اردو ویکیپیڈیا کے سب سے زیادہ ملاحظہ کردہ مضامین کی فہرست۔ مزید معلومات کے لیے ۔ ۔ ۔
شیخ رشید احمد پاکستانی سیاست دان جو وزیر ثقافت اور وزیر اطلاعات و نشریات رہ چکے ہیں۔ اور اس وقت عمران خان کی کابینہ میں وزیر ریلوے رہے پھر وزیر داخلہ بنا دیے گئے1950ء میں راولپنڈی میں ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے۔ سیاست کے میدان میں طالب علمی کے زمانے ہی میں قدم رکھ دیا تھا۔ ساٹھ کی دہائی میں جب صدر ایوب کے خلاف عوامی تحریک شروع ہوئی تو اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ پھر جب گورنمنٹ گورڈن کالج میں داخلہ لیا تو کالج کی طلبہ یونین کے صدر منتخب ہوئے۔ 1992ء مں ایم اے سیاسیات کرنے کے بعد تحریک استقلال میں شمولیت اختیار کی۔ لیکن جلد ہی ان سے علاحدہ ہو گئے۔ 1984ء میں بلدیاتی کونسل کے رکن منتخب ہوئے۔ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ محمد خان جونیجو کے عہد میں آزاد پارلیمانی گروپ کے سب سے فعال رکن تھے جس کے سربراہ فخر امام تھے۔ 1988ء کے عام انتخابات میں اپنی شعلہ بیانی اور پر زور عوامی خطابات کے بل پرپیپلز پارٹی کے امیدوار جنرل ٹکا خان کو شکست دے کر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 1990ء سے 1993ء اور پھر 1997ء کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ محمد نواز شریف کے پہلے دور میں شیخ رشید صاحب کو پہلے مشیر اطلاعات و نشریات، پھر وزیر صنعت و حرفت مع اضافی چارج سیاحت و ثقافت مقرر ہوئے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اسمبلی اور اسمبلی سے باہر ان کی بلند بانگ تنقید کو روکنے کے لیے ان کی لال حویلی میں ایک عدد کلاشنکوف رکھنے کے جرم میں جیل بھیج دیا۔ چند ماہ کی قانونی کارروائی کے بعد رہائی پائی۔ 1997ء کے الیکشن میں کامیاب ہو کر میاں نواز شریف کی کابینہ میں بطور وزیر شامل رہے۔ 2002ء میں پرویز مشرف کی چھتری تلے ہونے والے انتخابات میں آزاد حیثیت سے کامیاب ہوئے بعد میں مسلم لیگ ق میں شمولیت کا اعلان کیا۔ پہلے وزیر اطلاعات اور پھر وزیر ریلوے بنے۔ پرویز مشرف کے مداحوں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ سنہ 2008ء کے انتخابات میں جناب مخدوم جاوید ہاشمی کے ہاتھوں شرمناک شکست کھائی۔ جس کے بعدمسلم لیگ ق سے علاحدہ ہو کر عوامی مسلم لیگ نام کی ایک نئی جماعت کی بنیاد ڈالی۔ 2010ء میں سیاست میں ایک دفعہ پھر سرگرم ہوئے اور ایک بار پھر سے پنڈی کے حلقے سے ضمنی انتخابات میں حصہ لیا مگر 24 فروری کو ہونے والے ان انتخابات میں ایک بار پھر ان مسلم لیگ ن کے شکیل اعوان کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کی وجہ شہرت ان کا عوامی انداز، سکینڈلز، لال حویلی اور سیاسی پیشن گوئیاں ہیں۔
ابوحفص عمر فاروق بن خطاب عدوی قرشی (586ء/590ء، مکہ - 6 نومبر 644ء، مدینہ) ابوبکر صدیق کے بعد مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ راشد، محمد مصطفی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سسر اور تاریخ اسلام کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک ہیں۔ عمر بن خطاب عشرہ مبشرہ میں سے ہیں، ان کا شمار علما و زاہدین صحابہ میں ہوتا تھا۔ ابوبکر صدیق کی وفات کے بعد 23 اگست سنہ 634ء مطابق 22 جمادی الثانی سنہ 13ھ کو مسند خلافت سنبھالی۔ عمر بن خطاب ایک باعظمت، انصاف پسند اور عادل حکمران مشہور ہیں، ان کی عدالت میں مسلم و غیر مسلم دونوں کو یکساں انصاف ملا کرتا تھا، عمر بن خطاب کا یہ عدل و انصاف انتہائی مشہور ہوا اور ان کے لقب فاروق کی دیگر وجوہ تسمیہ میں ایک وجہ یہ بھی بنی۔ آپ رضی اللہ عنہ کا نسب نویں پشت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے جا ملتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نویں پشت میں کعب کے دو بیٹے ہیں مرہ اور عدی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مرہ کی اولاد میں سے ہیں، جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ عدی کی اولاد میں سے ہیں۔
ابوبکر صدیق عبد اللہ بن ابو قحافہ عثمان تیمی قرشی (573ء—634ء) اسلام کے پہلے خلیفہ راشد، عشرہ مبشرہ میں شامل، خاتم النبین محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اولین جانشین، صحابی، خسر اور ہجرت مدینہ کے وقت رفیق سفر تھے۔ اہل سنت و الجماعت کے یہاں ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ انبیا اور رسولوں کے بعد انسانوں میں سب سے بہتر، صحابہ میں ایمان و زہد کے لحاظ سے سب سے برتر اور ام المومنین عائشہ بنت ابوبکر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے محبوب تر تھے۔ عموماً ان کے نام کے ساتھ صدیق کا لقب لگایا جاتا ہے جسے حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی تصدیق و تائید کی بنا پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دیا تھا۔
قرآن، قرآن مجید یا قرآن شریف (عربی: القرآن الكريم) دین اسلام کی مقدس و مرکزی کتاب ہے جس کے متعلق اسلام کے پیروکاروں کا اعتقاد ہے کہ وہ کلام الہی ہے اور اسی بنا پر یہ انتہائی محترم و قابل عظمت کتاب ہے۔ اسے پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی کے ذریعے اتارا گیا۔ یہ وحی اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتے حضرت جبرائیل علیہ السلام لاتے تھے جیسے جیسے قرآن مجید کی آیات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوتیں آپ صلی علیہ وآلہ وسلم اسے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو سنا اور ان آیات کے مطالب و معانی سمجھا دیتے۔ کچھ صحابہ کرام تو ان آیات کو وہیں یاد کر لیتے اور کچھ لکھ کر محفوظ کر لیتے۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن ہر قسم کی تحریف سے پاک سے محفوظ ہے، قرآن میں آج تک کوئی کمی بیشی نہیں ہو سکی اور اسے دنیا کی واحد محفوظ کتاب ہونے کی حیثیت حاصل ہے، جس کا حقیقی مفہوم تبدیل نہیں ہو سکا اور تمام دنیا میں کروڑوں کی تعداد میں چھپنے کے باوجود اس کا متن ایک جیسا ہے اور اس کی تلاوت عبادت ہے۔ نیز صحف ابراہیم، زبور اور تورات و انجیل کے بعد آسمانی کتابوں میں یہ سب سے آخری کتاب ہے اور سابقہ آسمانی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اب اس کے بعد کوئی آسمانی کتاب نازل نہیں ہوگی۔ قرآن کی فصاحت و بلاغت کے پیش نظر اسے لغوی و مذہبی لحاظ سے تمام عربی کتابوں میں اعلیٰ ترین مقام دیا گیا ہے۔ نیز عربی زبان و ادب اور اس کے نحوی و صرفی قواعد کی وحدت و ارتقا میں بھی قرآن کا خاصا اہم کردار دکھائی دیتا ہے۔ چنانچہ قرآن کے وضع کردہ عربی زبان کے قواعد بلند پایہ عرب محققین اور علمائے لغت مثلاً سیبویہ، ابو الاسود الدؤلی اور خلیل بن احمد فراہیدی وغیرہ کے یہاں بنیادی ماخذ سمجھے گئے ہیں۔
انا لله و انا الیہ راجعون (عربی: إِنَّا لِلَّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ) قرآن میں سورۃ البقرہ کی آیت 156 کے ایک حصے سے لیا گیا ہے۔، کا مطلب ہے "ہم خدا کے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔" جب مسلمان کسی کی موت یا مصیبت کا سنتے ہیں تو یہ آیت پڑھتے ہیں۔ وہ اس آیت کو تعزیت کہنے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں اور مصیبت کے وقت صبر کا مطالبہ کرتے ہیں۔
ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال (ولادت: 9 نومبر 1877ء – وفات: 21 اپریل 1938ء) بیسویں صدی کے ایک معروف شاعر، مصنف، قانون دان، سیاستدان اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھے۔ اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے اور یہی ان کی بنیادی وجہ شہرت ہے۔ شاعری میں بنیادی رجحان تصوف اور احیائے امت اسلام کی طرف تھا۔ "دا ریکنسٹرکشن آف ریلیجس تھاٹ ان اسلام" کے نام سے انگریزی میں ایک نثری کتاب بھی تحریر کی۔ علامہ اقبال کو دور جدید کا صوفی سمجھا جاتا ہے۔ بحیثیت سیاست دان ان کا سب سے نمایاں کارنامہ نظریۂ پاکستان کی تشکیل ہے، جو انہوں نے 1930ء میں الہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پیش کیا تھا۔ یہی نظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا۔ اسی وجہ سے علامہ اقبال کو پاکستان کا نظریاتی باپ سمجھا جاتا ہے۔ گو کہ انہوں نے اس نئے ملک کے قیام کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن انہیں پاکستان کے قومی شاعر کی حیثیت حاصل ہے۔
ابو القاسم محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب (12 ربیع الاول عام الفیل / 8 جون 570ء یا 571ء – 12 ربیع الاول 10ھ / 8 جون 632ء) مسلمانوں کے آخری نبی ہیں۔ اہل اسلام کے نزدیک محمد تمام مذاہب کے پیشواؤں سے کامیاب ترین پیشوا تھے۔ آپ کی کنیت ابوالقاسم تھی۔ مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ کی طرف سے انسانیت کی جانب بھیجے جانے والے انبیا اکرام کے سلسلے کے آخری نبی ہیں جن کو اللہ نے اپنے دین کی درست شکل انسانوں کی جانب آخری بار پہنچانے کیلئے دنیا میں بھیجا۔ انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دنیا کی تمام مذہبی شخصیات میں سب سے کامیاب شخصیت تھے۔ 570ء (بعض روایات میں 571ء) مکہ میں پیدا ہونے والے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر قرآن کی پہلی آیت چالیس برس کی عمرمیں نازل ہوئی۔ ان کا وصال تریسٹھ (63) سال کی عمر میں 632ء میں مدینہ میں ہوا، مکہ اور مدینہ دونوں شہر آج کے سعودی عرب میں حجاز کا حصہ ہیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف کے والد کا انتقال ان کی دنیا میں آمد سے قریبا چھ ماہ قبل ہو گیا تھا اور جب ان کی عمر چھ سال تھی تو ان کی والدہ حضرت آمنہ بھی اس دنیا سے رحلت فرما گئیں۔ عربی زبان میں لفظ "محمد" کے معنی ہیں 'جس کی تعریف کی گئی'۔ یہ لفظ اپنی اصل حمد سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے تعریف کرنا۔ یہ نام ان کے دادا حضرت عبدالمطلب نے رکھا تھا۔ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو رسول، خاتم النبیین، حضور اکرم، رحمت للعالمین اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے القابات سے بھی پکارا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی آپ کے بہت نام و القاب ہیں۔ نبوت کے اظہار سے قبل حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے چچا حضرت ابوطالب کے ساتھ تجارت میں ہاتھ بٹانا شروع کر دیا۔ اپنی سچائی، دیانت داری اور شفاف کردار کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عرب قبائل میں صادق اور امین کے القاب سے پہچانے جانے لگے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنا کثیر وقت مکہ سے باہر واقع ایک غار میں جا کر عبادت میں صرف کرتے تھے اس غار کو غار حرا کہا جاتا ہے۔ یہاں پر 610ء میں ایک روز حضرت جبرائیل علیہ السلام (فرشتہ) ظاہر ہوئے اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اللہ کا پیغام دیا۔ جبرائیل علیہ السلام نے اللہ کی جانب سے جو پہلا پیغام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پہنچایا وہ یہ ہے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان جنوبی ایشیا کے شمال مغرب وسطی ایشیا اور مغربی ایشیا کے لیے دفاعی طور پر اہم حصے میں واقع ایک خود مختار اسلامی ملک ہے۔ یہ دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے، جس کی آبادی تقریباً 242 ملین ہے اور دنیا کی دوسری سب سے بڑی مسلم آبادی والا ملک ہے۔ 881,913 مربع کلومیٹر (340,509 مربع میل) کے ساتھ یہ دنیا کا تینتیسواں بڑے رقبے والا ملک ہے۔ اس کے جنوب میں 1046 کلومیٹر (650 میل) کی ساحلی پٹی ہے جو بحیرہ عرب سے ملتی ہے۔پاکستان کے مشرق ميں بھارت، شمال مشرق ميں چین اور مغرب ميں افغانستان اور ايران واقع ہيں۔ پاکستان کو شمال میں ایک تنگ واخان راہداری تاجکستان سے جدا کرتی ہے جبکہ اس ملک کی سمندری سرحدی حدود اومان کے سمندری حدود سے بھی ملتی ہیں۔
معراج کمالِ معجزاتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ یہ وہ عظیم خارقِ عادت واقعہ ہے جس نے تسخیرِ کائنات کے مقفّل دروازوں کو کھولنے کی اِبتداء کی۔ اِنسان نے آگے چل کر تحقیق و جستجو کے بند کواڑوں پر دستک دی اور خلاء میں پیچیدہ راستوں کی تلاش کا فریضہ سر انجام دیا۔ رات کے مختصر سے وقفے میں جب اللہ ربّ العزّت حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مسجدِ حرام سے نہ صرف مسجد اقصیٰ تک بلکہ جملہ سماوِی کائنات کی بے اَنت وُسعتوں کے اُس پار ’’قَابَ قَوْسَيْنِ‘‘ اور ’’أَوْ أَدْنَى‘‘ کے مقاماتِ بلند تک لے گیا اور آپ مدّتوں وہاں قیام کے بعد اُسی قلیل مدّتی زمینی ساعت میں اِس زمین پر دوبارہ جلوہ اَفروز بھی ہو گئے۔ قرآن کریم میں سورہ بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں ارشادِ خداوندی ہے کہ وہ (ذات) پاک ہے جو ایک رات اپنے بندے کو مسجد الحرام یعنی (خانہ کعبہ) سے مسجد اقصیٰ (یعنی بیت المقدس) تک جس کے اردگرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں لے گیا تاکہ ہم اسے اپنی (قدرت کی) نشانیاں دکھائیں۔ بے شک وہ سننے والا (اور) دیکھنے والا ہے۔ رجب کی ستائیسویں شب کو اللہ کے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو معراج کا شرف عطا کیا گیا۔اگرچہ اس واقعہ کے زمان کے بارے میں کئی روایات موجود ہیں لیکن محققین کی تحقیق کے مطابق یہ واقعہ ہجرت سے تین سال قبل پیش آیا،یعنی دسویں سالِ بعثت کو۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ شیعہ سنی علما کا اتفاق ہے کہ نماز جناب ابو طالبؑ کی وفات کے بعد یعنی بعثت کے دسویں سال کو واجب ہوگئ تو پانچ وقت کی نماز اسی معراج کی رات امت پہ واجب ہو گئی تھی۔منقول ہے کہ اس دن کفار نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بہت ستایا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی چچازاد بہن ام ہانی کے گھر تشریف لے گئے اور وہاں آرام فرمانے لگے۔ ادھر اللہ کے حکم سے حضرت جبرئیل پچاس ہزار فرشتوں کی برات اور براق لے کر نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ کا رب آپ سے ملاقات چاہتا ہے۔ چنانچہ سوئے عرش سفر کی تیاریاں ہونے لگیں۔ سفر معراج کا سلسلہ شروع ہونے والا تھا نبی رحمت کی بارگاہ میں براق حاضر کیا گیا جس پر حضور کو سوار ہونا تھا، مگر اللہ کے پیارے محبوب نے کچھ توقف فرمایا۔ جبرئیل امین نے اس پس و پیش کی وجہ دریافت کی تو آپ نے ارشاد فرمایا: مجھ پر تو اللہ رب العزت کی اس قدر نوازشات ہیں، مگر روز قیامت میری امت کا کیا ہو گا؟ میری امت پل صراط سے کیسے گذرے گی؟ اسی وقت اللہ تعالٰی کی طرف سے بشارت دی گئی :اے محبوب!
سُلطان الہند خواجہ سیّد معین الدین چشتی (1142ء-1236ء) فارسی نژاد روحانی پیشوا، واعظ، عالم، فلسفی، صوفی اور زاہد نیز اجمیری سلسلۂ چشتیہ کے مشہور بزرگ تھے۔ ان کا آبائی وطن سیستان تھا۔ 13ویں صدی کے اوائل میں انہوں نے برصغیر کا سفر کیا اور یہیں بس گئے اور تصوف کے مشہور سلسلہ چشتیہ کو خوب فروغ بخشا۔ تصوف کا یہ سلسلہ قرون وسطی کے ہندوستان میں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا اور اس طریقت کو کئی سنی اولیا نے اپنایا جن میں نظام الدین محمداولیاء (وفات: 1325) اور امیر خسرو (وفات: 1325) جیسی عظیم الشان شخصیات بھی شامل ہیں۔ معین الدین چشتی کو برصغیر کا سب سے بڑا ولی اور صوفی سمجھا جاتا ہے۔ خواجہ غریب نواز وہ پہلے بزرگ ہیں جنھوں نے غیر عرب مسلمانوں کو سماع کی طرف راغب کیا اور تقرب الہی کی غرض سے حالت وجد میں سماع کی اجازت دی تاکہ نو مسلموں کو اجنبیت کا احساس نہ ہو اور بھجن اور گیت کے عادی قوالی اور سماع کے ذریعے اللہ سے تقرب حاصل کریں۔ حالانکہ بعض علما کا کہنا ہے کہ ان کا یہ فیصلہ صد فیصد درست نہیں تھا کیونکہ ان ہی کے سلسلہ کے بزرگ نظام الدین اولیاء نے تمام قسم کے آلات موسیقی کو حرام قرار دے دیا تھا۔
اللہ کے ذاتی نام 'اللہ' کے علاوہ اللہ کے ننانوے صفاتی نام مشہور ہیں۔ انہیں کہا جاتا ہے۔ ان میں سے بیشتر قرآن میں موجود ہیں اگرچہ قرآن میں ننانوے کی تعداد مذکور نہیں مگر یہ ارشاد ہے کہ اللہ کو اچھے اچھے ناموں سے پکارا جائے۔ روایات میں بکثرت نیچے دیے گئے ننانوے صفاتی نام ملتے ہیں جن کے ساتھ ان کا اردو ترجمہ بھی درج کیا جا رہا ہے۔
اسم کسی جگہ شخص یا چیز کے نام کو اسم کہا جاتا ہے جیسے پاکستان، کراچی، لاہور، امجد، حنا، انور، کرسی، میز، قلم وغیرہ اسم کی کئی اقسام ہیں۔ اسم جامد، اسم مشتق، اسم مصدر، اسم معرفہ (خاص)، اسم نکرہ (عام) اسم معرفہ کی درج ذیل اقسام ہیں۔ اسم علم، اسم ضمیر، اسم اشارہ، اسم موصول۔ اسم نکرہ کی درج ذیل اقسام ہیں۔ اسم ذات، اسم حاصل مصدر، اسم حالیہ، اسم فاعل، اسم مفعول، اسم استفہام۔
نجم الدولہ، دبیر الملک، مرزا نوشہ اسد اللہ خان غالب بہادر نظام جنگ (1797ء- 1869ء) اردو زبان کے سب سے بڑے شاعروں میں ایک سمجھے جاتے ہیں۔ یہ تسلیم شدہ بات ہے کہ 19 ویں صدی غالب کی صدی ہے۔ جبکہ 18 ویں میر تقی میر کی تھی اور 20 ویں علامہ اقبال کی۔ غالب کی عظمت کا راز صرف ان کی شاعری کے حسن اور بیان کی خوبی ہی میں نہیں ہے۔ ان کا اصل کمال یہ ہے کہ وہ زندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کو گہرائی میں جا کر سمجھتے تھے اور بڑی سادگی سے عام لوگوں کے لیے بیان کر دیتے تھے۔ غالب جس پر آشوب دور میں پیدا ہوئے اس میں انہوں نے مسلمانوں کی ایک عظیم سلطنت کو برباد ہوتے ہوئے اور باہر سے آئی ہوئی انگریز قوم کو ملک کے اقتدار پر چھاتے ہوئے دیکھا۔ غالباً یہی وہ پس منظر ہے جس نے ان کی نظر میں گہرائی اور فکر میں وسعت پیدا کی۔
اردو زبان کی ابتدا کے متعلق نظریات
اردو کی ابتدا و آغاز کے بارے میں کئی مختلف نظریات ملتے ہیں یہ نظریات آپس میں اس حد تک متضاد ہیں کہ انسان چکرا کر رہ جاتا ہے۔ ان مشہور نظریات میں ایک بات مشترک ہے کہ ان میں اردو کی ابتدا کی بنیاد برصغیر پاک و ہند میں مسلمان فاتحین کی آمد پر رکھی گئی ہے۔ اور بنیادی استدلال یہ ہے کہ اردو زبان کا آغاز مسلمان فاتحین کی ہند میں آمد اور مقامی لوگوں سے میل جول اور مقامی زبان پر اثرات و تاثر سے ہوا۔ اور ایک نئی زبان معرض وجود میں آئی جو بعد میں اردو کہلائی۔ کچھ ماہرین لسانیات نے اردو کی ابتدا کا سراغ قدیم آریاؤں کے زمانے میں لگانے کی کوشش کی ہے۔ بہر طور اردو زبان کی ابتدا کے بارے میں کوئی حتمی بات کہنا مشکل ہے۔ اردو زبان کے محققین اگرچہ اس بات پر متفق ہیں کہ اردو کی ابتدا مسلمانوں کی آمد کے بعد ہوئی لیکن مقام اور نوعیت کے تعین اور نتائج کے استخراج میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس انداز سے اگر اردو کے متعلق نظریات کو دیکھا جائے تو وہ نمایاں طور پر چار مختلف نظریات کی شکل میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔
احمد خان متقی بن محمد متقی (17 اکتوبر 1817ء – 27 مارچ 1898ء) المعروف سر سید، سر سید احمد خان انیسویں صدی کے ایک ہندوستانی مسلم نظریۂ عملیت کے حامل ، مصلح اور فلسفی تھے۔ ان کو برصغیر میں مسلم قوم پرستی کا سرخیل مانا جاتا ہے اور دو قومی نظریہ کا خالق تصور کیا جاتا ہے، جو آگے چل کر تحریک پاکستان کی بنیاد بنا۔
اردو زبان میں سینتیس حروفِ تہجی اور سینتالیس آوازیں ہیں جن میں سے بیشتر عربی سے لیے گئے ہیں اور دیگر انہی کی مختلف شکلیں ہیں۔ کچھ حروف کئی طریقوں سے استعمال ہوتے ہیں اور کچھ مخلوط حروف بھی استعمال ہوتے ہیں جو دو حروف سے مل کر بنتے ہیں۔ بعض لوگ 'ء' کو الگ حرف نہیں مانتے مگر پرانی اردو کتب اور لغات میں اسے الگ حرف کے طور پر لکھا جاتا ہے۔ مختلف الفاظ میں یہ الگ حرف کے طور پر ہی استعمال ہوتا ہے مثلاً 'دائرہ'۔ یہ بات مدِنظر رکھنا ضروری ہے کہ اردو تختی اور اردو حروف دو مختلف چیزیں ہیں کیونکہ اردو تختی میں اردو حروفِ تہجی کی کئی اشکال ہو سکتی ہیں جن کو الگ حرف کا درجہ نہیں دیا جا سکتا بلکہ وہ ایک ہی حرف کی مختلف شکلیں ہیں۔ مثلاً نون غنہ نون کی شکل ہے اور 'ھ' اور 'ہ' ایک ہی حرف کی مختلف اشکال ہیں۔ ایک اور مثال الف ممدودہ (آ) اور الف مقصورہ (ا) کی ہے جو اردو تختی میں الگ ہیں مگر اردو کا ایک ہی حرف شمار ہوتے ہیں۔
متضاد مخالف؛ اُلٹ؛ اُلٹی طرف؛ دوسری جانب؛ ضِد؛ مُقابل؛ بِالمقابل؛ متقابل؛ متضاد؛ ایک لفظ جو مفہوم کے لحاظ سے دوسرے کی ضد ہو؛ متضاد المعنی۔ ایسے الفاظ جو مماثل وضع میں لیکن ایک دوسرے کے مخالف، برعکس یا یکسر مختلف ہوں۔ اسے 'بائنری' تعلق سے تعبیر کیا جاتا ہے کیوں کہ متضاد جوڑوں میں دو رکن ہوتے ہیں۔ باہم مخالف تعلق کو متضاد کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ایک جوڑے میں مخالف لفظ کو عام طور پر اس سوال کے ذریعہ طے کیا جا سکتا ہے کہ الف کے برعکس کیا ہے؟ جیسے:
منشی پریم چند اردو کے مشہور ناول نگار اور افسانہ نگار ہیں۔ ان کا اصلی نام دھنپت رائے ہے، لیکن ادبی دنیا میں پریم چند کے نام سے مشہور ہیں۔ وہ 1880ء میں منشی عجائب لال کے وہاں ضلع وارانسی مرٹھوا کے گاؤں لمہی میں پیدا ہوئے۔ان کے دادا گاوں کے پٹواری اور والد ایک ڈاک خانے میں کلرک تھے۔ پریم چند ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ نے تقریباً سات آٹھ برس فارسی پڑھنے کے بعد انگریزی تعلیم شروع کی۔ پندرہ سال کی عمر میں شادی ہو گئی۔ ایک سال بعد والد کا انتقال ہو گیا۔ اس وقت آٹھویں جماعت میں پڑھتے تھے۔ پورے گھر بار کا بوجھ آپ پر ہی پڑ گیا۔ فکر معاش نے زیادہ پریشان کیا تو لڑکوں کو بطور استاد پڑھانے لگے اور میٹرک پاس کرنے کے بعد محکمہ تعلیم میں ملازم ہو گئے۔ اسی دوران میں بی۔ اے کی ڈگری حاصل کی۔
امیر معاویہ یا معاویہ اول (عربی: معاوية بن أبي سفيان، 597ء، 603ء یا 605ء – اپریل 680ء) [[|اموی حکومت|اموی خلافت]] کے بانی تھے اور 661ء سے اپنی وفات 680ء تک خلیفہ رہے۔ وہ نبی محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے 30 سال بعد خلیفہ بن گئے، ان سے قبل خلفائے راشدین اور حسن ابن علی خلیفہ رہے۔ اگرچہ ان کے دور میں انفاص و تقوی کو دور خلفائے راشدین کے مقابلے میں کمتر سمجھا جاتا ہے، لیکن نمو پزیر اسلام میں امیر معاویہ پہلے مسلمان خلیفہ ہیں جن کا نام سرکاری دستاویزات، سکوں اور کتبوں پر کندہ ہوا۔ امیر معاویہ کاتبین وحی میں سے تھے۔
پاکستان کا قومی ترانہ، جو "پاک سرزمین" بھی کہلاتا ہے، سرکاری طور پر 1954ء میں پاکستان کا قومی ترانہ قرار پایا۔ اس کی دھن احمد جی چھاگلہ نے1949 میں ترتیب دی جبکہ ترانے کے بول حفیظ جالندھری نے 1952 میں تخلیق کیے۔۔ اس ترانے کو اس وقت کے گیارہ معروف سنگیت کاروں نے گایا جن میں احمد رشدی، کوکب جہاں، رشیدہ بیگم، نجم آرا، نسیمہ شاہین، زوار حسین، اختر عبّاس، غلام دستگیر، انور ظہیر اور اختر وارث علی شامل ہیں۔قومی ترانے سے قبل پاکستان زندہ باد (فارسی) بطور قومی ترانہ استعمال ہوا کرتا تھا۔
برصغیر پاک و ہند میں 1857ء کی ناکام جنگ آزادی اور سقوطِ دہلی کے بعد مسلمانان برصغیر کی فلاح و بہبودگی ترقی کے لیے جو کوششیں کی گئیں، عرف عام میں وہ ”علی گڑھ تحریک “ کے نام سے مشہور ہوئیں۔ سر سید نے اس تحریک کا آغاز جنگ آزادی سے ایک طرح سے پہلے سے ہی کر دیا تھا۔ غازی پور میں سائنٹفک سوسائٹی کا قیام اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ لیکن جنگ آزادی نے سرسید کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کیے اور ان ہی واقعات نے علی گڑھ تحریک کو بارآور کرنے میں بڑی مدد دی۔ لیکن یہ پیش قدمی اضطراری نہ تھی بلکہ اس کے پس پشت بہت سے عوامل کارفرما تھے۔ مثلاً راجا رام موہن رائے کی تحریک نے بھی ان پر گہرا اثر چھوڑا۔
ابو عبد اللہ عثمان بن عفان اموی قرشی (47 ق ھ - 35 ھ / 576ء – 656ء) اسلام کے تیسرے خلیفہ، داماد رسول اور جامع قرآن تھے۔ عثمان غنی سابقین اسلام میں شامل اور عشرہ مبشرہ میں سے تھے، ان کی کنیت ذو النورین ہے کیونکہ انھوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دو صاحبزادیوں سے نکاح کیا تھا، پہلے رقیہ بنت محمد سے کیا، پھر ان کی وفات کے بعد ام کلثوم بنت محمد سے نکاح کیا۔ عثمان غنی پہلے صحابی ہیں جنھوں نے سرزمین حبشہ کی ہجرت کی، بعد میں دیگر صحابہ بھی آپ کے پیچھے حبشہ پہنچے۔ بعد ازاں دوسری ہجرت مدینہ منورہ کی جانب کی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عثمان غنی پر مکمل اعتماد اور ان کی فطری حیاء و شرافت اور جو انھوں نے اپنے مال کے ذریعہ اہل ایمان کی نصرت کی تھی، اس کی انتہائی قدر کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیگر صحابہ کے ساتھ ان کو بھی جنت اور شہادت کی موت کی خوش خبری دی۔
صلوٰۃ " (نماز) کے لغوی معنی "دعا" کے ہیں۔ قرآن میں فرمانِ اللہ ہے: خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌاے پیغمبر! ان لوگوں کے اموال میں سے صدقہ وصول کرلو جس کے ذریعے تم انہیں پاک کردو گے اور ان کے لیے باعثِ برکت بنو گے، اور اُن کے لیے دعا کرو۔ یقینا! تمہاری دعا ان کے لیے سراپا تسکین ہے، اور اللہ ہر بات سنتا اور سب کچھ جانتا ہے جبکہ فرمانِ نبوی ہے: اور اللہ کی جانب سے "صلوٰۃ" کے معنی بہترین ذکر کے ہیں جبکہ ملائکہ کی طرف سے "صلوٰۃ" کے معنی دعا ہی کے لیے جائیں گے۔ قرآن میں لکھا ہے: إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًابے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو!
انگریزی لفظ بیورو کریسی کا ترجمہ۔ بیورو کریسی دراصل فرانسیسی نژاد لفظ ہے اور اس طنز آمیز لفظ کا اطلاق ایسی عاملہ یا انتظامیہ پر ہوتا ہے جس کا کام ضابطہ پرستی کے باعث طوالت آمیز ہو۔ اس اصطلاح کو اٹھارھویں صدی میں فرانس میں وضع کیا گیا جب کہ بعض افراد نوابی خطابات دے کر انھیں سرکاری عہدوں پر فائز کر دیا گیا تھا۔ نپولین کے دور حکومت میں سرکاری محکموں کو بیورو کہا جاتا تھا اور سرکاری عہدے داروں کو بیوروکریٹ۔
جنگ احد 17 شوال 3ھ (23 مارچ 625ء) میں مسلمانوں اور مشرکینِ مکہ کے درمیان احد کے پہاڑ کے دامن میں ہوئی۔ مشرکین کے لشکر کی قیادت ابوسفیان کے پاس تھی اور اس نے 3000 سے زائد افراد کے ساتھ مسلمانوں پر حملہ کی ٹھانی تھی جس کی باقاعدہ تیاری کی گئی تھی۔ مسلمانوں کی قیادت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کی۔ اس جنگ کے نتیجہ کو کسی کی فتح یا شکست نہیں کہا جا سکتا کیونکہ دونوں طرف شدید نقصان ہوا اور کبھی مسلمان غالب آئے اور کبھی مشرکین لیکن آخر میں مشرکین کا لشکر لڑائی ترک کر کے مکہ واپس چلا گیا۔
اِصطلاحیات (انگریزی: terminology science) دراصل اِصطلاحات اور اُن کے استعمال کا مطالعہ ہے۔ اِسے علم المصطلاحات، علم اصطلاحات یا صرف اِصطلاحات بھی کہاجاتا ہے۔ جبکہ اِصطلاحات (انگریزی: terminology) ایسے الفاظ اور مرکب الفاظ ہیں جو مخصوص سیاق و سباق میں استعمال کیے جاتے ہیں۔ اِصطلاحات جمع ہے لفظ اِصطلاح کی۔
لیو ٹالسٹائی یا لیو تولستوئی (روسی: Лёв Николаевич Толстой؛ 28 اگست 1828 – 20 نومبر 1910) ایک روسی مصنف، ناول نگار، ڈراما نگار، مضمون نگار اور فلسفی تھے۔ وہ نو برس کی عمر میں یتیم ہو گئے سولہ برس کی عمر میں کازان یونیورسٹی میں داخل ہوئے۔ لیکن انہوں نے ڈگری حاصل کیے بغیر تعلیم ترک کر دی۔ 1849ء میں اپنی جاگیر میں کاشت کاروں کے لیے ایک اسکول قائم کیا جس کے ناکام ہو جانے کے بعد ماسکو اور پھر سینٹ پیٹرز برگ چلے گئے۔ 1851ء میں ملازمت کر لی۔ اپنی سوانح عمری کی پہلی جلد "بچپن" اسی 1851ء ملازمت کے دوران میں لکھی۔ 1854ء میں فوج میں شامل ہوئے۔ اس عہد کے تجربات بعد میں اُن کے شاہکار ناول جنگ اور امن کی بنیاد بنے۔ فوج چھوڑنے کے بعد کئی برس تک کبھی ماسکومیں رہتے کبھی اپنی جاگیر پر۔
غزل اردو شاعری کی مقبول ترین "صنف" سخن ہے۔ غزل اوزان میں لکھی جاتی ہے اور یہ ہم قافیہ و بحر اور ہم ردیف مصرعوں سے بنے اشعار کا مجموعہ ہوتی ہے۔ مطلع کے علاوہ غزل کے باقی تمام اشعار کے پہلے مصرع میں قافیہ اور ردیف کی قید نہیں ہوتی ہے، جبکہ مصرع ثانی میں غزل کا ہم آواز قافیہ و ہم ردیف کا استعمال کرنا لازمی ہوتا ہے۔ غزل کا پہلا شعر مطلع کہلاتا ہے، جس کے دونوں مصرعے ہم بحر اور ہم قافیہ و ہم ردیف ہوتے ہیں۔ غزل کا آخری شعر مقطع کہلاتا ہے، بشرطیکہ اس میں شاعر اپنا تخلص استعمال کرے ورنہ وہ بھی عام شعر ہی کہلاتا ہے۔
محمد علی جناح پیدائشی نام، محمد علی جناح بھائی، 25 دسمبر 1876ء – 11 ستمبر 1948ء) کے نامور وکیل، سیاست دان اور بانی پاکستان تھے۔ محمد علی جناح 1913ء سے لے کر پاکستان کی آزادی 14 اگست 1947ء تک آل انڈیا مسلم لیگ کے سربراہ رہے، پھر قیام پاکستان کے بعد اپنی وفات تک، وہ ملک کے پہلے گورنر جنرل رہے۔ سرکاری طور پر پاکستان میں آپ کو قائدِ اعظم یعنی سب سے عظیم رہبر اور بابائے قوم یعنی قوم کا باپ بھی کہا جاتا ہے۔ جناح کا یومِ پیدائش پاکستان میں قومی تعطیل کے طور پر منایا جاتا ہے۔کراچی کے پیدائشی اور لنکن ان سے بیرسٹری کی تربیت حاصل کرنے والے جناح، بیسویں صدی کے ابتدائی دو عشروں میں آل انڈیا کانگریس کے اہم رہنما کے طور پر ابھرے۔ اپنی سیاست کے ابتدائی ادوار میں انہوں نے ہندو مسلم اتحاد کے لیے کام کیا۔ 1916ء میں آل انڈیا مسلم لیگ اور آل انڈیا کانگریس کے مابین ہونے والے میثاق لکھنؤ کو مرتب کرنے میں بھی انہوں نے اہم کردار ادا کیا۔ جناح آل انڈیا ہوم رول لیگ کے اہم رہنماوں میں سے تھے، انہوں نے چودہ نکات بھی پیش کیے، جن کا مقصد ہندوستان کے مسلمانوں کے سیاسی حقوق کا تحفظ کرنا تھا۔ بہر کیف جناح 1920ء میں آل انڈیا کانگریس سے مستعفی ہو گئے، جس کی وجہ آل انڈیا کانگریس کے موہن داس گاندھی کی قیادت میں ستیاگرا کی مہم چلانے کا فیصلہ تھا۔1940ء تک جناح کو یہ یقین ہو چلا تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک علاحدہ وطن کی جدوجہد کرنی چاہیے۔ اسی سال، مسلم لیگ نے جناح کی قیادت میں قرارداد پاکستان منظور کی جس کا مقصد نئی مملکت کی قیام کا مطالبہ تھا۔دوسری جنگ عظیم کے دوران، آل انڈیا مسلم لیگ نے مضبوطی پکڑلی جبکہ ان ادوار میں کانگریس کے کئی رہنما قید کاٹ رہے تھے اور جنگ کے ختم ہونے کے مختصر عرصے میں ہی انتخابات کا انعقاد ہوا، جس میں جناح کی جماعت نے مسلمانوں کے لیے مختص نشستوں میں سے بڑی تعداد جیت لی۔ اس کے بعد آل انڈیا کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ متحدہ ہندوستان میں اختیارات کے توازن کے لیے کسی صیغے پر متفق نا ہو سکے نتیجتاً تمام جماعتیں اس امر پر متفق ہوگئیں کہ ہندوستان کے دو حصے کیے جائیں جن میں ایک مسلم اکثریتی علاقوں میں پاکستان جبکہ باقی ماندہ علاقوں میں بھارت کا قیام ہو۔پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کے طور پر جناح نے اپنی حکومتی پالیسیوں کے قیام کے لیے کام کیا نیز انہوں نے ان لاکھوں لوگوں کے بہبود اور آباد کاری کے لیے بھی کام کیا جو تقسیم ہند کے بعد پاکستان کی جانب ہجرت کر چلے تھے، انہوں نے ان مہاجر کیمپوں کی ذاتی طور پر دیکھ بھال کی۔ جناح 71 سال کے عمر میں انتقال کر گئے جبکہ ان کے نوزائیدہ ملک کو سلطنت برطانیہ سے آزاد ہوئے محض ایک سال کا عرصہ ہوا تھا۔ ان کی سوانح عمری لکھنے والے لکھاری،اسٹینلی وولپرٹ لکھتے ہیں کہ، وہ (یعنی جناح) پاکستان کے عظیم ترین رہنما رہیں گے۔
میر تقی میر (پیدائش: 28 مئی 1723ء— وفات: 22 ستمبر 1810ء) اصل نام میر محمد تقى اردو كے عظیم شاعر تھے۔ میر ان کا تخلص تھا۔ اردو شاعرى ميں مير تقى مير كا مقام بہت اونچا ہے ـ انہیں ناقدین و شعرائے متاخرین نے خدائے سخن کے خطاب سے نوازا۔ وہ اپنے زمانے كے ايك منفرد شاعر تھےـ۔ آپ كے متعلق اردو كے عظیم الشان شاعرمرزا غالب نے لکھا ہے۔
ابراہیم علیہ السلام وہ پہلے پیغمبر تھے جن کو اللہ نے مُسلمان نبی پیغمبر ابو الانبیاء، خلیل اللہ امام الناس اور حنیف کہہ کر پُکارا۔اللہ تعالی نے اپنے اس دوست برگزیدہ اور پیارے نبی کو قرآن مجید میں امتہ (النحل : 120) امام الناس (البقرہ: 124) حنیف اور مسلم (آل عمران: 67) کے ناموں سے بار بار بار کیا ہے۔ اکثر انبیائے کرام انہی کی اولاد سے ہیں۔ابراہیم علیہ السلام کے نام کی وجہ تسمیہ کے بارے میں بائبل کا بیان ہے کہ خدا تعالی ان سے مخاطب ہو کر کہتا ہے۔ دیکھ میرا عہد تیرے ساتھ ہے اور تو بہت قوموں کا باپ ہو گا۔ اور تیرا نام ابرام نہیں بلکہ ابراہام ہو گا۔ کیونکہ میں نے تجھے قوموں کا باپ بنایا ہے۔ (پیدائش 170:5)اکثر ماہرین کے نزدیک ابراہام یا ابراہیم ؑ بھی لفظ ہے۔ ہو سکتا ہے کہ پہلے آپ کا نام ابراہم ہو اور پھر ابراہام یا ابو رہام ہو گیا ہو۔مُسلمان اُن کو خلیل اللہ (اللہ کا دوست) کہتے ہیں۔ ابراہیم کی نسل سے کئی پیغمبر پیدا ہوئے، جن کا تذکرہ عہدنامہ قدیم میں ہے۔ اسلام کی کتاب قرآن مجید میں بھی بہت سارے ایسے انبیا کا ذکر ہے جو ابراہیم کی نسل میں سے تھے۔ اسلام کے آخری نبی مُحمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی ابراہیم کی نسل میں سے ہیں۔شرک، ستارہ پرستی اور بت سازی کے خلاف اپنی قوم اور اوروں کے ساتھ ان کا مجادلہ و محاجہ بڑے زور سے پیش کیا گیا ہے۔ ابراہیم کا بچپن میں ہی رشد عطا کیا گیا اور قلب سلیم بھی عنایت فرمایا گیا۔ تکوینی عجائبات اور ملکوت السمٰوت والارض ان کے سامنے تھے۔ انہیں کے مشاہدے سے اُن کو یقین کامل حاصل ہوا۔ بت پرستی کے خلاف ابراہیم کے جہاد کا ذکر بھی قران کریم میں کئی بار آیا ہے۔قرآن حکیم میں حضرت ابراہیم ؑ اور آذر کے اختلاف عقائد کو جس طرح نمایاں کیا گیا ہے اور جس طرح آپ اپنی قوم کے شرک سے متنفر اور متصادم ہوئے۔ اس سے ہم آپ کی عظمت و جلالت کی حقیقت کو بھی پاسکتے ہیں۔ اور اپنے لیے شمع ہدایت بھی روشن کر سکتے ہیں۔ اس وجہ سے مسلمانوں کو ملت براہیمی ہونے پر فخر ہے۔ ان کے بارے میں یہ توکہیں وضاحت نہیں ہوئی کہ کیا وحی ان پر نازل ہوئی تھی یا ان کی بعثت محض روحانی تھی؟ البتہ قرآن مجید میں ایک جگہ اس امر کی تصدیق ہوئی ہے کہ اللہ تعالی آپ سے ہمکلام تھا۔ اہل تاریخ کے نزدیک متعدد صحیفے تھے جو ابراہیم پر نازل ہوئے۔ ایک صحیفہ جو ان کی طرف سے منسوب ہے یونانی سے انگریزی میں ترجمہ ہو کر شائع ہو چکا ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ کے دین کے بارے میں قرآن مجید میں کئی جگہ پر ارشار ہوتا ہے کہ آپ موحد مسلم اورراست رو تھے۔ ارشاد ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے: ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ”پھر ہم نے تیری طرف (حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی طرف) وحی کی کہ ابراہیم ؑ راست رو (مسلم) کے دین پر چل اور وہ مشرکوں میں سے نہیں تھا “ اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے: يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تُحَآجُّونَ فِي إِبْرَاهِيمَ وَمَا أُنزِلَتِ التَّورَاةُ وَالإنجِيلُ إِلاَّ مِن بَعْدِهِ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ هَاأَنتُمْ هَؤُلاء حَاجَجْتُمْ فِيمَا لَكُم بِهِ عِلمٌ فَلِمَ تُحَآجُّونَ فِيمَا لَيْسَ لَكُم بِهِ عِلْمٌ وَاللّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ مَا كَانَ إِبْرَاهِيمُ يَهُودِيًّا وَلاَ نَصْرَانِيًّا وَلَكِن كَانَ حَنِيفًا مُّسْلِمًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْرَاهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ وَهَـذَا النَّبِيُّ وَالَّذِينَ آمَنُواْ وَاللّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ ”اے اہل کتاب! تم ابراہیم ؑ کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو۔ حالانکہ توریت اور انجیل اس کے بعد ہی اتاری گئیں۔ پھر کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے۔ سنو!
معاشیات یا اقتصادیات (Economics) معاشرتی علوم (Social Sciences) کی ایک اہم شاخ ہے جس میں قلیل مادی وسائل و پیداوار کی تقسیم اور ان کی طلب و رسد کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ عربی اور فارسی میں رائج اصطلاح اقتصادیات اردو میں معاشیات کے مترادف کے طور پر بھی استعمال ہوتی رہی ہے۔ معاشیات کی ایک جامع تعریف جو روبنز (Lionel Robbins) نے دی تھی کچھ یوں ہے کہ 'معاشیات ایک ایسا علم ہے جس میں ہم انسانی رویہ کا مطالعہ کرتے ہیں جب اسے لامحدود خواہشات اور ان کے مقابلے میں محدود ذرائع کا سامنا کرنا پڑے۔ جبکہ ان محدود ذرائع کے متنوع استعمال ہوں'۔ معاشیات آج ایک جدید معاشرتی علم بن چکا ہے جس میں نہ صرف انسانی معاشی رویہ بلکہ مجموعی طور پر معاشرہ اور ممالک کے معاشی رویہ اور انسانی زندگی اور اس کی معاشی ترقی سے متعلق تمام امور کا احاطہ کیا جاتا ہے اور اس میں مستقبل کی منصوبہ بندی اور انسانی فلاح جیسے مضامین بھی شامل ہیں جن کا احاطہ پہلے نہیں کیا جاتا تھا۔ معاشیات سے بہت سے نئے مضامین جنم لے چکے ہیں جنہوں نے اب اپنی علاحدہ حیثیت اختیار کر لی ہے جیسے مالیات، تجارت اور انتظام۔ معاشیات کی بہت سی شاخیں ہیں مگر مجموعی طور پر انہیں جزیاتی معاشیات (Microeconomics) اور کلیاتی معاشیات (Macroeconomics) میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
یہ فلم مشہور سائنس فکشن فلم جس کی کہانی سائنسی ادیب، آرتھرسی کلار ک کی تحریر کردہ تھی۔ اس فلم میں مستند سائنسی اصول بھی برتے گئے۔ تاہم فلم کی خاصیت یہ ہے کہ اس میں پہلی بار ہال 9000نامی سپرکمپیوٹر متعارف کرایا گیا۔ یہی سپرکمپیوٹر ایک خلائی جہاز چلاتا اور دیگر متعلقہ کام انجام دیتا ہے۔ گو سائنس دان اب تک ہال 9000جیسا باشعور سپرکمپیوٹر نہیں بنا سکے، لیکن انتہائی ذہین کمپیوٹر ضرور تخلیق کرنے میں کامیاب رہے۔ مثلاً آئی بی ایم نے ’’ڈیپ بلیو‘‘ نامی سپرکمپیوٹر بنایا جس نے 1996ء میں شطرنج کے عالمی چیمپئن گیری کا سپروف کو کھیل میں شکست دے کر تہلکہ مچا دیا تھا۔
لوونی ٹونس (انگریزی: Looney Tunes) ایک امریکی متحرک مزاحیہ شارٹ فلم سیریز ہے جو وارنر بروس کے ذریعہ 1930 سے 1969 تک تیار کی گئی تھی۔ انھوں نے بگز بنی ، ڈفی ڈک ، پورکی پگ ، ایلمر فوڈ ، سلویسٹر ، ٹویٹی ، گرین ، یوسمائٹ سام ، تسمانیائی شیطان ، مارون دی مارٹین ، ولی ای کویوٹ ، روڈ رنر ، پیپے لی پیو ، فوگورن لیگورن ، اسپیڈی گونزلس اور بہت سے لوگوں کو متعارف کرایا۔ دوسرے کارٹون کردار بگ بنی میری میلوڈیز اور لوونی ٹونس کا بیکآکر بار بار چلنے والا اسٹار بننے کے بعد اور 1940 کی دہائی کے اوائل میں رنگین شکل میں تیار ہونے والی (میریری میلوڈیٹس کا رنگ پہلے ہی 1934 سے ہی رنگ میں تھا) کے بعد ، دونوں سیریز آہستہ آہستہ اپنے امتیاز کو کھو بیٹھیں اور شارٹس ہر سیریز کو تصادفی طور پر تفویض کیا گیا۔
وزن کی متروک اکائیاں (پاکستان)
وزن ناپنے کی پاکستان میں استعمال ہونے والی اکائیاں، جو اب متروک ہو چکی ہیں۔ ان اکائیوں اور ان کے اعشاریہ نظام میں برابر کا جدول دیا ہے۔پاکستان میں ناپ تول کا اعشاری نظام یکم جولائی 1974ء کو نافذ کیا گیا۔ پاکستان کے علاوہ ان اوزان کا استعمال برصغیر میں بھی ہوتا تھا اور اردو کتب میں ان کا ذکر ملتا ہے۔
ایک بند یا ڈیم اس رکاوٹ کو کہتے ہیں جو بہتے پانی یا زیر زمین پانی کو جمع کرنے لیے بنی ہو۔ عموماً ڈیموں کا بنیادی مقصد پانی کے بہاؤ کو روکنا ہوتا ہے، جبکہ اس میں کئی تعمیرات جیسے سیلابی دروازے اور پانی کے بہاؤ کو سست کرنے والی تعمیرات کا مقصد پانی کو اپنی مرضی سے استعمال میں لانا ہوتا ہے جیسے مختلف علاقوں میں نہری نظام کے تحت موڑنا وغیرہ۔ آبی طاقت کے آلات پانی کے منبع تلے استعمال کر کے ڈیموں میں بجلی بھی پیدا کی جا سکتی ہے۔ ایک ڈیم سے پیدا شدہ بجلی کئی لاکھ لوگوں کے زیر استعمال آ سکتی ہے۔ زراعت کے شعبے میں ڈیم کو اہمیت حاصل ہے۔
انٹرنیٹ (Internet) پر کسی ڈومین نیم (Domain name) کا آخری حصہ بلند ترین ڈومین نیم (top-level domain name ) کہلاتا ہے یہ وہ حروف ہیں جو آخری نقطہ اور اس کے بعد آنے والے حروف پر مشتمل ہوتے ہیں۔ یہ حروف کسی ڈومین نیم میں جال محیط العالم (World Wide Web) کے پتہ (address) کی قسم کی یا اس ملک کی نشان دہی کرتے ہیں جہاں وہ ویب صفحہ (web page) محفوظ ہوتا ہے۔ مثلاً pk. یا com.
کیتھرین الزبتھ ہڈسن (پیدائش اکتوبر 25، 1984) جو پیشہ ورانہ طور پر کیٹی پیری کے نام سے مشہور ہیں، ایک امریکی گلوکارہ، نغمہ نگار، اور ٹیلی ویژن مصنفہ ہیں۔ وہ 2010 کی دہائی میں اپنے جدت بھرے انداز کے لیے مشہور ہوئیں۔ سولہ سال کی عمر میں کیٹی نے موسیقی کے شعبہ کا انتخاب کیا، کیٹی پیری کا پہلا البم تجارتی لحاظ سے ناکام رہا۔ یہ البم کیٹی ہڈسن(2001)، ریڈ ہل ریکارڈز کے تحت جاری کیا گیا۔ وہ موسیقی میں قدم رکھنے کے لئے سترہ سال کی عمر میں لاس اینجلس چلی گئیں۔ پہلے البم کی ناکامی کے بعد انہوں نے "کیٹی پیری" کا نام اپنی والدہ کے پہلے نام کی مناسبت سے اختیار کیا اور اس نام نے انہیں اوج کمال تک پہنچا دیا۔ پروڈیوسر گلین بالارڈ اور گریگ ویلز کے ساتھ، انہوں نے جاوا ریکارڈز اور پھر کولمبیا ریکارڈز کے ساتھ ایک البم ریکارڈ کیا جو منظر عام پر نہ آ سکا۔ اس کے بعد انہوں نے اپریل 2007 میں کیپیٹل ریکارڈز کے ساتھ ریکارڈنگ کا معاہدہ کیا۔
سلمان فارسی (فارسی : روزبه پارسی، عربی : سلمان الفارسی ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مشہور اصحاب میں سے تھے۔ ابتدائی طور پر ان کا تعلق زرتشتی مذ ہب سے تھا مگر حق کی تلاش ان کو اسلام کے دامن تک لے آئی۔ آپ کئی زبانیں جانتے تھے اور مختلف مذاہب کا علم رکھتے تھے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بارے میں مختلف مذاہب کی پیشینگوئیوں کی وجہ سے وہ اس انتظار میں تھے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ظہور ہو اور وہ حق کو اختیار کر سکیں۔
باغ و بہار میر امن دہلوی کی تصنیف کردہ ایک داستان ہے جو اُنھوں نے فورٹ ولیم کالج میں جان گلکرسٹ کی فرمائش پر لکھی۔ عام خیال ہے کہ باغ و بہار کو میر امن نے امیر خسرو کی فارسی داستان قصہ چہار درویش سے اردو میں ترجمہ کیا ہے لیکن یہ خیال پایہ استناد کو نہیں پہنچتا۔ حافظ محمود شیرانی نے تحقیق سے یہ ثابت کیا ہے کہ اس قصے کا امیر خسرو سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں ان کے مطابق یہ قصہ محمد علی معصوم کی تصنیف ہےباغ و بہار فورٹ ولیم کالج کی دین ہے جو انگریزوں کو مقامی زبانوں سے آشنا کرنے کے لیے قائم کیا گیا تھا اور یہیں میر امن نے باغ و بہار کو جان گل کرائسٹ کی فرمائش پر میر حسین عطا تحسین کی نو طرز مرصع سے استفادہ کرکے تصنیف کیا۔ اس طرح یہ داستان اردو نثر میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے اور اسے بجا طور پر جدید اردو نثر کا پہلا صحیفہ قرار دیا گیا ہے۔ اس داستان کی اشاعت کے بعد اردو نثر میں پہلی مرتبہ سلیس زبان اور آسان عبارت آرائی کا رواج ہوا اور آگے چل کر غالب کی نثر نے اسے کمال تک پہنچا دیا۔ اسی بنا پر مولوی عبدالحق کا کہنا ہے کہ اردو نثر کی ان چند کتابوں میں باغ و بہار کو شمار کیا جاتا ہے جو ہمیشہ زندہ رہنے والی ہیں اور شوق سے پڑھی جائیں گی۔ بقول سید محمد، "میر امن نے باغ و بہار میں ایسی سحر کاری کی ہے کہ جب تک اردو زبان زندہ ہے مقبول رہے گی اور اس کی قدر و قیمت میں مرورِ ایام کے ساتھ کوئی کمی نہ ہوگی۔" نیز سید وقار عظیم کے الفاظ میں "داستانوں میں جو قبول عام باغ و بہار کے حصے میں آیا ہے وہ اردو کی کسی اور داستان کو نصیب نہیں ہوا"۔
حرف (Letter) سے مراد قواعد میں ابجدیہ (Alphabets) کے کسی ایک رکن کی ہوتی ہے۔ وہ لفظ ہے جو تنہا اپنے پورے معانی نہ دے بلکہ اسموں، فعلوں یا دو جملوں کے ساتھ مل کر اپنے پورے معنی ظاہر کرے۔ حرف کے کام دو اسموں کو ملانا دو فعلوں کو ملانا، دو چھوٹے جملوں کو ملا کر ایک جملہ بنانا، اسموں اور فعلوں کا ایک دوسرے سے تعلق ظاہر کرنا ہے۔ استعمال کے لحاظ سے حروف کو چار بڑے گروہوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ 1۔ وہ حروف جو اسموں اور فعلوں کے باہمی تعلق کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ مثلاً کا، کے، کی، کو وغیرہ 2۔ وہ حروف جو تخصیص کا کام دیتے ہیں۔ مثلاً ہی، ہر، ایک، صرف، فقط، بس وغیرہ 3۔ وہ حرف جو دو اسموں، دو فعلوں اور جملوں کو ملاتے ہیں۔ مثلاً اور، پھر کہ وغیرہ۔ 4۔ وہ حروف جو جملوں کو ملاتے ہیں مثلاً ارے، ہاں اور ہائے، اف، اخاہ، تف، الامان وغیرہ۔ یا حرف اس کلمہ کو کہتے ہیں جو نہ کسی چیز کا نام ہو، نہ کسی شخص کا نام ہو، نہ کسی جگہ کا نام ہو، نہ اس سے کوئی کام ظاہرہو اور نہ ہی یہ الگ سے اپنا کوئی معنی رکھتا ہو بلکہ یہ مختلف اسموں اور فعلوں کو آاپس میں ملانے کا کام دیتا ہو۔ جیسے اسلم اور تنویر آئے میں ”اور“ حرف ہے جو دو اسموں کو آپس میں ملا رہا ہے۔ اسی طرح منیر مسجد تک گیا کے جملے میں ”تک“ حرف ہے جو ایک اسم کو فعل سے ملا رہا ہے۔ حروف کی اقسام حروف کی درج ذیل اقسام ہیں 1۔ حروف جار 2۔ حروف عطف 3۔ حروف شرط 4۔ حروف ندا 5۔ حروف تاسف 6۔ حروف تشبیہ 7۔ حروف اضافت 8۔ حروف استفہام 9۔ حروف تحسین 10۔ حروف نفرین 11۔ حروف علت 12۔ حروف بیان 1۔ حروف جار حروف جار وہ حروف ہوتے ہیں جو کسی اسم کو فعل کے ساتھ ملاتے ہیں۔ جیسے کاغذ اور پنسل میز پر رکھ دو اس جملے میں ”پر“ حرف جار ہے، اردو کے حروف جار اردو کے مشہور حروف جار مندرجہ ذیل ہیں۔ کا، کے، کی، کو، تک، پر، سے، تلک، اوپر، نیچے، پہ، درمیان میں ساتھ، اندر باہر وغیرہ 2۔ حروف عطف حروف عطف وہ حروف ہوتے ہیں جو دو اسموں یا دو جملوں کو آپس میں ملانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ جیسے قلم اور دوات میز پر رکھ دو، حنا کھانا کھا کر اسکول گئی۔ ان جملوں میں ”اور“ اور ”کر“ حروف عطف ہیں۔ اردو کے حروف عطف اور، و، نیز، پھر، بھی وغیرہ حروف عطف ہیں۔ 3۔ حروف شرط حروف شرط وہ حروف ہوتے ہیں جو شرط کے موقع پر بولے جاتے ہیں۔ مثلا اگر وہ تیز چلتا تو وقت پر پہنچ جاتا اس جملے میں ”اگر“ حرف شرط ہے۔ اردوکے حروف شرط اردو کے حروف شرط مندرجہ ذیل ہیں۔ اگرچہ، اگر، گر۔ جوں جوں، جوں ہی، جب، جب تک، تاوقتیکہ وغیرہ 4۔ حروف ندا ایسے حروف جو کسی اسم کو پکارنے کے لیے استعمال ہوں ن حروف ندا کہلاتے ہیں۔ جیسے ارے بھائی! جب تک محنت نہیں کرو گے کامیاب نہیں ہوسکو گے۔ اس جملے میں ”ارے“ حرف ندا ہے۔ اردو کے حروف ندا اردو کے حروف ندا مندرجہ ذیل ہیں۔ ارے، ابے، او، اچی وغیرہ 5۔ حروف تاسف حروف تاسف وہ حروف ہوتے ہیں جو افسوس اور تاسف کے موقع پر بولے جاتے ہیں۔ مثلاً افسوس انسان غفلت کا شکار ہو گیاہے اس جملے میں افسوس حرف تاسف ہے۔ اردو کے حروف تاسف افسوس، صد افسوس، ہائے، ہائے، ہائے، وائے، اُف، افوہ، حسرتا، واحسراتا وغیرہ 6۔ حروف تشبیہ ایسے حروف جو ایک چیز کو دوسری چیز کی مانند قرار دینے کے لیے استعمال ہوں حروف تشبیہ کہلاتے ہیں جیسے شیر کی مانند بہادر، موتی جیسے دانت، برف کی طرح ٹھنڈا اِن جملوں میں مانند، جیسے، طرح حروف تشبیہ ہیں۔ اردو کے حروف تشبیہ مثل، مانند، طرح، جیسا، سا، جوں، ہوبہو، عین بین، بعینہ وغیرہ 7۔ حروف اضافت حروف اضافت وہ حروف ہوتے ہیں جو صرف اسموں کے باہمی تعلق یا لگائو کو ظاہر کرتے ہیں۔ مضاف، مضاف الیہ اور حرف اضافت کے ملنے سے مرکب اضافی بنتا ہے۔ مثلاً اسلم کا بھائی، حنا کی کتاب، باغ کے پھول وغیرہ اِن جملوں میں کا، کیی، کے حروف اضافت ہیں۔ 8۔ حروف استفہام حروف استفہام اُن حروف کو کہتے ہیں جو کچھ پوچھنے یا سوال کرنے کے موقع پر بولے جاتے ہیں۔ مثلاً احمد تم کب بازار جائو گے؟ اس جملے میں کب حرف استفہام ہے۔ اس جملے میں کب حرف استفہام ہے۔ اردو کے حروف استفہام کیا، کب، کون، کیوں، کہاں، کس کا، کس کو، کس کے، کیسا، کیسے، کیسی، کتنا، کتنی، کتنے، کیونکہ، کس لیے، وغیرہ۔ 9۔ حروف تحسین حروف تحسین وہ حروف ہوتے ہیں جو کسی چیز کی تعریف کے موقع پر بولے جاتے ہیں جیسے سبحان اللہ! کتنا پیارا موسم ہے۔ اس جملے میں سبحان اللہ حرف تحسین ہے۔ اردو کے حروف تحسین مرحبا، سبحان اللہ، شاباش، آفرین، خوب، بہت خوب، بہت اچھا، واہ واہ، اللہ اللہ، ماشاءاللہ، جزاک اللہ، آہا، وغیرہ حروف تحسین ہیں۔ اِن حروف کو حروف انبساط بھی کہتے ہیں انبساط کے معنی خوشی یا مسرت کے ہیں۔ 10۔ حروف نفرین حروف نفرین ایسے حروف ہوتے ہیں جو نفرت یا ملامت کے لیے بولے جاتے ہیں جیسے جھوٹوں پر اللہ کی ہزار لعنت اس جملے میں ہزار لعنت حرف نفرین ہے۔ اردو کے حروف نفرین لعنت، ہزار لعنت، تف، پھٹکار ہے، اخ تھو، چھی چھی وغیرہ حروف نفرین ہیں۔ 11۔ حروف علت یہ حروف ہیں جو کسی وجہ یا سبب کو ظاہر کریں جیسے کیونکہ، اس لیے، بریں سبب، بنا بریں، لہذا، پس، تاکہ، بایں وجہ، چونکہ، چنانچہ وغیرہ 12۔ حروف بیان ایسے حروف جو کسی وضاحت کے لیے استعمال کیے جائیں حروف بیان کہلاتے ہیں جیسے استاد نے شاگرد سے کہا کہ سبق پڑھو اس جملے میں کہ حرف بیان ہے۔ اضافہ: حرف: وہ کلمہ جو نہ فعل ہو نہ اسم اور نہ کسی مصدر سے مُشتق ہو بلکہ دو لفظوں کو آپس میں ملاتا ہو گویا الفاظ میں ربط اور تعلق پیدا کرتا ہو۔ جس سے مطلب سمجھنا آسان ہو جاتا ہے۔ جیسے کا۔ کی۔ کو۔ سے ۔ میں۔نے۔ پر .وغیرہ۔ یا حروف (حرف) وہ خاص حروف(الفاظ) ہیں جو جملے کے اجزاء کو باہم ملاتے اور جملے کے مطلب کا سمجھنا آسان کرتے ہیں، ان حروف کے استعمال کےبغیر جملوں یا الفاظ کا مطلب سمجھ نہیں آسکتا۔ جیسے کھانا میز لگا دو۔ کتاب بستہ ہے۔ میز نیچے جوتے پڑے ہیں۔ مجھے آپ مل خوشی ہوئی۔ ان جملوں میں پر، میں، کے ، سے ، کر لگانے سے جملے بامعنی اور آسان فہم ہو جاتے ہیں۔ کھانا میز پر لگا دو۔ کتاب بستے میں ہے۔ میز کے نیچے جوتے پڑے ہیں۔ مجھے آپ سے مل کر خوشی ہوئی۔ پر، میں، کے ، سے ، کر حروف کہلاتے ہیں ۔ حروف کی درج ذیل اقسام ہیں؛ 1۔ حروفِ ربط: یہ حروف ایک لفظ(اسم) کا تعلق دوسرے لفظ(فاعل یا مفعول ) سے ظاہر کرتے ہیں۔ جیسے کا، کی، کو، نے۔سے اسلم کو کھانا دے دو۔ وہ علی کی کتاب ہے۔ بابر نے علی کو سلام کیا۔ ان جملوں میں ”کو، کی اور نے“ حروف ربط ہیں۔ حروف ربط کی 4 معروف صورتیں یہ ہیں؛ 1۔ حالت فاعلی: ”نے“ فاعل کے ساتھ استعمال ہوتا ہے۔ جیسے علی نے پانی پیا۔ اکبر نے کتاب پڑھی۔ (نے کا استعمال صرف فعل ماضی میں ہوتا ہے۔) 2۔ حالتِ مفعولی: ”کو“ مفعول کے ساتھ استعمال ہوتا ہے۔ جیسے نوکر کو بلاؤ۔ علی کو کتاب دو۔ (بعض اوقات کو کی جگہ ”کے“ کا حرف استعمال ہوتا ہے۔ جیسے ماں نے بچے کے کاجل لگایا۔) 3۔حالتِ اضافی: ”کا، کی، کے“ دو اسموں کے تعلق کو ظاہر کرتے ہیں۔ جیسے علی کی کتاب، آپ کا کمرہ، درخت کی جڑ۔ (ان کا استعمال فعل سے ماوراء ہوتا ہے۔) 4۔ حالتِ طوری: ”سے“ اسم کے ساتھ استعمال ہوتا ہے۔ جیسے آپ کہاں سے آئے؟ تم علی سے بات کر لو۔ وہ مجھ سے کیا چاہتے ہیں؟ وہ کل سے بیمار ہے۔ (بعض اوقات بطور علامت مفعول بھی استعمال ہوتا ہے) 2۔ حروفِ جار: وہ حرف جو کسی اسم کو فعل سے ملاتے ہوں۔ جیسے کھانا میز پر لگا دو۔ کتاب بستے میں ہے۔ ان جملوں میں "پر" اور "میں" حروف جار ہیں۔ (کا۔ کی ۔ کے۔ کو۔ پر ۔ سے۔ تک۔ میں۔ تلک۔ سے۔اوپر۔ پہ۔ نیچے۔ درمیان۔ ساتھ۔ اندر۔ باہر حروف جارہیں) 3۔حروف ِعطف: یہ حروف 2 اسموں یا جملوں کو ملانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ مثلاً کھانا کھا کر مجھے خط سنا دو۔ کتاب اور اخبار لے آؤ۔ ان جملوں میں"کر" اور "اور" حروف عطف ہیں۔ (اور۔ و۔ نیز۔ بھی۔ کر۔ پھر حروف عطف ہیں) 4۔ حروف ِشرط: یہ حروف کسی شرط کے لیے بولے جاتے ہیں۔ جیسے اگرتم محنت کرتے تو پاس ہو جاتے۔ اس جملے میں "اگر" حرفِ شرط ہے۔ (اگر۔ گر۔ اگرچہ۔ جب۔ جب تک۔ تاوقتیکہ۔ جو ں جوں۔ جونہی حروفِ شرط ہیں) 5۔ حروف ِندا: یہ حروف کسی کو پکارنے یا آواز دینے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ جیسے اجی!
بنگلہ دیش(سابق مشرقی پاکستان) ((بنگالی: বাংলাদেশ)) جنوبی ایشیا کا ایک ملک ہے۔ میانمار کے ساتھ مختصر سی سرحد کے علاوہ یہ تین اطراف سے بھارت سے ملا ہوا ہے۔14 اگست 1947ء سے لے کر 1971ء تک یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا حصہ رہا ہے اب جنوب میں اس کی سرحدیں خلیج بنگال سے ملتی ہیں۔ بھارت کی ریاست کو ملاکر بنگالی اسے اپنا نسلی وطن کہتے ہیں۔ بنگلہ دیش کا مطلب ہے "بنگال کا ملک"۔
نظریہ کمپیوٹیشن یا نظریہ شمارندگی (انگریزی: Theory of Computation) ریاضیات اور کمپیوٹر سائنس کی ایک شاخ ہے جو یہ معاملہ دیکھتی ہے کہ مسائل کو شمارندگی کی تمثیل میں، الخوارزم کے استعمال سے، کتنی اہلیت سے حل کیا جا سکتا ہے۔ اس میدان کو دو شاخوں میں تقسیم کیا جاتا ہے: نظریہ شمارندیت اور نظریہ پیچیدگی، مگر دونوں شاخیں شمارندگی کے رسمی تمثیل سے معاملہ کرتی ہیں۔
فورٹ ولیم کالج کا قیام اردو ادب کی تاریخ میں ایک اہم واقعہ ہے۔ اردو نثر کی تاریخ میں خصوصاً یہ کالج سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگرچہ کالج انگریزوں کی سیاسی مصلحتوں کے تحت عمل میں آیا تھا۔ تاہم اس کالج نے اردو زبان کے نثری ادب کی ترقی کے لیے نئی راہیں کھول دیں تھیں۔ سر زمین پاک و ہند میں فورٹ ولیم کالج مغربی طرز کا پہلا تعلیمی ادارہ تھا جو لارڈ ولزلی کے حکم پر 1800ءمیں قائم کیا گیاتھا۔
عالمی ادارہ مزدوری سماجی تحفظ کی تعریف سماج کی جانب سے اپنے ارکان کو فراہم کرد ہ تحفظ کے طور پر کرتا ہے جو کئی عوامی اقدامات کی شکل میں اٹھائے جا سکتے ہیں جن کا مقصد معاشی اور سماجی دباؤ سے اوپر اٹھنا ہے جو بصورت دیگر آمدنی کی رکاوٹ یا کمی سے ہو سکتا ہے۔ اس کی وجہ بیماری، زچگی، طویل العمری اور موت ہو سکتی ہے؛ طبی دیکھ ریکھ، خاندانوں اور بچوں کی ضروریات کے خرچ میں تخفیف اس کے تدارک کا حصہ ہے۔
سانحۂ کربلا یا واقعہ کربلا یا کربلا کی جنگ 10 محرم 61ھ (بمطابق 9 یا 10 اکتوبر، 680ء) کو موجودہ عراق میں کربلا کے مقام پر پیش آیا۔ یہ جنگ نواسہ رسول حضرت امام حسین ابن علی، ان کے حامیوں اور رشتہ داروں کے ایک چھوٹے سے گروہ، حسین ابن علیؓ کے ساتھ 72 ساتھی، کچھ غلام، 22 اہل بیت کے جوان اور خاندان نبوی کی کچھ خواتین و بچے شامل تھے اور اموی ظالم حکمران یزید اول کی ایک بڑی فوج کے مابین ہوئی۔جس کو حسین نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔جس میں اموی خلیفہ یزید اول کی فوج نے پیغمبر اسلام محمد کے نواسے حسین ابن علی اور ان کے رفقا کو لڑائی میں شہید کیا، حرم حسین کے خیموں کو لوٹ لیا گیا اور بالآخر آگ لگا دی گئی۔ عمر بن سعد کی فوج نے کربلا کے صحرا میں مقتولین کی لاشیں چھوڑ دیں۔ بنی اسد کے لوگوں نے لاشوں کو تین دن بعد دفن کیا۔ واقعہ کربلا کے بعد، حسین ابن علی کی فوج سے وابستہ متعدد خواتین اور بچوں کو گرفتار کر کے قید کر دیا گیا، بازار اور ہجوم والے مقامات سے گزر کر ان کی توہین کی گئی اور انہیں یزید ابن معاویہ کے دربار شام بھیج دیا گیا تھا۔ جنگ میں شہادت کے بعد حضرت امام حسین کو سید الشہدا کے لقب سے پکارا جاتا ہے۔
شاعری (Poetry) کا مادہ "شعر" ہے، اس کے معانی کسی چیز کے جاننے پہچاننے اور واقفیت کے ہیں لیکن اصطلاحاً شعر اس کلامِ موزوں کو کہتے ہیں جو قصداً کہا جائے۔ یہ کلام موزوں جذبات اور احساسات کے تابع ہوتا ہے اور کسی واقعہ کی طرف جاننے کا اشارہ کرتا ہے۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ آپ نے کوئی حادثہ دیکھا ہو اور وہ آپ کے دل پر اثر کر گیا ہو اور آپ کے اندر سے خود بہ خود الفاظ کی صورت میں ادا ہو جائے، اس اثر کے بیان کو شعر کہتے ہیں اور انہیں شعروں کو شاعری کے نام سے جانا جاتا ہے۔دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ شاعری الفاظ کا وہ استعمال ہے، جس میں ایک طرف معانی کی وسعت ذہن کو تسخیر کرے تو دوسری جانب نغمگی کی تاثیر دل کو جکڑ لے۔ گویا ایک اچھا شعر بشر کے پورے وجود کا تجربہ ہے۔
اسلام ایک توحیدی مذہب ہے جو اللہ کی طرف سے آخری رسول و نبی، محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ذریعے انسانوں تک پہنچائی گئی آخری الہامی کتاب (قرآن مجيد) کی تعلیمات پر قائم ہے۔ یعنی دنیاوی اعتبار سے بھی اور دینی اعتبار سے بھی اسلام (اور مسلم نظریے کے مطابق گذشتہ ادیان کی اصلاح) کا آغاز، 610ء تا 632ء تک 23 سال پر محیط عرصے میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اللہ کی طرف سے اترنے والے الہام (قرآن) سے ہوتا ہے۔ قرآن عربی زبان میں نازل ہوا (برائے وجہ : اللسان القرآن) اور اسی زبان میں دنیا کی کل آبادی کا کوئی 24% حصہ یعنی لگ بھگ 1.6 تا 1.8 ارب افراد اس کو پڑھتے ہیں ؛ ان میں (مختلف ذرائع کے مطابق) قریباً 20 تا 30 کروڑ ہی وہ ہیں جن کی مادری زبان عربی ہے جبکہ 70 تا 80 کروڑ، غیر عرب یا عجمی ہیں جن کی مادری زبان عربی کے سوا کوئی اور ہوتی ہے۔ متعدد شخصی ماخذ سے اپنی موجودہ شکل میں آنے والی دیگر الہامی کتابوں کے برعکس، بوسیلۂ وحی، فردِ واحد (محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے منہ سے ادا ہوکر لکھی جانے والی کتاب اور اس کتاب پر عمل پیرا ہونے کی راہنمائی فراہم کرنے والی شریعت ہی دو ایسے وسائل ہیں جن کو اسلام کی معلومات کا منبع قرار دیا جاتا ہے۔
خاموش فلم سے مراد ایسی فلم ہے جس میں مناظر کے ساتھ ریکارڈ شدہ آواز، بالخصوص بولا جانے والا کوئی مکالمہ شامل نہ ہو۔ خاموش فلموں میں مکالمے پیش کرنے کے لیے خاموش تاثرات، اشارے اور ٹائٹل کارڈ استعمال کیے جاتے ہیں۔ متحرک تصاویر کے ساتھ آوازیں ریکارڈ کرنے کا تصور اگرچہ فلم جتنا قدیم ہی ہے، لیکن تکنیکی مشکلات کے باعث متحرک تصاویر کے ساتھ ہم آہنگ مکالمے 1920 کی دہائی کے اواخر ہی میں ممکن ہو سکے، جب آڈیو ایمپلی فائر ٹیوب اور وائٹافون سسٹم سامنے آئے۔ (اسی لیے خاموش فلم کی اصطلاح نئی ہے، چوں کہ اسے ماضی کی فلموں سے ممتاز کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ 1920 کی دہائی کے اواخر سے پہلے فلموں کے ساتھ ’’خاموش‘‘ کا سابقہ لگانا غیر ضروری ہوتا تھا۔) 1927 میں نمائش کے لیے پیش ہونے والی فلم دا جاز سنگر ایسی پہلی فلم تھی جس میں متحرک مناظر کے ساتھ ہم آہنگ مکالمے اور آوازیں بھی شامل تھیں۔ چناں چہ ایسی فلموں کو ’’ٹالکیز‘‘ (بولنے والی) فلمیں کہا جانے لگا۔ جلد ہی یہ فلمیں مقبول اور عام ہوتی چلی گئیں۔ صرف ایک دہائی کے عرصے میں، خاموش فلموں کی وسیع صنعت اپنے انجام کو پہنچ گئی اور آوازوں کا زمانہ شروع ہو گیا۔
حسین بن علی بن ابی طالب ( عربی: ٱلْحُسَيْن ٱبْن عَلِيّ 10 جنوری 626 - 10 اکتوبر 680) محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نواسے اور علی ابن ابی طالب اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی فاطمہ زہرا کے بیٹے تھے۔ وہ اسلام میں ایک اہم شخصیت ہیں کیوںکہ وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ( اہل بیت ) اور اہل کسا کے علاوہ تیسرے شیعہ امام بھی ہیں۔