہاں سے آئے؟ تم علی سے بات کر لو۔ وہ مجھ سے کیا چاہتے ہیں؟ وہ کل سے بیمار ہے۔ (بعض اوقات بطور علامت مفعول بھی استعمال ہوتا ہے) 2۔ حروفِ جار: وہ حرف جو کسی اسم کو فعل سے ملاتے ہوں۔ جیسے کھانا میز پر لگا دو۔ کتاب بستے میں ہے۔ ان جملوں میں "پر" اور "میں" حروف جار ہیں۔ (کا۔ کی ۔ کے۔ کو۔ پر ۔ سے۔ تک۔ میں۔ تلک۔ سے۔اوپر۔ پہ۔ نیچے۔ درمیان۔ ساتھ۔ اندر۔ باہر حروف جارہیں) 3۔حروف ِعطف: یہ حروف 2 اسموں یا جملوں کو ملانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ مثلاً کھانا کھا کر مجھے خط سنا دو۔ کتاب اور اخبار لے آؤ۔ ان جملوں میں"کر" اور "اور" حروف عطف ہیں۔ (اور۔ و۔ نیز۔ بھی۔ کر۔ پھر حروف عطف ہیں) 4۔ حروف ِشرط: یہ حروف کسی شرط کے لیے بولے جاتے ہیں۔ جیسے اگرتم محنت کرتے تو پاس ہو جاتے۔ اس جملے میں "اگر" حرفِ شرط ہے۔ (اگر۔ گر۔ اگرچہ۔ جب۔ جب تک۔ تاوقتیکہ۔ جو ں جوں۔ جونہی حروفِ شرط ہیں) 5۔ حروف ِندا: یہ حروف کسی کو پکارنے یا آواز دینے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ جیسے اجی!
اسم کسی جگہ شخص یا چیز کے نام کو اسم کہا جاتا ہے جیسے پاکستان، کراچی، لاہور، امجد، حنا، انور، کرسی، میز، قلم وغیرہ اسم کی کئی اقسام ہیں۔ اسم جامد، اسم مشتق، اسم مصدر، اسم معرفہ (خاص)، اسم نکرہ (عام) اسم معرفہ کی درج ذیل اقسام ہیں۔ اسم علم، اسم ضمیر، اسم اشارہ، اسم موصول۔ اسم نکرہ کی درج ذیل اقسام ہیں۔ اسم ذات، اسم حاصل مصدر، اسم حالیہ، اسم فاعل، اسم مفعول، اسم استفہام۔
صحیح بخاری کا اصل نام «الجامع المسند الصحیح المختصر من امور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وسننہ و ایامہ» ہے جو «صحیح البخاری» کے نام سے مشہور ہے، یہ اہل سنت وجماعت کے مسلمانوں کی سب سے مشہور حدیث کی کتاب ہے، اس کو امام محمد بن اسماعیل بخاری نے سولہ سال کی مدت میں بڑی جانفشانی اور محنت کے ساتھ تدوین کیا ہے، اس کتاب کو انھوں نے چھ لاکھ احادیث سے منتخب کر کے جمع کیا ہے۔ اہل سنت کے یہاں اس کتاب کو ایک خاص مرتبہ و حیثیت حاصل ہے اور ان کی حدیث میں چھ امہات الکتب (صحاح ستہ) میں اول مقام حاصل ہے، خالص صحیح احادیث میں لکھی جانی والی پہلی کتاب شمار ہوتی ہے، اسی طرح اہل سنت میں قرآن مجید کے بعد سب سے صحیح کتاب مانی جاتی ہے۔ اسی طرح صحیح بخاری کا شمار کتب الجوامع میں بھی ہوتا ہے، یعنی ایسی کتاب جو اپنے فن حدیث میں تمام ابواب عقائد، احکام، تفسیر، تاریخ، زہد اور آداب وغیرہ پر مشتمل اور جامع ہو۔
بنو امیہ قریش کا ایک ممتاز اور دولت مند قبیلہ تھا۔ اسی خاندان نے خلافت راشدہ کے بعد تقریباً ایک صدی تک ملوکیت سنبھالی اور اسلامی فتوحات کو بام عروج پر پہنچایا۔ جس کی سرحدیں ایک طرف چین اور دوسری طرف اسپین تک پھیلی ہوئی تھیں۔ البتہ مرکزی خلافت کے خاتمے کے باوجود اس خاندان کا ایک شہزادہ عبدالرحمن الداخل اسپین میں حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوا۔ جہاں 1492ء تک اموی سلطنت قائم رہی۔
برصغیر پاک و ہند میں 1857ء کی ناکام جنگ آزادی اور سقوطِ دہلی کے بعد مسلمانان برصغیر کی فلاح و بہبودگی ترقی کے لیے جو کوششیں کی گئیں، عرف عام میں وہ ”علی گڑھ تحریک “ کے نام سے مشہور ہوئیں۔ سر سید نے اس تحریک کا آغاز جنگ آزادی سے ایک طرح سے پہلے سے ہی کر دیا تھا۔ غازی پور میں سائنٹفک سوسائٹی کا قیام اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ لیکن جنگ آزادی نے سرسید کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کیے اور ان ہی واقعات نے علی گڑھ تحریک کو بارآور کرنے میں بڑی مدد دی۔ لیکن یہ پیش قدمی اضطراری نہ تھی بلکہ اس کے پس پشت بہت سے عوامل کارفرما تھے۔ مثلاً راجا رام موہن رائے کی تحریک نے بھی ان پر گہرا اثر چھوڑا۔
منشی پریم چند اردو کے مشہور ناول نگار اور افسانہ نگار ہیں۔ ان کا اصلی نام دھنپت رائے ہے، لیکن ادبی دنیا میں پریم چند کے نام سے مشہور ہیں۔ وہ 1880ء میں منشی عجائب لال کے وہاں ضلع وارانسی مرٹھوا کے گاؤں لمہی میں پیدا ہوئے۔ان کے دادا گاوں کے پٹواری اور والد ایک ڈاک خانے میں کلرک تھے۔ پریم چند ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ نے تقریباً سات آٹھ برس فارسی پڑھنے کے بعد انگریزی تعلیم شروع کی۔ پندرہ سال کی عمر میں شادی ہو گئی۔ ایک سال بعد والد کا انتقال ہو گیا۔ اس وقت آٹھویں جماعت میں پڑھتے تھے۔ پورے گھر بار کا بوجھ آپ پر ہی پڑ گیا۔ فکر معاش نے زیادہ پریشان کیا تو لڑکوں کو بطور استاد پڑھانے لگے اور میٹرک پاس کرنے کے بعد محکمہ تعلیم میں ملازم ہو گئے۔ اسی دوران میں بی۔ اے کی ڈگری حاصل کی۔
محمد بن اسماعيل بخاری (پیدائش: 19 جولائی 810ء، بخارا - وفات: 1 ستمبر 870ء) مشہور ترین محدث اور حدیث کی سب سے معروف کتاب صحیح بخاری کے مولف تھے۔ ان کے والد بھی ایک محدث تھے اور امام مالک کے شاگرد تھے۔ امام بخاری کا درجہ احادیث کو چھان پھٹک کر ترتیب دینے میں اتنا اونچا ہے کہ بلا اختلاف الجامع الصحیح یعنی صحیح بخاری شریف کا درجہ صحت میں قرآن پاک کے بعد پہلا ہے۔
سیدہ عائشہ بنت ابی بکر (رضی اللہ عنہا) (پیدائش: 614ء– وفات: 13 جولائی 678ء) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ ہیں۔ آپ کو اُم المومنین کے خطاب سے یاد کیا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد عہد خلفائے راشدین میں آپ کی شخصیت بہت نمایاں نظر آتی ہے۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد 47 سال بقید حیات رہیں اور یہ تمام وہ عرصہ ہے جس میں ابتدائی مسلم فتوحات ہوئیں، مختلف ممالک مملکت اسلامیہ میں داخل ہوئے۔ علم الحدیث میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایات کے بعد سب سے زیادہ روایاتِ حدیث کا ذخیرہ آپ سے ہی روایت کیا گیا ہے۔ آپ عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور عہد خلفائے راشدین کی عینی شاہد بھی تھیں اور مزید برآں آپ نے خلافت امویہ کے ابتدائی 17 سال بھی ملاحظہ فرمائے۔ آپ کا انتقال مدینہ منورہ میں سنہ 678 ء میں ہوا۔ آپ کے مناقب و فضائل کثیر ہیں جس سے آپ کی عظمت و شان جلالت مسلم خواتین پر نمایاں ہے۔جنگ جمل کے حوالے سے یہ بات معلوم ہونا بھی مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ کچھ احادیث اور تاریخی کتابوں کے واقعات میں راویوں پر علما اسلام کی طرف سے جرح بھی کی گئی ہے اور بہت سے راویوں کے حالات معلوم نہیں ہیں ۔مسلمان امت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اہل بیت اطھار کے بارے میں صحیح عقائد قرآن وسنت اور مستند و صحیح احادیث نبوی سے لیتے
ابو عبد اللہ عثمان بن عفان اموی قرشی (47 ق ھ - 35 ھ / 576ء – 656ء) اسلام کے تیسرے خلیفہ، داماد رسول اور جامع قرآن تھے۔ عثمان غنی سابقین اسلام میں شامل اور عشرہ مبشرہ میں سے تھے، ان کی کنیت ذو النورین ہے کیونکہ انھوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دو صاحبزادیوں سے نکاح کیا تھا، پہلے رقیہ بنت محمد سے کیا، پھر ان کی وفات کے بعد ام کلثوم بنت محمد سے نکاح کیا۔ عثمان غنی پہلے صحابی ہیں جنھوں نے سرزمین حبشہ کی ہجرت کی، بعد میں دیگر صحابہ بھی آپ کے پیچھے حبشہ پہنچے۔ بعد ازاں دوسری ہجرت مدینہ منورہ کی جانب کی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عثمان غنی پر مکمل اعتماد اور ان کی فطری حیاء و شرافت اور جو انھوں نے اپنے مال کے ذریعہ اہل ایمان کی نصرت کی تھی، اس کی انتہائی قدر کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیگر صحابہ کے ساتھ ان کو بھی جنت اور شہادت کی موت کی خوش خبری دی۔
غزوہ خیبر محرم 7ھ (مئی 628ء) میں مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان یہ جنگ ہوئی جس میں مسلمان فتح یاب ہوئے۔ خیبر یہودیوں کا مرکز تھا جو مدینہ سے 150 کلومیٹر عرب کے شمال مغرب میں تھا جہاں سے وہ دوسرے یہودی قبائل کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے رہتے تھے۔ چنانچہ مسلمانوں نے اس مسئلہ کو ختم کرنے کے لیے یہ جنگ شروع کی۔
جنگ احد 17 شوال 3ھ (23 مارچ 625ء) میں مسلمانوں اور مشرکینِ مکہ کے درمیان احد کے پہاڑ کے دامن میں ہوئی۔ مشرکین کے لشکر کی قیادت ابوسفیان کے پاس تھی اور اس نے 3000 سے زائد افراد کے ساتھ مسلمانوں پر حملہ کی ٹھانی تھی جس کی باقاعدہ تیاری کی گئی تھی۔ مسلمانوں کی قیادت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کی۔ اس جنگ کے نتیجہ کو کسی کی فتح یا شکست نہیں کہا جا سکتا کیونکہ دونوں طرف شدید نقصان ہوا اور کبھی مسلمان غالب آئے اور کبھی مشرکین لیکن آخر میں مشرکین کا لشکر لڑائی ترک کر کے مکہ واپس چلا گیا۔
شاعری (Poetry) کا مادہ "شعر" ہے، اس کے معانی کسی چیز کے جاننے پہچاننے اور واقفیت کے ہیں لیکن اصطلاحاً شعر اس کلامِ موزوں کو کہتے ہیں جو قصداً کہا جائے۔ یہ کلام موزوں جذبات اور احساسات کے تابع ہوتا ہے اور کسی واقعہ کی طرف جاننے کا اشارہ کرتا ہے۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ آپ نے کوئی حادثہ دیکھا ہو اور وہ آپ کے دل پر اثر کر گیا ہو اور آپ کے اندر سے خود بہ خود الفاظ کی صورت میں ادا ہو جائے، اس اثر کے بیان کو شعر کہتے ہیں اور انہیں شعروں کو شاعری کے نام سے جانا جاتا ہے۔دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ شاعری الفاظ کا وہ استعمال ہے، جس میں ایک طرف معانی کی وسعت ذہن کو تسخیر کرے تو دوسری جانب نغمگی کی تاثیر دل کو جکڑ لے۔ گویا ایک اچھا شعر بشر کے پورے وجود کا تجربہ ہے۔
امام احمد رضا خان (14 جون 1856ء – 28 اکتوبر 1921ء) بیسویں صدی عیسوی کے مجدد، نامور حنفی فقہیہ، محدث، اصولی، نعت گو شاعر، علوم نقلیہ وعقلیہ کے ماہر، سلسلہ قادریہ کے شیخ، عربی، فارسی اور اردو کی کثیر کتابوں کے مصنف جن میں مشہور ترجمہ قرآن کنزالایمان، فتاوی کا مجموعہ فتاویٰ رضویہ اور نعتیہ دیوان حدائق بخشش مشہور ہیں۔ احمد رضا خان نے شدت سے تقلید اور حنفیت کا دفاع کیا سلسلۂ حدیث میں شاہ ولی اللہ اور عبد الحق محدث دہلوی سے استفادہ کیا اور فقہ میں سند اجازت شیخ عبد الرحمن حنقی مکی سے حاصل کی، جن کا سلسلہ عبد اللہ بن مسعود تک پہنچتا ہے۔ احمد رضا خان نے دو قومی نظریہ کا پرچار کیا اور کسی بھی سطح پر ہندو مسلم اتحاد کو رد کیا، تحریک ترک موالات اور تحریک خلافت میں مسلمانوں کو متنبہ کیا کہ ان تحریکوں میں مسلم ہندو اتحاد کا نعرہ لگایا جا رہا ہے جو شرع حیثیت سے ناجائز ہے۔ عورتوں کی ضروری دینی تعلیم کی سختی سے تلقین کی، عورتوں کے زیارت قبور کے لیے گھر سے نکلنے کے مسئلے پر ممانعت کا فتوی دیا۔کثرت سے فقہی مسائل پر رسائل اور عقائد و اعمال کی اصلاح کے لیے کتابیں تصنیف کیں، ریاضی اور فلکیات کے علاوہ سائنس کے دیگر کئی موضوعات پر علمی اور مذہبی نکتہ نظر سے اپنی آرا پیش کیں۔ بریلی میں منظر اسلام کے نام سے اسلامی جامعہ قائم کی، بریلوی مکتب فکر کو متعارف کروایا، جس کی وجہ شہرت عشق رسول میں شدت اور تصوف کی طرف مائل ہونا ہے۔ احمد رضا خان کو اعلیٰ حضرت، امام اہلسنت اور حسان الہند جیسے القابات سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں ہر سال 25 صفر کو یوم رضا کے نام سے احمد رضا خان کا عرس کیا جاتا ہے۔
معاشیات یا اقتصادیات (Economics) معاشرتی علوم (Social Sciences) کی ایک اہم شاخ ہے جس میں قلیل مادی وسائل و پیداوار کی تقسیم اور ان کی طلب و رسد کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ عربی اور فارسی میں رائج اصطلاح اقتصادیات اردو میں معاشیات کے مترادف کے طور پر بھی استعمال ہوتی رہی ہے۔ معاشیات کی ایک جامع تعریف جو روبنز (Lionel Robbins) نے دی تھی کچھ یوں ہے کہ 'معاشیات ایک ایسا علم ہے جس میں ہم انسانی رویہ کا مطالعہ کرتے ہیں جب اسے لامحدود خواہشات اور ان کے مقابلے میں محدود ذرائع کا سامنا کرنا پڑے۔ جبکہ ان محدود ذرائع کے متنوع استعمال ہوں'۔ معاشیات آج ایک جدید معاشرتی علم بن چکا ہے جس میں نہ صرف انسانی معاشی رویہ بلکہ مجموعی طور پر معاشرہ اور ممالک کے معاشی رویہ اور انسانی زندگی اور اس کی معاشی ترقی سے متعلق تمام امور کا احاطہ کیا جاتا ہے اور اس میں مستقبل کی منصوبہ بندی اور انسانی فلاح جیسے مضامین بھی شامل ہیں جن کا احاطہ پہلے نہیں کیا جاتا تھا۔ معاشیات سے بہت سے نئے مضامین جنم لے چکے ہیں جنہوں نے اب اپنی علاحدہ حیثیت اختیار کر لی ہے جیسے مالیات، تجارت اور انتظام۔ معاشیات کی بہت سی شاخیں ہیں مگر مجموعی طور پر انہیں جزیاتی معاشیات (Microeconomics) اور کلیاتی معاشیات (Macroeconomics) میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
حسین بن علی بن ابی طالب ( عربی: ٱلْحُسَيْن ٱبْن عَلِيّ 10 جنوری 626 - 10 اکتوبر 680) محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نواسے اور علی ابن ابی طالب اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی فاطمہ زہرا کے بیٹے تھے۔ وہ اسلام میں ایک اہم شخصیت ہیں کیوںکہ وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ( اہل بیت ) اور اہل کسا کے علاوہ تیسرے شیعہ امام بھی ہیں۔
مغلیہ سلطنت 1526ء سے 1857ء تک برصغیر پر حکومت کرنے والی ایک مسلم سلطنت تھی، جس کی بنیاد ظہیر الدین بابر نے 1526ء میں پہلی جنگ پانی پت میں دہلی سلطنت کے آخری سلطان ابراہیم لودھی کو شکست دے کر رکھی تھی۔ مغلیہ سلطنت اپنے عروج میں تقریباً پورے برصغیر پر حکومت کرتی تھی، یعنی موجودہ دور کے افغانستان، پاکستان، بھارت، اور بنگلہ دیش کے ممالک پر مشتمل خطے پر انکا دور دورہ تھا۔-
یوسف علیہ السلام اللہ تعالٰی کے نبی تھے۔ آپ کا ذکر بائبل میں بھی ملتاہے۔ آپ یعقوب علیہ السلام کے بیٹے تھے۔ آپ کا تعلق انبیا اللہ کے خاندان سے تھا۔ گیارہ سال کی عمر سے ہی نبی ہونے کے آثار واضح ہونے لگے۔ آپ نے خواب میں دیکھا کہ گیارہ ستارے، سورج اور چاند آپ کو سجدہ کر رہے ہیں۔ آپ کے والد یعقوب علیہ السلام نے آپ کو اپنا خواب کسی اور کو سنانے سے منع کیا۔ قرآن مجید کی ایک سورت ان کے نام پہ ہے۔ قران نے یوسف علیہ السلام کے قصے کو احسن القصص کہا ہے۔ سورہ انعام اور سورہ غافر میں بھی ان کا ذکر آیا ہے۔
مسلمان ہر سال اسلامی مہینے ذوالحجہ کی 8 سے 12 تاریخ کو سعودی عرب کے شہر مکہ مکرمہ کی زیارت کے لیے حاضر ہو کر وہاں جو مخصوص عبادت انجام دیتے ہیں، اس مجموعہ عبادات کو اسلامی اصطلاح میں حج اور ان انجام دی جانے والی عبادات کو مناسک حج کہتے ہیں۔ دین اسلام میں حج ہر صاحب استطاعت بالغ مسلمان پر زندگی بھر میں ایک مرتبہ فرض ہے، جیسا کہ قرآن مقدس میں ہے: وَأَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَى كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ ۔ حج اسلام کے 5 ارکان میں سب سے آخری رکن ہے، جیسا کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حدیث ہے: «اسلام کی بنیاد پانچ ستونوں پر ہے، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی گواہی دینا، نماز قائم کرنا، زكوة دينا، رمضان کے روزے رکھنا اور حج کرنا۔» مناسک حج کی ابتدا ہر سال 8 ذوالحجہ سے ہوتی ہے، حاجی متعین میقات حج سے احرام باندھ کر کعبہ کی زیارت کے لیے روانہ ہوتے ہیں، وہاں پہنچ کر طواف قدوم کرتے ہیں، پھر منی روانہ ہوتے ہیں اور وہاں یوم الترویہ گزار کر عرفات آتے ہیں اور یہاں ایک دن کا وقوف ہوتا ہے، اسی دن کو یوم عرفہ، یوم سعی، عید قربانی، یوم حلق و قصر وغیرہ کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد حجاج رمی جمار (کنکریاں پھینکنے) کے لیے جمرہ عقبہ جاتے ہیں، بعد ازاں مکہ واپس آکر طواف افاضہ کرتے ہیں اور پھر واپس منی جاکر ایام تشریق گذارتے ہیں۔ اس کے بعد حجاج دوبارہ مکہ واپس آکر طواف وداع کرتے ہیں اور یوں حج کے جملہ مناسک مکمل ہوتے ہیں۔ حج کی عبادت اسلام سے قبل بھی موجود تھی، مسلمانوں کا اعتقاد ہے کہ حج گذشتہ امتوں پر بھی فرض تھا، جیسے ملت حنیفیہ (حضرت ابراہیم علیہ اسلام کے پیروکاروں) کے متعلق قرآن میں ذکر ہے: وَإِذْ بَوَّأْنَا لِإِبْرَاهِيمَ مَكَانَ الْبَيْتِ أَنْ لَا تُشْرِكْ بِي شَيْئًا وَطَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْقَائِمِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ ،۔ حضرت ابراہیم اور ان کے بعد بھی لوگ حج کیا کرتے تھے، البتہ جب جزیرہ نما عرب میں عمرو بن لحی کے ذریعہ بت پرستی کا آغاز ہوا تو لوگوں نے مناسک حج میں حذف و اضافہ کر لیا تھا۔ ہجرت کے نویں سال حج فرض ہوا، محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سنہ 10ھ میں واحد حج کیا جسے حجۃ الوداع کہا جاتا ہے۔ اس حج میں حج کے تمام مناسک کو درست طور پر کر کے دکھایا اور اعلان کیا کہ: « خذوا عني مناسككم» ترجمہ: اپنے مناسک حج مجھ سے لے لو۔ نیز اسی حج کے دوران میں اپنا مشہور خطبہ حجۃ الوداع بھی دیا اور اس میں دین اسلام کی جملہ اساسیات و قواعد اور اس کی تکمیل کا اعلان کیا۔ زندگی میں ایک بار صاحب استطاعت پر حج فرض ہے اور اس کے بعد جتنے بھی حج کیے جائیں گے ان کا شمار نفل حج میں ہوگا؛ ابو ہریرہ نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل کیا ہے: « لوگو! تم پر حج فرض کیا گیا ہے، چناں چہ حج ادا کرو»، صحابہ نے سوال کیا: "یا رسول اللہ!
تاریخ یوسفی المعروف عجائبات فرنگ یوسف خان کمبل پوش کا سفرنامہ ہے جو پہلے فارسی زبان میں تحریر ہوا اور اس کے بعد اسے اردو کے قالب میں ڈھالا گیا اسے اردو کا پہلا سفر نامہ ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے کمبل پور سے قبل سیاحوں کی تفصیلات اسلامیہ کالج کلکتہ کے پروفیسر عبد القادر کے مضمون Early Muslim Visitors of Europe from India میں ملتی ہے جو انگریزی زبان میں ہے۔ ان کے مطابق محمد کبھار بے پہلا مسافر تھا جو یورپ روانہ ہوا، اس کے بعد میر محمد حسن لندنی احتشام الدین ابوطالب اصفہانی وغیرہ کا ذکر ہے۔ یہ سب انیسویں صدی کے درمیانی عرصے میں یورپ کے سفر پر روانہ ہوئے۔
علاؤ الدین خلجی کے حملے نے دکن کی زبان اور تہذیب و تمدن کو بہت متاثر کیا۔ مرکز سے دور ہونے کی وجہ سے علاؤ الدین خلجی نے یہاں ترک سرداروں کو حکمران بنا دیا۔ بعد میں محمد تغلق نے دہلی کی بجائے دیو گری کو دار السلطنت قرار دیے کر ساری آبادی کووہاں جانے کا حکم دیا۔ جس کی وجہ سے بہت سے مسلمان گھرانے وہاں آباد ہوئے۔ ان کے ساتھ ہی نئی زبان و تہذیب بھی دکن پہنچی۔ مقامی باشندوں اور اہلیانِ دلی کے ملاپ سے ہندوی زبان وجود میں آئی جسے قدیم اردو بھی کہا جاتا ہے۔ سب سے پہلے صوفیا نے اس زبان کو تبلیغی مقاصد کیلئے استعمال کیا۔ اسکے بعد اس زبان نے اتنی تیزی سے ترقی کی کہ جب دکن میں مستقل تصانیف ملتی ہیں اسوقت شمالی ہندوستان میں سوائے امیر خسرو کی خالق باری، سید اشرف سمنانی کے رسالہ نثر اور افضل جھنجھانوی کی مثنوی کے کوئی کارنامہ نظر نہیں آتا۔ سلطان محمد تغلق کی سلطنت کمزور ہوئی تو دکن میں آزاد بہمنی سلطنت قائم ہوئی اور دکن، شمالی ہندوستان سے کٹ کر رہ گیا۔ بہمنی سلطنت کے زوال کے بعد پانچ آزاد ریاستیں وجود میں آگئیں۔ ان میں بیجا پور کی عادل شاہی اور گولکنڈہ کی قطب شاہی سلطنت نے اردو زبان و ادب کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ ان ریاستوں کے حکمران ادیب اور ادب پرور تھے۔ ابراہیم عادل شاہ نے اردو کو شاہی زبان کا درجہ دے دیا۔
نعمان ابن ثابت بن زوطا بن مرزبان (پیدائش: 5 ستمبر 699ء– وفات: 14 جون 767ء) (فارسی: ابوحنیفه،عربی: نعمان بن ثابت بن زوطا بن مرزبان)، عام طور پر آپکو امام ابو حنیفہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ آپ سنی حنفی فقہ (اسلامی فقہ) کے بانی تھے۔ آپ ایک تابعی، مسلمان عالم دین، مجتہد، فقیہ اور اسلامی قانون کے اولین تدوین کرنے والوں میں شامل تھے۔ آپ کے ماننے والوں کو حنفی کہا جاتا ہے۔ زیدی شیعہ مسلمانوں کی طرف سے بھی آ پ کو ایک معروف اسلامی عالم دین اور شخصیت تصور کیا جا تا ہے۔ انہیں عام طور پر "امام اعظم" کہا جاتا ہے۔
وزن کی متروک اکائیاں (پاکستان)
وزن ناپنے کی پاکستان میں استعمال ہونے والی اکائیاں، جو اب متروک ہو چکی ہیں۔ ان اکائیوں اور ان کے اعشاریہ نظام میں برابر کا جدول دیا ہے۔پاکستان میں ناپ تول کا اعشاری نظام یکم جولائی 1974ء کو نافذ کیا گیا۔ پاکستان کے علاوہ ان اوزان کا استعمال برصغیر میں بھی ہوتا تھا اور اردو کتب میں ان کا ذکر ملتا ہے۔
ناول اطالوی زبان کے لفظ ناولا (Novella) سے نکلا ہے۔ ناولا کے معنیٰ ہے نیا۔ لغت کے اعتبار سے ناول کے معانی نادر اور نئی بات کے ہیں۔ لیکن صنفِ ادب میں اس کی تعریف بنیادی زندگی کے حقائق بیان کرنا ہے۔ ناول کی اگر جامع تعریف کی جائے تو وہ کچھ یوں ہوگی کہ “ناول ایک نثری قصہ ہے جس میں پوری ایک زندگی بیان کی جاتی ہے”۔ ناول کے عناصر ِ ترکیبی میں کہانی، پلاٹ، کردار، مکالمے ،زماں و مکاں، اسلوب ،نکتہ نظر اور موضوع وغیرہ شامل ہیں۔
مکالمہ (انگریزی: Dialogue یا dialog) تحریر یا گفتگو کے دوران ایسی بات چیت کو کہتے ہیں، جو دو افراد کے درمیاں ہو یا کسی ادبی تصنیف یا ڈرامے کے صورت میں اسٹیج پر پیش کیا جائے۔ بیانیہ یا فلسفانہ گفتگو کی شروعات مغربی ادب اور روایات کے مطابق سقراط کے مکالموں سے ہوئی جن کی ترویج افلاطوں نے کی، لیکن اس سے پہلے ہندوستانی ادب میں بھی مکالمہ موجود تھے۔بیسویں صدی میں میخائیل باختں، پائلو فریری، مارٹن بوبر اور ڈیوڈ بوھم جیسے دانشوروں نے مکالمہ کو فلاسافیکل صنف ماننا شروع کیا۔ مکالمہ کی مختلف خصوصیات پر بات کرتے انہوں نے مکالمہ کو مجموعی تصور کا ایسا عمل کہا، جو کثیر جہتی، متحرک اور سیاق و سباق پر مبنی ہو اور جس سے مفہوم واضع ہو۔ تعلیمدان فریری اور راموں فلیچا نے تعلیم کے میدان میں ایسے نظریے اور طریق کار وضع کیے، جن کی مدد سے مساواتی مکالمہ کو ایک تدریسی اوزار یا طریق کار کے طور پر استعمال کیا جائے۔
فتح مکہ (جسے فتح عظیم بھی کہا جاتا ہے) عہد نبوی کا ایک غزوہ ہے جو 20 رمضان سنہ 8 ہجری بمطابق 10 جنوری سنہ 630 عیسوی کو پیش آیا، اس غزوے کی بدولت مسلمانوں کو شہر مکہ پر فتح نصیب ہوئی اور اس کو اسلامی قلمرو میں شامل کر لیا گیا۔ اس غزوہ کا سبب قریش مکہ کی جانب سے اس معاہدہ کی خلاف ورزی تھی جو ان کے اور مسلمانوں کے درمیان میں ہوا تھا، یعنی قریش مکہ نے اپنے حلیف قبیلہ بنو دئل بن بکر بن عبد منات بن کنانہ (اس کی ایک خاص شاخ جسے بنو نفاثہ کہا جاتا ہے) نے بنو خزاعہ کے خلاف قتل و غارت میں مدد کی تھی اور چونکہ بنو خزاعہ مسلمانوں کا حلیف قبیلہ تھا اس لیے اس حملے کو قریش مکہ کی جانب سے اس معاہدہ کی خلاف ورزی سمجھا گیا جو مسلمانوں اور قریش کے درمیان میں ہوا تھا، یہ معاہدہ "صلح حدیبیہ" کے نام سے معروف ہے۔ اسی معاہدہ کی خلاف ورزی کے جواب میں محمد بن عبد اللہ نے ایک عظیم الشان لشکر تیار کیا جو دس ہزار مجاہدین پر مشتمل تھا؛ لشکر آگے بڑھتا رہا یہاں تک کہ مکہ پہنچ گیا اور بغیر کسی مزاحمت کے مکہ میں پر امن طریقے سے داخل ہو گیا سوائے ایک معمولی سی جھڑپ کے جس کا سپہ سالار خالد بن ولید کو اس وقت سامنا ہوا جب قریش کی ایک ٹولی نے عکرمہ بن ابی جہل کی قیادت میں مسلمانوں سے مزاحمت کی اور پھر خالد بن ولید کو ان سے قتال کرنا پڑا جس کے نتیجے میں بارہ کفار مارے گئے اور باقی بھاگ گئے، جبکہ دو مسلمان بھی شہید ہوئے۔
بھارت یا جمہوریہ بھارت (سانچہ:ہندی میں) جنوبی ایشیا میں واقع ایک ملک ہے۔ پرانے دور سے ہی مختلف مذاہب کو یہاں رچنے بسنے کا موقع دیا۔ بھارت آبادی کے لحاظ سے چین کے بعد دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے اور اس لحاظ سے یہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھی کہلاتا ہے۔ بھارت کے ایک ارب 35 کروڑ سے زائد باشندے سو سے زائد زبانیں بولتے ہیں۔ بھارت کے مشرق میں بنگلہ دیش اور میانمار، شمال میں بھوٹان، چین اور نیپال اور مغرب میں پاکستان اور جنوب مشرق اور جنوب مغرب میں بحر ہند واقع ہے۔ نیز یہ ملک سری لنکا، مالدیپ سے قریب ترین ملک ہے۔ جبکہ بھارت کے نکوبار اور انڈمان جزیرے تھائی لینڈ اور انڈونیشیا کے سمندری حدود سے جڑے ہوئے ہیں۔
شوال۔ ذی القعدہ 5ھ (مارچ 627ء) میں مشرکینِ مکہ نے مسلمانوں سے جنگ کی ٹھانی۔ ابوسفیان نے قریش اور دیگر قبائل حتیٰ کہ یہودیوں سے بھی لوگوں کو جنگ پر راضی کیا اور اس سلسلے میں کئی معاہدے کیے اور ایک بہت بڑی فوج اکٹھی کر لی مگر مسلمانوں نے سلمان فارسی کے مشورہ سے مدینہ کے ارد گرد ایک خندق کھود لی۔ مشرکینِ مکہ ان کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ خندق کھودنے کی عرب میں یہ پہلی مثال تھی کیونکہ اصل میں یہ ایرانیوں کا طریقہ تھا۔ ایک ماہ کے محاصرے اور اپنے بے شمار افراد کے قتل کے بعد مشرکین مایوس ہو کر واپس چلے گئے۔ اسے غزوہ خندق یا جنگِ احزاب کہا جاتا ہے۔ احزاب کا نام اس لیے دیا جاتا ہے کہ اصل میں یہ کئی قبائل کا مجموعہ تھی۔ جیسے آج کل امریکا، برطانیہ وغیرہ کی اتحادی افواج کہلاتی ہیں۔ اس جنگ کا ذکر قرآن میں سورۃ الاحزاب میں ہے۔
خلافت راشدہ کے خاتمے کے بعد عربوں کی قائم کردہ دو عظیم ترین سلطنتوں میں سے دوسری سلطنت خلافت عباسیہ ہے۔ خاندان عباسیہ کے دو بھائیوں السفاح اور ابو جعفر المنصور نے 750ء (132ھ) خلافت عباسیہ کو قائم کیا اور 1258ء (656ھ) میں اس کا خاتمہ ہو گیا۔ یہ خلافت بنو امیہ کے خلاف ایک تحریک کے ذریعے قائم ہوئی۔ تحریک نے ایک عرصے تک اپنے مقاصد کے حصول کے لیے جدوجہد کی اور بالآخر بنو امیہ کو شکست دینے کے بعد بر سر اقتدار آگئی۔
ایڈورڈ سوم مملکت انگلستان کا بادشاہ تھا جس نے 1327ء سے اپنی وفات تک مملکت انگلستان پر حکومت کی۔ وہ 13 نومبر 1312ء کو قلعہ ونڈسر میں پیدا ہوا۔ اُس نے مملکت انگلستان کو یورپ کی ایک بہت بڑی عسکری طاقت میں تبدیل کر دیا تھا۔ وہ 29 ستمبر 1376ء کو بیمار ہوا اور کچھ عرصے بعد ہی 21 جون 1377ء کو اس کا انتقال ہو گیا۔ اُس کے مرنے کے بعد اس کے دس سالہ پوتے رچرڈ دوم کو بادشاہت ملی کیونکہ اس کے بیتے کا پہلے ہی 8 جون 1376ء کو انتقال ہو چکا تھا۔
اردو کو مختلف ناموں سے موسوم کیا جاتا رہا ہے۔ شرف الدین اصلاحی لکھتے ہیں : ’’اردو نام کچھ زیادہ پرانا نہیں۔ کوئی دو سو سال سے ہماری زبان اس نام سے موسوم ہے۔ ابتدا لفظ اردو بصورت ترکیب اپنے لغوی معنی میں استعمال ہوتا تھا۔ زبان اردوئے معلی کہلاتی تھی یعنی شاہی لشکر کی زباں۔ رفتہ رفتہ زبان کا لفظ خارج ہو گیا اور اردوئے معلی بچ رہا۔ کچھ عرصہ بعد ازراہ اختصار معلی بھی ساقط ہو گیا اورصرف اردو باقی رہ گیا۔ اردو کے چند قدیم نام یہ ہیں۔ ہندی، ہندوی، ہندوستانی، دہلوی، زبان ہندوستان، لنگوا اندستان کا، ریختہ۔ ‘‘
فاطمہ بنت محمد بن عبد اللہ جن کا معروف نام فاطمۃ الزہراء ہے حضرت محمد بن عبد اللہ اور خدیجہ بنت خویلد کی بیٹی تھیں۔ تمام مسلمانوں کے نزدیک آپ ایک برگزیدہ ہستی ہیں۔۔ آپ کی ولادت 20 جمادی الثانی بروز جمعہ بعثت کے پانچویں سال میں مکہ میں ہوئی۔ آپ کی شادی علی ابن ابی طالب سے ہوئی جن سے آپ کے دو بیٹے حسن اور حسین اور دو بیٹیاں زینب اور ام کلثوم پیدا ہوئیں۔ آپ کی وفات اپنے والد حضرت محمد بن عبد اللہ کی وفات کے کچھ ماہ بعد 632ء میں ہوئی۔ آپ کے بہت سے القابات مشہور ہیں۔
مذکر: نر اسم ہوتا ہے جیسےمرد، باپ، بیل، بیٹا جبکہ مونث: مادہ اسم ہوتا ہے جیسے عورت، ماں، گائے، بیٹی بے جان اسماء میں نر اور مادہ کا کوئی فرق نہیں ہوتا اس لیے ان کی تذکیر و تانیث کا تمام تر درارومدار اہل زبان پر ہوتا ہے جیسے قلم کو اہل زبان مذکر بولتے ہیں اور گیند کو مونث اسی لیے ایسے اسماء کی تذکیر و تانیث کو غیر حقیقی تذکیر و تانیث کہا جاتا ہے۔ جبکہ حقیقی تذکیر و تانیث وہ ہوتی ہے جس میں نر کے مقابلے میں مادہ اور مادہ کے مقابلے میں نر ہو جانداروں میں کیوں کہ قدرتی طور پر نر اور مادہ کا فرق موجود ہوتا ہے اس لیے اس لیے ان کی تذکیرو تانیث حقیقی ہوتی ہے جیسے مرد، عورت۔ بیل، گائے وغیرہ
اوکسفرڈ آرٹ آن لائن (جو پہلےگرو آرٹ آن لائن کے نام سے جانا جاتا تھا، اس سے پہلے یہ ڈکشنری آف آرٹ اور جسے اکثر دی گرو ڈکشنری آف آرٹ کہا جاتا ہے) ایک بڑا دائرۃ المعارف فن ہے، اب اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس کے آن لائن حوالاجاتی مواد کا حصہ ہے اور سابقاً یہ 34 جلدوں پر مشتمل دائرۃ المعارف تھا جس کی پہلی اشاعت گرو نے 1996ء اور معمولی ترمیم کے ساتھ دوسری اشاعت 1998ء میں ہوئی۔ ایک نیا ترمیم شدہ نسخہ اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس نے 2003ء میں شائع کیا۔
چیکی زبان (چیک زبان میں:Český jazyk) وسطی یورپ میں بولی جانے والی زبان ہے جسے چیک جمہوریہ کے علاوہ سلوواکیہ، آسٹریا، کرویئشا، بولندا، جرمنی، یوکرین، رومانیہ اور سربیا کے کچھ علاقوں میں بولا جاتا ہے۔ معیاری زبان کے اصل بولنے والے افراد کی تعداد 10 ملین ہے۔ چیکی زبان 2003 سے یورپی اتحاد کی رسمی زبان ہے۔
خدیجہ بنت خویلد (پیدائش: 556ء – وفات: 30 اپریل 619ء) مکہ کی ایک معزز، مالدار، عالی نسب خاتون جن کا تعلق عرب کے قبیلے قریش سے تھا۔ جو حسن صورت و سیرت کے لحاظ سے "طاہرہ" کے لقب سے مشہور تھیں۔ انہوں نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تجارتی کاروبار میں شریک کیا اور کئی مرتبہ اپنا سامانِ تجارت دے کر بیرون ملک بھیجا۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تاجرانہ حکمت، دیانت، صداقت، محنت اور اعلیٰ اخلاق سے اتنی متاثر ہوئیں کہ آپ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو شادی کا پیغام بھجوایا۔ جس کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے بڑوں کے مشورے سے قبول فرمایا۔ اس وقت ان کی عمر چاليس سال تھی جبکہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم صرف پچیس سال کے تھے۔ خدیجہ نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور پہلی ام المومنین ہونے کی سعادت حاصل کی۔ اور 25 سال نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اکلوتی زوجہ اور غمگسار شدید ترین مشکلات میں ساتھی تھیں۔ بقیہ تمام ازواج النبی ان کی وفات کے بعد زوجہ بنیں۔
آئینہ نما ویب سائٹ (انگریزی: Mirror website) کچھ دیگر ویب سائٹوں کی ہو بہ ہو نقل ہیں۔ ایسی ویب سائٹوں کا یو آر ایل اصل ویب سائٹ سے مختلف ہوتا ہے، مگر ان میں جو مواد ہوتا ہے وہ ایک جیسا یا تقریبًا ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔ ایک عام آئینہ نما ویب سائٹ کا مقصد نیٹ ورک ٹریفک کو کم کرنا، رسائی کی رفتار بہتر بناتا ہے، اصل ویب سائٹ کی موجودگی کو بہتر کر سکتا ہے یا پھر حقیقی دورانیے میں اصل سائٹ کے مواد کا بیک اپ کرتی ہے۔ تخریب کاری کے ارادے سے رو نما آئینہ نما ویب سائٹ اس بات کی کوشش کرتی ہیں کہ صارف کی معلومات کو چرایا جائے، مالویئر تقسیم ہو یا اصل ویب سائٹ کے مواد سے منافع کمایا جائے اور اس طرح سے منفی استعمال بہ روئے کار لایا جائے۔